تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان
خطبہ جمعہ 3؍ نومبر 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:
لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدٰھُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلاَِ نْفُسِکُمْ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللّٰہِ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۔ (البقرۃ :273)
آج میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے مالی قربانی کے حوالے سے کچھ کہوں گا۔ آج عمومی طور پر جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھتے ہوئے خلفاء وقت کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے اس قابل ہو گئی ہے جہاں وہ ہر قسم کی قربانی کے فلسفے کو سمجھتی ہے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے افرادجماعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد اس بات کا فہم حاصل کرنے کے قابل ہو گئے ہیں کہ الٰہی جماعتوں کی ترقی کے لئے جان، مال، وقت اور عزت کی قربانی انتہائی اہم ہے۔ بعض سختیوں اور امتحانوں اور قربانیوں میں سے گزر کر ہی پھر اس منزل کے آثار نظر آتے ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک مومن بندہ الٰہی جماعت میں شامل ہوتا ہے۔ قربانیوں کے معیار حاصل کرنے سے ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔
پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہمیں اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے اس بات کا موقع دے رہا ہے کہ ہم فَاسْتَبِقُواالْخَیْرَات کی روح کو سمجھتے ہوئے نیکی کے مواقع حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ یہی تمہارا مطمح نظر ہونا چاہئے۔ اگر صالحین میں شمار ہونا ہے تو پھر کوشش کرکے ہی نیکیوں میں آگے بڑھنا ہو گا تبھی تم یہ مرتبہ پا سکتے ہو۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گے تو ان قربانیوں اور نیکیوں سے ہی اللہ کے فضل سے اللہ کا قرب پاؤ گے۔ یہ مالی اور جان کی قربانیاں تمہاری فلاح کا ذریعہ بنیں گی۔ ہمیشگی کی زندگی تمہیں ان قربانیوں سے ہی حاصل ہو گی۔ پس آج اللہ تعالیٰ کے حکموں کا یہ ادراک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر حاصل ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو حاصل ہے۔ آج دین کی خاطر اگر وقت کی قربانی کوئی دے رہا ہے تو وہ احمدی ہے۔ آج دین کی خاطر اگر اولاد کی قربانی کوئی دے رہا ہے تو وہ احمدی ہے۔ آج دین کی خاطر اگر مال کی قربانی کوئی دے رہا ہے تو وہ احمدی ہے۔ آج دین کی خاطر اُس روح کو سمجھتے ہوئے اور اُس تعلیم پر عمل کرتے ہوئے جس کی طرف ہمیں زمانے کے امام نے توجہ دلائی ہے اور اس راستے پر ڈالا ہے اور دین پر مضبوطی سے قائم کیا ہے، کوئی جان کی قربانی دے رہا ہے تو وہ احمدی ہے۔ پس یہ ہماری کتنی خوش قسمتی ہے کہ آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں آخرین کے گروہ میں شامل کرکے ان پہلوں سے ملایا ہے جو دین کی خاطر عظیم قربانیاں دیتے چلے گئے۔
ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی حالتوں پر ہر وقت نظر رکھتے ہوئے ان پہلوں کی قربانی کو ہر وقت سامنے رکھیں جنہوں نے اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی خاطر قربان کر دیا۔ تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ان فضلوں کے وارث ٹھہریں گے، اس کا قرب پائیں گے، اپنی دنیا و آخرت سنواریں گے اور آگے اپنے بچوں کی ہدایت کے سامان پیدا کریں گے۔ پس آج ہم سب جو یہ قربانیاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خداتعالیٰ کی رضا حاصل کریں یا حاصل کر سکیں تو اب ہمیں اپنی ہر قربانی کو خداتعالیٰ کے حکموں کے تابع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اگر ہم نے اس بات کو نہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے تو ہمارا یہ دعویٰ بالکل کھوکھلا دعویٰ ہے کہ آج ہم ہر قسم کی قربانیوں کا فہم و ادراک رکھتے ہیں یا یہ کہ صرف احمدی کو یہ فہم حاصل ہے اور احمدی کی قربانی کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔
دنیا میں دوسرے مسلمان بھی قربا نیاں کرتے ہیں یا یہ کہنا چاہئے کہ دوسروں کے لئے اپنا مال خرچ کرتے ہیں، غریبوں کی مدد کرتے ہیں۔ لوگوں کی ہمدردی اور ان کی مدد کے لئے انہوں نے ادارے بھی کھولے ہوئے ہیں۔ عیسائیوں نے، یہودیوں نے اور دوسرے مذہب والوں نے بڑی بڑی تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں جہاں وہ غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور بہت کرتے ہیں۔ لیکن اس سب خدمت اور ہمدردی کے پیچھے وہ جذبہ نہیں ہے کہ خدا کی رضا حاصل کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس لئے یہ سب خدمت کرنی ہے۔ عارضی طور پر متاثر ہو کر کسی چیریٹی میں مدد تو کر دیں گے۔ لیکن یہ جذبہ نہیں کہ اللہ کا حکم ہے اس لئے مدد کرنی ہے یا اللہ کے نام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے خرچ کرنا ہے۔ اللہ کی مخلوق کی خدمت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرنی ہے۔ بعض لوگ دولت بھی ایسے ذرائع سے کماتے ہیں جو کسی لحاظ سے بھی جائز نہیں ہے۔ ان کے دولت کمانے کے ذریعے ناجائز ذریعے ہوتے ہیں لیکن اپنی کمپنیوں کے بجٹ میں چیریٹی کے لئے بھی کچھ رقم مختص کر دیتے ہیں تاکہ حکومت کے ٹیکسوں سے چھوٹ مل جائے۔ تو یہ سب قربانیاں جو کی جارہی ہوتی ہیں یا ان کے خیال میں جو قربانیاں کی جا رہی ہوتی ہیں یہ عارضی اور سطحی اور اکثراوقات دنیا دکھاوے کے لئے بھی ہوتی ہیں۔ لیکن ایک احمدی کی جوقربانی ہے اور جو ہونی چاہئے اس کا مقصد جیساکہ میں نے کہا، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنا ہے اور اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ یہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کی یہ ذمہ داری قرار دی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی خدمت کرے اور اگر مالی قربانی کر رہا ہے تو وہ بھی جائز ذرائع سے کمائی ہوئی آمد سے کرے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِکُمْ یعنی جو کچھ بھی تم اپنے اچھے مال میں سے خرچ کرتے ہو وہ تمہیں فائدہ دے گا، وہ تمہارے فائدہ کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خیر کا لفظ استعمال کرکے ہمیں یہ توجہ دلا دی ہے کہ تم جومالی قربانیاں کرو، ایک تو یہ کہ محنت سے اور جائز ذرائع سے کمائے ہوئے مال میں سے کرو، یہ نہیں کہ شراب کی دکانوں پر کام کرکے یا سؤر بیچنے والی دکانوں پر کام کرکے یا پھر کوئی ایسا کام کرکے جو غیر قانونی ہو، پیسہ کما کر اس پر چندہ دے دو یا جس طرح ناجائز منافع خور کرتے ہیں کہ ناجائز پیسہ کما کر تھوڑی سی رقم غریبوں پر خرچ کر دی یا حج کر لیا اور سمجھ لیا کہ پیسہ پاک ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے ایسا پیسہ نہیں چاہئے۔ اللہ کی راہ میں جو تم خرچ کرو اس میں خیر ہونی چاہئے۔ وہ جائز ہونا چاہئے اور پھرتم جو یہ جائز پیسہ کما رہے ہو اس پر چندہ بھی اپنی حیثیت کے مطابق ہی دو، یہ نہیں کہ آمد تو لاکھ روپے ہے اور چندہ دس روپے دے دیا اور سمجھ لیا کہ میں نے قربانی کا حق ادا کر دیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے رقم کی ضرورت نہیں ہے، میں غنی ہوں۔ اس قربانی کے ذریعے سے میں تمہیں آزما رہا ہوں کیونکہ یہ سب تمہارے ہی فائدے کے لئے ہے۔ پس یہ جو فرمایافَلاَِ نْفُسِکُم۔ قربانی کرتے ہوئے یہ فقرہ تمہارے ذہن میں رہنا چاہئے اور جب یہ سوچ ہو گی تو اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھو کہ تم اس حکم پر چل رہے ہو کہ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ اللّٰہ کہ تم اللہ کی رضا جوئی کے سوا کچھ خرچ نہیں کرتے اور جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتا ہے اس کے بارے میں فرمایا یُّوَفَّ اِلَیْکُم وہ بھرپور طریقے سے تمہیں لوٹایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ادھار نہیں رکھتا، تمہاری بھلائی کے لئے تم سے قرض مانگتا ہے تو سات سو گنا کرکے تمہیں واپس لوٹاتا ہے۔ لیکن یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سے کچھ چھپایا نہیں جا سکتا، وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ پاک مال ہو گا، اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے ہو گا تو بڑھاکر لوٹایا جائے گا۔ ناجائز مال اور دھوکے سے یا غلط طریقے سے کمائے ہوئے مال کی اللہ تعالیٰ کو ضرورت نہیں، وہ اس کو قبول نہیں کرے گا۔
یہ اللہ تعالیٰ کا احمدیوں پر بڑا احسان ہے کہ ہر احمدی مالی قربانی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے اور اس کا نیک ذرائع سے ہی کمایا ہوا مال ہوتا ہے۔ بعض دفعہ بعض لوگ غلط فہمی میں بعض کام کر جاتے ہیں لیکن عموماً نیک مال کی اور قربانی کی قبولیت کی تصدیق بھی فوری ہو جاتی ہے۔
میں جانتا ہوں بعض زمیندار ہیں وہ اپنا چندہ عام بھی دیتے ہیں اور پوری شرح سے بلکہ شاید زائد دے دیتے ہیں کیونکہ پہلے بجٹ لکھوا دیتے ہیں، تحریک جدید وغیرہ میں بھی اس امید پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں کہ فصل یا باغ کی آمد ہو جائے گی اور بظاہر ایسی آمد والی فصل نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے۔ وہ اپنے وعدے بڑھا کر لکھوا رہے ہوتے ہیں اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ احمدی زمیندار کی فصل ساتھ والے ہمسایوں سے بہت اچھی ہوتی ہے، بہت بہتر ہوتی ہے۔ مجھے کئی زمینداروں نے اپنے واقعات سنا ئے ہیں، غیر آ کر پوچھتے ہیں کہ تمہاری فصل بظاہر ہمارے جیسی تھی، کیا وجہ ہے کہ ایسی اچھی نکل آئی ہے تو احمدی زمیندار کا یہی جواب ہوتاہے کہ کیونکہ اس میں اللہ کا حصہ ہے اس لئے بہتر نکل آئی ہے۔ اس لئے ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جوخرچ کررہے ہیں وہ اپنے وعدے کے مطابق اُسے بہتر کر کے ہمیں لوٹارہا ہے۔ اسی طرح کاروبار میں اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے۔ جو چندہ دینے والے ہیں ان کے کاروباروں میں بہت برکت ہوتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ جو یہ نمونے ہمیں دکھاتا ہے تو یہ دکھا کر اپنے بندوں کے ایمانوں کو مضبوط کرتا ہے اور اس یقین پر قائم کرتا ہے کہ یہاں جو اس طرح انعامات ہو رہے ہیں تو اگلے جہان کے بارے میں جو انعامات کی نوید سنائی ہے وہ بھی غلط نہیں ہے وہ بھی یقینا سچی ہے۔
