صفت رحمانیت، آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے کی اہمیت
خطبہ جمعہ 26؍ جنوری 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
آج کے خطبہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا بیان ہی ہوگا۔ لیکن آج اس ضمن میں مَیں حدیث کے حوالے سے بات کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت کے حوالے سے بے شمار احادیث ہیں جن میں سے چند ایک مَیں نے چنی ہیں، ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بارے میں جو نصائح فرمائی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اس صفت کی مختلف زاویوں سے جو وضاحت فرمائی ہے اس کا ذکرہے تاکہ ہمیں اس کا صحیح فہم و ادراک حاصل ہو۔ یہ احادیث جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے جلووں کو اپنی ذات میں جذب کرتے ہوئے اس کا عبد منیب بنانے والی اور اس کے آگے جھکائے رکھنے والی ہونی چاہئیں، جس سے ہمارے جسم کا رُواں رُواں خداتعالیٰ کی رحمانیت کا شکرگزار بن جائے، وہاں اس رحمۃللعالمین ؐ پر درود بھیجنے کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے۔ جس نے ہم عاجز گناہگار بندوں کا خدائے رحمن سے تعلق جوڑنے کے لئے کس طرح مختلف طریق پر نصائح فرماتے ہوئے وہ فہم اور ادراک عطا فرمایا اور اپنا اسوہ قائم فرما کر ہمیں ان راہوں پر چلنے کی نصیحت فرمائی۔
احادیث پیش کرنے سے پہلے مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے اس صفت کا پَر تَو ہونے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک حوالہ پیش کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ رحمانیت کا مظہر تام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ محمد کے معنے ہیں بہت تعریف کیا گیا۔ اور رحمن کے معنے ہیں بلا مُزد‘‘۔ (بلا مُزد کامطلب ہے بغیر اجر کے) ’’ بن مانگے بلاتفریق، مومن و کافر کو دینے والا اور یہ صاف بات ہے کہ جو بن مانگے دے گا، اس کی تعریف ضرور کی جائے گی۔ پس محمد(ﷺ ) میں رحمانیت کی تجلی تھی‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 395 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فہم و ادراک اور کلام کی خوبصورتی اور آپؑ کا اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ کے صحیح مقام کا فہم جس تک کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکتا۔ رحمانیت کی یہ تجلی جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے ہم احادیث میں دیکھیں گے۔ جہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنی رحمانیت کے جلوے دکھاتا ہے۔ وہاں ہر جگہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اس صفت کے بارے میں بیان فرماتے ہیں تو آپ کے الفاظ میں ایک خاص رنگ ہوتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق صفت رحمانیت سے زیادہ سے زیادہ فیض پا سکے، مومن اس سے زیادہ سے زیادہ فیض پا سکیں۔ پھر بعض احادیث جانوروں کے بارے میں بھی ہیں کہ ان سے کس طرح رحم کا سلوک ہونا چاہئے۔ وہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس رحمۃٌ للعالمین کا جذبۂ رحم، رحمن خدا کی مخلوق کی تکلیف دور کرنے کے لئے کس شدت رحم سے بے چینی کا اظہار کرتا ہے۔
گزشتہ خطبے میں مَیں نے ایک حدیث کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بے چینی کا ذکر کیا تھا۔ آپ ؐ نے فرمایا تھا: کیوں لوگ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے باوجود اپنی بدبختی کی وجہ سے اس کے عذاب کا مورد بنتے ہیں۔ اس تعلق میں دوسری حدیث یہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو صادق ومصدوق ابوالقاسم اور جھونپڑی والے ہیں، یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رحمت تو صرف بدبخت سے ہی چھینی جاتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3مسند ابی ھریرۃ حدیث نمبر 7988۔ ایڈیشن 1998ء عالم الکتب۔ بیروت)
اس حدیث میں جہاں یہ ذکر ہے کہ رحمت بدبخت سے چھینی جاتی ہے وہاں اس انذار کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی ایک وسیع رحمت کی بشارت بھی دی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرنے والے نہیں ہیں، وہ پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم نہیں رہتے۔ بلکہ محرومی ان کے لئے ہی ہے اور وہی اس محرومی کا مورد بنتے ہیں جو ان حدود سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ تو ایک مومن کی یہی خواہش ہونی چاہئے اور یہی کوشش ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت سے حصہ لے اور باقی صفات سے بھی تاکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا زیادہ سے زیاہ وارث بنے۔
ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ اگر مومن کو اللہ تعالیٰ کی گرفت اور سزا کے بارے میں معلوم ہو جائے تو جنت کی کوئی بھی امید نہ کرے اور اگر کافر کو یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ کے پاس کتنی رحمت ہے تو کوئی بھی جنت سے مایوس نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں پیدا کیا جن میں سے ایک حصہ مخلوقات میں رکھ دیا جس سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ رحم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پاس رحمت کے ننانوے حصے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3مسند ابی ھریرہ حدیث نمبر 10285 ایڈیشن 1998ء عالم الکتب، بیروت)
ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں جو دیکھتے ہیں، بشمول انسان اور جو دوسری جاندار مخلوق ہے وہ صرف ایک حصہ رحمت کا ہے جو وہ ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ مومن کا جنت سے نااُمید ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مومن ہونے کے بعدانسان رحمانیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی گرفت اور سزا کے بارے میں معلوم ہو جائے تو جنت کی کوئی امید نہ رکھے۔ اور کافر جو ہے اس کو رحمت کا پتہ لگ جائے تو اس کو یہی امید رہے کہ مَیں جنت میں جاؤں گا۔ اگر یہی ہو کہ مومن کو کوئی امید نہ ہو تو پھر تو کوئی ایمان لانے کی جرأت نہ کرے۔ مطلب یہ ہے کہ مومن کیونکہ تقویٰ کی وجہ سے، باقی صفات کا علم ہونے کی وجہ سے ان کا بھی فہم و ادراک رکھتا ہے اور اس میں بڑھ رہا ہوتا ہے اس لئے یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ کسی غلط عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی نہ حاصل کرلے، اس لئے ہمیشہ سیدھے راستے پر چلتا رہنے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ دعائیں بھی سکھا دی ہیں جو اس سے مانگنی چاہئیں تاکہ وہ جنتوں کا وارث بنتا چلا جائے۔ مثلاً سورۃ اعراف میں یہ دعا سکھائی ہے کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْلَّمْتَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف :24) اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کو نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ پس حقیقی مومن وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں لئے رکھے اور اس علم کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے، ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے ڈرتا رہے کہ کہیں میرا کوئی عمل مجھے اس سے محروم نہ کر دے۔ جب ایسی حالت ہو گی تو پھر ایک مومن پر رحمتوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی دوسروں سے بڑھ کر نازل ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو، خواہ باطن کا ہو، اسے علم ہو یا نہ ہو… سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے، رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف:24)‘‘ فرمایا کہ ’’ یہ دعا اوّل ہی قبول ہو چکی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 577جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس مومن کو جہاں فکر مند ہونا چاہئے وہاں تسلی بھی رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت سے مزید نوازنے کے لئے دعا بھی سکھا دی ہے۔ اور پھر مومنوں کو ایک اور جگہ اس طرح بھی تسلی دی ہے کہ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ (الزُّمر:54) کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ تو یہ حدیث مایوس کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ ایک تو یہ وضاحت ہے، جس طرح کہ مَیں نے کی ہے، دوسرے یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کی رحمت دوسروں کے لئے ہے اور ننانوے حصے اس کے پاس ہیں تو اس سے یقینا تمہیں بھی بہت حصہ ملنا ہے، ان اعمال کی وجہ سے جو دوسروں سے بڑھ کر تم کرنے والے ہو جس کا فہم و ادراک تم رکھتے ہو۔
پھر ایک روایت ہے جو پہلی سے ملتی جلتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے سو رحمتیں ہیں۔ اُن میں سے اُس نے ایک حصہ رحمت تمام مخلوقات میں تقسیم کر دی ہے جس سے وہ آپس میں رحم کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ ایک دوسرے سے شفقت سے پیش آتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے ہی وحشی جانور اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ وہ ایک حصہ انسانوں میں بھی دیا ہوا ہے اور دوسری جاندار مخلوق میں بھی اور اس نے ننانوے رحمتیں اپنے پاس رکھ لی ہیں جن کے ذریعے قیامت کے دن وہ اپنے بندوں پر رحم کرے گا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب ما یرجی من رحمۃ اللّٰہ یوم القیامۃ حدیث نمبر 4293)
تو جیسا کہ پہلی حدیث میں آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ انسان کی بدبختی ہے کہ پھر بھی اس رحم کو حاصل نہ کر سکے۔ اس کے باوجود اگر رحم حاصل نہ کر سکے تو یقینا وہ بدبختی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ رحم مانگنا چاہئے اور کوئی ایسی حرکت عمداً جان بوجھ کر کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے جس سے اس کے رحم سے انسان محروم ہو رہا ہو۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کس طرح رحم کرتا ہے اس کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔
حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تم سے پہلے ایک شخص تھا جسے اللہ نے مال اور اولاد عطا کی تھی، جب اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا مَیں تمہارے لئے کیسا باپ رہا ہوں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ سب سے بہتر باپ، آپ بہت اچھے باپ تھے۔ اس نے کہا لیکن مَیں نے اللہ کے پاس کوئی نیکی نہیں چھوڑی اور جب مَیں اللہ کے حضور پیش ہوں گا تو وہ مجھے عذاب دے گا۔ میری کوئی نیکی ہی نہیں ہے۔ اس لئے دھیان سے سن لو، غور سے سن لو کہ جب مَیں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا اور جب میں کوئلہ بن جاؤں تو مجھے پیس دینا پھر جب شدید آندھی چلے تو میری راکھ کو اس میں اڑا دینا اور اُس نے ان سے اس بات کا بڑا پختہ عہد لیا۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ میرے ربّ کی قسم انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر جب اس طرح ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کو اکٹھا کیا تو وہ ایک مجسم شخص کی صورت میں کھڑا ہو گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ اے میرے بندے کس چیز نے تجھے ایسا کرنے پر اکسایا تھا۔ اس نے کہا تیرے خوف نے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کی تلافی اس پر رحم کرتے ہوئے کی۔ (بخاری کتاب الرقاق باب الخوف من اللّٰہ عز وجل حدیث نمبر6481)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھے اتنا ہی خوف تھا تو اس کا صلہ مَیں تجھے دیتا ہوں۔ تجھ پر رحم کرتا ہوں اور تجھے بخشتاہوں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کئے تھے۔ پھر وہ توبہ کے متعلق پوچھنے کے لئے نکلا۔ ایک راہب کے پاس آ کر اس سے پوچھا کہ کیا اب توبہ ہو سکتی ہے؟ مَیں نے ننانوے قتل کئے۔ مَیں بہت گناہگار شخص ہوں۔ اس راہب نے کہا نہیں اب تو کوئی صورت نہیں ہے۔ ایسا ظالم انسان جو اتنے بے گناہوں کا قاتل ہو وہ تو معاف نہیں ہو سکتا۔ اس نے کہا جہاں ننانوے قتل کئے تھے(ایک اور سہی)۔ اس کو بھی قتل کر دیا کہ سو پورے ہو جائیں۔ اور پھر اس کے بعد مسلسل اس بارے میں پوچھتا رہا کہ کوئی معافی کی صورت ہے؟ اسے ایک شخص نے کہا کہ فلاں بستی میں جاؤ تو وہاں ایک بزرگ ہے، اس سے پوچھو وہ شاید تمہاری کوئی رہنمائی کر دے۔ وہ جا رہا تھا تو اس کو راستے میں موت آگئی۔ جب موت کا وقت آیا تو اسے تھوڑی دیر پہلے احساس ہوا۔ وہ گرنے لگا تو اس نے اپنے سینے کو اس بستی کی طرف کر دیا۔ جب فوت ہو گیا تو رحمت اور عذاب کے فرشتے، ہر ایک اس کو اٹھانے کے لئے پہنچ گئے کہ کہاں لے کے جانا ہے۔ وہ جھگڑنے لگے۔ رحمت کے فرشتے کہتے تھے کہ نہیں یہ بخشش کی طرف جا رہا تھا، اپنی اصلاح کے لئے جا رہا تھا اس لئے ہم اس کو لے کے جائیں گے۔ عذاب کے فرشتے کہتے تھے کہ کیونکہ بہت ظالم انسان تھا اس کو ہم لے کے جائیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو جس کی طرف وہ جا رہا تھا حکم دیا کہ اس کے قریب ہو جاؤ اور جس بستی سے وہ دُور جا رہا تھا، اُسے حکم دیا کہ اس سے دُور ہو جا۔ پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ ان دونوں بستیوں کے درمیان فاصلے کی پیمائش کرو تو وہ بستی جس کی طرف وہ جا رہا تھا وہ ایک بالشت اس کے قریب تھا۔ اس طرف کے فاصلے میں ایک بالشت کی کمی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ (بخاری کتاب احادیث الأنبیاء باب 52/54 حدیث نمبر 3470)
تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ڈھٹائی سے گناہوں پر مُصر رہنے والے کو اللہ تعالیٰ نے عذاب کی خبر بھی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمت کو سمیٹنے کے لئے ضروری ہے کہ اس طرف قدم بھی بڑھنے شروع ہو جائیں۔ جب گناہوں کا احساس ہو جائے، جب آدمی غلطی کر لے تو پھر گناہ کا احساس ہونے کے بعد اس کی رحمت اور بخشش کی طلب بھی شروع ہو جائے۔ ان سے بچنے کی کوشش بھی شروع ہو جائے۔ پھر ہی یہ امید بھی رکھنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دلائی ہے کہ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ۔ (الزُّمر:54)
پھر دیکھیں رحمۃ للعالمین کا اپنے صحابہ کو نصیحت کا اندازاور ان میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا ادراک پیدا کرنے کا طریق۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا۔ اس کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا بچہ تھا۔ وہ اسے اپنے ساتھ چمٹانے لگا۔ اس پر نبی کریمﷺ نے فرمایا :کیا توُ اس سے رحم کا سلوک کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا جی حضورؐ، آپ نے فرمایا اللہ تجھ پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا تو اس سے کرتا ہے۔ اور وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (الأدب المفرد باب رحمۃ العیال حدیث نمبر 382ایڈیشن 2003ء)
