23 مارچ کے دن کی اہمیت
خطبہ جمعہ 23؍ مارچ 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
آج 23 مارچ ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آج کا دن جماعتِ احمدیہ کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ آج سے 118سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے اِذن سے بیعت کا آغازفرمایا تھا اور یوں جماعت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہ دن اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے اُس وقت اسلام کے جو حالات تھے اس کے بارے میں تھوڑا سا پس منظر بھی بیان کر دیتا ہوں۔ اُس وقت جو مسلمانوں کی حالت تھی، اُس سے ہر وہ مسلمان جس کے دل میں اسلام کا درد تھا، بے چین تھا۔ برصغیر میں آریوں اور عیسائی پادریوں اور ان کے مبلغین نے اسلام پر بے انتہا تابڑ توڑ حملے شروع کئے ہوئے تھے۔ انتہائی شدید حملے تھے کہ مسلمان علماء بھی اُس وقت سہمے رہتے تھے اور ان کے پاس ان حملوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ کچھ تو لاجواب ہونے کی وجہ سے اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت کی جھولی میں گرتے جا رہے تھے اور کچھ بالکل اسلام سے لا تعلق ہو رہے تھے۔
عیسائیت اور دوسرے مذاہب جو حملہ کرنے والے تھے، اُس وقت ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر کوئی شخص تھا تو ایک ہی جری اللہ تھا، یعنی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام۔ آپ نے پاک و ہند میں اس وقت کے تمام مذاہب یعنی آریہ سماج، برہمو سماج یا عیسائیت کے ماننے والے، جو اس وقت اسلام اور بانی اسلامﷺ پر تحریر و تقریر سے خوفناک حملے کر رہے تھے، ان سب کو اپنی معرکہ آراء کتاب براہین احمدیہ میں جو آپ نے چار حصوں میں تحریر فرمائی تھی ایسے دندان شکن جواب دئیے کہ ان کو خاموش کرادیا۔ اس کا پہلا اور دوسرا حصہ 1880ء میں اور تیسرا حصہ 1882ء میں اور چوتھا حصہ 1884ء میں شائع فرمایا۔ اس میں آپؑ نے قرآن کریم کے کلام الٰہی اور بے نظیر ہونے اور اسی طرح آنحضرتﷺ کے دعویٰ نبوت میں سچے اور صادق ہونے کے ناقابل تردید دلائل بیان فرمائے اور فرمایا کہ مَیں نے جو دلائل دئیے ہیں، جو ان دلائل کو ردّ کرے گا اس کے لئے چیلنج ہے کہ اگر ان کا تیسرا حصہ یا چوتھا حصہ یا پانچواں حصہ بھی دلائل دے دے تو دس ہزار روپے انعام دوں گا، جو اس وقت ایک بہت بڑی رقم تھی۔ اس کتاب نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کئے اور ان حملہ آوروں کے منصوبوں کو بھی خاک میں ملایا۔ اسلام کی خاطر آپؑ کے اس جوش کو دیکھ کر آپؑ سے ارادت کا تعلق رکھنے والے بعض مخلصین آپؑ کی خدمت میں عرض کرتے تھے کہ آپ ہماری بیعت لیں۔ لیکن آپؑ انکار فرماتے رہے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؑ کو اس بات کا حکم نہیں ملا۔
حکم ملنے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اعلان یکم دسمبر 1888ء کو تبلیغ کے نام سے شائع فرمایا جس میں آپؑ نے فرمایا کہ:
’’مَیں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدّارانہ زندگی کے چھوڑنے کیلئے مجھ سے بیعت کریں۔ پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ مَیں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کیلئے کوشش کروں گااور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کیلئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربانی شرائط پر چلنے کیلئے بدل و جان تیار ہوں گے۔ یہ ربّانی حکم ہے جوآج مَیں نے پہنچا دیا ہے۔ اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا۔ اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ۔ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 158جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) (یعنی جب تُو نے اس خدمت کیلئے قصد کر لیا تو خدائے تعالیٰ پر بھروسہ کر اور یہ کشتی ہماری آنکھوں کے رُوبرو اور ہماری وحی سے بنا۔ جو لوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ تجھ سے نہیں، خدا سے بیعت کریں گے۔ خدا کا ہاتھ ہو گا جو ان کے ہاتھ پر ہو گا)۔
پھر آپؑ نے 12؍جنوری 1889ء کو ایک اعلان ’’تکمیلِ تبلیغ‘‘ کے نام سے شائع فرمایا اور اس میں یکم دسمبر 1888ء کے اشتہار کا حوالہ دے کر 10شرائط بیعت درج فرمائیں۔ ان شرائط بیعت کو ہم سب جانتے ہیں لیکن یاددہانی کیلئے تاکہ یاد تازہ ہو جائے اور احمدی بھی اس سے استفادہ کر لیں اور کیونکہ ایم ٹی اے بڑے وسیع حلقہ میں غیروں میں بھی سنا جاتا ہے وہ بھی اندازہ کر سکیں کہ یہ شرائط کیا ہیں، ان شرائط کو مَیں پڑھ دیتا ہوں۔
پہلی شرط آپ نے فرمائی :’’ بیعت کنندہ سچے دل سے عہداس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا۔ ‘‘
’’دوم یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے‘‘۔
شرط ’’سوم یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریمﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیارکرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یادکر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ وِرد بنائے گا‘‘۔
شرط ’’چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا، نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے‘‘۔
شرط ’’پنجم یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عُسر اور یُسراور نعمت او ربلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضا ہو گا اور ہر ایک ذلّت اور دکھ کے قبول کرنے کیلئے اس کی راہ میں تیار رہے گااور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا‘‘۔
شرط ’’ششم یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کوبکلّی اپنے سر پر قبول کر لے گا۔ اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا‘‘۔
شرط ’’ہفتم یہ کہ تکبّر اور نخوت کو بکلّی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خُلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا‘‘۔
آٹھویں شرط’’ یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہریک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا‘‘۔
نویں شرط’’ یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا‘‘۔
دسویں شرط’’ یہ کہ اس عاجز سے (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے) عقدِ اخوت محض للہ باقرارطاعت در معروف باندھ کر اس پر تاوقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو ‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159-160جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
آج جماعت احمدیہ کا خلافت سے جو رشتہ قائم ہے وہ بھی اس لئے ہے کہ اس عہد بیعت کے تحت ہر احمدی اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تعلق جو ڑ رہا ہے اور پھر اس سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے آنحضرت ﷺ اور خدا تعالیٰ سے تعلق قائم ہوتا ہے۔ کاش آج کے مسلمان بھی یہ نکتہ سمجھ جائیں اور زمانے کے مسیح کا انکار کر نے کی وجہ سے طرح طرح کی جن مشکلات میں مبتلا ہیں، اُن سے نجات پائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مشن جیسا کہ مَیں نے شروع میں بتایا تھا، آنحضرتﷺ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا اور قرآن کریم کی حقانیت کو ثابت کرنا تھا۔ اس مقصد کیلئے آپؑ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن ہونے کے بعدایک پاک جماعت کے قیام کا اعلان فرمایا اور بیعت لی۔ آپؑ کا آنحضرت ﷺ سے عشق انتہا کو پہنچا ہوا تھااور آپؑ آنحضرتﷺ کے مقام کی حقیقی پہچان رکھتے تھے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اگر کسی کو پہچان تھی تو وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تھی۔
آپؑ ایک جگہ آنحضرتﷺ کے مقام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’ مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے (ہزارہزار درُود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی، وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اُس کی جان گداز ہوئی۔ اس لئے خدا نے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذرّیّت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 118، 119)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :
’’ وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے، اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً وعملاً و صدقاً وثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا ……وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا، وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخر النبییّن جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درُود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو‘‘۔ (اتمام الحجۃ۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ308)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی جماعت سے بھی یہ توقع رکھتے تھے اور یہ تعلیم دیتے تھے کہ قرآن اور آنحضرتﷺ سے سچا عشق اور محبت قائم ہو۔ اسی لئے شرائط بیعت میں قرآن کریم کی تعلیم اپنے پر لاگو کرنے اور آنحضرتﷺ پر درُود بھیجنے کی طرف آپ نے خاص توجہ دلائی ہے۔
ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں : ’’اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑدو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جو لوگ قرآن کو عزت دینگے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدّم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدّم رکھا جائے گا۔ نو ع انسان کیلئے رُوئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگرمحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اُس کے غیر کو اُس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تاآسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہو گی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے ؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جوخدا سچ ہے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اُس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے۔ اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کیلئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے‘‘۔ (کشتیٔ نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ14-13)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کام مسلمانوں کو آنحضرتﷺ کے مقام کی پہچان کروانا اور دوسرے مذاہب کے حملوں سے بچانا تھااور نہ صرف بچانا بلکہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلانا بھی تھا، اُس ہدایت سے دنیا کو روشناس کروانا بھی تھا جو آخری شرعی نبی کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر اتاری تھی اور جس کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ آخری زمانے میں مسیح ومہدی نے آ کر یہ کام کرنا ہے کہ اسلام کو تمام ادیان پر اللہ تعالیٰ کی مدد سے غالب کرنا ہے۔ آپؑ نے یہ دعویٰ فرمایا کہ وہ مسیح و مہدی جو آنا تھا وہ مَیں ہوں اور اپنے دعوے کی سچائی میں آپؑ نے بیشمار پیشگوئیاں فرمائیں جو بڑی شان سے پوری ہوئیں۔ ان میں زلازل کی پیشگوئیاں بھی ہیں، طاعون کی پیشگوئی بھی ہے اور دوسری پیشگوئیاں ہیں۔ پس یہ تمام نشانیاں جو آپؑ کی تائید میں پوری ہوئیں، یہ زمینی اور آسمانی آفات کی پیشگوئیاں جو آپؑ کی تائید میں پوری ہوئیں، یہ آپؑ کی سچائی پردلیل تھیں۔ پھر آنحضرتﷺ کی یہ عظیم الشان پیشگوئی کہ ہمارے مہدی کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی چاند اور سورج کا خاص تاریخوں میں گرہن لگنا ہے جو پہلے کبھی کسی کی نشانی کے طور پر اس طرح نہیں ہوا کہ نشانی کا اظہار پہلے کیا گیا ہو اور دعویٰ بھی موجود ہو۔ ان سب باتوں کے ساتھ ایک شخص کا دعویٰ کہ آنے والا مسیح و مہدی میں ہوں اگر اپنی امان چاہتے ہو تو میری عافیت کے حصار میں داخل ہو جاؤ۔ یہ سب کچھ اتفاقات نہیں تھے۔ عقل رکھنے والوں کیلئے، سوچنے والوں کیلئے، یہ سوچنے کا مقام ہے۔ احمدی خوش قسمت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس موعود کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد ہم نے بھی اس پیغام کو جس کو لے کر آپؑ اٹھے تھے، دنیا میں پھیلانا ہے تا کہ خدا کی توحید دنیا میں قائم ہو اور آنحضرتﷺ کا جھنڈا تمام دنیا میں لہرائے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے، یہ تو ہونا ہے۔ ہم نے تو اس کام میں ذرا سی کوشش کر کے ثواب کمانا ہے، ہمارا صرف نام لگنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توسعید فطرت لوگوں کو توحید پر قائم کرتے ہوئے آنحضرتﷺ کی امت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اس لئے اس نے اپنے مسیح و مہدی کو بھیجا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیا، اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں۔ توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اِس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلا ق اور دعاؤں پر زور دینے سے‘‘۔ (الوصیۃ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 307-306)
پس یہ خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ اب دنیا میں اپنے اس پاک نبیﷺ کی حکومت قائم کرے۔ گو آجکل دنیا کے حالات دیکھتے ہوئے یہ بات بظاہر بڑی مشکل نظر آتی ہے لیکن اگر غور کریں تو وہ شخص جو قادیان (جو پنجاب کی ایک چھوٹی سی بستی ہے) میں اکیلا تھا۔ اس مسیح و مہدی کی زندگی میں ہی لاکھوں ماننے والے اس کو اللہ تعالیٰ نے دکھا دئیے۔ بلکہ یورپ وامریکہ تک آپ کے نام اور دعوے کی شہرت ہوئی اور آپ کو ماننے والے پیدا ہوئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دن جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر چڑھتا ہے وہ ہمیں ترقی کی نئی راہیں دکھاتا ہوا چڑھتا ہے۔ آج 185ممالک میں آپؑ کی جماعت کا قیام اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آپؑ ہی وہ مسیح و مہدی ہیں جس نے اس زمانے میں تمام دنیا کودین واحد پر جمع کرنا تھا۔ دنیا کے تمام براعظموں کے اکثر ملکوں میں اللہ تعالیٰ کے منشاء کی عملی صورت ہمیں بیعتوں کی شکل میں نظر آ رہی ہے۔ آج بھی اگر کوئی اسلام کا دفاع کر رہا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے فیضیاب ہو کر آپؑ کو ماننے والا ہی کر رہا ہے۔
آج عرب دنیا بھی اس بات کی گواہ ہے کہ عیسائیت کے ہاتھوں گزشتہ چند سالوں سے عرب مسلمان کس قدر زِچ ہو رہے تھے، کتنے تنگ تھے۔ اللہ کے اس پہلوان کے تربیت یافتوں نے ہی عرب دنیا میں عیسائیت کا ناطقہ بند کیا۔ کیونکہ آج اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے وہ دلائل قاطعہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہی دئیے گئے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کیا جا سکتا ہے اور دنیا کے غلط عقائد کا منہ بند کیا جا سکتا ہے۔ آج اتنی آسانی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برہان کی روشنی سے عقائد باطلہ کاجوردّکیا جا رہا ہے، مختلف وسائل استعمال ہوتے ہیں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس الہام کی صورت میں فرمایا تھا کہ’’ مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔ یہ پیغام جو اتنی آسانی سے ہم دنیا کے کناروں تک پہنچا رہے ہیں یہ بھی اس بات کی دلیل اور تائید ہے۔ ایک چھوٹی سی غریب جماعت جس کے پاس نہ تیل کی دولت ہے نہ دوسرے دنیاوی وسائل ہیں اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آج کل کی اس دنیا کے ماڈرن ذرائع اور وسائل استعمال کر کے تبلیغ کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہے۔ آج ہم اللہ تعالیٰ کے آپؑ سے کئے گئے وعدوں کو نئے سے نئے رنگ میں پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ آج اللہ تعالیٰ کے اس الہام کو ایک اور شان کے ساتھ بھی پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو آج ایک نئے سیٹلائٹ کے ذریعہ سے جو عرب دنیا کیلئے خاص ہے ایک نئے چینل mta3 اَلْعَرَبِیَّۃ جاری کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے جو 24گھنٹے عربی پروگرام پیش کرے گا تاکہ عرب دنیا کی پیاسی روحیں، نیک فطرت اور سعید روحیں اُن خزائن سے فیضیاب ہو سکیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تقسیم فرمائے تھے۔ اس چینل کی وجہ سے مخالفت بھی شروع ہے۔ وہاں عرب میں بھی جماعت کے مخالفین ہیں۔ اس کمپنی کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں جس سے سیٹلائٹ کایہ معاہدہ ہوا ہے۔
لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :خدا چاہتا ہے کہ اب یہ پیغام پہنچے، اس لئے اب یہ خدا کے منشاء کے مطابق پہنچے گا اور کوئی اس کو روکنے والا نہیں۔ انشاء اللہ۔ دعا بھی کریں اللہ تعالیٰ ان مدد کرنے والوں کو بھی ہر شر سے محفوظ رکھے، جو اس پیغام کو پہنچانے میں مدد کر رہے ہیں اور انہیں اپنے معاہدوں پر قائم رہنے کی بھی توفیق دے۔ اور سعید روحوں کو اس روحانی مائدہ سے فیض پانے کی بھی توفیق دے۔ ہمیں اس بارے میں تو ذرا بھی شک نہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت انشاء اللہ تعالیٰ اس پیغام کو قبول کرے گی۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ ہے۔
ایک الہام ہے۔ ’’ اِنِّیْ مَعَکَ یَا ابْنَ رَسُوْلِ اللّٰہ۔ سب مسلمانوں کو جو رُوئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ‘‘۔ (تذکرۃ صفحہ 490 ایڈیشن چہارم2004ء مطبوعہ ربوہ)
جو پہلا حصہ ہے اس کا عربی ترجمہ ہے، مَیں تیرے ساتھ ہوں اے رسول اللہ کے بیٹے۔ اس کے متعلق آپ فرماتے ہیں :۔
’’یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو۔ عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ۔ یہ ایک خاص قسم کا امرہے‘‘۔ فرمایا کہ’’ احکام اور امر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو، زکوٰۃ دو، خون نہ کرو۔ وغیرہ۔ اس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویابعض لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے … غرض یہ امر شرعی ہے…۔
دوسرا امر کَونی ہوتا ہے اور یہ احکام اور امر قضاء و قدر کے رنگ میں ہوتے ہیں جیسے قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا (الانبیاء:70) اور وہ پورے طور پر وقوع میں آ گیا۔ ‘‘جب آگ کوٹھنڈے ہونے کا حکم ملا تو وہ ٹھنڈی ہو گئی‘‘ اور یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اسی قسم کا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانان روئے زمین عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے۔ ہاں اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی کسی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے۔ اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہو گا جو قابل ذکر اور قابل لحاظ نہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 569-570 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جلدا س آواز پر لبیک کہتے ہوئے دین واحد پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنی زندگیوں میں یہ نظارے دیکھیں۔ آج جیسا کہ مَیں نے کہا کہmta3 اَلْعَرَبِیَّۃ کا اجراء بھی ہو رہا ہے، اس لئے اس مناسبت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں، آپؑ نے عربوں کو مخاطب ہو کر جو پیغام دیا ہے اس کا کچھ حصہ پڑھتا ہوں۔ اس کا تو صرف مَیں ترجمہ ہی پڑھوں گا۔ اللہ تعالیٰ جلد عرب دنیا کے بھی سینے کھولے اور وہ زمانے کے امام کو پہچان لے۔
آپؑ عرب دنیا کو اپنا پیغام دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’السلام علیکم !اے عرب کے تقویٰ شعار اور برگزیدہ لوگو! السلام علیکم، اے سر زمین نبوت کے باسیو! اور خدا کے عظیم گھر کی ہمسائیگی میں رہنے والو! تم اقوام اسلام میں سے بہترین قوم ہو اور خدائے بزرگ و برتر کا سب سے چنیدہ گروہ ہو۔ کوئی قوم تمہاری عظمت کو نہیں پہنچ سکتی۔ تم شرف و بزرگی میں اور مقام و مرتبہ میں سب پر سبقت لے گئے ہو۔ تمہارے لئے تو یہی فخر کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کا آغاز حضرت آدم سے کر کے اس نبی پر ختم کیا جو تم میں سے تھا اور تمہاری ہی زمین اس کا وطن اور مولد و مسکن تھی۔ تم کیا جانو کہ اس نبی کی کیا شان ہے۔ وہ محمد مصطفی ؐ ہے، برگزیدوں کا سردار، نبیوں کا فخر، خاتم الرسل اور دنیا کا امام ؐ۔ آپؐ کا احسان ہر انسان پر ثابت ہے اور آپؐ کی وحی نے تمام گزشتہ رموز ومعارف اور نکات عالیہ کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔ اور جو معارف حقہ اور ہدایت کے راستے معدوم ہو چکے تھے ان سب کو آپؐ کے دین نے زندہ کر دیا۔ اے اللہ ! تو روئے زمین پر موجود پانی کے تمام قطروں اور ذرّوں اور زندوں اور مردوں اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ ظاہر یا مخفی ہے ان سب کی تعداد کے برابر آپؐ پر رحمت اور سلامتی اور برکت بھیج۔ اور ہماری طرف سے آپؐ کو اس قدر سلام پہنچا جس سے آسمان کناروں تک بھر جائیں۔ مبارک ہے وہ قوم جس نے محمدﷺ کی اطاعت کا جوأ اپنی گردن پر رکھا۔ اور مبارک ہے وہ دل جو آپؐ تک جا پہنچا اور آپؐ میں کھوگیا اور آپؐ کی محبت میں فنا ہو گیا۔ اے اس زمین کے باسیوجس پر حضرت محمد مصطفیﷺ کے مبارک قدم پڑے اللہ تم پر رحم کرے اور تم سے راضی ہو جائے اور تمہیں راضی برضا کر دے۔ اے بندگان خدا! مجھے تم پر بہت حسن ظن ہے اور میری روح تم سے ملنے کیلئے پیاسی ہے۔ مَیں تمہارے وطن اور تمہارے بابرکت وجودوں کو دیکھنے کیلئے تڑپ رہا ہوں تاکہ میں اس سر زمین کی زیارت کر سکوں جہاں حضرت خیر الوریٰﷺ کے مبارک قدم پڑے اور اس مٹی کو اپنی آنکھوں کیلئے سرمہ بنا لوں اور مَیں مکّہ اور اس کے صلحاء اور اس کے مقدس مقامات اور اس کے علماء کو دیکھ سکوں اور تاکہ میری آنکھیں وہاں کے اولیاء کرام سے مل کر اور وہاں کے عظیم مناظر کو دیکھ کر ٹھنڈی ہوں۔ پس میری خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اپنی بے پایاں عنایت سے آپ لوگوں کی سرزمین کی زیارت نصیب فرمائے اور آپ لوگوں کے دیدار سے مجھے خوش کر دے۔ اے میرے بھائیو! مجھے تم سے اور تمہارے وطنوں سے بے پناہ محبت ہے۔ مجھے تمہاری راہوں کی خاک اور تمہاری گلیوں کے پتھروں سے بھی محبت ہے اور مَیں تم ہی کو دنیا کی ہر چیز پر ترجیح دیتا ہوں۔ ا ے عرب کے جگر گوشو! اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو خاص طور پر بے پناہ برکات، بے شمار خوبیوں اور عظیم فضلوں کا وارث بنایا ہے۔ تمہارے ہاں خدا کا وہ گھر ہے جس کی وجہ سے اُمّ القریٰ کو برکت بخشی گئی اور تمہارے درمیان اس مبارک نبی کا روضہ ہے جس نے توحید کو دنیا کے تمام ممالک میں پھیلایا اور اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر کیا۔ تم ہی میں سے وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے سارے دل اور ساری روح اور کامل عقل و سمجھ کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولؐ کی مدد کی اور خدا کے دین اور اس کی پاک کتاب کی اشاعت کیلئے اپنے مال اور جانیں فدا کر دیں۔ بے شک یہ فضائل آپ لوگوں ہی کا خاصہ ہیں اور جو آپ کی شایان شان عزت و احترام نہیں کرتا وہ یقینا ظلم و زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اے میرے بھائیو! مَیں آپ کی خدمت میں یہ خط ایک زخمی دل اور بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ پس میری بات سنو، اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے‘‘۔ (عربی عبارت کا اردو ترجمہ آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ419تا422)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :
’’اے عرب کے شریف النفس اور عالی نسب لوگو! میں قلب وروح سے آپ کے ساتھ ہوں۔ مجھے میرے ربّ نے عربوں کے بارے میں بشارت دی ہے اور الہاماً فرمایا ہے کہ مَیں اُن کی مدد کروں اور انہیں ان کا سیدھا راستہ دکھاؤں اور ان کے معاملات کی اصلاح کروں اور اس کام کی انجام دہی میں مجھے آپ لوگ انشاء اللہ تعالیٰ کامیاب و کامران پائیں گے۔ اے عزیزو! اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کی تائید اور اس کی تجدید کیلئے مجھ پر اپنی خاص تجلیات فرمائی ہیں اور مجھ پر اپنی برکات کی بارش برسائی ہے اور مجھ پر قسم ہا قسم کے انعامات کئے ہیں اور مجھے اسلام اور نبی کریمﷺ کی اُمّت کی بدحالی کے وقت میں اپنے خاص فضلوں اور فتوحات اور تائیدات کی بشارت دی ہے۔ پس اے عرب قوم ! مَیں نے چاہاکہ تم لوگوں کو بھی ان نعمتوں میں شامل کروں۔ مَیں اس دن کا شدت سے منتظر تھا۔ پس کیا تم خدائے ربّ العالمین کی خاطر میرا ساتھ دینے کیلئے تیار ہو؟‘‘ (عربی سے اُردو ترجمہ، حمامۃ البشریٰ۔ روحانی خزائن جلد 7صفحہ183-182)
پس اے سر زمین عرب کے باسیو! آج مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نمائندے کی حیثیت سے خدائے ربّ العالمین کے نام پر تم سے درخواست کرتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفیﷺ کے اس روحانی فرزند کی آواز پر لبیک کہو جس کی تعلیم اور اس کے رسولؐ سے عشق کی چند باتیں یا مثالیں مَیں نے پیش کی ہیں اگر اس مسیح و مہدی کے کلام میں ڈوب کر دیکھو تو خدائے واحد ویگانہ سے تعلق اور پیار اور حضرت محمد مصطفیﷺ سے عشق اور آپؐ کیلئے غیرت کے جذبات کے علاوہ اس میں اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ صاف دل ہو کر اگر دیکھو گے تو جماعت احمدیہ کی 100سال سے زائد کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جماعت کی زندگی کا ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھتا رہا ہے۔ آج اس سیٹلائٹ کے ذریعہ سے آپ تک وسیع پیمانے پر یہ پیغام پہنچنا بھی اس تائید و نصرت کی ایک کڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آج یہ انتظام فرما دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود الصلوٰۃ والسلام کو ماننے والی ایک چھوٹی سی غریب جماعت، پیسہ پیسہ جوڑ کر، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس زمانے کے امام کا پیغام تمہیں سیٹلائٹ کے ذریعہ سے پہنچانے کی سعادت حاصل کر رہی ہے۔ پس بدظنی سے بچتے ہوئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس جری اللہ کی تائید و نصرت کیلئے خد اتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کھڑے ہو جاؤ اور مخالفت پر کمربستہ ہونے کی بجائے اس مسیح و مہدی کی آواز پر کان دھروجسے خدا تعالیٰ نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کیلئے اپنے وعدے کے مطابق جو اس نے آنحضرتﷺ سے کیاتھامبعوث فرمایا ہے۔ پس آؤ اور اس مسیح و مہدی کے منکرین میں شامل ہونے کی بجائے اس کے دست راست بن جاؤ کہ آج اُمّت مسلمہ بلکہ تمام دنیا کی نجات حضرت محمد مصطفیﷺ کے اس عاشق صادق کا ہاتھ بٹانے میں ہی ہے۔
اے عرب کے رہنے والو!دلوں میں خوف خدا پیدا کرتے ہوئے، خدا کیلئے اس درد بھری آواز پر کان دھرواور اس درد کو محسوس کرو جس کے ساتھ یہ مسیح و مہدی تمہیں پکار رہا ہے۔ آؤ اور اس کے سلطانِ نصیر بن جاؤ۔ یاد رکھو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اُس سے وعدہ ہے کہ اُسے دنیا پر غالب کرے گا۔ تم نہیں تو تمہاری نسلیں اس برکت سے فیض پائیں گی اور پھر وہ یقینا اس بات پر تأسّف اور افسوس کریں گی کہ کاش ہمارے بزرگ بھی آنحضرتﷺ کے ارشاد کو سمجھتے ہوئے اس عاشق رسول اللہؐ اور مسیح و مہدی کے معین و مددگار بن جاتے اور اس کی جماعت میں شامل ہو جاتے۔ اللہ کرے کہ تم لوگ آج اس حقیقت کو سمجھ لو۔ اللہ تعالیٰ ہماری یہ عاجزانہ دعائیں قبول فرمائے۔
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 13 تا 19اپریل 2007ء ص 5تا 8)
یہ دن اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک نئے چینل MTA3العربیۃ کا اجراء، خلافت سے وابستگی کی اہمیت اور برکات
فرمودہ مورخہ23 ؍مارچ 2007ء بمطابق 23؍امان 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