آج پرانے احمدی خاندانوں میں سے بہت سے اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے باپ دادا نے جو قربانیاں دی تھیں اللہ تعالیٰ نے ان کی اولادوں کو کتنا نوازا ہے بعض بزرگوں کی قربانیاں تو پھلوں سے اس قدر لدی ہوئی ہیں کہ اولادوں کے لئے انہیں سنبھالنا مشکل ہے۔ جن کو اس بات کا پتہ ہے یا ادراک ہے کہ یہ فضل ان قربانیوں کا نتیجہ ہیں وہ پھر اللہ سے سودا کرتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر مالی قربانی پیش کرتے ہیں۔ تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ سودے کہ وہ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپؐ کی قوت قدسیہ سے جو انقلاب آیا اور صحابہ ؓ نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جان، مال کی جوقربانیاں کیں وہ ہمیں آپؐ کے غلام صادق کی جماعت میں بھی نظر آتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی جب ضرورت پڑی، کسی نے اپنے بیٹے کے کفن کی رقم چندے میں بھیج دی، کسی نے اپنی پس انداز کی ہوئی تمام رقم دینی ضروریات کے لئے چندہ میں دے دی، کسی نے اپنی تمام آمد اللہ تعالیٰ کے مسیح کے قدموں میں لا کر ڈال دی یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کہنا پڑا کہ بس آپ لوگ بہت قربانیاں کر چکے ہیں، کافی ہیں، مزید کی ضرورت نہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد خلفاء کی طرف سے جب بھی کوئی تحریک ہوئی افراد جماعت نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مالی قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔
ابھی کل ہی مجھے ایک دوست کا خط ملا ہے کہ میں سوچ رہا تھا کہ تحریک جدید کا نیا سال شروع ہونے والا ہے، مَیں اپنا وعدہ تین ہزار روپے لکھواؤں اور بیوی بچوں کی طرف سے اور بزرگوں کی طرف سے ملا کے مَیں اس سال اس کو بڑھا کر پانچ ہزار کر دیتا ہوں۔ تو کہتے ہیں خیال آیا کہ ادا کس طرح ہو گا؟ لیکن مَیں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ مَیں نے بہرحال اللہ کی توفیق سے انشاء اللہ، اتنا ہی یعنی پانچ ہزار روپے کا وعدہ لکھوانا ہے۔ کہتے ہیں اتنے میں ایک صاحب آئے اور ایک لفافہ مجھے دے گئے، کھولا تو اس میں تین ہزار روپے تھے، کسی نے عید کے تحفے کے لئے بھیجے تھے۔ تو کہتے ہیں مَیں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر کر رہا تھاکہ ابھی تو سوچا ہی تھا کہ بڑھانا ہے تو اللہ تعالیٰ نے نواز دیا۔ اسی دوران پھر ایک اور صاحب آئے، ایک لفافہ آیا جس میں پانچ ہزار روپے تھے، باہر سے کسی دوست نے ان کو تحفہ بھیجا تھا۔ تو کہتے ہیں کہ مَیں نے سوچا کہ ابھی تو مَیں نے ارادہ ہی کیا ہے کہ وعدہ بڑھانا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش شروع ہو گئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ جس طرح اس نے فرمایا ہے بھرپور کرکے لوٹاتا ہے تو انہوں نے کہا چلو جب اس طرح آ رہا ہے تو وعدہ ہی پانچ ہزار کی بجائے دس ہزار کر دو اور پھر اپنی بیوی سے کہا کہ مَیں نے تو یہ وعدہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک شروع ہوا ہے، تمہارا کیا ارادہ ہے؟ بیوی نے بھی اپنا وعدہ بڑھایا کہ میرا بھی اتنا لکھوا دیں۔ میں ان کو ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں ان کے ذرائع ایسے نہیں ہیں کہ آسانی سے اتنا دے سکیں، لیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ کی باتوں کا فہم و ادراک ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی پر یقین ہے، دین کی ضرورت کا خیال ہے، خلافت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے ایک انعام سمجھتے ہیں، اس لئے بے خوف ہو کر یہ قدم اٹھایا۔ اللہ تعالیٰ ان کے اور ایسے بہت سے دوسرے لوگوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔
مالی جائزہ پیش کرنے کے سے پہلے میں ایک بات کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب تحریک جدید کا آغاز فرمایا تو اس وقت بھی اور اس کے بعد بھی مختلف سالوں میں اس تحریک جدید کے بارے میں جماعت کی رہنمائی فرماتے رہے کہ اس کے کیا مقاصد ہیں اور کس طرح ہم ان مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اس وقت شروع میں آپ ؓ نے جماعت کے سامنے 19مطالبات رکھے اور پھر بعدمیں مزید بھی رکھے۔ یہ تمام مطالبات ایسے ہیں جو تربیت اور روحانی ترقی اور قربانی کے معیار بڑھانے کے لئے بہت ضروری ہیں اور آج بھی اہم ہیں، جماعتوں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔
مثلاً پہلا مطالبہ سادہ زندگی کا ہے۔ آج جب مادیت کی دوڑ پہلے سے بہت زیادہ ہے اس طرف احمدیوں کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ سادگی اختیار کرکے ہی دین کی ضروریات کی خاطر قربانی دی جا سکتی ہے۔ بعض لوگوں کو بلا ضرورت گھروں میں بے تحاشا مہنگی سجاوٹیں کرنے کا شوق ہوتا ہے، سجاوٹ تو ہونی چاہئے، صفائی بھی ہونی چاہئے، خوبصورتی بھی ہونی چاہئے لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سجاوٹ صرف مہنگی چیزوں سے ہی ہوتی ہے۔ تو بہت سارے ایسے بھی ہیں جو پیسے جوڑتے ہیں تاکہ سجانے کی فلاں مہنگی چیزخریدی جائے، بجائے اس کے کہ یہ پیسے جوڑیں کہ فلاں کام کے لئے چندہ دیا جائے۔ پھر شادیوں، بیاہوں پر فضول خرچیاں ہوتی ہیں۔ اگریہی رقم بچائی جا ئے تو بعض غریبوں کی شادیاں ہو سکتی ہیں، مساجد کی تعمیر میں دیا جا سکتا ہے، اور کاموں میں دیا جا سکتا ہے، مختلف تحریکات میں دیا جاسکتا ہے۔
پھر آپؓ نے اس وقت ایک یہ مطالبہ بھی کیا کہ دشمن کے گندے لٹریچر کا جواب تیار کیا جائے۔ آجکل بھی اسلام پر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرحملے ہو رہے ہیں۔ اکثر ملکوں میں خدام الاحمدیہ کے ذریعہ سے مجلس سلطان القلم اچھی آرگنائز ہے، ۔ لیکن ابھی بھی اس میں بہتری کی گنجائش ہے۔ پھر آجکل مغربی معاشرے میں نام نہاد صوفی ازم بہت چلا ہوا ہے اس سے متاثر ہو کر مغرب میں نوجوان غلط راہوں پر چل پڑے ہیں۔ مغربی معاشرے میں خداتعالیٰ کی ذات کو بھی بہت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پچھلے دنوں کسی نے ایک کتاب بھی لکھی جو کرسمس سے پہلے آئی اور یہاں کی بہترین کتاب بیسٹ سیلر (Best Seller) کتاب کہلاتی ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے وجود کی نفی اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی نفی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خداتعالیٰ کے وجود سے انکار بھی یہاں مغرب میں فیشن بنتا جا رہا ہے۔ تو جماعتی پروگرام کے تحت بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اس چیز پر نظر رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اپنے بچے، لڑکے، نوجوان بچیاں ان چیزوں سے متاثر نہ ہوں۔ اس کے جواب کے پروگرام بنائیں۔ صرف یہ کہناکہ نہیں، فضول ہے اس کی بجائے باقاعدہ دلیل کے ساتھ جواب تیار ہونے چاہئیں۔ جو مختلف سوال اٹھ رہے ہیں وہ یہاں مرکز میں بھی بھجوائیں، مجھے بھی بھجوائیں تاکہ ان کے ٹھوس جواب بھی تیار کئے جائیں۔ پھر ایک مطالبہ وقف عارضی کا ہے اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ باہر کی دنیا میں (باہر سے مراد یورپ اور مغربی ممالک، افریقہ وغیرہ) اگر آرگنائز کرکے اس مطالبے پر سارے نظام پر کام کیا جائے تو اپنوں کی تربیت کے لحاظ سے بھی اور تبلیغ کے لحاظ سے بھی بہت بہتری پیدا ہو گی، جماعتیں اس طرف بھی توجہ کریں۔ پھر وقف بعد از ریٹائرمنٹ ہے۔ ان مغربی ممالک میں بھی جماعتی ضروریات بڑھ رہی ہیں اور یہاں کیونکہ حکومت کی طرف سے، اداروں کی طرف سے سہولتیں ملتی ہیں اس لئے جو احمدی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ سہولیات لے رہے ہیں ان کو اپنے آپ کو جماعتی خدمات کے لئے پیش کرنا چاہئے۔ جماعت سے مالی مطالبہ نہ ہو کیونکہ ان کی ضروریات تو ان سہولتوں سے جو وہ حکومت سے یا اداروں سے لے رہے ہیں یا پنشن وغیرہ سے جو رقم ملی ہے اس سے پوری ہو رہی ہیں۔ بعض لوگ تو ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ کام تلاش کرتے ہیں کیونکہ بعض ایسی ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن کو پورا کرنا ہوتا ہے، بچے وغیرہ ابھی پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ تو بہرحال جن کی ذمہ داریاں ایسی نہیں ہیں اور اگر صحت اچھی ہے تو ان کو اپنے آپ کو جماعتی خدمات کے لئے رضاکارانہ طور پر پیش کرنا چاہئے۔ لیکن بعض دفعہ ذہنوں میں یہ بات آ جاتی ہے کہ شاید ہم رضا کارانہ کام کرکے جماعت پر کوئی احسان کر رہے ہیں، تو اگر اپنے آپ کو پیش کرنا ہو تو اس سوچ کے ساتھ آئیں کہ اگر ہم سے کوئی جماعتی خدمت لے لی جائے توجماعت اور خداتعالیٰ کا ہم پر احسان ہو گا۔
ایک مطالبہ نوجوانوں کا بیکاری کی عادت ختم کرنے کا تھا۔ یہ بھی بڑی خطرناک بیماری ہے اور بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بعض بے کار نوجوان اس لئے بے کار ہیں کہ یا تو ان کے جو رشتہ دار، والدین، بھائی وغیرہ باہر ہیں وہ باہر سے رقم بھیج دیتے ہیں اس لئے ذمہ داری کا احساس نہیں۔ یا اس امید پر بیٹھے ہیں کہ باہر جانا ہے۔ اب باہر جانا بھی اتنا آسان نہیں رہا، ان لوگوں کو بھی غلط امیدوں پر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ اور جو آتے ہیں ان کے بھی یہاں اتنی آسانی سے کیس پاس نہیں ہوتے۔ اس لئے بلاوجہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے اور دھوکے میں نہ رہیں۔ اپنے نفس کو دھوکہ نہ دیں اور اپنے آپ کو سنبھالیں۔ جماعت اور ذیلی تنظیموں کو بھی اس بارے میں معین پروگرام بنانا چاہئے اور نوجوانوں کو سنبھالنا چاہئے۔ یہ لوگ جوفارغ بیٹھے ہیں، فارغ بیٹھے یہ مطالبے کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا کسی طرح باہر جانے کا انتظام ہو جائے، بعض لڑکوں کے ماں باپ لکھ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے حالات خراب ہیں باہر بلوا لیں۔ باہر بلوانا کون سا آسان ہے۔ یا ہماری شادی باہر کروا دیں یا جو بھی ذریعہ ہو۔ اور ایسے لوگوں میں سے جب کسی کی شادی یہاں ہو جاتی ہے اور یہاں آجاتے ہیں تو جب ان ملکوں میں ان کا Stay پکا ہو جاتا ہے تو پھر بیویوں پر ظلم کرنے شروع کر دیتے ہیں یا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک غلط رَو خاص طور پر پاکستان میں اور ہندوستان میں چل پڑی ہے۔ ایسے نوجوانوں کو مَیں کہتا ہوں کہ اپنے ملک میں محنت کی عادت ڈالیں اور محنت کرکے کھائیں۔ اس دوران میں اگرباہر کا کوئی انتظام ہو جاتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن صرف اس لئے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھے رہنا کہ باہر جاناہے، اس سے بہت ساری غلط قسم کی عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور بہت ساری برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور پھر وہ برائیاں معاشرے میں، اس ماحول میں پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح بعض ایسے ہیں جو یہاں آ کر بھی ہنر نہیں سیکھتے، زبان نہیں سیکھتے، اور ذرا سی کوئی تکلیف ہو جائے تو بیماری کا بہانہ کرکے گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ کیونکہ مدد مل جاتی ہے اس لئے کام نہیں کرتے۔ بیکاری کی عادت کے خلاف ایسی مہم یہاں بھی چلانے کی بہت ضرورت ہے۔
بہرحال یہ چند مطالبات میں نے بیان کئے ہیں، جماعتیں اپنے حالات کے مطابق جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اس وقت کس مطالبے کی طرف یا کتنے مطالبات کی طرف اپنے مقامی حالات کے لحاظ سے خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے جہاں معاشی اور معاشرتی مسائل حل ہوں گے وہاں جماعتوں میں تربیت اور قربانی کے معیار بھی بڑھیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی میں ایک سچے احمدی کی روح پیدا فرمائے۔
اب میں کچھ کوائف پیش کرتا ہوں۔ تحریک جدید کا یہ سال جو اکتوبر میں ختم ہوا ہے، اس میں جماعتوں کی طرف سے جو رپورٹس آئی ہیں (تقریباً بڑی جماعتوں کی رپورٹس تو آ ہی جاتی ہیں، بعض دفعہ چھوٹی جماعتیں رہ جاتی ہیں )۔ اس کے مطابق تحریک جدید کی کل وصولی 35لاکھ پانچ ہزار پاؤنڈ کی ہے۔ الحمدللہ۔ اور اللہ کے فضل سے جماعتوں کی مجموعی رپورٹ میں وصولی کے لحاظ سے پاکستان نمبر ایک پہ ہے، پھر امریکہ ہے، پھر تیسرے نمبر پہ برطانیہ، پھر جرمنی، پھر کینیڈا، پھر انڈونیشیا، پھر ہندوستان، آسٹریلیا، بیلجیئم‘ماریشس اور سوئٹزر لینڈ۔ افریقہ کے ممالک میں نائیجیریا پہلے نمبر پہ ہے۔ لیکن غانا کی طرف سے میرا خیال ہے رپورٹ نہیں آئی، غانا والوں کو بھی ذرا تھوڑا سا اپنے آپ کو ایکٹو (Active) کرنا چاہئے۔ ایک میدان میں ذرا تیز ہوتے ہیں تو دوسرے میدان کو بھول جاتے ہیں۔ جماعتوں میں رپورٹیں بھجوانے کی جو کمزوری ہے اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور باقاعدہ رپورٹس بھجوایا کریں۔ چندہ تحریک جدید ادا کرنے والوں کی جو تعداد ہے، اس میں جو افراد شامل ہوئے ان کی تعداد 4لاکھ 82ہزار 460ہے، جو گزشتہ سال سے 40ہزار زیادہ ہے۔
اسی طرح دفتر اول کا میں نے اعلان کیا تھا کہ اس میں کھاتے جاری کئے جائیں، تو اللہ کے فضل سے تمام کھاتہ جات جاری ہو چکے ہیں۔ پاکستان والوں کا اوّ ل دوم سوم کا ایک علیحدہ مقابلہ بھی ہوتا ہے۔ (پاکستانی خاص طور پر بڑے شوق سے سن رہے ہوتے ہیں ) تو پاکستان کی جماعتوں میں راولپنڈی اور پھر اسلام آباد، فیصل آباد، ملتان، کوئٹہ، کنری۔ یہ کنری چھوٹی سی جماعت ہے اور غریب بھی ہے، ان لوگوں کی آمد کا معیار اتنا اچھا نہیں ہے۔ کچھ کاروباری ہیں اور کچھ زمیندار بھی ہیں، یہاں پانی کی بہت کمی رہتی ہے اس کے باوجود میرے خیال میں ان لوگوں کی قربانی کا معیار اللہ کے فضل سے بہت اچھا ہے۔ پھر پشاور ہے، پھر بہاولپور ہے، خانیوال ہے، ڈیرہ غازی خاں ہے۔ اور ضلعوں میں سیالکوٹ، سرگودھا، گوجرانوالہ، میرپورخاص، شیخوپورہ، بہاولنگر، حیدر آباد، نارووال، اوکاڑہ، سانگھڑ اور قصور۔
اس دفعہ مَیں نے یہاں یو۔ کے کا بھی تھوڑا سا جائزہ لیا ہے۔ آپ کو بھی ذرا تھوڑا سا جھنجوڑا جائے۔ دیکھتے ہیں اس جائزے کے بعد آپ شرمندہ ہوتے ہیں یا مجھے شرمندہ ہونا پڑے گا۔ بریڈ فوڑد کا جو جائزہ سامنے آیا ہے ان کی وصولی گزشتہ سال 14ہزار 500پاؤنڈ تھی، اس سال پچھلے سال سے ایک ہزار پاؤنڈ کم ہو گئی۔ قدم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف ہے، ترقی معکوس ہو گئی ہے۔ اور پچھلے سال انہوں نے پر ہیڈ(Per Head 49)پاؤنڈ سے زیادہ چندہ دیا تھا۔ اور اس سال وہ چندہ بھی گر کے 22 پاؤنڈ رہ گیا ہے۔ پھر تحریک جدید میں تعداد بھی نصف سے کم شامل ہے۔ ایک وجہ یہ پیش کریں گے کہ ہم مسجد بنا رہے ہیں جس کی خاطر بڑی قربانیاں ہو رہی ہیں۔ بڑی اچھی بات ہے، ضرور بنائیں لیکن مسجدیں دنیا میں ہر جگہ بن رہی ہیں اور قربانیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ پھر میں نے ایک اور جماعت برمنگھم کا بھی جائزہ لیا۔ اس میں بھی شامل ہونے والوں کی تعدادبہت کم ہے پچھلے سال یہاں 53.96 پاؤنڈ پر ہیڈ (Per Head) ادائیگی تھی اور اس سال شکر ہے 54.62ہے اور ٹوٹل میں بھی تقریباً سات آٹھ سو پاؤنڈ کی رقم کاتھوڑا اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ برمنگھم میں تو فی الحال کسی مسجد کا بہانہ بھی نہیں ہے۔
لندن میں میں نے ایک جائزہ یہ لیا کہ یہاں جو جماعتیں ہیں، میری خواہش تھی اور اس خواہش کے مطابق ہی نتیجہ نکلا ہے کہ ان میں سے مسجد فضل کی ادائیگی سب سے بہتر ہے۔ اور فی کس ادائیگی 101پاؤنڈ ہے۔ حالانکہ یہاں بھی وہی کمائی کرنے والے، اسی طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ تو یہ سب سے بڑھ کے ہے۔ اور میرا خیال ہے سارے انگلستان میں سب سے زیادہ بڑھ کے ادائیگی کرنے والے مسجد فضل کے حلقے ہیں اور انہوں نے ٹوٹل وصولی میں اضافہ بھی تقریباً ڈیڑھ ہزار سے زائد کا کیا ہے۔
