حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی وفات اور آپ کی سوانح

خطبہ جمعہ 4؍ مئی 2007ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:

گزشتہ جمعہ کو مَیں نے حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمدصاحب کی شدید بیماری کے پیش نظر دعا کی درخواست کی تھی، اس کے بعد مجھے کئی مخلصین کے خط بھی آئے، بڑے درد کے ساتھ لوگوں نے دعائیں کیں لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور دو دن بعد وہ اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کی خدمات اور ان کی قربانیوں اور ان کی خوبیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئی دعائیں یقینا اللہ تعالیٰ کے حضور اگلے جہان میں ان کے درجات کی بلندی کا باعث بنیں گی۔ انشاء اللہ۔ مَیں امید رکھتا ہوں کہ ایسے بے نفس قربانی کرنے والے اور ہمہ وقت وقف کی روح سے کام کرنے والے، غریبوں کی مدد کرنے والے، ان کے کام آنے والے، جماعت کی غیرت رکھنے والے اور خلافت کے فدائی سے اللہ تعالیٰ پیار کا سلوک فرمائے گا انشاء اللہ۔ انہیں اپنے پیاروں کے قرب میں اعلیٰ علییّن میں جگہ عطا فرمائے گا۔ اب بھی لوگوں کے بے شمار تعزیت کے خطوط آ رہے ہیں، افسوس کے لئے لوگ مجھے ملنے بھی آئے، اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔ جو اس دنیا میں آیا اس نے اس دنیا سے جانا بھی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو ہمیشہ سے ہے اور جب تک یہ دنیا قائم ہے اسی طرح چلتا رہے گا۔ لیکن خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنی زندگیاں خدا کی رضاحاصل کرنے کے لئے اور اس کے دین کی خدمت کرتے ہوئے گزارتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا درد رکھتے ہیں اور اس کے لئے عملی نمونے بھی دکھاتے ہیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب بھی یقینا ایسے لوگوں میں سے ہی ایک تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔

ان کی وفات پر جیسا کہ مَیں نے کہا لوگوں کے تعزیت کے خطوط بھی آ رہے ہیں اور ان خطوط میں یہ اظہار بھی ہو رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسل کی ایک نشانی جو دارالمسیح قادیان میں تھی، اَب نہیں رہی۔ یہ صحیح ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے بہت حد تک قادیان کے احمدیوں کے ساتھ خصوصاً اور جماعت ہندوستان کے افراد کے ساتھ عموماً ایسا تعلق رکھا ہوا تھا جس سے لوگوں کو بہت تسلّی ہوتی تھی اور آپ کی بات کا بہت پاس اور لحاظ رکھا کرتے تھے۔

ایک لمبا عرصہ ایسا بھی گزرا جس میں پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کے تعلقات کی وجہ سے براہ راست مرکز سے یا اس جگہ سے جہاں خلیفۂ وقت کی موجودگی تھی، تعلق نہ رہا۔ ایسے دَور بھی آتے رہے جب آج کی طرح ذرائع مواصلات نہیں تھے اور جو تھے وہ منقطع ہو جاتے رہے لیکن درویشان نے جماعت اور خلافت سے محبت اور وفا کے غیر معمولی نمونے دکھائے اور اس بات پر ان کو تسلّی ہوتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاپوتا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیٹا ان کے درمیان موجود ہے اور اس بیٹے نے بھی خلافت سے محبت اور اطاعت نظام اور اطاعت امیرکے نمونے عملاً دکھا کر جماعت کے احباب کو ہر وقت یہ احساس دلایا اور یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کی کہ جماعت اور خلافت ہی سب کچھ ہیں جس سے جڑے رہ کر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں۔ تقریباً 30سال آپ نے حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ ؓ کی امارت کے دور میں نہایت عاجزی اور وفا کے ساتھ ایک عام کارکن کی حیثیت سے اپنے عہد وفا کو نبھایا اور پھر جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے آپ کو 1977ء میں ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی بنایا تو اس اہم ذمہ داری کو بھی خوب خوب نبھایا۔ درویشن بن کر گئے تھے تو درویشی میں زندگی گزاری، یہ خیال نہیں آیا کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پوتا ہوں، حالانکہ آپ کے مقام کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر آپ کو فرمایا تھا جبکہ آپ پاکستان اپنی شادی کے سلسلہ میں آئے ہوئے تھے اور شادی کو ابھی چند دن ہی ہوئے تھے، اپنی اہلیہ کو ساتھ لے جانے کے لئے ان کے کاغذات کی تیاری کروا رہے تھے، توجیسا کہ اس زمانے میں عموماً ہوتا تھا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات ذرا ذرا سی بات پر خراب ہو جایا کرتے تھے (اب کچھ عرصہ سے ہی نسبتاً کچھ بہتری آ رہی ہے۔ یہ کھچاوٹ تو ہمیشہ سے رہی ہے۔) تو ایسے ہی ایک موقع پر جب آپ وہیں تھے، شادی کو چند دن ہوئے تھے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محسوس کیا کہ حالات میں کھچاوٹ پیدا ہو رہی ہے تو آپؓ نے میاں صاحب (اپنے بیٹے) کو کہا کہ بیوی کے کاغذات تو بنتے رہیں گے، اِن کو تم چھوڑو اور فوری طور پر واپس چلے جاؤ کیونکہ اگر تم بھی یہاں رہے تو تمہارے نہ جانے سے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کوئی فرد قادیان میں نہیں رہے گا۔ اس لئے فوری طور پر جہاز کی سیٹ بک کرواؤ(کیونکہ آپ اس وقت بائی روڈ بارڈر کراس کرکے نہیں آئے تھے بلکہ حالات ایسے تھے کہ جہاز سے آئے تھے) اور فوراً سیٹ بک کروا کے واپس چلے جاؤ اور اگر جہاز کی سیٹ نہیں بھی ہوتی تو چارٹرجہازبھی کروانا پڑے تو کرواؤ اور فوراً چلے جاؤ۔ لیکن فوری جانا بہرحال ضروری ہے ورنہ لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہو جائے گا کہ گویا قادیان خالی ہو گیا کیونکہ اگر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسا نمونہ پیش نہ کیا اور قربانی نہ دی تو لوگ پھر کس طرح قربانی دیں گے۔ تقریباً انہی الفاظ میں مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے جب مَیں 2005ء میں قادیان گیا ہوں تو مجھے یہ سارا واقعہ سنایا تھا۔

تو وہ نوجوان جو 21سال کی عمر میں دیارِ مسیح کی حفاظت کے لئے چھوڑا گیا تھا، جو دنیاوی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے قادیان کی موروثی جائیداد کا بھی مالک تھا، جس کا باپ خلیفۂ وقت تھا، جس نے اپنے بیٹے کو یہ باور کروایا تھا کہ تمہارا قادیان میں رہنا ہی درویشان قادیان کے حوصلے بلند کرنے کا باعث بنے گا اور تمہاری وہاں موجودگی ضروری ہے۔ ان سب باتوں نے میاں صاحب کو اطاعت امیر سے باہر رہنے کے خیال کو دل میں جگہ نہیں لینے دی۔ بلکہ یہ احساس اور شدت سے پیدا ہوا کہ مَیں نے اطاعت امیر کے بھی اعلیٰ نمونے دکھانے ہیں تاکہ ہردرویش مجھے دیکھتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر اطاعت امیر کے نمونے دکھائے۔ اور یہ یقینا اُس اولوالعزم باپ کی نصیحتوں کا اثر تھا جو انہوں نے اپنے بچوں کو کی تھیں اور خاص طور پر شعائراللہ کی حفاظت کے لئے چھوڑے ہوئے اس درویش بچے کوکی تھی۔ جس میں ایک انتہائی اہم نصیحت یہ بھی تھی کہ تم نے یہ خیال اپنے دل میں کبھی نہیں لاناکہ تم ناظر ہو، نوجوانی ہی میں آپ کو نظارت ملی تھی، بلکہ ہمیشہ تمہارے دل میں یہ خیا ل رہے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پوتے ہو اور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنی ہے اور یہی اپنی اصل حیثیت سمجھنی ہے اور اپنے آپ کو اسی حیثیت سے پیش کرنا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پوتے ہونے کے بعد کیا احساس ابھرنا چاہئے تھا؟ یقینا یہی کہ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں اور یقینا یہ کہ جس مقصد کے دعوے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا اس کی تکمیل کرنی ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اور جماعت کا وقار قائم کرنا ہے اور قائم رکھنا ہے۔ پس یہ باتیں حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے اپنے پلّے باندھیں اور عمل کیا اور نبھائیں اور خوب نبھائیں اور قادیان والوں، بھارت کی جماعتوں میں اس کو راسخ کرنے کی کوشش کی۔ پس ہر مخلص احمدی کو چاہے وہ قادیان کے رہنے والے ہیں، ہندوستان کی دوسری جماعتوں کے رہنے والے ہیں یا کہیں کے بھی رہنے والے ہیں اور ہر عہدیدار کو اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر فرد کو ایسے نمونے قائم کرنے چاہئیں۔ آپ کی پیدائش کے بارے میں مختصراً بتا دوں کہ آپ حضرت عزیزہ بیگم صا حبہ جو حضرت سیٹھ ابو بکر یوسف صاحب آف جدّہ کی صاحبزادی تھیں، ان کے بطن سے یکم اگست 1927ء کو پیدا ہوئے تھے۔ یہاں یہ بھی ذکر کردوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پہلے شادی کاارادہ نہیں تھا، بلکہ کہیں اور ہو گیا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہی تھی کہ حضرت عزیزہ بیگم صا حبہ کی شادی حضرت مصلح موعود ؓ سے ہو اور اس کے لئے اُمّ المومنین ؓ کو بھی، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو بھی اور دوسرے لوگوں کو بھی بعض ایسی خوابیں آئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بار بار ایسا اظہار ہوا جس کی وجہ سے یہ شادی ہوئی۔ اس کا ذکر حضرت مولوی سرورشاہ صاحب نے جب حضرت مصلح موعود ؓ کا نکاح پڑھایا، اس وقت کیا تھا۔

حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی پیدائش کے بارے میں حضرت نواب مبارکہ بیگم ؓ صاحبہ کا ایک رؤیا بھی ہے، وہ بیان کر دیتا ہوں۔ یہ مجھے میری خالہ صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ نے ایک خط میں لکھا۔ انہوں نے کوئی پرانا خط تلاش کیا تھا جو ان کی والدہ کو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے لکھا تھا یعنی ان کی والدہ سیدہ سارہ بیگم صا حبہ کو جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں۔ صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ نے لکھا کہ میرا خیال ہے کہ میاں وسیم احمد صاحب پر یہ رؤیا پوری ہوتی ہے۔ نواب مبارکہ بیگم ؓ صاحبہ جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑی بیٹی تھیں، انہوں نے اپنی بھاوج سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کو یہ خط لکھا تھا۔ لکھتی ہیں کہ حیرت ہے کہ ادھر آپ کے خط سے عزیزہ دلہن کے حمل کی خبر معلوم ہوئی اور مَیں اس شب کو خواب دیکھ چکی تھی کہ مَیں گویا بھائی صاحب یعنی حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو خواب میں یہ خواب بتلا رہی ہوں (خواب میں یہ خواب بتا رہی ہیں) کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میرے ہاتھ پکڑ کر یہ بشارت دی ہے کہ اغلباً حفیظ اور تمہارے بھائی کے ہاں عزیزہ کے بطن سے بیٹا پیدا ہو گا اور یہ بشارت سن کر بھائی صاحب بہت خوش ہوئے، خواب میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ مَیں نے یہی چاہا تھا کہ عزیزہ سے ہو۔

حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ایک موقع پر آپ کے بارے میں فرمایا کہ مَیں نے اپنا ایک بیٹا اس وادی غیر ذرع میں بسا دیا ہے اللہ تعالیٰ اس کو کام کی توفیق دے۔ اب بظاہر تو قادیان کا علاقہ آباد اور سر سبز تھا لیکن قادیان کے درویشوں کی زندگی ابتدا میں نہایت تنگی اور خوف کی حالت میں تھی۔ گو کہ مومن مشکلات میں خوف نہیں کھاتا لیکن ارد گرد کی غیر مسلم آبادی نے جو صورتحال پیدا کی ہوئی تھی وہ بڑی فکر انگیز تھی۔ رہنے والوں کو بھی فکر تھی کہ جس مقصد کے لئے ہم یہاں چھوڑے گئے ہیں اس کا حق ادا کر سکیں گے یا نہیں اور دنیا کی جماعت کو بھی اور خلیفۂ وقت کو بھی یہ فکر تھی، جس کے لئے وہ دعائیں کرتے ہیں کہ کوئی خوف ان لوگوں کو جو عزم لے کے وہاں بیٹھے ہوئے تھے، اس عہدسے ہٹانے والا نہ ہو، اور وہ جو دیارِ مسیح میں شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے بھجوائے گئے ہیں اس کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ ان دنوں میں حالات اتنے کشیدہ تھے کہ قادیان میں رہنے والوں کو حکومتی ادارے بھی ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتے رہتے تھے او رپاکستان سے جو بعض ہندو سکھ وغیرہ ہندوستان آنے والے تھے، ان کی بھی دشمنی اس وجہ سے تھی کہ وہ پاکستان میں جو ظلم کا نشانہ بنے تھے یا جو بھی وجوہات تھیں، اس کی وجہ سے سخت مخالفت کی نظر سے ان لوگوں کو دیکھتے تھے اور کوشش یہ ہوتی تھی کہ جب موقع ملے ان کو ختم کر دیں۔ ان حالات میں جبکہ باہر سے کھانے پینے کی اشیاء کی آمد بھی بندتھی۔ کچھ خوراک کا جو سٹاک رکھا ہوا تھا بس وہی استعمال ہوتا تھا۔ باقی کوئی آمد نہیں تھی۔ ماحول بھی انتہائی خوفناک تھا۔ قادیان کے ان درویشوں کے لئے جن کی تعداد چند سو تھی، یہ وقت واقعی وادی غیر ذی زرع کا نظارہ پیش کررہا تھا۔

پھر آہستہ آہستہ مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم اور درویشوں کی کوششیں اور دعائیں اور خلیفۂ وقت کی دعائیں اور جماعت کی دعائیں اپنا اثر دکھانے لگیں اور ماحول سے تعلقات بھی پیدا ہونے شروع ہوئے، ان کے دل بھی نرم ہونے شروع ہوئے۔ اور پھر یہ لوگ، درویشان نسبتاً آزادی کا سانس لینے لگے۔ لیکن غربت اور مالی تنگی پھر بھی بڑے عرصہ تک قائم رہی۔ اس زمانے میں درویشان کے لئے جماعتی فنڈ سے بہت معمولی سا گزارہ الاؤنس مقرر تھا، اس میں مشکل سے کھانا پینا ہوتا ہو گا لیکن حضرت میاں صاحب کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ہدایت تھی کہ گزارہ تو اتنا ہی ملے گا لیکن اُس فنڈ سے نہیں ملے گا جو جماعت کا ہے بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اپنی ذاتی امانت میں سے اُن کو یہ دیاکرتے تھے۔

پھر آہستہ آہستہ حالات بہتر ہوئے تو ان لوگوں کی آمدنیاں بھی شروع ہوئیں، میاں صاحب کی آمد بھی زرعی زمین سے شروع ہوئی۔ بہرحال انتہائی تنگی اور ہر وقت دھڑکے کے دن تھے جو ان لوگوں نے، ابتدائی درویشوں نے گزارے اور یہ ان کی غیرمعمولی قربانی ہے۔

مَیں سمجھتا ہوں کہ اس بات میں بھی اللہ تعالیٰ کی گہری حکمت تھی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے اللہ تعالیٰ نے درویشی اور قربانی کا اس شخص کوموقع دیا جس کا ننھیال عرب سے تعلق رکھتا تھا اور اس علاقے کے قریب تھا جہاں اسماعیلی قربانی کی مثال قائم کی گئی۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم ؓ صاحبہ کا جو خواب مَیں نے ابھی سنایا ہے اس سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ کہ مَیں نے یہی چاہا کہ عزیزہ سے ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خود آنا اور بشارت دینا، یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ اس بیٹے سے اللہ تعالیٰ نے کوئی غیر معمولی کام لیناتھا اور وہ کام قربانی کا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانی قبول فرمائے۔

اس قربانی کی حضرت مرزا وسیم احمد صاحب میں کتنی تڑپ تھی اس کا اندازہ اُن کی اس بات سے ہوتا ہے کہ مَیں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے یہیں رہنے دے۔ کیونکہ پہلے یہ اصول تھا کہ حضرت خلفیۃالمسیح الثانی کی اولاد اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے افراد باری باری قادیان آ کر رہیں اور چند مہینے رہا کریں تاکہ ہر وقت کوئی نہ کوئی موجودرہے۔ لیکن پھر حالات ایسے ہوئے کہ یہ آنا جانا بند ہو گیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ جو پاکستان میں ہیں وہ پاکستان میں رہیں گے، جو قادیان میں رہ گئے وہ بس وہیں رہ سکتے ہیں اور مزید کوئی نہیں آئے گا۔

تو اپنی اس خواہش کا ذکر کرتے ہوئے میاں وسیم احمد صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ میری یہ دلی خواہش اور دعا تھی کہ مَیں قادیان میں ہی رہ کر خدمت بجا لاؤں۔ چنانچہ اس کے لئے ایک دن مَیں نے اپنا جائے نماز لیا اور قصر خلافت قادیان کے بڑے کمرے میں چلا گیا اور وہاں جا کر مَیں نے نفل شروع کر دئیے اور جیسا کہ بتایا جاتا ہے کہ دعا قبول ہونی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے سامان پیدا کرتا ہے، مجھے اتنی الحاح کے ساتھ دعا کا موقع ملا کہ لگتا تھا کہ خداتعالیٰ اس کو قبول فرما لے گا اور مَیں نے دعا کی اور خداتعالیٰ سے کہا کہ مَیں نے قادیان سے نہیں جانا توُ کوئی ایسے سامان کر دے اور پھر کہتے ہیں کہ قادیان کے غیر مسلموں نے حکومت کو شکایت کی کہ یہ قافلے یہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہاں آتے ہیں تو یہاں کے وفادار بن جاتے ہیں، اور پاکستان جاتے ہیں تو پاکستان کے یہ لوگ وفادار بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ یہی کہتے ہیں اس لئے اس سلسلے کو بند کیا جانا چاہئے۔ چنانچہ ان کی شکایت پر حکومت نے یہ پابندی لگا دی کہ کوئی آ جا نہیں سکتا اور اس طرح میاں صاحب پھر مستقل قادیان کے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے وہاں رہنے کا انتظام کر دیا۔

اب کچھ اور قربانیوں کا ذکر ہے۔ وہاں کے حالات میں کس طرح رہے اور جب بھی موقعے آئے اللہ تعالیٰ نے کیسے ان کو صبر اور حوصلے سے تکلیفیں برداشت کرنے کی توفیق دی۔ مثلاً 1952ء میں جب حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات ہوئی تو حالات کی مجبوری کی وجہ سے آپ پاکستان نہیں جا سکتے تھے اور یہ صدمہ آپ نے ہندوستان میں تنہائی میں ہی برداشت کیا۔ میرا خیال ہے ان دنوں آپ تعلیم کے سلسلے میں لکھنؤ میں تھے۔ کچھ عرصہ کے لئے تفسیر کا علم حاصل کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود ؓ نے آپ کو لکھنؤ بھجوایا تھا اور وہیں آپ نے حکمت بھی پڑھی تھی۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے اس مجاہد درویش بیٹے سے ان کی قربانی کی وجہ سے بہت تعلق تھا اور یہ جو مَیں نے واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت مصلح موعود ؓ نے آپ کو، جب آپ شادی کی غرض سے پاکستان آئے ہوئے تھے، بعض وجوہات کی وجہ سے یہ کہا کہ فوری واپس چلے جاؤ، تو اُس وقت جب ان کو جہاز کی سیٹ مل گئی لیکن جہاز نے دو دن بعد روانہ ہونا تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو جب پتہ لگا توآپ خودبھی لاہور تشریف لے آئے۔ یہ نہیں کہا کہ دو دن رہتے ہیں تو ربوہ آ جاؤ بلکہ میاں صاحب کو کہا وہیں ٹھہرو، مَیں آ رہا ہوں اور خود لاہور تشریف لائے، مختلف ہدایات اور نصائح فرمائیں، دعائیں دیں اور اپنے سامنے ان کو رخصت کیا۔ آپ یہ دعائیں کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو خیریت سے قادیان پہنچائے اور ان کو موقع ملے کہ دیارِ مسیح کی حفاظت کی ذمہ داری کو نبھا سکیں۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے بعد میں میاں صاحب کو بتایا، میاں صاحب نے اس کا خود ہی ذکر کیا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب والٹن ائر پورٹ(اس زمانے میں لاہور میں والٹن ائرپورٹ ہوتا تھا) میں جہاز پر چڑھانے کے لئے آئے تو جب تک جہازنظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا مسلسل جہاز کو دیکھتے رہے اور دعائیں کرتے رہے۔

پھر حضرت مصلح موعود ؓ کے اس تعلق کو حضرت بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب بیان کرتی ہیں کہ جب کاغذات مکمل ہو گئے اور شادی کے ایک سال کے بعد میں قادیان جانے لگی تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاص طور پر مجھے یہ ہدایت کی تھی کہ اُمّ ناصر کے مکان میں رہنا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کثرت سے قدم پڑے ہیں اور اس کے صحن میں حضور نے درس بھی دیا ہوا ہے (غالباً حضرت مصلح موعودؓ کا درس ہی مرا دہو گا، واضح نہیں ہے)

حضرت میاں وسیم احمد صاحب کی خدمات صدر انجمن کی جائیدادوں کو واگزار کرانے کے لئے بھی بڑی نمایاں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کا ہونے کی وجہ سے، آپ کا پوتا ہونے کی وجہ سے، حکومت نے اس بات کو بھی کنسیڈر (Consider) کیا اور انجمن کی جائیداد واپس ملی ورنہ کئی بہانے ہو سکتے تھے۔ اِس کے لئے آپ نے بڑے بڑے افسران سے رابطے کئے، بلکہ اس زمانے میں وزیراعظم ہندوستان جواہرلعل نہرو تک سے رابطے کئے اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا، اس کے مثبت نتائج نکلے۔

1963ء میں آپ کی والدہ محترمہ سیدہ عزیزہ بیگم صا حبہ کی وفات ہوئی اور بڑی مشکل سے آپ کو پاکستان آنے کی اجازت ملی اور آپ تدفین کے وقت پہنچ سکے۔

پھر 1965ء میں پاکستان بھارت کی جو جنگ ہوئی اس میں رابطے بالکل ختم ہو گئے تھے، ڈاک اور ٹیلیفون وغیرہ کے انڈیا اور قادیان سے سب رابطے ختم تھے اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیماری کی اطلاع بھی ریڈیو پاکستان کی خبروں سے پتہ لگی تھی اور پھر وفات کی اطلاع بھی ریڈیو پاکستان سے ہوئی۔ پھر انہوں نے جماعت سے رابطے کئے اور پھر سری لنکا سے کنفرمیشن ہو گئی۔ توبہرحال حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے وقت بھی یہ قادیان میں تھے۔

اس کے بار ہ میں لکھنے والے لکھتے ہیں کہ جب حضرت مصلح موعود کی وفات ہوئی تو انہوں نے تمام درویشان کو مسجد مبارک قادیان میں اکٹھا کیا اور وہاں تقریر کی اور درویشان قادیان کو شدید صدمہ کے وقت صبر اور دعاؤں کی تلقین کی اور پھر فرمایا کہ میری ہمیشہ یہ دعا اور تڑپ رہی ہے کہ اے خدا جب بھی حضرت ابا جان یعنی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آخری وقت آئے تو مَیں ان کے پاس موجود رہوں۔ مگر ایسے حالات میں حضور کی وفات ہوئی ہے کہ میرا جانا ممکن نہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سمجھایا کہ قادیان اور ہندوستان کے سارے احمدی افراد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بچوں کی طرح ہی ہیں سب کو جدائی کا یکساں صدمہ پہنچا ہے تم بھی ان کے ساتھ جدائی کا ویسا ہی صدمہ برادشت کرو جیسا کہ وہ کر رہے ہیں اور تمہارا قادیان رہنا ان کے لئے موجب ڈھارس اور تسلی ہو گا۔

پھر 1971ء میں دونوں ملکوں کے حالات خراب ہوئے اور بعض افسران نے قادیان کی احمدی آبادی کو زبردستی قادیان سے نکالنے کی کوشش کی اور چھوٹے افسران نے حکم جاری کیا کہ یہ نکل جائیں اور بہانہ یہ کیا کہ ہم آپ کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، قادیان میں رہ کر ہم حفاظت نہیں کر سکتے۔ اس لئے محلہ احمدیہ اور دار المسیح سب چیزیں خالی کرو تاکہ ایک جگہ ہم تم لوگوں کو جمع کر دیں اور وہاں تمہاری حفاظت کر سکیں۔ اصل میں تو حفاظت مقصد نہیں تھا۔ میرا خیال ہے شک کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا، بلکہ خیال کیا، بڑا واضح ہے کہ ان لوگوں کو شک کی نظر سے دیکھا جارہا تھا۔ تو اس موقع پر بھی حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے قادیان کے تمام احمدی احباب کو مسجد مبارک میں جمع کیا اور ایک بڑی پرسوز تقریر کی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ہمارا دائمی مرکز ہے ہم اس کو قطعاً نہیں چھوڑیں گے۔ اُن کی نیت تو یہ تھی کہ اس طرح یہ خالی کریں گے اس کے بعد ہم جگہوں پر قبضہ کر لیں گے۔ اس تقریر میں آپ نے کہا کہ یہ ہمارا دائمی مرکز ہے اس کو ہم قطعاً نہیں چھوڑیں گے آج کی ایک رات ہمارے پاس ہے، اپنی دعاؤں کے ذریعہ عرش الٰہی کو ہلا دیں۔ اگر حکومت کا ہمارے بارے میں یہی قطعی فیصلہ ہے تو یاد رکھو ایک بچہ بھی خود سے قادیان سے باہر نہ جائے گا۔ ہم اپنی جانیں قربان کر دیں گے لیکن مقامات مقدسہ اور قادیان سے باہر نہیں نکلیں گے۔ نیز فرمایا کہ آپ یاد رکھیں کہ مَیں بھی یہاں سے خود باہر نہیں جاؤں گا اگر حکومت کے کارندے مجھے گھسیٹتے ہوئے باہر لے جائیں تو لے جائیں لیکن اپنے پیروں سے چل کر نہ جاؤں گا۔ آپ میں سے ہر درویش اور درویش کے بچے کی یہی پوزیشن ہونی چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ مجھے لے جائیں اور یہ کہیں کہ ہم تمہارے میاں صاحب کو لے گئے ہیں اس لئے تم بھی چلو۔ وہ مجھے لے جاتے ہیں تولے جائیں۔ آپ نہیں جائیں گے اور ہر فرد جماعت کے منہ سے بس یہی آواز نکلنی چاہئے کہ ہم قادیان کو نہیں چھوڑیں گے۔ تو لکھنے والے کہتے ہیں کہ اس رات قادیان کے بچے بچے کی یہ حالت تھی کہ ہر شخص اس رات جس طرح خداتعالیٰ سے آدمی لپٹ جاتا ہے، لپٹا ہوا تھا۔ مسجد مبارک کا گوشہ گوشہ اور مسجد اقصیٰ کاکونہ کونہ، بہشتی مقبر ے میں ہر جگہ دعائیں ہو رہی تھیں اور کہتے ہیں ہر گھر کی دیواریں اس بات کی گواہ ہیں کہ درویشوں کے دلوں سے یہ نکلی ہوئی آہیں اور چیخیں آستانہ الٰہی پر دستک دینے لگیں۔ اُن کی سجدہ گاہیں تر ہو گئیں، اُن کی جبینیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکی رہیں۔ سینکڑوں ہاتھ خداتعالیٰ کے حضور اٹھے رہے اور رات اور دن انہوں نے اسی طرح گزار دیا اور آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دیا اور اگلے دن پھر کچھ وفود ملنے گئے، فوجی افسران خود قادیان آئے اور مقامات مقدسہ کا معائنہ کیا، احمدیہ محلہ کا معائنہ کیا اور پھر D.Cصاحب وغیرہ کی سفارش پر یہ فیصلہ منسوخ ہو گیا۔

آپ کی دعاؤں کے بارے میں وہاں رہنے والے ہمارے ایک مبلغ نے مجھے لکھا کہ مجھے کچھ عرصہ دارالمسیح میں رہنے کا موقع ملا تومَیں نے اکثر دیکھا کہ میاں وسیم احمد صاحب رات کو بیت الدعا میں یا اور جگہوں پر جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دعائیں کرتے رہے ہیں وہاں دعاؤں میں مشغول ہیں۔ 1977ء میں جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آپ کو امیر مقامی اور ناظر اعلیٰ مقرر کیا۔ آپ نے اس لحاظ سے انتظامی خدمات بھی انجام دیں۔ 1982ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات ہوئی تو اس موقع پر بھی آپ ربوہ نہیں جا سکتے تھے آپ کی دو بڑی بیٹیوں کی تو شادیاں ہو چکی تھیں۔ چھوٹی بیٹی اور بیٹا شاید آپ کے ساتھ تھے تو آپ کی بیٹی امتہ الرؤف کا بیان ہے کہ ابّا کو خلافت سے بے انتہا عشق تھا اور حضور کی وفات کے اگلے روز ایک خط لے کر امّی کے اور میرے پاس لائے کہ اس کو پڑھ لو اور اس پر دستخط کر دو۔ یعنی اپنی اہلیہ اور اپنی بیٹی کے پاس لائے کہ دستخط کر دو۔ اس میں بغیر نام کے خلیفۃ المسیح الرابع کی بیعت کرنے کے متعلق لکھا تھا۔ خلیفۃ المسیح الرابع لکھ کر بیعت تھی کہ یہ مَیں ابھی بھجوا رہا ہوں تو یہ بیٹی کہتی ہیں کہ مَیں نے اس پر کہا کہ ابّاابھی تو خلافت کا انتخاب بھی نہیں ہوا، ہمیں پتہ نہیں کہ کون خلیفہ بنے گا۔ تو کہتے ہیں کہ مَیں نے خلیفہ کا چہرہ دیکھ کر بیعت نہیں کرنی بلکہ مَیں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خلافت کی بیعت کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو بھی خلیفہ بنائے اس کی مَیں نے بیعت کرنی ہے۔ اس لئے مَیں نے یہ خط لکھ دیا ہے اور مَیں اس کو روانہ کر رہا ہوں تاکہ خلافت کا انتخاب ہو تو میری بیعت کا خط وہاں پہنچ چکا ہو۔ تو یہ تھا خلافت سے عشق اور محبت اور اس کا عرفان۔ اللہ کرے ہر ایک کو حاصل ہو۔

مخالفین کی طرف سے آپ پر بعض جھوٹے مقدمے بھی بنائے گئے۔ بعض اپنوں نے بھی آپ کو بعض پریشانیوں میں مبتلا کیا لیکن بڑے حوصلے اور صبر سے آپ نے ہر چیز برداشت کی۔ بلکہ ان مخالفین میں سے سنا ہے، اب ان کی وفات پر تعزیت کے لئے بھی لو گ آئے ہوئے تھے۔

جشن تشکر کے وقت آپ نے سارے بھارت کا دورہ کیا، جماعتوں کو آرگنائز کیا، ان کو بتایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا دورہ ہوا۔ اس وقت آپ نے ساری انتظامی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ پھر جب 2005ء میں میرا دورہ ہوا ہے اس وقت آپ کی طبیعت بھی کافی خراب تھی، کمزوری ہو جاتی تھی، بڑی شدید انفیکشن ہو گئی۔ جلسہ پہ پہلے اجلاس کی انہوں نے صدارت کرنی تھی اور بیمار تھے، بخار بھی تھا لیکن چونکہ میرے سے منظوری ہو چکی تھی، تو اتفاق سے جب مَیں نے گھر آ کے ایم ٹی اے دیکھا تو صدارت کر رہے تھے، مَیں نے پیغام بھجوایا کہ آپ بیمار ہیں چھوڑ کے آ جائیں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے بخار ہے، مَیں بیمار ہوں، بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ سخت کمزوری کی حالت تھی لیکن اس لئے کہ اجلاس کی صدارت کے لئے میری خلیفہ وقت سے منظوری ہو چکی ہے، اس لئے کرنی ہے۔ خیر اس پیغام کے بعد وہ اٹھ کر آ گئے۔ اس حالت میں ہی نہیں تھے کہ بیٹھ سکتے۔ تو انتہائی وفا سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے والے تھے اور پھر مَیں نے دیکھا کہ جہاں ہماری رہائش تھی، وہاں گھر میں بعض چھوٹے چھوٹے کام ہونے والے تھے تو مستریوں کو لا کر کھڑے ہو کر اپنی نگرانی میں کام کرواتے تھے، حالانکہ اُس وقت ان کو کمزوری کافی تھی۔ خلافت سے عشق کی مَیں نے کچھ باتیں بتائی ہیں، کچھ آگے بتاؤں گا۔ پھر ان میں توکّل بڑا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے بڑا محبت کا تعلق تھا، توکّل تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بہت عشق تھا اور وہی عشق آگے خلافت سے چل رہا تھا اور خلافت سے عقیدت اور اطاعت بہت زیادہ تھی۔ پھر لوگوں سے بے لوث محبت تھی۔ خدمت کا جذبہ تھا۔ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بے انتہا احترام کیا کرتے تھے، درویشان سے آپ کو بڑی محبت تھی۔ بلکہ ایک دفعہ کسی نے درویشان کے متعلق بعض ایسے الفاظ کہے جو آپ کو پسند نہیں آئے تو اس پر آپ نے بڑی ناپسندیدگی کا اور ناراضگی کا اظہار کیا۔ حالانکہ طبیعت ان کی ایسی تھی کہ لگتا نہیں تھا کہ کبھی ناراضگی کا اظہار کر سکیں گے۔ لیکن درویشان کی غیرت ایسی تھی کہ اس کو برداشت نہیں کر سکے۔

مہمان نوازی آپ کا بڑا خاصہ تھی۔ رات کے وقت آپ کو کوئی ملنے آ جاتا تو بڑی خوشی اور خندہ پیشانی سے ملتے۔ آپ کی بیگم صا حبہ بیان کرتی ہیں کہ عیدین کے موقع پر مجھے خاص طورپر بیواؤں سے ملنے اور انہیں تحفہ پیش کرنے کے لئے بھجواتے تھے۔ اگر کوئی عورت، مرد بیمار ہو جاتا تو اس کی عیادت کے لئے جاتے اور اگر کوئی زیادہ بیمار ہوتا تو اس کو امرتسر ہسپتال بھجوانے کا انتظام کرتے تھے۔ انہوں نے درویشوں کو بالکل بچوں کی طرح پالا ہے۔ مہمان نوازی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم تین مہینے باہر رہ کر آئے اور گھر آئے ہیں تو کوئی مہمان آ گیا۔ تو انہوں نے کہا مہمان آیا ہے کچھ کھانے پینے کو بھجواؤ تو مَیں نے کہا ابھی تو ہم اترے ہیں۔ پتہ نہیں گھر میں کوئی چیز ہے بھی کہ نہیں، کیا بھیجوں؟  تو میاں صاحب نے کہا اس قسم کے جواب نہیں دینے چاہئیں۔ تلاش کرو، کچھ نہ کچھ مل جائے گا، خیر بسکٹوں کا ایک ڈبہ مل گیا وہ بھجوایا۔ تو ذرا ذرا سی بات کا خیال رکھنے والے تھے۔

غیروں سے تعلقات کے پہلے تو یہ حالات تھے پھر یہ تعلقات بھی اتنے وسیع ہوئے کہ ہر کوئی گرویدہ تھا۔ اب جب مَیں 2005ء میں دورے پر گیاہوں، ہوشیارپور بھی ہم گئے ہیں۔ وہاں رہنے والی بعض اہم شخصیتوں نے آپ کی وجہ سے مجھے بھی اپنے گھروں میں بلوایا اور بڑا محبت کا اظہار کیا۔ سکھوں میں سے، ہندوؤں میں سے، جو بھی غیر ملتے تھے آپ کی بڑی تعریف کیا کرتے تھے اور آپ کے اخلاق کے معترف تھے۔ اب بھی آپ کی وفات پہ بہت سارے پڑھے لکھے سکھ، ہندو آئے۔ ممبر آف پارلیمنٹ، کاروباری لوگ، وکلاء، غریب آدمی، بلکہ ایک اسمبلی کے سابق سپیکر بھی آئے، سب کی آوازیں مَیں ویڈیومیں سن رہا تھا۔ انتہائی تعریف کر رہے تھے کہ ایسا شخص ہے جنہوں نے مذہب سے بالا ہو کر ہمارے سے تعلق رکھا اور ہمیں بھی یہی سکھایا کہ انسانیت کے ناطوں کومضبوط کرنا چاہئے، انسانیت کے رشتوں کو مضبوط کرناچاہئے۔ ہر ایک ان کاگرویدہ تھا۔ بے شمار چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جو لوگوں نے مجھے تعزیت کے خطوط میں لکھے ہیں۔ مَیں ان کا ذکر کروں تو بہت لمبا قصہ ہو جائے گا۔

پھر حضرت میاں صاحب کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ بڑے نپے تلے انداز میں، بڑے سوچ سمجھ کے بات کیا کرتے تھے، کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو جماعتی روایات سے ہٹ کر ہو۔ کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آنحضرت اکے مقام کو نہ سمجھتے ہوئے ہو، کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جس سے بڑائی کی بُو آتی ہو، جس میں درویشانہ عاجزی کا فقدان ہو اور پھر اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو میری بات دور کر دے۔

ایک دفعہ کینیڈا میں کسی نے آپ سے درویشوں کی قربانیوں اور حفاظت مرکز کے کام کو سراہتے ہوئے آپ کی بڑی تعریف کی۔ تو آپ نے فرمایا کہ دیکھو امر واقعہ یہ ہے کہ ہم درویشوں نے قادیان کی حفاظت نہیں کی بلکہ قادیان کے مقامات مقدسہ اور وہاں کی جانے والی دعاؤں نے نہ صرف قادیان کی بلکہ اس کے رہنے والوں کی بھی حفاظت کی ہے۔

تو یہ ہے ایک مومن کی سوچ اور ادراک کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہوتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ نے دعا کے مواقع مہیا فرمائے اور اپنے پیارے مسیح کی مقدس بستی کو ہر شر سے محض اپنے فضل سے بچایا۔ ہماری دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے مقامات مقدسہ کے ساتھ ہماری بھی حفاظت فرمائی۔ کسی نے ایک تعزیت کا خط لکھا اس میں یہ فقرہ مجھے بڑا اچھا لگا، آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ نے مجاہدانہ شان سے درویشانہ زندگی گزاری اور حقیقت یہی ہے۔

پھر مالی تحریکات میں بھی حسب استطاعت خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ہر تحریک جو خلیفہ وقت کی طرف سے ہوتی تھی پہلے خود حصہ لیتے، پھر جماعت کو توجہ دلاتے تھے۔ ابھی وفات سے چند دن پہلے مجھے لکھا کہ مَیں نے خلافت جوبلی کے لئے ایک لاکھ روپے کا وعدہ کیا تھا اور میرے ذہن سے اتر گیا کہ اس کی ادائیگی کرنی ہے۔ بڑا معذرت خواہانہ خط تھا اور لکھا کہ الحمدللہ مجھے وقت پہ یاد آ گیا اور مَیں نے آج اس کی ادائیگی کر دی ہے اور یہ بھی حساب وفات سے چند دن پہلے صاف کرکے گئے۔ وصیت کا حساب ساتھ ساتھ صاف ہوتا تھا۔ زندگی میں جائیداد کا حساب بھی اپنی زندگی میں صاف کر دیا۔ اور 1/9 کی وصیت تھی۔ درویشوں کی خودداری کا واقعہ تو مَیں بیا ن کرچکاہوں۔ خلافت سے تعلق کے بارہ میں دوبارہ بتاتاہوں۔ کوئی حکم جاتاتھا، کوئی ہدایت جاتی تھی تو من وعن انہی الفاظ میں اس کی فوری تعمیل ہوتی تھی۔ یہ نہیں ہوتا تھا، جس طرح بعضوں کو عادت ہوتی ہے کہ اگر کوئی فقرہ زیادہ واضح نہیں ہے تو اس کی توجیہات نکالنا شروع کردیں گے۔ جس کے دو مطلب نکلتے ہوں تو اپنی مرضی کا مطلب نکال لیں۔ بلکہ فوری سمجھتے تھے کہ خلیفہ ٔ وقت کا منشا ء کیا ہے۔ جیساکہ پہلے بھی مَیں نے کہا ہے باوجودبیماری کے خلیفہ ٔوقت کی طرف سے آمدہ ہدایت پر اگر ضرورت ہوتی تو خود جاکے تعمیل کرواتے۔ گزشتہ دنوں ڈیڑھ سال پہلے جو زلزلہ آیا، اس کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا۔ تومسجد کی مرمتیں ہو رہی تھیں۔ یہاں سے انجینئر جاتے رہے ہیں۔ وہاں کی زمین کی ٹسٹنگ (Testing) کے لئے کہ مزید کیاجائزہ لیناہے، کھدائی کرکے دیکھنی تھی۔ یہ کا م میاں صاحب کے بغیر بھی ہو سکتاتھا۔ لیکن خود وہاں موقع پر پہنچے اور اپنی نگرانی میں یہ کروایا اور جو انجینئر یہاں سے گئے، بڑا ہنس کے پھر ان انجینئر صاحب کو میرے متعلق کہا کہ انہیں یہ بتا دینا کہ مَیں وہاں موجود تھا۔ یہ بتا دیناکہ مجھ سے چلا نہیں جاتاتھا لیکن اس کے باوجودمَیں یہاں آکے کھڑا ہوگیا۔ یہ نہیں کہ کوئی اظہار تھا کہ دیکھو مَیں بیماری کے باوجود یہاں آگیاہوں۔ احسان کے رنگ میں نہیں بلکہ اس لئے کہ خلیفہ ٔوقت کی دعائیں میرے ساتھ ہو جائیں گی۔ تو یہ تھا ان کا خلافت سے تعلق۔

گزشتہ دنوں چند ماہ پہلے باوجود بیماری کے کشمیر کا بڑا تفصیلی دورہ کیا اور ہر جگہ خلافت سے تعلق کے بارے میں لوگوں کو تلقین کی۔

پھر یہ ہے کہ لوگ آپ کو دعا کے لئے جوخطوط لکھتے تھے، آپ کے نام سے خطوط لکھے جاتے تھے لیکن اگر یہ سمجھتے تھے کہ ایسے خطوط خلیفۂ وقت کے پاس جانے چاہئیں تو یہاں بھجوا دیا کرتے تھے تاکہ ان لوگوں کے لئے دعا ہو جائے اور یہاں سے بھی جواب چلا جائے۔ مجھے انہوں نے لکھا کہ پچھلے دنوں میں بیماری کچھ زیادہ ہو گئی تھی، صحیح کام نہیں ہو رہا اس لئے کچھ عرصہ کے لئے کسی کو مقرر کر دیں، ایک ذمہ داری سپرد کردیں۔ اس پر مَیں نے ان کو لکھا تھا کہ کسی کے سپرد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض کام ہیں جس سے چاہے لے لیا کریں، ناظراعلیٰ آپ ہی رہیں گے۔ اب میرا خیال ہے کہ اس کے بعد اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر بھی یہ کام کرتے رہے ہیں اور ایک معاملے کی رپورٹ ابھی چند دن پہلے مجھے ان کی وفات کے بعد آئی، اس پر ان کے دستخط تھے اور 25؍ اپریل کی تاریخ تھی۔ یعنی اس وقت بھی جس دن یہ ہسپتال داخل ہوئے ہیں اور شدید انفیکشن تھی، بخار 104-05تک پہنچا ہوا تھا۔ لیکن وہ ساری رپورٹ دیکھی اور اس پر دستخط کئے۔

اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرزند اور آپؓ کی نشانی کے درجات بلند فرمائے جس نے اپنے درویشی کے عہد کو نبھایا اور خوب نبھایا۔ قدرتی طور پر ان کی وفات کے ساتھ مجھے فکرمندی بھی ہوئی کہ ایک کام کرنے والا بزرگ ہم سے جدا ہو گیا۔ وہ صرف میرے ماموں نہیں تھے بلکہ میرے دست راست تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں میرا سلطان نصیر بنایا ہوا تھا۔ تو فکر مندی تو بہرحال ہوئی لیکن پھر اللہ تعالیٰ کے سلوک اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو دیکھ کر تسلی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کی طرح اپنے فضل سے یہ خلا بھی پُر فرمائے گا اور انشاء اللہ پہلے سے بڑھ کر قربانی کرنے والے سلطان نصیر عطا فرمائے گا اور فرماتا ہے۔

اللہ تعالیٰ درویشوں کی اولادوں کو اور قادیان کے رہنے والے ہر فرد کو ان قربانی کرنے والے درویشوں کی یادیں زندہ رکھنے کی توفیق دے اور اس وقت جو چند ایک درویشان ان کے پاس رہ گئے ہیں، ان کی خدمت کی بھی ان کو توفیق دے۔ قادیان میں رہنے والا ہر احمدی اس مقام کو سمجھے جو دیار مسیح میں رہنے والے کا ہونا چاہئے۔ جب بزرگ اٹھتے ہیں تو نئی نسل کی ذمہ داریاں بڑھتی ہیں اور جو زندہ قومیں ہیں ان کی نئی نسلیں پھر ان کی ذمہ داریوں کو باَحسن نبھانے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ پس مَیں امید رکھتا ہوں کہ قادیان کے رہنے والے سب واقفین زندگی اور عہدیداران پہلے سے بڑھ کر پیار محبت اور بھائی چارہ کا ایک دوسرے سے سلوک کریں گے اور یہ سلوک کرتے ہوئے نیکی اور تقویٰ میں ترقی کریں گے۔ قادیان کا رہنے والا ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روحانی اولاد ہونے کے ناطے اس کا حق ادا کرے گا اور جس طرح ہمارے یہ بزرگ اُن جگہوں پر سجدہ ریز ہوئے جہاں مسیح الزمان نے سجدے کئے اور اُن جگہوں کو اپنی دعاؤں سے پُر کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے ان جگہوں میں جماعت کی ترقی کے وعدے فرمائے تو یہ لوگ (نئی نسل) جو وہاں رہنے والے ہیں یہ بھی ان جگہوں پہ جائیں گے اور پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہوں گے، دعائیں کریں گے اور اس کا فضل حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور مجھے ان فکروں سے آزاد کریں گے کہ قادیان میں نیکی اور تقویٰ پر چلنے والے اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے والوں کی کمی ہو رہی ہے۔ بلکہ یہی خوشی کی خبریں پہنچیں گی کہ تقویٰ میں ترقی کرنے والے بڑھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کی توفیق دے۔

دنیا کی جماعتوں پر بھی قادیان کا حق ہے کہ اس بستی کے رہنے والوں کے لئے ہر احمدی دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ مسیح کی بستی کا حق ادا کرنے والے پیدا فرماتا رہے۔ حضرت میاں صاحب کی بیگم صا حبہ کیلئے بھی دعا کریں۔ وہ بھی بیمار رہتی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہمت اور حوصلہ دے اور یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق دے۔ یہ بھی بڑی بابرکت وجود ہیں۔ انہوں نے جماعت کی خواتین کو، عورتوں کو اکٹھا کرنے میں، Organizeکرنے میں، ان سے ہمدردیاں کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت سلامتی والی زندگی عطا فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی اپنے بزرگ والد کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ گو کہ ان میں سے کوئی بھی قادیان میں نہیں ہے۔ بچیاں شادی ہوکے پاکستان چلی گئیں، اب وہ پاکستانی شہریت رکھتی ہیں، بیٹا اُن کا امریکہ میں ہوتا ہے لیکن جہاں بھی ہیں اپنے عظیم باپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں اور ان خصوصیات کے حامل بننے کی کوشش کریں جو ان کے باپ میں تھیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ میں فرمایا:

جیسا کہ مَیں نے کہا تھا بعض غیر بھی بلکہ بڑی کثرت سے غیر آ کے حضرت میاں صاحب کا افسوس کر رہے ہیں۔ تو قادیان کی انتظامیہ میرا یہ خطبہ سن رہی ہے، میری طرف سے ان سب کا شکریہ ادا کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ (نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی نماز جنازہ غائب پڑھائی)

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 25تا 31مئی2007ء ص5تا9)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • English اور دوسری زبانیں

  • 4؍ مئی 2007ء شہ سرخیاں

    خدمات، قربانیوں اور خصائل حمیدہ کا تذکرہ اور اس حوالے سے احباب جماعت کو نصائح

    فرمودہ مورخہ 04؍مئی 2007ء (04؍ہجرت 1386ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور