فیضان رحمانیت، یہ فیض عام ہے جو ہر ایک کو پہنچ رہاہے
خطبہ جمعہ 15؍ دسمبر 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:
ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ ۚ ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ(الحشر:23)
وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ غیب کا جاننے والا ہے اور حاضر کا بھی۔ وہی ہے جو بن مانگے دینے والا، بے انتہا رحم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
گزشتہ خطبوں میں مَیں صفت ربّ کا ذکر کر رہا تھا۔ اس صفت کا قرآن کریم کی پہلی سورۃ میں ہی ذکر شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ مَیں نے بتایاتھا بلکہ اس کی ابتداء میں ہی، پہلی صفت جو اللہ تعالیٰ کی بتائی گئی ہے وہ ربّ ہے۔ اور اس صفت ربّ کا قرآن کریم میں ابتداء سے لے کر آخر تک مختلف رنگ میں ذکر ہوا ہے۔ اس کی کچھ مثالیں مَیں نے پیش کی تھیں۔ بہرحال آج جس صفت کا ذکر مَیں کرنے لگا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمن ہے۔ جس کا ذکرپہلی سورۃ یعنی سورۃ فاتحہ میں صفت ربّ کے بعد کیا گیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ خدا کا نام سورۃ فاتحہ میں بعدصفت ربّ العالمین، رحمن آیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰن‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں :’’فیضان رحمانیت ایسا تمام ذی روحوں پر محیط ہو رہا ہے کہ پرندے بھی اِس فیضان کے وسیع دریا میں خوشی اور سرور سے تیر رہے ہیں اور چونکہ ربوبیت کے بعد اسی فیضان کا مرتبہ ہے اس جہت سے اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں ربّ العالمین کی صفت بیان فرما کر پھر اس کے رحمن ہونے کی صفت بیان فرمائی تا ترتیب طبعی ان کی ملحوظ رہے‘‘۔
اس بات کو کھولنے کے لئے کہ صفت رحمانیت کیا ہے اور کس طرح تمام ذی روح اس سے فیض حاصل کررہے ہیں اس کے لغوی معنے اور مختصر تفسیرمیں زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں اور ایک آدھ پرانے مفسرین سے بھی ذکر کروں گا۔
مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ رحمت ایسی نرمی کو کہتے ہیں جو اس شخص پر احسان کئے جانے کی مقتضی ہو۔ یعنی ایسی نرمی ہو جس سے کسی شخص پر احسان کیا جائے، اس کا تقاضا کرتی ہو۔ ضرورت ہو احسان کی جس پر رحم کیا جا رہا ہے۔ کبھی رحمت کا لفظ محض نرمی کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، صرف احسان نہیں ہے بلکہ نرمی ہے اور کبھی محض ایسے احسان کے معنے میں استعمال ہوتا ہے جس کے ساتھ نرمی شامل نہ ہو، احسان تو ہو نرمی نہ ہو۔ اس کی مثال انہوں نے دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہتے ہیں کہ رَحِمَ اللّٰہُ فُلَانًا یعنی اللہ تعالیٰ نے فلاں پر احسان فرما دیا ہے۔ اور جب رحمت کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو محض احسان کے معنے میں ہی آتا ہے اور نرمی اور سختی کے جذبات کو انہوں نے انسان کے ساتھ مختص قرار دیا ہے۔
پھر کہتے ہیں کہ اگر انسانوں کے حوالے سے آئے تو اس سے مراد نرمی کرنا ہے اور شفقت کے جذبات کے ساتھ مائل ہونا ہے۔ پھر کہتے ہیں اسی مفہوم میں حدیث قدسی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے رِحم کو پیدا کیا تو فرمایامَیں رحمن ہوں توُ رِحم ہے، مَیں نے تیرا نام اپنے نام میں سے بنایا ہے۔ پس جس نے تجھے جوڑا مَیں بھی اس سے اپنا تعلق جوڑوں گا اور جس نے تجھے کاٹا مَیں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔ تو یہ رحم کا رحمی رشتہ سے تعلق ہے۔ یہ جو قریبی رشتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کو جوڑا گیا ہے۔
پھر کہتے ہیں کہ جو حدیث پڑھی گئی ہے اس میں اس مضمون کی طرف بھی اشارہ ہے کہ رحمت دو معنوں پر مشتمل ہے، ایک اَلرِّقَّۃ نرمی اور دوسرے اَلْاِحْسَان، احسان کرنا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ رَحْمٰنُ الدُّنْیَا ہے اور رَحِیْمُ الْاٰخِرَۃہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا احسان اس دنیا میں مومن و کافر ہر ایک پر عام ہے جبکہ آخرت میں صرف مومنین سے ہی مختص ہو گا اور اس مضمون کے بارے میں کہتے ہیں کہ مندرجہ ذیل آیت ہے۔ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ (الاعراف:157) کہ میری رحمت ہر چیزپر حاوی ہے۔ پس مَیں ضرور اس کو ان لوگوں کے لئے لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ پھر اقربُ الموارد میں لکھا ہے کہ رَحِمَ کا معنی ہے اس کے لئے دل میں نرمی کے جذبات پیدا ہوئے، اسے بخش دیا اور مہربانی کے جذبات کے ساتھ اس کی طرف مائل ہوا۔ اِسْتَرْحَم َ اس سے مہربانی اور شفقت چاہی۔ رِحم جس طرح کہ مَیں نے پہلے بتایا تھا انہوں نے بھی اسی طرح لکھا ہے کہ رحم ماں کے پیٹ میں بچہ کی نشوونما پانے کی جگہ، پھر قرابت، قریبی رشتہ۔ اَلرَّحْمٰن کے بارے میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ میں سے ایک ہے اور صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہے کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اَلرَّحْمَۃ دل کی نرمی، شفقت کے ساتھ میلان کا جذبہ جو دوسرے سے حسن سلوک کرنے اور عفو کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔
پھر لسان العرب میں لکھا ہے اَلرَّحْمَۃُ : دل کی نرمی اور شفقت کے جذبات کے ساتھ میلان اور مغفرت۔ انہوں نے رحمان اور الرحیم دو صفات لکھی ہیں کیونکہ روٹ ایک ہے۔ اس میں لکھتے ہیں کہ ان میں سے رحمن مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی اس کے معنے میں کثرت پائی جاتی ہے، وہ اس طرح کہ اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے اور اسے گھیرے ہوئے ہے۔ پھر کہتے ہیں رحمن صفت صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ رحمت کا لفظ اگر انسانوں کے حوالے سے استعمال ہو تو اس کے معنے ہیں دل کی نرمی اور دل کا مہربانی کے ساتھ مائل ہونا۔ اگر رحمت کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی مہربانی، احسان اور رِفق۔
پھر یہ ایک اور معنے دیتے ہیں اَلْغَیْث یعنی ضرورت کے وقت آنے والی فائدہ مند بارش کو بھی اللہ تعالیٰ نے رَحْمَۃ قرار دیا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہی برستی ہے۔ تو ان سب سے یہ مطلب ہے یا جو اس کی تعریف وضع ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ رحمن خدا کے معنے ہیں انعام کرنے والا اور فضل و احسان کرنے والا، مہربانی سے توجہ کرنے والا اور رزق دینے والا۔ اور یہ جواحسان اور انعام اور فضل اور مہربانی کرنا اور رزق دینا ہے یہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ’’فیضان رحمانیت ہر ذی روح پر محیط ہو رہا ہے‘‘۔
علامہ فخرالدین رازی لکھتے ہیں کہ اَلرَّحْمٰن وہ ایسے انعام کرنے والی ہستی ہے کہ بندوں میں ایسے انعامات کی مثال ممکن نہیں۔ رحمانیت کے جلوے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ابراہیم بن ادھم کے بارے میں بیان ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مَیں کسی کے ہاں مہمان تھا تو انہوں نے میرے سامنے کھانا رکھا۔ کھانا کھا رہے تھے کہ اتنے میں ایک کوّا آیا اور میرے سامنے سے ایک روٹی اُٹھا کر لے گیا۔ کہتے ہیں کہ مَیں بڑا حیرت زدہ ہو کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا کہ دیکھوں یہ کیا کرتا ہے، کہاں لے جاتا ہے۔ تو وہ ایک ٹیلے پر اترا جہاں ایک آدمی بندھا ہوا پڑا تھا، کسی آدمی کو باندھ کے کسی اونچی جگہ پر کسی اونچے ٹیلے یا پہاڑی پہ رکھا ہوا تھا، اس کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ تو مَیں نے دیکھا کہ کوّے نے روٹی اس بندے کے آگے پھینک دی۔ (تفسیر کبیر از علامہ فخرالدین رازی تفسیر سورۃ الفاتحہ الفصل الثالث فی تفسیر قولہ الرحمن الرحیم)
رحمانیت کا یہ ایک جلوہ انہوں نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے۔
پھر ایک واقعہ انہوں نے لکھا ہے کہ مَیں دریا کے کنارے کھڑا تھا۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ موٹاسا بچّھو آیااور دریا میں ایک بڑا سامینڈک تھا، بچّھو اس کے اوپر بیٹھ گیا۔ کہتے ہیں کہ مَیں بھی کشتی میں بیٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا کہ دیکھوں یہ کہاں جاتے ہیں۔ تو عجیب واقعہ ہو اہے کہ اگلے کنارے پر پہنچ کے بچّھو وہاں سے اترا اور ایک طرف چل پڑا مَیں بھی پیچھے پیچھے گیا، تو دیکھا کہ درخت کے نیچے ایک آدمی سو رہا تھا اور ایک سانپ اس پہ حملہ کرنے والا تھا، بچّھو نے جا کر اس کو ڈنگ مارا اور سانپ نے بچّھو کو کاٹا۔ دونوں مر گئے اور آدمی بچ گیا۔ تو یہ بھی انہوں نے ایک قصے میں بیان کیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنی رحمانیت کے جلوے دکھاتا ہے۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ رب کے بعد دوسری صفت رحمن کی ہے اور بعض معنے ایسے ہیں جو ربّ میں بھی آ رہے تھے۔ ربّ کے معنے اصل یہ ہیں کہ تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا، تمام زمین و آسمان کی پیدائش اس میں شامل ہے اور رحمان کے معنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ کئے ہیں کہ ’’وہ بغیر کسی اجر کے نعمتیں مہیا کر رہا ہے‘‘۔ اس کی ایک مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ نے یہ دی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ سورہ فاتحہ میں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ بیان ہوئی ہیں یعنی جوچا رصفات بیان ہوئی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان چاروں صفات کے مظہر کامل تھے۔ مثلاً پہلی صفت رب العالمین ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مظہر ہوئے جب کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(الانبیاء:108) جیسے ربّ العالمین عام ربوبیت کو چاہتا ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات اور آپ کی ہدایت و تبلیغ کل دنیا اور کل عالموں کے لئے قرار پائی۔
پھر دوسری صفت رحمن کی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس صفت کے بھی کامل مظہر ٹھہرے کیونکہ آپ کے فیوض و برکات کا کوئی بدل اور اجر نہیں۔ یہاں ایک اور بات ہو گئی، پیچھے کسی لغت میں کسی بیان کرنے والے مفسرنے لکھا کہ رحمن صرف خدا کے ساتھ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ رحمن کی صفت انسانوں میں بھی ہو سکتی ہے اور انسان کامل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے زیادہ ہے۔ بلکہ آپؑ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ ایک عام آدمی بھی اس کا نمونہ بنتا ہے اور اس کو یہ نمونہ دکھانا چاہئے۔ اس کے لئے آپؑ نے مثال دی ہے کہ جو کام تم بغیرکسی اجر کے کرتے ہو، لوگوں کی بھلائی کے لئے خدمت خلق کا کام کرتے ہو وہ اسی صفت کے تابع ہو کر کرتے ہو، اور کرنا چاہئے۔ بلکہ ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ جنہوں نے میری بیعت کی ہے اگر وہ اس صفت کو نہیں اپناتے تو اپنی بیعت میں اور وعدے میں جھوٹے ہیں۔ پس اس طرف بھی ہر احمدی کو بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے۔
خدمت خلق کے سلسلے میں ضمناً بات آ گئی ہے تو کہہ دوں کہ جماعت میں غریبوں کی شادیوں کے سلسلہ میں، علاج کے سلسلے میں، تعلیم کے سلسلے میں ایک نظام رائج ہے۔ بچوں کی شادیوں کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مریم فنڈ جاری فرمایا تھا۔ یہ بڑی اچھی، بہت بڑی خدمت خلق ہے، جماعت کے افراد کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ پھر مریضوں کا علاج ہے، خاص طور پر غریب ملکوں میں، پاکستان میں بھی افریقن ممالک میں بھی اور دوسرے غریب ممالک میں بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ اس فنڈ میں خدمت خلق کے جذبہ سے پیسے دیں، چندہ دیں صدقات دیں تو اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو اپنانے کی وجہ سے اس کی رحمانیت سے بھی زیادہ سے زیادہ فیض پائیں گے۔ پھر اسی طرح تعلیم ہے، بچوں کی تعلیم پر بڑے اخراجات ہوتے ہیں، بڑی مہنگائی ہے۔ اس کے لئے جن کو توفیق ہے ان کو دینا چاہئے۔ اسی طرح بات چلی ہے تو مَیں ذکر کر دوں پاکستان میں بھی، ربوہ میں بھی اور افریقہ میں بھی جماعت کے ہسپتال ہیں، وہاں ڈاکٹروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو گو کہ تنخواہ بھی مل رہی ہوتی ہے اور ایک حصہ بھی مل رہا ہوتا ہے لیکن شاید باہر سے کم ہو۔ تو بہرحال خدمت خلق کے جذبے کے تحت ڈاکٹروں کو بھی اپنے آپ کو وقف کرنا چاہئے۔ چاہے تین سال کے لئے کریں، چاہے پانچ سال کے لئے کریں یاساری زندگی کے لئے کریں۔ لیکن وقف کرکے آگے آنا چاہئے اور یہی چیزیں ہیں جو پھر ان کو اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کریں گی اور ان پر اتنے فضل ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ان پر جلوہ گر ہو گی۔ اور پھرایسے ایسے طریقوں سے اللہ تعالیٰ رحمانیت کی صفت دکھاتا ہے، جیسا کہ مَیں نے پہلے دو واقعات بیان کئے کہ کس طرح مدد کرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’لفظ الرحمن کے ایک اپنے بھی خاص معنے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اذن الٰہی سے صفت الرحمن کا فیضان انسان اور دوسرے حیوانات کو قدیم زمانے سے حکمت الٰہیہ کے اقتضاء اور جو ہر قابل کی قابلیت کے مطابق پہنچتا رہا ہے‘‘۔ کیا ہے رحمن کاخاص معنی؟ کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے صفت الٰہی کا، صفت رحمان کاجو فیض ہے، جو فائدہ ہے و ہ انسان کو بھی پہنچ رہا ہے اور حیوانات کو بھی پہنچ رہا ہے اور ہمیشہ سے پہنچ رہا ہے یا جس چیز کو بھی ضرورت ہے، یہ عام فیض ہے۔ فرمایا’’حکمت الٰہیہ کے اقتضاء اور جو ہر قابل کی قابلیت کے مطابق پہنچتا رہا ہے، نہ کہ مساوی تقسیم کے طور پر۔ اور اس صفت رحمانیت میں انسانوں یا حیوانوں کے قویٰ کے کسب اور عمل اور کوشش کا کوئی دخل نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا خالص احسان ہے‘‘۔ تو یہ فیض ہے جوعام ہے، ہر ایک کو پہنچ رہاہے۔
پھر فرمایا کہ’’جس سے پہلے کسی کا کچھ عمل بھی موجودنہیں ہوتا اور یہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک عام رحمت ہے، جس میں ناقص یا کامل شخص کی کوششوں کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ صفت رحمانیت کا فیضا ن کسی عمل کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ کسی استحقاق کا ثمرہ ہے‘‘ نہ کسی کا حق ہے جس کا یہ پھل مل رہا ہے’’ بلکہ یہ ایک خاص فضل ایزدی ہے جس میں فرمانبرداری یا نافرمانی کا دخل نہیں ‘‘۔ بعض چیزیں اللہ تعالیٰ کی ہیں، جن سے فرمانبردار بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور نافرمان بھی بلکہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے جو مشرک ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ کہتا ہے مَیں نہیں بخشوں گا وہ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں ’’اور یہ فیضان ہمیشہ خدا تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کے مطابق نازل ہوتا ہے، اس میں کسی اطاعت، عبادت، تقویٰ اور زہد کی شرط نہیں۔ اس فیض کی بنا مخلوق کی پیدائش، اس کے اعمال، اس کی کوشش اور اس کے سوال کرنے سے پہلے ہی رکھی گئی ہے۔ اس لئے اس فیض کے آثار انسان اور حیوان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ فیض تمام مراتب وجود اور زمان و مکان اور حالتِ اطاعت و عصیان میں جاری و ساری رہتا ہے‘‘۔ یہ فیض جو ہے یہ ہر حالت میں جاری ہے۔ اطاعت کرو، گناہ کرو، نافرمانی کرو، ہر حالت میں جاری ہے۔ فرمایا کہ’’کیا آپ نہیں دیکھتے کہ خداتعالیٰ کی رحمانیت نیکو کاروں اور ظالموں سب پر وسیع ہے۔ اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کا چاند اور اس کا سورج اطاعت گزاروں اور نافرمانوں سبھی پر چڑھتا ہے۔ اور خداتعالیٰ نے ہر ایک چیز کو اس کے مناسب حال قویٰ کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اور اس نے ان سب کے معاملات کا ذمہ لیاہے۔ اور کوئی بھی جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمّہ ہے خواہ وہ آسمانوں میں ہو یا زمین میں۔ اُسی نے ان کے لئے درخت پیدا کئے اور ان درختوں سے پھل پھول اور خوشبوئیں پیدا کیں۔ اور یہ ایسی رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی پیدائش سے پہلے ہی ان کیلئے مہیا فرمایا۔ اس میں متقیوں کیلئے نصیحت اور یاد د ہانی ہے۔ یہ نعمتیں بغیر کسی عمل کے اور بغیر کسی حق کے اس بے حد مہربان اور عظیم خالق عالم کی طرف سے عطا ہوئی ہیں اور اس عالی بارگاہ سے ایسی اور بھی بہت سی نعمتیں بخشی گئی ہیں جو شمار سے باہر ہیں۔ مثلاً صحت قائم رکھنے کیلئے ذرائع پیدا کرنا اور ہر بیماری کیلئے علاج اور دواؤں کا پیدا کرنا، رسولوں کا مبعوث کرنا اور انبیاء پر کتابوں کا نازل کرنا، یہ سب ہمارے رب ارحم الراحمین کی رحمانیت ہے۔ یہ خالص فضل ہے جو کسی کام کرنے والے کے کام یا گریہ و زاری یا دعا کے نتیجے میں نہیں ہے‘‘۔ (اعجاز المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ95-92 تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اوّل صفحہ42تا44)
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جس طرح رحمان خدا ہماری دنیاوی ضروریات پوری کر رہا ہے ان کے لئے ہمیں مختلف چیزوں سے نوازتا ہے اور اس کا یہ فیض عام ہے۔ اس کی پیدا کی ہوئی بعض چیزوں سے امیر و غریب سب برابر کا حصہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی خداتعالیٰ نے اپنی صفت رحمانیت کے تحت ہی انسانوں کی اصلاح کے لئے ان کو نیکیوں پر قائم رکھنے کے لئے سلسلہ نبوت و رسالت جاری فرمایا ہوا ہے۔
قرآن کریم میں بے شمار آیات میں اس صفت رحمن کا ذکر ہے اور اس حوالے سے بہت سی جگہوں پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ انبیاء نے بھی جب بھی نیکیوں کی تلقین کی ہے ہمیشہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر یہی اعلان کیا ہے کہ ہم جو بھی تمہیں نیکی کی باتیں بتا رہے ہیں، اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، اس محسن کی طرف بلا رہے ہیں، رحمن خدا کی طرف بلا رہے ہیں اس کے بدلے میں ہم تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے بلکہ یہ سب کچھ تمہاری بھلائی کے لئے تمہیں بتایا جا رہا ہے کہ صرف اس دنیا کے انعاموں سے فائدہ نہ اٹھاتے رہو، ناشکرے نہ بنو بلکہ اس کی طرف جھکو بھی۔ ٹھیک ہے کہ خداتعالیٰ کی رحمانیت کے نظارے اس دنیا میں ہر ایک کے لئے ہیں اور وہ دکھاتا چلا جائے گا چاہے اس کا شکر گزار بن رہے ہو یا نہیں۔ اس کی بعض چیزیں عام ہیں۔ ہر ایک کے لئے اس کا فیض ہے۔ لیکن یہ چیزیں اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئیں یا مائل کرنے والی ہونی چاہئیں کہ اس کی عبادت کرو، اس کے حکموں پر عمل کرو۔ تواللہ تعالیٰ نے ہر جگہ یہی فرمایا ہے کہ تمہاری جو بحث ہو رہی ہے کہ انکار کے باوجود، میری نافرمانیوں کے باوجود، جس سے ہر ایک فیض پا رہا ہے یہ اس صفت رحمانیت کا جلوہ ہے۔ اگر رحمانیت نہ ہوتی توانسانوں کی اکثریت اپنے ظلموں کی وجہ سے تباہ ہو جاتی۔
ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے یوں ذکر فرمایا ہے کہ کَذٰلِکَ اَرْسَلْنٰـکَ فِیْ اُمَّۃٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِھَا اُمَمٌ لِّتَتْلُوَا عَلَیْھِمُ الَّذِیْ اَوْحَیْنَااِلَیْکَ وَھُمْ یَکْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰن قُلْ ھُوَ رَبِّیْ لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابِ (الرعد:31) یعنی اسی طرح ہم نے تجھے ایسی امت میں بھیجا جس سے پہلے کئی امتیں گزر چکی تھیں تاکہ تو ان پر وہ تلاوت کرے جو ہم نے تیری طرف وحی کیا حالانکہ وہ رحمن کا انکار کر رہے ہیں، تو ُکہہ دے وہ میرا رب ہے۔ میرا کوئی معبود اس کے سوا نہیں۔ اس پر مَیں توکل کرتا ہوں اس کی طرف میرا عاجزانہ جھکنا ہے۔ اس آیت سے دو آیتیں پہلے کافروں نے سوال اٹھایا تھا کہ ہمارے انکار کی وجہ سے ہمیں نشان کیوں نظر نہیں آتا؟ تو اس کا ایک جواب تو وہیں اسی وقت دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہلاک کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، بعض دفعہ نشان دکھا کر ہدایت دیتاہے۔ تو یہاں پر یہ بتایا کہ اے انکار کرنے والو!تم لوگ اپنے انکار کے بدلے میں سزا یا نشان چاہتے ہو تو واضح ہو کہ خداتعالیٰ کی جو صفت رحمانیت ہے یہ نشانات کوٹال رہی ہے۔ اور تم یہ کہہ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ نشان کیوں نہیں دکھاتا؟ تو یہ صرف اس لئے نہیں ہو رہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں مہلت دے رہا ہے بلکہ اپنی رحمانیت کے جلوے دکھا رہا ہے۔ ورنہ اگر یہ صفت نہ ہوتی تو تمہاری حرکتیں دیکھ کر کبھی کا میں تمہیں تباہ و برباد کر چکا ہوتا۔
پھر حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کا ذکر ہے۔ جب انہوں نے رحمان خدا کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنایا تو حضرت ہارون ؑ نے انہیں رحمن خدا کا حوالہ دے کر توجہ دلائی تھی کہ وَلَقَدْ قَالَ لَھُمْ ھَارُوْنُ مِنْ قَبْلُ یٰقُوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْآ اَمْرِیْ (طٰہٰ: 91) اس کا ترجمہ ہے کہ حالانکہ ہارون ؑ اس سے پہلے ان سے کہہ چکا تھا کہ اے میری قوم تم اس کے ذریعہ سے آزمائے گئے ہو یقینا تمہارا رب بے انتہا رحم کرنے والا ہے۔ پس تم میری پیروی کرو اور میری بات مانو۔
تو حضرت ہارون نے یہی کہا کہ رحمن خدا کو چھوڑ کر اس آزمائش اور ابتلاء میں کیوں پڑ رہے ہو۔ بچھڑے کو معبود بنا کر، شرک قائم کرکے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کیوں دعوت دے رہے ہو۔ اتنے نظار ے دیکھنے کے بعد بھی، اتنے انعامات دیکھنے کے بعد بھی تمہیں عقل نہیں آ رہی۔ اللہ تعالیٰ نے تو بہت بڑا احسان کیا کہ اپنی رحمانیت کے جلوے تمہیں دکھا رہا ہے، مختلف موقعوں پرتمہیں دکھائے اور تم نے اس کو چھوڑ کر ایک کھوکھلی چیز کو معبود بنایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت جو ہے اس کی وجہ سے تم لوگ بچے ہو ئے ہو ورنہ یہ جو حرکت ہے وہ تمہیں تباہ کرنے والی حرکت ہے۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے جس سے تباہ ہو سکتے ہو۔ اور فرماتے ہیں کہ عقل کرو اور میری پیروی کرو۔ میری بات مانو اور سیدھے راستے پر آ جاؤ۔
پس یہ رحمان خدا کے احسان ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیاء کے ذریعہ سے قوموں کی راہنمائی فرماتا رہتا ہے۔ اور آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر تمام دنیا کی راہنمائی کے لئے بھیجا اور پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج کر راہنمائی فرمائی۔
سورہ فرقان میں آتا ہے وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَاالرَّحْمٰنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَھُمْ نُفُوْرًا (الفرقان :61) اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رحمن کے حضورسجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ رحمن ہے کیا چیز؟ کیا ہم اس کوسجدہ کریں جس کا توُ ہمیں حکم دیتا ہے۔ اور ان کو اس بات نے نفرت میں اور بھی بڑھا دیا۔
پھر اگلی آیات میں ہے تَبَارَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْھَا سِرَاجًاوَّقَمَرًا مُّنِیْرًا۔ وَھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَ اَوْ اَرَادَ شُکُوْرًا (الفرقان:63-62) بس ایک وہی برکت والا ثابت ہواجس نے آسمان میں برج بنائے اور اس آسمان میں ایک روشن چراغ یعنی سورج اور ایک چمکتا ہوا چاند بنایا۔ اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے بعد آنے والا بنایا۔ اس کے لئے جو چاہے نصیحت حاصل کرے یاجو شکرکرنا چاہے۔
پھر فرمایا وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (الفرقان : 64) اور حمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو جواباً کہتے ہیں سلام۔
تو ان آیات میں کافروں کو جواب دیا گیا ہے کہ تم رحمن خدا کے بارے میں پوچھتے ہو کہ وہ کون ہے۔ رحمن خدا وہ ہے جس نے آسمان میں سورج اور چاند پیدا کئے جو تمہارے فائدہ کے لئے ہیں۔ سورج اور چاند ہے جس کی روشنی سے تمہاری اور نباتات کی زندگی وابستہ ہے۔ تمہاری مادی زندگی بھی اسی رحمن سے وابستہ ہے اور تمہاری روحانی زندگی بھی اسی رحمن سے وابستہ ہے۔ اور اس زمانے میں بھی جو آج کا ہمارا زمانہ ہے یہی سوال اٹھتا ہے، گو مُنہ سے نہ سہی اپنے عمل سے، اپنے فعل سے۔ تو اس زمانے میں بھی جو روحانی سورج آج سے چودہ سو سال پہلے طلوع ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا، اس سے روشنی پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہ روشنی آگے پھیلائی ہے۔ اس لئے اس زمانے میں بھی اس کو قبول کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ چاندبھیجا اس کو قبول کرو ورنہ جیسا کہ مَیں نے کہا، قبول نہ کرنے والے بھی اصل میں آجکل یہی سوال کر رہے ہوتے ہیں کہ کون رحمان خدا؟۔ ایک طرف اظہار ہے کہ مسلمانوں کی حالت بری ہے، کسی مصلح کو آنا چاہئے، کسی نبی کو آنا چاہئے دوسری طرف عملاً اللہ تعالیٰ کی صفت سے ہی انکار کر رہے ہیں۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد، اس روشنی کے بعد جو لمبے عرصہ کے لئے ایک اندھیرا چھایا تھا اور اب پھر اس زمانے میں اس اندھیرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت میں روشنی عطا کی ہے، یہ رحمن خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی روشنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جو یہ صفت رحمانیت ہے اس کا انکار کرنے کی بجائے اس سے فائدہ اٹھاؤاور قبول کرو۔ کیونکہ اگر نہیں کرتے جیسا کہ مَیں نے کہا، تو لاشعوری طور پر خدا کی اس صفت کا انکار ہو گا۔ ہم وہ خوش قسمت ہیں کہ جنہوں نے مان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق بخشی لیکن صرف اسی پہ راضی نہیں ہو جانا بلکہ اب یہ ہمارا کام ہے، ہمیں یہ حکم ہے، عاجزی کے ساتھ، عاجزی اختیار کرتے ہوئے خدا کی عبادت کرو، عبادتوں پر زور دو اور جو مخالفین کے تکبر کا جواب ہے وہ نرمی اور ملائمت اور سلام سے دو، ان کے لئے دعا کرو کیونکہ یہی رحمن خدا کے بندوں کا کام ہے۔
ان آیات کی تشریح میں جو مَیں نے پہلے پڑھی تھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اسۡجُدُوۡا لِلرَّحۡمٰنِ قَالُوۡا وَ مَا الرَّحۡمٰنُ ٭ اَنَسۡجُدُ لِمَا تَاۡمُرُنَا وَ زَادَہُمۡ نُفُوۡرًا۔تَبٰرَکَ الَّذِیۡ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ جَعَلَ فِیۡہَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیۡرًا۔وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ خِلۡفَۃً لِّمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّذَّکَّرَ اَوۡ اَرَادَ شُکُوۡرًا۔وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا۔‘‘ (الفرقان : 64-61)
یہ ساری آیات لکھنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ یعنی کافروں اور بے دینوں اور دہریوں کو کہا جاتا ہے کہ تم رحمن کو سجدہ کر وتو وہ رحمن کے نام سے متنفر ہو کر بطور انکار سوال کرتے ہیں کہ رحمن کیا چیز ہے؟۔ (پھر بطور جواب فرمایا) رحمن وہ ذات کثیر البرکت اور مصدر خیرات دائمی ہے‘‘۔ یعنی وہ بے انتہا برکتوں والی ذات ہے اور اسی سے تمام بھلائیاں اور خیر پھوٹتی ہیں جو ہمیشہ رہنے والی ہیں۔ ’’جس نے آسمان میں برج بنائے۔ برجوں میں آفتاب اور چاند کو رکھا ہے‘‘۔ کائنات بنائی اس میں سورج اور چاند کو رکھا ’’ جو کہ عامہ ٔ مخلوقات کو بغیر تفریق کافر و مومن کے روشنی پہنچاتے ہیں۔ اسی رحمن نے تمہارے لئے یعنی تمام بنی آدم کے لئے دن اور رات بنائے جو کہ ایک دوسرے کے بعد دورہ کرتے رہتے ہیں۔ تا جو شخص طالب معرفت ہو وہ ان دقائق حکمت سے فائدہ اٹھاوے‘‘۔ ان گہری باتوں سے حکمت کی، عقل کی باتوں سے فائدہ اٹھائے۔ ’’ اور جہل اور غفلت کے پردہ سے خلاصی پاوے۔ اور جو شخص شکر نعمت کرنے پر مستعد ہو وہ شکر کرے۔ رحمن کے حقیقی پرستار وہ لوگ ہیں کہ جو زمین پر بردباری سے چلتے ہیں ‘‘۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرو اور اس کی طرف بہت توجہ ہونی چاہئے۔ پھر فرمایا’’ رحمان کے حقیقی پرستار وہ لوگ ہیں کہ جو زمین پر بُردباری سے چلتے ہیں ‘‘۔ جو نرمی سے چلتے ہیں، جو عاجزی سے چلتے ہیں ’’ اور جب جاہل لوگ ان سے سخت کلامی سے پیش آئیں تو سلامتی اور رحمت کے لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں ‘‘۔ یعنی اگر کوئی سختی سے پیش آتا ہے تو سلام کہہ کر اور نرمی سے رحمت کے الفاظ استعمال کرکے ان کوجواب دیتے ہیں۔ ان لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں۔ نرمی سے ان کو جواب دیتے ہیں۔ ’’ یعنی بجائے سختی کے نرمی اور بجائے گالی کے دعا دیتے ہیں ‘‘۔ اب احمدیوں کو بے انتہاء گالیاں پڑتی ہیں، گالیوں کا جواب گالیوں سے نہیں دیا جاتا بلکہ دعا دیتے ہیں۔ ’’ اور تشبہ باخلاق رحمانی کرتے ہیں ‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے جو اخلاق ہیں وہ ان کوظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ’’کیونکہ رحمان بھی بغیر تفریق نیک و بد کے اپنے سب بندوں کو سورج اور چاند اور دوسری بیشمار نعمتوں سے فائدہ پہنچاتا ہے۔