بیت الفتوح والوں کا فی کس چندہ پچھلے سال سے گر گیا ہے۔ 34پاؤنڈ تھا اور اس سال 23 پاؤنڈ رہ گیا ہے۔ یہاں ان پر کون سا خاص بوجھ پڑا ہے۔
ٹوٹنگ کی جماعت کے چندہ دینے والوں کی تعداد تو بڑھ گئی، گزشتہ سال 255 چندہ دینے والے تھے اور اس سال 382 ہیں لیکن فی کس چندہ کی ادائیگی 4 پاؤنڈ کم ہو گئی ہے۔ تو یہ ہے آپ کا جائزہ۔ اب جماعتیں خود سوچ لیں۔ دنیا کے جائزے میں مَیں پہلے بتا چکا ہوں انگلستان تیسرے نمبر پر آیاہے۔ اس لحاظ سے آپ کاکچھ تھوڑا سا تسلی بخش ہے مگر اتنا بھی نہیں۔ تیسرے نمبر پرآنے کے باوجود بعض بڑی جماعتوں میں ادائیگی کم ہے۔
دنیا میں ایک جائزہ میں نے یہ لیا ہے کہ کس ملک نے فی کس زیادہ چندہ دیا ہے تو امریکہ کا 91پاؤنڈ اور U.K. کا 45.85 بنتا ہے۔ مسجدوں کی بات ہوئی تھی۔ اللہ کے فضل سے امریکہ کا رجحان بھی آج کل بڑی تیزی سے مسجدیں بنانے کی طرف ہے۔ انہوں نے کئی مساجد بنائی ہیں اور مزید بنانی ہیں، زمینیں خرید رہے ہیں۔ ٹھیک ہے وہاں بہت آمدنی والے لوگ بھی ہیں لیکن بہرحال قربانی بھی اس لحاظ سے بہت کر رہے ہیں۔ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے میں نے تحریک کی۔ اس میں انہوں نے بہت بڑی رقم دی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے ایمان اور اخلاص میں برکت ڈالے، آمدنیوں میں برکت ڈالے۔ تو انگلستان امریکہ کا نصف ہے، 45پاؤنڈ فی کس، جبکہ ڈالر اور پاؤنڈ کی جو آپس کی نسبت ہے وہ بھی نصف ہے، 2ڈالر ہوں تو ایک پاؤنڈ بنتا ہے۔ کینیڈا 26پاؤنڈ، ان میں بھی گنجائش ہے۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ مسجدیں بنا رہے ہیں، جلسہ گاہ بھی خریدی لیکن گنجائش وہاں موجود ہے۔ جرمنی 18پاؤنڈ، ان میں بھی کافی گنجائش ہے۔ تو ایک یہ ہے۔
پاکستان سے جو رپورٹ آئی ہے، وہ باقاعدہ دفتر اول دوم سوم کے لحاظ سے تفصیلی رپورٹ آتی ہے۔ ایک تو باہر کی جماعتوں کو بھی اپنی رپورٹس ان دفاتر کے حساب سے بھجوانی چاہئیں جن کا نام آپ کی قواعد کی کتاب میں Phaseیا Stageرکھا ہوا ہے۔ پہلے سال آسانی کے لئے مَیں جماعتوں کو کہتا ہوں کہ دفتر پنجم جو میرے دور میں شروع ہوا، جس کا مَیں نے اعلان کیا تھا، اس سے شروع کریں کہ اس میں گزشتہ تین سال میں کتنے لوگ شامل ہوئے اور آئندہ جو شامل ہوں گے ان کا اندراج ہو تاکہ پتہ لگے کہ اس دفتر میں کتنی تعداد ہے۔ اس کو مکمل کرکے پھر دوسرے دفاتر میں دیکھتے جائیں کہ کتنی کتنی تعداد ہے۔ یہ ریکارڈ درست ہونا چاہئے۔
تحریک جدید کے شروع میں جو بزرگ جماعت کی خدمت کرتے رہے، مَیں نے ان کے ناموں کو دیکھا تو دعا کی غرض سے اور اس لئے کہ ان کی اولادوں کوذرا احساس ہواور ان میں سے اگر کوئی خدمت نہیں کررہا تو ان میں احساس پیدا ہو اور وہ بھی آئندہ آگے بڑھیں۔ تو اس تحریک کے بعد 1935ء میں شروع کا جو پہلا دستہ گیا تھا اس میں مولوی غلام حسین صاحب ایازؔ سنگاپور گئے، صوفی عبدالغفور صاحب چین گئے۔ صوفی عبدالقدیر نیازؔ صاحب جاپان گئے، چوہدری محمد اسحاق صاحب سیالکوٹی ہانگ کانگ گئے، حافظ مولوی عبدالغفور صاحب جالندھری جاپان، حاجی احمد خان صاحب ایازؔ ہنگری و پولینڈ، محمد ابراہیم صاحب ناصر ہنگری، ملک محمد شریف صاحب گجراتی سپین و اٹلی، مولوی رمضا ن علی صاحب ارجنٹائن، مولوی محمددین صاحب البانیہ۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے مشورہ کرکے اور بالکل معمولی رقم دے کر جب ان کوبھیجا تھا تو اس وقت حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ مَیں نے مبلغین کی جوسیلیکشن کی ہے تو صرف یہ دیکھاتھا کہ جرأت سے کام کرنے والے ہیں، لیاقت کا زیادہ خیال نہیں رکھا تھا۔
پھر دوسرا گروپ گیا جس میں ملک عطاء الرحمان صاحب فرانس، چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ انگلستان، حافظ قدرت اللہ صاحب ہالینڈ، چوہدری اللہ دتہ صاحب فرانس، چوہدری کرم الٰہی صاحب ظفر سپین، چوہدری محمد اسحاق صاحب سپین، مولوی محمد عثمان صاحب اٹلی، اسی طرح ابراہیم خلیل صاحب اٹلی، غلام احمد صاحب بشیر ہالینڈ (شامل تھے)۔
مبلغین کے لئے بھی مَیں یہاں یہ بھی بتا دوں کہ یہ فوری فیصلہ ہوا کہ بشارت احمد صاحب نسیم کو غانا بھجوانا ہے۔ ان کو صرف چند گھنٹوں کا وقت ملا کہ چند گھنٹوں میں تیار ہوں اور غانا کے لئے روانہ ہو جائیں۔ آجکل ہوتا ہے کہ ہمیں اتنی تیاری کا وقت مل جائے، یہ ہو، وہ ہو۔ تو بہرحال یہ لوگ بڑی قربانیاں کرنے والے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس میں پڑھنا چاہتا ہوں۔ فرماتے ہیں۔ ’’میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے۔ اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے۔ اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریّت کو نہایت ضرورت ہے۔ سو میں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیّبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت و طاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے اور پھر مَیں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے ان علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خداتعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں ‘‘۔ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 516)
