اللہ تعالیٰ کی صفت قدوس کے حوالہ سے آنحضرتﷺ کی قوت قدسیہ کی تاثیرات
خطبہ جمعہ 27؍ اپریل 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:
قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ(النحل:103)
اللہ تعالیٰ کی باقی صفات کی طرح صفت قُدُّوْس سے بھی سب سے زیادہ فیض پانے، اُس کو اپنے اوپر لاگو کرنے اور اس کے لئے دعا کرنے والی اس دنیا میں کوئی ہستی تھی تو وہ آنحضرتؐ تھے۔ آپؐ ہی وہ کامل انسان اور کامل نبی تھے جس نے اللہ تعالیٰ کا رنگ مکمل طور پر اپنے اوپر چڑھایا اور اللہ تعالیٰ نے بھی سب سے زیادہ آپؐ کو ہی اپنی صفات سے متصف فرمایا اور پھر اپنی امت کو بھی مختلف رنگ میں آپؐ نے تلقین و نصیحت فرمائی کہ اُس پاک ذات سے تعلق جوڑنے کے لئے، اس کی برکات سے فیضیاب ہونے کے لئے، تمہیں بھی اپنے اندر سے تمام کجیوں کو دور کرنا ہو گا، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا ہو گا، تبھی تمہارا تعلق مجھ سے اور میرے خدا سے ہو سکتا ہے۔
اس ضمن میں آج مَیں متفرق احادیث پیش کروں گا جن میں آنحضرتؐ کی سیرت کے پہلو بھی ہیں دعائیں بھی ہیں اور مومنوں کو نصیحتیں بھی ہیں۔ اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو آپؐ کے عاشق صادق تھے اور غلام صادق تھے، جو خود بھی آنحضرتؐ کی اس زمانے میں قوت قدسی کا ایک نشان ہیں آپؐ کے اس فیض کو جس طرح آپؑ نے سمجھا، اس مقام کو جس طرح آپؑ نے سمجھا اور ہمیں بتایا، اس پہلو سے بھی آپؑ کے حوالے پیش کروں گا۔
آنحضرتؐ کی ایک دعا ہے جو حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہؐ رکوع میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ سُبُّوْحٌ، قُدُّوْسٌ، رَبُّ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَالرُّوْحِ۔ (سنن النسائی کتاب التطبیق باب نوع آخر منہ حدیث نمبر 1048)
پاک، مبارک اور مطہر فرشتوں اور روح کا خالق اور پالنے والا ہے۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ وہ تسبیح ہے جو ملائکہ کرتے ہیں، فرشتے کرتے ہیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت سعید بن عبدالرحمن اپنے دادا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ وتر میں یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے، سورۃ الاعلیٰ پہلی رکعت میں، دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورۃ الاخلاص اور سلام پھیرنے کے بعد آپؐ تین باریہ الفاظ دوہراتے اور اپنی آواز بلند کرتے تھے کہ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ پاک ہے وہ ذات جو بادشاہ ہے، قدوس ہے۔ (سنن النسائی کتاب قیام اللیل وتطوع النہار باب التسبیح بعد الفراغ من الوتر۔ حدیث نمبر 1751)
ایک روایت میں آتا ہے، آنحضرتؐ نے فرما یا کہ کوئی صبح بھی ایسی نہیں جس میں بندے صبح کریں کہ اس میں ایک منادی کرنے والا ان الفاظ میں منادی کرتا ہے سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ یعنی پاک ہے وہ ذات جو بادشاہ ہے اور قدوس ہے۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب فی دعاء النبیﷺ و تعوذہ دبر کل صلاۃ حدیث نمبر3569)
پھر ایک روایت ہے۔ حضرت یُسَیْرَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو مہاجرات میں سے تھیں بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے ہمیں فرمایا: ’’تم لازم پکڑو تسبیح کو، تہلیل کو اور تقدیس کو‘‘۔ یعنی تسبیح کرو۔ تہلیل ہے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان کرنا، اس کے علاوہ کسی کو معبود نہ ماننا، لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کہنا اور تقدیس یعنی اللہ تعالیٰ کو پاک اور بے عیب قرار دینا اور یہ عہد کرنا کہ ہم اپنے نفسوں کو تیری خاطر پاک رکھیں گے اور یہی ایک مومن کی شان بھی ہونی چاہئے ورنہ دعوے تو ہم کر رہے ہوں گے کہ ہم قدوس خدا کے ماننے والے ہیں اور اس رسول کے پیرو کار ہیں جس کی قوت قدسی تمام انبیاء سے بڑھ کر ہے اور رہتی دنیا تک اس کے جلوے قائم رہنے ہیں لیکن اگر اپنے آپ کو پاک نہیں کر رہے تو یہ تقدیس نہیں ہے۔ فرمایا کہ:’’ لازم پکڑو تسبیح کو، تہلیل کو اور تقدیس کو اور انگلیوں کے پوروں پر گنا کرو، اس لئے کہ قیامت کے دن ان سے سوال کیا جائے گا، اور وہ بولیں گی اور غافل نہ ہو، ورنہ تم رحمت کو بھول جاؤ گی‘‘۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب فی فضل التسبیح والتہلیل والتقدیس حدیث نمبر 3583)
