خدا تعالیٰ کی صفت السلام
خطبہ جمعہ 18؍ مئی 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ہزار ہزار شکر اس خداوند کریم کا ہے جس نے ایسا مذہب ہمیں عطا فرمایا جو خدا دانی اور خداترسی کا ایک ایسا ذریعہ ہے‘‘۔ یعنی خدا کو پہچاننے، جاننے اور خدا سے ڈرنے یا تقویٰ اختیار کرنے کا ایک ذریعہ ہے ’’جس کی نظیر کبھی اور کسی زمانے میں نہیں پائی گئی۔ اور ہزار ہا درُود اس نبی معصومؐ پر جس کے وسیلہ سے ہم اس پاک مذہب میں داخل ہوئے۔ اور ہزار ہا رحمتیں نبی کریمؐ کے اصحاب پر ہوں جنہوں نے اپنے خونوں سے اس باغ کی آبپاشی کی۔ اسلام ایک ایسا بابرکت اور خدا نما مذہب ہے کہ اگر کوئی شخص سچے طور پر اس کی پابندی اختیار کرے اور ان تعلیموں اور ہدایتوں اور وصیتوں پر کار بند ہوجائے جو خدائے تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف میں مندرج ہیں تو وہ اسی جہان میں خدا کو دیکھ لے گا‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ25)
پس خدا نما مذہب سے فیض اٹھانے کے لئے سچے طور پر اُس کی پابندی اختیار کرنی ہو گی اور سچی پابندی کس طرح اختیار کی جا سکتی ہے؟ اس بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ ان ہدایتوں اور وصیتوں اور تعلیموں پر کاربند ہونا ہو گا۔ ان پر مکمل عمل کرنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں بتائی ہیں۔ اور یہ ہدایتیں، یہ احکامات جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے، ایک جگہ فرمایا پانچ سو اور ایک جگہ فرمایا سات سو ہیں، جو قرآن کریم میں مختلف جگہوں پرپھیلے ہوئے ہیں۔ اگر مزید جزئیات میں جائیں تو شاید اس سے بھی زیادہ ہو جائیں گی۔
تو بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس عظیم مذہب کا نام جو اسلام رکھا ہے تو اس لئے کہ اس میں ہر حکم جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دیا ہے، اس کا آخری نتیجہ امن، محبت، پیار اور بھائی چارے کا قیام، تمام برائیوں کو چھوڑنا اور انتہائی کوشش سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔ اور یہی چیزیں ہیں جو خداتعالیٰ کا دیدار کرواتی ہیں۔ اس خدا کا اپنا نام بھی اَلسَّلَام ہے، جو ہمارا خدا ہے، جو ہر مومن سے اُن نیک اعمال کی وجہ سے اس دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد کی اخروی زندگی میں بھی سلامتی کا وعدہ کرتا ہے۔ پس اگر غور کریں تو مسلمان ہونے کے بعد ایک عظیم ذمہ داری کا احساس ابھرتا ہے، اور ابھرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نام سے موسوم کر رہا ہے جو اس کا اپنا نام ہے اور یہ چیز یقینا اس طرف توجہ دلاتی ہے اور دلانے والی ہونی چاہئے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کے بعد صرف منہ سے یہ کہنے پر اکتفا نہ کریں کہ الحمدللہ مَیں مسلمان ہوں، بلکہ اس رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ تبھی اسلام کے فیض سے اور صفت اَلسَّلَام کے فیض سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’واضح ہو کہ لغت عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو اپنا کام سونپیں اور یا یہ کہ صلح کے طالب ہوں اور یا یہ کہ کسی امر یا خصومت کو چھوڑ دیں۔ اور اصطلاحی معنی اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرۃ:113) یعنی مسلمان وہ ہے جو خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خداتعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے۔ مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خداتعالیٰ کا ہو جاوے۔ ’’اعتقادی‘‘ طورپر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خداتعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور ’’عملی‘‘ طور پر اس طرح سے کہ خالصتاً للہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے، مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 58-57)
قرآن کریم میں سلامتی کے حوالے سے مختلف نصائح بھی ہیں اور نیک اعمال کرنے والوں کے لئے سلامتی کا ذکر بھی آ یا ہے۔ وہ کس طرح ہے؟ سورۃ القصص میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ۔ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ (القصص:56) یعنی اور جب وہ کسی لغو بات کو سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں، تم پر سلام ہو، ہم جاہلوں کی طرف رغبت نہیں رکھتے۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کی پیروی کرنے کے لئے، خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جو وقف کر دے گا، تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی یہ ہے کہ لغویات کا جواب لغویات سے نہیں دینا۔ احمدی سلامتی پھیلانے والا ہے اس لئے ان چیزوں سے بچو۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ جو ہے کہ تم پر سلام ہو’’سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ‘‘ یہ اس قماش کے لوگوں کو جو فساد پھیلانے والے ہیں اُن کو دعا دینے کے معنوں میں نہیں آتا بلکہ بچنے کے معنوں میں ہے اور بچنا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے کہ ہم تمہارے جیسے گندے اعمال نہیں کر سکتے، ہم تو اس سے بچتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہو، قانون توڑتے ہو تو یہ تمہارا فعل ہے۔ ہمیں تو حکم ہے کہ اس فساد سے بچیں۔ اس لئے احمدی کہیں قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتا اور اس طرح قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر کبھی جواب نہیں دیتا اور یہ بات اس حکم کے تحت ہے کہ لغویات سے بچو۔ اُن کو کہو کہ تم جو حرکتیں اللہ اور رسول کے نام پرکر رہے ہو اُن سے ہم اس لئے بچتے ہیں کہ یہ اللہ اور رسول کا حکم نہیں ہے۔ ہم کسی بزدلی کی وجہ سے نہیں بچتے۔ اس لئے نہیں کہ ہم اس کا جواب نہیں دے سکتے بلکہ اس لئے کہ قانون کو ہاتھ میں لے کر تمہارے جیسی حرکات کر کے ہم بھی بدامنی پھیلانے والے نہیں بن سکتے۔ ان لوگوں میں شامل نہیں ہو سکتے جو تمہاری قماش کے لوگ ہیں اور ان لغویات میں ملوث ہونا نہیں چاہتے جن میں تم ہو۔ تم جاہل ہو اس لئے کہ تم نے باوجود آنحضرتﷺ کی طرف منسوب ہونے کے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا۔ جب ہم نے اس امام کو مانا ہے اور قرآن کریم کے حکم کے تحت زمانے کے امام نے جو ہمیں توجہ دلائی ہے تو ہم اب اس پر عمل کرنے والے ہیں۔ آج کل سری لنکا میں بھی بڑی شدت سے احمدیت کی جو مخالفت ہو رہی ہے۔ اور فسادیوں کا جو ایک گروہ مُلّاں کے پیچھے چل کر حرکتیں کر رہا ہے یہ تمہارے زُعم میں تو اسلام کی خدمت ہو سکتی ہے لیکن یہ تمہارا صرف زُعم ہے، حقیقت میں یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی لعنت سہیڑ رہے ہو۔ کلمہ گوؤں کو کافر کہنا، تکلیفیں پہنچانا، توڑ پھوڑ کرنا تمہیں خود اللہ تعالیٰ کی سلامتی سے باہر کر رہا ہے۔ ہم احمدی توہر اُس شخص کے لئے اسلام کے پھیلانے والے ہیں، جو سلامتی کے حصول کی چاہت رکھتا ہے اور تمہارے جیسے قانون شکنوں اور بدی پھیلانے والوں سے بچنے والا ہے۔ ہم اس کے ساتھ ہیں اور تم جیسے لوگوں سے ہم اعراض کرنے والے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے سَلَام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، اللہ تعالیٰ نے اُسے زمین میں رکھا ہے پس تم اسے اپنے درمیان پھیلاؤ۔ اگر ایک مسلمان شخص ایک قوم کے پاس سے گزرے تو وہ ان پرسَلَام بھیجے۔ اگر ان لوگوں نے جواب دیا تو اس شخص کوایک درجہ زیادہ فضیلت ملے گی کیونکہ اس نے ان کوسَلَامکرنا یاد دلایا۔ اگر انہوں نے اس کا جواب نہ دیا تو اس کا جواب وہ وجود دے گا جو ان سے بہتر ہے۔ (الترغیب والترھیب جز3۔ التر غیب فی افشاء السلام وما جاء فی فضلہ۔ حدیث نمبر 3988۔ صفحہ 374-373)
پس کسی بھی طبقے کا، کسی بھی شخص کا ہمارے سلام کاجواب نہ دینا اور آگے لغو اور فضولیات بکنا ہمیں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی طرف سے بھی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی سلامتی پہنچانے والا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ خود سَلَام پہنچوا رہا ہو تو قبول بھی فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح سلام بھجواتا ہے۔ قرآن کی سورۃ الرعد میں آتا ہے کہ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ۔ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ۔(الرعد:25-24) یعنی دوام کی جنتیں ہیں، ان میں وہ داخل ہوں گے۔ ایسی ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بھی جو ان کے آباؤ اجداد، ان کی ازواج اور ان کی اولاد میں سے اصلاح پذیر ہوئے اور فرشتے اُن پر ہر دروازے سے داخل ہو رہے ہوں گے۔ سلام ہو تم پر بسبب اس کے جو تم نے صبر کیا۔ پس کیا ہی اچھا ہے گھر کا انجام۔
پس فرشتوں کا ہر دروازے سے داخل ہو کر سلام بھیجنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مومنوں کا صبر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں قبول ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر کیا تھا اس لئے قبول ہوا اور اس صبر کی وجہ سے ان کی دوسری نیکیاں بھی اُجاگر ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کے تمام دروازے کھول دئیے۔ پس جو صبر کسی غیراللہ کے خوف اور ڈر کی وجہ سے نہ ہو؟ جو خدا کی رضا کے حصول کے لئے ہو وہ اللہ کی جناب میں قبول کیا جاتا ہے اور بندے کو اس کا اجر ملتا ہے۔ اور یہ سلام جو اللہ کے بندوں کو پہنچایا جا رہا ہے یہ ہمیشہ کی سلامتی کا پیغام ہے اور جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اللہ کی راہ میں اپنا وجود سونپ دینے کی وجہ سے ہے۔ پس اگر مخالفینِ احمدیت کو یہ زُعم ہے کہ ڈرا دھمکا کر کسی احمدی کو اس کے دین سے برگشتہ کر سکتے ہیں، اس کو احمدیت چھوڑنے پر مجبور کرسکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ چاہے وہ سری لنکا کے گورنر علوی صاحب ہوں یا پاکستان کے مُلّاں ہوں یا بنگلہ دیش کے نام نہاد علماء ہوں جن کا دین صرف فساد اور فساد ہے نہ کہ رحمت اور سلامتی۔ یا انڈونیشیا کے شدّت پسند ہوں جنہوں نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کو، اُن مسلمانوں کو جو اللہ تعالیٰ کے احکامات بجالانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، تکلیفوں میں مبتلا کیا ہوا ہے۔
ہم انشاء اللہ تعالیٰ قانون کو ہاتھ میں نہیں لیں گے، نہ احمدی کبھی قانون ہاتھ میں لیتا ہے لیکن جہاں احمدی کو یہ خوشخبری ہے کہ اگلے جہان میں اس کو صبر کی جزا ملے گی، اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ سلامتی کے فیض پہنچاتا رہے گا، اور پہنچا رہا ہے اور احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کو جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قرآنی احکامات کے تابع نیک اعمال بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں حقوق اللہ بھی ہیں اور حقوق العباد بھی ہیں ان جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ہرآن مومنوں پر سلامتی فرماتا رہے گا۔
فرماتا ہے وَاُدْخِلَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَاالْاَنْھٰرُخٰلِدِیْنَ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ۔ تَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ۔(ابراھیم:24) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ایسے باغات میں داخل کئے جائیں گے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں وہ اپنے ربّ کے حکم کے ساتھ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ان کا تحفہ ان جنتوں میں سلام ہو گا۔
یہ نیک اعمال کیا ہیں جن کی وجہ سے ہمیں جنتیں ملیں گی اور اس کے بعد ہمیں سلامتی کا تحفہ ملے گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بندے کو پیدا کیا ہے۔ اس کے دین کی سربلندی کے لئے کوشش ہے۔ دین کی خاطر مالی اور جانی قربانی کرنے کی کوشش ہے۔ اس کے دین کو پھیلانے کے لئے تبلیغ میں حصہ لینا ہے۔ دعوت الی اللہ کرنا ہے۔ دنیا کو خدائے واحد کی حقیقی تصویر دکھانا ہے۔ نیکیوں کی تلقین کرنا ہے جس میں بہت سارے حقوق العباد آ جاتے ہیں جس کے بارے میں فرمایا کہ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ(آل عمران :111) یعنی مومن نیکی کی ہدایت کرنے والے ہیں اور برائی سے روکنے والے ہیں۔ پس جہاں ایک مومن کو اپنے میں سے برائیاں ختم کرنے والا اور نیکیاں اختیار کرنے والا ہونا ہے وہاں ایک مومن سلامتی کے پیغام کو دوسرے تک پہنچانے والا بھی ہے۔ اور اس زمانے میں یہ فیض صرف احمدی کو حاصل ہے، صرف احمدی اس فیض سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہ اعزاز صرف احمدی کو حاصل ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے کہ اسلام کے محبت و پیار کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔
پھر نیک اعمال بجا لانے میں سب سے اہم کام رشتہ داروں سے حسن سلوک ہے جس سے سلامتی کا پیغام ہر طرف پھیلے گا۔ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ اس طرف توجہ ہو گی تو معاشرے میں امن قائم ہو گا۔ یہ حقوق کی ادائیگی جس طرح اپنے بھائی کے لئے ہے اسی طرح غیر کے لئے بھی ہے۔ پھر نیک اعمال میں غرباء کی دیکھ بھال ہے۔ یہ بھی ایک ایسا کام ہے جس سے ہر طرف سلامتی کا پیغام پہنچتا ہے۔ پھر نیک اعمال میں امانت کا حق ادا کرنا ہے۔ اپنے وعدوں کا پورا کرنا ہے اور یہ ایک ایسا کام ہے جو معاشرے میں سلامتی بکھیرنے والا ہے۔ ان باتوں کے قرآن شریف میں ذکر آئے ہوئے ہیں۔ آج معاشرے کے اکثر فساد اس لئے ہیں کہ امانت کی ادائیگی صحیح طرح نہیں کی جاتی اور عہدوں کا پاس نہیں کیا جاتا۔ صرف اپنے حقوق کا خیال نہیں ہونا چاہئے بلکہ دوسروں کے حقوق کا خیال بھی ہونا چاہئے۔ جب یہ صورتحال پیدا ہو گی تو امن اور سلامتی معاشرے میں قائم ہو گی۔ پھر یہ ہے کہ صرف حقوق کا خیال نہیں کرنا بلکہ دوسرے کا حق نہ ہونے کے باوجود احسان کرتے ہوئے، قربانی کرکے دوسرے کی ضروریات کا بھی خیال رکھنا اور پھر یقینا معاشرے میں امن اور سلامتی اور پیار پھیلانا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی مدد کے وقت اسے اکیلا چھوڑتا ہے اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے اور جس نے کسی مسلمان سے اس کی تکلیف دُور کی تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی تکالیف میں سے تکلیف دُور کر دے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے روز پردہ پوشی فرمائے گا۔ (بخاری کتاب المظالم باب لَا یظلم المسلم المسلم ولَا یسلمہ۔ حدیث نمبر 2442)
پھر نیک اعمال میں سے حسن ظن ہے۔ اکثر جھگڑے معاشرے میں بدظنیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ معاشرے کا امن غارت ہو رہا ہوتا ہے اس لئے کہ کسی بات کے خود ساختہ غیر حقیقی نتائج نکال لئے جاتے ہیں اور پھر اس پر فساد شروع ہو جاتا ہے۔ کئی معاملے آتے ہیں بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ دو بھائیوں میں اس وجہ سے تعلقات خراب ہو گئے کہ ایک کو یہ شک پڑ گیا کہ یہ میرا مال کھا گیا ہے۔ دوسرے ملک میں ہونے کی وجہ سے یا بعض وجوہات کی وجہ سے کسی مشترکہ جائیداد میں جو فروخت نہیں ہوئی، یہ شک ہو گیا کہ وہ فروخت کرکے کھا گیا ہے اور دوسرا بھائی چاہے لاکھ کہے کہ معاملہ اس طرح نہیں ہے، ابھی تو جائیداد اسی طرح پڑی ہے، فروخت نہیں ہوئی لیکن کیونکہ بدظنی نے دل میں جگہ لے لی ہے اس لئے ماننے کا سوال ہی نہیں ہوتا تو یہ بدظنی پھر بھائی کو بھائی سے پھاڑتی ہے اور جہاں ایک دوسرے پر سلام کا تحفہ بھیجنے کا حکم ہے وہاں ناراضگیوں کے اور غلط قسم کی باتوں کے اور جذبات کو مجروح کرنے کے لئے تیر چلائے جاتے ہیں۔ تو ایک احمدی مسلمان کو اس سے بچنے کی انتہائی کوشش کرنی چاہئے اور حسن ظن رکھنا چاہئے۔ میاں بیوی کے جھگڑے ہوتے ہیں، اسی طرح معاشرے میں دوسرے جھگڑے ہوتے ہیں۔ ان میں بھی بعض تو حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو بدظنیوں کی پیداوار ہوتے ہیں اور گھروں کے امن و سکون کو برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر یہ بدظنی ہی ہے جس نے آج مسلمانوں کو زمانے کے امام، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے سے روکا ہوا ہے اور اسی وجہ سے اب جبکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کونہیں مانتے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے والے ہوتے ہیں اور اس کے بدنتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ اس کا اب یہ خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ پھر نیک اعمال میں سے سچائی کا استعمال ہے اور ایک احمدی کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جھوٹ کی وجہ سے ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے اور یہ چیز اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی بن جاتی ہے۔ پس اَلسَّلَام خدا سے فیض پانے کے لئے سچائی پر چلنا اور اس حد تک اس پر قائم ہونا ہے کہ جو چاہے حالات گزر جائیں، اپنا نقصان بھی ہو جائے تو بھی سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔
پھر عفوہے، معاف کرنا، درگزرکرنا۔ ایسا عفو کہ جس سے امن اور محبت و پیار بڑھتا ہو۔ یہ بڑا ضروری ہے۔ ایک احمدی معاشرے میں اس بات کو رواج دینے کی بہت کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا ایسا عفو کہ جس سے امن و محبت اور پیار بڑھتا ہو۔ لیکن اگر ایک عادی مجرم کو عفو سے کام لیتے ہوئے درگزر کرتے چلے جائیں گے، معاف کرتے چلے جائیں گے تو وہ معاشرے کے امن و سکون کو برباد کرنے والا ہو گا۔ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ غلطیاں کرتے ہیں اور کرتے جاتے ہیں۔ ان کی سفارشیں کرنے والے بھی بہت سارے ہوتے ہیں۔ احمدی کی سوچ اس سے بہت بالا ہونی چاہئے کیونکہ پھر جو عادی مجرم ہوں ان سے کسی کو سلامتی نہیں مل سکتی۔ ہاں تکلیفیں اور پریشانیاں ضرور ملیں گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ مخواہ ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیاجائے اور شریروں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ محل اور موقع گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کا ہے۔ پس مجرم کے حق میں اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الوقت بہترہو وہی صورت اختیار کی جائے۔ بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے اور بھی دلیر ہو جاتا ہے۔ پس خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھوں کی طرح صرف گناہ کے بخشنے کی عادت نہ ڈالو بلکہ دیکھ لیا کرو کہ حقیقی نیکی کس بات میں ہے، آیا بخشنے میں یا سزا دینے میں۔ پس جو امر محل موقع کے لحاظ سے ہو وہ کرو، جو اصلی تعلیم خداتعالیٰ کی ہے وہی کرو۔ تو یہ ہے تعلیم جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنا ہے نہ کہ ایسے فیصلے کرنے ہیں جن سے معاشرے کا امن برباد ہوتا ہو۔ ایک مسلمان کا اصل کام یہ ہے کہ سلامتی پھیلانے والا ہو۔ اس لئے اگر سزا سے دوسروں کے لئے سلامتی ہے تو سزا ضروری ہے۔ لیکن یہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ افراد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی کو سزا دیتے پھریں۔ کیونکہ بعض دفعہ اَناؤں کی وجہ سے صحیح فیصلہ نہیں کر پاتے پھر اپنے حقوق ہوتے ہیں تواس لئے بھی صحیح فیصلہ نہیں کر پاتے اور سختی کا رجحان ہوتا ہے تو ایسے موقعوں پر ہمیشہ جب بھی کوئی آپس میں معاملات ہوں، بعض دفعہ کاروباری لوگوں کے معاملات آتے ہیں یا دوسرے ایسے معاملات آتے ہیں جن میں ایک دوسرے سے روز مرہ کی ڈیلنگ (Dealing) ہو رہی ہوتی ہے اور بعض لوگوں کو روز مرہ کی یہ عادت پڑ جاتی ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں تو ایسے معاملات کو پھر نظام جماعت میں رکھنا چاہئے یا عدالت میں لے جانا چاہئے تاکہ معاشرے کی سلامتی قائم کرنے کا جو مقصد ہے وہ پورا ہو سکے۔
پھر شکر کی عادت ہے۔ یہ نیک اعمال میں سے ایک عمل ہے۔ شکر سلامتی پھیلانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس میں ایک تو بندوں کی شکر گزاری ہے۔ دوسرے خداتعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ اور خدا کے بندوں کی شکرگزاری ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا بھی شکرگزار بناتی ہے۔
پھر نیک اعمال میں انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہیں۔ عدل قائم کرنا ہے اور جس معاشرے میں عدل قائم ہو گا، انصاف کے تقاضے پورے کئے جا رہے ہوں گے تو پھر وہاں پرامن اور سلامتی کی فضا بھی ہو گی اور اسلام کی صحیح تصویر بھی کھینچی جا رہی ہو گی۔
لیکن بدقسمتی سے آج بہت سے مسلمان ممالک میں انصاف کے تقاضوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ آج کل پاکستان میں دیکھ لیں کیا ہو رہا ہے نہ عدلیہ انصاف کے تقاضے پورے کر رہی ہے، نہ حکومت انصاف کے تقاضے پورے کر رہی ہے۔ اگرجج ہیں تو وہ اپنی اَناؤں میں گرفتار ہیں۔ اپنے مفاد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ہیں تو وہ وکیلوں اور ججوں کو اپنے پیچھے لگا کر اپنا اُلّو سیدھا کر رہی ہیں، اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ حکومت ہے تو انصاف کے تقاضے پورے نہ کرنے کی وجہ سے اس کے بس میں کچھ نہیں رہا۔ نتیجتاً اثر کس پر پڑ رہاہے؟ ایک عام شہری پر، ایک غریب آدمی پرجو اپنی زندگی سے ہاتھ دھو رہا ہے۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر نہ چلنے کا نتیجہ ہے کہ دوسرے تو دُور کی بات ہے اپنے ہی اس سلامتی سے بے فیض ہو رہے ہیں جس کی مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے، جس کی طرف اُن کو جو اسلام سے منسوب ہونے والے ہیں توجہ دلائی گئی ہے۔ اور باوجوداس کے کہ یہ ایک بنیادی حکم ہے، لیکن مسلمان ہو کر اس سے فیض نہیں اٹھا رہے۔ تو ان لوگوں کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ یہ کیا ہے ؟ظاہر ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔ یہ اس زمانے کے امام کے انکار کی وجہ سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا کہ سلامتی کا پیغام دنیا میں پھیلائے۔ ایک شخص نے خد اکے نام پر دعویٰ کیا ہے کہ سچائی اور سلامتی اب میرے ساتھ ہے اور میرے ساتھ خدائے قادر کا وعدہ ہے اور زمانے کا امام یہ اعلان کرتا ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ تمہارے ساتھ سلامتی ہے۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ :
مجھے میرے خدا نے مخاطب کرکے فرمایا ہے: اَلْاَرْضُ وَالسَّمَآءُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیْ۔ قُلْ لِّیَ الْاَرْضُ وَالسَّمَآءُ قُلْ لِّیْ سَلَامٌ۔ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُقْتَدِرٍ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ یَاْتِیْ نَصْرُاللّٰہِ۔ اِنَّا سَنُنْذِرُ الْعَالَمَ کُلَّہٗ۔ اِنَّاسَنَنْزِلُ۔ اَنَا اللّٰہُ لَآاِلٰہَ اِلَّا اَنَا۔ یعنی آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہے جیسا کہ وہ میرے ساتھ ہے۔ کہہ آسمان اور زمین میرے لئے ہے۔ کہہ میرے لئے سلامتی ہے۔ وہ سلامتی جو خدا قادر کے حضور میں سچائی کی نشست گاہ میں ہے۔ خدا اُن کے ساتھ ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں اور جن کا اصول یہ ہے کہ خلقُ اللہ سے نیکی کرتے رہیں۔ خدا کی مدد آتی ہے۔ ہم تمام دنیا کو متنبّہ کریں گے۔ ہم زمین پر اتریں گے۔ مَیں ہی کامل اور سچا خدا ہوں میرے سوا اور کوئی نہیں۔ (سراج منیر۔ روحانی خزائن جلد 12صفحہ84-83)
تو یہ حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف ایک بات منسوب کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ یہ ایک وعدہ کیا ہے، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ خداتعالیٰ کی تائیدات حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ ہر لمحہ نظر آ رہی ہیں۔ جماعت کی ترقی ہمیں ہر آن نظر آ رہی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہمارے ساتھ ہیں۔ اگر بعض جگہوں پر احمدی معمولی ابتلاء میں مبتلا کئے جا رہے ہیں تو یہ چیز جماعتی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہو رہی۔ ان ابتلاؤں سے احمدی کا ایمان مزید مضبوط ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی مومن کی یہی شان بتائی ہے۔ پس مخالفین جہاں بھی احمدیت کے خلاف فساد بھڑکانے کی کوششیں کر رہے ہیں انہیں اپنی فکر کرنی چاہئے۔ ہم نے تو اُس شخص کا دامن پکڑ اہوا ہے، ہم تو آنحضرتﷺ کے اس عاشق صادق کے پیچھے چل رہے ہیں جس کو خداتعالیٰ نے سلامتی کا پیغام دیا۔ اس کے ساتھ ہونے کا وعدہ فرمایا ہے لیکن تم لوگوں کے لئے، تمام نہ ماننے والوں کے لئے، اللہ تعالیٰ کی تنبیہ بھی ہے اور انذار بھی ہے جس کے نظارے اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً دکھاتا رہتا ہے اور آئندہ بھی دکھائے گا۔ پس ان لوگوں کو ہوش کرنی چاہئے کہ تم تو خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے والوں کے لئے انصاف کرنا نہیں جانتے جس کا حکم ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جو یہ وعدہ فرمایا ہے کہ سلامتی اس کے ساتھ ہے اور وہ انصاف کرنا بھی جانتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے لئے عدل و انصاف کے تقاضے بھی پورے کرتا ہے تاکہ وہ ہمیشہ اس کی سلامتی کے نیچے رہیں۔ جن ملکوں میں بھی احمدیت کے خلاف شدت پائی جاتی ہے مخالفت ہو رہی ہے ان کے عوام کے لئے ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ ان نام نہاد علماء کے لئے اللہ تعالیٰ کی جو تقدیر مقدّر ہے (ان کے ساتھ کیا سلوک ہونا ہے، نظر آ رہا ہے کہ بُرا سلوک ہی ہونا ہے) اس سے اللہ تعالیٰ عوام کی اس اکثریت کو جو لاعلم ہے محفوظ رکھے۔ سری لنکا کے احمدیوں کے لئے بھی خاص طور پر دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان پر بھی رحم فرماتے ہوئے انہیں اپنی سلامتی اور حفاظت میں رکھے۔ آج کل وہ بڑے مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ آج بھی جمعہ پڑھا ہے تو بڑی ٹینشن (Tension) میں پڑھا ہے۔ لیکن اللہ کا فضل ہوا۔ وقت خیریت سے گزر گیا۔ دھمکیاں بڑی تھیں۔ سری لنکا کے احمدیوں سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ آپ لوگ بھی صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرتے رہیں انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے وعدے یقینا پورے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ انشاء اللہ جماعت کی ہمیشہ حفاظت فرمائے گا۔ پس ہمیں اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ہم نیک اعمال کرکے اُن فضلوں اور سلامتی کو حاصل کرنے والے بن سکیں جو اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال کرنے والوں کے لئے مقدر کی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 8 تا 14جون 2007ء ص 5 تا 8)
السلام خدا سے فیض پانے کے لئے سچائی پر چلنا ہوگا، اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سلامتی کا وعدہ فرمایا ہے، سری لنکا میں جماعت کی مخالفت میں شدت اور وہاں کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک
فرمودہ مورخہ 18 ؍مئی 2007ء (18؍ہجرت 1386ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