ایک تاریخی واقعہ ہے جو مَیں بتانا چاہتا ہوں، جس کا ہم میں سے بہتوں کو علم نہیں ہو گا اور دعا کی بھی تحریک ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس ملک میں احمدیت کو جلد پھیلائے۔ 1946ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے الفضل میں ایک اعلان شائع ہوا تھا، اس کا کچھ حصہ میں پڑھتا ہوں۔ فرماتے ہیں۔ ’’ اٹلی سے عزیزم ملک محمد شریف صاحب مبلغ نے اطلاع دی ہے کہ شریف دوتسا ایک البانوی سرکردہ اور رئیس جو البانیہ اور یوگوسلاویہ دونوں ملکوں میں رسوخ اور اثر رکھتے تھے (دونوں ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں اور البانیہ کی سرحدپر رہنے والے یوگو سلاویہ کے باشندے اکثر مسلمان ہیں اور بارسوخ ہیں۔ ا ور دونوں ملکوں میں ان کی جائیدادیں ہیں۔ عزیزم مولوی محمدالدین صاحب اس علاقے میں رہ کر تبلیغ کرتے رہے ہیں۔ ان کے ذریعہ سے وہاں کئی احمدی ہوئے، بعد میں مسلمانوں کی تنظیم سے ڈر کرانہیں یوگو سلاوین حکومت نے وہاں سے نکال دیا اور وہ اٹلی آ گئے) اور جو یوگو سلاویہ کی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی طرف سے نمائندے تھے، جنگ سے پہلے احمدی ہو گئے تھے اور بہت مخلص تھے۔ انہیں البانیہ کی موجودہ حکومت نے جو کیمونسٹ ہے، ان کے خاندان سمیت قتل کروا دیا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ کیمونسٹ طریق حکومت کے مخالف تھے اور جومسلمان اس ملک میں اسلامی اصول کو قائم رکھنا چاہتے تھے ان کے لیڈر تھے۔ انا للّٰہ واناالیہ راجعون‘‘۔
پھر آگے فرماتے ہیں کہ’’ مرتے تو سب ہی ہیں اور کوئی نہیں جو الٰہی مقررہ عمر سے زیادہ زندہ رہ سکے۔ مگر مبارک ہے وہ جو کسی نہ کسی رنگ میں دین کی حمایت کرتے ہوئے مارا جائے۔ شریف دوتسا کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ یورپ کے پہلے احمدی شہید ہیں اور اَلْفَضْلُ لِلْمُتَقَدِّمِ کے مقولہ کے ماتحت اپنے بعد میں آنے والے شہداء کے لئے ایک عمدہ مثال اور نمونہ ثابت ہو کر وہ ان کے ثواب میں شریک ہوں گے…‘‘۔
پھر فرمایا کہ’’ یہ واقعہ ہمارے لئے تکلیف دہ بھی ہے اور خوشی کا موجب بھی۔ تکلیف کا موجب اس لئے کہ ایک بارسوخ آدمی جو جنگ کے بعد احمدیت کی اشاعت کا موجب ہو سکتا تھا، ہم سے ایسے موقعہ پر جدا ہو گیا جب ہماری تبلیغ کا میدان وسیع ہو رہا تھا اور خوشی کا اس لئے کہ یورپ میں بھی احمدی شہداء کا خون بہایا گیا۔ وہ مادیت کی سرزمین جو خداتعالیٰ کو چھوڑ کر دور بھاگ رہی تھی اور وہ علاقہ جو کیمونزم کے ساتھ دہریت کو بھی دنیا میں پھیلا رہا تھا وہاں خدائے واحد کے ماننے والوں کا خون بہایا جانے لگا ہے۔ یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ اس کا ایک ایک قطرہ چلاّ چلاّ کر خداتعالیٰ کی مدد مانگے گا۔ اس کی رطوبت کھیتیوں میں جذب ہو کر وہ غلّہ پیدا کرے گی جو ایمان کی راہ میں قربانی کرنے کے لئے گرم اور کھولتا ہوا خون پیدا کرے گا……‘‘۔
پھر فرمایا’’ اب یورپ میں توحید کی جنگ کی طرح ڈال دی گئی ہے۔ مومن اس چیلنج کو قبول کریں گے اور شوق شہادت میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کا مددگار ہو۔ اور سعادت مندوں کے سینے کھول دے……‘‘۔
فرماتے ہیں ’’ اے ہندوستان کے احمدیو!ذرا غور تو کرو تمہاری اور تمہارے باپ دادوں کی قربانیاں ہی یہ دن لائی ہیں۔ تم شہید تو نہیں ہوئے مگر تم شہید گر ضرور ہو۔ افغانستان کے شہداء ہندوستان کے نہ تھے۔ مگر اس میں کیا شک ہے کہ انہیں احمدیت ہندوستانیوں ہی کی قربانیوں کے طفیل حاصل ہوئی۔ مصر کا شہید ہندوستانی تو نہ تھا مگر اسے بھی ہندوستانیوں ہی نے نور احمدیت سے روشناس کروایا تھا۔ اب یورپ کا پہلا شہید گو ہندوستانی نہ تھا مگر کون تھا جس نے اس کے اندر اسلام کا جذبہ پیدا کیا۔ کون تھا جس نے اسے صداقت پر قائم رہنے کی ہمت دلائی؟ بے شک ایک ہندوستانی احمدی۔ اے عزیزو! فتح تمہاری سابق قربانیوں سے قریب آ رہی ہے۔ مگر جوں جوں وہ قریب آرہی ہے تمہاری سابق قربانیاں اس کے لئے ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔ نئے مسائل نئے زاویۂ نگاہ چاہتے ہیں۔ نئے اہم امو ر ایک نئے رنگ کی قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں …… ‘‘۔
پھر آپ نے فرمایا ’’پس اے عزیزو! کمریں کس لو اور زبانیں دانتوں میں دبا لو۔ جو تم میں سے قربانی کرتے ہیں وہ اور زیادہ قربانیاں کریں۔ اپنے حوصلہ کے مطابق نہیں، دین کی ضرورت کے مطابق اور جو نہیں کرتے قربانی کرنے والے انہیں بیدار کریں ‘‘۔ اور تحریک جدید میں زیادہ شامل کریں۔ (روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مورخہ 12؍جولائی 1946ء)
اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے براہ راست مخاطب ہندوستان کے احمدی تھے جن کی اکثریت تھی اور اس وقت احمدیوں کی اکثریت تھی بھی ہندوستان میں سے، وہیں خطبہ نشر ہو تا تھا۔ ایم ٹی اے کاکوئی نظام تو تھا نہیں۔ یہ 1946ء کی بات ہے، اس کے بعد ان کی اکثریت پاکستان میں آباد ہو گئی یا ان کی اولادیں اس وقت پاکستان میں آباد ہیں یا اِس وقت ان میں سے بعض کی اولادیں مغربی ممالک میں آکر آباد ہو گئی ہیں یا آباد ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تو پاکستان میں رہنے والے احمدیوں نے آج بھی اس پیغام کو یاد رکھا ہوا ہے۔ جیسا کہ میں نے ادائیگیوں کی صورتحال اور پوزیشن بتائی ہے، اس سے واضح ہے۔ باوجود غربت کے، باوجود روپے کی ویلیو (Value) نہ ہونے کے انہوں نے اتنا بڑاقربانی کا ایک معیار قائم کیا ہے کہ دیکھ کے حیرت ہوتی ہے۔
جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ پیغام دیا اس وقت شاید احمدیت کے نام پر ہندوستان میں کوئی احمدی شہید نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس کے بعد اس پیغام کے سننے والوں میں سے بھی بعض شہداء کی صف میں شامل ہو گئے اور بے خوف و خطر خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دئیے اور ان کی اولادوں میں سے بھی بہت سوں نے اللہ کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں اور ابھی تک کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اور جیسا کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا کہ اپنی جانوں کے ساتھ اپنے مال بھی بے دریغ خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں۔ پس ان لوگوں کی اولادوں اور ان خاندانوں سے وابستہ احمدیوں کو جو آج دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں اور مالی لحاظ سے بہت بہتر ہیں، مَیں اس طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اور آپ بھی ان انعامات کے وارث تبھی ٹھہریں گے جب اپنی قربانیوں کے معیار میں بہتری پیدا کریں گے اور اس روح کو اپنے اندر قائم کریں گے کہ آج دنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کے لئے ہم نے ہر قسم کی قربانیاں دینی ہیں۔ اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں وہاں کے مقامی باشندوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ آپ نے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ میں سے بہت سوں نے ہر قسم کی قربانیوں کے اعلیٰ ترین معیار بھی قائم کئے ہیں تو اپنے ہم وطنوں میں جو احمدیت قبول کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش میں آ گئے ہیں یہ روح پیدا کریں کہ اگر پہلوں سے ملنا ہے توپھر آخرین کی جماعت کے لئے ان قربانیوں کو بھی ہنسی خوشی پیش کرنا ہو گا جن قربانیوں کا اللہ تعالیٰ ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔ پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بڑھ چڑھ کر اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں پیش کریں تاکہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام تمام دنیا کو باحسن پہنچایا جا سکے۔
پس آج دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ دین کی اشاعت کے لئے اپنے پاک مالوں میں سے قربانی پیش کرنے کے لئے نہ صرف تیار رہیں بلکہ پہلے سے بڑھ کر پیش کریں۔ اور اس کے بدلے میں یقینا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اسی طرح وارث بنیں گے جس طرح وہ لوگ بنے جنہوں نے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔
مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کی طرح تمام دنیا میں ہر احمدی کو خواہ کسی بھی ملک یا نسل کا ہے خلافت کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے ہر قسم کی قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑ ھ کر قربانیاں پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔ لیکن میں پاکستانی احمدیوں سے امید رکھتاہوں کہ وہ جو یہ اعزاز حاصل کر چکے ہیں اور گزشتہ کئی سالوں سے کرتے آ رہے ہیں حتی المقدور کوشش کریں گے کہ یہ ان کے پاس ہی رہے۔ آپ کی قربانیوں کی تاریخ جماعت احمدیہ کی بنیاد کے دن سے ہے جبکہ باقی دنیا کی تاریخ احمدیت اتنی پرانی نہیں اور اسی طرح قربانیوں کی تاریخ اتنی پرانی نہیں۔ پس اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ آپ کی ہر قربانی کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ پھل پھول بخشاہے اور آئندہ قربانیاں بھی انشاء اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر پھل پھول لائیں گی۔ آج سب سے زیادہ جان کی قربانیاں پیش کیں تو پاکستانی احمدیوں نے کیں۔ مسلسل ذہنی ٹارچر اور تکلیفیں برداشت کی ہیں تو پاکستانی احمدیوں نے کی ہیں۔ باوجود نامساعد حالات کے مالی قربانیوں میں بڑھنے کے معیار کو پاکستانی احمدیوں نے قائم رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی یہ قربانیاں ضائع نہیں کرے گا۔ انشاء اللہ۔ بلکہ کامیابیوں کے آثار بڑے واضح طور پر نظرآنے لگ گئے ہیں اور انشاء اللہ وہ دن دور نہیں کہ جب راستے کی ہر روک خس و خاشاک کی طرح اڑ جائے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی قربانیوں کو دعاؤں میں سجا کر پیش کریں اور پیش کرتے رہیں اور رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا کی آواز ہر دل سے نکلتی رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
فرمودہ مؤرخہ 03؍نومبر 2006ء (03؍نبوت 1385ھش) بمقا م مسجد بیت الفتوح، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