پھر ایک روایت میں آتا ہے آپؐ نے ایک دعا سکھائی، حضرت فضالہؓ بن عُبیدانصاری بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے مجھے ایک دم سکھایااور حکم دیاکہ اگر کوئی میرے پاس دم لینے کے لئے آئے تو یہ دم کروں۔ تو وہ دُعا یہ تھی کہ ہمارا ربّ وہ اللہ ہے جو آسمان میں ہے (اے ربّ)، تیرا نام پاک اور مبارک ہے، آسمان اور زمین میں تیری حکومت ہے، اے اللہ! جس طرح تیری حکومت آسمان میں ہے، اسی طرح تو ہم پر زمین میں اپنی رحمت نازل کر۔ اے اللہ! جو پاک لوگوں کا ربّ ہے ہمارے گناہ اور خطائیں بخش دے اور اپنی رحمت میں سے ایک رحمت نازل کراور اپنی شفا میں سے ایک شفا نازل کر۔ اور پھر آپؐ نے یہ فرمایا کہ یہ کلمات تین مرتبہ دوہراؤ اور معوذتین بھی تین مرتبہ پڑھو۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 مسند فضالۃ بن عبید الانصاری حدیث نمبر 24457 صفحہ نمبر 934 جدید ایڈیشن مطبوعہ بیروت1998ء)
معوذتین یعنی یہ دوسورتیں جو قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے، یہ شَرْحُ السُّنَّۃ میں مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو مدینہ میں انصار کی آبادی اور کھجوروں کے باغات کے درمیان ایک جاگیر عطا فرمائی۔ اس پربنو عبدبن زھرۃ نے کہا (یارسول اللہ!) ہم سے ابن اُمّ عبد (اُمّ عبد کے بیٹے یعنی عبداللہ بن مسعودؓ ) کو دُور کیجئے۔ اس پر آنحضورؐ نے فرمایا تو پھر مجھے اللہ نے مبعوث ہی کیوں فرمایا ہے؟ یقینا اللہ تعالیٰ کسی اُمّت کو درجہ تقدیس عطا نہیں فرماتا جس میں اس کے ضعفاء کے لئے ان کے حق کو نہیں لیا جاتا۔ (مشکٰوۃ کتاب البیوع باب احیاء الموات الشرب الفصل الثانی حدیث نمبر 3004)
پس قدوسیت کا فیض اور اللہ تعالیٰ کی تقدیس کرنا، اُسی وقت فائدہ مند ہے جب ہر بڑا، ہر صاحب حیثیت، ہر مالک، ہر بااختیار، ہر عہدیدار، ہر نگران اپنے سے کم درجہ کے لوگوں اور اپنے سے کمزوروں اور ضرورت مندوں کے حقوق کوحق کے ساتھ اور انصاف کے تقاضوں کے ساتھ ادا کرتا رہے۔
حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگ میں زاد راہ اور راشن کی بہت قلت ہو گئی۔ صحابہ کرامؓ پریشان ہو کر نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کھانے کے لئے اپنی سواری کے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت چاہی۔ آپؐ نے اجازت دے دی۔ ان صحابہ کو حضرت عمر ؓ ملے تو انہوں نے آپ کو ساری بات بتائی، حضرت عمر ؓ نے پوچھا تمہارے پاس اونٹوں کے بعد سواری کے لئے کیا رہے گا۔ حضرت عمر ؓ نبی کریمﷺ کے پاس پہنچے، عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! ان کے پاس اونٹوں کے بعد سواری کے لئے کیا رہے گا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ لوگوں میں یہ اعلان کر دو کہ وہ اپنی بچی کھچی اشیاء لے کر آئیں، جو کھانے پینے کی چیزیں تھیں وہ لے کرآ جائیں۔ پھر آپؐ نے دعا کی اور اس میں برکت ڈالی۔ پھر آپؐ نے صحابہ کو اپنے برتن وغیرہ لانے کا ارشاد فرمایا۔ تمام صحابہ نے اپنے برتن بھر لئے۔ پھر رسول کریمؐ نے فرمایا، مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور مَیں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ (بخاری کتاب الجہاد والسیر باب حمل الزاد فی الغزو حدیث نمبر 2982)
پس یہ آنحضرتؐ کی قوت قدسی اور قبولیت دعا تھی جس نے فاقے کی فکر انگیز صورتحال کو کشائش میں بدل دیا۔
آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے جو قوت قدسیہ عطا فرمائی تھی اس سے آپؐ نے صحابہ کی سوچوں کو، ان کی حالتوں کو اس قدر پاک کر دیا تھا کہ کوئی بھی حکم جو اترتا تھا اور جس کا آپ اعلان فرماتے تھے، صحابہ بغیر کسی چون و چرا کے اس کی تعمیل کیا کرتے تھے۔ کان میں آواز پڑتے ہی اس پر عملدرآمد شروع ہو جاتا تھا۔ یہ تحقیق بعد میں ہوتی تھی کہ حکم کس کے لئے ہے اور کیوں ہے۔ صحابہ کی پاکیزگی کے معیار اس قدر بڑھ گئے تھے کہ جس کوئی مثال نہیں ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جس دن حرمت شراب کا حکم نازل ہوا تو مَیں اس دن ابو طلحہ کے گھر ایک گروہ کو شراب پلانے میں مصروف تھا۔ اُن دنوں عربوں میں فضیح نامی شراب استعمال ہوتی تھی۔ یہ ایک خاص شراب تھی جو کچی اور خشک (دونوں قسم کی)کھجور سے تیار ہوتی تھی۔ ایک منادی کی آواز سنائی دی۔ ابو طلحہ نے کہا گھر سے باہر نکل کے دیکھو، ۔ مَیں گھر سے نکلا تو ایک اعلان کرنے والے کو یہ اعلان کرتے ہوئے پایا: سنو شراب حرام قرار دے دی گئی ہے۔ راوی کہتے ہیں چنانچہ شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی۔ اس وقت ابو طلحہ نے مجھے کہا کہ تم نکلو اور شراب کو بہا دو۔ چنانچہ مَیں نے شراب بہا دی۔ اسی طرح ایک دوسری روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو طلحہ نے کہا اے انس! ان مٹکوں کو انڈیل دو یا توڑ دو۔ راوی کہتے ہیں اس آدمی کے اعلان کے بعد صحابہ نے دوبارہ شراب نہ پی اور نہ اس کے بارے میں کسی نے کسی سے پوچھا۔ (مسلم کتاب الاشربہ باب تحریم الخمر حدیث نمبر 5024)
