جماعت احمدیہ کے خلاف بعض ملکوں میں مخالفت کی رو اور دعاؤں کی تحریک
خطبہ جمعہ 27؍ اکتوبر 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
آجکل جماعت احمدیہ کے خلاف بعض ملکوں میں مخالفت کی رو چلی ہوئی ہے۔ پہلے توصرف ان ممالک میں مخالفت ہوتی تھی جہاں اسلامی حکومتیں ہیں یا اسلامی ممالک ہیں لیکن اب ان میں سری لنکا اور بلغاریہ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ جس ملک میں بھی مسلمانوں کی تعداد کچھ اچھی ہو اور وہ ملک ترقی یافتہ نہ ہو وہاں عموماً یہ دیکھا گیاہے کہ احمدیت کی مخالفت ضرور ہوتی ہے۔ بعض مسلمان ممالک جن کے پاس تیل کی دولت ہے وہ اس بات کو کارثواب سمجھتے ہیں کہ جہاں بھی احمدیت کا اثر قائم ہو رہا ہے وہاں ضرور مخالفت کی جائے اور ان کو اس کام کے لئے نام نہاد علماء یا مُلّاں مل جاتے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف اپنا اثر قائم کرنا اور دنیا کی دولت کمانا ہوتا ہے۔ پھر غریب حکومتیں ان کی بعض امدادوں کی وجہ سے جماعت کی مخالفت کرتی ہیں۔ افریقہ میں بھی مثلاًگنی کراکری ہے اور بعض دوسرے ممالک ہیں جہاں جماعت کی رجسٹریشن کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ بعض مسلمان حکومتیں جو ان کو مدد دیتی ہیں پسند نہیں کرتیں اور یہ اپنی امداد کے متاثر ہونے کی وجہ سے جماعت کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ان حکومتوں کو، ان دنیا داروں کو جن کا کل دائرہ صرف دنیاوی اسباب کے اندر ہے یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دینا چاہے یہ لوگ جتنا چاہیں زور لگا لیں اس کو ہدایت سے نہیں روک سکتے۔ یہ خدا تعالیٰ کا اعلان ہے اور اگر ان میں ہمت ہے تو خدا سے لڑکر دکھائیں۔ جماعت کے افراد کو تنگ کرنا، مارکٹائی کرنا حتّٰی کہ جان تک لینے سے بھی دریغ نہ کرنا ان کے خیال میں جماعت کو کمزور کر دے گا، لوگوں میں خوف پیدا کر دے گا۔ ان عقل کے اندھوں کو جو مسلمان کہلانے کا دعویٰ کر تے ہیں اپنی تاریخ پڑھ کر اور اس تعلیم کو دیکھ کر جو خدا تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری، جو یہ بتاتی ہے کہ مومن ابتلاؤں اور امتحان سے گھبرایا نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں مرنے والے مرتے نہیں بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پانے والے ہیں۔ ان لوگوں کو پھر بھی عقل نہیں آتی کہ مخالفت میں اندھے ہوئے ہوئے ہیں ان کی ہر مخالفت کے بعد اور ان کے ہر احمدی کو شہید کرنے کے بعد احمدیت کا قدم پہلے سے کہیں آگے چلا جاتاہے۔ ترقی کی رفتار اس جگہ پر پہلے سے کہیں بڑھ جاتی ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کا ثبوت ہے یا جھوٹے ہونے کا؟لیکن جن کی آنکھوں پر پردہ پڑجائے، جن کے مقدر میں گمراہی لکھی گئی ہو ان کی آنکھوں پر پردے پڑے رہیں گے۔ یہ نام نہاد علماء اور لیڈر جو اپنی دکان چمکانا چاہتے ہیں خود بھی گمراہی کے گڑھے میں گرنے والے ہیں اور قوم کو بھی اسی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پس جو بھی مسلمان کہلانے والے ہیں ان کو خود ہوش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہر جان نے اپنا بوجھ آپ اٹھانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں عقل دی ہے، جب اللہ تعالیٰ کے واضح ارشادات موجود ہوں، زمانے کے امام کے آنے کی تمام نشانیاں پوری ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہوں تو تم ان علماء کے پیچھے چلنے کی بجائے عقل کے ناخن لیتے ہو ئے اور خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، اس سے اس کی مدد مانگتے ہوئے اللہ اور اُس کے رسول نے جو کہا تھا اور جو دو اور دو چار کی طرح واضح ہے اس پر عمل کرو۔ جولوگ عقل رکھتے ہیں اور ان علماء کے پیچھے چلنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی راہنمائی کرتا ہے اور روزانہ ایسی بیعتیں آتی ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے خوابوں کے ذریعہ راہنمائی کی ہے یا انہوں نے کسی اتفاقی حادثے کی وجہ سے احمدیت کے حق میں کوئی نشان پورا ہوتے دیکھ لیا ہے۔ پس جب تک دلوں کو صاف کر کے فکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے نہیں جھکیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی پھر ایسے دلوں کو پاک نہیں کرتا۔ پس احمدیت کی مخالفت میں زیادہ بڑھنے کی بجائے اپنی عاقبت کی فکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے۔
مُلاّں اور معاشرے سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ جواب کام نہیں آئے گا کہ مَیں مُلّاں اور معاشرے کے ڈر کی وجہ سے احمدیت کو قبول نہیں کر سکا۔ بہرحال مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ آجکل بعض جگہ احمدیت کی مخالفت کی رو کچھ زیادہ ہے، اس میں تیزی آرہی ہے اور ہو سکتاہے کچھ اور ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آئیں۔ اس مخالفت کی آگ کوہوا دینے کے لئے ہر شریر گروہ کو پاکستانی مُلّاں ملا ہوا ہے، جس سے یہ ٹریننگ لیتے ہیں یا یہ مُلّاں خود وہاں چلا جاتاہے اور فضا کو خراب کرتاہے تاکہ احمدیوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی پیدا کی جائے اور جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں، ان کے زعم میں احمدیت کو ختم کرنے کی کوششیں ہیں۔ لیکن ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس مخالفت کی وجہ سے جو احمدیت کے خلاف محاذ کھڑا کرکے یہ کرتے ہیں اس مخالفت نے ہمیشہ احمدیت کیلئے کھاد کا کام کیا ہے اور ہم پہلے سے بڑھ کر احمدیت کی ترقی کے نظارے وہاں دیکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہم مخالفین اور مُلّاں کے شکرگزار بھی ہیں کہ وہ ہمارے راستے صاف کرتے رہتے ہیں، جن لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف نہیں ہوتی وہ بھی احمدیت کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ دیکھیں یہ کیا چیز ہے جس کے خلاف مُلّاں اتنا بھرا بیٹھا ہے اور ایک صاف دل انسان جب ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو کر احمدیت کو قریب سے دیکھتا ہے تو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا حُسن اسے جماعت احمدیہ میں ہی نظر آتا ہے اور اُس کیلئے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ ایک خوشبو دار اور شیریں پھل کی طرح احمدیت کی آغوش میں گر پڑے۔
پس ان ابتلاؤں سے احمدیوں کو گھبرانا نہیں چاہئے۔ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی وجہ سے مسیح محمدی کی قوت قدسیہ دیکھیں کہ دنیا کے ہر کونے میں احمدی اپنی جان، مال اور وقت کی قربانی کیلئے ہروقت تیار کھڑا ہے۔ چاہے وہ ایشیا ہے یا امریکہ ہے یا افریقہ ہے، مشرق بعید ہے یا جزائر ہیں۔ ہر جگہ احمدیت کی خاطر قربانی دینے والے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور یہ نظارے ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس مخالفت کے بعد ہر جگہ پرجماعت احمدیہ نے ترقی کی ہے۔
1974ء میں ان لوگوں نے پاکستان میں جماعت کے خلاف کیا کچھ کرنے کی کوششیں نہیں کیں لیکن کیا جماعت کی ترقی رک گئی؟ پھر اس فرعون سے بھی بڑا فرعون آیا اُس نے کہا پہلا تو بے وقوف تھا، صحیح داؤ استعمال کرکے نہیں گیا۔ کچھ کمیاں، خامیاں، سقم چھوڑ گیا ہے، مَیں اس طرح انہیں پکڑوں گا کہ احمدیوں کے خلیفہ سمیت تمام جماعت توبہ کرتے ہوئے میرے قدموں میں گر پڑے گی، اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ توکیا اس کی خواہش پوری ہو گئی؟ خواہش پوری ہونے کا کیا سوال ہے، احمدیوں نے عشق رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں سرشار ہو تے ہوئے اس کلمہ کی حفاظت میں جس کو دشمن نے ہم سے چھیننا چاہا تھا پاکستانی جیلوں کو بھر دیا مگر کلمہ اپنے سینے سے نہیں اتارا۔ کیا اس نظارے نے غیروں کے دل نرم کرتے ہوئے غیروں کو احمدیت کی طرف مائل نہیں کیا؟ کئی سعید فطرت مائل ہوئے اور کئی سعید روحیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آ گئیں۔ اور ان فرعونوں کا کیا حال ہوا؟ ایک فرعون کو اس کے اپنے ہی پروردہ نے پھانسی پر چڑھا دیا اور دوسرے کو اللہ تعالیٰ نے خدا کے بندے اور اس کی جماعت کی دعاؤں کو سنتے ہوئے ہوا میں اڑا دیا۔ یہ ہے احمدیت کا خدا جس کا ادراک ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ِصادق نے آج کرو ایا ہے، جس کے اس وعدے کو ہم نے ہرآن پورے ہوتے دیکھا ہے کہ مَیں اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہوں۔ آج بھی وہی خدا جماعت احمدیہ کی حفاظت کے لئے کھڑا ہے۔ آج بھی وہ اپنے بندے اور اپنے مسیح کی جماعت کی دعاؤں کو سنتا ہے۔ آج بھی تم ایسے نظارے دیکھو گے کہ جو دشمن ان دعاؤں کی لپیٹ میں آئے گا اس کے ٹکڑے ہوا میں بکھرتے چلے جائیں گے۔ اگر حکومتیں کھڑی ہوں گی تو وہ بکھر جائیں گی، اگر تنظیمیں کھڑی ہوں گی تو وہ پارہ پارہ ہو جائیں گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ بعض دفعہ الٰہی جماعتوں کوامتحانوں میں سے گزرنا پڑتاہے۔ ہر احمدی کا کام ہے کہ دعائیں کرتے ہوئے نہایت صبر و استقلال کے ساتھ ان امتحانوں سے گزرجائے۔ آخری فتح ہماری ہے اور یقینا ہماری ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس فتح کو روک نہیں سکتی۔ یہ خدا کی باتیں ہیں جن کا اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے یہ پوری ہوں گی اور ضرور پوری ہوں گی انشاء اللہ تعالیٰ۔
اس لئے میں پاکستان کے احمدیوں کو کہتا ہوں کہ آجکل جو حالات ہیں ان میں دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ دیں۔ یہ جو مقدمے بن رہے ہیں، حکومت کی طرف سے ہمارے تربیتی رسائل الفضل وغیرہ پر آئے دن جو پابندیاں لگائی جاتی ہیں، حکومت کا ایک اہلکار اٹھتا ہے اور انتظامیہ پر دہشت گردی کی دفعہ لگا دیتا ہے اور اُن دہشت گردوں کو جو حقیقت میں دہشت گرد ہیں جو بغیر کسی وجہ کے روزانہ درجنوں جانیں لے لیتے ہیں، جو قانونی کارروائی کرنے والے کو شہید کر کے اس لئے بچ جاتے ہیں کہ مرنے والا احمدی تھا، جو کئی معصوم عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کر دیتے ہیں ان کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا کہ ان کے بڑے بڑے لیڈروں کے ساتھ تعلقات ہیں، یہ ان کے پروردہ ہیں۔ لیکن الفضل اخبار یا جماعت کا کوئی رسالہ جو جماعت کی تربیت کیلئے نکالا جاتا ہے ان کے پرنٹر پر، مینیجرپر، پبلشر پر اس لئے مقدمہ کر دیا جاتا ہے کہ اس رسالے میں یہ کیوں لکھا ہے کہ اللہ میرا ربّ ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور مرزا غلام احمد قادیانی اس کے مسیح اور مہدی ہیں۔ اگر یہ دہشت گردی ہے تو ہزار جان سے ہمیں یہ دہشت گردی منظور ہے۔
ہندوستان میں جہاں جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے وہاں احمدیت کی مخالفت ہے ایک احمدی معلم کو شہید کر کے لاش کو اس لئے درخت کے ساتھ لٹکا دیا کہ اس نے کہا تھا کہ امام مہدی آ گیا ہے۔
بنگلہ دیش میں مسجدوں پر حملے، پتھراؤ، مار دھاڑ اور شہادتیں اس لئے ہو رہی ہیں کہ احمدی اعلان کرتے ہیں کہ رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَان(آل عمران:194) کہ اے ہمارے رب ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز سنی جو ایمان کی طرف بلاتا تھا۔
