اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت
خطبہ جمعہ 16؍ فروری 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد تععوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے پر اپنی رحیمیت کے جلوے دکھانے کے مختلف طریقے ہیں۔ کبھی بخشش طلب کرنے والوں کے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھولتے ہوئے ان کی بخشش کے سامان قائم فرماتا ہے، انہیں نیکیوں کی توفیق دیتا ہے۔ کبھی اپنے بندے کو یہ احساس دلاتا ہے کہ تمہارا میرے سے، میری رحمت کی طلب بھی، میری مہربانی سے ہے۔ اگر میرا فضل نہ ہوتا تو میری رحمت کی طلب کا تمہیں خیال نہ آتا۔ میری صفت رحمانیت کا تمہارے دل میں احساس بڑھنے سے تم میری طرف جھکے ہو اور کیونکہ یہ ایمان والوں کا شیوہ ہے کہ انہیں یہ احساس کرتے ہوئے جھکنا چاہئے کہ کتنے انعامات اور احسانات سے اللہ تعالی ہمیں نواز رہا ہے۔ اس احساس کے زیر اثر تم جھکے ہو اور میری رحیمیت سے حصہ پایا ہے۔
پس اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ میرے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے مجھے پکارتے رہو، کیونکہ یہی چیز ہے جو تمہیں نیکیاں کرنے کی طرف مائل رکھے گی۔ کبھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت کو حاصل کرنے کے لئے میرے راستے میں جہاد کرنا اور میری خاطر ہجرت کرنا ضروری ہے جس سے میری رحمت کے دروازے تم پر واہوں گے، کُھلیں گے۔ کبھی فرماتا ہے کہ نماز پڑھنے والے، صدقہ دینے والے میری رحیمیت کے نظارے اس دنیا میں بھی دیکھیں گے اور اگلے جہان میں بھی۔
پھر مومنوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو صالح اعمال تم بجالاتے ہو اس کے نیک نتائج تم اس جہان میں بھی دیکھو گے اور آئندہ کی زندگی میں بھی۔ غرض بے شمار ایسی باتیں ہیں جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے ایک مومن حصہ پاتا ہے۔ اور ایک مومن کی نشانی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے زیادہ سے زیادہ حصہ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ہی ہے جو مومن اور غیر مومن میں فرق کرنے والی ہے۔ ایک مومن ہی کی یہ شان ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے تو اس سے روحانی اور مادی انعاموں اور اس کی رضا کا طلب گار ہوتا ہے اور پھر وہ اس کو ملتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’دوسری قسم رحمت کی وہ ہے جو انسان کے اعمال حسنہ پر مترتب ہوتی ہے کہ جب وہ تضرّع سے دعا کرتا ہے تو قبول کی جاتی ہے اور جب وہ محنت سے تخمریزی کرتا ہے تو رحمت الٰہی اس تخم کو بڑھاتی ہے یہاں تک کہ ایک بڑا ذخیرہ اناج کا اس سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر غور سے دیکھو تو ہمارے ہر یک عمل صالح کے ساتھ خواہ وہ دین سے متعلق ہے یا دنیا سے، رحمت الٰہی لگی ہوئی ہے اور جب ہم ان قوانین کے لحاظ سے جو الٰہی سنتوں میں داخل ہیں کوئی محنت دنیا یا دین کے متعلق کرتے ہیں تو فی الفور رحمت الٰہی ہمارے شامل حال ہوجاتی ہے اور ہماری محنتوں کو سرسبز کر دیتی ہے۔ (منن الرحمٰن روحانی خزائن جلد 9 صفحہ148 حاشیہ)
پس یہ امتیاز ہے ایک مومن اور غیر مومن میں کہ مومن دین اور دنیا کے انعامات کے لئے اللہ تعالیٰ کو اس کی رحیمیت کا واسطہ دیتے ہوئے اس کے آگے جھکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ قوانین الٰہی کے مطابق انعاموں کو حاصل کرنے کے لئے اور رحیمیت سے حصہ پانے کے لئے دعا کے ساتھ اُن اسباب اور قویٰ کو بھی کام میں لانا ہو گا جو کسی کام کے لئے ضروری ہیں۔ پھر نماز، روزہ، زکوٰۃ صدقہ وغیرہ ہیں۔ یہ اُس وقت اللہ کے حضور قبولیت کا درجہ رکھنے والے اور اس کی رحیمیت کے معجزات دکھانے والے ہوں گے جب دوسرے اعمال صالحہ کی بجا آوری کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ اور یہی ایک مومن کا خاصہ ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والا ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کے صدقہ اس کے انعاموں کا طلبگار ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ فیض رحیمیت اُسی شخص پر نازل ہوتا ہے جو فیوض مترقبہ کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے‘‘۔ ایسے فیض اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جن کی اس کو خواہش اور انتظار ہو۔ ’’ اسی لئے یہ ان لوگوں سے خاص ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ربّ کریم کی اطاعت کی۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے اس قول وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا (الاحزاب:44) میں تصریح کی گئی ہے‘‘۔ یعنی وہ مومنوں کے حق میں بار بار رحم کرنے والا ہے۔ (اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 140-141 اردو ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 3صفحہ 727)
پس ایک تو یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ اطاعت شرط ہے، اور اطاعت اس وقت حقیقی اطاعت ہو گی جب یہ مومن ہر قسم کے اعمال صالحہ بجا لانے والا ہو گا اور پھر ایمان میں مضبوط ہوتا چلاجائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بھی اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ایک دفعہ جب تمہیں اللہ نے ایمان لانے کی توفیق عطا فرما دی تو پھر اس ایمان کی حفاظت بھی تم نے کرنی ہے۔ اپنی عبادتوں کو بھی زندہ کرو، تمام حقوق اللہ بجا لاؤ اور دوسرے نیک اعمال بجا لاتے ہوئے حقوق العباد کی طرف بھی توجہ رکھو اور یہ ہر دو قسم کے اعمال تم اس وقت بجا لانے والے ہو سکتے ہو جب اللہ تعالیٰ کا خوف تمہارے دل میں ہو گا۔ ایک فکر ہو گی کہ مَیں نے عبادت کی طرف بھی توجہ دینی ہے اور ہر دو حقوق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد حاصل کرنی ہے۔ کیونکہ اگر اس کی مدد شامل حال نہیں ہو گی تو نیک کاموں اور صالح اعمال کی انجام دہی نہیں ہو سکتی اور جب یہ صورت حال ہو گی تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بہت قریب ہوتا ہے، ان پر رحمت سے توجہ فرماتا ہے، ان کو نیکیوں پر قائم رکھتا ہے اور ہر قسم کے فتنہ و فساد سے بچاتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا۔ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (الاعراف: 57) اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ اور اسے خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے رہو یقینا اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب رہتی ہے۔ تو یہ ہے مومن کی نشانی کہ قومی طور پر بھی اور ذاتی طور پر بھی ایسی کوئی بات نہ کرو جس سے معاشرے میں فساد پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ اگر ایسے حالات دیکھو جو پریشان کن ہوں اور تمہارے اختیارات سے باہر ہوں تو دعاؤں میں لگ جاؤ۔ اور جب ایک مومن اللہ تعالیٰ سے رحم کی امید رکھتے ہوئے اور فتنہ و فساد سے بچتے ہوئے اُس کو پکارے گا بشرطیکہ وہ خود بھی، جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ تمام شرائط اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرنے کی پوری کر رہا ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر توجہ کرتے ہوئے ان کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ایسے ذرائع سے اس کی رحمت نازل ہوتی ہے کہ حیرانی ہوتی ہے، ایک انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ محسنین وہ لوگ ہیں جو حقوق العباد ادا کرنے والے ہیں اور حقوق اللہ بھی ادا کرنے والے ہیں اور اس طرف پوری توجہ دینے والے ہیں۔ اس فساد کے زمانے میں جس میں سے آج دنیا گزر رہی ہے اللہ تعالیٰ کا ہم احمدیوں پر یہ کس قدر احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کے اس احسان اور انعام کا کبھی بھی بدلہ نہیں اتارا جا سکتا لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ بھی احسان ہے، احسانوں پر احسان کرتا چلاجاتا ہے کہ فساد نہ کرنے والوں اور اس کی عبادت کرنے والوں کو محسنین میں شمار فرما رہاہے اور ان کی دعائیں سننے کی تسلی فرما رہا ہے۔ پس یہ جو اتنا بڑا اعزاز ہمیں مل رہا ہے، یہ کوئی عام محسنین والا اعزاز نہیں ہے بلکہ وہ لوگ ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں اور اسی طرح اس کی بجا آوری کرتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں یا کم از کم خداتعالیٰ انہیں دیکھ رہاہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کی حالت میں بھی تمہاری یہ حالت ہونی چاہئے کہ تم اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے اسے دیکھ رہے ہو یا کم از کم یہ احساس ہو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ پس جب یہ حالت ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی ہر قسم کی رحمت کے دروازے ایک مومن پر کھلیں گے۔
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے راستے میں جہاد کرنے والے، میری خاطر قربانیاں کرنے والے اور میری خاطر ہجرت کرنے والے، یہ بھی ایسے لوگ ہیں جو میرے قریبیوں میں سے ہیں جو میری رحمت سے وافر حصہ پانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (البقرۃ:219) یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
ایمان کے ساتھ ہجرت کی اور جہاد کی شرط رکھی ہے اور یہ چیزپھر ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید دلاتی ہے۔ یہاں ہجرت سے مراد صرف ایک جگہ کو چھوڑنا ہی نہیں ہے کہ ہمیں اس لئے اسے چھوڑنا پڑا کیونکہ ان نیکیوں کو بجالانے میں کسی خاص جگہ پر، یا کسی شہر میں یا ملکوں میں رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نفس کی خواہشوں کو چھوڑنے والے لوگ بھی اس زمرہ میں شامل ہیں جو اپنے نفس کو قربان کرنے والے ہیں، اپنی برائیوں کو ختم کرکے نیکیوں پر قائم ہونے والے ہیں۔ پس ان مغربی ممالک میں آنے والے افراد کو بھی اس طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ اگر حالات کی وجہ سے اپنے ملکوں کو چھوڑنا پڑا ہے تو صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ باہر آ کر ہمارے حالات اچھے ہو گئے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لینے کے لئے اپنی حالتوں کوبھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ اپنے نفس کی بدیوں کو باہر نکال کر ان میں نیکیوں کو داخل کرنے کی ضرورت ہے۔ تب یہ ہجرت مکمل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو موقع دیا ہے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پیغام کوپہنچانے کے لئے اُس جہاد میں شامل ہونے کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس پاک دین کا پیغام پہنچا کر ہم نے کرنا ہے۔ اس جہاد کے لئے مالی قربانیوں کی ضرورت ہے اور یہ مالی قربانیوں کا جہاد ہر احمدی کا جہاں بھی دنیا میں ہے ہمیشہ طُرّہ امتیاز رہا ہے۔ یہاں آ کر کشائش پیدا ہو جانے کے بعد اس طرف سے بے پرواہ نہیں ہو جانا چاہئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی کو جو جسمانی ہجرت کا موقع عطا فرمایا ہے اسے اس ہجرت کی وجہ سے اپنے نفس کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے والے بن سکیں اور فی زمانہ جماعت کوجب ضرورت پڑتی ہے اور وقت اور مال کی قربانی کی طرف بلایا جاتا ہے تو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہمیشہ یاد رکھیں یہ ان مومنین کی قربانیاں ہی تھیں جنہوں نے قرون اولیٰ میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو سمیٹنے کے لئے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوشش کی، ملک بدر ہوئے، مالی نقصانات برداشت کرنے پڑے، جہاد کرنا پڑا، سب کچھ ہوا۔ اور پھر ان قربانیوں کو ایسے پھل لگے کہ آج ہم دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے نفس کی بھی اصلاح کی، اپنی برائیوں کو ترک کیا، نیکیوں کو اختیار کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو پہنچانے کے لئے اعلیٰ قربانیاں دیں۔ پس ہم میں سے آج بھی وہی لوگ خوش قسمت ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والے ہیں جو اس اصول کو سمجھے ہوئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ جیسا کہ فرماتا ہے، وہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اگر ہم اپنی غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے اس کے آگے جھکنے والے اور اس کے دین کی سربلندی کے لئے قربانی اور کوشش کرنے والے ہوں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ پانے والے ہوں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسی کوشش کو کبھی ضائع نہیں کرتا جو نیک نیتی سے اس کی خشیت دل میں رکھتے ہوئے اس کی خاطر کی جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ عادت الٰہیہ اس طرح پر جاری ہے کہ وہ اس کی کوششوں کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ اُن کوششوں پر ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ422 حاشیہ نمبر 11)
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی رحیمیت سے ہمیشہ حصہ دیتا چلا جائے۔ اور ہر احمدی کو ایسی توفیق دیتا رہے کہ وہ ایسی ثمر آور کوشش کرنے والاہو، جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرنے کا باعث بنتی رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں۔ ’’ تیسری قسم فیضان کی فیضانِ خاص ہے۔ اس میں اور فیضان عام میں یہ فرق ہے کہ فیضان عام میں مستفیض پر لازم نہیں کہ حصول فیض کے لئے اپنی حالت کو نیک بناوے‘‘۔ جو اللہ تعالیٰ کے فیض ہیں، اس میں دو قسم کے فیض ہیں، ایک خاص اور ایک عام۔ عام تو رحمانیت کی صورت میں ہے اور خاص رحیمیت کی صورت میں ہے۔ فرمایا کہ رحمانیت کے لئے ضروری نہیں ہے کہ ضرور نیکیوں کو اختیار کرنا ہے اور اپنی حالت کو بدلنا ہے۔ فرمایا ’’فیضان عام میں مستفیض پر لازم نہیں کہ حصول فیض کے لئے اپنی حالت کو نیک بناوے اور اپنے نفس کو حُجبِ ظلمانیہ سے باہر نکالے‘‘۔ یعنی نفس کو جو اندھیرے میں چھپا ہوا ہے اس سے باہر نکالے۔ ’’یا کسی قسم کا مجاہدہ اور کوشش کرے بلکہ اس فیضان میں …… خدائے تعالیٰ آپ ہی ہریک ذی روح کو اس کی ضروریات جن کاوہ حسب فطرت محتاج ہے عنایت فرماتا ہے اور بن مانگے اور بغیر کسی کوشش کے مہیا کر دیتا ہے۔ لیکن فیضان خاص میں جہد اور کوشش اور تزکیہ قلب اور دُعا اور تضرّع اور توجہ الی اللہ اور دوسرا ہرطرح کا مجاہدہ جیسا کہ موقعہ ہو شرط ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی رحیمیت حاصل کرنی ہے تو اس کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اپنے دلوں کو صاف کرنا پڑتا ہے، دعاؤں کی طرف توجہ دینی پڑتی ہے اور صرف سطحی قسم کی دعائیں نہیں، انتہائی تضرع اور عاجزی سے گڑ گڑاتے ہوئے اس کے سامنے جھکنا ہے اور پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ اور پھر اس کے علاوہ جو بھی مجاہدہ کسی بھی کام کرنے کے لئے ضروری ہے اس کو اختیار کرناہو گا۔
