دفاعی جنگ کی اجازت دینے کی وجوہات اور اس سے متعلقہ احکام اور قواعد و ضوابط
خطبہ جمعہ 29؍ جون 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے اصلاح اور انصاف قائم کرنے کی، امن، صلح اور سلامتی کی تعلیم کا ذکر کیا تھا اور اس بارے میں قرآنی احکامات بیان کئے تھے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے ہی دنیا میں صلح اور سلامتی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے اور اس کی بنیاد تقویٰ پر منحصر ہے اور قرآن کریم میں تقویٰ پر قائم رہنے کا ایک مسلمان کو اس قدر تاکیدی حکم ہے اور بار بار حکم ہے کہ ایک مومن سے توقع ہی نہیں کی جا سکتی کہ وہ دنیا کی بدامنی میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے۔
اس بارہ میں قرآن کی تعلیم کا اس حوالے سے مَیں نے ذکر کیا تھا کہ کسی مسلمان کو نہ انفرادی طور پر، نہ حکومتی طورپر یہ زیبا ہے کہ کسی قوم سے دشمنی کی وجہ سے انصاف کے تقاضے پورے نہ کرے۔ اسلام ہر قوم سے صلح وآشتی کے تعلقات استوار کرنے کی، قائم کرنے کی تعلیم دیتا ہے، سوائے ان کے جو بر اہ راست جنگوں کو مسلمانوں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں آج مزید اسلامی قرآنی تعلیم کا ذکر کروں گا کہ کیوں اور کس حد تک جنگ کی اجازت ہے۔ اور اگر بعض صورتوں میں جنگ نہ کی جائے جس کی اسلام نے ابتدائی زمانہ میں اجازت دی تھی تو کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں اور کیا بھیانک نتائج اس کے نکلتے ہیں یا اُس وقت نکلنے کا امکان تھا۔ اس سے ثابت ہو گا کہ قتال کی اجازت دنیا کے امن و سلامتی کے لئے تھی نہ کہ دنیا میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کے لئے جیسا کہ آج کل اسلام مخالف پروپیگنڈا کرنے والے شور مچا رہے ہیں۔ اگر ان مخالفین کا، یا ان کے ہمنواؤں کا، یا ان کی حمایت میں کھڑے لوگوں کے اپنے مذہب اور ان کی حکومتوں کے عمل اور دنیا کے امن و امان کی اور سکون کی بربادی کی جو کوششیں یہ کر رہے ہیں ان کا ذکر شروع ہو تو ان کے لئے کوئی راہ فرار نہیں رہتی۔ لیکن ہمارا مقصد دلوں کے کینوں اور بغضوں اور حسدوں کو مزید ہوا دینا نہیں ہے اس لئے قرآنی تعلیم کے بارے میں یہاں ذکر کروں گا جس سے کہ مزید یہ کھلے گا کہ جنگوں یا قتال کی جو اجازت ملی تھی وہ کن بنیادوں پر تھی۔ اسی سے اسلام کی خوبصورت تعلیم مزید واضح ہوتی ہے۔ یہ ایسی تعلیم ہے کہ کسی بھی دوسرے مذہب کی تعلیم کے مقابلے میں بڑی شان اور خوبصورتی سے اپنا مقام ظاہر کرتی ہے، اس کے پاس کوئی دوسری تعلیم پھٹک بھی نہیں سکتی۔ پس اس بارے میں کسی بھی احمدی کو، کسی بھی معترض اسلام کا جواب دینے میں معذرت خواہانہ رویہ اپنانے یا اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن کریم کا ہر حکم حکمت سے پُر ہے جس کا مقصد حقوق اللہ اور حقوق العباد کا قیام ہے۔
آنحضرتﷺ کے زمانے میں اور خلفائے راشدین کے زمانے میں جو جنگیں لڑی گئیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی وجوہات بیان فرمائی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ اس کی تین وجوہات ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظتِ خود اختیاری، اپنی حفاظت اور دفاع کے لئے۔
دوسرے بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون جب مسلمانوں پر حملے کئے گئے تو دشمن کو سزا دینے کے لئے، ان سے جنگ کی گئی۔ اسلامی حکومت تھی، سزا کا اختیار تھا۔
نمبر تین بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے۔ ان لوگوں کی طاقت توڑنے کے لئے جو اس وقت اسلام لانے والوں پر ظلم توڑتے تھے اور ان کو محض اس لئے قتل کیا جاتا تھا، اس لئے تکلیفیں دی جاتی تھیں کہ تم مسلمان ہو گئے ہو۔ (مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 12)
اب ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ کی جو بھی صورت تھی ان صورتوں میں قرآنی تعلیم کیا ہے۔ اس تعلیم کو دیکھ کر ایک عام عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اُن حالات میں جن میں مسلمانوں کو قتال یا جنگ کی اجازت دی گئی تھی، اگر اجازت نہ دی جاتی تو دنیا کا امن تباہ و برباد ہو جاتا اور سلامتی ختم ہوجاتی۔ یہ اتنی خوبصورت تعلیم ہے کہ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا، دوسرے مذہب کی کوئی بھی تعلیم، نہ عیسائیت کی، نہ یہودیت کی نہ کسی اور مذہب کی اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ (الحج : 40) ان لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے، قتال کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