یہ تھاآنحضرتؐ کے صحابہ پر آپ کی قوت قدسی کا اثر۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ تحقیق کروکہ ایک دم یہ حکم کس طرح آ گیا، ابھی تک تو ہم شراب پی رہے تھے۔ پاک دلوں اور اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والوں کا فوری ردّعمل تھا کہ پہلے تعمیل کرو۔ صحابہ ماشاء اللہ فراست رکھتے تھے، جانتے تھے کہ ہمارے دل و دماغ کو پاک کرنے والا حکم یقینا اللہ تعالیٰ اور رسولؐ کی طرف سے ہی ہو گا۔ باوجود یکہ استعمال کیا کرتے تھے لیکن شراب کے نقصانات سے بھی واقف تھے۔ اپنے کئی ساتھیوں کو نشے کی حالت میں بعض معیار سے گری ہوئی حرکتیں کرتے دیکھتے تھے۔ پھر بعض لڑائی میں ملوث ہو جاتے تھے۔
آنحضرتؐ کے دلوں کو پاک کرنے اور صحابہ کی اللہ اور اس کے رسولؐ کی رضا مندی حاصل کرنے کی ایک اور اعلیٰ مثال۔ عبداللہ بن اُبَیّ بن سلول نے جب آنحضورؐ کے خلاف زبان درازی کی تو آنحضورؐ خاموش رہے، مگر لوگوں کی باتوں کے باعث عبداللہ رضی اللہ عنہ، جو عبداللہ بن اُبَیّ بن سلول جو مدینہ میں رئیس المنافقین تھاکے بیٹے تھے، رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپؐ عبداللہ بن اُبَیّ کی باتوں کے باعث اس کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں، یا رسول اللہ! اگر حضور نے لازماً ایسا کرنا ہی ہے تو حضور مجھے اس کے قتل کا حکم دیں، مَیں خود اس کا سر حضور کی خدمت میں لے آؤں گا۔ اللہ کی قسم! مَیں خزرج کو جانتا ہوں ان میں سے کوئی بھی میرے جتنا اپنے والد کا فرمانبردار نہیں ہے۔ اور مجھے ڈر ہے کہ آپ میرے علاوہ کسی اور کو میرے والد کو قتل کرنے کا حکم نہ دے دیں اور آپ مجھے عبداللہ بن اُبَیّ کے قاتل کو لوگوں میں پھرتے ہوئے دیکھنے والا نہ چھوڑدیں کہ پھر مَیں انتقام کے جذبے کے تحت ایک کافر کے بدلے میں ایک مومن کو قتل کر دوں اور دوزخ میں جا گروں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر رسولؐ نے فرمایا کہ معاملہ یوں نہیں ہے بلکہ ہم اس سے رِفق کا معاملہ کریں گے اور جب تک وہ ہمارے ساتھ رہے گا، ہم اس سے حسن صحبت کا معاملہ کریں گے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام طلب بن عبداللہ بن ابی ان یتولی قتل ابیہ صفحہ672 مطبوعہ بیروت 2001ء)
تو یہ تھا آپ کی قوت قدسی کا اثر کہ خوف یہ تھا کہ باپ کے خونی رشتہ کی وجہ سے مَیں دوبارہ ان ناپاکوں میں شامل نہ ہو جاؤں اس لئے ہر اس امکان کو ختم کرنے کے لئے جومجھے جہنم کی طرف لے جا سکتا ہے، جو مجھے اللہ اور اس کے رسول ؐسے دور لے جا سکتا ہے، میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ اللہ اور رسولؐ کی خاطر اپنے باپ کو قتل کر دوں۔ لیکن آنحضرتؐ جو حسن و احسان کے پیکر تھے انہوں نے فرمایا کہ نہیں مَیں تو معاف کر چکا ہوں اور معاف کرتا رہوں گا۔ ان گندے کیڑوں کے ساتھ میرا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ آپؐ کی قوت قدسی نے تو آپ کے ماننے والوں کی بھی سوچوں کو تبدیل کر دیا تھا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کاایک واقعہ آتا ہے جب انہوں نے ایک لڑائی میں اپنے مخالف کو گرا لیا اور اس نے منہ پہ تھوکا تو آپؓ نے اس کو چھوڑ دیا اور اس کے پوچھنے پر فرمایا کہ مَیں تو تمہارے ساتھ خدا کے لئے لڑ رہا تھا لیکن کیونکہ اب میری ذات Involve ہو گئی ہے، میرا نفس Involve ہو گیا ہے، یہ ذاتیات بیچ میں آ گئی ہے اس لئے مَیں تمہیں چھوڑ رہا ہوں۔ تو یہ تھی پاک تبدیلیاں جو آنحضرتؐ نے اپنے صحابہ میں پیدا کیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ337)
آنحضرتؐ کے وقت میں عرب کی جو حالت تھی اور جس قسم کے گند میں وہ مبتلا تھے اور جس طرح آنحضورؐ نے ان میں ایک پاک تبدیلی پیدا کی اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اسلام وہ دین بزرگ اور سیدھا ہے جو عجائب نشانوں سے بھرا ہوا ہے اور ہمارا نبی وہ نبی کریمؐ ہے جو ایسی خوشبو سے معطر کیا گیا ہے جو تمام مستعد طبیعتوں تک پہنچنے والی اور اپنی برکات کے ساتھ ان پر احاطہ کرنے والی ہے۔ اور وہ نبی خدا کے نور سے بنایا گیا اور ہمارے پاس گمراہیوں کے پھیلنے کے وقت آیا اور اپنا خوبصورت چہرہ ہم پر ظاہر کیا۔ اور ہمیں فیض پہنچانے کے لئے اپنی خوشبو کو پھیلایا اور اس نے باطل پر دھاوا کیا اور اپنے تا راج سے اس کو غارت کر دیا‘‘۔ یعنی جھوٹ پر حملہ کرکے اس کو ختم کر دیا’’ اور اپنی سچائی میں اَجْلٰی بدیہیات کی طرح نمودار ہوا۔ اس نے اس قوم کو ہدایت فرمائی جو خدا کے وصال کی امید نہیں رکھتے تھے‘‘۔ اُن لوگوں کے لئے ہدایت کے سامان پیدا فرمائے جن کو کبھی خیال بھی نہیں آ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے ملیں گے یا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے بنیں گے۔ ’’اور مُردوں کی طرح تھے جن میں ایمان اور نیک عملی اور معرفت کی روح نہ تھی اور نومیدی کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے۔ اور ان کو ہدایت کی اور مہذب بنایا اور معرفت کے اعلیٰ درجوں تک پہنچایا۔ اور اس سے پہلے وہ شرک کرتے تھے اور پتھروں کی پوجا کرتے تھے۔ اور خدائے واحد اور قیامت پر ان کو ایمان نہ تھا۔ اور وہ بتوں پر گرے ہوئے تھے اور خداتعالیٰ کی قدرتوں کو بتوں کی طرف منسوب کرتے تھے‘‘ یعنی جو کام بھی تھا بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کریں، ہر کام کے لئے بُت بنائے ہوئے تھے۔ ’’یہاں تک کہ مینہ کا برسانا اور پھلوں کا نکالنا اور بچوں کو رحموں میں پیدا کرنا اور ہر ایک امر جو موت اور زندگی کے متعلق تھا، تمام یہ امور بتوں کی طرف منسوب کر رکھے تھے اور ہر ایک ان میں سے اعتقاد رکھتا تھا کہ اس کا ایک بڑا بھاری مددگار بت ہی ہے جس کی وہ پوجا کرتا اور وہی بت مصیبتوں کے وقت اس کی مدد کرتا ہے اور عملوں کے وقت اس کو جزا دیتا ہے اور ہر ایک ان میں سے انہی پتھروں کی طرف دوڑتا تھا ان ہی کے آگے فریاد کرتا تھا‘‘۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’…… اور ان کے دل میں یہ ذہن نشین تھا کہ ان کے بت تمام مرادیں ان کی دے سکتے ہیں اور وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ ان تکالیف سے کہ کسی کو مراد دیوے اور کسی کو پکڑے پاک اور منزہ ہے اور اس نے یہ تمام قوتیں اور قدرتیں جوعالم اَرواح اور اجسام کے متعلق ہیں‘‘ ایسی تمام باتیں جو روح یا جسم کے متعلق ہیں، یہ انسان سے متعلق ہیں یا کسی بھی مخلوق سے متعلق ہیں۔ ’’اُن کے بتوں کو دے رکھی ہیں‘‘۔ اور خود ایک طرف ہو کے بیٹھ گیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’اور عزت بخشی کے ساتھ الوہیت کی چادر ان کو پہنا دی ہے‘‘ یعنی بتوں کو ہی تمام طاقتیں دی ہیں ’’اور خدا عرش پر آرام کر رہا ہے اور ان بکھیڑوں سے الگ ہے اور ان کے بت ان کی شفاعت کرتے اور دردوں سے نجات دیتے ہیں‘‘۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ’’بدکاریاں کرتے تھے اور ان کے ساتھ فخر کرتے تھے اور زنا کرتے اور چوری کرتے اور یتیموں کا ناحق مال کھاتے اور ظلم کرتے اور خون کرتے اور لوگوں کو لوٹتے اور بچوں کو قتل کرتے اور ذرا نہ ڈرتے۔ اور کوئی گناہ نہ تھا جو انہوں نے نہ کیا۔ اور کوئی جھوٹا معبود نہ تھا جس کی پوجا نہ کی۔ انسانیت کے ادبوں کو ضائع کیا اور انسانی خُلقوں سے دور جا پڑے اور وحشی جانوروں کی طرح ہو گئے‘‘۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’……بدکاریوں اور خدا تعالیٰ کی نافرمانیوں میں حد سے گزر گئے اور جنگلی حیوانوں کی طرح جو کچھ چاہا کیا اور ہمیشہ ان کے شاعر دریدہ د ہنی سے عورتوں کی بے عزتی کرتے اور ان کے امراء کا شغل قماربازی اور شراب اور بدی تھی‘‘۔ جُوا اور شراب کی برائیوں میں پوری طرح ملوث تھے ’’اور جب بخل کرتے تھے توبھائیوں اور یتیموں اور غریبوں کا حق تلف کر دیتے تھے اور جب مالوں کو خرچ کرتے تھے توعیاشی اور فضول خرچی اور زناکاری اور نفسانی ہوا اور ہوس کے پوری کرنے میں خرچ کرتے اور نفس پرستی کو انتہا تک پہنچاتے تھے‘‘۔ غریبوں پر خرچ کرنا ان کے لئے دوبھر تھا لیکن اپنی عیاشیوں پر، فضولیات پر خرچ کرتے تھے۔ تو یہ اس وقت کے عرب کی حالت تھی۔ آج بھی جو دنیا دار ہیں ان سے اگر اللہ کے راستے میں مانگو تولیت و لعل سے کام لیتے ہیں لیکن اپنی فضولیات اور دنیاوی چیزوں کے لئے جتنا مرضی چاہیں خرچ کر لیں۔ پھر فرماتے ہیں :’’وہ لوگ اپنی اولاد کو درویشی اور تنگدستی کے خوف سے قتل کر دیا کرتے تھے اور بیٹیوں کو اس عار سے قتل کرتے تھے کہ تاشرکاء میں سے ان کا کوئی داماد نہ ہو۔ اوراسی طرح انہوں نے اپنے اندر اخلاق ردّیہ اور رزیل خصلتیں جمع کر رکھی تھیں‘‘۔
پھر فرماتے ہیں :’’…… اور عورتیں زانیہ آشناؤں سے تعلق رکھنے والیں اور مرد زانی پیدا ہو گئے تھے اور جو لوگ ان کی راہ کے مخالف ہوتے تھے، وہ نصیحت دینے کے وقت اپنی عزت اور جان اور گھر کی نسبت خوف کرتے تھے‘‘۔ یعنی اگر ان میں کوئی شریف آدمی تھا تو وہ اپنی عزت بچانے کے خوف کی وجہ سے، اپنے گھر کو برباد ہونے سے بچانے کی وجہ سے ان کے سامنے بولتا نہیں تھا۔ ’’غرض عرب کے لوگ ایک ایسی قوم تھی جن کو کبھی واعظوں کے وعظ سننے کا اتفاق نہ ہوا اور نہیں جانتے تھے کہ پرہیزگاری اور پرہیز گاروں کی خصلتیں کیا چیز ہیں اور ان میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جو کلام میں صادق اور فیصلہ مقدمات میں متصف ہو‘‘۔ یعنی کوئی سچی بات نہیں کرتے تھے، فیصلہ کرتے تھے تو انصاف نہیں ہوتا تھا، ناانصافی سے فیصلے ہوتے تھے۔ کوئی اچھی خصلت، اچھی خوبی ان میں نہیں تھی۔
