اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت سے فیض پانے کے لئے نہایت اہم نصائح

خطبہ جمعہ 30؍ مارچ 2007ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائیْ:

وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ (آل عمران:190)

اللہ تعالیٰ جو مالک کل ہے۔ جو آسمان کا بھی مالک ہے اور زمین کا بھی مالک ہے۔ کوئی چیز اس کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مالک اور اَلْمُلْک ہونے کی صفت کو قرآن کریم میں مختلف رنگ میں مختلف مضامین کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور یہ ہر مومن کا فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا ادراک حاصل کرے، اسے ذہن میں رکھے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلے، اس کی عبادات کی طرف توجہ دے، اس کے احکامات پر عمل کرے، اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرے۔ وہ جو مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہے۔ اُس سے اس دن سے ڈرے جس دن جزا سزا کا فیصلہ ہو گا۔ کوئی بھی عقلمند انسان اس دن اپنے زعم میں یہ خیال کرکے کہ مَیں نے زندگی میں بڑے نیک اعمال کئے ہیں، مَیں تو لازماً جنت میں جانے والوں میں سے ہوں، جنت میں جانے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ایسے ہر شخص کو دنیا بے وقوف کہے گی۔ یہ حدیث ہم کئی بار سن چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مَیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر جنت میں نہیں جا سکتا۔ صحابہ کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھ پر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہو گا تو مَیں جنت میں جاؤں گا۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب المرضیٰ باب تمنی المریض الموت حدیث نمبر 5673)

تو جب آپؐ جیسا انسان جس کے لئے یہ زمین و آسمان پیدا کئے گئے، آپؐ جو سب نبیوں سے افضل اور خاتم النبییّن ہیں، آپؐ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب:57) اللہ تعالیٰ یقینا اس نبی پر اپنی رحمت نازل کر رہا ہے اور اس کے فرشتے بھی اس کے لئے دعائیں کر رہے ہیں۔ پس اے مومنو ! تم بھی اس پر درود بھیجتے ہوئے دعائیں کرتے رہا کرو اور اس کے لئے سلامتی مانگتے رہا کرو۔ آپؐ جن کا اوڑھنا بچھونا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا تھا، جن کی راتیں خدا تعالیٰ کی عبادت میں کھڑے اس طرح گزرتی تھیں کہ پاؤں مبارک متورّم ہو جایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر باب قولہ لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک … حدیث نمبر 4836)

آپؐ کے بارے میں حضرت عائشہ ؓ گواہی دیتی ہیں کہ آپؐ کے رات اور دن قرآن کریم کی عملی تصویر تھے۔ (مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین باب جامع صلاۃ اللیل حدیث نمبر 1623)

پھر اللہ تعالیٰ بھی یہ گواہی دیتا ہے اور اعلان فرماتا ہے کہ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ(القلم:5)کہ توُ نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم ہے۔ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ توُ اپنے عمل اور تعلیم میں انتہائی درجہ کو پہنچا ہوا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ آپؐ سے یہ اعلان کرواتا ہے کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الانعام:163)۔ توُ اُن سے کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میر ی موت اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔ ان تمام ضمانتوں کے باوجود، ان تمام عملوں کے باوجود، اپنوں اور غیروں کی گواہی کے باوجود خوف ہے۔ اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین نہیں ہے۔ نہیں، بلکہ اس لئے کہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک آپؐ کو تھا۔ اللہ کی مالکیت اور پھر اس کے مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہونے کا صحیح فہم آپؐ کو تھا۔ اس لئے آپؐ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا رحم مانگتے تھے اور یہی آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو تلقین فرمائی۔

