احادیث نبویہ کے حوالہ سے صفت مالکیت کے تحت مومنین پر عائد ہونے والی ذمہ داریاں
خطبہ جمعہ 6؍ اپریل 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
آج میں بعض احادیث کا صفت مالکیت کے لحاظ سے ذکر کروں گا۔ ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ کہتے سنا کہ’’ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے۔ امام نگران ہے اور وہ اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے۔ آدمی اپنے گھروالوں پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ خادم اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ (بخاری کتاب الأسقرا ض و اداء الدیوان۔ باب العبد راع فی مال سیّدہ ولایعمل الّا باذنہ۔ حدیث نمبر 2409)
اس حدیث میں چار لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے۔ ایک امام کوکہ وہ اپنی رعیت کا خیال رکھے۔ ایک گھر کے سربراہ کو کہ وہ اپنے بیوی بچوں یا اگر اپنے خاندان کا سربراہ ہے تو اس کا خیال رکھے۔ ایک عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے ان کا خیال رکھے۔ ایک خاد م جو اپنے مالک کے مال کا نگران ہے۔ پھر آخر میں فرمایا کہ یہ سب لوگ جن کے سپرد یہ ذمہ داری کی گئی ہے، یہ سب یاد رکھیں کہ جو مالک کُل ہے، جو زمین و آسمان کا مالک ہے جس نے یہ ذمہ داریاں تمہارے سپرد کی ہیں وہ تم سے ان ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھے گا کہ صحیح طرح ادا کی گئی ہیں یا نہیں کی گئیں۔ جس دن وہ مالک یوم الدین جزا اور سزا کے فیصلے کرے گا اس دن یہ سب لوگ جوابدہ ہوں گے۔ اس لئے کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ دل دہل جاتا ہے ہر اس شخص کا جو جزا سزا پر یقین رکھتا ہے۔
پس سب سے پہلے فرمایا کہ امام پوچھا جائے گا اور یہ چیز تو ایسی ہے جس سے میرے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جوذمہ داری سپرد کی ہے اس کی ادائیگی میں سستی نہ ہو جائے اور یہ ذمہ داری ایسی ہے کہ جو نہ کسی ہوشیاری سے ادا ہو سکتی ہے، نہ صرف علم سے ادا ہو سکتی ہے، نہ صرف عقل سے ادا ہو سکتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو ایک قدم بھی نہیں چلا جا سکتا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دعاؤں کے ذریعہ ہی جذب کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
پس سب سے پہلے تو میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ دعاؤں کے ذریعہ سے میری مدد کریں اور میں ہر وقت آپ کے لئے دعاگو رہوں کیونکہ جماعت اور خلافت لازم و ملزوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی ذمہ داریاں اُس طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس طرح وہ چاہتا ہے۔ جب سب مل کر خلافت احمدیہ اور خلیفۂ وقت کے لئے دعا کر رہے ہوں گے تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کو کھینچنے والی ہو گی کیونکہ امام اور جماعت کی دعائیں ایک سمت میں چل رہی ہوں گی، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اللہ تعالیٰ سے مانگ رہی ہوں گی۔ تو جب ایک سمت میں چل رہی ہوں گی تو دعائیں کرنے والوں کی سمتیں بھی ایک طرف چلتی رہیں گی۔ ان کو بھی یہ خیال رہے گا کہ جب ہم دعا کر رہے ہیں تو ہمارے عمل بھی ایسے ہونے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوں، اس سمت میں جا رہے ہوں جہاں خلیفۂ وقت اور اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق ہمیں جانا چاہئے یا خلیفۂ وقت اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق ہمیں لے جانا چاہتا ہے۔ اگر اس احساس کے ساتھ دعاکر رہے ہوں گے تو اپنی اصلاح کی بھی ساتھ ساتھ توفیق ملتی رہے گی اور امام کے لئے نگرانی کا کام بھی آسان ہو رہا ہو گا۔
پس اس نکتہ کو ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے کہ جہاں امام کی ذمہ داری ہے کہ انصاف قائم کرے اور اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق جماعت کی تربیت کی طرف توجہ دے، ان کی تکلیفوں کو دور کرنے کی کوشش کرے، ان کے لئے دعائیں کرے وہاں افراد جماعت کو بھی اس احساس کو اپنے اندر قائم کرنا ہو گا کہ اگر ہمیں خلافت سے محبت ہے تو ہم بھی اپنی حالتوں کو دیکھیں اور ان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی زندگی کو اس نہج پر چلانے کی کوشش کریں جس پر خدا اور رسول کے حکموں کے مطابق ہماری زندگی چلنی چاہئے یا جس طرف ہمیں خلیفۂ وقت چلانا چاہتا ہے۔