پس ان آیات میں خداتعالیٰ نے اچھی طرح کھول دیا کہ رحمان کا لفظ ان معنوں کرکے خداپر بولا جاتا ہے کہ اس کی رحمت ِوسیع عام طور پر ہر یک بُرے بھلے پر محیط ہو رہی ہے۔ جیسا کہ ایک جگہ اور بھی اسی رحمت عام کی طرف اشارہ فرمایاہے۔ عَذَابِیۡۤ اُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ اَشَآءُ ۚ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ(الاعراف:157) یعنی میں اپنا عذاب جس کو لائق اس کے دیکھتا ہوں پہنچاتا ہوں۔ اور میری رحمت نے ہر یک چیز کو گھیر رکھا ہے‘‘۔ تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمانیت کی وجہ سے معاف کرنے کی طرف زیادہ راغب ہے۔
’’ اور پھر ایک اور موقعہ پر فرمایا قُلْ مَنْ یَّکْلَؤُکُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ (الانبیاء:43) یعنی ان کافروں اور نافرمانوں کو کہہ کہ اگر خدا میں صفت رحمانیت کی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ تم اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے۔ یعنی اس کی رحمانیت کا اثر ہے کہ وہ کافروں اور بے ایمانوں کو مہلت دیتا ہے اور جلد تر نہیں پکڑتا ‘‘۔ بعض لوگ سوال کر دیتے ہیں ناکہ جماعت پر، احمدیوں پر اتنے ظلم ہو رہے ہیں کیوں عذاب نہیں آتا؟ تو اصل میں تواللہ تعالیٰ اپنی رحمانیت کے جلوے دکھاتا ہے۔
’’پھر ایک اور جگہ اسی رحمانیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اَوَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ فَوْقَھُمْ صٰٓفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ مَا یُمْسِکُھُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰن(الملک:20) یعنی کیا ان لوگوں نے اپنے سروں پر پرندوں کو اڑتے ہوئے نہیں دیکھا کہ کبھی وہ بازو کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی سمیٹ لیتے ہیں۔ رحمان ہی ہے کہ ان کو گرنے سے تھام رکھتا ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 447تا450حاشیہ نمبر 11)
تو اللہ تعالیٰ کا جو یہ فیض ہے وہ ہر چرند پرندہر ذی روح پر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا حاوی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس رحمن خدا کی پہچان کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کا فیض عام اور اس کی رحمت جو ہر چیزپر حاوی ہے، ہمیں اس کی عبادت کی طرف مزید توجہ دلانے والی ہو اور پھر اس فیض کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرکے، بے لوث ہو کر ہم حقوق العباد ادا کرنے والے بنیں۔ اُن لوگوں کی اصلاح کی بھی فکر کریں جو ہمیں گالیاں دیتے ہیں۔ یہ لوگ بات سننے کو تیار نہیں ہیں لیکن جو ایسے سخت دل لوگ ہیں ان کے لئے دعا تو کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری دعائیں رنگ لائیں (انشاء اللہ تعالیٰ)۔ دل ایک دن نرم ہوجائیں اور انشاء اللہ ہوں گے۔ اس سلسلے میں بھی بہت دعا کرنی چاہئے۔ انسانیت کے لئے عموماً کہ وہ حق کو پہچانیں اور امت مسلمہ کے لئے خصوصاً کہ یہ لوگ جو اپنے آپ کو رحمۃ للعالمین کی طرف منسوب کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ان لوگوں کو تباہی اور بربادی سے بچا لے۔
خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:۔ ایک دعا کے لئے مَیں نے کہنا تھا انشاء اللہ دو تین دن تک میں جرمنی کے سفر پر جا رہا ہوں وہاں انہوں نے کافی بھرپور جماعتی پروگرام بنائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور انشاء اللہ تعالیٰ قادیان کے جلسے کا آخری خطاب بھی 28دسمبر کو وہیں سے ہو گا۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سفر بھی بابرکت فرمائے اور پروگرام میں بھی ہرطرح کامیابی عطا فرمائے۔
فیضان رحمانیت تما م ذی روحوں پرمحیط ہے۔ یہ فیض عام ہے جو ہر ایک کو پہنچ رہاہے اور اس میں انسانوں یا حیوانوں کے قویٰ کے کسب اور عمل او ر کوشش کا کو ئی دخل نہیں
فرمودہ مورخہ 15؍دسمبر 2006ء (15؍ فتح 1385ھش) مسجد بیت الفتوح، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