پس یہی اصل ہے کہ جو مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنہے اُس سے اُس کا فضل اور رحم مانگ کر ہی انسان کی بچت ہے۔ کسی کو کیا پتہ کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول ہے اور کونسا نہیں اور کس نیت سے کوئی نیکی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ جانتا ہے۔ ہر انسان کے دل کا حال بظاہر دوسروں کونیکی کرنے والا بھی نظر آتا ہو تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کی نیت کیا تھی۔ ان تمام باتوں اور وعدوں کے باوجو د اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا خوف دامنگیر تھا تو ایک عام مومن کو کس قدر اس کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ جہاں اس بات کا اظہار فرماتا ہے کہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنجزا سزا میرے ہاتھ میں ہے۔ ، گناہگار کو بھی بخش سکتا ہوں اور بخشتا ہوں۔ وہاں مومنوں کو یہ تسلّی بھی کرواتا ہے کہ جب زمین و آسمان کی ملکیت میری ہے اور ہر چیز پر میری دائمی قدرت ہے۔ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس میں ذرہ برابر بھی نہ کبھی کمی واقع ہوئی اور نہ ہو گی۔ تومیرے احکامات پر عمل کرکے خالص میرے لئے ہو کر ہر قسم کے حقوق ادا کرو تو میری پناہ میں رہو گے اور ہر شر سے بچائے جاؤ گے۔ پس اس بات کو سمجھتے ہوئے میرے احکامات پر عمل کرو۔ ورنہ یاد رکھو اگر میرے مقابلے پر کسی اور کی پناہ تلاش کرنے کی کوشش کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔ تمہیں کوئی مستقل پناہ نہیں دے سکتا۔ اس دنیا کی عارضی منفعتیں تمہیں بعض دفعہ بہت نظر آتی ہیں لیکن پھرجزا سزا کے دن تمہارے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہو گی۔ اور ایسے تمام لوگ جو کفر میں بڑھے ہوئے ہیں ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں۔ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بادشاہت میں رحمانیت کے جلوے دکھاتا ہے۔ لیکن اِن کفر میں بڑھے ہوؤں کے لئے جب جزا سزا کا دن آئے گا تو بڑا کڑا اور دشوار گزار دن ہو گا۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کے اُس دن اللہ تعالیٰ کی رحمانیت سے فیض پانا ہے تو اس کے بتائے ہوئے رستوں پر چلو اور پھر بھی یہ خوف دامن گیر رہے کہ وہ قادر مطلق ہے، ہماری کسی غلطی پر ہمیں پکڑ نہ لے اس لئے ہمیشہ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اس آسمان و زمین کے مالک سے رحمت اور بخشش کے طلبگار رہیں۔ اس سے گناہوں اور غلطیوں کے باوجود رحم اور بخشش کے امیدوار رہیں۔ اس لئے کہ وہ مالک اور بادشاہ ہے۔ اس نے فرمایا ہے کہ مَیں عدل سے بالا ہو کر انعام و احسان کرتا ہوں۔ اگر صرف عدل کا معاملہ ہو تو بہت سے لوگ پکڑ میں آ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کسی پر قتل کا الزام لگایاگیاجب کہ وہ بے قصور تھا۔ اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ تعالیٰ انصاف کر اور مجھے اس سزا سے بچا، توُ جانتا ہے کہ غلط الزام ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ نیک آدمی تھا، دعائیں قبول ہوتی تھیں اس کی دعا قبول نہیں ہوئی اور اس کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اس نے پھر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ تُو تو سب سے زیادہ انصاف کرنے والوں سے زیادہ انصاف کرنے والا ہے۔ تجھے پتہ ہے کہ جس جرم میں یہ سزا سنائی گئی ہے وہ مَیں نے نہیں کیا۔ تو اس پر اُسے بتایا گیا کہ توُ نے انصاف مانگا تھا تو انصاف یہی ہے جو تجھے مل گیا۔ گو کہ تو آج ایک غلط الزام میں پکڑا گیا ہے یا سزا سنائی گئی ہے۔ لیکن فلاں وقت تو نے ایک جانورکو یا کیڑے کو ظالمانہ طریقے پر مارا تھا۔ تو آج تجھ سے اس عمل کی پاداش میں یہ سلوک ہو رہا ہے۔

پس یہ خوف کا مقام ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اپنے زعم میں بعض لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑے نیک اعمال کئے یا لوگ کسی کو نیک اعمال کرنے والا سمجھ رہے ہوتے ہیں ان سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ اس لئے جزا سزا کے وقت کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور سامنے رکھتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا رحم اور فضل مانگنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی بخشش کی آغوش میں آ سکیں۔ پس آنحضرتﷺ نے اپنی سنت سے اپنی دعاؤں سے جو ہمیں یہ نکتہ سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت ہر وقت دل میں رکھو یہی یاد رکھنے کے قابل چیز ہے۔

حضرت عائشہ ؓ نے آپؐ کی ایک د عا کے بارے میں بیان کیا کہ آپؐ ہر نماز میں پڑھتے تھے۔ کہ سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ، اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ کہ اے اللہ تو پاک ہے، اے ہمارے رب اپنی حمد کے ساتھ اے اللہ مجھے بخش دے۔ (صحیح بخاری کتاب الأذان باب الدعا فی الرکوع حدیث نمبر 794)

پس بخشش، رحم اور فضل مانگنے کی ضرورت ہے، نہ کہ عدل اور انصاف۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندرونے کو ہم سے بہتر جانتا ہے۔ پس احکام پر عمل کرکے بھی حق کے طور پر نہیں بلکہ پھر فضل کے طور پر خداتعالیٰ سے مانگنا چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کیوں کہا اور عَادِلِ یَوْمِ الدِّیْن (کیوں ) نہیں کہا تو واضح ہو کہ اس میں بھید یہ ہے کہ عدل کا تصور اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک حقوق کو تسلیم نہ کر لیا جائے اور جہانوں کے پروردگار خدا پر تو کسی کا کوئی حق نہیں اور آخرت کی نجات خداتعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کے لئے محض ایک عطیہ ہے جو اس پر ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی اطاعت کرنے اور اس کے احکام کوقبول کرنے، اس کی عبادت کو بجا لانے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے لئے حیران کن تیزی سے قدم بڑھایا‘‘۔ پس تمام احکامات پر عمل کرنے اور حیران کن تیزی سے قدم نیکیوں کی طرف بڑھانے کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نیک اجرملنا ہے وہ حق نہیں ہے۔ جو اُن اعمال کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی ہمیں عطا فرماتا ہے، جس کا اس نے وعدہ کیا ہوا ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطیہ ہے، احسان ہے۔ اور کوئی عقلمند انسان عطیہ اور احسان کو حق نہیں سمجھ سکتا۔ اور اس عطیہ کی انتہا اس وقت ہوتی ہے، اس کی مالکیت کا جلوہ اس وقت انتہا کو پہنچتا ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’… گو وہ اطاعت کے معاملہ کو پورے کمال تک نہ پہنچا سکے اور نہ عبادت کا پورا حق ادا کرسکے ہوں اور نہ ہی معرفت کی حقیقت کو پوری طرح پا سکے ہوں۔ لیکن ان باتوں کے حصول کے شدید خواہش مند رہے ہوں …‘‘۔ یعنی حصول تو نہ ہو۔ اس چیز کو، ان نیکیوں کو پا تو نہ سکے ہوں لیکن ان کی خواہش ہو۔ حصول کی طرف بڑھنے کی کوشش ہو اور شدیدخواہش کی ابتداء ہو چکی ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھی نیک جزا دیتا ہے۔ کیونکہ یہ عطیہ اور احسان ہے اور مالک حق رکھتا ہے جس پر جتنا چاہے احسان کرے۔ اگر اللہ تعالیٰ صرف عدل کرنے والا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وہ لوگ حصہ نہ پا سکتے جو صرف کوشش کرنے والے ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں نے وہ مرتبہ حاصل نہیں کیا جس کے حصول کی وہ کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بدی کرنے والوں کے متعلق آپؑ نے فرمایاکہ’’(جو) بُرے عمل کرتے رہے اور بدی کرنے پر اپنی جرأت میں ترقی کرتے گئے۔ اور وہ (بدی کے کاموں سے) رکنے والے نہ تھے‘‘۔ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7صفحہ 116 عربی ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد اول صفحہ 135-136)

