سود کی مناہی اور مالی لین دین سے متعلق اسلامی تعلیم
خطبہ جمعہ 15؍ جون 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
آج بھی مَیں گزشتہ خطبہ والے مضمون کو ہی جاری رکھوں گا کہ معاشرے کے جھگڑے اور فسادوں کو ختم کرنے اور سلامتی اور امن اور پیار اور صلح کو پھیلانے کے لئے مالی لین دین کے معاہدے، تجارتی معاہدے یا قرض وغیرہ لینا دینا ہو تو کس طرح ہونے چاہئیں، اسلامی تعلیم ہمیں اس بارے میں کیا تعلیم دیتی ہے۔
گزشتہ خطبہ میں اس سلسلہ میں سود کا ذکر ہو رہا تھاکہ سود بھی ایک ایسی چیز ہے جو معاشرے میں فساد پھیلانے کی وجہ بنتا ہے اور سود کی بڑی شدت سے اللہ تعالیٰ نے مناہی فرمائی ہے۔ اس ضمن میں قرآنی احکامات کیا ہیں وہ ہم دیکھیں گے۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سود لینے والوں کو اپنے سے جنگ کرنے والا ٹھہرایا ہے۔ پس یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کا ہر قسم کے شر سے بچ کر رہنا اور سلامتی میں رہنا اور سلامتی پھیلانا بہت زیادہ پسند ہے۔ جبکہ سود کے ایسے بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں اور بعض مثالیں ایسی ہوتی ہیں کہ بعض اوقات دیکھتے ہی دیکھتے سود خوروں کے ہاتھوں ایک اچھا بھلا صاحب جائیداد آدمی دیوالیہ ہو جاتا ہے اور دَر دَر کی ٹھوکریں کھاتا ہے۔ ہنستا بستا گھرمایوسیوں اور محرومیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر ان کے بچے بھی انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ سب اگر مسلمانوں کے گھروں میں ہو تو اس لئے ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کے واضح حکم کے باوجود کہ یہ چیز نہ کرو اس کی نافرمانی کرتے ہیں اور بعض دفعہ یہ سود کی رقم معمولی اور غیر ضروری اخراجات کے لئے لی جاتی ہے، تو جہاں اللہ تعالیٰ نے سو د خوروں کو وارننگ دی ہے کہ ضرورتمندوں کی مجبوریوں سے فائدہ نہ اٹھاؤ وہاں قرض لینے والوں کے لئے بھی وارننگ ہے کہ بلاوجہ کے قرضوں میں مبتلا ہو کر اپنا اور اپنے گھروالوں کا امن اور سکون برباد نہ کرو۔
میرے علم میں ہے کہ بعض لوگ مثلاًلندن آتے ہیں اور سود خوروں سے سود پر قرض لے لیتے ہیں۔ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو نیک مقصد کے لئے، جلسہ پر آنے کے لئے یہ قرض لے کر آئے ہیں تو یہ بالکل غلط بات ہے۔ یہ تو اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔ اگر حج کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر وسائل نہ ہوں تو نہ کرو تو یہ بالکل غلط چیز ہے کہ یہ بہانے بنا کر آ جاتے ہیں، اَور مقصد بھی ہوتے ہوں گے۔ تو اس لحاظ سے اپنے آپ کو دھوکے میں نہیں ڈالنا چاہئے۔ ابھی بھی جلسہ ہو رہا ہے، انشاء اللہ لوگ آ ئیں گے تو جن کے وسائل ہیں انہی کو آ نا چاہئے۔ بلاوجہ کے قرض اپنے اوپر چڑھا کر آنے کا کوئی مقصد نہیں ہے کیونکہ اس سے نہ صرف اپنے آپ کو دھوکے میں ڈال رہے ہوتے ہیں بلکہ حکم کی نافرمانی کرکے سلامتی سے بھی اپنے آپ کو محروم کر رہے ہوتے ہیں اور اگر حالات کی وجہ سے بروقت ادائیگی نہ ہو سکے تو خود بھی مشکل میں گرفتار ہو جاتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کو بھی مشکل میں گرفتار کر رہے ہوتے ہیں۔ گھروں کا سکون برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ یاجو صاحب حیثیت ہیں وہ یہ کرسکتے ہیں کہ پھر اس طریقہ پر عمل کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتایا ہے کہ سارا سال رقم جوڑتے رہیں تاکہ بوجھ محسوس نہ ہو۔ اور پھر بعض اور موقعوں پر بھی لوگ جو غیر ضروری اخراجات کے لئے قرض لے لیتے ہیں، یعنی شادی، بیاہ وغیرہ پر رسوم و رواج کے لئے۔ پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں تو قرض کی لعنت بہت زیادہ ہے اور غریب ملکوں میں بھی ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان کے حوالے سے ایک خبر تھی۔ پنجاب گورنمنٹ نے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا ہے، پتہ نہیں پاس ہو گیا ہے یا نہیں کہ سودی کاروبار کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی۔ یہ تو بڑی اچھی بات ہے لیکن مسلمان ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کے اپنے مالی نظام کو بھی سود کی لعنت سے پاک ہونا چاہئے، اس کے لئے بھی ان کو کوشش کرنی چاہئے۔
بہرحال سودی قرض کی یہ لعنت گھروں کو برباد کرنے کا باعث بنتی ہے۔ احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں تو اس سے بہت زیادہ بچنا چاہئے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے کسی نے ذکر کیا کہ بعض مجبوریاں ایسی ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے سودی قرضے لینے پڑ جاتے ہیں۔ تو ہم اس پر کیا کریں ؟ اس پر آپؑ نے فرمایا کہ:
’’ جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے، خدا اس کا کوئی سبب پردہ غیب سے بنا دیتا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس راز کو نہیں سمجھتے کہ متقی کے لئے خداتعالیٰ کبھی ایسا موقع نہیں بناتا کہ وہ سُودی قرضہ لینے پر مجبور ہو۔ یاد رکھو جیسے اور گناہ ہیں مثلاً زنا، چوری ایسے ہی یہ سُوددینا اور لینا ہے۔ کس قدر نقصان دِہ یہ بات ہے کہ مال بھی گیا، حیثیت بھی گئی اور ایمان بھی گیا۔ معمولی زندگی میں ایسا کوئی امر ہی نہیں کہ جس پر اتنا خرچ ہو جو انسان سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو۔ مثلاً نکاح ہے اس میں کوئی خرچ نہیں۔ طرفین نے قبول کیا اور نکاح ہو گیا۔ بعد ازاں ولیمہ سنت ہے۔ سو اگر اس کی استطاعت بھی نہیں تو یہ بھی معاف ہے۔ انسان اگر کفایت شعاری سے کام لے تو اس کا کوئی بھی نقصان نہیں ہوتا۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ اپنی نفسانی خواہشوں اور عارضی خوشیوں کے لئے خداتعالیٰ کو ناراض کر لیتے ہیں جو ان کی تباہی کا موجب ہے۔ دیکھو سود کا کس قدر سنگین گناہ ہے۔ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ؟ سؤر کا کھانا تو بحالت اضطرار جائز رکھا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَا ٓاِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(البقرۃ:174) یعنی جو شخص باغی نہ ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اللہ غفور رحیم ہے۔ مگر سود کے لئے نہیں فرمایا کہ بحالت اضطرار جائز ہے بلکہ اس کے لئے تو ارشاد ہے یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (البقرۃ:280-279) اگر سود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے۔ ……مسلمان اگر اس ابتلا میں ہیں تویہ ان کی اپنی ہی بدعملیوں کا نتیجہ ہے۔ … انسان کو چاہئے کہ اپنے معاش کے طریق میں پہلے ہی کفایت شعاری مدنظر رکھے تاکہ سُودی قرضہ اٹھانے کی نوبت نہ آئے جس سے سُود اصل سے بڑھ جاتا ہے۔ … پھر مصیبت یہ ہے کہ عدالتیں بھی ڈگری دے دیتی ہیں۔ مگر اس میں عدالتوں کا کیا گناہ۔ جب اس کا اقرار موجود ہے تو گویا اس کے یہ معنی ہیں کہ سود دینے پر راضی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ435-434 جدید ایڈیشن)
ہمارے ہاں جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ ایک بڑے طبقے میں غیر ضروری اخراجات کے لئے قرض لیا جاتا ہے، اس بات کی نشان دہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی ہے۔ مثلاً نکاح پر غیر ضروری خرچ ہے، شادی ولیمہ پر غیر ضروری خرچ ہے، جماعت کے ایک طبقے میں بھی دنیا دکھاوے کی وجہ سے غیر ضروری اخراجات ہوتے ہیں۔ جماعت میں جو شادی کے لئے امداد دی جاتی ہے اور ایک Reasonable قسم کی رقم دی جاتی ہے کہ سادگی سے شادی ہو سکے۔ مگر بعض لوگ اس طرح پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ ہمیں نکاح اور ولیمے کے لئے بھی اتنی اتنی رقم چاہئے۔ اگر امداد نہیں مل سکتی تو قرض دے دیا جائے جبکہ جانتے ہیں کہ ان میں قرض واپس کرنے کی طاقت نہیں ہوتی، وقت مقررہ پر ادا نہیں کر سکتے۔ پھردرخواستیں شروع ہو جاتی ہیں کہ اگر جماعت نہ دے تو ہم اِدھر اُدھر کہیں سے لیں گے اور جب لیتے ہیں تو پھر قرض کو اتارنے کے لئے مدد کی درخواستیں شروع ہو جاتی ہیں۔ تو یہ ایک سلسلہ ہے جب قرض بلا ضرورت لیا جاتا ہے تو اس کو یہ کہنا چاہئے کہ وہ ایک شیطانی چکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر گھروں کا سکون برباد ہوتا ہے۔ قرضوں کے بعد جو حالت ہوتی ہے اس سے طبیعتوں میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ میاں بیوی بچوں کے تعلقات خراب ہو رہے ہوتے ہیں۔ گھروں میں ظلم ہو رہے ہوتے ہیں تو ایک عارضی خوشی کی خاطروہ اپنے آپ کو مشکلات میں گرفتار کر لیتے ہیں چاہے بغیر سود کے ہی قرض لے کر کر رہے ہوں لیکن سود کا قرض لینا تو بالکل ہی لعنت ہے۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سؤر کھانے کی تو بھوک کی حالت میں، اضطرار کی حالت میں جب انسان بھوک سے مر رہا ہو، اجازت ہے لیکن سود کی تو بالکل اجازت نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو سود پر قرض لینے والوں کو بھی اس زمرہ میں رکھا ہے جو خدا سے جنگ کرتے ہیں اور سود پر قرض دینے والا تو کھڑا ہی خدا کے حکم کے خلاف ہے۔
بعض لوگ اپنا پیسہ، اپنی رقم معین منافع کی شرط کے ساتھ کسی کو دیتے ہیں کہ ہر ماہ یا چھ ماہ بعد یا سال بعد اتنا منافع مجھے ادا ہو گا۔ تو یہ بھی سود کی ایک قسم ہے۔ یہ تجارت نہیں ہے بلکہ تجارت کے نام پر دھوکہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سود کی جو تعریف فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ’’ ایک شخص اپنے فائدے کے لئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے‘‘۔ ایک اور جگہ فرمایا یا کسی کو رقم دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے، تو فائدہ مقرر کرنایا منافع مقرر کرنا سود کی شکل ہے۔ آپؑ نے فرمایا’’ یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلاوے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 160جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس اس تعریف کے لحاظ سے منافع رکھ کر یعنی پہلے سے منافع معین کرکے کسی کو قرض دینا یا رقم دینا یا تجارت میں لگانا، یہ سب چیزیں سود ہیں۔ نفع نقصان پہ جو آپ لگاتے ہیں جو اسلام کا حکم ہے وہ ٹھیک ہے، وہ جائز ہے، وہ تجارت ہے۔ تو ایسے لوگ جو تجارت اور سود کو ایک ہی طرح سمجھتے ہیں، قرآن نے ان کو سخت غلطی خوردہ بتایا ہے اور ایسے لوگوں کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے کہ اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ؕ وَ اَمۡرُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ (البقرۃ:276) کہ وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں وہ کھڑے نہیں ہوتے مگر ایسے جیسے وہ شخص کھڑا ہو جسے شیطان نے اپنے مس سے حواس باختہ کر دیا ہو۔ یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے کہا یقینا تجارت سود ہی کی طرح ہے جبکہ اللہ نے تجارت کو جائز اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ پس جس کے پاس اس کے ربّ کی طرف سے نصیحت آ جائے اور وہ باز آ جائے تو جو پہلے ہو چکا وہ اسی کا رہے گا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اور جو کوئی دوبارہ ایسا کرے تو یہی لوگ ہیں جو آگ والے ہیں۔ وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔ پس یہ نقشہ ہے سُود لینے والوں کا کہ مفت کی کمائی سے ان کے دل اتنے سخت ہو جاتے ہیں کہ د وسرے کے جذبات کا خیال نہیں رہتا۔ اگر ایک غریب کسان یا مزدور اپنی فصل خراب ہونے کی وجہ سے یا گھر کے بعض غیر معمولی اخراجات ہونے کی وجہ سے قرض واپس نہیں کر سکا تو ایسے شخص کو اس غریب کا کوئی خیال نہیں ہوتا جس کا سُود لینے پر دل سخت ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کو صرف اپنے پیسے سے غرض ہوتی ہے اور اگر نہیں ادا کر سکتے تو پھر اس رقم پرسُو د دَر سُود چلتا چلا جاتا ہے اور غریب پستا چلا جاتا ہے۔
پس قرآن کریم میں مسلمانوں کے لئے یہ جو حکم ہے کہ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ اسلام مواخات کے ذریعے سے، بھائی چارے کے ذریعہ سے امن اور سلامتی پھیلانا چاہتا ہے اور مواخات کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب غریب کا خیال رکھا جائے، اس پر بلاوجہ کا بوجھ نہ ڈالا جائے، بلکہ آسان شرائط پر اس کی ضرورت پوری کی جائے۔ بلکہ زیادہ مستحسن یہ ہے کہ ایسے لوگ جن کا پیسہ پڑا رہتا ہے وہ اپنے پیسے کو رکھنے کی بجائے لوگوں کے ساتھ جن میں کاروباری صلاحیت ہو، کاروبار میں لگائیں۔ بعض مسلمان ملکوں میں اب غیر سودی قرض کی سہولتیں دی جا رہی ہیں بلکہ یہاں بھی اسلامک بینکنگ(Islamic Banking) کے نام سے غیر سودی قرضے متعارف ہو رہے ہیں (گو ابھی اس کی ابتدا ہی ہے) اور ہمارے احمدی، احمد سلام صاحب، جو ڈاکٹر سلام صاحب کے بیٹے ہیں، انہوں نے بلا سودی بینکاری پر کافی کام کیا ہے۔ تو ان مغربی ممالک میں بھی ایسے احمدی جن میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ بنک کی شرائط پوری کرتے ہیں اور کاروبار بھی کرنا جانتے ہوں یا ان کے کچھ کاروبار ہوں توانہیں اپنے کاروبار اس طرح کے قرض لے کر بنانے اور بڑھانے چاہئیں۔ اس طرح جہاں وہ سود سے پاک کاروبار کریں گے وہاں اللہ تعالیٰ کی برکتوں کو سمیٹنے والے بھی ہوں گے اور اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے والے بھی ہوں گے۔ ان میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی استطاعت بھی بڑھے گی۔ اگر ایسا کاروبار ہو گا جس میں ملازمین رکھنے کی گنجائش ہے تو ملازمین رکھ کر چند بے روز گاروں کو روزگار بھی مہیا کر رہے ہوں گے۔ یہاں اب اس طرف کافی توجہ پیدا ہو رہی ہے، شاید یورپ اور اور جگہوں میں بھی ہو، اس لئے احمدیوں کو بھی اس طرف کوشش کرنی چاہئے۔
بہرحال متعلقہ جماعتوں کو اپنے اپنے ملکوں میں معلومات اکٹھی کرکے جماعت کے افراد کو بھی معلومات دینی چاہئیں تاکہ اپنے بھائیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے والے بن سکیں اور بعض گھروں میں معاشی بدحالی کی وجہ سے جو بے چینی ہے اس کو دور کرنے والے بن سکیں۔ میرے گزشتہ خطبے کے بعدبھی کئی لوگوں نے سود سے ڈر کر مجھے خط لکھے کہ ہم نے سود پر گھر لیاہوا ہے یا فلاں چیز سود پر ہے، جائز ہے یا نہیں ؟تو خداتعالیٰ نے سود کو ناجائز قرار دیا ہے اور یہی فرمایا ہے کہ جب تمہیں نصیحت آجائے تو اس پر عمل کرو اور ایک احمدی جوہر وقت قرآن کریم پڑھتا ہے اس کو توپتہ ہی ہے۔ بہرحال لوگوں نے اب بعض سوال اٹھائے ہیں۔ یہاں مکانوں کی مورگیج (Mortgage) ہے تو اس میں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ کچھ مالی نظام ایسا ہے جس میں ایسا زیرو زبر ہوا ہے کہ نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے عموماً جماعت اس بات کی اجازت دیتی ہے، پہلے خلفاء بھی دیتے رہے کہ مورگیج پر مکان لے لیا جائے۔ تو اس بارے میں مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر تو کم و بیش کرائے کی رقم کے برابر مکان کا مورگیج ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کچھ عرصہ بعد پھر قیمت بڑھتی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں، جن کو فکر ہوتی ہے وہ اپنے مکان بیچ کر دوسرے علاقے میں لے لیتے ہیں اور بنک کی رقم سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ یہاں اس شرط کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ رہائش کا مکان ہو تواس کے لئے اجازت ہے۔ کاروبار کے لئے یہ اجازت نہیں ہے۔ اس لئے جو وصیت کرنے والے ہیں ان کی وصیتوں پر بھی اسی نظریہ سے مورگیج کے مکان شامل کر لئے جاتے ہیں۔ بہرحال اگر بعض علمی لوگ تحقیق کرنے کا شوق رکھتے ہیں تواس بارے میں اگر ان کے سامنے کوئی اَورپہلو آ ئے تو مجھے بتائیں اور تحقیق کریں تاکہ اس بارے میں مزید پتہ لگ سکے۔
اسلام جیسا کہ مَیں نے کہا مؤاخات سے پُر معاشرے کے قیام اور ہر قسم کے جھگڑوں سے پاک معاشرے کے قیام اور صلح و صفائی اور سلامتی پھیلانے والے معاشرے کے قیام کے بارے میں توجہ دلاتا ہے۔ ایک تو ہم دیکھ آئے ہیں کہ سود کی بڑی سختی سے مناہی ہے اور اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ سودکی وجہ سے بعض جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ جب تم کسی کو قرض دیتے ہوتو اگر اس کے حالات بہتر نہیں ہیں تو اس کے حالات بہتر ہونے تک اسے مہلت دو۔ فرماتا ہے وَ اِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ۔ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(البقرۃ:281) اور کوئی تنگ دست ہو تو اسے آسائش تک مہلت دینی چاہئے اور اگر تم خیرات کر دو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔
پس سود کا تو سوال ہی نہیں ہے جو کسی قسم کے زائد مطالبات تم کر سکو۔ جو تم قرض دیتے ہو اس میں بھی قرض لینے والے کے معاشی حالات کا خیال رکھا کرو کیونکہ ایک د وسرے کا اس طرح خیال رکھنا آپس کی محبت اور پیار کو بڑھانے والا ہوتا ہے۔ فرمایا کہ مقروض کی تنگدستی کا ہمیشہ خیال رکھو اور اگر دینے والے کی اتنی کشائش ہے کہ مجبور شخص کا قرض معاف کیا جا سکے (اگراس کی حقیقی مجبوری ہے) تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ بھی کرو۔ تمہارا یہ فعل تمہیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو گا۔
یہاں مَیں ضمناً یہ بھی کہہ دوں کہ پہلے مَیں نے احمدی وکلاء کو بھی کہا تھا، بعض اسائلم (Asylum) کے کیس آتے ہیں تو احمدی وکلاء جو فیس چارج کرتے ہیں اس کو ذرا اتنی رکھا کریں کہ اس بیچارے شخص کو بالکل ہی مقروض نہ کر دیا کریں یا کم از کم یہ شرط ہو کہ اگر تمہارا کیس پاس ہو جاتا ہے تو اس کے بعد جب تمہیں کام مل جائے گا تو اس وقت معاہدے کے مطابق اتنی فیس دے دینا۔ لیکن بہرحال کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا، کسی جگہ بھی ہو، اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔
ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل سے حصہ لینا ہے تو اپنے مقروض بھائیوں سے شفقت سے پیش آؤ اور انہیں فائدہ پہنچاؤ اور یہ فائدہ ہی تمہیں پھر اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے والا بنائے گا۔ ایک مسلمان کو اور خاص طور پر ایک احمدی کو اس طرف نظر رکھنی چاہئے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالی لحاظ سے کسی پر فضلیت بخشی ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی شکر گزاری کا حقیقی طریق یہ ہے کہ مالی لحاظ سے کمزور بھائیوں کی مدد کی جائے۔ اگر سخت رویہ رکھو گے تو پھر یاد رکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ طاقتور ہے اور تمہارے سے بھی سختی کر سکتا ہے۔ پس اللہ کا خوف اور اس کا تقویٰ انتہائی اہم چیز ہے۔
ایک مسلمان جو کسی حکم پر عمل نہیں کرتااور ایک غیرمسلم جو کسی نیکی پر عمل نہیں کر رہاہوتا دونوں برابر ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کا موازنہ کرتے ہوئے اس طرح مثال دیتے ہیں کہ ایک غیر مسلم جو ہے وہ تو عاق شدہ بچے کی طر ح ہے جس کو ماں باپ نے عاق کر دیاہو۔ اگر وہ نافرمان ہو چکاہے اور باپ کی بات نہیں مانتاتو باپ نے اس سے تعلق توڑ لیا ہے۔ وہ جو بھی کرتا رہے اس کے باپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ایک مسلمان کی مثال ایک ایسے بچے کی طرح ہے جو فیملی ممبر ہے۔ اگر وہ کوئی حرکت کرتا ہے تو پھر اسے سزا بھی ملتی ہے۔ اگر غلط کام کرے گا تو اس مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس جہان میں بھی سزا مل سکتی ہے اور اگلے جہان میں بھی سزا مل سکتی ہے یا دونوں جگہ جس طرح اللہ چاہے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو یہ چھوٹ دی ہے کہ نافرمانیوں کے باوجود نہیں پکڑا تو یہ اس لئے ہے کہ اصلاح کرلو تاکہ سزا سے بچ سکو۔ اس بارہ میں جو حکم ہے کہ اپنے بھائیوں کا خیال رکھو تو چاہئے کہ اپنے بھائیوں کو تنگی میں مبتلا کرنے کی بجائے ان کے لئے آسانیاں پیدا کرو، ان کے لئے سہولت پیدا کرو تا کہ سلامتی پھیلانے کی وجہ سے غریب کی دعائیں لینے والے بنو، اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے بنو۔ اور مقروض کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مطلب نہیں کہ کسی نے قرض دے دیا تو پھر کہہ دیا کہ میرے پاس کشائش نہیں۔ اس کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب کسی معاہدے کا وقت مقرر کیا ہے تو اس معاہدے کو نبھانا ضروری ہے۔ پھر بہانے بنانے کی بجائے جس طرح بھی ہو قرض اتارنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر توفیق نہیں تو پھر سچائی پر قائم رہتے ہوئے ساری صورت حال سے اپنے قرض دینے والے کو آگاہ کرنا چاہئے، اس سے مہلت لینی چاہئے اور یہی چیزیں ہیں جو دونوں کو، قرض لینے والے کو بھی اور قرض دینے والے کو بھی آپس میں صلح و صفائی سے رہنے اور پیار میں بڑھانے والی ہوں گی۔ اگر ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کی کوشش کریں گے تو خاص طور پر جو مقروض ہے اُسے یہ خیال نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس لئے بخش دے گا کہ مَیں غریب ہوں۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ سچائی کو چھپانے والا جھوٹا ہے اور جھوٹا ہمیشہ خدا کے مقابلے پر کھڑا ہوتا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا ہے۔
اگر قرض دینے والا یہ سوچ کر کہ اگر مَیں مقروض کی جگہ ہوتا اور حالات خراب ہوتے توکیا مَیں نرمی کی توقع نہ رکھتا؟ مہلت کی توقع نہ رکھتا؟ اس طرح اپنے مقروض سے معاملہ کرے اور اسی طرح جو قرض لینے والا ہے اگر یہ سوچ کر کہ اگر مَیں قرض دینے والا ہوتا تو کیا مَیں دھوکہ دینے والے مقروض کو برداشت کر سکتا؟ اپنے قرض لینے والے سے اس طرح معاملہ کرے تو دونوں طرف کی یہ سوچیں پھر مثبت نتیجہ نکالنے والی ہوں گی اور اس طرف لے جائیں گی جہاں آپس میں تعلقات میں مزید بہتری پیدا ہوتی ہے اور اس طرح اس حدیث پر عمل کر رہے ہوں گے کہ حقیقی مسلمان کہلانے کے لئے ضروری ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہووہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرو۔ پس یہ ایک ایسا حکم ہے کہ اس پر عمل کرنے والا صلح پیار اور سلامتی کے علاوہ اور کچھ نہیں پھیلاتا۔
سود کے ضمن میں ہی ایک بات جو شاید مجھے بیان کر دینی چاہئے تھی لیکن بہرحال اب بیان کر دیتاہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَا تَاْکُلُوْا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (آل عمران:131)کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو سُود دَر سُود نہ کھایا کرو اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ اس پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ سُود کی مناہی تو نہیں لیکن سُود دَر سُود کی مناہی ہے۔ اب جیسا کہ ہم دیکھ آئے ہیں کہ اتنے واضح احکامات کے بعد یہ تفسیر، یہ تشریح توویسے ہی غلط ہے۔ اور یہ آیت پہلی آیات سے ٹکراتی نہیں ہے۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد بیان کرتا ہوں جس سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ کسی نے سر سید احمد خان کے حوالے سے اس بارہ میں بات کی تو آپؑ نے فرمایا: ’’یہ بات غلط ہے کہ سُود دَر سُود کی ممانعت کی گئی ہے اور سُود جائز رکھا ہے‘‘۔ یعنی سُود دَر سُود تو حرام ہے لیکن سُود جائز ہے۔ فرمایاکہ’’ شریعت کا ہرگزیہ منشاء نہیں ہے۔ یہ فقرے اسی قسم کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ گناہ درگناہ مت کرتے جاؤ۔ اس سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ گناہ ضرور کرو‘‘یا گناہ کرنے کی اجازت ہے۔ (البدرجلد 2 نمبر10مورخہ27؍مارچ1903ء صفحہ75)
پھر تجارت میں جن باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی قسم کا جھگڑا نہ ہو، فساد نہ ہو، رنجشیں نہ ہوں۔ ان سب چیزوں سے محفوظ رہنے کے لئے یا لین دین اور قرض کی شرائط کس طرح ہونی چاہئیں، اس بارہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کیا تعلیم دیتا ہے۔ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَایَنۡتُمۡ بِدَیۡنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکۡتُبُوۡہُ ؕ وَ لۡیَکۡتُبۡ بَّیۡنَکُمۡ کَاتِبٌۢ بِالۡعَدۡلِ ۪ وَ لَا یَاۡبَ کَاتِبٌ اَنۡ یَّکۡتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلۡیَکۡتُبۡ ۚ وَ لۡیُمۡلِلِ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ وَ لۡیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ وَ لَا یَبۡخَسۡ مِنۡہُ شَیۡئًا ؕ فَاِنۡ کَانَ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ سَفِیۡہًا اَوۡ ضَعِیۡفًا اَوۡ لَا یَسۡتَطِیۡعُ اَنۡ یُّمِلَّ ہُوَ فَلۡیُمۡلِلۡ وَلِیُّہٗ بِالۡعَدۡلِ ؕ وَ اسۡتَشۡہِدُوۡا شَہِیۡدَیۡنِ مِنۡ رِّجَالِکُمۡ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُوۡنَا رَجُلَیۡنِ فَرَجُلٌ وَّ امۡرَاَتٰنِ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ اِحۡدٰٮہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحۡدٰٮہُمَا الۡاُخۡرٰی ؕ وَ لَا یَاۡبَ الشُّہَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوۡا ؕ وَ لَا تَسۡـَٔمُوۡۤا اَنۡ تَکۡتُبُوۡہُ صَغِیۡرًا اَوۡ کَبِیۡرًا اِلٰۤی اَجَلِہٖ ؕ ذٰلِکُمۡ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ اَقۡوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَرۡتَابُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیۡرُوۡنَہَا بَیۡنَکُمۡ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَلَّا تَکۡتُبُوۡہَا ؕ وَ اَشۡہِدُوۡۤا اِذَا تَبَایَعۡتُمۡ ۪ وَ لَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّ لَا شَہِیۡدٌ ۬ؕ وَ اِنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاِنَّہٗ فُسُوۡقٌۢ بِکُمۡ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ (البقرۃ:283) یعنی اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو جب تم ایک معین مدت تک کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور چاہئے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا انصاف سے لکھے اور کوئی کاتب اس سے انکار نہ کرے کہ وہ لکھے۔ پس وہ لکھے جیسا اللہ نے اسے سکھایا ہے اور وہ لکھوائے جس کے ذمّہ (دوسرے کا) حق ہے اور اللہ اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرے اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے۔ پس اگر وہ جس کے ذمّہ (دوسرے کا) حق ہے، بیوقوف ہو یا کمزور ہو یا استطاعت نہ رکھتا ہو کہ وہ لکھوائے تو اس کا ولی (اس کی نمائندگی میں) انصاف سے لکھوائے اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ ٹھہرا لیا کرو۔ اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں (ایسے) گواہوں میں سے جن پر تم راضی ہو۔ (یہ) اس لئے (ہے) کہ اگر ان دو عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد کرا دے۔ اور جب گواہوں کو بلایا جائے تو انکار نہ کریں اور (لین دین) خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اس کی مقررہ میعاد تک(یعنی مکمل معاہدہ) لکھنے سے اکتاؤ نہیں، تمہارا یہ طرز عمل خدا کے نزدیک بہت منصفانہ ٹھہرے گا اور شہادت کو قائم کرنے کے لئے بہت مضبوط اقدام ہو گا اور اس بات کے زیادہ قریب ہو گا کہ تم شکوک میں مبتلا نہ ہو۔ (لکھنا فرض ہے) سوائے اس کے کہ وہ دست بدست تجارت ہو جسے تم (اسی وقت) آپس میں لیتے دیتے ہو۔ اس صورت میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اسے نہ لکھو اور جب تم کوئی (لمبی) خرید و فروخت کرو تو گواہ ٹھہرا لیا کرو اور لکھنے والے کو اور گواہ کو (کسی قسم کی کوئی) تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یقینا یہ تمہارے لئے بڑے گناہ کی بات ہو گی اور اللہ سے ڈرو جبکہ اللہ ہی تمہیں تعلیم دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔
یہ ایک انتہائی اہم حکم ہے۔ لین دین کی وجہ سے معاشرے میں جھگڑوں اور فسادوں کو دُور کرنے کا اسلام کا ہر حکم اس کے خدا کی طرف سے ہونے اور کامل اور مکمل دین ہونے کی دلیل ہے۔ اسی طرح اب یہ حکم بھی ہے کہ آپس کے لین دین کے معاملات کو لکھ لیا کرو۔ یہ حکم اس زمانے میں نازل ہوتا ہے جبکہ تحریر کا رواج ابھی اپنی ابتدائی حالت میں تھا، بلکہ انتہائی ابتدائی حالت میں تھا۔ اور عربوں کا تو اس طرف بہت کم رجحان تھا۔ آج ترقی یافتہ ملکوں کو یہ فخر ہے کہ ہم نے معاہدات کو محفوظ کرنے کے کتنے پکے طریقے بنا لئے ہیں۔ لیکن پھر بھی بڑے بڑے دھوکے ہو جاتے ہیں لیکن اس ایک آیت میں دو دفعہ یہ بیان کرکے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، ایک مومن کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارے یہ سارے دنیاوی معاملات بھی اُس وقت صحیح انجام کو پہنچ سکتے ہیں جب اللہ کا تقویٰ ہو۔ پھر اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے بات کی گئی ہے تو اس لئے کہ ایک مسلمان مومن کا ہر فعل اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوتا ہے اور ہونا چاہئے اور جو کام اس سوچ کے ساتھ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنا ہے، اس میں دھوکہ دہی کا پہلو نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم اس لئے دیا کہ لین دین کرتے وقت تو احساس نہیں ہوتا اور ایک دوسرے کے بعض اوقات بڑے قریبی تعلقات ہوتے ہیں اس لئے لین دین کر لیتے ہیں۔ بڑے اعتماد کی باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ بعد یہی اعتماد، بے اعتمادی میں بدل جاتا ہے۔ یہی محبت، نفرتوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور پھر بعض دفعہ مقدموں تک نوبت آ جاتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان تعلقات کو ہمیشہ محبت اور پیار کے دائرے میں رکھنے کے لئے فرمایا کہ قرض کی شرطیں، کاروباری معاہدوں کی شرطیں، لین دین کی شرطیں ہمیشہ تحریر میں لایا کرو۔ پہلی بات تو یہ کہ قرض کی مدت ہمیشہ مقرر کروتاکہ لینے والے کو بھی یہ احسا س رہے کہ مَیں نے فلاں عرصے کے اندر واپس کرنا ہے اور دینے والا بھی جس کو قرض دیا گیا ہے اس کو بار بار تنگ نہ کرے۔ بعض دفعہ اتنا تنگ کرتے ہیں کہ قرض لینے والا سمجھتا ہے کہ مَیں ایک تو قرض لے کر زیر بار ہوں اور مزید اس پہ پھراحسان ہوتا چلا جاتا ہے۔ تو فرمایا کہ اس کی تحریر لے لیا کرو اور تحریر میں مدت مقرر کرنی ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ لیتے وقت لینے والے کو یہ احساس رہے گا کہ جو مَیں لے رہا ہوں اس کو مقررہ مدت میں ادا بھی کر سکتا ہوں کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار جو تقویٰ کی شرط رکھی ہے تو اس شرط پر میں پورا اتر سکتا ہوں کہ نہیں۔ اس لئے پھر قرض لینے والا اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے گا۔ اس شرط سے ان لوگوں کی یہ دلیل بھی ردّ ہو جاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ سُود اس لئے مقرر کیا جاتا ہے اور ایک فائدہ اس کا یہ بھی ہے کہ سُود کے خوف کی وجہ سے جلد قرض دار قرض ادا کر سکے یا اس کی کوشش کرے۔ سُود کا تو اتنا خوف نہیں ہوتا جتنا ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ بیسیوں لوگ ہیں، کئیوں کو مَیں بھی جانتا ہوں، جوسود پر قرض لیتے ہیں اور پھر تمام زندگی قرض نہیں اتارتے، پھر قرض پہ قرض چڑھتا چلا جاتا ہے یا لڑائی اور جھگڑے اور فساد ہو جاتے ہیں اور یہ قرض پھر ان کی اگلی نسلیں بھی نہیں اتار سکتیں۔ اگر حکومتی مالیاتی اداروں سے قرض لیا ہے تو اگر کسی طرح بچنے کی کوشش کی اور نہیں بچ سکے تو جیسا کہ مَیں نے پچھلے خطبے میں ذکر کیا تھا، پھر ایسے قرض لینے والے کی کوئی چھوٹی موٹی جائیداد ہو تو اس کی نیلامی ہو جاتی ہے، وہ اس سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ تو یہاں پہلے بتادیاکہ اگر تقویٰ ہے تو پہلے سوچ لو کہ ادا بھی کر سکتے ہوکہ نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ وعدوں کی پابندی کی بڑی تلقین کرتا ہے۔ پھر فرمایا کہ تمہارے درمیان کوئی تیسرا شخص جو انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہو یہ معاہدہ لکھے تاکہ کسی فریق سے بے انصافی نہ ہو اور پھر تعلقات کو قائم رکھنے کے لئے فرمایا کہ بعض دفعہ لینے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ قرض دینے والے نے پتہ نہیں کیا شرائط رکھوا دی ہیں تو اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حق قرض لینے والے کو دیا ہے کہ کسی بھی قسم کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے تم اس معاہدے کی تحریر لکھواؤ تاکہ واپسی کی جومقررہ میعاد ہے اس میں کوئی جھگڑا کھڑا نہ کر سکو۔ اس حکم کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو، ذہن میں رکھو کہ ایک مسلمان ہو اور مسلمان ہمیشہ معاہدوں کا پابند ہو جاتا ہے۔ یہ سوچ کر معاہدہ نہ لکھواؤ کہ ابھی تو لے لو جب موقع ملے گا تو دیکھی جائے گی کہ واپس کرنا ہے کہ نہیں۔ نہیں بلکہ ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ کو جان دینی ہے اس لئے کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی جس سے معاشرے کا امن اور سکون برباد ہوتا ہو۔ اگر سمجھتے ہو کہ واپسی کی استطاعت نہیں رکھتے اور نہ متوقع آمد اس کی متحمل ہو سکتی ہے اور نہ جائیداد اس قرض کی متحمل ہو سکتی ہے تو پھر معاہدہ نہ کرو، پھر قرض نہ لو۔ تو مقروض کو پابند کرنے کے لئے فرمایا ہے کہ تمام امور پر غور کرکے پوری توجہ سے پھر تم معاہدہ لکھواؤ گے۔ اور جو شرائط ہیں، بعد میں پھر ان میں سے کم کرنے کی کوشش نہیں کر سکتے تو ہر موقع پر اللہ کا تقویٰ پیش نظر رکھو اور اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
پھر قرآن کریم نے معاشرے کے کسی طبقے کی ضرورت کا بھی امکان نہیں چھوڑا۔ فرمایا کہ بعض دفعہ بے وقوف یا کم علم والے اور ضرورت مند ہو سکتے ہیں۔ تو ایک پاک معاشرے کا فرض ہے کہ اگر ایسے حالات ہوں توکوئی صاحب عقل اور علم والا آدمی ان ضرورتمندوں کی نمائندگی کرے، ان کے لئے معاہدہ لکھوائے۔ ورنہ ہو سکتا ہے کم علم والا معاہدہ لکھواتے ہوئے بعض ایسی شرائط نہ لکھ سکے یا لکھوا سکے جو اس کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ اس لئے ولی کا فرض ہے کہ ملکی قانون کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی نمائندگی کرے۔ پھر فرمایاجب معاہدہ ہو جائے تو اس پر گواہ بنائے جائیں۔ پہلے دو مردوں کا ذکر ہے کہ ان کو گواہ بناؤ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن پر تم دونوں فریق راضی ہو۔ دو عورتیں گواہ رکھنے میں یہ حکمت ہو سکتی ہے کہ عموماً اس قسم کے کاروباری اور حسابی معاملات میں عورتیں کم دلچسپی رکھتی ہیں بلکہ یہاں ایک سوال اٹھا تو اسی بنا پر میں نے جائزہ لیاتو جو انفارمیشن (Information) مجھے ملی اس کے مطابق یہاں بھی براہ راست کاروبار میں یا فنانسز میں یا اکاؤنٹس میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت بہت کم ہے اور دلچسپی کم ہے۔ پھر اسلام عالمگیر مذہب ہے۔ بعض ممالک میں تو یہ دلچسپی بہت ہی کم ہے مثلاً پاکستان میں لے لیں، اس قسم کے تجارتی بکھیڑوں میں نہ عورتوں کی اکثریت کو دلچسپی ہے اور نہ اس میں پڑتی ہیں۔ تو دو کی تصدیق اگر ضرورت پڑے تو گواہی کو مضبوط کر دیتی ہے اور دو مرد بھی اس لئے ہیں کہ دونوں کی گواہی ایک دوسرے کو مضبوط کرتی ہے۔
پھر اگر معاہدے میں کوئی بدمزگی ہو جائے تو حکم یہ ہے کہ ان گواہان کو اگر کسی عدالت میں یا کہیں بھی گواہی کے لئے بلایا جائے تو پھر انکار نہیں کرنا۔ خوشی سے وہاں پیش ہوں اور حقیقت حال کے مطابق اپنا بیان دیں تاکہ فیصلہ کرکے معاشرے کا سکون قائم رکھا جا سکے۔
پھر فرمایا اگر دست بدست تجارت ہے، اگر خریدو فروخت براہ راست ہو رہی ہے تو ٹھیک ہے اس میں تحریر نہ لو۔ لیکن اس میں بھی بعض جھگڑا کرنے والے جھگڑوں کے بہانے تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ اس لئے ہمیشہ لینے والے کو اچھی طرح چھان پھٹک کرکے چیز لینی چاہئے تاکہ بعد میں کسی قسم کے جھگڑے نہ ہوں۔ لیکن اگر کاروبار کی صورت میں لمبے معاہدے ہو رہے ہیں تو پھر اسی طرح لکھنا ہے اور گواہ مقرر کرنا ہے جس طرح پہلے قرض کے معاملے میں ذکر ہو چکا ہے۔ لیکن یہاں بھی فرمایاکہ اللہ کا تقویٰ اختیا ر کرو اور دینے والا اور لینے والا دونوں ہمیشہ یہ مدنظر رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات انہیں ہمیشہ دیکھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر قرض اور لین دین کے معاملات کا ذکر ہے جس پر عمل کرکے محبت اور سلامتی کو پھیلایا بھی جا سکتا ہے اور اس کا قیام بھی کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور حکم مَیں یہاں بیان کر دیتا ہوں جس نے آج کل بھائی کو بھائی سے دور کر دیا ہے۔ چند سال پہلے جن میں مثالی محبت نظرآتی تھی اب بغض، کینے اور حسد نے ان کو ایک دوسرے کے لئے اندھا کر دیا ہے اور وہ حکم جس پر عمل نہ کرنے سے یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ یوں مناہی فرمائی ہے۔ فرمایا کہ وَلَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ:189) اور اپنے ہی اموال آپس میں جھوٹ فریب کے ذریعہ نہ کھایا کرو اور نہ تم انہیں حُکاّم کے سامنے اس غرض سے پیش کرو کہ تم گناہ کے ذریعہ لوگوں کے(یعنی قومی) اموال میں سے کچھ کھا سکو۔
تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔ دوسرے کے مال کھانے کے لئے قومی مال نہ کھاؤ۔ وہ بھی ایک وجہ ہے۔ پھر رشوت دے کر غلط فیصلے اپنے حق میں نہ کراؤ۔ ایک دوسرے کے مال پر نظر رکھنے سے، ایک دوسرے کی جائیداد پر نظر رکھنے سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔ کسی کی جائیداد کے بارے میں عدالت بے شک دوسرے کو حق بھی دلا دے لیکن اپنے اندر ہمیشہ ٹٹول کر دیکھنا چاہئے کہ کیا واقعی یہ میرا حق ہے؟ آنحضرتﷺ کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اس طرح تم آگ کا گولہ اپنے پیٹ میں ڈالتے ہو۔ اس وجہ سے جہاں دو گھروں میں نفرتیں پلتی ہیں، معاشرے میں فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے۔ ناجائز مال کھانے کی وجہ سے ایسے لوگ پھر اپنے گھر کی سلامتی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پس اس بات کی بڑی سختی سے پابندی کرنی چاہئے اور ہمیشہ اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ کسی بھی صورت میں اپنے آپ کو سلامتی سے محروم کرنے والے نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان چیزوں سے بچائے رکھے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے۔
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 6 تا 12 جولائی 2007ء ص 5تا 9)
سود کی مناہی اور معاشرے کے جھگڑوں اور فسادوں کو ختم کرنے اور سلامتی اور امن اور پیار اور صلح کو پھیلانے کے لئے مالی لین دین و تجارتی معاہدات اور قرض وغیرہ لینے اور دینے سے متعلق اسلامی تعلیم کا بیان
فرمودہ مورخہ 15 ؍جون 2007ء (15؍احسان 1386ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