انڈونیشیا میں جماعتی عمارات پر پتھراؤ کیا جاتا ہے، مسجدوں میں توڑ پھوڑ کی جاتی ہے، لوگوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، اس لئے کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے آنے والے مسیح اور مہدی کو کیوں مان لیا ہے اور ان لوگوں نے کیوں ان بدفطرت مُلاّؤں کا ساتھ نہیں دیا جو اندر ہی اندر اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور جن کو حکومتیں اپنے مقاصد میں استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن پھر دیکھیں، ان دوربیٹھے ہوئے احمدیوں پر بھی آفرین ہے اور ان کے اخلاص اور وفا اور ایمانی حالت کو دیکھ کر رشک آتا ہے جن میں سے بہت ساروں نے کسی خلیفہ سے ملاقات نہیں کی، سوائے اس کے کہ اب ایم ٹی اے کے ذریعہ خلیفۂ وقت کی آواز پہنچنے لگ گئی ہے، جنہوں نے ان تمام تکلیفوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جو انہیں دی گئیں مسیح اور مہدی کے ہاتھ پر کئے ہوئے وعدہ کو پور اکر دکھایا اور ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔
سری لنکا میں بھی آجکل ایک مُلّاں جس کے صوبائی حکومت سے کچھ تعلقات ہیں، اس تک پہنچ ہے اور جو پاکستان سے ٹریننگ لے کر آیا ہے، احمدیوں پر حملے کروا رہا ہے۔ اور یہ حملے کرائے کے بد معاشوں کے ذریعہ کروائے جارہے ہیں۔ بہت ساری مقامی آبادی اس سے تقریباً لاتعلق ہے۔ باہر سے غنڈے لا کر احمدیوں پر حملے کروا کر اسلام کی خدمت کی جا رہی ہے کہ رمضان کے مہینے میں احمدیوں کوشہید کرو تو ثواب ہوگا۔
پھر جیسا کہ مَیں نے کہا آجکل بلغاریہ میں بھی حالات بگڑے ہیں۔ جماعت کے خلاف حکومتی سطح پر ایک مہم چل رہی ہے۔ میرا خیال ہے اس ملک میں بھی ہے کوئی تیرہ چودہ فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے۔ یقینا تیل کے ڈالر حاصل کرنے والا کوئی مُلّاں اپنی جیبیں بھرنے کیلئے حکومت کو غلط راستے پر ڈال رہا ہے۔ ہائی کورٹ میں کیس ہے لیکن ان ملکوں کی ہائی کورٹ کا بھی وہی حال ہے جو ہمارے بعض ملکوں میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو انصاف کرنے اور صحیح فیصلے کرنے کی توفیق دے جواگر انصاف کے ساتھ ہوتویقینا جماعت کے حق میں ہوگا۔ یہاں کی جماعت گو کہ نئی جماعت ہے لیکن اخلاص و وفا میں اتنی بڑھ گئی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ملاقات میں ان پر بہت زیادہ جذباتی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ جرمنی جلسہ پر ان کے مختلف گروہ بدل بدل کے آتے رہتے ہیں، تواکثر ان سے وہاں ملاقات ہوجاتی ہے۔ عجیب ان کی جذباتی کیفیت ہوتی ہے۔ ان کے لئے بھی تمام دنیا کی جماعتوں سے دعا کرنے کی درخواست ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور یقین میں مزید بہتری پیدا کرے، ترقی کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ ان کو ہر امتحان اور ابتلاء سے کامیابی سے گزا ر دے۔ لیکن ان سب کو مَیں کہتا ہوں اور پہلے بھی یہ کہہ چکا ہوں کہ اللہ کے آگے جھکو، اللہ کے آگے جھکو، اللہ کے آگے جھکو۔ یہ عارضی امتحان ہیں جو گزر جائیں گے۔ اس قادر مطلق کا ہاتھ ہم پر ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا رحم مانگتے ہوئے اس امتحان کو دعاؤں کے ذریعہ ہلکا کرنے کی کوشش کرو۔ دعائیں کریں اور دعا ئیں کریں اور پھر دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی پکڑ کے نظارے ہم نے پہلے بھی اس دنیا میں دیکھے ہیں، کچھ کا مَیں ذکر کر آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کو تنگ کرنے والوں اور ان کو تکلیفیں دینے والوں کو مَیں اگلے جہان میں بھی پکڑوں گا۔ وہ اس وقت اپنی بدبختی کی وجہ سے سزا پر چلاّئیں گے تو ان کی کوئی بات نہیں سنی جائے گی۔ اس وقت ان کی چلاّہٹ اور معافیاں کسی کام نہیں آئیں گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے بارے میں فرمایا ہے کیونکہ یہ دعا کیا کرتے تھے اس لئے اس وقت ان کے مخالفین کوکہا جائے گا کہ جن سے تم ہنسی ٹھٹھا کرتے تھے آج یہ کامیاب ہیں اور تم ذلیل ہو کر جہنم کی آگ میں پڑے ہوئے ہو۔
اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کرنے کیلئے آج کل جو دعائیں پڑھنی چاہئیں ان میں یہ دعا بھی ہے۔ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ۔ اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے پس تو ہمیں بخش دے، ہم پر رحم کر اور توُ رحم کرنے والوں میں سے بہترین ہے۔
پس جو مومن دعا کرتے ہوئے اور مخالفین کے ہنسی ٹھٹھے تکلیفوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایمان لانے پر خوش ہے اور استقامت دکھاتا ہے اور اس یقین پر قائم ہے کہ خدا تعالیٰ یہاں اور اگلے جہان میں اس ایمان پر قائم رہنے کی بہترین جزا دے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کو پورا فرماتا ہے اور وعدے کو پورا فرماتے ہوئے ضرور رحم فرمائے گا اور بخشش کے سامان فرمائے گا۔ اللہ کے راستے میں کی گئی قربانیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ دعاؤں کی طرف بہت زیادہ زور دیں، توجہ دیں۔ یہ جو رمضان کے بعد کے دن ہیں، یہ مہینہ جوشوال کا مہینہ کہلاتا ہے اس کی بھی اس لحاظ سے اہمیت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں عموماً شروع کے چھ دن روزے رکھا کرتے تھے اور یوں رمضان کے روزے ملا کر پینتیس یا چھتیس روزے پورے سال کے قائمقام روزے بن جاتے ہیں۔ گویا یہ نفلی روزے بھی اللہ کی مغفرت اور رحمت کے کھینچنے کا ذریعہ ہیں اور سنت ہیں۔ ان دنوں میں بھی بہت سے احمدی روزے رکھتے ہیں۔ تو خاص طور پر جماعت کے لئے بھی دعاؤں پر بہت زور دیں اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کو جذب کرنے کی طرف بھی توجہ کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:۔
’’صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے کہ نوافل سے مومن میرا مقرب ہو جاتا ہے۔ ایک فرائض ہوتے ہیں دوسرے نوافل۔ یعنی ایک تو وہ احکام ہیں جو بطور حق واجب کے ہیں اور نوافل وہ ہیں جو زائد از فرائض ہیں اور وہ اس لئے ہیں تا کہ فرائض میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو نوافل سے پوری ہو جاوے۔
لوگوں نے نوافل صرف نماز ہی کے نوافل سمجھے ہوئے ہیں۔ نہیں یہ بات نہیں ہے۔ ہرفعل کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں۔ انسان زکوٰۃ دیتا ہے تو کبھی زکوٰۃ کے سوا بھی دے۔ رمضان میں روزے رکھتا ہے کبھی اس کے سوا بھی رکھے۔ قرض لے تو کچھ ساتھ زائد دے‘‘۔ یعنی کسی سے قرض لیاہے تو جب قرض کی واپسی کرنی ہے توساتھ کچھ زائد بھی دو۔ ’’کیونکہ اس نے مروّت کی ہے‘‘۔ قرض دینے والے نے مروت کی تھی۔
فرمایا: نوافل مُتمِّم فرائض ہوتے ہیں۔ نفل کے وقت دل میں ایک خشوع اور خوف ہوتاہے کہ فرائض میں جو قصور ہواہے وہ پورا ہوجائے۔ یہی وہ راز ہے جو نوافل کو قرب الٰہی کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے گویا خشوع اور تذلّل اور انقطاع کی حالت اس میں پیدا ہوتی ہے اور اسی لئے تقرب کی وجہ میں ایام بیض کے روزے، شوال کے چھ روزے یہ سب نوافل ہیں۔ پس یاد رکھو کہ خدا سے محبت تام نفل ہی کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فرماتاہے کہ پھر مَیں ایسے مقرب اور مومن بندوں کی نظر ہوجاتاہوں، یعنی جہاں میرامنشاء ہوتاہے وہیں ان کی نظر پڑتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ437جدید ایڈیشن۔ مطبوعہ ربوہ)
پس دعاؤں اور نوافل کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا بندہ بننے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ جلد وہ راستے بھی کھولے جب احمد ی مسلمان ممالک میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو آزادانہ اور آسانی سے پہنچا سکیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض دعائیں ہیں وہ مَیں پڑھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہرقسم کے شر سے محفوظ رکھے۔
حضرت صہیبؓ سے مروی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بستی میں داخل ہوتے تو داخل ہونے سے پہلے اسے دیکھتے ہی یہ دعا کرتے۔ اے اللہ جو ساتوں آسمانوں اور جن پر یہ سایہ فگن ہیں ان کا ربّ ہے اور جو ساتوں زمینوں اور جن کو وہ اٹھائے ہوئے ہیں ان کا رب ّہے اور جو شیاطین ہیں اور جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں ان کا ربّ ہے اور جو ہواؤں اور جن اشیاء کو وہ بکھیرتی پھرتی ہیں ان کا ربّ ہے، ہم تجھ سے اس بستی اور اس کے باشندوں کی بھلائی کے طالب ہیں اور ہم اس بستی کے شر اور اس کے رہنے والوں کے شر، اور جو کچھ اس میں ہے اس کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔ (المستدرک للحاکم کتاب المناسک باب الدعاء عند رویۃ قریۃ یرید دخولہا)
پھر ایک دعا سکھائی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی پریشانی ہوتی تھی تو یہ دعاکرتے تھے یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْث۔ اے حی و قیوم خدا مَیں تیری رحمت کا طلبگار ہوں۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات۔ باب ما جاء فی عقد التسبیح بالید۔)
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اس دعا کو بہت پڑھا کرو۔
حضرت عبید بن رفاعۃ الزرقی بیان کرتے ہیں کہ غزوہ اُحد میں مشرکین کے واپس پلٹ جانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفیں درست کرلو اور میرے ربّ کی تعریف کرو۔ صحابہ نے آگے پیچھے صفیں باندھ لیں تب آپ نے یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ سب حمد اور تعریف تجھے حاصل ہے۔ جسے تو فراخی عطا کرے اسے کوئی تنگی نہیں دے سکتا اور جسے تو تنگی دے اسے کوئی کشائش عطا نہیں کر سکتا۔ جسے تو گمراہ قرار دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے تو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔ جسے تو نہ دے اسے کوئی عطا نہیں کر سکتا اور جسے تو عطا کرے اس سے کوئی روک نہیں سکتا۔ جسے تو دور کرے اسے کوئی قریب نہیں کر سکتااور جسے تو قریب کرے اسے کوئی دور کرنے والا نہیں۔ اے اللہ ہم پر اپنی برکات، فضل اور رزق کے دروازے کھول دے۔ اے اللہ میں تجھ سے ایسی دائمی نعمتیں مانگتا ہوں جو کبھی زائل نہ ہوں، ختم نہ ہوں۔ اے اللہ مَیں تجھ سے غربت وافلاس کے زمانہ کے لئے نعمتوں کا تقاضا کرتا ہوں اور خوف کے وقت امن کا طالب ہوں۔ اے اللہ جوکچھ تو نے ہمیں عطا کیا اس کے شر سے اور جو تونے نہیں دیا اس کے شر سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ ایمان ہمیں محبوب کر دے اور ہمارے دلوں میں پیدا کر دے اور ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں سے بنا۔ اے اللہ ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے، مسلمان ہونے کی حالت میں زندہ رکھ اور صالحین میں شامل کر دے۔ ہمیں رُسوا نہ کرنا، نہ ہی کسی فتنے میں ڈالنا۔ اے اللہ ان کافروں کو خود ہلاک کر جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے اور تیری راہ سے روکتے ہیں۔ ان پر سختی اور عذاب نازل کر۔ اے اللہ ان کافروں کو بھی ہلاک کر جن کو کتاب دی گئی کہ یہ رسول حق ہے۔ (مسند احمد بن حنبل۔ مسند المکیّین)
پھر حضرت عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ عظمت والا اور بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں وہ عرش عظیم کا ربّ ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمانوں اور زمین اور عرش بریں کا رب ہے۔ (بخاری کتاب الدعوات باب الدعا ء عند الکرب۔ حدیث نمبر 6346)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھی چند دعائیں ہیں۔ ایک دُعا تو آپ کو پڑھنے کی تلقین کی گئی اور آپ کو الہاماً سکھائی گئی۔ رَبِّ کُلُّ شَیْ ئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔ اے میرے خدا ہر ایک چیز تیری خادم ہے۔ اے میرے خدا شریر کی شرارت سے مجھے نگہ رکھ اور میری مدد کر اور مجھ پر رحم کر۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ101)