پھر فرمایا اَ لَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّا اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَااللّٰہُ۔ وَلَوْ لَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا۔ وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ (الحج : 41) کہ وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا، محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور اگراللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع، ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دئیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتاہے اور یقینا اللہ اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبے والا ہے۔
یعنی اس لئے اجازت دی جاتی ہے کہ نمبر1 یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا کیونکہ ان پر جو ظلم ہوئے تھے بلاوجہ جو قتل کیا جا رہا تھا، اس لئے ان کو اجازت دی جاتی ہے کہ اب تمہاری حکومت قائم ہو گئی ہے تو جب تمہارے پر حملہ ہو یا تمہیں کوئی قتل کرنے کے لئے آئے تولڑو اور بدلہ لو۔ یا حکومت قائم ہے تو سزا کے طور پر قاتل کو سزا دو۔
پھر فرمایا دوسری بات کہ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ یعنی ان کے گھروں سے ان کو بلاوجہ نکالا گیا۔ ان کا قصور کیا ہے؟ قصور یہ کہ وہ کہتے ہیں رَبُّنَااللّٰہُ کہ اللہ ہمارا رب ہے۔
پھراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی جو کہ مسلمانوں کو ایک لمبا عرصہ صبر کرنے اور ظلم سہنے اور ظلم میں پسنے کے بعد دی گئی تو دنیا میں ہر طرف ظلم و فساد نظر آتا۔
پس یہ اصولی حکم آ گیا کہ جب کوئی قوم دیر تک مسلسل دوسری قوم کے ظلموں کا تختہ مشق بنی رہے تو یہ اجازت دی جاتی ہے کہ جب اس کی حکومت قائم ہو تو اگر اس کے اختیارات ہیں تو وہ جنگ کرے۔ لیکن اس کا مقصد ظلم کا خاتمہ ہے نہ کہ ظلموں کے بدلے لینے کے لئے حد سے بڑھ جانے کا حکم۔ اس چیز کو بھی محدود کیا گیا ہے اس پُر حکمت ارشاد نے دوسرے مذاہب کے تحفظ کا بھی انتظام کروا دیا کہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو ہر مذہب کی عبادت گاہ ظالموں کے ہاتھوں تباہ و برباد کر دی جاتی جس سے نفرتیں اور بڑھتی ہیں اور سلامتی دنیا سے اٹھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ ہمیشہ سے ظالم کو ظلم سے روکنے کی اجازت ہے۔ پس اگر یہ اسلام کی حکومت پر الزام لگانے والے ہیں تو یہ انتہائی غلط الزام ہے۔ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو اس کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام مذہب کے معاملے میں کسی پر سختی نہیں کرتا، کہتا ہے اس معاملے میں کسی پر سختی نہیں۔ اپنے مذہب میں نہ کسی کو زبردستی شامل کیا، نہ کیا جا سکتا ہے، نہ اس کا حکم ہے۔ مذہب ہر ایک کے دل کا معاملہ ہے، اس لئے ہر ایک اپنی زندگی اس کے مطابق گزارنے کا حق رکھتا ہے۔ اس حکم میں مسلمانوں کو اس اہم امر کی طرف بھی توجہ دلا دی کہ جہاں تمہاری حکومت ہے، تمہیں اس بات سے باز رہنا چاہئے کہ د وسرے مذاہب کے راہب خانے، گرجے اور معابد ظلم سے گراؤ ورنہ پھر یہ ظلم ایک د وسرے پر ہوتا چلا جائے گا تمہاری مسجدیں بھی گرائی جائیں گی اور یوں فساد کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
بدقسمتی سے آج بعض مسلمان ملکوں میں بشمول پاکستان بھی، بعض مفاد پرست مُلّاں اسلام کے نام پر عیسائیوں کو بھی نوٹس دے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں میں اخباروں میں آ رہا تھا۔ چار سدّہ میں نوٹس دیا کہ مسلمان ہو جاؤ ورنہ قتل کر دئیے جاؤ گے یا تمہار اگرجا گرا دیاجائے گا۔ چند سال پہلے گرائے بھی گئے تھے۔ تو یہ چیز ہے جس نے اسلام کو بدنام کیا ہے اور مخالفین اسلام کو اسلام پر انگلی اٹھانے کا موقع دیا ہے۔ آج مسلمانوں کو ان وجوہات کی وجہ سے ہر جگہ جو سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ بھی اسی لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر فساد اور شر کو ختم کرنے کے لئے عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تمہارے شامل حال رہے گی۔
آج ہم دیکھتے ہیں بظاہر کہیں بھی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت مسلمان حکومتوں کے شامل حال نظر نہیں آ رہی، بہت ہی بری حالت میں ہیں۔ پھر احمدیوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں مسجدیں گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض جگہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمان بن رہے ہیں اور اسی وجہ سے برکت اٹھ رہی ہے۔ آج دیکھیں پاکستان کا حال کیا ہے، جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، تقریباً تمام ملکوں کا یہی حال ہے۔ پس اگر حکومت نے ان جاہل مولویوں کو اب بھی لگام نہ دی تو یہ جنگ اللہ کے خلاف ہے۔ جہاں تک احمدی کا سوال ہے، احمدی تو مسیح موعود کی تعلیم پر عمل کرنے کی وجہ سے سختی کا جواب سختی سے نہیں دیتے کیونکہ جس حکومت میں رہ رہے ہیں، اس کے قانون کی پابندی کی وجہ سے ٹھیک ہے ظلم سہہ لیتے ہیں، صبر کر رہے ہیں۔ اور یوں بھی اب مسیح موعود کے زمانے میں توپ و تفنگ کی جوظاہری جنگ ہے اس کی ممانعت ہے۔ احمدیوں نے تو اینٹ کا جواب اینٹ سے یا پتھر کا جواب پتھر سے نہیں دینا لیکن خداتعالیٰ ضرور اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدد کو آئے گا۔