دیکھیں جب ماں باپ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیتے ہیں تو بعض اوقات بچوں میں یہ احساس بھی پیدا کرتے ہیں اور ان کے اس احساس کو بیدار کرتے ہیں کہ تم ہماری عزت اور ہمارے خاندان کی عزت کی خاطر یہ یہ بُری باتیں چھوڑ دو اور نیک عمل کرو۔ ایسی باتیں نہ کرو جس سے دوسروں کے سامنے ہماری سُبکی ہو۔ نگران کا ان کے ان جذبات کو ابھارنا بھی ان کی اصلاح کاایک حصہ ہے، ایک کام ہے۔ پس ہر فرد جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی طرف منسوب ہوتا ہے یہ بات یاد رکھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہو کر آپؑ کو بدنام نہیں کرنا۔ اس بات کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی اظہار فرمایا ہے۔ مفہوم یہی ہے جو میں نے بیان کیا، الفاظ ذرا مختلف ہیں۔ اسی طرح امام کی نگرانی کے ضمن میں یہ بات بھی کرتا چلوں کہ آجکل یایوں کہنا چاہئے جماعت میں امام یا خلیفۂ وقت کی نمائندگی میں جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں، عہدیداران متعین ہیں، ان کا بھی فرض ہے کہ حقیقی رنگ میں انصاف کو قائم رکھتے ہوئے اگر کبھی کسی موقع پر اپنے پر یا اپنے عزیزوں پر بھی زد پڑتی ہو تو اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس نمائندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں جو آپ کے سپرد کی گئی ہے تاکہ اس نگرانی میں خلیفۂ وقت کی بھی احسن رنگ میں مدد کر سکیں، تاکہ جزا سزاکے دن اس کو سرخرو کروانے والے بھی ہوں۔ ہر عہدیدار کے عمل جہاں براہ راست اس کو جوابدہ بناتے ہیں اور ہر عہدیدار اپنے دائرے میں جہاں نگران ہے وہ ضرور پوچھا جائے گا۔ یادرکھیں کہ خلیفۂ وقت کی نمائندگی میں آپ اس لحاظ سے بھی ذمہ دار ہیں، اس لئے کبھی یہ نہ سوچیں کہ کسی معاملے میں خلیفۂ وقت کو اندھیرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ٹھیک ہے، رکھ سکتے ہیں آپ، لیکن خدا تعالیٰ جو جزا سزا کے دن کا مالک ہے، اس کو اندھیرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ پس ہر عہدیدار کی دوہری ذمہ داری ہے، اس کو ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہئے اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا دعا ہی ہے جو سیدھے راستے پر چلانے والی ہے اور چلا سکتی ہے کہ اپنے ذمہ داری کو دعاؤں کے ساتھ نبھانے کی کوشش کریں۔ جہاں تک میری ذات کا سوال ہے۔ میں جہاں اپنے لئے دعا کرتا ہوں، عہدیداروں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ انصاف پرقائم رکھتے ہوئے، سیدھے راستے پر چلائے۔ کبھی ان سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جس کا اثر پھر آخر کار یا نتیجتاً مجھ پربھی پڑے۔ یہاں جماعت کو بھی یہ توجہ دلا دوں کہ آپ لوگ بھی اپنی ذمہ داری کا صحیح حق ادا نہیں کر رہے ہوں گے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ خادم مالک کے مال کا نگران ہے، اگر آپ اس ذمہ داری کا حق ادا کرتے ہوئے اُسے ادا نہیں کر رہے جو خلیفۂ وقت نے آپ کے سپرد کی ہے۔ اس کی صحیح ادائیگی نہ کرکے آپ بھی اس مال کی نگرانی نہ کرنے کے مرتکب ہو رہے ہوں گے۔ جب خلیفۂ وقت نے آپ سے مشورہ مانگا ہے تو اگر آپ صحیح مشورہ نہیں دیتے تو خیانت کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ اگر انصاف سے کام لیتے ہوئے ان لوگوں کو منتخب نہیں کرتے جو اس کام کے اہل ہیں جس کے لئے منتخب کیا جا رہا ہے، اگر ذاتی تعلق، رشتہ داریاں اور برادریاں آڑے آ رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بھی نافرمانی کر رہے ہیں کہ تُؤَدُّوْا الْاَمَانَاتِ اِلٰی اَھْلِھَا (النساء:59) یعنی تم امانتیں ان کے مستحقوں کے سپرد کرو جو ہمیشہ عدل پر قائم رہنے والے ہوں۔ اور اس اصول پر چلنے والے ہوں کہ جب بھی فیصلہ کرنا ہے تو اس ارشاد کو بھی پیش نظر رکھنا ہے کہ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ (النساء:59) کہ انصاف سے فیصلہ کرو۔ جو ذمہ داریاں سپرد کی گئی ہیں ان کو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا کرو۔ اگرنہیں تو یہ نہ سمجھو کہ یہاں داؤ چل گیا تو آگے بھی اسی طرح چل جائے گا۔ اللہ کا رسول کہتا ہے کہ جزا سزا کے دن تم پوچھے جاؤ گے۔
پس جماعت کا بھی کام ہے کہ ایسے عہدیداروں کو منتخب کریں جو اس کے اہل ہوں اور ذاتی رشتوں اور تعلقات اور برادریوں کے چکر میں نہ پڑیں۔ اور اسی طرح خلیفۂ وقت کی نمائندگی میں عہدیداروں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے اور ان افراد جماعت کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے (جیسا کہ میں نے پہلے کہا) جن پر اعتماد کرتے ہوئے بہترین عہدیدار منتخب کرنے کا کام سپرد کیا گیا ہے اور مالک کے مال کی نگرانی یہی ہے جو ہر فرد جماعت نے، جس کو رائے دینے کا حق دیا گیا ہے کرنی ہے۔
یہ سال جماعتی انتخابات کا سال ہے۔ بعض جگہوں سے بعض شکایات آتی ہیں، ہر جگہ سے تو نہیں، اس لئے میں اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ایسی جگہیں جہاں بھی ہیں، جو بھی ہیں اور جہاں یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے ان کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہر کام دعا سے کریں اور دعائیں کرتے ہوئے اپنے عہدیدار منتخب کریں اور ہمیشہ دعاؤں سے آئندہ بھی اپنے عہدیداروں کی مدد کریں اور میری بھی مدد کریں۔ اللہ مجھے بھی آپ کے لئے دعائیں کرنے کی توفیق دیتا رہے اور جو کام میرے سپرد ہے اس کو ادا کرنے کی احسن رنگ میں توفیق دیتا رہے۔
دوسری اہم بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ گھر کے سربراہ کی ہے۔ گھر کا سربراہ ہو یا بعض اوقات (جیسا کہ میں نے کہا) بعض خاندانوں نے بھی اپنے سربراہ بنائے ہوئے ہوتے ہیں ان کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے بچوں یا خاندان کی تربیت کی ذمہ داری ان کی ہے۔ ان کے اپنے عمل نیک ہونے چاہئیں۔ ان کی اپنی ترجیحات ایسی ہونی چاہئیں جو دین سے مطابقت رکھتی ہوں، نظام جماعت اور نظام خلافت سے گہری وابستگی ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پابندی کی طرف پوری توجہ اور کوشش ہو تبھی صحیح رنگ میں اپنے زیر اثر کی بھی تربیت کر سکیں گے۔ خود نمازوں کی طرف توجہ ہو گی تو بیوی بچوں کو نمازوں کی طرف توجہ دلا سکیں گے۔ خود نظام جماعت کا احترام ہو گا تو اپنے بیوی بچوں کو اور خاندان کو نظام جماعت کا احترام سکھا سکیں گے۔ خود خلیفۂ وقت کی آواز پر لبیک کہنے والے اور اس کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں گے تو اپنے بیوی بچوں او ر اپنے زیر نگیں کو اس طرف توجہ دلا سکیں گے۔ پس خاندان کے سربراہ کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، ورنہ یاد رکھیں کہ جزا سزا کادن سامنے کھڑا ہواہے۔
پھر بیوی کو توجہ دلائی کہ خاوند کے گھر کی، اس کی عزت کی، اس کے مال کی اور اس کی اولاد کی صحیح نگرانی کرے۔ اس کا رہن سہن، رکھ رکھاؤ ایسا ہو کہ کسی کو اس کی طرف انگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہو۔ خاوند کا مال صحیح خرچ ہو۔ بعضوں کو عادت ہوتی ہے بلا وجہ مال لوٹاتی رہتی ہیں یا اپنے فیشنوں یا غیر ضروری اشیاء پر خرچ کرتی ہیں ان سے پرہیز کریں۔ بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں ہو کہ انہیں جماعت سے وابستگی اور خلافت سے وابستگی کا احساس ہو۔ اپنی ذمہ داری کا احسا س ہو۔ پڑھائی کا احساس ہو۔ اعلیٰ اخلاق کے اظہار کا احساس ہو تاکہ خاوند کبھی یہ شکوہ نہ کرے کہ میری بیوی میری غیر حاضری میں (کیونکہ خاوند اکثر اوقات اپنے کاموں کے سلسلہ میں گھروں سے باہر رہتے ہیں) اپنی ذمہ داریاں صحیح اد انہیں کر رہی۔ اور پھر یہی نہیں، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خاوند کا شکوہ یا زیادہ سے زیادہ اگر سزا بھی دے گاتو یہ تو معمولی بات ہے۔ یہ تو سب یہاں دنیا میں ہو جائیں گی لیکن یاد رکھو تم جزا سزا کے دن بھی پوچھی جاؤ گی۔ اور پھر اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا سلوک ہونا ہے۔ اللہ ہر ایک پہ رحم فرمائے۔
اور پھر فرمایا مالک کے مال کی نگرانی کے بارے میں بھی ہر شخص پوچھا جائے گا۔ اس کی کچھ مثال تو میں نے پہلے دے دی ہے، ایک تو ظاہری طور پر جو کسی کی ذمہ داریاں ہیں اگر وہ ادا نہیں کر رہا تو مال کی نگرانی نہیں کر رہا۔ ہر پیشہ کا آدمی اگر اپنے پیشہ سے انصاف نہیں کر رہا تو اس کے سپرد حکومت کی طرف سے یا جماعت کی طرف سے یا معاشرے کی طرف سے جو ذمہ داری کی گئی ہے اس نے اس کی ادائیگی نہیں کی اور وہ جہاں دنیاوی قانون اور قواعد کے لحاظ سے اس دنیا میں محکمانہ طور پر اس کا جوابدہ ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی جوابدہ ہے۔ یا پھر روحانی نظام میں، جماعت کے نظام میں عہدیداران اور بڑے پیمانے پر امام تک بات پہنچتی ہے کہ جماعت کے افراد جو اللہ کامال ہیں ان کی تربیت کی طرف توجہ نہ دے کر صحیح طرح نگرانی نہیں کی گئی۔ اگر دنیاوی حکومتیں بھی یہ سمجھیں، دنیا کی نظر سے اگر دیکھیں تو ان کو بھی یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جس مال کا بہترین مصرف بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رعایا کو، ملک کی آبادی کو تمہارے سپرد کیا تھا، ان کی ذمہ داریاں نہ نبھا کر، ان کے حقوق ادا نہ کرکے، ان کے تعلیمی اور دوسرے ترقیاتی مسائل پر توجہ نہ دے کر جو مالک کُل ہے اس کی طرف سے ودیعت کردہ ذمہ داری کا حق ادا نہیں کیا۔ اس لحاظ سے وہ بھی جوابدہ ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے احساس ذمہ داری کے ساتھ دعاؤں کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ سب کو، ہر ایک کو اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس میں گویا چار باتیں ہیں لیکن بنیادی اکائی سے لے کر ایک عام آدمی سے لے کر امامت تک، ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے حساب سے بچنے کے لئے ایک خوفزدہ شخص کی مثال حدیث میں یوں دی گئی ہے کہ ایک روایت میں آتا ہے :۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ایک شخص کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ تم سے پہلے ایک شخص تھا جسے اللہ نے مال اور اولاد عطا کی تھی۔ جب اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا میں تمہارے لئے کیسا باپ رہا ہوں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ سب سے بہتر باپ۔ اس نے کہا لیکن میں نے اللہ کے پاس کوئی نیکی نہیں چھوڑی اور جب میں اللہ کے حضور پیش ہوں گا تو مجھے عذاب دے گا۔ اس لئے دھیان سے سنو کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا اور جب میں کوئلہ بن جاؤں مجھے پیس دینا اور پھر اس طرح پیسنا کہ راکھ اتنی باریک ہو کہ جو ہلکی سی ہوا سے بھی اڑنے والی ہوتی ہے اور پھر کہا کہ جب شدید آندھی چلے تو میری راکھ کو اس میں اڑا دینا اور اس نے اس بات کا پختہ عہد لیا۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ میرے رب کی قسم انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ نے اس راکھ کو، اس کو جو ہوا میں اڑائی گئی تھی کہا کہ تو ہو جا تو وہ مجسم شخص کی صورت میں کھڑا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس راکھ کو اکٹھا کیا اور مجسم بنا دیا۔ پھر اللہ نے پوچھا اے میرے بندے! کس چیز نے تجھے ایسا کرنے پر اکسایا تھا۔ اس نے کہا تیرے خوف نے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کی تلافی اس پر رحم کرتے ہوئے کی۔ (بخاری کتاب الرقاق باب الخوف من اللہ عزّ وجل حدیث:6481)
پس یہ جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ(البقرۃ:285) تو یہ اس کی ایک تصویر ہے۔ مرتے ہوئے کاخوف بھی اس کی بخشش کا سامان کر گیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی مالکیت کے ضمن میں فرماتا ہے وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (النسآء:101) اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے۔ پس اس شخص کو اللہ کا خوف تھا جس نے اس کو اپنی لاش کے ساتھ یہ سلوک کروانے پر مجبور کیا۔ لیکن مالک نے رحم فرماتے ہوئے اس کی بخشش کے سامان کر دئیے۔ لیکن ایک مومن بندے کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ایک مومن کو برائیوں میں نہیں بڑھاتا کہ اللہ تعالیٰ نے بخش دینا ہے جو مرضی کئے جاؤ۔ بلکہ یہ سلوک اسے اتنی مہربانی اور رحم کرنے والے خدا کی طرف جھکانے والا ہونا چاہئے۔ یہ سلوک اپنے گناہوں کی طرف نظر کرکے استغفار کی طرف توجہ دلاتا ہے، اس کی عبادت کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ کیونکہ باوجود اللہ تعالیٰ کے اتنا رحم کرنے کے اللہ فرماتا ہے کہ بعض گناہ میں نہیں بخشوں گا اور فرمایا کہ شرک کا گناہ میں معاف نہیں کروں گا۔ (النساء:49)
ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے ربّ عزّو جل کے حوالے سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم! تو مجھ سے دعا نہیں کرتا اور مجھ سے امید بھی وابستہ کرتا ہے۔ میں تیری بدیوں کے باوجود تجھے بخش دوں گا خواہ تو مجھے ایسے حال میں ملے کہ تیری بدیاں زمین کے برابر بھی ہوں تو میں تجھے اس کے برابر مغفرت کے ساتھ ملوں گا۔ اور اگر تیری خطائیں آسمان کی انتہا تک بھی پہنچ جائیں سوائے اس کے کہ تُو نے میرا کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہو۔ پھر اگر تو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں بخش دوں گا اور کچھ بھی پرواہ نہیں کروں گا۔ (مسنداحمد بن حنبل، مسند ابو ذر غفاری جلد 7صفحہ208حدیث:21837)
پس شرک سے بچنا ضروری ہے۔ شرک کی بے شمار قسمیں ہیں۔ دوسرے یہاں فرمایا کہ میرے سے بخشش طلب کرو۔ پس دعاؤں کی طرف بھی توجہ ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ جزا سزا کے دن کا مالک ہے، اس کی مالکیت کی صفت کو بھی سامنے رکھنا چاہئے۔ گناہوں پر اس لئے دلیر ہو جانا کہ اللہ تعالیٰ نے بخش ہی دینا ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے اور اسی لئے آنحضرتﷺ نے اس مالک سے بخشش مانگنے کے لئے ایک دعا سکھائی ہے جو جسے چاہتا ہے بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے، یہ وہ بہتر جانتا ہے کہ کس کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب بستر پر لیٹتے تو یہ کہتے تھے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ کَفَانِیْ وَ آوَانِیْ وَاَطْعَمَنِیْ وَسَقَانِیْ وَ الَّذِیْ مَنَّ عَلَیَّ وَاَفْضَلَ، وَالَّذِیْ اَعْطَانِیْ فَاَجْزَلَ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ، اَللّٰھُمَّ رَبَّ کُلِّ شَیْئٍ وَمَلِکَ کُلِّ شَیْئٍ وَاِلٰہَ کُلِّ شَیْئٍ وَلَکَ کُلُّ شَیْئٍ اَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّارِ۔ یعنی تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو میرے لئے کافی ہے اور جس نے مجھے پناہ دی اور مجھے کھانا کھلایا اور مجھے پانی پلایا اور وہی ہے جس نے مجھ پر احسان کیا اور اپنے فضل سے نوازا اور وہی ہے جس نے مجھے بہت زیادہ عطا کیا اور ہر حال میں تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ اے اللہ! ہر چیز کے رب، ہر چیز کے بادشاہ ہر چیز کے معبود اور ہر چیز تیرے ہی لئے ہے میں آگ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عمر الخطاب جلد2 صفحہ495 حدیث:5983)
اللہ تعالیٰ نے جو یہ اتنے احسان کئے ہیں اگر آدمی یاد رکھے تو شرک کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور پھر یہ دعا کہ تیرا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے میں تیرے آگے جھکنے والا رہوں اور تیری پناہ میں رہوں تاکہ آگ سے بچایا جاؤں۔ پس اللہ تعالیٰ کی بخشش کی مثالوں کے باوجود، جو میں نے پہلے بیان کی ہیں، آنحضرتﷺ کا اپنے لئے دعا کرنا جن کے لئے یہ زمین اور آسمان پیدا کئے گئے تھے، جو اللہ تعالیٰ کے سلوک کا بھی سب سے زیادہ ادراک رکھتے تھے، آپ جن سے اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ پیار کرتا تھا اور آج تک کرتا ہے کیونکہ آپؐ کے وسیلے سے ہی خدا ملتا ہے اور آپ بھی سب سے زیادہ خدا کو پیار کرنے والے تھے، آپ کا یہ دعا کرنا کہ مجھے آگ کے عذاب سے بچا، یہ بتاتا ہے کہ حقیقی مومن اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنتے ہوئے دعا کی طرف توجہ دیتا ہے اور بخشش عطا کرنے والی حدیث میں اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ بخشش طلب کرو، یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس خدا کے درپر جانا ضروری ہے، اس کی طرف قدم بڑھانا ضروری ہے، تب ہی وہ صورتحال پیدا ہو گی جب 100آدمیوں کے قاتل کے لئے گناہوں کی طرف والی زمین لمبی کر دی گئی، فاصلہ بڑھا دیا گیا اور نیکیوں کی طرف جانے والی زمین سکیڑدی گئی۔ کیونکہ وہ اس کوشش میں لگ گیا تھا کہ اللہ سے بخشش طلب کرے۔ پس گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے بخشش طلب کرنا اور اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف کرنا اس کی عبادت کرنا، آگ سے بچنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو دعا کی بھی توفیق دے اور اپنی پناہ میں بھی رکھے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات وَرلے آسمان پر اترتا ہے۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے تا میں اس کی دعا کو قبول کروں۔ کون ہے جو مجھ سے مانگے تا میں اسے عطا کروں۔ کون ہے جومجھ سے بخشش طلب کرے تا میں اسے بخشوں۔ (بخاری کتاب التہجد باب الدعاء والصلٰوۃ من آخر اللیل حدیث:1145)
یہ بخاری میں درج ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ہی ایک مسلم کی بھی روایت ہے اس میں یہ ہے کہ ہر رات جب اس کا ابتدائی، تیسرا حصہ گزر جاتا ہے، دنیا کے آسمان پر اللہ تعالیٰ اترتا ہے اور کہتا ہے کہ’’ اَنَا الْمَلِکُ اَنَا الْمَلِکُ‘‘یعنی میں اس کا حقیقی مالک ہوں، اور بادشاہ ہوں۔ جو بھی مجھ سے دعا کرے گا میں اس کے لئے اسے قبول کروں گا اور جو مجھ سے مانگے گا تو میں اسے دوں گا اور جو مغفرت طلب کرے گا میں اس کو بخش دوں گا اور وہ اسی طرح طلوع فجر تک رہتا ہے۔ (مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصر ھا باب الترغیب فی الدعاء والذکر فی آخر اللیل والاجابۃ فیہ حدیث:1657)
دیکھیں جو زمین و آسمان کا مالک ہے وہ خود آواز دے رہا ہے، خود پکار رہا ہے کہ آؤ اور مجھ سے مانگو، مجھ سے لو، یہ جو میرے خزانے ہیں ان کو حاصل کرو، میں تم سب کو بھی دیتا رہوں تو میرے خزانوں میں کمی نہیں آتی۔ کسی بادشاہ کو تو اپنے خزانے میں کمی کا خوف ہو سکتا ہے لیکن مجھے نہیں۔ اللہ فرماتا ہے میرے خزانوں میں تو اتنی کمی بھی نہیں آتی جتنی ایک سوئی کو سمندر میں ڈبو کر اس سوئی کے ساتھ پانی کا قطرہ لگ جانے سے آتی ہے۔ (مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم الظلم حدیث:6467)
ایک حدیث جس میں اللہ تعالیٰ نے بعض احکام کا بتایا ہے اور اپنے خزانوں کا ذکر کیا ہے، اس کا ذکر اس طرح ہے۔ حدیث قدسی ہے۔ :’’ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے میرے بندو میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کیا ہوا ہے اور اسے تمہارے درمیان حرام قرار دیا ہے پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم میں سے ہر کوئی گمراہ ہے سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں۔ پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو۔ میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ پھر فرمایا اے میرے بندو! تم میں سے ہر کوئی بھوکا ہے سوائے اس کے جسے میں کھانا کھلاؤں پس تم مجھ سے کھانا طلب کرو میں تمہیں کھانا کھلاؤں گا۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ دینے والا ہے۔ انسان ایک عاجز چیز ہے اس کو کسی بات پر فخر نہیں کرنا چاہئے۔ بڑے بڑے صنعتکار اور زمیندار بھی منٹوں میں دیوالیہ بن جاتے ہیں، تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ فرمایامیں ہوں جو تمہیں کھلاتا ہوں، پھر فرمایا اے میرے بندو! تم میں سے ہر کوئی ننگا ہے سوائے اس کے جسے میں لباس پہناؤں، تم مجھ سے لباس طلب کرو میں تمہیں لباس پہناؤں گا۔ پھر فرمایا’’ اے میرے بندو! تم رات دن خطائیں کرتے ہو اور میں تمام قسم کے گناہ بخشتا ہوں۔ پس تم مجھ سے بخشش طلب کرو، میں تمہیں بخش دوں گا۔ ‘‘ پھر دعاؤں کی طرف توجہ دلائی، پھر فرمایا ’’اے میرے بندو! اگر تم مجھے نقصان پہنچانا چاہو بھی تو نقصان نہیں پہنچا سکتے اور تم مجھے نفع پہنچانا بھی چاہو تو مجھے نفع نہیں پہنچا سکتے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بالاہے۔ ’’ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور تمہارے جنّ و انس ایسے ہو جائیں جیسے تمہارا سب سے زیادہ پرہیز گار شخص تو پھر بھی یہ بات میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ کرسکے گی‘‘۔ اگر سب نیک ہو جائیں تونیکیاں میرے لئے نہیں ہیں۔ وہ نیکیاں تمہیں فائدہ پہنچانے کے لئے ہیں۔ پھر فرمایا ’’اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور تمہارے جنّ و انس، سب کے سب ایسے ہو جائیں جیسا تمہارا سب سے زیادہ بدکار شخص تو بھی یہ بات میری سلطنت میں سے کچھ کم نہ کر سکے گی‘‘۔ اگر بدیاں پھیل جاتی ہیں، میرے احکامات پر عمل نہیں کرتے، ان راستوں پر نہیں چلتے جن پرچلنے کا میں نے حکم دیا ہے تو اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق پڑے گا تو تمہیں پڑے گا۔ پھر فرمایا’’ اے میرے بندو! تمہارے اگلے اور پچھلے اور تمہارے جنّ و انس سب ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو جتنا مانگے دے دوں تو اس سے میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں ہو گی جتنی ایک سوئی کے سمندر میں ڈالنے سے ہوتی ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے پاس لامحدود خزانے ہیں۔ پس فرمایا!’’ اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے گن رکھوں گا۔ پھر تمہیں ان اعمال کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔ پس جو کوئی بہتر بدلہ پاوے وہ اللہ کی تعریف کرے اور جو اس کے برخلاف پائے تو وہ صرف اپنے آپ کو ہی ملامت کرے‘‘۔ (مسلم کتاب البرّ والصلۃ و الآداب۔ باب تحریم الظلم حدیث:6467)
نیکیاں کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کی جزا دے گا۔ نہیں کرو گے تو سزا ملے گی پھر اس پر اپنے آپ کو ملامت کرو۔ پس جیسا کہ پہلی حدیثوں میں ذکر ہو چکا ہے، کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشتا ہے لیکن پھر بھی سزا پانے والوں کے متعلق فرمایا کہ اپنے آپ کو ملامت کرو کہ اس غفور رحیم کے، ایسے مالک کے ہوتے ہوئے بھی اس کے دربار سے فیض نہیں پایا۔
اب میں بعض احادیث سے آنحضرتﷺ کے اپنے نمونے، اللہ تعالیٰ کا صفت مالکیت کے تحت آپ پر جو اظہار تھا اور آپ کا اس صفت کا پرتوَ بنتے ہوئے جو اظہار تھا، اس کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک د فعہ ایک شخص کو آپ کے سامنے لایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ آپ کے قتل کے ارادہ سے آیا تھا۔ جب وہ قابو آ گیا تو بہت خوفزدہ تھا، بڑا ڈرا ہوا تھا کہ اب مجھے سزا ملے گی تو آنحضرتﷺ نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تو مت ڈر، تو مت ڈر۔ اگر تم ایسا کرنے کا ارادہ بھی کرتے تو تم مجھ پر مسلط نہ کئے جاتے۔ (الشفا ء للقاضی عیاض، جز اوّل صفحہ-74الباب الثانی۔ فصل و اماالحلم۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔ طبع ثانیہ 2002)
تو ایک تو آپؐ نے باوجود اس شخص پر مقدرت رکھتے ہوئے اپنے اللہ کی عفو کی صفت کا اظہار فرمایا اور اسے معاف کر دیا۔ اور دوسرے اللہ تعالیٰ کے وعدے پر کامل یقین رکھتے ہوئے کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدۃ:68) یعنی اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملے سے محفوظ رکھے گا، اس کو یہ بتا دیا، کہ تم ارادہ بھی کرتے تو میں جو خدا کا سچا رسول ہوں اور سب سے پیارا نبی ہوں، جس نے میری حفاظت کی ذمہ داری لی ہوئی ہے، جس کی میں ملکیت ہوں، وہ خود ہی میری حفاظت کرے گا اور تمہیں یا تم جیسے کسی بھی اور کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گا، کبھی مسلط نہیں کرے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کے ہاتھ سے قتل نہ کیا جانا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے اور قرآن شریف کی صداقت کا ثبوت ہے۔ کیونکہ قرآن شریف کی یہ پیشگوئی ہے کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس (المائدۃ:68) اور پہلی کتابوں میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ نبی آخرالزمان کسی کے ہاتھ سے قتل نہ ہو گا‘‘۔ (البدر۔ جلد 4نمبر 31مورخہ 14ستمبر 1905ء صفحہ 2۔ تفسیر حضرت اقدس مسیح موعود ؑ جلد 2صفحہ415)
پھر آنحضرتﷺ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک دیکھیں۔ طائف کے سفر پر آپ کو غنڈوں نے لہولہان کر دیا تھا۔ جب نڈھال ہو کر آپ ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے، جب اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مخالفین کے لئے حرکت میں آ چکی تھی۔ اس وقت جبریل علیہ السلام اور آپ کے درمیان کیا باتیں ہوئیں۔ لکھا ہے جب رسول اللہﷺ کا آپ کی قوم نے انکارکر دیا تو جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کے آپ کے بارے میں تبصرے اور ان کا آپ کو جواب سن لیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ملک الجبال کو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ آپؐ اس کو اپنی قوم کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں۔ چنانچہ ملک الجبال نے آپؐ کو مخاطب کیا، آپ کو سلام کیا اور کہا مجھے اپنی قوم کے بارے میں جو چاہے حکم دیں۔ اگر آپ پسند کریں تو میں ان کو ان دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں۔ نبیﷺ نے ملک الجبال کو مخاطب کرکے فرمایا: نہیں بلکہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسی نسل پیدا کرے جو خدائے واحد کی عبادت کرتے اور اس کا کسی کو بھی شریک نہ قرار دیتے ہوں۔ (الشفاء للقاضی عیاض، جز اوّل صفحہ 184۔ الباب الثانی۔ فصل و اماا الشفقۃ۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔ طبع ثانیہ 2002)
پس آپؐ کا اسوہ یہ تھا کہ کامل قدرت کے باوجود سزا سے مخالف کو بچا رہے ہیں۔ یہ علم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مالکیت یوم الدین آج ان لوگوں کے لئے اس دنیا میں ہی سزا کا اظہار کر سکتی ہے۔ لیکن اس کی جو عفو کی صفت ہے وہ بھی اس مالکیت کے تحت ہی ہے اور آپ اس کا پرتو ہیں اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے تو آخری فتح یقینا میری ہے۔ اس لئے آپﷺ نے فرمایااور اس یقین اور عفو کی صفت کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا کہ اے مَلک جسے اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے ذریعہ جزا سزا کے لئے مقرر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کئی بستیاں ایسی ہیں جو نافرمان تھیں جن کو اس طرح تباہ کر دیا گیا کہ ان کو پہاڑوں کے ذریعہ سے زمین میں دفن کر دیا گیا۔ لیکن پہاڑوں کو اللہ تعالیٰ نے زندگی بخشنے کا ذریعہ بھی تو بنایا ہوا ہے۔ اس لئے مجھے امیدہے کہ جو روحانیت کی بارش اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ سے نازل فرما رہا ہے اور جو فیض کے چشمے مجھ سے جاری ہوں گے اور ہو رہے ہیں وہ ان کی اصلاح اور زندگی کا باعث بن جائیں گے اور یہ لوگ یا ان کی نسلیں روحانیت کی لہلہاتی فصلیں بن جائیں گی۔ اور دنیا گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پیارے کی بات کو پورا فرمایا اور چند سال میں وہ سب آپؐ کے دامن میں آ گئے۔ جو آپ کے خون کے پیاسے تھے آپ کی خاطر خون بہانے لگے۔ پس مالک کے آپﷺ کے ساتھ سلوک کے یہ نظارے ہیں۔ اس زمانے میں آپ کے عاشق صادق کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمائے ہوئے ہیں جن میں سے کئی ہم نے پورے ہوتے دیکھے بلکہ بار بار پورے ہوتے دیکھے اور دیکھ رہے ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی دیکھیں گے۔ وہ مالک الملک ہے۔ وہ آج آنحضرتﷺ کے فیض کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ دنیا میں پھیلا رہا ہے اور یہ انشاء اللہ تعالیٰ پھیلے گا اور پھلے گا اور اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی غالب فرمائے گا۔ آپؑ کو الہام ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ عنقریب اسے ایک ملکِ عظیم دیا جائے گا….. اور خزائن اس پر کھولے جائیں گے۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 148ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
پس یہ خدا کا وعدہ ہے۔ یہ ملک ِعظیم دنیا کی حکومتیں نہیں ہیں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ضرورت تھی بلکہ روحانی بادشاہت ہے۔ روحانی بادشاہت کے قیام کے لئے یہ تمام دنیا آپ کو دی جائے گی۔ وہ ملک دیا جائے گا جس کی حدیں کسی ملک کی جغرافیائی حدود تک نہیں بلکہ کل دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ روحانی خزائن جو آپ کو دئیے گئے وہ تقسیم ہو رہے ہیں، آج دنیا میں ہر جگہ پہنچ رہے ہیں۔ پس یہ سچے وعدوں والا خدا ہے جو ہر روز ہمیں اس عظیم ملک کی فتح کی طرف لے جا رہا ہے اور اس کے نشان دکھا رہا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک اور الہام ہوا۔ آپ ؑ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اللہ جلّشانہٗ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا‘‘ اور مجھے اس نے فرمایا کہ ’’میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔ (تذکرہ صفحہ 8 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
فرمایا’’ یہ برکت ڈھونڈنے والے بیعت میں داخل ہوں گے اور ان کے بیعت میں داخل ہونے سے گویا سلطنت بھی اس قوم کی ہو گی۔ پھر مجھے کشفی رنگ میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے۔ وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور چھ سات سے کم نہ تھے‘‘۔ (تذکرہ صفحہ 8 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے الہامات کے ذریعہ سے، کشوف کے ذریعہ سے، رؤیا کے ذریعہ سے، جو سلوک تھا ان میں سے ایک کشفی نظارے کا یہاں میں ذکر کرتا ہوں جس کو آپؑ کے ساتھ بیٹھے ہوئے نے بھی محسوس کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ ایک مرتبہ مجھے یاد ہے کہ مَیں نے عالم کشف میں دیکھا کہ بعض احکام قضاء و قدر میں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں۔ ‘‘ حضرت مسیح موعودؑ نے قضاء و قدر کے احکام اپنے ہاتھ سے لکھے’’ کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہو گا اور پھر اس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند قادر مطلق جلّشانہ کے سامنے پیش کیا ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’ اور یاد رکھنا چاہئے کہ مکاشفات اور رؤیا صالحہ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض صفات جمالیہ یا جلالیہ الٰہیہ انسان کی شکل پرمتمثل ہو کر صاحب کشف کو نظر آ جاتے ہیں اور مجازی طور پر وہ یہی خیال کرتا ہے کہ وہی خداوند قادر مطلق ہے اور یہ امر ارباب کشوف میں شائع و متعارف و معلوم الحقیقت ہے‘‘۔ یعنی جو صاحب کشف ہیں ان کو اس کی حقیقت پتہ ہے’’ جس سے کوئی صاحب کشف انکار نہیں کر سکتا‘‘ فرماتے ہیں کہ’’ غرض وہی صفت جمالی جو بعالم کشف قوت متخیلہ (یعنی سوچنے کی جو قوت تھی) کے آگے ایسی دکھائی دی تھی جو خداوند قادر مطلق ہے۔ اس ذات بے چون و بے چگون کے آگے (جو بے مثل ہے، لاثانی ہے، جس کی کوئی مثال نہیں ) وہ کتاب قضاء و قدر پیش کی گئی اور اس نے جو ایک حاکم کی شکل پر متمثل تھا، اپنے قلم کو سرخی کی دوات میں ڈبو کر اول اس سرخی کو اس عاجز کی طرف چھڑکا اور بقیہ سرخی کا قلم کے منہ میں رہ گیا۔ اس سے اس کتاب پر دستخط کر دئیے اور ساتھ ہی وہ حالت کشفیہ دور ہو گئی اور آنکھ کھول کر جب خارج میں دیکھا تو کئی قطرات سرخی کے تازہ بتازہ کپڑوں پر پڑے۔ چنانچہ ایک صاحب عبداللہ نام جو سنور ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے اور اس وقت اس عاجز کے پاس نزدیک ہو کر بیٹھے ہوئے تھے۔ دو یا تین قطرہ سرخی کے ان کی ٹوپی پر پڑے۔ پس وہ سرخی جو ایک امر کشفی تھا وجود خارجی پکڑ کر نظر آگئی۔ اسی طرح اور کئی مکاشفات ہیں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے مشاہد ہ کیا گیا ہے‘‘۔ (تذکرہ صفحہ 102-100 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
تو یہ کشف کہ اللہ تعالیٰ نے جب دستخط کئے تو پین کو چھڑکا، جو سیاہی چھڑکی تو وہ ظاہری طور پر بھی سامنے نظر آ گئی۔ حضورؑ کے کپڑوں پر پڑی۔ دیوار پر پڑی اور ان کی ٹوپی پر پڑی۔ حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحب بھی اس کا ذکر کرتے ہیں کہ’’ اس طرح ہوا اور کہتے ہیں میں اس وقت پاؤں دبا رہا تھا میں نے محسوس کیا کہ پاؤں پر بھی ایک قطرہ پڑا ہوا ہے تو اس وقت کہتے ہیں کہ 27رمضان تھی۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ آخری عشرہ تھا۔ جمعہ کا دن تھا۔ یہ میں سوچ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے پاؤں میں دبار ہا ہوں۔ مبارک ہستی ہے، مبارک مہینہ ہے، مبارک دن ہے تو اللہ تعالیٰ کوئی نشان دکھائے تو اتنے میں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بدن میں لرزہ طاری ہوا ہے پھر آنکھوں سے آنسو بھی نکل رہے تھے اور اس وقت میں نے محسوس کیا کہ کوئی چیز آگری ہے جیسے چھینٹے پڑے ہیں۔ جہاں پاؤں دبا رہا تھا اس کے قریب ایک چھینٹا پڑا تھا، میں نے انگلی لگائی کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو شاید اس میں خوشبو بھی ہو لیکن اس میں بہرحال خوشبو کوئی نہیں تھی لیکن وہ سیاہی پھیل گئی۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے اٹھے اور مسجد میں تشریف لے گئے اور وہاں بیٹھ کے میں نے کہا کہ یہ قمیص جس پر چھینٹے پڑے ہیں مجھے دے دیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں مانے لیکن بڑے وعدہ کے بعد اس بات پہ مانے کہ یہ قمیص میں تمہیں دیتا ہوں جس پر چھینٹے پڑے ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا دیکھو تمہارے اوپر تو نہیں چھینٹے پڑے تو اور کہیں نہیں تھے۔ ان کی سفید ٹوپی پر ایک چھینٹا یا دو چھینٹے پڑے ہوئے تھے۔ تو بہرحال اس شر ط پر حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی قمیص دی کہ کہیں بدعت نہ بن جائے، شرک کا موجب نہ بن جائے اس لئے یہ تمہارے ساتھ ہی دفن ہوجائے گی۔ ورثاء میں نہیں جائے گی۔ تو یہ نشان تھا۔ حضرت عبداللہ سنوری یہ ساری باتیں لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ ہے سچی عینی شہادت۔ اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن کی وعید کافی ہے۔ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر اور اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے سراسر سچ ہے۔ اگر جھوٹ ہو تو مجھ پر خدا کی لعنت، لعنت، لعنت۔ مجھ پر خدا کا غضب، غضب، غضب‘‘۔ (ماخوذ ازتذکرہ صفحہ102-100 حاشیہ ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
تو یہ آپؑ کے اس واقعے کی سچی گواہی یہ تھی کہ دوسرے جو ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کو بھی اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا۔ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ ہر روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا فرما رہا ہے اور ہم ان کو دیکھ رہے ہیں، آئندہ بھی ہمیں دکھاتا رہے۔ اور وہ وعدے بھی جو ابھی تک پورے نہیں ہوئے یا وہ نشان جو ابھی تک پورے نہیں ہوئے یا ہونے ہیں ان کو بھی ہمیں اپنی زندگی میں دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم بھی اس مالک کے آگے ہمیشہ جھکے رہنے والے ہوں۔ آمین
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 27اپریل تا 3مئی 2007ء ص5تا8)
دعاؤں کے ساتھ میری مدد کریں اور میں ہر وقت آپ کے لئے دعا گو رہوں کیونکہ جماعت اور خلافت لازم و ملزوم ہیں۔ عہدیداران کے فرائض اور ذمہ داریاں اور عہدیداران کے انتخاب کے لئے قیمتی نصائح اور ہدایات۔
فرمودہ مورخہ 6؍اپریل 2007ء (6؍شہادت 1386ہجری شمسی) مسجد بیت الفتوح، لندن(برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