پھر آپ کو ایک دعا سکھائی گئی۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمْ۔ اے خدا ہم میں اور ہمارے دشمنوں میں فیصلہ کر۔ (تذکرہ صفحہ 701ایڈیشن سوم 1969ء)
اوراے ازلی ابدی خدا بیڑیوں کو پکڑ کے آاے ازلی ابدی خدا میری مدد کے لئے آ۔ رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ وَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا… اے میرے خدا میں مغلوب ہوں میرا انتقام دشمنوں سے لے۔ پس ان کو پیس ڈال۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ107)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’تم کو چاہئے کہ راتوں کواٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو۔ اور اس کے فضل کو طلب کرو۔ ہر ایک نماز میں دعا کے لئے کئی مواقع ہیں۔ رکوع، قیام، قعدہ، سجدہ وغیرہ۔ پھرآٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھی جاتی ہے۔ فجر، ظہر، عصر، شام اور عشاء۔ ان پر ترقی کر کے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں۔ یہ سب دعا ہی کے لئے مواقع ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ234 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس ہمارا کام ہے کہ دعا کرتے چلے جائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مختلف وقتوں کی، مختلف حالتوں کی دعائیں سکھائی ہیں۔ اور اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حالات کے مطابق بعض دعائیں بتائیں جو مَیں پہلے بھی بتاتا رہاہوں ان کو ہمیں دہرانا چاہئے، پڑھنا چاہئے۔ اور سب سے بڑی بات جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ پہلے فرائض کی ادائیگی اور پھر نوافل کی طرف توجہ بہت ضروری ہے۔
آخر میں پھر مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھ کر آپ کے خلاف جو ہرزہ سرائی کرنے والے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کا خوف کھانے کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ ’’اے سونے والو بیدار ہو جاؤ۔ اے غافلو اٹھ بیٹھو کہ ایک انقلاب عظیم کا وقت آ گیا۔ یہ رونے کا وقت ہے، نہ سونے کا۔ اور تضرع کا وقت ہے، نہ ٹھٹھے اور ہنسی اور تکفیر بازی کا۔ دعا کرو کہ خداوند کریم تمہیں آنکھیں بخشے تا تم موجودہ ظلمت کو بھی بتمام و کمال دیکھ لو اور نیز اُس نور کو بھی جو رحمت الٰہیہ نے اس ظلمت کے مٹانے کیلئے تیار کیا ہے پچھلی راتوں کو اٹھواور خدا تعالیٰ سے رو رو کر ہدایت چاہو اور ناحق حقّانی سلسلہ کے مٹانے کیلئے بد دعائیں مت کر و اور نہ منصوبے سوچو۔ خدا تعالیٰ تمہاری غفلت اور بھول کے ارادوں کی پیروی نہیں کرتا۔ وہ تمہارے دماغوں اور دلوں کی بیوقوفیاں تم پر ظاہر کرے گا اور اپنے بندہ کا مددگار ہو گا اور اس درخت کو کبھی نہیں کاٹے گا جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ کیا کوئی تم میں سے اپنے اس پودہ کو کاٹ سکتا ہے جس کے پھل لانے کی اس کو توقع ہے۔ پھر وہ جو داناو بینا اور ارحم الراحمین ہے وہ کیوں اپنے اس پودہ کو کاٹے جس کے پھلوں کے مبارک دنوں کی وہ انتظار کر رہا ہے۔ جبکہ تم انسان ہو کر ایسا کام کرنا نہیں چاہتے پھر وہ جو عالم الغیب ہے جو ہر ایک دل کی تہ تک پہنچا ہوا ہے۔ کیوں ایسا کام کرے گا۔ پس تم خوب یاد رکھو کہ تم اس لڑائی میں اپنے ہی اعضاء پر تلواریں مار رہے ہو۔ سو تم ناحق آگ میں ہاتھ مت ڈالو ایسا نہ ہو کہ وہ آگ بھڑکے اور تمہارے ہاتھ کو بھسم کر ڈالے۔ یقینا سمجھو کہ اگر یہ کام انسان کا ہوتا تو بہتیرے اس کے نابود کرنے والے پیدا ہو جاتے اور نیز یہ اس اپنی عمر تک ہرگز نہ پہنچتا جو بارہ برس کی مدت اور بلوغ کی عمر ہے‘‘۔ (یہ آئینہ کمالات اسلام کا حوالہ ہے جو 1893ء میں لکھی گئی تھی اب تو 117سال ہو چکے ہیں ) ’’کیا تمہاری نظر میں کبھی کوئی ایسا مفتری گزرا ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ پر ایسا افترا کر کے کہ وہ مجھ سے ہم کلام ہے پھر اس مدت مدید کے سلامتی کو پا لیا ہو۔ افسوس کہ تم کچھ بھی نہیں سوچتے اور قرآن کریم کی ان آیتوں کو یاد نہیں کرتے جو خود نبی کریم ؐ کی نسبت اللہ جلّشانہ فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو ایک ذرہ مجھ پر افترا کرتا تو مَیں تیری رگ جان کاٹ دیتا۔ پس نبی کریم ؐ سے زیادہ تر کون عزیز ہے کہ جو اتنا بڑا افترا کر کے اب تک بچا رہے بلکہ خدائے تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال بھی ہو۔ سو بھائیو نفسانیت سے باز آؤ اور جو باتیں خدائے تعالیٰ کے علم سے خاص ہیں ان میں حد سے بڑھ کر ضد مت کرو اور عادت کے سلسلہ کو توڑ کر اور ایک نئے انسان بن کر تقویٰ کی راہوں میں قدم رکھو تاتم پر رحم ہو اور خدا تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخش دیوے۔ سو ڈرو اور باز آ جاؤ۔ کیا تم میں ایک بھی رشید نہیں۔ وَ اِنْ لَّمْ تَنْتَہُوْا فَسَوْفَ یَأْتِی اللّٰہُ بِنُصْرَۃٍ مِّنْ عِنْدِہٖ وَیَنْصُرُ عَبْدَہٗ وَیُمَزِّقُ اَعْدَآءَ ہٗ وَلَا تَضُرُّوْنَہٗ شَیْئًا۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ53تا55)
یعنی اگر تم باز نہ آئے تو اللہ اپنی جناب سے مدد اور نصرت کے ساتھ آئے گا اور اپنے بندے کی تائید ونصرت فرمائے گا۔ اور اس کے دشمنوں کوٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور تم اس کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکو گے۔
پس پہلے آپ نے سمجھایا۔ پھر آخر میں یہ دعا کی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ عذاب طلب کر رہے ہیں۔ آپ کا دل بہت نرم تھا اس لئے پہلے سمجھایا ہے اور خود بھی قوم کی ہدایت کے لئے بہت دعائیں کرتے تھے۔
ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں :
’’میں اس بیمار دار کی طرح جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے اس ناشناس قوم کے لئے سخت اندوہ گیں ہوں‘‘۔ بڑا افسردہ ہوں ’’اور دعا کرتاہوں کہ اے قادر ذوالجلال خدا، ہمارے ہادی اور راہنما ان لوگوں کی آنکھیں کھول اور آپ ان کوبصیرت بخش اور آپ ان کے دلوں کو سچائی اور راستی کا الہام بخش۔ (مکتوبات احمدیہ جلد ششم حصہ اول صفحہ98)
لیکن اگرکوئی زبردستی اللہ تعالیٰ کے عذاب کو آواز دے رہا ہے توپھر اس کے متعلق کیا کیا جاسکتا ہے۔ اگراب یہ لوگ جو ایذااور تکلیفوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے سے باز نہیں آتے اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف بدگوئی کرتے رہیں گے تو پھر خداکی اس چکی نے تو چلنا ہے جو ایسے لوگوں کیلئے مقدر ہے۔ لیکن پھر بھی ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس درد سے نکلی ہوئی دعا کو سن لے اور ان لوگوں کو عقل دے جو استہزاء، ہنسی اور ظلم میں تمام حدیں پھلانگ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب جب آتا ہے تو بہت ساروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ہم پھر اللہ تعالیٰ سے رحم مانگتے ہوئے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قوم کو عقل دے اور وہ ان ظلموں سے اپنے آپ کو بچائیں۔
آجکل جماعت احمدیہ کے خلاف بعض ملکوں میں مخالفت کی رو چلی ہوئی ہے اور اس میں تیزی آ رہی ہے۔ ہو سکتاہے کہ کچھ اور ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آئیں۔
خدا جماعت احمدیہ کی حفاظت کے لئے کھڑا ہے۔ آج بھی وہ اپنے بندے اور اپنے مسیح کی جماعت کی دعاؤں کو سنتاہے۔ آج بھی تم ایسے نظارے دیکھو گے کہ جو دشمن ان دعاؤں کی لپیٹ میں آئے گا اس کے ٹکڑے ہوا میں بکھرتے چلے جائیں گے۔
فرمودہ مؤرخہ 27؍اکتوبر 2006ء (27؍اخاء 1385ھش) مسجد بیت الفتوح، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