آجکل شاید اس بات کو کوئی اتنا محسوس نہ کرے لیکن عرب معاشرے کا جن کو پتہ ہے وہ جانتے ہیں کہ ان کی طبیعتوں میں کتنا اکھڑ پن تھا، کتنی کرختگی تھی۔ آنحضرتﷺ کی بعثت سے پہلے شاذ ہی کوئی انسان اپنے بچوں سے پیار کا سلوک کرتا تھا۔
ایک دفعہ آنحضرتﷺ اپنے بچوں کو پیار کر رہے تھے۔ ایک شخص آیا بڑی حیرانگی سے پوچھنے لگا کہ آپ بچے کو پیار کر رہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ کہتا ہے کہ میرے تو دس بچے ہیں مَیں نے تو آج تک کسی کو پیار نہیں کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل کے اندر سختی بھری ہوئی ہے تو مَیں اس پر کیا کر سکتا ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد وتقبیلہ حدیث نمبر5997، 5998)
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور تم بخشش کا سلوک کرو، اللہ تم سے بھی بخشش کا سلوک کرے گا۔ ایسے لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جو ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ ہلاکت ہے ان اصرار کرنے والوں پر جو جانتے بوجھتے ہوئے اپنے کئے پر اصرار کرتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص حدیث نمبر 7041 ایڈیشن 1998ء عالم الکتب، بیروت)
پس یہ بدبختی جس کا آنحضرتﷺ نے ذکر فرمایاہے جس کو مَیں نے شروع میں بیان کیا تھااور جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبے میں بھی کہا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے بتایا تھا۔ آپؑ نے وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ (الزلزال:9) کی تشریح میں فرمایا تھا کہ اس اصرار کی وجہ سے پھر اس کو اس بات کے شرّکا بدلہ ملتا ہے اور وہ رحمانیت سے محروم ہو جاتا ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت جریرؓ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرے گا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تبارک وتعالیٰ۔ قل ادعوااللہ اوادعوالرحمن…حدیث نمبر7376)
پس آپس کے تعلقات میں صلہ رحمی کا خیال رکھنا چاہئے، دوستی کا خیال چاہئے، ہمسائیگی کا خیال رکھنا چاہئے، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے، رحم کے جذبات دل میں ہونے چاہئیں۔ لیکن یہاں ایک وضاحت کر دوں کیونکہ عموماً اس مضمون پہ کوئی بات کروں تو اکثر ایسے لوگ جو سزا یافتہ ہیں ان کے خطوط آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ کہتے تو رحم کے بارے میں ہیں لیکن ہم پہ رحم نہیں ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام تعلقات میں ایک دوسرے کو رحم کی تلقین فرمائی ہے۔ اسی طرح عام معاملات میں عمومی صرفِ نظر نظامِ جماعت کے لئے بھی ہے، خلیفہ ٔوقت کے لئے بھی ہے، لیکن جو لوگ کسی چیز پر اصرار کرنے والے ہوں، جس کا مَیں نے پہلے ذکر کر دیا۔ ان کو پھر اگر سزا مل جائے تو وہ سزا ہے، اس کو بھی لینا چاہئے۔
اب دیکھیں جب ایک جنگ میں بعض صحابہ ؓ صحت ہونے کے باوجود شامل نہیں ہوئے تو آنحضرتﷺ نے ان سے قطع تعلقی کر لی اور پھر ان کی بیویوں کو بھی حکم دیا کہ اُن سے کوئی تعلق نہیں رکھنا۔ اُن میں سے ایک ایسے بھی تھے جن کی عمر زیادہ تھی لیکن اس سزا کی وجہ سے سارا دن روتے تھے اور بستر پر پڑے رہتے تھے اور اتنے کمزور ہو گئے تھے کہ ان کی بیوی نے کہا کہ ان کی تو یہ حالت ہے۔ کیا مجھے اتنی اجازت ہے کہ مَیں کھانا وغیرہ پکاکر ان کو دے سکوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے۔ تو یہ حالت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں آ گئی کہ چارپائی سے اٹھ نہیں سکتا۔ سارا دن استغفار پڑھ رہا ہے۔ روتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود آپؐ نے یہ نہیں کہا کہ معاف کرتا ہوں آپ کو۔ رحمۃ للعالمین تھے۔ رحم کا جذبہ تو اندر تھا لیکن ایک سزا تھی جو اصلاح کے لئے ضروری تھی۔ تو جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش کا اعلان نہیں ہو گیا اس وقت تک انہوں نے سزا کاٹی۔ اس لئے سزا لینے والے جو لوگ ہیں ایک تو یہ ہے کہ ان کو ویسے بھی یہ احساس کرنا چاہئے کہ بات پر اصرار نہیں کرنا چاہئے۔ اگر غلطی کی ہے تو اس غلطی کا پھر مداوا ہونا چاہئے۔ پھر یہ نہیں ہے کہ اس پہ اصرار کرتے چلے جائیں۔ اور جب اصرار کریں گے تو بہرحال پھر تعزیر ہو گی اور جب تعزیر ہو جاتی ہے تو پھر اس پر یہ حوالے نہیں دینے چاہئیں کہ رحم کا سلوک ہونا چاہئے۔ سزا کی وجہ بعض دفعہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنا ہوتی ہے۔ تو جن کے حقوق مارے ہوتے ہیں وہ تو بہرحال ادا کرنے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ نظام جماعت کے تعلق میں بے قاعدگیاں ہوئی ہوتی ہیں ان بے قاعدگیوں کا جب تک مداوا نہ ہو جائے تو بہرحال ایک سزا تو ہے اور سزا اصلاح کے لئے ہوتی ہے۔ اس لئے اس میں اور رحم میں ہر ایک کو فرق سمجھنا چاہئے۔ بہرحال یہ ضمناً بات آ گئی۔
پھر ہمیں نصیحت کرتے ہوئے آنحضرتﷺ فرماتے ہیں، زربی کہتے ہیں کہ مَیں نے انس بن مالکؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک بوڑھا آدمی نبی کریمﷺ سے ملنے کے لئے آیا۔ لوگوں نے اسے جگہ دینے میں سستی سے کام لیا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بزرگوں کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (ترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان حدیث نمبر 1919)
تو جہاں بڑی مجلس ہو، جمعوں پہ، جلسوں پہ، گھروں میں بھی بعض دفعہ یہ ہوتا ہے۔ انصاراللہ کے اجتماع پہ بھی مَیں نے ایک دفعہ خدام اطفال کو کہا تھا جبکہ بڑی عمر کے لوگ کھڑے اور چھوٹی عمر کے بیٹھے ہوئے تھے تو ان کو جگہ دینی چاہئے۔ تو یہ خُلق بھی ایسا ہے جو ہر احمدی میں، بچے میں، جوان میں، مردمیں، عورت میں نظر آنا چاہئے جس سے پھر ہم آنحضرتﷺ کی دعاؤں سے بھی حصہ لے رہے ہوں گے۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ تو جو ہم میں سے نہیں ہو گا وہ دعاؤں سے حصہ کیسے لے گا۔ تو آنحضرتﷺ کی دعاؤں سے حصہ لینے کے لئے جو آپؐ نے امت کے لئے کیں، ہر ایک کو ہر عمل کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور اس کے علاوہ پھر معاشرے میں بھی محبت اور پیار کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جنت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اہل جنت تین قسم کے ہیں ایسا حاکم جو انصاف پسند ہو، کثرت سے صدقات کرنے والا ہو، عقلمند ہو۔ اور ایسا آدمی جو رحم کرنے والا ہو، رشتے داروں اور مسلمانوں کے لئے نرم دل ہو اور پھر تیسری یہ چیز بتائی تھی کہ ایسا آدمی جو محتاج ہو مگر سوال نہ کرے اور صدقہ کرنے والا ہو۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6مسند عیاض بن حماد۔ حدیث نمبر 17623 ایڈیشن 1998ء بیروت)
ایک روایت میں آتا ہے۔ نعمانؓ بن بشیر کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے منبر پر فرمایا جو تھوڑے پر شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ اور جو لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کا ذکر کرنا شکر ہے اور اسے ترک کرنا ناشکری ہے۔ اور جماعت رحمت ہے اور علیحدگی عذاب ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6مسند نعمان بن بشیر۔ حدیث نمبر 19565 ایڈیشن 1998ء بیروت)
تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جس کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور اس ذریعہ سے پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرنے والے بنے۔ تو اس شکر گزاری کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا ایک زائد دروازہ ہم پر کھولا ہوا ہے، ہمیں اس تقاضے کو بھی پورا کرنا چاہئے جو انسانیت سے رحم کا تقاضا ہے اور وہ ہے دنیا کو اس پیغام کا پہنچانا جس کو لے کرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے تھے اور پھر ان کے لئے دعائیں کرنا کہ اللہ تعالیٰ ان کو راستی پر رکھے، سیدھے راستے پر چلائے اور حق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مومنوں کے ایک دوسرے سے محبت اور رحم کے جذبات کے معیار کیا ہونے چاہئیں اور آنحضرتﷺ ہم سے اس بارے میں کیا توقع رکھتے ہیں، اس کا اظہار اس روایت سے ہوتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا تُو مومنوں کو ان کے آپس میں رحم کرنے، محبت کرنے اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح پائے گا۔ جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کا سارا جسم اس کے لئے بے خوابی اور بخارمیں مبتلا رہتا ہے۔ (بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس والبھائم۔ حدیث نمبر 6011)
بیماری کی حالت میں ایک جسم کی جو یہ حالت ہے، وہی ایک مومن کی دوسرے مومن کے بارے میں ہونی چاہئے، بجائے نقصان پہنچانے کے، کسی کی تکلیف کا احساس نہ کرنے کے، تکلیف کا احساس کرنا چاہئے اور اس کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے۔
تو یہ اسلام کا معاشرہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے صدقے اس رحمۃ للعالمین نے ہمارے اندر پیدا کرنے کی ہمیں نصیحت فرمائی ہے۔
اب دیکھیں جانوروں سے کس طرح کے سلوک کی آپؐ تلقین فرماتے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوامامہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو رحم کرے خواہ کسی ذبح کئے جانے والے جانور پر ہی ہو، اللہ قیامت کے دن اس کے ساتھ رحم کا سلوک فرمائے گا۔ (الأدب المفرد باب 176رحمۃ البھائم حدیث 386)
جانور کو ذبح کرتے وقت بھی رحم کا تقاضا ہے کہ تیز چھری ہو، تکلیف نہ ہو۔ اور جلدی سے پھیری جائے۔
پھرایک روایت میں آتا ہے معاویہ بن قرّہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ! مَیں بھیڑ کو جب ذبح کرتا ہوں تو مَیں اس پر رحم کرتا ہوں۔ جس پر آپؐ نے فرمایا اگر تو نے اس پر رحم کیا تو اللہ بھی تم سے رحم کا سلوک کرے گا۔ یہ بات آپؐ نے دو مرتبہ کہی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 5 مسند معاویۃ بن قرۃ حدیث نمبر 15677 ایڈیشن1998ء بیروت)
جانوروں کے ساتھ رحم کے سلوک کی کتنی اہمیت ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک سفر میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو ایک شخص نے ایک پرندے کے گھونسلے سے انڈے اٹھا لئے تو جہاں رسول اللہﷺ تشریف فرما تھے آپ ؐ کے اوپر آ کر اس پرندے نے پھڑپھڑانا شروع کر دیا۔ آپؐ نے اپنے ساتھیوں (صحابہ) سے پوچھا کہ کسی نے اس پرندے کے انڈے اٹھا لئے ہیں ؟ انڈے اٹھا کے تکلیف دی ہے؟ تو ایک شخص نے کہا: ہاں یا رسول اللہ !مَیں ہوں جس نے اس کا انڈا اٹھایا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اس پرندے کے ساتھ رحم کا سلوک کرتے ہوئے اس انڈے کو واپس رکھ دو۔ (الأدب المفرد باب 177 اخذ البیض من الحمرۃ حدیث 387)
پھر اسی طرح ایک اونٹنی کا قصہ آتا ہے۔ آپؐ نے اس کی آنکھوں میں ایسی چیز دیکھی جس پر آپؐ نے فرمایا: اس پر ضرورت سے زائد بوجھ لادا جاتا ہے۔ اس پر اس کے مالک کو منع کیا۔
تو جانوروں پر بھی رحم کا سلوک فرمانے کی آپؐ نے تلقین فرمائی کہ اللہ تعالیٰ پھر اس وجہ سے تم سے رحم کا سلوک فرمائے گا۔
آنحضرتﷺ کے زمانے میں بعض دفعہ لوگ آپؐ کا جو رحمۃ للعالمین کا مقام تھا اس کا خیال رکھے بغیرآپ ؐ سے بعض مطالبات کر دیتے تھے۔ مثلاً بددعا کرنے کے لئے کہتے کہ فلاں کے لئے بددعا کریں۔ تو آنحضرتﷺ عموماً اس طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ اگر کوئی اصرار کرتا تھا تو نہایت پیارے انداز میں نصیحت فرماتے تھے اور احساس دلا دیتے تھے اور پھر جس کے خلاف شکایت کی جا رہی ہو اس کے لئے دعا بھی کرتے تھے۔ اس کا ایک روایت میں ذکر ملتا ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف کے آزاد کردہ غلام مِیْنَاء کہتے ہیں کہ مَیں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک شخص آیا۔ میرے خیال میں وہ قبیلہ قیس سے تھا، اس نے کہا اے اللہ کے رسول! حِمْیَر پر لعنت کریں۔ آپؐ نے اس سے اعراض کیا۔ پھر اس نے دوسری طرف سے آ کر یہی کہا۔ آپؐ نے پھر اس سے اعراض کیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اللہ حِمْیَر پر رحم کرے۔ ان کے منہ سلامتی ہیں اور ان کے ہاتھ لوگوں کے لئے کھانا مہیا کرنے والے ہیں اور وہ امن اور ایمان والے لوگ ہیں۔ (ترمذی کتاب الدعوات باب فی فضل الیمن حدیث نمبر3939)
تو دیکھیں کس خوبصورتی سے آپؐ نے اس آنے والے شخص کی اصلاح فرما دی۔ بجائے اس کے کہ کچھ کہتے، آپؐ نے ان کے لئے دعا کی۔ اس کو بھی بتا دیا کہ دعا کرو کیونکہ یہی نیکی ہے۔ اور یہی مومنوں کا آپس کا سلوک ہے جس سے محبت پیار اور رحم کے جذبات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ انسان کو انسان کی قدر ہوتی ہے۔
پھر ایک دعا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے دعا کی اے اللہ! آسمانوں اور زمین کو پیداکرنے والے، غیب اور حاضرکا علم رکھنے والے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرا بندہ اور رسول ہے۔ اگر تُو نے مجھے میرے نفس کے سپرد کر دیا تو وہ مجھے برائی کے قریب کر دے گا اور نیکی سے دُور کر دے گا اور مَیں صرف تیری رحمت پر ہی بھروسہ کر سکتا ہوں۔ پس تو میرے لئے اپنے پاس ایک وعدہ لکھ رکھ جسے توُ میرے لئے قیامت کے دن پورا کرے۔ یقینا توُ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
جس شخص نے یہ دعا کی اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے قیامت کے دن یہ فرمائے گا کہ میرے بندے نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا پس اسے اس کے لئے پورا کردو۔ پھر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ95مسند عبداللہ بن مسعود۔ حدیث نمبر 3916 ایڈیشن1998ء بیروت)
تو یہ دعا، ایک عہد، اس طرف بھی توجہ دلانے والا ہے کہ اپنے نفس کا بھی جائزہ لیتے رہناچاہئے کہ اللہ کے فضل اور رحم کی جب بھیک مانگ رہا ہے تو ایسے اعمال کی طرف بھی عموماً توجہ رہنی چاہئے جو اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہوں، اس کے بعد اگر کوئی کمیاں، خامیاں رہ جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے لیکن اصرار کرکے اگر کوئی صرف یہ کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بھیک مانگتا ہوں اور زور ظلموں پر ہو، اس کے حکموں سے پیچھے ہٹنے والا ہو تو یہ پھر اس زُمرہ میں نہیں آئے گا۔ کیونکہ پہلے یہی کہا ہے کہ مَیں نفس کے سپرد نہ ہو جاؤں اور اگر یہ دعا مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نیکیاں کرنے کی بھی توفیق ملتی چلی جائے گی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور دعا ہے وہ بھی پیش کرتا ہوں۔ خالد بن عمران روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کے لئے دعائیں کئے بغیر مجلس سے کم ہی اٹھتے تھے کہ اے اللہ! ہمیں اپنی خشیت یوں بانٹ جو ہمارے اور تیری نافرمانی کے درمیان حائل ہو جائے۔ (یہ دعا ہے کہ ایسی خشیت ہو جو نافرمانی کے درمیان حائل ہو جائے۔ ) اور ایسی اطاعت کی توفیق عطا فرما جو ہمیں تیری جنت تک پہنچا دے اور تُو ہمیں ایسا یقین عطا کر جس سے تُو ہم پر دنیا کے مصائب آسان کر دے اور تُو ہمارے کانوں، ہماری آنکھوں، ہماری قوتوں سے تب تک فائدہ اٹھانے کی توفیق دے جب تک تُو ہمیں زندہ رکھے اور اسے ہمارا وارث بنا اور ہمارے اوپر ظلم کرنے والے سے ہمارا انتقام لینے والا تُوہی بن۔ اور ہم سے دشمنی رکھنے والے کے مقابل پر ہماری مدد فرما۔ ہمارے مصائب ہمارے دین کی وجہ سے نہ ہوں اور دنیا کمانا ہی ہماری سب سے بڑی فکر اور ہمارے علم کا مقصود نہ ہو اور تُوہم پر ایسے شخص کو مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے۔ (ترمذی کتاب الدعوات باب نمبر82/79حدیث نمبر 3502)
پس یہ دعا آج کل بھی احمدیوں کو بہت کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہر اُس ملک میں جہاں بھی بے رحم حاکم، احمدیوں کو اور اپنی رعایا کو ظلم کی چکّی میں پیس رہے ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ نجات دلائے اور آزادی سے ہر جگہ احمدی اپنے دین اور مذہب کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔ اب آنحضرتﷺ کی زندگی میں ہونے والے چند واقعات اور آپؐ کی سیرت کے بعض حوالے جن میں صفت رحمانیت کا ذکر ہے وہ پیش کرتا ہوں۔ حضرت ابیّ بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان چیزوں کے بار ے میں پوچھنے کی جرأت کر لیا کرتے تھے جن کے بارے میں کوئی اور نہیں پوچھتا تھا۔ انہوں نے پوچھا یارسول اللہﷺ ! نبوت کے معاملے میں آپؐ نے سب سے پہلے کیا چیز دیکھی؟ اس پر رسول اللہﷺ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اے ابوہریرہ! توُ نے اس وقت کے بارے میں پوچھا ہے جبکہ میں صحرا میں دس سال اور چند ماہ کی عمر کا تھا۔ اوپر سے آواز آتے ہوئے مَیں کیا سنتا ہوں کہ ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا ہے کہ کیا یہ وہی ہے؟ دوسرے شخص نے کہاہاں !۔ پھر وہ میرے سامنے ایسے چہروں کے ساتھ آئے جنہیں مَیں نے مخلوق میں کبھی نہیں دیکھا۔ وہ ایسی ارواح تھیں جنہیں مخلوق میں مَیں نے پہلے کبھی نہیں پایا تھا۔ اور ان کے کپڑے ایسے تھے جو مَیں نے پہلے کسی کے نہیں دیکھے تھے وہ چلتے ہوئے میر ی طرف بڑھے۔ یہاں تک کہ ان دونوں نے مجھے ایک ایک بازو سے پکڑ لیا لیکن مَیں نے ان کی گرفت کامس محسوس نہ کیا۔ اپنے بازو پر ان کی گرفت محسوس نہیں کی…… ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اس کے سینے کو پھاڑ پھر ان میں سے ایک میرے سینے کی طرف جھکا اور اس کو اس طرح پھاڑا کہ مجھے نہ خون نظر آیا اور نہ ہی درد محسوس ہوا۔ اس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ کینہ اور حسد اِس میں سے نکال دے۔ پھر ایک لوتھڑے جیسی چیز نکال کر اس نے دور پھینک دی۔ اس کے بعد اس نے اپنے ساتھی سے کہا اب رأفت اور رحمت کو اندر ڈال دے۔ تو اُس نے چاندی جیسی کوئی چیز نکالی، پھر میرے دائیں پاؤں کا انگوٹھا ہلاتے ہوئے اُس نے کہا کہ اٹھو اور سلامتی کے ساتھ جاؤ۔ پھر مَیں واپس لوٹ آیا اس حال میں کہ ہرچھوٹے کے بارے میں میرے دل میں نرمی اور شفقت اور ہر بڑے کے لئے میرے دل میں رحم کے جذبات موجزن تھے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 133 مسند ابی بن کعب حدیث نمبر21581 ایڈیشن1998ء بیروت)
تو بچپن سے ہی اس کشفی نظارے سے آنحضرتﷺ میں اللہ تعالیٰ نے رحم کے جذبات بھر دئیے تھے۔ جو پھر آہستہ آہستہ مزید نکھرتے گئے اور نبوت کے بعد تووہ کمال کو پہنچ گئے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے زیادہ گھر والوں سے رحم کا سلوک کرنے والا کبھی کوئی نہیں دیکھا۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب رحمتہﷺ الصبیان والعیال حدیث نمبر 5920)
پھر ایک روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ سے کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول! مشرکین کے لئے بددعا کریں۔ آپؐ نے فرمایا میں لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا۔ مَیں تو سراپا رحمت بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب النھی عن لعن الدواب وغیرھا حدیث نمبر 6508)
جو پہلی مثال مَیں نے دی تھی کہ کسی نے آکر جب یہ کہا کہ فلاں پر لعنت کریں تو اس کا جو جواب آپؐ نے دیا تھا وہ ہم نے دیکھا کہ دعا دی۔ یہاں مشرکین پر لعنت کے لئے عرض کیا جا رہا ہے تو پھر بھی آپؐ فرما رہے ہیں کہ مَیں لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا۔
کاش کہ آج اُمّت مسلمہ بھی اس رحمۃللعالمین ؐ کے اسوہ کو اپنانے کی کوشش کرے اور لعنتوں سے اور پھٹکاروں سے اور لڑائیوں سے اور ظلموں سے بچتے ہوئے اور اپنی اصلاح کرتے ہوئے ہر ایک سے رحمت کا سلوک کرنے والی ہو تاکہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کی وارث بنے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ طفیل بن عمرو الدَّوسی اور ان کے ساتھی نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کیا یا رسول اللہ! دوس قبیلے نے اسلام کی دعوت کاانکار کر دیا ہے اس لئے آپؐ ان کے خلاف بددعا کریں۔ کسی نے کہا اب تو دوس قبیلہ ہلاک ہو گیا۔ نبی کریمﷺ نے اس طرح دعا دی کہ اے اللہ! تُو دوس قبیلے کو ہدایت دے اور ان کو لے آ‘‘۔ (بخاری کتاب الجہاد والسیر باب الدعا للمشرکین بالھدی لیتألفھم حدیث نمبر 2937)
ہر ایک کے لئے آپؐ کا جذبہ ٔرحم یہ تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا آنحضرتﷺ کا خادم تھا۔ وہ بیمار ہو گیا۔ آنحضرتﷺ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اس کے سرہانے بیٹھ کر حال احوال پوچھا اور اسلام قبول کرنے کی تحریک فرمائی۔ لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے باپ نے کہا ابوالقاسم کی بات مان لو۔ چنانچہ اس نے اسلام قبول کرلیا۔ حضور خوش خوش وہاں سے یہ کہتے ہوئے واپس آئے۔ سب تعریفیں اس اللہ جلّ شانہٗ کے لئے ہیں جس نے اسے دوزخ کی آگ سے بچالیا۔ (بخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصبی فمات، ھل یصلی علیہ… حدیث نمبر 1356)
آپﷺ جو رحم کے جذبہ سے سرشار تھے یہ برادشت نہ کر سکے کہ ایک شخص جو میری خدمت کرتا رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نیچے آئے۔ اس مرتے ہوئے شخص نے مسلمانوں کی تعداد تو نہیں بڑھانی تھی، نہ کسی اور مقصد کے لئے اس کا استعمال ہونا تھا۔ جب تک یہ آپؐ کا خادم رہا، آپؐ تبلیغ ضرور کرتے رہے لیکن زور نہیں دیا۔ یہودی ہی رہا۔ جب مرنے لگا تو خالصۃً اس کی عاقبت سنوارنے کے لئے اسلام کا پیغام پہنچایا اور پھر قبول کرنے پر خوشی بھی محسوس کی۔ اب ہمارے جو معترضین ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام سختی سے پھیلا، تلوار سے پھیلا اور آنحضرتﷺ نے بھی اس کی تعلیم دی، وہ سوائے اس کے کہ اعتراض کرنے والے ہیں اور کچھ اس کا جواب نہیں دے سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بے شمار مثالیں ہیں جہاں کبھی بھی تشدد اور سختی کا ذکر نہیں ملتا۔ آپؐ کی محبت و شفقت سے ہی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ لیکن جب آنکھیں اندھی ہو جائیں، دلوں پر پردے پڑ جائیں تو لوگوں کا حال یہی ہوتا ہے۔
بچوں سے پیارکا آپؐ کا اسوہ کیا تھا؟ پہلے بھی مَیں بیان کرآیا ہوں۔ روایت میں آتا ہے حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی ایک ران پر بٹھاتے اور حَسن کو دوسری ران پر اور ہم دونوں کو اپنے ساتھ چمٹا کر دعا کرتے کہ اے اللہ! مَیں ان دونوں پر رحم کرتا ہوں تو بھی ان دونوں پر رحم کا سلوک فرما۔ (بخاری کتاب الادب باب وضع الصبی علی الفخذ حدیث نمبر 6003)
یہ تھیں چند مثالیں جو مَیں نے دیں۔ آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو رحمن خدا کی پہچان کروائی، ان کو مختلف طریقوں سے توجہ دلائی کہ کس طرح رحمن خدا کا قرب حاصل کرو۔ کس طرح اس کی رحمانیت سے حصہ لو۔ کس طرح اس کی رحمانیت سے حصہ لینے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ رحم کا سلوک کرو۔ اپنے اُسوہ سے ایسے نمونے قائم فرمائے جس کو دیکھ کر ماننے والوں کو رحمن خدا کا صحیح فہم و ادراک حاصل ہوا۔ گویا جب رحمن خدا نے آپؐ کو رحمۃٌ للعالمین بنا کر بھیجا تو آپ ؐ نے اپنی تعلیم سے بھی اور اپنے اسوہ سے بھی اس کا حق ادا کر دیا۔ اور صرف اس ایک صفت میں نہیں بلکہ باقی تمام صفات میں بھی آپؐ نے کمال حاصل کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا خوف اس قدر تھا کہ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کو اس کا عمل نجات نہ دے گا۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا آپؐ کو بھی نہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا:ہاں مجھے بھی نہیں، سوائے اس کے کہ اللہ اپنی رحمت کے ذریعے مجھے ڈھانپ لے۔ (بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومۃعلی العمل۔ حدیث نمبر 6463)
دیکھیں وہ ذات جس کا اوڑھنا بچھونا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کا پیار حاصل کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے بارے میں خود آپؐ سے قرآن کریم میں یہ اعلان کروایا کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ(الانعام: 163) کہ تُوکہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس کے باوجود آپؐ فرما رہے ہیں کہ اللہ کی رحمت ہی مجھے ڈھانپے گی۔ آپؐ کی زندگی، موت، نمازیں تمام نیکیاں ہر چیز اس اعلیٰ مقام کی تھیں جن تک کوئی نہیں پہنچ سکتا اور جیسا کہ ہم نے دیکھا اللہ تعالیٰ خود گواہی دے رہا ہے۔ یہ وہ اعلیٰ مقام تھا جو آپؐ نے حاصل کیا۔ پھر بھی آپؐ یہی فرماتے ہیں کہ اگر مجھے نجات ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہو گی۔
پس رحمن خدا کے رحم کو جذب کرنے کے لئے اس کا فضل مانگنا انتہائی ضروری ہے جیسا کہ آنحضرتﷺ نے ہمیں دعا سکھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں دعائیں سکھائی ہیں جن کا ذکر آ چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ایک مومن کو اس کے حضور جھکانے والی اور اس کا رحم طلب کرنے والی ہونی چاہئے اور یہی ایک مومن کی نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 16 تا 22 فروری 2007ء ص 5تا 9)
صلہ رحمی، دوستی ہمسائیگی اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔تعزیر ، سزا اور رحم میں فرق
فرمودہ مورخہ 26؍جنوری 2007ء (26؍ صلح 1386ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