’’پس اسی زمانے میں جبکہ وہ لوگ ان حالات اور ان فسادوں میں مبتلا تھے اور ان کا تمام قول اور فعل فساد سے بھرا ہوا تھا خداتعالیٰ نے مکّہ میں سے اُن کے لئے رسول پیدا کیا اور وہ نہیں جانتے تھے کہ رسالت اور نبوت کیا چیز ہے اور اس حقیقت کی کچھ بھی خبر نہ تھی۔ پس انکار اور نافرمانی کی‘‘۔ وہ جانتے نہیں تھے اس لئے انہوں نے انکار اور نافرمانی کی’’ اور اپنے کفر اور فسق پر اصرار کیا۔ اور رسول اللہؐ نے ان کے ہر ایک جفا کی برداشت کی‘‘۔ ہر زیادتی جو آنحضرتؐ پر کی، آپؐ نے اس کو برداشت کیا ’’اورایذاء پر صبر کیا اور بدی کو نیکی کے ساتھ اور بغض کو محبت کے ساتھ ٹال دیا اور غمخواروں اور محبّوں کی طرح ان کے پاس آیا اور ایک مدت تک آنحضرتؐ اکیلے اور ردّشدہ انسان کی طرح مکہ کی گلیوں میں پھرتے رہے اور قوت نبوت سے ہر ایک عذاب کا مقابلہ کیا‘‘۔ تو یہ تھااس وقت عرب قوم کا حال جس میں آپؐ مبعوث ہوئے، لیکن وہ خدا جس نے روح القدس کے ساتھ آپؐ کو بھیجا تھا او ر آپؐ کے ذریعہ دنیا میں ایک انقلاب لانا تھا اس نے ان لوگوں میں ایک انقلاب برپاکر دیا۔ (نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد 14صفحہ20تا 28)
آنحضرتؐ کے بارے میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ پھر ایسا وقت آیا کہ ’’آواز دینے والے بابرکت کی طرف دل کھنچے گئے ‘‘۔ یعنی پھر آنحضرتؐ کی طرف دل کھنچے جانے لگے’’ اور ہر ایک رشید اپنے قتل گاہ کی طرف صدق اور وفا سے نکل آیا اور انہوں نے مالوں اور جانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کوششیں کیں اور اپنی جانفشانی کی نذروں کو پورا کیا‘‘۔ اسلام کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دیں، اپنا مال قربان کر دیا، اپنا سب کچھ قربان کر دیا’’ اور اس کے لئے یوں ذبح کئے گئے جیسا کہ قربانی کا بکرا ذبح کیا جاتا ہے۔ اور انہوں نے اپنے خونوں سے گواہی دے دی کہ وہ ایک سچی قوم ہے اور اپنے اعمال سے ثابت کر دیا کہ وہ لوگ خدا کی راہ میں مخلص ہیں اور زمانہ کفر میں وہ لوگ تاریکی کے زندان میں قید تھے۔ سوا سلام کے قبول کرنے نے ان کو منور کر دیا اور ان کی بدیوں کو نیکی کے ساتھ اور ان کی شرارتوں کو بھلائی کے ساتھ بدل دیا اور ان کی شراب شب انگاہی کو رات کی نماز اور رات کے تضرعات کے ساتھ بدل ڈالا‘‘۔ یعنی جو راتوں کی شراب تھی، پیتے تھے، نشے میں مست ہوتے تھے۔ آنحضرتؐ کی قوت قدسی نے اس کو عبادتوں میں بدل دیا۔ جو ان کی صبح کی شراب تھی۔ سوتے تھے تو شراب پی کر سوتے تھے، صبح اٹھتے تو پہلے کام شراب تھا جس طرح عام طور پر نشہ کرنے والے کرتے ہیں۔ ’’اور ان کی بامدادی شراب کو صبح کی نماز اور تسبیح اور استغفار کے ساتھ مبدل کر دیا اور انہوں نے یقین کامل کے بعد اپنے مالوں اور جانوں کو خداتعالیٰ کی راہوں میں بخوشی خاطر خرچ کیا‘‘۔
فرماتے ہیں :’’ پس خلاصہ یہ ہے کہ قرآن شریف کی تعلیم اور رسول اللہؐ کی ہدایت تین قسم پر منقسم تھی، پہلی یہ کہ وحشیوں کو انسان بنایا جائے اور انسانی آداب اور حواس ان کو عطا کئے جائیں۔ اور دوسری یہ کہ انسانیت سے ترقی دے کر اخلاق کاملہ کے درجہ تک ان کو پہنچایا جائے۔ اور تیسری یہ کہ اخلاق کے مقام سے ان کو اٹھا کر محبت الٰہی کے مرتبے تک پہنچایا جائے اور یہ کہ قرب اور رضا اور معیت اور فنا اور محویت کے مقام ان کو عطا ہوں ‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش ہو، اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش ہو، اس کا ساتھ دینے کی کوشش ہو اور اس کی تلاش میں اور اس کی رضا جوئی کے لئے اپنے آپ کو فنا کرنے والے ہوں، ایسا ان کو مقام عطا ہوا۔ ’’ یعنی وہ مقام جس میں وجود اور اختیار کا نشان باقی نہیں رہتا اور خدا اکیلا باقی رہ جاتا ہے۔ جیسا کہ وہ اس عالم کے فنا کے بعد اپنی ذات قہار کے ساتھ باقی رہے گا‘‘۔ (نجم الہدٰی روحانی خزائن جلد 14صفحہ 28تا 35جدید ایڈیشن)
پھر آپؑ آنحضرتؐ کے اس مقام اور قوت قدسیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:’’ نبی کریمﷺ کی قوت قدسیہ اور انفاس طیبہ اور جذب الی اللہ کی قوت کا پتہ لگتا ہے کہ کیسی زبردست قوتیں آپ کو عطا کی گئی تھیں جو ایسا پاک اور جاں نثار گروہ اکٹھا کر لیا۔ یہ خیال بالکل غلط ہے جو جاہل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یونہی لوگ ساتھ ہو جاتے ہیں۔ جب تک ایک قوت جذب اور کشش کی نہ ہو کبھی ممکن نہیں ہے کہ لوگ جمع ہو سکیں۔ میرا مذہب یہ ہے کہ آپ کی قوت قدسی ایسی تھی کہ کسی دوسرے نبی کو دنیا میں نہیں ملی۔ اسلام کی ترقی کا راز یہی ہے کہ نبی کریمﷺ کی قوت جذب بہت زبردست تھی اور پھر آپ ؐ کی باتوں میں وہ تاثیر تھی کہ جو سنتا تھا وہ گرویدہ ہو جاتا تھا۔ جن لوگوں کو آپ نے کھینچا ان کو پاک صاف کر دیااور اس کے ساتھ آپ کی تعلیم ایسی سادہ اور صاف تھی کہ اس میں کسی قسم کے گورکھ دھندے اور معمے تثلیث کی طرح نہیں ہیں ‘‘۔ لکھتے ہیں کہ ’’چنانچہ نپولین کی بابت لکھا ہے کہ وہ مسلمان تھا اور کہا کرتا تھا کہ اسلام بہت ہی سیدھا سادہ مذہب ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ60جدید ایڈیشن)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ (الاحزاب:57) اُن قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن کریم میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا صرف ہم اُن نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ حضرت داؤد، حضرت عیسیٰ عَلَیْھِمُ السَّلَام اور دوسرے انبیاء۔ سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرتؐ دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گزشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا‘‘۔ یعنی ان نبیوں کی سچائی ہم پہ مشتبہ ہوتی واضح نہ ہوتی، شک میں رہتے۔ ’’کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں اور ممکن ہے کہ وہ تمام معجزات جو ان کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں۔ کیونکہ اب ان کا نام و نشان نہیں ہے بلکہ ان گزشتہ کتابوں سے خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا اور یقینا سمجھ نہیں سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہمکلام ہوتا ہے۔ لیکن آنحضرتؐ کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت کے رنگ میں آ گئے۔ اب نہ ہم قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں ‘‘۔ یعنی صرف باتیں ہی نہیں ہیں بلکہ حقیقت میں یہ سمجھتے ہیں، واضح ہو گیا ہے۔ عملاًدیکھ لیا ہے۔ ’’کہ مکالمہ الہٰیہ کیا چیزہوتا ہے۔‘‘ کہ اللہ تعالیٰ سے جو بات ہے، اللہ تعالیٰ سنتا ہے اور سناتا ہے وہ کیا چیز ہے ’’اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرتؐ کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا۔ پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے۔ کسی نے شعر یہ بہت ہی اچھا کہا ہے۔
محمدؐ عربی بادشاہ ہر دو سرا
کرے ہے روحِ قدس جس کے در کی دربانی
اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں
کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی
ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لئے سورج‘‘۔ روح کے لئے اس کی اسی طرح اہمیت ہے، وہ سورج کی روشنی دیتا ہے جس طرح جسم کی پرورش کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورج کو بنایا ہوا ہے۔ ’’ وہ اندھیرے کے وقت میں ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا۔ وہ نہ تھکا، نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصے کو شرک سے پاک نہ کر دیا۔ وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے، کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو۔ کون صدق دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹایا جو اس کے لئے کھولا نہ گیا۔ لیکن افسوس کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کرلیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نور ان کے اندر داخل ہو‘‘۔ (چشمہ ٔ معرفت روحانی خزائن جلد 23صفحہ303-301)
پس آج ہمیں آنحضرتؐ نے جہاں پرانے انبیاء کے مقام سے بھی روشن کروایا ہے وہاں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمیشہ کی زندگی پانے والے اور ہمیشہ زندہ رہنے والی تعلیم اور شریعت آپؐ کی ہی ہے جن کی قوت قدسی کا فیضان آج بھی جاری ہے اور آپؐ کے عاشق صادق نے آج اسی قوت قدسی سے حصہ پا کر ہمیں وہ راستے دکھائے ہیں جن پر چل کر ہمیں خدائے واحد و یگانہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔
آنحضرتؐ کے مقام اور قرآن کریم کے مقام کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’خاتم النبییّن کا لفظ جو آنحضرتؐ پر بولاگیا ہے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرتؐ پرنازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں‘‘۔ وہ ایسی کتاب ہے جس کے اندر ساری دنیا کے کمالات موجود ہیں، تمام دنیا کا علم اس میں موجود ہے اور یہی اس کی خاتم ہونے کی نشانی ہے ’’اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں۔ کیونکہ کلام الٰہی کے نزول کا عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی او ر کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے، اسی قدر قوت اور شوکت اس کلام کی ہوتی ہے۔ آنحضرتؐ کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا، اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبے پر واقع ہوا ہے، جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا۔ کیونکہ آنحضرتؐ کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات کمال آپؐ پر ختم ہو چکے تھے اور آپؐ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے۔ اس مقام پر قرآن شریف جو آپؐ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کے جو معجزات ہیں وہ قرآن شریف پر ختم ہو گئے۔ اس کے بعد اب اس سے بڑھ کر کوئی معجزہ دکھانے والی یا ان کے بارے میں بتانے والی کتاب نہیں ہے۔ اور نہ علم سے پُر۔ پھر فرماتے ہیں :’’آپ خاتم النبییّن ٹھہرے اور آپ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری۔ جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 26جدید ایڈیشن)