فرمایا:’’اور اس فیضان کووہی پاتا ہے جو ڈھونڈتا ہے‘‘۔ جو ڈھونڈے گا اس کو اللہ تعالیٰ کا فیضان ملے گا۔ ’’ اور اُسی پر وارد ہوتا ہے جو اس کے لئے محنت کرتا ہے۔ اور اس فیضان کا وجود بھی ملاحظۂ قانون قدرت سے ثابت ہے۔ کیونکہ یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ خدا کی راہ میں سعی کرنے والے اور غافل رہنے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے‘‘۔ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوشش کرنے والے ہوں اور ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے غافل بیٹھے ہوں وہ کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ ’’بلاشبہ جو لوگ دل کی سچائی سے خدا کی راہ میں کوشش کرتے ہیں اور ہریک تاریکی اور فساد سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں ایک خاص رحمت ان کے شامل حال ہو جاتی ہے۔ اس فیضان کے رُو سے خدائے تعالیٰ کا نام قرآن شریف میں رحیم ہے اور یہ مرتبہ صفت رحیمیت کا بوجہ خاص ہونے اور مشروط بہ شرائط ہونے کے مرتبہ صفت رحمانیت سے مؤخر ہے‘‘۔ یعنی بعد میں آیا ہے ’’کیونکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے اوّل صفت رحمانیت ظہور میں آئی ہے۔ پھر بعد اس کے صفت رحیمیت ظہور پذیر ہوئی۔ پس اسی ترتیب طبعی کے لحا ظ سے سورۃ فاتحہ میں صفت رحیمیت کو، صفت رحمانیت کے بعد میں ذکر فرمایا اور کہا اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اور صفت رحیمیت کے بیان میں کئی مقامات پر قرآن شریف میں ذکر موجود ہے جیسا ایک جگہ فرمایا ہے وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا(الاحزاب:44)‘‘ پہلے مَیں مثال دے آیا ہوں۔ ’’یعنی خدا کی رحیمیت صرف ایمانداروں سے خاص ہے جس سے کافر کو یعنی بے ایمان اور سرکش کو حصہ نہیں۔ اس جگہ دیکھنا چاہئے کہ خدا نے کیسی صفت رحیمیت کو مومن کے ساتھ خاص کر دیا۔ لیکن رحمانیت کو کسی جگہ مومنین کے ساتھ خاص نہیں کیا اور کسی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ کَانَ بِالْمُؤْمِنِیْن رَحْمَانًا بلکہ جو مومنین سے رحمت خاص متعلق ہے ہر جگہ اس کو رحیمیت کی صفت سے ذکر کیا ہے۔ پھر دوسری جگہ فرمایا ہے اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (الاعراف:57) یعنی رحیمیت الٰہی انہیں لوگوں سے قریب ہے جو نیکو کار ہیں۔ پھر ایک اور جگہ فرمایاہے اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (البقرۃ:219) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطنوں سے یا نفس پرستیوں سے جدائی اختیار کی اور خدا کی راہ میں کوشش کی، وہ خدا کی رحیمیت کے امیدوار ہیں اور خدا غفور اور رحیم ہے۔ یعنی اس کا فیضان رحیمیت ضرور ان لوگوں کے شامل حال ہو جاتا ہے کہ جو اس کے مستحق ہیں کوئی ایسا نہیں جس نے اس کو طلب کیا اور نہ پایا۔‘‘ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 450 تا 452 حاشیہ نمبر 11)
یہاں سورۃ بقرہ کی جو یہ آیت ہے اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ … اس ضمن میں یا د آیا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بھی ایک حدیث کا واقعہ لکھا ہے لیکن مجھے اس سے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کو بھی جماعت میں بہت مقام تھا اور جو صحابہ کی اولاد ہیں، جب بھی کبھی کوئی تعارف کرانے لگے تو ضرور کراتے ہیں کہ میرے نانا یا دادا صحابی تھے۔ تو یہ جو اُن کا صحابی ہونا تھا یہ اُن اولادوں کو یہ احساس دلانے والا ہوناچاہئے کہ جس طرح اُنہوں نے اپنے نفس کو بھی کچلا، ہجرت کا حق بھی ادا کیا، اپنے گھر بار کو بھی چھوڑا، قربانیاں بھی کیں۔ اُس مقام کو ہم نے قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے۔
جس واقعہ کا مَیں ذکر کر رہا ہوں یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ حج پر گئے۔ تو وہاں کچھ نوجوان جو بعد میں مسلمان ہوئے تھے، قریب بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تشریف لائے، حضرت عمر ؓ نے ان نوجوانوں کو فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جاؤ کہ یہ صحابی رسولؐ ہیں۔ خیر وہ پیچھے ہٹ گئے، تھوڑی دیر کے بعد ایک اور صحابی تشریف لائے، حضرت عمر ؓ نے ان نوجوانوں کو پھر پیچھے ہٹا دیا، ہوتے ہوتے وہ دُور جوتیوں کے پاس چلے گئے۔ اور جب وہاں پہنچے تو وہ سارے اچھے خاندانوں کے تھے، ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ ہمارے ساتھ یہ ذلت کا سلوک ہوا ہے، اور باہر نکل گئے۔ باہر جا کر باتیں کرنے لگے کہ یہ تو ہمارے ساتھ آج بہت برا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک زیادہ بہتر ایمان لانے والوں میں سے تھا۔ اس نے کہا کہ جو بھی ہوا یہ ہمارے باپ دادا کا قصور ہے جنہوں نے آنحضرتؐ کو نہیں مانااور آج ان کی وجہ سے ہمیں ذلت اٹھانی پڑی۔ بہرحال صحابہ رسولؐ کا ایک مقام ہے۔ تو خیر انہوں نے کہا اس کا کیا علاج کیاجائے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ سے ہی پوچھتے ہیں۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اور کہا کہ آج ہم سے یہ سلوک ہوا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا مَیں مجبور تھا۔ مَیں تمہارے خاندانی حالات اور وجاہت سب کچھ جانتا ہوں لیکن صحابہ رسولؐ جنہوں نے اتنی قربانیاں دی ہوئی ہیں، ہجرت بھی کی، جہاد میں شامل ہوئے ان کے مقابلے میں تمہاری حیثیت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ہمیں سمجھ آ گئی کہ یہی بات ہے لیکن اس کا اب علاج کیا ہے۔ حضرت عمر ؓ کو ان سارے حالات کا پتہ تھاکہ بڑے اچھے خاندان کے یہ لوگ ہیں، ان کے باپ دادا نے بعض حالات میں مسلمانوں کی مدد بھی کی ہوئی ہے۔ حضرت عمرؓ بھی بڑے جذباتی ہو گئے۔ آپ ؓ سے بولا نہیں گیا۔ آپ نے شام کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ ادھر جاؤ۔ وہاں اُس زمانے میں جنگ ہو رہی تھی تو بہرحال وہ سات نوجوان تھے چلے گئے اور اس جنگ میں شامل ہوئے۔ ملک سے ہجرت بھی کی اور جہاد بھی کیا اور شہادت حاصل کی۔ تو وہ مقام پایا جس کا اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر فرمایا ہے۔ (ملخص از تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 477 تا 479)
پس جو صحابہ کی اولادیں ہیں مَیں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے قربانیاں دیں تو انہوں نے مقام پایا۔ اب ہم میں صحابہ میں سے تو کوئی نہیں ہے صرف اتنا کہہ دینا کہ ہم صحابی کی نسل میں سے ہیں، کافی نہیں ہو گا۔ اگر اس زمانے میں بعد میں آنے والے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے جہاد بھی کریں گے اور ہجرت بھی کریں گے تو وہ آپ لوگوں سے کہیں آگے نہ بڑھ جائیں۔ اس لئے اس طرف توجہ رکھیں اور آپ کے بڑوں نے جو قربانیاں کیں اور جس مقام کو پایا اس کو اگلی نسلوں میں بھی قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دل میں اس کی سچی طلب اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی ہمیشہ نہ صرف خواہش پیدا ہوتی رہے بلکہ عمل کرنے کی بھی توفیق ملے۔ اپنے نفسوں کے خلاف جہاد کرنے والے بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لئے قربانیاں کرنے والے بھی ہوں تاکہ اس کی رحیمیت سے ہمیشہ فیض اٹھاتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 9 تا 15 مارچ 2007ء ص 5 تا 7)
صفت رحیم، صحابہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو قربانیاں کیں … اگلی نسلوں میں بھی قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ اپنی عبادتوں کو بھی زندہ کرو اور حقوق العباد کی طرف بھی توجہ کرو۔ مغربی ممالک میں ہجرت کرنے والے احمدیوں کی ذمہ داریاں
فرمودہ مورخہ 16؍ فروری 2007ء بمطابق 16؍ تبلیغ 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