ایسے لوگ پھر اللہ تعالیٰ کی سزا کے اندر آتے ہیں۔ تو مالک کیونکہ بااختیار ہوتا ہے اس لئے عدل سے بڑھ کر احسان کر سکتا ہے۔ ہمیشہ احسان اور بخشش کی دعا مانگنی چاہئے ورنہ انصاف تو پھر اُسی طرح ہو گا جس طرح مَیں نے پہلے ایک مثال دی ہے۔ لیکن یہ جو بدی کرنے والے ہیں یہ بھی اگر اصرار نہ کریں اور نیکی کی طرف قدم بڑھانا شروع کر دیں۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوااللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَلَمْ یُصِرُّوْاعَلٰی مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ (آل عمران:136) یعنی نیز وہ لوگ جو کسی بے حیائی کا ارتکاب کر بیٹھیں یا اپنی جانوں پر کوئی ظلم کریں تو اللہ کا بہت ذکر کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہ بخشتا ہے اور جو کچھ وہ کر بیٹھے ہوں اس پر جانتے بوجھتے ہوئے اصرار نہیں کرتے۔ لیکن اگر اصرار کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آتے ہیں۔ پس ایسے محسن مالک کے دَر پر نہ جھکناکتنی بڑی بدبختی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی عقل دے جو خدا کے مقابلے پر دوسرے خدا بنا بیٹھے ہیں اور یہ عقل انہیں آ جائے کہ وہ ایک خدا ہے جو دائمی قدرت کا مالک ہے۔ زمین و آسمان میں اس کی بادشاہت ہے اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ اُس کے علاوہ جسے بھی تم اپنا دوست اور مددگار بناتے ہو تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا۔ پس اس قادر و مقتدر خدا کے آگے جھکو اور اس کے احسان سے جزاسزا کے دن فیض پاؤ۔

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ؓ نے اپنی کتاب ’’حیات قدسی‘‘ میں جوا نہوں نے لکھی ہوئی ہے، حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیان فرمودہ ایک حکایت درج کی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ یہاں اس دنیا میں بھی جزا سزا کا فیصلہ کرتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’حضرت داؤدؑ کے زمانے کی بات ہے کہ ایک درویش حجرہ نشین، جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا رہتا تھا اور خلوت نشینی اس کا محبوب شغل تھا علیحدہ کمرے میں بند رہتا تھا۔ ایک دن جب وہ ذکر الٰہی میں مشغول تھا۔ اس کے…… دل میں یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ اگر لحم البقر ملے تو مَیں کھاؤں۔ (یعنی گائے کا گوشت کھانے کی اس کو خواہش پیدا ہوئی) چنانچہ یہ خواہش جب شدت کے ساتھ اسے محسوس ہوئی تو ایک قریب البلوغ، ایسا گائے کا بچھڑا جو قریباً جوانی کی عمر کو پہنچنے والا تھا اس کے حجرہ کے اندر خود بخود آ گیا اور اس کے گھسنے کے ساتھ ہی اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ گائے کا بچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری خواہش پر اس حجرہ میں آیا ہے۔ اس لئے اس نے اسے ذبح کیا تاکہ اس کا گوشت کھا کر اپنی خواہش پوری کرے۔ جب ابھی ذبح کیا ہی تھا کہ اوپر سے ایک شخص آ گیا اور یہ دیکھ کر کہ اس درویش نے بچھڑا ذبح کیا ہے غضبناک ہو کر بولا کہ یہ میرا جانور ہے، تم نے اسے ذبح کیوں کیا۔ توُا س جانور کو یہاں چوری کرکے لے آیا پھر ذبح کر لیا یہ مجرمانہ فعل ہے۔ میں اس پر عدالت میں استغاثہ دائر کروں گا۔ چنانچہ اس شخص نے بحیثیت مدعی حضرت داؤدؑ کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ عدالت نے مجرم کو طلب کیا اور حضرت داؤدؑ نے اس درویش سے پوچھا کہ یہ شخص جو بحیثیت مدعی تجھ پر الزام لگاتا ہے کہ توُ نے ایسا ایسا فعل کیا ہے اس الزام کا تمہارے پاس کیا جواب ہے۔ اس کے متعلق اس درویش نے بیان کیا کہ میرے والد جب کہ مَیں چھوٹا ہی تھا تجارت کے لئے کسی ملک میں گئے۔ اس کے بعد مَیں جوان ہوا اور اسے عرصہ دراز گزر گیا۔ مَیں نے کچھ تعلیم حاصل کرکے بعض اہل اللہ سے تعلق پیدا کیا اور گوشہ نشینی کو اختیار کر لیا۔ اسی اثناء میں جبکہ مَیں ذکر الٰہی میں مصروف تھا میرے دل میں گائے کا گوشت کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس خواہش کی حالت میں یہ گائے کا بچھڑا میرے حجرہ میں آ گیا۔ مَیں نے یہی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری خواہش کو پورا کرنے کے لئے یہ گائے کا بچھڑا میرے حجرہ میں بھیج دیا ہے۔ اس لئے مَیں نے اسے ذبح کر لیا۔ یہ شخص اوپر سے آ گیا اور غضبناک ہو کر بولا کہ توُ نے میرا جانور چرایا ہے اور پھر ذبح بھی کر لیا ہے اور مَیں عدالت میں مقدمہ دائر کروں گا۔ ۔ چنانچہ اسی بناء پر یہ مجھے ملزم قرار دیتا ہے۔ مَیں توسمجھا تھا اللہ تعالیٰ نے میری خواہش کے مطابق بھیجا ہے۔ اب جو فیصلہ عدالت کے نزدیک مناسب ہو وہ فیصلہ کر دے۔