پھر آنحضرتؐ کے مقام اور تاثیر قدسی کے بارے میں آج کل کے مولویوں کے خیالات کا ردّ کرتے ہوئے آپؐ فرماتے ہیں کہ:’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں آج کل کے مولویوں کا ردّ ہے جو یہ مانتے ہیں کہ سب روحانی فیوض اور برکات ختم ہو گئے ہیں اور کسی کی محنت اور مجاہدہ کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔ اور ان برکات اور ثمرات سے حصہ نہیں ملتا جو پہلے منعم علیہ گروہ کو ملتا ہے۔ یہ لوگ قرآن شریف کے فیوض کو اب گویا بے اثر مانتے ہیں اور آنحضرتؐ کی تاثیرات قدسی کے قائل نہیں۔ کیونکہ اگر اب ایک بھی آدمی اس قسم کا نہیں ہو سکتا جو منعم علیہ گروہ کے رنگ میں رنگین ہو سکے تو پھر اس دعا کے مانگنے سے فائدہ کیا ہوا۔ مگر نہیں یہ ان لوگوں کی غلطی اور سخت غلطی ہے جو ایسا یقین کر بیٹھے ہیں، خداتعالیٰ کے فیوض و برکات کا دروازہ اب بھی اسی طرح کھلا ہے لیکن وہ سارے فیوض اور برکات محض آنحضرتؐ کی اتباع سے ملتے ہیں اور اگر کوئی آنحضرتؐ کی اتباع کے بغیر یہ دعویٰ کرے کہ وہ روحانی برکات اور سماوی انوار سے حصہ پاتا ہے تو ایسا شخص جھوٹا اور کذّاب ہے۔ ……‘‘
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’……یہ جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فرمایا اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر(الکوثر:2) یہ اس وقت کی بات ہے کہ ایک کافر نے کہا کہ آپ کی اولاد نہیں ہے۔ معلوم نہیں اس نے اَبْتَر کا لفظ بولا تھا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ۔ (الکوثر:4) تیرا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔ روحانی طور پر لوگ آئیں گے وہ آپؐ ہی کی اولاد سمجھے جائیں گے اور آپؐ کے علوم و برکات کے وارث ہوں گے اور اس سے حصہ پائیں گے۔ اس آیت کو مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن (الاحزاب:41)کے ساتھ ملا کر پڑھو تو حقیقت معلوم ہو جاتی ہے۔ اگر آنحضرتؐ کی روحانی اولاد بھی نہیں تھی پھر معاذ اللہ آپؐ ابتر ٹھہرتے ہیں۔ جو آپ کے اعداء کے لئے ہے ‘‘۔ آپ کے دشمنوں کے لئے۔ ’’ اور اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر(الکوثر:2) سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو روحانی اولاد کثیر دی گئی ہے۔ پس اگر ہم یہ اعتقاد نہ رکھیں کہ کثرت کے ساتھ آپ کی روحانی اولاد ہوئی ہے تو اس پیشگوئی کے بھی منکر ٹھہریں گے۔ اس لئے ہر حالت میں ایک سچے مسلمان کو یہ ماننا پڑے گا اور ماننا چاہئے کہ آنحضرتؐ کی تاثیرات قدسی ابدالآباد کے لئے ویسی ہی ہیں‘‘، ہمیشہ کے لئے ہیں۔ ’’جیسی تیرہ سوبرس پہلے تھیں۔ چنانچہ ان تاثیرات کے ثبوت کے لئے ہی خداتعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے‘‘۔ یعنی جماعت احمدیہ کا سلسلہ قائم کیا ہے’’ اور اب وہی آیات و برکات ظاہر ہو رہے ہیں جو اس وقت ہو رہے تھے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ39-38 جدید ایڈیشن)
کاش کہ یہ مخالفین عقل کریں اور سمجھیں کہ اسلام کی خدمت، قرآن کی خدمت اور آنحضرتؐ سے عشق و محبت کا دعویٰ تبھی سچ ثابت ہو گا جب مسیح و مہدی اور روح القدس سے تائید یافتہ کی جماعت میں شامل ہوں گے۔ ان کو کچھ خوف کرنا چاہئے۔ آج کل پھر مخالفت میں، خاص طور پر مسلمان ملکوں میں اور دوسرے ملکوں میں بھی بعض جگہ جہاں ان کا زور چلتا ہے خوب مخالفت میں بڑھے ہوئے ہیں، بجائے اس کے کہ لوگوں کے، عوام کے، کم علم لوگوں کے جذبات کو انگیخت کریں جس سے معاشرے میں نفرتوں کے بیج کے علاوہ کچھ نہیں بو رہے۔ وہ جو امن قائم کرنے کے لئے آیا تھا، جس نے روح القدس سے حصہ پاتے ہوئے جانوروں کو انسان بنایا تھا یہ دو بارہ اس کی طرف منسوب ہوتے ہوئے انسانوں کو جانوربنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ مسیح و مہدی کو مان کر اس عظیم شارع نبی جو خاتم النبییّن بھی ہے کہ قوت قدسی سے فیض اٹھائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’اگرچہ مجھے افسوس ہے کہ بدقسمتی سے مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ خوارق اور اعجاز اب نہیں ہیں، پیچھے ہی رہ گئے ہیں ‘‘ یعنی وہ معجزے اور غیر معمولی باتیں جو اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے وہ اب نہیں رہے۔ ’’ مگر یہ ان کی بدقسمتی اور محرومی ہے۔ وہ خود چونکہ ان کمالات و برکات سے جو حقیقی اسلام ہے اور آنحضرتؐ کی سچی اور کامل اطاعت سے حاصل ہوتی ہیں محروم ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تاثیریں اور برکات پہلے ہوا کرتی تھیں اب نہیں۔ ایسے بیہودہ اعتقاد سے یہ لوگ آنحضرتؐ کی عظمت و شان پر حملہ کرتے ہیں ‘‘۔ ختم نبوت کے جو نعرے لگاتے ہیں۔ فرمایا:’’ یہ لوگ آنحضرتؐ کی عظمت و شان پر حملہ کرتے ہیں اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ خداتعالیٰ نے اس وقت جبکہ مسلمانوں میں یہ زہر پھیل گئی تھی اور خود مسلمانوں کے گھروں میں رسول اللہؐ کی ہتک کرنے والے پیدا ہو گئے تھے مجھے بھیجا ہے تاکہ مَیں دکھاؤں کہ اسلام کے برکات اور خوارق ہر زمانے میں تازہ بتازہ نظر آتے ہیں ‘‘۔ فرمایا: ’’اور لاکھوں انسان گواہ ہیں کہ انہوں نے ان برکات کومشاہدہ کیا ہے اور صدہا ایسے ہیں جنہوں نے خود ان برکات و فیوض سے حصہ پایا ہے اور یہ آنحضرتؐ کی نبوت کا ایسا بیّن اور روشن ثبوت ہے کہ اس معیار پر آج کسی نبی کا متبع وہ علامات اور آثار نہیں دکھا سکتا جو میں دکھا سکتا ہوں۔ جس طرح پر یہ قاعدہ ہے کہ وہی طبیب حاذق اور دانا سمجھا جاتا ہے جو سب سے زیادہ مریض اچھے کرے اسی طرح انبیاء عَلَیْھِمُ السَّلَام سے وہی افضل ہو گا جو روحانی انقلاب سب سے بڑھ کر کرنے والا ہو اور جس کی تاثیرات کا سلسلہ ابدی ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ526تا 527جدید ایڈیشن)
پس آنحضرتؐ کی قوت قدسی کا فیض آج بھی جاری ہے اس زمانے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ روح القدس کی تائیدات کے نظارے ہم دیکھتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ آنحضرتؐ کی قوت قدسی اور زندہ اور قدوس خدا کے جلوے ہیں جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ فرمایا ہوا ہے کہ اَنَا اللّٰہُ ذُوْالْمِنَنْ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ یعنی مَیں اللہ بہت احسان کرنے والا ہوں مَیں یقینا اپنے رسول کی مدد کے لئے کھڑا ہوں گا۔ پس یہ سلوک اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کی جماعت کے ساتھ آج بھی چل رہا ہے۔ روح القدس کے ساتھ تائیدات کا فیض آج بھی جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہی سلوک ہیں جس نے آخرین کو اوّلین کے ساتھ ملایا ہوا ہے جو روح القدس کے اس جاری چشمے سے اس زمانے میں بھی اعمال صالحہ بجا لانے والے مومنین کو سیراب کرتا ہے، جو اپنی قدوسیت کے جلووں سے اس زمانے کے لوگوں کو بھی فیض پہنچاتا ہے۔ اس زمانے میں بھی آنحضرتؐ کے جاری فیض سے خداتعالیٰ آپؐ کے عاشق صادق کی جماعت کو فیضیاب کررہا ہے جس کے نظارے انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی ہم دیکھتے ہیں۔ ہر احمدی بلکہ مَیں کہوں گا کہ بعض غیروں نے بھی ایک بار پھر، چند سال پہلے دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دلوں کو پاک کرتے ہوئے اپنے پاک نبیﷺ جو سب سے زیادہ روح القدس سے فیض یافتہ ہیں کی سچائی ثابت کرنے کے لئے آپ کے ایک ایک لفظ کو پورا کرتے ہوئے، آپ کے غلام صادق کے الفاظ کو سچ کردکھاتے ہوئے، قدرت ثانیہ کی برکت سے حصہ دینے کے لئے مومنین کے دلوں کو صرف اور صرف ایک دعا اور پاک خواہش سے بھر دیا کہ اے خدا ہمیں اکیلا نہ چھوڑنا اور خلافت کے نظام کو ہم میں ہمیشہ جاری رکھنا۔ ہر مومن نے اپنے دل کی عجیب کیفیت دیکھی۔ وہ کیا تھی، وہ کیفیت یقینا خدائے قدوس اور اس کے رسولؐ کی قوت قدسی کا اس زمانے میں اظہار تھا جس نے ان دنوں میں ہر دل کو پاک صاف کیا ہوا تھا۔ بعض کو اس قدوس خدا نے رؤیا سے نواز کر دلوں کو تسلی اور دلوں کو پاک کرنے کے سامان بھی کئے۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ خلیفۂ وقت کے لئے لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے محبت بھر دی اور خلیفۂ وقت کے دل میں بھی ہمیشہ کی طرح لوگوں کے لئے محبت بھر دی۔ ایک شخص جو جماعت کی اکثریت کیا بلکہ بہت تھوڑی تعداد کو جاننے والا تھا اس کے لئے جماعت کے ہر فرد کو عزیز ترین بنا دیا۔ وہ محبت کے جذبات ابھرے جو سوچے بھی نہیں جا سکتے تھے۔ جماعت اور خلافت ایک وجودکی طرح ہمیشہ رہے ہیں اور رہیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ۔
پس اس زندہ نبی آنحضرتؐ کے فیض ہی ہیں جو ہر آن، ہر لمحہ ہمارے ایمانوں کو بڑھاتے ہیں۔ یہ نظارے جماعت انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ دیکھتی رہے گی۔ لیکن اس سے فیض پانے کے لئے ہمیں ہمیشہ اپنے دلوں کو اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق پاک صاف رکھنا ہو گا تاکہ اللہ تعالیٰ کی صفت قدوسیت سے فیض پاتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ میں فرمایا۔
مَیں ایک دعا کا اعلان کرنا چاہتا تھا۔ مکرم صاحبزادہ مرزاوسیم احمد صاحب جو ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ قادیان اور امیر مقامی قادیان ہیں وہ گزشتہ دو دنوں سے بڑے شدید علیل ہیں، انتہائی تشویشناک حالت ہے اور دل کا ان کو بڑا شدید دورہ ہوا ہے۔ ان کی حالت پر ڈاکٹرز ابھی تک فکر مند ہیں۔ ان کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے، صحت سے نوازے، بڑی قربانی کرنے والے وجود ہیں۔
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 18تا24مئی2007ء ص5تا9)
مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلیٰ قادیان کی شدید علالت اور دعا کی تحریک
فرمودہ مورخہ 27؍اپریل 2007ء (27؍شہادت 1386ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