ان اسلامی ملکوں کو جہاں جہاں بھی احمدیوں پر ظلم ہو رہا ہے یا احمدیوں کے خلاف قانون پاس کئے جاتے ہیں ہوش کرنی چاہئے کہ ان ظلموں کی انتہا کی وجہ سے یہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض سے بھڑا کرکیا جاتا ہے تو اس ناشکری کی وجہ سے یہ بات ان پر بھی پڑ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ صرف مسلمانوں کے لئے حکم ہے کہ اگر مسلمان مظلوم ہوں گے تو ان کو اجازت ہے کہ تلوار اٹھائیں یا یہ امن و سلامتی صرف مسلمانوں کے حقوق قائم کرنے کے لئے ہے بلکہ ہر مذہب والے کے لئے یہ حکم ہے۔ وہ بھی اگر مظلوم ہے تو اللہ تعالیٰ ان کا بھی انتظام کرے گا۔ اور احمدی جو نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ زمانے کے امام کو ماننے کی وجہ سے جو آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آیا آنحضرتﷺ کے حکموں پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے ہیں۔ جو کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کو سب سے زیادہ اپنے دلوں میں قائم کرنے والے اور اس کی روح کو جاننے والے ہیں اور سب سے زیادہ اس کلمے پر ایمان لانے والے ہیں، اُن پر ظلم کرکے، اُن کی مسجدوں کو گرا کر یہ لوگ خوداپنے آپ کواس حدیث کے نیچے لاتے ہیں جس میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو مسلمان دوسرے مسلمان پر حملہ کرتا ہے وہ مسلمان نہیں رہتا۔ اور مسلمان کی تعریف جیسا کہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں یہی ہے کہ وہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پر یقین رکھتا ہو اور اس کا اس پر ایمان ہو۔ پس مسیح موعود کی جماعت نے تو کسی پر بھی ہاتھ نہیں اٹھانا کیونکہ اس وقت ہم حکومتوں کے ماتحت تو ہیں لیکن حکومت ہمارے پاس نہیں ہے اور مسیح موعود کے زمانے میں جہاد کی اس لحاظ سے ویسے بھی ممانعت کر دی گئی ہے کہ سختی نہیں کرنی۔ ہم تو عام حالات میں بھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھاتے تو جو کلمہ گو ہیں، جو اپنے آپ کو آنحضرتﷺ کی طرف منسوب کرتے ہیں ان کے خلاف ہاتھ اٹھانے کا تو سوال ہی نہیں ہے۔ وہ جو مرضی کرتے رہیں ہماری طرف سے ان کے لئے سلامتی کا پیغام ہی ہے۔ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان ظلموں کو دُور کرنے کے راستے انشاء اللہ تعالیٰ خود کھولنے والا ہے۔ آج نہیں تو کل یہ رستے انشاء اللہ تعالیٰ کھلیں گے اور احمدی انشاء اللہ ہر جگہ آزادی کا سانس لے گا۔ لیکن ہمیں یہ بھی فکر رہتی ہے کہ اگر یہ حکومتیں اور ان کے شر پسند لوگ باز نہ آئے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر کے مطابق جن کو دفاع کے لئے بھیجتا ہے وہ کہیں اپنی حدوں سے آگے نہ بڑھ جائیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بہت سارے ایسے ہوں جو اسلامی تعلیم پر عمل کرنے والے نہیں ہیں۔ ان کے لئے تو کوئی زیادتی کی حدیں نہیں ہیں وہ پھر حدیں پھلانگتے چلے جاتے ہیں۔ پس ہمیں ان لوگوں کے لئے دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے۔ یہ پیغام جہاں مظلوم مسلمانوں کے لئے تسلی کا پیغام ہے وہاں مسلمان کہلا کر پھر ظلم سے باز نہ آنے والوں کے لئے خوف کا مقام بھی ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی حفاظت کی اس پیغام میں ضمانت دی ہے۔ مسلمان کہلا کر پھر اس پر عمل نہ کرنے والا خود اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آتا ہے۔ تو جو بھی مسلمان کہلانے والے ہیں ان کو اسلام کو بدنام کرنے کی بجائے اس بات سے فیض پانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اپنی حالتوں کو بدلتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حکموں کی زیادہ سے زیادہ تعمیل کریں، ورنہ اللہ تعالیٰ کی مدد کبھی بھی شامل حال نہیں ہو گی۔ اللہ کرے کہ مسلمانوں کو عقل آ جائے اور اس حکم کے تحت ہر مظلوم کا دفاع کرنے والے ہوں اور ہر ظالم کو ظلم سے روکنے والے بنیں کیونکہ مسلمانوں کی سلامتی بھی جیسا کہ مَیں نے کہا اسی سے وابستہ ہے۔
اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ اِنْ مَکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ۔ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ(الحج:42) جنہیں اگر ہم زمین میں تمکنت عطا کریں تو وہ نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بُری باتوں سے روکتے ہیں اور ہر بات کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
پس یہ ہے ان لوگوں کا کام جب ان کے پاس طاقت آ جاتی ہے۔ جب اللہ کی مدد سے وہ ظالموں پر غالب آجائیں، جب ان کی اپنی حکومت ہو، جہاں وہ اسلامی طریق کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں تو پھر اپنے جائزے لیں اور سوچیں کہ یہ سب کچھ جوملا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملا ہے۔ ہم نے اب ان لوگوں جیسا نہیں ہونا جن کا مقصد لوگوں کو ان کی آزادیوں سے محروم کرنا ہے بلکہ ایک اسلامی حکومت سے بلا امتیاز مذہب یا دوسری وابستگیوں کے ہر شہری کے لئے آزادیٔ رائے اور ضمیر کی توقع کی جاتی ہے۔ ہر ایک کے لئے ملکی سیاست میں آزادی سے شمولیت کی توقع کی جاتی ہے جہاں ہر ایک کے لئے بحیثیت شہری ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں اور یہ اسلامی حکومتوں کا کام ہے۔ اور اسلامی حکومت چلانے کے یہ اسلوب اس وقت آئیں گے اور شہریوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق تب ملے گی جب یہ بات ہر وقت پیش نظر ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مجھے ہر وقت دیکھ رہی ہے۔ میرا کسی کے بھی حقوق غصب کرنا، مجھے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا کیونکہ اس کی ہر چیز پر نظر ہے۔ پس ایک مسلمان کو یا مسلمان حکومت کو طاقت اور امن اور سلامتی مل جانے کے بعد حقیقی عبادت گزار بننا ہو گا۔ کیونکہ حقیقی عبادت گزار بنے بغیر، نمازوں کے قیام کے بغیر، اللہ کا خوف دلوں میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ اور حقیقی نمازیں وہ ہیں جو اللہ کے خوف اور تقویٰ سے ادا کی جاتی ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بہت سارے نمازی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ہلاکت بھیجی ہے۔ جن کی نمازیں منہ پر ماری جائیں گی۔ تو یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ہم وہ نمازیں ادا کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلنے والے لوگوں کی نمازیں ہیں۔ پھر مالی قربانی بھی کرنی ہو گی نہ یہ کہ ظلم کرتے ہوئے دوسروں کے مال کو غصب کر جائیں۔ پھر نیکیوں کی تلقین ہے بری باتوں سے روکنا ہے اور یہ اللہ کے تقویٰ کے بغیرنہیں ہو سکتا۔
پس ان سب باتوں کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ ایک اسلامی حکومت طاقت آنے کے بعد صرف اپنی طاقت کو غلط ذرائع سے بڑھانے میں مصروف نہ ہو جائے بلکہ بلا امتیاز مذہب و نسل ہر شہری کے حقوق کی حفاظت، غریبوں کو ان کا مقام دینا یہ اس کا کام ہے تاکہ معاشرے اور ملک میں امن او رسلامتی کی فضا پیدا ہو سکے۔ اور خاص طور پر ہر شہری کے اُس کے ضمیر کے مطابق مذہب اختیار کرنے اور اس کے مطابق عبادت کرنے اور اس کی عبادتگاہوں کی حفاظت کی ضمانت دینا یہ ایک اسلامی حکومت کا کام ہے۔ کیونکہ یہی چیز ہے جو امن اور سلامتی کی بھی ضمانت ہے۔
پس آج تمام اسلامی حکومتوں کا کام ہے کہ اسلام کی یہ حقیقی تصویر تمام دنیا کے سامنے پیش کریں۔ جماعت احمدیہ کے پاس تو حکومت نہیں ہے لیکن ہم دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو یہ توفیق دے کہ یہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے والے بنیں تاکہ آج اسلام پر ہر طرف سے جوحملے ہو رہے ہیں اور جو حملے دراصل اسلام کو نہ سمجھنے اور بعض مسلمانوں کے غلط رویّے اور غلط حرکات کی وجہ سے ہو رہے ہیں، ان کو دنیا کے ذہنوں سے نکالا جائے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنگ کی جو اجازت ہے اسلامی حکومت کو دی جاتی ہے، ان وجوہات کی وجہ سے جو پہلے بیان ہوئی ہیں۔ لیکن اجازت کے باوجود اس کی حدیں مقرر کی گئی ہیں، اس کے قواعد و ضوابط مقرر کئے گئے ہیں، کھلی چھٹی نہیں مل گئی۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اگردشمن ظلم کرتا ہے تو تم بھی یہ نہ ہو کہ ظلم کرنے والے بنو بلکہ جس حد تک ہو سکتا ہے، اپنی جنگ کو اس حد تک محدود رکھو کہ جہاں صرف ظلم رُک جائے۔ کسی قسم کی بھی زیادتی اسلامی حکومت کی طرف سے نہیں ہونی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (البقرۃ: 191)اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو۔ یقینا اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
پھر فرمایا وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ۔ فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ۔ کَذٰلِکَ جَزَآئُ الْکٰفِرِیْنَ (البقرۃ:192) اور (دوران قتال، جنگ کے دوران) انہیں قتل کرو، جہاں کہیں بھی تم انہیں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے تمہیں انہوں نے نکالا تھا اور فتنہ قتل سے زیادہ سنگین ہوتا ہے اور ان سے مسجد حرام کے پاس قتال نہ کرو یہاں تک کہ وہ تم سے وہاں قتال کریں۔ پس اگر وہ تم سے قتال کریں تو پھر تم ان کو قتل کرو، کافروں کی ایسی ہی جزا ہوتی ہے۔
پھر فرمایا فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (البقرۃ:193)پس اگر وہ باز آ جائیں تو یقینا اللہ تعالیٰ بہت مغفرت کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
پھر فرماتا ہے وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ۔ فَاِنِ انْتَھَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ (البقرۃ:194) اور ان سے قتال کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (اختیار کرنا) اللہ کی خاطر ہو جائے۔ پس اگر وہ باز آ جائیں تو (زیادتی کرنے والے) ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی۔
تو یہ ہے عدل و انصاف پر مبنی اسلام کی سلامتی کی تعلیم کہ جنگ کی اجازت صرف اس صورت میں ہے کہ جنگ صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہوا کوئی کام بھی ظلم پر مبنی نہیں ہو سکتا۔ پس اللہ کی خاطر جنگ کا مطلب ہے کہ اُن لوگوں سے لڑو جو اللہ کی عبادت سے روکتے ہیں، جو ظلم کرتے ہیں اور جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، ظلم و تعدّی میں حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ پس یہ لڑائی لڑنے کا اس کے علاوہ کوئی مقصد نہ ہو کہ یہ جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہی کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی جنگ ذاتی لالچوں، حرصوں اور اپنی حکومت کا رسوخ بڑھانے کے لئے ہے تو ایسی جنگ اسلام میں قطعاً منع ہے۔
اور پھر فرمایا یہ جنگ اس وقت جائز ہے جب دشمن تم پر حملے میں پہل کرے۔ پھر یہ بھی اجازت نہیں کہ جس قوم سے جنگ ہو رہی ہے اس کے ہرشخص سے تمہاری جنگ ہے بلکہ اگر اس طرح کرو گے تو زیادتی ہو گی اور زیادتی کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ تمہاری جنگ صرف فوجیوں سے ہونی چاہئے جو ہتھیار لے کر تمہارے سامنے آئیں۔ پھر فرمایا کہ جنگ کو محدود رکھو۔ یہ نہیں کہ دشمن کو سبق دینے کے لئے جنگ کے میدان وسیع کرتے چلے جاؤ۔ پھر عبادتگاہوں کے قریب بھی جنگ سے بھی منع کیا ہے۔ سوائے اس کے کہ دشمن مجبور کرے کجا یہ کہ ان عبادتگاہوں کو گرایا جائے۔ اس لئے آنحضرتﷺ اپنے لشکروں کو خاص طور پر ہمیشہ یہ ہدایت فرمایاکرتے تھے کہ معبدوں اور گرجوں کی حفاظت کرنی ہے، ان کو نہیں گرانا، ان کو نقصان نہیں پہنچانا۔ اور مسجد حرام کے ارد گرد تو جنگ کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جو امن اور سلامتی کے ساتھ تمام دنیا کے لوگوں کو ایک ہاتھ پر جمع کرکے امت واحدہ بنانے والا ہے۔ اس لئے اس کا تقدس تو ہرحال میں قائم رہنا چاہئے سوائے اس کے کہ دشمن مجبور کرے اور تم پر حملہ کرے تو پھرمجبوری ہے۔
اللہ تعالیٰ کا جنگ کی اجازت دینے کا مقصد دنیا کے فساد کو دُور کرنا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ جب فتنہ ختم ہو جائے یا دشمن جنگ سے باز آ جائے تو پھر ایک مسلمان سے کسی بھی قسم کی زیادتی سرزد نہیں ہونی چاہئے۔ جب مذہبی آزادی قائم ہو گی تو پھر سیاسی مقاصد کے لئے جنگوں کا کوئی جواز نہیں۔ پس یہ ہے اسلامی تعلیم۔ اگر اسلام کا مقصد صرف طاقت کے زور سے اسلام کو پھیلانا ہوتا تو یہ حکم نہ ہوتا کہ فَاِنِ انْتَھَوْا فَلَا عُدْوَانَ اگر وہ باز آ جائیں تو پھر ان پر کسی قسم کی گرفت نہیں ہے۔ پھر جنگوں کے بلاوجہ بہانے تلاش نہ کرو۔ ہر ایک کو اپنے مذہب کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا حق ہے۔ جنگ صرف اس وقت تک ہے جب وہ تمہارے سے جنگ کر رہے ہیں نہ اس لئے کہ ان کے مذہب کو بدلا جائے۔
پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ یَّنْتَھُوْا یُغْفَرْ لَھُمْ مَا قَدْ سَلَفَ وَاِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْا َوَّلِیْنَ(الانفال:39) جنہوں نے کفر کیا ان سے کہہ دے کہ وہ باز آ جائیں تو جو کچھ گزر چکا وہ انہیں معاف کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ (جرم کا) اعادہ کریں تو یقینا پہلوں کی سنّت گزر چکی ہے۔
پھر فرمایا وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ۔ فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(الانفال:40) اور تم ان سے قتال کرتے رہو یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین خالصتاً اللہ کے لئے ہو جائے۔ پس اگر وہ باز آ جائیں تو یقینا اللہ اس پر جو وہ عمل کرتے ہیں گہری نظر رکھنے والا ہے۔
پھر فرمایا وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَوْلٰکُمْ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ(الانفال:41) اور اگر وہ پیٹھ پھیر لیں تو جان لو کہ اللہ ہی تمہارا والی ہے۔ کیا ہی اچھا والی اور کیا ہی اچھا مدد کرنے والا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان آنحضرتﷺ کے ذریعہ کروایاکہ ہم یہ جنگ کوئی ظلم و تعدّی کی وجہ سے نہیں کر رہے بلکہ یہ تم ہو جنہوں نے ہمیں مکّہ میں بھی ظلم کا نشانہ بنایا، اب بھی تم ہم پہ جنگ ٹھونس رہے ہو۔ جنگ بدر کے بعد کفّار سے کہا جا رہا ہے، جو کہ مکّہ سے ہجرت کے تھوڑے عرصہ بعد ہی لڑی گئی تھی۔ ابھی تو ان تکلیفوں اور ظلموں اور زیادتیوں کی یادیں بھی تازہ تھیں جو کفار مکہ نے کیں۔ مسلمانوں کو جس طرح ظلم کا نشانہ بنایا گیا، خود آنحضرتﷺ کو جو دُکھ اور تکلیفیں دی گئیں ان کی یادیں بھی تازہ تھیں۔ تو بدر کی جنگ میں جب انہوں نے حملہ کیا تو کفّار کو شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے۔ ان کو اللہ تعالیٰ پر مدد کایقین بھی مزید مضبوط ہوا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کروایا کہ مسلمان کا دل بغض اور کینہ اور بدلہ لینے سے بہت بالاہے۔ ہر مسلمان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سلامتی کا چلتا پھرتا پیغام ہو۔ یہ اعلان اس لئے فرمایا کہ ہم تمہارے پر انے ظلم بھی معاف کرتے ہیں۔ تمہارا یہ جنگ ٹھونسنا بھی ہم معاف کرتے ہیں۔ ا گر تم ہم سے آئندہ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنا چاہو۔ یہ عہد کرو تو ہماری طرف سے بھی پابندی ہو گی۔ لیکن اگر باز نہیں آؤ گے تو پھر ہماری مجبوری ہے۔ جب بھی تم حملہ کرو گے، یا ہمارے ساتھیوں کو، دوسرے مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچاؤ گے تو تمہارے ظلم کو روکنے کی وجہ سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔ تو اللہ کے دین کی خاطر اور دنیا کے امن اور سلامتی کی خاطر ہمیں لڑنا پڑے گا تو لڑیں گے۔
یہ بھی اعتراض ہوتا ہے کہ فرمایا وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ یعنی اور دین خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جائے۔ اعتراض کرنے والے اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ تم جنگ کرتے چلے جاؤ اور اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلاتے چلے جاؤ یہاں تک کہ تمام دنیا پر اسلام پھیل جائے۔ تو یہ تو کم عقلی اور کم فہمی ہے اور اسلام پر الزام تراشی ہے۔ اگر سیاق و سباق کے ساتھ دیکھیں اور دوسری آیات کے ساتھ دیکھیں، جن میں سے چند کا مَیں نے ذکر بھی کر دیا ہے تو اس سے صاف مطلب بنتا ہے کہ کیونکہ ہر شخص کے دین کا معاملہ اپنے خدا کے ساتھ ہے اس لئے جس کا جودین ہے وہ اختیار کرے۔ اسلام کا پیغام پہنچانا تو ہر مسلمان کا فرض ہے لیکن اس کو زبردستی منوانا مسلمان کا کام نہیں ہے۔ یہ اللہ کا معاملہ ہے۔ ’’ اللہ کے لئے دین ہو جائے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی تم کام کرو وہ خالصتاً اللہ کے لئے کرو، نہ یہ کہ اسلام کو زبردستی ٹھونسو۔ اگر کوئی نہیں مانتا تو یہ اس کی مرضی ہے، ہر ایک کا عمل اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے پھر وہ جو چاہے گا سلوک کرے گا۔
آنحضرتﷺ کی ذات پر بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ آپؐ بھی نعوذ باللہ زبردستی لشکر کشی کیا کرتے تھے اور زبردستی مسلمان بناتے تھے اور اسی لئے یہ جنگیں لڑی گئیں۔ اور اس دلیل کے علاوہ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ آنحضرتﷺ جب بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھا کرتے تھے یا جب کوئی لشکر بھجواتے تھے یا جب کوئی غزوہ ہوتا تھا اَسْلِمْ تَسْلَم یا اَسْلِمُوْا تَسْلَمُوْا کا پیغام بھجواتے تھے یعنی اسلام قبول کر لو تو محفوظ رہو گے۔ اور اس کا نتیجہ نکالنے والے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ دھمکی ہے کہ اسلام قبول کر لو ورنہ پھر ہم طاقت کے زور سے منوائیں گے۔
پہلی بات تو یہ کہ آنحضرتﷺ خالصتاً تبلیغی نقطہ نظر سے یہ فرماتے تھے کہ اسلام کا پیغام ہی ہے جو سلامتی کا پیغام ہے اس لئے اس کی فرمانبرداری کرو اور اس کے سائے تلے آ جاؤ۔ یہ معترضین تو دنیا کی آنکھ سے دیکھتے ہیں یہ کم از کم اتنی عقل کرتے کہ بڑے بڑے بادشاہوں کو آنحضرتﷺ نے تبلیغی خطوط لکھے اور ایک ہی وقت میں خطوط لکھے اور بقول معترضین کے کہ یہ دھمکی آمیز الفاظ ہیں تو یہ خطوط ایک ہی وقت میں دنیا کی تمام بڑی بڑی حکومتوں کو، بادشاہوں کو لکھے جا رہے ہیں کہ اگر نہ مانو گے تو جنگ کے لئے تیارہو جاؤ۔ اگر ان کے مطابق اس کے معنے لئے جائیں تو کوئی بھی عام عقل کا انسان بھی اس قسم کی حرکت نہیں کر سکتا کہ تمام دنیا سے ایک وقت میں ٹکر لی جائے جبکہ خود اس وقت اسلام کی طاقت محدود تھی۔ ان کو کچھ تو عقل کرنی چاہئے، سوچناچاہئے۔ آنحضرتﷺ نے جو خداتعالیٰ کے نبی تھے اور اس کی ذات پر آپ کو مکمل یقین تھا آپؐ نے یہ پیغام دیا لیکن اس لئے دیا کہ آپؐ انسانی ہمدردی چاہتے تھے اور آپؐ کو یقین تھا کہ اس دین میں ہی اب امن و سلامتی ہے۔ یہی دین ہے جو امن اور سلامتی پھیلانے والا دین ہے اس لئے دنیا کو اسے تسلیم کرنا چاہئے۔ اور اس نیت سے انہوں نے یہ پیغام مختلف بادشاہوں کو بھجوائے۔ آنحضرتﷺ ، جن کو خداتعالیٰ نے اپنا آخری شرعی پیغام دے کر دنیا میں بھیجا سے زیادہ کوئی بھی اس یقین پر قائم نہیں ہو سکتا تھاکہ اب یہی پیغام ہے جو دنیا کی سلامتی کا ضامن ہے۔ پس اس لحاظ سے انہی الفاظ کے ساتھ آپؐ نے بادشاہوں کو بھی دعوت دی اور آپ اس ہمدردی کی وجہ سے ہر حد سے بڑھے ہوئے کو جو اسلام کو ختم کرنے کے درپے تھا جنگ شروع ہونے سے پہلے یہی پیغام بھیجا کرتے تھے کہ اسلام تو امن و سلامتی اور صلح کا پیغام ہے اب جبکہ تم ہم پر جنگ ٹھونس رہے ہو ہم اب بھی اس سے گریز کرتے ہوئے تمہیں یہ سلامتی کا پیغام دیتے ہیں کہ اگر تم اپنے مذہب پر قائم رہنا چاہتے ہو تو رہو۔ بیشک اپنے طریق کے مطابق عبادت کرو لیکن اسلام کے خلاف سازشیں کرنے اور مسلمانوں کو تنگ کرنے سے باز آ جاؤ۔ اور اب جبکہ تم نے ہم پہ جنگ ٹھونسی ہے اور اس کو ماننے کو تیار نہیں تو اب یہی ایک حل ہے کہ اگر تم جنگ ہارتے ہو تب بھی تمہیں فرمانبرداری اختیار کرنا پڑے گی او راگر جنگ کئے بغیر اسلام کی فرمانبرداری اور اطاعت میں آتے ہو تب بھی ٹھیک ہے، تمہارے سارے حقوق تمہیں دئیے جائیں گے۔ پس یہ الزام قطعاً غلط ہے کہ نعوذ باللہ کوئی دھمکی تھی بلکہ اس کو جس طرح بھی لیا جائے یہ اس حکم کی تعمیل تھی کہ جب تک دین خالصتاً اللہ کے لئے (نہ) ہو جائے امن قائم کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ہر ایک کو مذہبی آزادی دینی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آپ جنگوں میں کس طرح محکوم قوم کا خیال رکھا کرتے تھے اور اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک فرمایا کہ جنگ میں کوئی دھوکے بازی نہیں کرنی۔ آپ کے حملے بھی ہمیشہ دن کی روشنی میں ہوا کرتے تھے۔ حکم تھا کہ کسی بچے کو نہیں مارنا، کسی عورت کو نہیں مارنا، پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کو قتل نہیں کرنا، بوڑھوں کو نہیں مارنا بلکہ جو تلوار نہیں اٹھاتا اسے بھی کچھ نہیں کہنا چاہے وہ نوجوان ہو۔ پھر دشمن ملک کے اندر خوف اور دہشت پیدا نہیں کرنی۔ لشکر جنگ میں اپنا پڑاؤ ڈالیں تو ایسی جگہ ڈالیں جہاں لوگوں کو تکلیف نہ ہو اور فرمایا جو اس بات کی پابندی نہیں کرے گا اس کی لڑائی خدا کے لئے نہیں ہو گی بلکہ اپنے نفس کے لئے ہو گی اور جو لڑائیاں نفس کے لئے لڑی جاتی ہیں اس میں ظلم و تعدّی کے علاوہ کچھ نہیں ہوا کرتا۔ تو اس ظلم و تعدّی کو روکنے کے لئے ہی اور اس سلامتی کو پھیلانے کے لئے ہی حکم ہے کہ تمہارا ہر کام خدا کی خاطر ہونا چاہئے۔
پھر دیکھیں انسانی ہمدردی کی انتہا۔ آپ ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دشمن کے منہ پرزخم نہیں لگانا۔ کوشش کرنی ہے کہ دشمن کو کم از کم نقصان پہنچے۔ قیدیوں کے آرام کا خیال رکھنا ہے۔ غالباً جنگ بدر کے ایک قیدی نے بیان کیا کہ جس گھر میں وہ قید تھا اس گھر والے خود کھجور پر گزارا کرتے تھے اور مجھے روٹی دیا کرتے تھے اور اگر کسی بچے کے ہاتھ میں بھی روٹی آ جاتی تھی تو مجھے پیش کر دیتے تھے۔ اس نے ذکر کیاکہ مَیں بعض دفعہ شرمندہ ہوتاتھا اور واپس کرتا تھا لیکن تب بھی (کیونکہ یہ حکم تھا، اسلام کی تعلیم تھی) وہ باصرار روٹی مجھے واپس کر دیا کرتے تھے کہ نہیں تم کھاؤ۔ تو بچوں تک کا یہ حال تھا۔ یہ تھی وہ سلامتی کی تعلیم، امن کی تعلیم، ایک دوسرے سے پیار کی تعلیم، دوسروں کے حقوق کی تعلیم جوآنحضرتﷺ نے اپنی امت میں قائم کی۔ اور بچہ بچہ جانتاتھا کہ اسلام امن و سلامتی کے علاوہ کچھ نہیں۔ پھر کسی بھی قوم سے اچھے تعلقات کے لئے اس کے سفیروں سے حسن سلوک انتہائی ضروری ہے۔ آپؐ کا حکم تھا کہ غیر ملکی سفیروں سے خاص سلوک کرنا ہے۔ ان کا ادب اور احترام کرنا ہے اگر غلطی بھی ہو جائے تو صرف نظر کرنی ہے، چشم پوشی کرنی ہے۔ پھر اس امن قائم کرنے کے لئے فرمایاکہ اگر جنگی قیدیوں کے ساتھ کوئی مسلمان زیادتی کا مرتکب ہو تو اس قیدی کو بلامعاوضہ آزاد کر دو۔ تو یہ احکام ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام کی جنگیں برائے جنگ نہ تھیں بلکہ اسلام کے لئے، اللہ تعالیٰ کے لئے تھیں۔ آزادی ضمیر و مذہب کے قیام کے لئے تھیں اور دنیا کو امن و سلامتی دینے کے لئے تھیں۔ پھر قیدیوں سے حسن سلوک کے بارے میں قرآنی تعلیم ہے کہ اگر کسی قیدی کو یا غلام کو فدیہ دے کر چھڑانے والا کوئی نہ ہو اور وہ خود بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو فرمایا وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا وَّاٰتُوْھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْ اٰتٰکُمْ(النور:34) یعنی تمہارے غلاموں یا جنگی قیدیوں میں سے جو تمہیں معاوضہ دینے کا تحریری معاہدہ کرنا چاہیں تو اگر تم ان میں صلاحیت پاؤ کہ ان میں یہ صلاحیت ہے، ان کو کوئی ہنر آتا ہے کہ وہ اس معاہدے کے تحت کوئی کام کرکے اپنی روزی کما سکتے ہیں تو تحریری معاہدہ کر لو اور ان کو آزاد کر دو اور وہ مال جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اس سے بھی کچھ انہیں دو۔ یہ جو جنگوں کا خرچ ہے کیونکہ اس وقت انفرادی طور پر پورا کیا جاتا تھا تو جس مالک کے پاس وہ غلام ہے وہ اس کا کچھ خرچ برداشت کرے یا وہ نہیں کرتا تو مسلمان اکٹھے ہو کر اس کے لئے سامان کر دیں اس طرح اس کو آزادی مل جائے یا لکھ کر آزادی مل جائے یا اگر اس کا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے تو جو تھوڑی بہت کمی رہ گئی اپنے پاس سے پوری کر دوتاکہ وہ آزادی سے روزی کما سکے اور اس طرح معاشرے کا آزاد شہری بنتے ہوئے ملکی ترقی میں بھی شامل ہو سکے کیونکہ اس کا ہنرا س کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ ملک کے بھی کام آ رہاہو گا۔
تو یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم جو ہر پہلو سے ہر طبقے پر سلامتی بکھیرنے والی ہے۔ ہر ایک کو آزادی دلوانے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ کی اس خوبصورت تعلیم کے جو مختلف پہلو ہیں (جو مختلف خطبات میں بیان کئے ہیں) ان کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے اسلام کی روشن اور حسین تعلیم سے دنیا کو روشناس کروائیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:
اس وقت ایک افسوسناک اعلان کروں گا۔ ڈنمارک کے ہمارے ایک مخلص فدائی احمدی مکرم عبدالسلام میڈسن صاحب 25 جون کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کے والد عیسائی پادری تھے۔ خود بھی یونیورسٹی میں کرسچیئن تھیالوجی (Christian Theology) کی تعلیم حاصل کر رہے تھے، عیسائیت کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انہوں نے بھی پادری بننا تھا۔ لیکن قرآن کریم کے مطالعہ کے بعد اچانک ان کی زندگی میں انقلاب آیا اور 1955ء میں جب آپ یونیورسٹی کے فائنل امتحان کی تیاری کر رہے تھے آپ نے عیسائیت کو ترک کیا اور اسلام قبول کیا۔ جس کے بعد پھر 1956ء میں ہمارے مبلغ کمال یوسف صاحب سے رابطہ ہوا جو ان دنوں میں سویڈن میں تھے، ان کے ذریعہ پھر پوری تحقیق کرکے 1958ء میں خلافت ثانیہ میں آپ نے بیعت کی اور جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔ پھر 1958ء میں ہی آپ نے وصیت کی توفیق پائی اور اس طرح یہ سکینڈے نیوین ممالک میں پہلے موصی تھے اور 1961ء میں اپنی زندگی وقف کرنے کی درخواست بھیجی اور 15نومبر 1962ء کو آپ کا تقرر بطور اعزازی مبلغ ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آخر وقت تک اس پر قائم رہے۔ ڈینش کے علاوہ انگلش، جرمن اور عربی زبان پر بھی ان کو عبور تھا اور قرآن کریم کا ڈینش ترجمہ بھی انہوں نے کیا جو پہلی بار 1967ء میں شائع ہوا۔ قرآن کریم کے ترجمہ کے علاوہ بھی انہوں نے جماعت کا کافی لٹریچر پیدا کیا۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ ان کی بہت ساری خدمات ہیں۔ کچھ عرصہ سے ان کو کینسر تھا جس کی وجہ سے بیمار تھے۔ مجھے سلام اور دعا کے لئے پیغام بھی بھجواتے رہتے تھے۔ ہر خلافت سے ان کا ہمیشہ تعلق رہا۔ ان کی اہلیہ بھی 1960ء میں بیعت کرکے احمدیت میں شامل ہوئی تھیں۔ اہلیہ اور بیٹا ان کی یادگار ہیں۔
دوسرے مکرم استاذ صالح جابی صاحب جو سینیگال کے ہیں یہ یکم مئی کو 68 سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ سینیگال کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے اور بڑے اچھے داعی الی اللہ تھے تبلیغ میں مصروف رہتے تھے۔ آپ علاقے کے معروف عربی استاد اور عالم تھے اور آپ کے گاؤں اور نزدیک کے دوسرے دیہات سے لوگ علم حاصل کرنے کے لئے آپ کے پاس آتے رہتے تھے۔ 1985ء سے انہوں نے بطور معلم جماعت کو اپنی خدمات پیش کیں اور اس عہد کو وفات تک نبھایا۔
اللہ تعالیٰ ہر دو بزرگوں کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ابھی جمعہ کی نماز کے بعد ان دونوں کی نمازجنازہ غائب پڑھوں گا۔ انشاء اللہ
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 20 تا 26 جولائی2007ء ص 5 تا 9)
قران مجید اور احادیث نبویہ کی روشنی میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دینے کی وجوہات اور اس سے متعلقہ احکام اور قواعد و ضوابط، ڈنمارک کے مخلص احمدی مکرم عبدالسلام میڈسن صاحب اور مکرم استاذ صالح جابی صاحب سینیگال کی وفات اور ان کی خدمات کا تذکرہ
فرمودہ مورخہ 29 ؍ جون2007ء (29؍احسان 1386ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