حضرت داؤدؑ کے دل پر اس درویش کے بیان سے بلحاظ اس کی نیکی اور پارسائی اور عاجزانہ حالت کے خاص اثر ہوا۔ آپؑ نے فرمایا کہ اچھا اس وقت جاؤ اور فلاں تاریخ کو دونوں مدعی جس نے درخواست دی تھی اور مدعا علیہ جو دوسرا تھا، جس پر الزام لگایا گیا تھا دونوں حاضر ہو جاؤ تا فیصلہ سنا دیا جائے۔ جب مدعی اور ملزم دونوں عدالت سے رخصت کئے گئے تو حضرت داؤد ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حضور بہت دعا کی کہ اے میرے خدا میری عدالت سے کسی کیس کے متعلق ناروا فیصلہ ہونا جو تیرے نزدیک اپنے اندر ظلم کا شائبہ رکھتا ہو میں قطعاً پسند نہیں کرتا۔ تو اس مقدمہ میں میری راہنمائی فرما اور اصل حقیقت جو بھی ہے مجھ پر منکشف فرما، کھول دے۔ جب حضرت داؤدؑ نے نہایت تضرع سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ جو کچھ درویش نے بیان کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور ذکر کی حالت میں اس درویش کے دل میں یہ خواہش ہم نے ہی ڈالی اور گائے کا بچھڑا بھی ہمارے ہی تصرف کے ماتحت درویش کے حجرہ میں لایا گیا اور پھر اس کا ذبح کیا جانا بھی ہمارے ہی منشاء کے مطابق ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایایہ سب کارروائی ہمارے ہی خاص ارادے کے تحت وقوع میں آئی اور اصل حقیقت یہ ہے کہ اس درویش کا والد جو بہت بڑا تاجر تھا اور مدت تک باہر تجارت کرنے کے بعد لاکھوں روپے کی مالیت حاصل کی اور کئی ریوڑ بھیڑوں اور بکریوں کے اور کئی گلے گائیوں اور اونٹوں کے اس کی ملکیت میں تھے۔ وہ واپس وطن کو آ رہا تھا اور یہ جو مدعی ہے جو یہ کہتا تھا کہ میری گائے کیوں ذبح کرلی۔ یہ نمک حرام اس درویش کے باپ کا نوکر تھا۔ جب وہ تاجر اپنے شہر کے قریب ایک میدان میں اترا اور رات کو سویا تو اس شخص نے جو اس کا نوکر تھا نمک حرامی کی اور چھری سے اس کے اوپر حملہ کرکے، اس چھری سے جس پر اس شخص کا نام بھی لکھا ہوا تھا، اس کا نام کندہ تھا اس تاجر کو قتل کر دیااور اس میدان کے گوشے میں معمولی سا گڑھا کھود کر اس میں گھسیٹ کر ڈال دیا۔ اس میدان میں اس پر مٹی ڈال کر اس کو دفن کر دیا۔ چنانچہ حضرت داؤد ؑ کو خداتعالیٰ نے کشفی حالت میں وہ میدان اور وہ گڑھا سب کچھ دکھا دیا اور وہ چھری بھی جس سے تاجر قتل کیا گیا تھا اور خون آلود کپڑے بھی جو اس کے ساتھ دفن کئے گئے تھے۔ یہ ساری چیزیں ان کو دکھا دی گئیں اور بتایا کہ ہم نے یہ سب کارروائی اس لئے کروائی کہ اس قاتل کے پاس جس قدر مال مویشی اور روپیہ ہے وہ سب درویش کو جو مقتول تاجر کا بیٹا ہے اور اصل وارث ہے دلایا جائے اور مدعی کو جو درویش کے باپ کا قاتل ہے قصاص کے طور پر قتل کی سزا دلائی جائے۔

جب حاضری کے لئے مقررہ دن کو یہ دونوں حاضر ہوئے تو حضرت داؤدؑ نے اس مدعی کو کہا کہ تم اس درویش کو معاف کر دو تمہارے لئے اچھا ہو گا۔ اس مدعی نے عدالت کے کمرے میں شور ڈال دیا کہ دیکھو جی کیا عدالت ہے؟ کیا عدالت یوں ہوتی ہے مجرموں کو بجائے سزا کے مدعی سے معافی دلائی جا رہی ہے۔ ایسا عدل نہ کبھی سنا اور نہ دیکھا۔ حضرت داؤدؑ کے بار بار سمجھانے پر بھی جب مدعی نے عدل عدل کی رٹ لگائی تو آپؑ نے فرمایا کہ بہت اچھا اب ہم عدل ہی کریں گے اور سپاہی کو حکم دیا کہ اس مدعی کو ہتھکڑی لگالی جائے اور فلاں میدان کی طرف کوچ کیا جائے۔ وہاں پہنچ کر فرمایا کہ یہ قبر کس کی ہے اور اس کا قاتل کون ہے۔ آپ نے چھری جس پر مدعی کا نام بھی لکھا تھا اور تاجر کے خون آلود کپڑے جو ساتھ ہی مدفون تھے۔ وہ سب کچھ گڑھا کھودنے سے قبل ہی بتا دیا کہ یہاں یہاں پڑے ہیں اور یہ بھی بتا دیا کہ جومدعی ہے یہ اس تاجر کا، جو اس درویش کا باپ ہے، قاتل ہے جسے اس مدعی نے اپنی چھری سے سوئے ہوئے قتل کر دیا تھا۔ اور خدا نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے اور دکھا بھی دیا ہے۔ جیسے کہ بتایا تھا۔ اسی طرح وہاں کی چیزوں کو دیکھا۔ اسی کے مطابق قبر سے چھری بھی نکل آئی اور خون آلود کپڑے بھی نکل آئے۔

چنانچہ جب حضرت داؤدؑ نے مدعی قاتل کو قصاص کے طور پر قتل کا حکم سنایا تو اس پر مدعی کہنے لگا کہ جناب مَیں ملزم کو معافی دیتاہوں اور مقدمہ واپس لیتا ہوں، آپ بھی مجھے معاف فرمائیں۔ تو حضرت داؤد نے فرمایا کہ اب معافی نہیں دی جا سکتی۔ اب وہی عدل جس کے متعلق عدل عدل کے الفاظ میں تم شور ڈالتے رہے ہو تمہارے ساتھ کیا جائے گا اور اسی کے مطابق عدالت کی کارروائی ہو گی۔ اور اس کے بعد مدعی کو درویش کے تاجر باپ کے قصاص میں قتل کا آخری حکم سنایا گیا۔ جس چھری سے تاجر کو قتل کیا گیا تھا اسی سے بعد اقرار جرم قاتل قتل کر دیا گیا اور جو کچھ مال و متاع مویشی اور روپیہ اور جائیداد وغیرہ تاجر کی جو چیزیں غصب کی گئی تھیں وہ سب کی سب اس درویش کو جو تاجر کا بیٹا تھا اور وہ اصل وارث تھا اس کو دے دی گئیں۔ (حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ 169-165)

اس طرح باوجود انتہائی پیچیدہ معاملے کے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کو پوری چیز کھول کر دکھا دی اور انصاف ہو گیا۔ جو عدل مانگ رہا تھا اُس کو عدل سے سزا مل گئی اور جس درویش نے سچ بولا تھا، درویشی میں عمر گزاری۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے، اس کو اس کا اجر اللہ تعالیٰ نے دے دیا۔ اگر وہ جو ملزم تھا غلطی مان لیتا تو اللہ کے پیارے بھی جو اس کا پَرتوہوتے ہیں اس پر رحم کرتے۔ لیکن کیونکہ اس نے غلط بات پر اصرار کیا اور اپنے زعم میں دوسروں کو اپنی چالاکی سے دھوکہ دے رہا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ کے بندے کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کی وجہ سے سزا وار ہوا، سزا پا گیا۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا وہ اللہ کا نیک بندہ تھا اپنی عاجزی اور نیکی اور سچائی کی جزا اُس کو مل گئی۔

اب مَیں بعض احادیث پیش کرتا ہوں جن میں آنحضرتﷺ نے اس صفت سے فیض پانے کے جو طریق ہمیں سکھائے ہیں وہ بیان کئے گئے ہیں۔ عامرؓ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نعمانؓ بن بشیر کو فرماتے ہوئے سنا کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حلال اور حرام واضح واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان متشابہات ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے اور جو بھی متشابہات سے بچتا رہے اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی اس میں پڑ گیا وہ اس چرواہے کی طرح ہے جو اپنے جانور روکی گئی فصل کے قریب چراتا ہے ممکن ہے کہ وہ اس میں داخل ہو جائیں۔ یاد رکھو کہ ہر مَلِک، بادشاہ کے لئے ایک روک ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی روک دنیا میں اس کے محارم، نواہی، مناہی ہیں۔ خوب یاد رکھو کہ جسم میں ایک لوتھڑا ہے جب وہ ٹھیک ہو تو سارا بدن ٹھیک ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہوتا ہے اور وہ دل ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبراء لدینہ حدیث نمبر 52)

اللہ تعالیٰ نے ایک توواضح واضح احکام فرما دئیے کہ یہ کرنے ہیں اور یہ نہیں کرنے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں جب کسی شک و شبہ کی گنجائش پیدا ہو تو ان سے بچنا چاہئے۔ تقویٰ یہی ہے۔ کیونکہ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جن باتوں سے منع کیا ہے اس کی مثال اس طرح ہے کہ جس طرح کسی بادشاہ کی کوئی رَکھ ہو اور وہاں باڑ لگی ہو۔ فصلیں لگی ہوں اور کوئی اپنی بکریاں چراتا ہوا ان میں چلا جائے۔ پھر فرمایا کہ یہ دل ایک لوتھڑا ہے، جو انسان کے جسم میں ہے۔ اگر یہ ٹھیک ہو تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے۔ اگر یہ خراب ہو جائے تو سارا جسم جو ہے، بدن جو ہے، وہ خراب ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اوامرو نواہی جو ہیں جس کے کرنے کا اور نہ کرنے کا اس نے حکم دیا ہے۔ اس کے مطابق زندگی گزارنا اسمَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنکے رحم کو جزا سزا کے دن جذب کرنے والا ہے۔ ورنہ انسان اللہ تعالیٰ کی سزا کے نیچے آسکتا ہے اور دل کی نشاندہی فرما دی کہ تمہارے دلوں سے ہی نیکی اٹھنی ہے اور انہی میں سے بیماریاں پنپتی ہیں۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کوحاصل کرنا ہے تو اس کو ہر قسم کے گند سے پاک کرو۔ بعض چیزیں دیکھ کے انسان بعض دفعہ برائی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ اس کو احساس نہیں رہتا کہ کس گناہ میں پڑنے لگا ہے۔ اس لئے ہمیشہ دل پر نظر رکھنی چاہئے کہ یہی دل ہے جس میں آئے ہوئے خیالات اور اس کے بعد کئے گئے عمل کے مطابق پھر آپ اللہ تعالیٰ سے اجر پانے والے بھی ہو سکتے ہیں اور اس کی سزا کے مورد بھی بن سکتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ذکر کرنے والوں کی تلاش میں رستوں میں نکلتے ہیں۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں کو پا لیتے ہیں توکہتے ہیں کہ اپنی حاجتیں بیان کرو۔ پھر وہ ایسے لوگوں کو ورلے آسمان تک گھیرے رکھتے ہیں۔ ان کا ربّ ان سے پوچھے گا حالانکہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ میرے بندے کیا کہتے ہیں ؟ وہ کہیں گے کہ وہ تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری حمد کرتے ہیں اور تیری بڑائی بیان کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے کہیں گے اے اللہ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ پھر اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ فرشتے کہیں گے کہ اگر وہ تجھے دیکھ لیتے تو تیری زیادہ عبادت کرتے اور تیری بڑائی شدت کے ساتھ بیان کرتے اور تیری تسبیح کثرت کے ساتھ کرتے۔ پھر اللہ فرمائے گا کہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟ تو فرشتے کہیں گے کہ وہ جنت مانگ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ تو فرشتے جواب دیں گے اے اللہ انہوں نے اس کو نہیں دیکھا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ اگر وہ میری جنت کو دیکھ لیتے تو ان کی کیا حالت ہوتی۔ وہ عرض کریں گے کہ وہ اگر اس کو دیکھ لیتے تو اس کے حصول کی خواہش اور رغبت ان میں بہت زیادہ بڑھ جاتی۔ پھر اللہ پوچھے گا کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے؟ فرشتے جواب دیں گے کہ آگ سے بچنے کی۔ اللہ فرمائے گا کہ کیا انہوں نے اُسے دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کریں گے کہ اے اللہ! انہوں نے نہیں دیکھا۔ اللہ فرمائے گا کہ اگر وہ اس کو دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ تو فرشتے جواب دیں گے اے اللہ! وہ اگر اسے دیکھ لیتے تو اور زیادہ ڈرنے والے اور اس سے زیادہ دور بھاگنے والے ہوتے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ مَیں تم کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ مَیں نے ان کو بخش دیا، ان کے اس عمل کی وجہ سے، جنت کی خواہش کی وجہ سے، آگ سے ڈرنے کی وجہ سے ان کو بخش دیا۔ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ عرض کرے گا کہ ان میں ایک بندہ ایسا بھی تھا جو اپنی کسی ضرورت کے لئے وہاں آ گیا تھا۔ اللہ فرمائے گا یہ ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنے والے بھی بدنصیب نہیں ہوتے۔ اسے بھی بخشتا ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ عز وجل حدیث نمبر 6408)

یہ مالک کا احسان اور انعام ہے کہ نیک لوگوں کے ساتھ بیٹھنے والوں کو بھی بخش دیتا ہے۔ نیکی کو بغیر دیکھے اس کی خواہش کرنے والوں کو بخش دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا یہاں عدل کا سوال نہیں ہے۔ یہاں احسان تقسیم ہو رہا ہے۔ اس کا احسان اس کی مالکیت کے ثبوت کے تحت ہی ہے۔ ان نیک لوگوں میں بیٹھنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ بخش رہا ہے اور فیض پہنچا رہا ہے۔

پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفت مالکیّت کے تحت اپنے بندے کے اچھے اور برے اعمال کے لحاظ سے اس سے کیا سلوک کرتا ہے۔ کس طرح اس کی نیکیوں اور بدیوں کا اندراج فرماتا ہے جو کہ جزا سزا کے دن سامنے آنا ہے۔ اس میں بھی کتنی رعایت ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حوالے سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نیکیوں اور بدیوں کو لکھ رہا ہے پھران کو بیان بھی کر دیا ہے۔ پس جس نے نیکی کرنے کا ارادہ کیا لیکن اسے نہ کر سکا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے ہاں ایک نیکی شمار کرے گا۔ نیکی کا ارادہ کیا اور عمل نہ کیا تو نیکی شمار ہو گی۔ اگر وہ اس کا ارادہ کرے اور پھر اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے پاس سے دس سے لے کرسات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ اور جو کوئی بدی کا ارادہ کرلے اور پھر اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے پاس ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔ (بدی کا ارادہ کیا لیکن عمل نہیں کیا، جھٹک دیا، اللہ تعالیٰ نے نیکی لکھ دی) اور وہ اگر اس کا ارادہ کرکے اس پر عمل بھی کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی ایک بدی کو شمار کرے گا۔ (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب من ھمّ بحسنۃ اوبسیئۃ حدیث نمبر 6491)

اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کے تحت یہ احسان اور انعامات ہیں جو بندوں پر وہ کرتا ہے، جیسا کہ ہمیں پتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان صفات کا رنگ بندوں کو بھی اپنے اوپر لاگو کرنا چاہئے، چڑھانا چاہئے اور جیسے کہ ہم جانتے ہیں آنحضرتﷺ سب سے زیادہ ان صفات کا، اللہ تعالیٰ کی جو بھی صفات ہیں، ان کا اظہار اپنی ذات سے کرنے والے تھے۔ ایک دو مثالیں اب میں اس کی دیتا ہوں کہ کس طرح غلبہ اور قدرت ہونے کے باوجود جب آپؐ عرب کے بادشاہ بن چکے تھے آپؐ دشمنوں سے بھی احسان کا سلوک فرماتے تھے۔

عکرمہ بن ابو جہل کا واقعہ بڑا مشہور ہے۔ آنحضرتﷺ نے ان کے قتل کا حکم دیا تھا اور اس کی وجہ سے یہ تھی کہ یہ خود بھی اور ان کا والد ابو جہل تھا اس نے بھی مسلمانوں کو بڑی تکلیف پہنچائی تھی اور اس میں بڑی شدت اختیار کرنے والوں میں سے تھا۔ جب عکرمہ کو یہ خبر ملی کہ آنحضرتﷺ نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے۔ تو یمن کی طرف بھاگ گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے اس کی بیوی جو اس کی چچازاد بھی تھی اور حارث بن ہشام کی بیٹی تھی، اسلام قبو ل کرنے کے بعد گئیں اور کشتی پر سوار ہونے سے پہلے عکرمہ کو جا لیا اور پکڑ لیا اور اس کو جا کر کہا کہ مَیں تیرے پاس آئی ہوں اے میرے چچا زاد! (خاوند کا حوالہ نہیں دیا، چچا زاد کا حوالہ دیا ہے) مَیں تیرے پاس سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور سب سے زیادہ نیک سلوک کرنے والے اور لوگوں میں سب سے زیادہ بہتر کے پاس سے آئی ہوں۔ تم اپنے آپ کو برباد نہ کرو۔ مَیں نے تمہارے لئے امان طلب کر لی ہے۔ جانے سے پہلے اس کے لئے آنحضرتﷺ سے امان طلب کرکے گئی تھیں کہ اگر مَیں اُسے لے آؤں تو۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ اگر وہ آ جائے اور اطاعت میں رہے گا تو ٹھیک ہے۔ تو خیر باتیں ہوتی رہیں بڑی مشکل سے مان کر عکرمہ اپنی بیوی کے ساتھ واپس آئے۔ تو آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اے محمدﷺ میری بیوی نے مجھے بتایا ہے کہ آپؐ نے مجھے امان دے دی ہے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ درست کہتی ہے کہ تمہیں امان دی گئی ہے۔ تو اس بات کو سن کر عکرمہ نے کلمہ پڑھ دیا۔ اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ۔ پھر عکرمہ نے شرم کے باعث اپنا سر جھکا لیا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ اے عکرمہ! ہر وہ چیز جو میری قدرت میں ہے اگر تم اس میں سے کچھ مجھ سے مانگو تو مَیں تم کو عطا کر دوں گا۔ جتنا بھی ملکیت کادائرہ ہے، جو کچھ میری قدرت میں ہے، مانگو مَیں تمہیں دوں گا۔ عکرمہ نے کہا کہ مجھے میری وہ تمام زیادتیاں معاف کر دیں جو مَیں آپؐ سے کرتا رہا ہوں۔ اس پر نبی کریمﷺ نے فرمایا اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِعِکْرِمَۃَ کُلَّ عَدَاوَۃٍ عَادَانِیْھَا اَوْ مَنْطِقٍ تَکَلَّمَ بِہٖ اے اللہ! عکرمہ کوہر وہ زیادتی جو وہ مجھ سے کرتا رہا ہے بخش دے یا آپؐ نے یہ فرمایا کہ اے اللہ !عکرمہ میرے بارے میں جو بھی کہتا رہا ہے اسے بخش دیا۔ (السیرۃ الحلبیہ لعلامہ ابو الفرج نورالدین باب ذکر مغازیہ فتح مکہ شرفھا اللہ تعالیٰ جلد 3صفحہ132دارالکتب العلمیۃ)

پھر فتح مکہ کے موقع پر ہی تاریخ میں آتا ہے کہ آنحضورﷺ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ اے قریش کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے تمہاری زمانہ جاہلیت والی نفرت کو ختم کر دیا ہے اور اسے آباء و اجداد کے ذکر کے ساتھ عظمت دی ہے اور تمام لوگ آدمؑ کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔ پھر آنحضورﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا (سورۃ الحجرات: 14) اے لوگویقینا ہم نے تمہیں نر اور مادہ پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ لیکن اللہ دائمی علم رکھنے والا اور ہمیشہ باخبر ہے۔

پھر فرمایا :اے قریش !تم مجھ سے کس قسم کے سلوک کی توقع رکھتے ہو؟ قریش نے کہا کہ ہم آپؐ سے بھلائی کی ہی امید رکھتے ہیں کیونکہ آپؐ ہمارے معزز بھائی اور ہمارے معز زبھائی کے بیٹے ہیں۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ سہیل بن عمرو نے اس سوال پر کہا کہ ہم اچھی بات کرتے ہیں اور آپؐ سے اچھی امید وابستہ کرتے ہیں۔ کیونکہ آپؐ ایک معزز بھائی اور معزز بھائی کے بیٹے ہیں اور آپؐ ہم پر قدرت بھی رکھتے ہیں۔ قریش کا یہ جواب سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں ویسا ہی کہتا ہوں جیسا کہ میرے بھائی یوسف ؑ نے کہا تھا کہ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن (یوسف:93) آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں۔ اللہ تمہیں بخش دے گا۔ وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ جاؤ تم سب لوگ آزاد ہو۔ کہتے ہیں کہ آنحضورﷺ کا یہ فرمانا تھا کہ وہ لوگ ایسے نکلے جیسے قبروں سے نکلے ہوں اور بعد میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ (تلخیص از السیرۃ الحلبیہ جلد3 صفحہ 141-140 باب ذکر مغازیہ فتح مکہ۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

جب غلبہ اور قدرت مل گئی، جب آپؐ بادشاہ بن گئے تو تب بھی آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا پَر تو بنتے ہوئے احسان کا سلوک فرمایا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے پَرتوبنتے ہوئے اس نبی کی سنت پر چلتے ہوئے، اپنے نفسوں کو قابو میں رکھتے ہوئے، اپنے اپنے دائرے میں ایک دوسرے سے احسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جزا سزا کے دن ہم ایسے عمل لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں جو اس کے رحم اور بخشش کو کھینچنے والے ہوں۔ خطبہ ثانیہ میں حضور انور نے فرمایا:

آج ربوہ سے ایک اطلاع ہے کہ ہمارے سلسلہ کے بہت پرانے کارکن چوہدری عبداللطیف صاحب اوورسیئر پرسوں وفات پا گئے تھے۔ اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ بڑے پرانے احمدی تھے۔ احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے ان کو ان کے عزیزوں نے تمام جدّی جائیداد اور مکانات وغیرہ جو بھی تھے سب سے محروم کر دیا۔ اور بیعت کرنے کے بعد پھر وصیت بھی کی، زندگی وقف بھی کی اور تحریک جدید میں رہے اور شروع میں جو ربوہ کی آباد کاری ہوئی ہے اس میں یہ شامل تھے۔ تمام پلاننگ نقشے اور ساری نشاندہی وغیرہ انہوں نے اس ٹیم میں شامل ہو کر بڑی محنت سے کی بلکہ ربوہ کے ہرپلاٹ کی، سڑک کی، ہر کونے کی حد بندی ان کو زبانی یاد تھی۔ یہ سب کچھ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے نکالا ہوا تھا۔ اپنے کام میں بڑے اصولی اور سخت تھے۔ کسی قسم کی رعایت نہیں کرتے تھے اور بڑے محنتی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ ربوہ کے جو ابتدائی لوگ ہیں یہ ان میں سے تھے اور بہرحال ربوہ کے نام کے ساتھ جب بھی تاریخ میں نام آئے گا ان لوگوں کا نام بھی آئے گا۔ ابھی نماز جمعہ کے بعد میں انشاء اللہ ان کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 20 تا 26 اپریل 2007ء ص 5تا 8)

 


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • English اور دوسری زبانیں

  • 30؍ مارچ 2007ء شہ سرخیاں

    اللہ تعالیٰ کی خشیت ہر وقت دل میں رکھو۔ ربوہ میں سلسلہ کے پرانے کارکن چوہدری عبداللطیف صاحب اوورسیئر کی وفات اور ان کی خوبیوں کا تذکرہ

    فرمودہ مورخہ 30؍مارچ 2007ء (30؍امان 1386ہجری شمسی) مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور