جلسہ کی کامیابی پر خدا تعالیٰ کا شکر
خطبہ جمعہ 3؍ اگست 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد، تعوذ و سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر اور احسان ہے کہ گزشتہ اتوار UK کا اکتالیسواں جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اختتام کو پہنچا تھا۔ یہ جلسہ سالانہ نمائندگی کے لحاظ سے اب عالمگیر جلسہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں کہا تھا کہ جب تک خلیفۂ وقت کی یہاں موجودگی رہے گی اس کی بین الاقوامی حیثیت رہے گی اور اس لحاظ سے جماعت UK کی ذمہ داریاں بھی جلسہ پر زیادہ بڑھ گئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا ہر فرد مرد، عورت، بچہ جوان اس ذمہ داری کوخوب سمجھتا اور نبھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کارکنان کو جزا دے جو کسی بھی طرح ان مہمانوں کی خدمت بجا لا رہے تھے اور اب تک یہ خدمت بجا لا رہے ہیں۔ اس دفعہ جیسا کہ تمام شاملین جلسہ نے دیکھا کہ جلسہ سے کئی ہفتے پہلے بھی اور جلسہ کے دوران بھی غیر معمولی بارشوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بلکہ اس موسم کے ناموافق حالات کو دنیامیں ہر احمدی نے جو بھی اس جلسہ کے پروگرام کو سن رہا تھا ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دیکھا۔ جہاں اس جلسے میں موسم کی و جہ سے جلسے کے انتظامات کو چلانے میں بعض دقتیں پیش آئیں وہاں وہ لوگ جو جلسہ میں شامل ہوئے انہیں بعض مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا خاص طور پر کاروں کی پارکنگ کا نظام درہم برہم ہونے کی و جہ سے بہت دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
لیکن اس کے باوجود اکثریت نے بلکہ چند ایک کے سوا تمام شاملین نے انتظامیہ سے کوئی شکوہ یاشکایت نہیں کی اور تمام مہمانوں نے عموماً حوصلہ ہی دکھایا، تاہم بعض شامل ہونے والوں کی طرف سے بے صبری کے مظاہرے میرے علم میں آئے ہیں جن سے انہوں نے بعض نومبائعین اور غیروں پر اچھا اثر نہیں چھوڑا۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کی مثال ایک سفید چادر سے دی جا سکتی ہے اور اس سفید چادر پر ایک ہلکا سا نشان یا قطرہ بھی اگر کسی دوسرے رنگ کا ہو گا تو وہ بہت نمایاں ہو کر سامنے آئے گا اور آتا ہے۔ اس لئے اپنے اعلیٰ نمونے دکھانے کی طرف ایک احمدی کو بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ ایک احمدی کا صبر اور وسعت حوصلہ ایک خصوصی امتیاز ہے اور ہونا چاہئے اس کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ میری حیثیت ایک احمدی کی حیثیت ہے۔ اگر کوئی کہیں چند بے صبرے مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ڈیوٹی والا کوئی وہاں موجود نہ ہو تو اس موقع پر باقی احمدیوں کو ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ جس مقصد کے لئے تم یہاں آئے ہو وہ تو اس رویہ کی اجازت نہیں دیتا۔ بہرحال اگر یہ صحیح ہے کہ بعض بے صبری کے مظاہرے ہوئے تو ایسے اظہار کرنے والوں کو بہت استغفار کرنا چاہئے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا عموماً لوگ حقیقت کو سمجھتے رہے اور انتظامیہ سے متعلق زیادہ شکوے شکایت پیدا نہیں ہوئے اور انہوں نے انتظامیہ سے تعاون کیا۔ اللہ تعالیٰ ان سب بلند حوصلگی کا مظاہرہ کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو جزا دے۔ مجھے پتہ ہے کہ بعض جگہ بڑی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں۔ بہرحال اس موسم نے ایک بہت بڑا فائدہ انتظامیہ کو یہ پہنچایا کہ بعض حالات میں یا ایسی موسمی شدت کی صورتحال میں جو مسائل پیدا ہوسکتے تھے ان کی طرف انتظامیہ کو توجہ دلا دی کیونکہ اسلام آباد میں پہلے جلسے ہوتے تھے، وہاں جلسے ہونے کی وجہ سے سوائے ابتدائی چند ایک جلسوں کے جن میں کچھ نہ کچھ دقّت پیدا ہوئی عموماً بڑے آرام سے جلسے ہوجایا کرتے تھے۔ موسم میں بھی اتنی شدت نہیں ہوتی تھی دوسرے ایک لمبا عرصہ کاروں اور لوگوں کے چلنے کی و جہ سے وہاں کی زمین بھی کافی حد تک بیٹھ گئی تھی، نرم نہیں تھی اور پکی سڑکیں بھی قریب تھیں۔ ہمسائیوں سے پارکنگ کے لئے اچھی اور پکی جگہ مل جاتی تھی۔ پھر رشمور میں 2005ء میں جلسہ ہوا تو وہاں بھی کیونکہ حکومت کے محکمہ کی جگہ تھی اور بڑے فنکشنز کرنے کے لئے ہی انہوں نے وہ جگہ بنائی ہوتی تھی بلکہ بنائی ہوئی ہے۔ پھر بارش بھی صرف ان دنوں میں ہوئی لیکن جلسے کے دنوں میں نہیں ہوئی۔ اس سال کی طرح کئی ہفتے سے لگاتار بارشیں نہیں ہو رہی تھیں۔ تو ان باتوں نے انتظامیہ کو لگتا ہے یہ احساس ہی کبھی نہیں ہونے دیا کہ اگر موسم کے خراب ترین حالات ہو جائیں تو کیا کرنا ہے اور کیاکرنا چاہئے۔ بہرحال اس سال کا یہ تجربہ کروا کر اللہ تعالیٰ نے بہت سے انتظامی امور کی طرف انتظامیہ کو بھی توجہ دلا دی ہے۔ اس سال جو افسران انتظامیہ کے تھے، بشمول امیر صاحب جس طرح تین چار دن جلسے کے دنوں میں ان لوگوں کے رنگ اڑے رہے ہیں وہ واقعی ان کے لئے بھی بڑی پریشانی تھی۔ مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ یہ بہتر پلاننگ کریں گے۔ بہرحال اللہ کی طرف سے جو بھی امتحان ہوتا ہے وہ کام میں بہتری کی راہیں کھولتا ہے اور جو جو کمزوریاں ہمارے سامنے آتی ہیں ان کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اصلاح ہوتی ہے اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اب بھی اصلاح ہو گی اور نہ صرف ان امور کی اصلاح ہو گی بلکہ مزید گہرائی میں جا کر غور کرنے سے بعض ایسے امور کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی جن کے پیدا ہونے کے بہت دُور کے امکانات ہیں۔ بہرحال اکثر لوگوں کی یہ بات صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے 2008ء کے جلسے کے انتظامات ہر لحاظ سے بہترین کرنے کی طرف اس سال توجہ دلا دی ہے۔ تو آئندہ سال لوگوں کی حاضری بھی شاید جو یہاں سب سے زیادہ حاضری کبھی ہوتی ہے اس سے شاید چار پانچ ہزار زیادہ ہی ہو۔ بعض کا خیال ہے اگر برٹش ایمبیسی نے ویزے دینے میں کھلے دل کا مظاہرہ کیا تو شاید اس سے بھی زیادہ حاضری ہوجائے۔ جو عموماً حاضری ہوتی ہے اس سے 10-8ہزار زیادہ ہو جائے تو بہرحال جتنی بھی حاضری ہوUK کی جماعت مہمانوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سنبھال سکتی ہے۔ لیکن بعض کمزوریوں کے ظاہر ہونے سے مجھے امید ہے کہ اب سب کام کرنے والوں پر اتنا اثر ہو گا کہ زیادہ بہتر طور پر سنبھال سکیں گے اور انتظامات کا معیار بھی پہلے سے اچھا ہو گا۔
اس سال موسم کی حالت کو دیکھتے ہوئے اور حدیقۃ المہدی میں بارشوں کی و جہ سے زمین کی حالت کے مدنظر کاروں اور ویگنوں کی پارکنگ کے لئے متبادل انتظام کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ایک ادارے کی پارکنگ بھی حاصل کی گئی تھی جو حدیقۃ المہدی سے دو تین میل کے فاصلے پر ہے۔ لیکن ایک غلطی ہوئی کہ یہ فیصلہ ہوا کہ کاروں میں آنے والے اپنی سواریاں حدیقۃ المہدی میں اتارتے جائیں اور پھرپارکنگ کی جگہ ڈرائیورز کاریں لے جائیں اور ڈرائیورز کو پھر وہاں سے بسوں کے ذریعہ لایا جائے۔ تو اس وجہ سے سواریاں اتارتے ہوئے اتنا وقت لگ جاتا تھا کہ لمبی قطار اس علاقے کی سرکاری سڑک پر بھی لگنی شروع ہو گئی اور اس سے پولیس والے گھبرا گئے کہ علاقے کی سڑکیں بلاک ہونی شروع ہو گئی ہیں، حالانکہ یہاں فٹ بال کے میچ ہوتے ہیں اور دوسرے فنکشنز ہوتے ہیں تو سڑکیں بلاک ہو جاتی ہیں لیکن یہاں چونکہ مسلمانوں کا سوال تھا اس لئے انہوں نے کچھ زیادہ ہی گھبراہٹ دکھائی۔ قریب کے جو چھوٹے دوقصبے تھے ان کے گھروں کے سامنے بھی کاروں کی لائنیں لگنی شروع ہو گئیں اور عارضی طور پر ذرا زیادہ کاریں کھڑی ہوئیں تو گھر والوں میں بھی بے چینی پیدا ہو ئی۔ بہرحال یہ طریق اتنا کامیاب نہ ہوا اور پھر رات کو واپسی کے وقت بھی کاروں کی سواریوں کو واپس پارکنگ تک بسوں کے ذریعہ سے لے جایا گیا تو پھر کچھ تھوڑی دیر کے لئے بدمزگی ہوئی۔ بہرحال عمومی طور پر لوگ آرام سے سوار ہوئے۔ چند ایک ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مسائل کھڑے کرنے والے ہوتے ہیں، چاہے تھوڑی دیر کے لئے ہو کچھ بدمزگی ہو جاتی ہے اور اس بدمزگی کی و جہ سے جانے والے مسافر عورتیں، بچے مرد بھی کچھ گھبرا گئے اور انتظامیہ بھی تھوڑی سی گھبرا گئی۔ اس لئے وہ وقتی معمولی پریشانی بہت زیادہ نظر آنے لگی اور ہر ایک نے اپنی اپنی ایک کہانی بنا لی۔ دن کے وقت پولیس کے رویہ سے بھی کچھ پریشانی تھی۔
تو بہرحال انتظامیہ کو میرے خیال میں اب پتہ لگ گیا ہے کہ اتنی قریب پارکنگ شاید مناسب نہیں یا پھر گاڑیاں سیدھی پارکنگ میں جائیں۔ جہاں انتظار گاہ ہوتی، کوئی شیڈ ہوتا، چائے وغیرہ کا انتظام ہوتا، غسل خانے کا انتظام ہوتا، عورتوں بچوں نے جانا ہوتا ہے اور وہاں سے پھر بسوں کے ذریعہ سے تمام لوگ جلسہ گاہ لائے جاتے۔ بہرحال یہ تجربہ اتنا کامیاب نہیں ہوا اور پھر کیونکہ فوری طور پرہنگامی نوعیت کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس لئے معاونین اور منتظمین کی بھی اس پارکنگ کی جگہ پر کمی رہی۔ یہ جگہ ایم او ڈی (MOD) کی جگہ کہلاتی ہے جو بہتر ثابت نہیں ہوئی۔ پھر اگلے دن وہاں سے پارکنگ چھوڑنی پڑی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ گھروں کے سامنے کاریں زیادہ عرصہ کھڑی ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں نے ان میں سے سڑکوں پر ہی پارکنگ کر لی اور پھر مسافروں کو لاتے لے جاتے وقت تھوڑی سی بدمزگی بھی ہوئی جو جلد بازوں کی وجہ سے ہوئی اس لئے ڈسپلن بھی خراب ہوا راستے بھی رُکے۔
ہمیشہ ہر ایک کو سوچنا چاہئے کہ ایک احمدی کے ساتھ احمدیت کے نام کا جو اعزاز لگا ہوا ہے اس کے بعد فرد جماعت کی حیثیت کوئی ذاتی نہیں ہے اور خاص طور پر جماعتی فنکشنز میں۔ بلکہ کسی بھی احمدی کی کسی بھی حرکت کا اثر جماعت پر ہوتا ہے، کوئی بھی حرکت اگر ہو تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ فلاں شخص نے یہ حرکت کی بلکہ غیروں کی اگر نظر ہو تو یہ کہا جاتا ہے کہ احمدی نے یوں کیا، یا جماعت کے افراد نے یوں کیا۔ اس لئے اس بات کا ہر احمدی کو ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے اور جیسا کہ دوسرے دن کے تجربہ سے پتہ چلا کہ شروع میں ہی پارکنگ کا انتظام اسلام آباد میں اور لندن والوں کے لئے بیت الفتوح اور مسجد فضل کے قریب جو لوگ رہتے ہیں، بیت الفتوح میں ہونا چاہئے تھا۔ اسی طرح بعض اور جگہیں بھی مقرر کی جا سکتی تھیں جہاں سے زیادہ تعداد میں بسیں چلائی جا سکیں۔ اسی طرح حدیقۃ المہدی میں ابھی سے اگلے سال کی پلاننگ ہونی چاہئے۔ اس سال بھی کچھ کاروں کی پارکنگ حدیقۃ المہدی میں کی گئی لیکن کیچڑ کی و جہ سے بہت سی کاروں کو بہت مشکل سے نکالا گیا۔ اگر پلاننگ ہو تو اسلام آباد اور لندن سے بسوں کے ذریعہ سے لانے سے پھر چند ہزار، دو تین ہزار کاروں کا حدیقۃ المہدی میں بھی انتظام ہو سکتا ہے۔ ایسے لوگ جو روزانہ واپس آنے والے نہ ہوں ان کی کاریں وہیں کھڑی رہ سکتی ہیں، کیونکہ بعض وہاں رہائش رکھتے ہیں۔ اسلام آباد میں جو رہائش رکھتے ہیں ان کی کاریں اسلام آباد میں کھڑی رہیں تو بسوں میں آنے سے ایک تو علاقے کے لوگ پریشان نہیں ہوں گے، چھوٹی سڑکیں ہیں وہ بھی بلاک نہیں ہوں گی، پولیس لوگوں کو پریشان نہیں کرے گی، جو کھانا اور دوسرا سامان لانے والی گاڑیاں ہیں ان کا راستہ بھی نہیں رُکے گا۔ جو بسیں اسلام آباد سے چلیں گی وہ بھی آسانی سے اور تیزی سے حدیقۃ المہدی پہنچ سکتی ہیں تو ہر لحاظ سے لوگ پریشانی سے بچیں گے۔ ابھی تک حدیقۃ المہدی کی جگہ پر ہم بعض کام نہیں کر سکتے۔ کھانے اور پکانے کا انتظام وہ اسلام آباد میں ہے اور کھانا پک کر اسلام آبادسے آتا ہے۔ وہاں ٹھہرے ہوئے مہمانوں کے لئے بھی۔
اگلے سال انشاء اللہ خلافت جوبلی کا جلسہ ہے جیسا کہ مَیں نے کہا اس لئے انتظامیہ کو بھی اور افرادِ جماعت کو بھی اس لحاظ سے اپنے آپ کو تیار کر لینا چاہئے تاکہ حتی الوسع بہترین انتظام کے تحت جلسے کی تمام کارروائی ہو سکے۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبے میں افریقہ کے جلسوں اور پاکستان کے جلسوں اور قادیان کے جلسوں کی مثال دی تھی کہ کس طرح لوگوں نے صبر کا مظاہرہ کیا اور کرتے ہیں۔ تو اس جلسے میں یہ نظارہ یہاں کے ممبران جماعت اور دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے افراد نے بھی دکھا دیا۔ عورتیں بچے بسوں کے انتظار میں کئی کئی گھنٹے بارش میں بھیگتے رہے اور بڑے آرام سے کھڑ ے رہے۔ معمولی سا کہیں واقعہ پیش آیا ہو گا لیکن عمومی طور پر بڑے آرام سے انتظار میں کھڑے رہے بعض چار پانچ گھنٹے تک کھڑے رہے بلکہ اکثر نے شاید رات کا کھانا بھی نہیں کھایا۔ تو اُن کو یوں کھڑا دیکھ کر کچھ دیر کے لئے مَیں بھی ان کے پاس گیا تو یوں کھڑے ہنس رہے تھے اور خوش تھے جیسے انتہائی آرام دہ موسم میں کھڑے ہوں، حالانکہ اس وقت بارش ہو رہی تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ جماعت بھی عجیب جماعت ہے۔ پیار آتا ہے اس جماعت پر۔ بچوں کو، بوڑھوں کو عورتوں کو بھیگتے دیکھ کر مجھے بے چینی شروع ہو گئی تھی بلکہ پوری رات ہی بے چینی رہی۔ مَیں استغفار بھی کرتا رہا، اللہ تعالیٰ سے ان کی صحت و سلامتی کی بھیک بھی مانگتا رہاکہ اس موسم کی و جہ سے ان کو تکلیف نہ ہو۔ اگلے دن کی حاضری دیکھ کر تسلی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے اور عمومی طور پر لوگ کل کے موسم کی شدت سے محفوظ رہے، وہی چہرے اکثر نظر آ رہے تھے۔ تو اس بات پر بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے موسم کے بداثرات سے عمومی طور پر ہمیں محفوظ رکھا۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اِکاّ دُکاّ کے علاوہ عموماً مہمانوں اور شامل ہونے والوں نے انتظامات میں کسی قسم کا کوئی شکوہ نہیں کیا۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض جگہ مہمانوں کو کھانا بھی فوری طور پر متبادل انتظام کرنے کی وجہ سے نہیں مل سکا یا صحیح طور پر نہیں مل سکا۔ موسم کی و جہ سے کچھ تعداد کو اسلام آباد میں مارکی لگا کر جلسہ سنوایا گیا، کچھ کو بیت الفتوح میں جلسہ سنوایا گیا۔ کچھ غلطی سے مسجد فضل آ گئے تھے کہ یہاں سے بسیں لے جائیں گی لیکن وہاں سے انتظام نہیں تھا جس کی و جہ سے دقّت کا سامنا کرنا پڑا۔ بہرحال مختلف جگہ جو بھی صورتحال ہوئی انتظامیہ اور امیر صاحب نے اس پر معذرت کی ہے اور سب مہمانوں تک بھی معذرت پہنچانے کا کہا ہے اور ان سے بعض جگہ پر معمولی کوتاہیاں بھی ہوئی ہیں اس پر بھی ان کو شرمندگی ہے۔ تو مجھے امید ہے تمام مہمان جن کو کسی بھی قسم کی تکلیف سے گزرنا پڑا اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے انتظامیہ سے درگذر کریں گے اور معاف فرمائیں گے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ کچھ پولیس کی و جہ سے معاملہ بگڑا، انہوں نے کچھ جلد بازی دکھائی، گزشتہ سال بھی بعض دفعہ لمبی لائینیں لگی تھیں لیکن گزشتہ سال جو افسر تھا وہ ذرا ٹھنڈے مزاج کا تھا اگر اس سال بھی وہی مزاج رکھنے والا افسر ہوتا تو شاید پچہتّرفیصد ٹریفک کے معاملات آرام سے حل ہو جاتے۔ بہرحال یہ بھی ایک تجربہ ہے۔ یہ پتہ چل گیا کہ ہر قسم کے انتظامات میں مزید گہرائی تک جانے کی ضرورت ہے۔ سرکاری افسران سے واسطہ اور رابطہ میں بھی صرف خوش فہمی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ ہر انسان کا مزاج مختلف ہوتا ہے۔ اس لئے پلاننگ ہمیشہ بدترین حالات کو سامنے رکھ کر ہونی چاہئے اور اس طرح کی پلاننگ سے پھر کم سے کم پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ جو کمزوریاں مَیں دکھا رہاہوں اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بہت اجاگر ہوئی تھیں، معمولی باتیں بھی ہمیں ذہن میں رکھنی چاہئیں تاکہ بہتر سے بہتر کی طرف ہمارا قدم بڑھتا چلا جائے۔
عمومی طور پر جلسہ کا انتظام بہت اچھا تھا، اور جب ہم اپنی کمزوریاں سامنے رکھیں گے تو مزید بہتر ہو گا انشاء اللہ۔ شامل ہونے والوں اور غیر مہمانوں کی اکثریت نے اور بعد میں پولیس انتظامیہ نے بھی انتظامات کو سراہاہے تعریف کی ہے اور ہمیں اس بات پر شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ٹریننگ کے خود سامان پیدا فرما دئیے اور ہمیشہ کسی نہ کسی ذریعہ سے پیدا فرماتا رہتا ہے۔ یہی ایک مومن کا کام ہے کہ کمزوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے بہتری کی طرف قدم بڑھاتا رہے۔
جیسا کہ میرا عموماً طریق ہے جلسہ کے بعد کے خطبہ میں شکر کے مضمون کے تحت کارکنوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اس لئے آج مَیں تمام ناظمین، منتظمین اور معاونین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ سب نے بڑی محنت سے اور بہت اچھا کام کیا ہے۔ مختلف شعبہ جات میں مختلف طبقات کے والنٹیئرز (Volunteers) تھے۔ کھانا پکانا، کھانا کھلانا کھانے کو مختلف قیام گاہوں میں پہنچانا، ٹرانسپورٹ کا انتظام اور اسی طرح صفائی کا انتظام، پانی کا انتظام، رہائش کا انتظام بے انتہاانتظامات ہیں ان میں مختلف والنٹیئرز تھے۔ ہر ایک نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی بساط کے مطابق بہت اچھا کام کیا ہے اور موسمی شدت یا روک ان کے کام میں روک نہیں بن سکی۔ ہر ایک نے بغیر کسی عذر اور نخرے کے ہر قسم کا کام کیا ہے۔ یہاں کے پیدائشی جن کے بارہ میں بعض کے ماں باپ کو فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ پتہ نہیں جماعت سے اعلیٰ معیاری وابستگی رکھیں گے یا نہیں، بڑے پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں ان سب نے بڑا اچھا مظاہرہ کیا۔ تمام معاونین نے مزدوروں سے بھی بڑھ کر کام کیا، بعض نے شاید اتنا شدید کیچڑ جو وہاں حالت ہو گئی تھی پہلی دفعہ دیکھا ہو گا اور اس پر یہ کہ پھر صرف دیکھا نہیں اس کیچڑ میں کام کرنے کے لئے جانا بھی پڑا اور پھر کاروں کو اس کیچڑ میں سے نکالنا بھی پڑا اور جب کاروں کے پہیوں سے کیچڑ اڑتا تھا تو کیچڑ کی بوچھاڑ ہو رہی ہوتی تھی اور پیچھے دھکا لگانے والے کارکنوں کا کیچڑ کی و جہ سے حلیہ بگڑ جاتا تھا۔ لیکن روزانہ رات ڈیڑھ دو بجے تک یہ والنٹیئرز اللہ کے فضل سے بڑی محنت سے کام کرتے رہے۔
یوگنڈا کے جو وزیرآئے ہوئے تھے جنہوں نے اپنے صدر یوگنڈا کا پیغام بھی پڑھا تھا۔ مجھے انہوں نے کہا کہ مَیں یہ معاونین اور یہ سارے کام کرنے والے کارکنان کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں کہ مختلف طبقات اور علمی قابلیت کے لوگ ہیں اور بغیر کسی دنیاوی فائدہ اور لالچ کے صرف جماعت اور خدا کی خاطر انتہائی محنت اور عاجزی سے ایسے کام کر رہے ہیں جن کو پیسے لے کر بھی شاید بعض لوگ کرنا پسند نہ کریں۔ مَیں نے انہیں کہا کہ یہی تو احمدیت کی خوبصورتی ہے، یہی تو وہ انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کیا ہے۔ جماعت کے کا م کرنے کے لئے ایک عجیب جذبہ ہوتا ہے۔ یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ سامنے کیا ہے۔ کام کا ارادہ کیا اور بس پھر اس میں کود پڑے اور یہ جذبہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں رہنے والے ہر احمدی میں ہے ہر ملک کی جماعت میں ہے۔ بعض کارکنان اس دفعہ تو بارش کی و جہ سے سارا سارا دن اور ساری ساری رات بارش میں بھیگتے رہے ہیں لیکن اپنے سپرد جو کام تھے ان میں حرج نہیں ہونے دیا۔ بعضوں کے پاس تو برساتیاں بھی نہیں تھیں بلکہ مَیں صدر خدام الاحمدیہ سے کہتا بھی رہا کہ کم از کم ان کو رین کوٹ (RainCoat)لے دیں کیونکہ چھتریاں لے کے تو پھر کام نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن رین کوٹ بھی نہیں مل رہے تھے، بلکہ علاقے کی دکانوں، لندن اور دوسرے شہروں میں جو ربڑ کے فل بوٹ ہوتے ہیں جو ولنگٹن کہلاتے ہیں وہ بھی تقریباً میرا خیال ہے جلسے پر آنے والوں نے بھی اور والنٹیئرز نے بھی خریدے اور تمام دکانوں سے خالی ہو گئے۔ تو ایک فائدہ ولنگٹن کی انڈسٹری کو ہمارے جلسہ سے یہ بھی ہو گیا کہ ان کی بِکری ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کارکنان کو بہتر ین جزا دے اور ان کے ایمان میں مزید ترقی دے اور ان کو آئندہ پہلے سے بڑھ کرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق ملے۔
پس آنحضرتﷺ کے اس ارشاد کے تحت کہ’’مَنْ لَایَشْکُرُالنَّاسَ لَا یَشْکُرُاللّٰہ‘‘ (سنن الترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی الشکر لمن احسن الیک حدیث نمبر 1954) یعنی جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خداتعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ میں سب کارکنان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ سب کو بہترین جزا دے۔
ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے ان لوگوں کے بھی شکر گزار ہوتے ہیں جن سے انہیں کسی قسم کا فیض پہنچ رہا ہو اور ان معاونین نے اپنے آراموں کو تج کر بعض نے چوبیس گھنٹے لگاتا ر کام کیا یا شاید چوبیس گھنٹوں میں سے ایک دو گھنٹے سوتے ہوں۔ لوگوں کو آرام پہنچانے کے لئے کام کیا۔ پس جلسہ پر شامل ہونے والے ہر احمدی کا فرض ہے کہ ان کے شکر گزار بنیں اور شکر گزاری کا بہترین طریق یہ ہے کہ ان کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو پہلے سے بڑھ کر اپنے فضلوں کا وارث بنائے اور اگر کسی سے کوئی غلطی ہوئی بھی ہے کسی کو اس کا تجربہ ہوا ہے تو ان کی غلطیوں کو بھول جائیں۔ چھوٹی بچیاں، عورتیں، مرد سب نے بے نفس ہو کر یہ خدمات سرانجام دی ہیں اور ان کارکنان سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ آپ لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بنیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فوج میں شامل ہونے کی توفیق بخشی اور آپ لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق بخشی۔
یاد رکھیں آئندہ سال کا چیلنج بہت بڑا ہے پس اس جذبے سے ہمیشہ خدمت پر کمر بستہ رہیں اور کبھی اس کو ٹھنڈا نہ ہونے دیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے۔
ایم ٹی اے کے کارکنان نے بھی چوبیس گھٹنے تمام پروگراموں کو بڑے احسن رنگ میں کوریج دی اس پر بے شمار خطوط جہاں ایم ٹی اے کو آ رہے ہیں وہاں مجھے بھی براہ راست خطوط آ رہے ہیں۔ دنیامیں پھیلے ہوئے احمدی جذبات سے مغلوب ہیں اور شکر گزاری کے جذبات سے بھرے پڑے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان سے بیشمار خطوط آئے ہیں کہ ہم ان کارکنان کے لئے دعا گو ہیں جنہوں نے ہمیں بھی اس روحانی مائدے کے فیض سے محروم نہیں رکھا۔ اور ان کارکنوں کا یہ حال تھا کہ انہوں نے براہ راست پروگرام پہنچانے کے لئے بے تحاشا کام کیا اور انتھک محنت کی۔ لوگوں کا بھی یہی اظہارہے کہ بعض دفعہ ہمیں لگتا تھا کہ ہم جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پس یہ ایم ٹی اے کے کارکنان بھی جماعت ہائے احمدیہ عالمگیر کے شکریہ کے مستحق ہیں۔ بعض کارکن تو مجھے پتہ لگا ہے کئی دنوں سے جاگنے کی و جہ سے کیونکہ سارے نظام کو اس جنگل میں سیٹ کرنا، اس پر وقت لگتا ہے تاکہ بہترین لائیو (Live) پروگرام دنیا کو دکھایا جا سکے۔ تو انہوں نے کئی دن پہلے سے ہی محنت شروع کر دی تھی۔ تو ان میں سے بعض لوگ جاگنے کی و جہ سے اتنے نڈھال ہو گئے تھے اور بعض کی تھکاوٹ کی و جہ سے، نیند کے غلبہ کی و جہ سے بہت بری حالت تھی ایسے بھی تھے جو کیچڑ میں گر گئے اور پتہ نہیں چلا کہ گرے ہیں اور وہیں کیچڑ میں پڑے سو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ساتھیوں نے دیکھا تو زمین پہ گرا پڑا ہے۔ اٹھا کر لائے پوچھا کیا ہوا ہے؟ کہ مَیں تو فلاں کام کے لئے نکلا تھا۔ یہ مجھے نہیں پتہ کہ پیر پھسلا ہے یا نیند کے غلبہ کی و جہ سے گرا ہوں مجھے تو بہرحال پتہ نہیں لگا۔ لیکن وہاں جب گرے تو وہیں پڑے پڑے کھلے موسم میں سوئے ہوئے ہیں۔ کیا یہ نمونے کسی دنیاوی مقصد کے لئے دکھائے جاتے ہیں۔ پس ایم ٹی اے کے کارکنان کے لئے بھی بہت دعائیں کریں اور یہی ان کی شکر گزاری ہے۔ اکثریت ان میں سے والنٹیئرز کی ہے۔
جیسا کہ مَیں نے یوگنڈا کے غیر از جماعت وزیر صاحب جو مہمان آئے ہوئے تھے کی مثال دی ہے اسی طرح بعض پروفیسر اور افسران دوسرے ممالک سے بھی آئے ہوئے تھے جو احمدی نہیں ہیں۔ کرغیزستان، قزاقستان نائیجیریا، مراکش اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے تھے۔ تو سب سے مَیں نے ملاقات میں ان کے تأثرات پوچھے تھے، ہر ایک جلسے کے انتظام اور پروگرا م سے بہت متاثر ہوا ہے اور یہی کہا ہے کہ جو اسلام تم پیش کرتے ہو حقیقت میں یہی اسلام ہے۔ ایک پروفیسر کرغیزستان کے تھے، ان کا یہ تأثر تھا کہ اس موسم نے تم لوگوں کو کیا ڈسٹرب کرنا ہے۔ اگر تم ان لوگوں کو کہو کہ مارکی کی بجائے باہر جا کر کیچڑ میں سجدہ کریں تو یہ سب لوگ باہر جا کر کیچڑ میں بھی سجدے کریں گے اور نمازیں پڑھیں گے ان کو کسی چیز کی پرواہ نہیں۔ یہ چیز ایسی ہے جس نے مجھے بہت متأثر کیا۔ (میرا خیال ہے کہ کرغیزستان کے نہیں بلکہ کسی اور ملک کے تھے) بہرحال یہ ان کا تاثر تھا۔
پس یہ باتیں ہمیں شکر گزاری میں بڑھاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسی قوت قدسی عطا فرمائی جس کی وجہ سے آپؑ کو اطاعت اور قربانی کے نمونے دکھانے والی جماعت عطا ہوئی۔ اس دفعہ امریکہ سے بھی مقامی امریکن احمدیوں کا وفد آیا تھا۔ کافی بڑا وفد تھا، اکثریت ایفرو امریکن کی تھی۔ بعض نئے احمدی بھی اس میں شامل تھے، بالکل نوجوان بھی تھے جلسے کے نظارے دیکھ کر اور مجھ سے مل کر جو جذبات سے مغلوب ہو جاتے تھے وہ ایک عجیب نظارہ ہوتا تھا۔ اپنے ملک میں بھی جلسہ دیکھتے ہیں لیکن ان کا بیان ہے کہ اس جلسہ کا اثر ہی کچھ اور تھا جو ابھی تک ہم محسوس کر رہے ہیں۔ ان کو اس جلسہ کا ماحول ہی بالکل مختلف لگا ہے۔ پھر موسمی حالات کے باوجود شامل ہونے والوں اور خاص طور پر کارکنوں کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر ان میں بھی ایک نئی روح پیدا ہوئی ہے۔ محبت اور بھائی چارے میں بڑھے ہونے کے نظاروں کے بھی ہر ایک کے اپنے تجربات ہیں جن کا بیان بہت لمبا ہے اور مشکل بھی ہے کیونکہ یہ سب ایسی باتیں ہیں جو محسوس کی جا سکتی ہیں ان کو اپنے الفاظ میں بیان کرنامیرے لئے ممکن نہیں۔ اسی طرح مجھے کینیڈا سے آئے ہوئے امیرصاحب کینیڈا نے بھی لکھا کہ موسم کی شدت کی و جہ سے میرا خیال تھا کہ لوگ کم آئیں گے لیکن مَیں نے دیکھا کہ اس طرح ہی حاضری ہے۔ عورتیں بھی جو اپنے چھوٹے بچوں کو بچوں کی گاڑی میں بٹھا کے جا رہی تھیں، پاس سے کاریں گزرتی تھیں کیچڑ اور پانی کے چھینٹے اچھل کر ان پر پڑتے تھے لیکن انہوں نے پرواہ نہیں کی اور اللہ کے فضل سے جلسے کے پروگرام کے لئے شامل ہوئیں۔ مجھے بھی کسی نے کہا کہ خواتین نہیں آئیں گی، بہت کم آئیں گی۔ تو میرا یہی جواب تھا کہ صرف وہ جو اپنا زیور اور کپڑے دکھانے کے لئے شامل ہوتی ہیں وہ نہیں آئیں گی باقی اللہ کے فضل سے تمام عورتیں شامل ہوں گی۔
تو بہرحال یہ جلسہ اپنی تمام برکات سے مستفیض کرتے ہوئے گزر گیا۔ ہر احمدی کو جو کسی بھی حیثیت سے جلسہ میں شامل ہوا اللہ تعالیٰ کا شکر گزارہونا چاہئے کیونکہ یہ شکر گزاری ہی ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے مزید انعاموں کا وارث بنائے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس کا وعدہ قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم:8) یعنی اے لوگو اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔
پس ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ کے شکر گزار بنے رہیں تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے انعاموں کو مزید بڑھاتا چلا جائے اور آئندہ سال پہلے سے بڑھ کر اپنے فضلوں سے نوازے اور ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی فرمائے اور اس جلسہ کے تجربات سے صرف UK کی جماعت ہی فائدہ نہ اٹھائے بلکہ تمام دنیا کی جماعتیں اور ان کی جماعتی انتظامیہ کو بھی اس حوالے سے جائزے لینے چاہئیں کیونکہ دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا بھی عقلمندی ہے او ر اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ مَیں نے کہا خلافت جوبلی کے جلسے منعقد ہونے ہیں جن میں انتظامات کی بھی وسعت ہو گی۔ یہاں کی انتظامیہ تو اپنی کمیوں اور غلطیوں کو لال کتاب میں اس جلسہ کے لئے (جو ہر جماعت میں بنائی جاتی ہے) لکھ لے گی اور انشاء اللہ تعالیٰ ان کا مداوا بھی کرے گی۔ لیکن دوسرے لوگ جو یہاں نمائندے آتے ہیں ان کو بھی اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی چاہئے۔ انہیں بھی اپنی اصلاح کے لئے ان باتوں کو نوٹ کر لینا چاہئے تاکہ آئندہ سال جیسا کہ مَیں نے کہا جلسوں میں جو وسعت ہو گی اس میں بہترین انتظام ہو گا۔ خاص طورپر جن ملکوں میں اللہ تعالیٰ نے چاہا تومَیں جلسوں میں شامل ہوں گا ان کے انتظامات زیادہ وسعت کے متقاضی ہوں گے۔ تو زیادہ پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا۔ اس لحاظ سے بھی تمام دنیا کی جماعتیں بھی جائزے لیں اور ان جلسوں کا جو مقصد ہے وہ ہم حاصل کرنے والے ہوں۔ ہمیں ہمیشہ اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر احمدی کو چاہے وہ دنیا کے کسی ملک میں بس رہا ہے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھے کہ تقویٰ پیدا ہو گا تو شکر گزاری کے جذبات بھی بڑھیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (آل عمران:124) اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم شکر گزار بنو۔ پس حقیقی شکر گزار بھی وہی ہو سکتا ہے جو اللہ کا خوف رکھتا ہو۔ اس کے احکامات پر عمل کرنے والا ہو۔ اس بات کا فہم و ادراک رکھتا ہو۔ اور اس جلسے میں شمولیت کا فائدہ بھی تبھی ہو گا جب اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں گے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ جب ہم اس طرح زندگیاں گزاریں گے تو حقیقی شکرگزار بنتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق مزید انعامات اور برکات حاصل کرنے والے ہوں گے اور پہلے سے بڑھ کر ہم پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانات کی بارش ہم پر ہو گی، انشاء اللہ۔
پس پھر مَیں کہتا ہوں کہ ہر احمدی اس بات پر شکر گزار ہو کہ اس نے مسیح موعود کا زمانہ پایا جس کا انتظار کرتے لوگ دنیا سے رخصت ہو گئے اور آپؑ کے بلانے پر اس جلسے میں آئے اور شامل ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے افضال و برکات کو اترتے ہوئے دیکھا۔ کام کرنے والوں کے اخلاص و وفا کو دیکھا، غیروں کو متاثر ہوتے دیکھا۔ شکر گزاری کے یہ جذبات جتنے بڑھیں گے اور تقویٰ میں ترقی کے ساتھ شکر گزاری جتنی زیادہ ہو گی اتنے ہی اللہ تعالیٰ کے انعامات کو سمیٹنے والے بنتے چلے جائیں گے۔ انشاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ شکر گزاری کی حقیقی روح کو سمجھنے والے ہوں۔
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 24تا30اگست2007ء ص 5 تا 8)
جلسہ کی کامیابی پر خدا تعالیٰ کا شکر اور تمام ناظمین منتظمین اور معانین کی خدمات کا تذکرہ، جلسہ کے متعلق غیر از جماعت مہمانوں کے نیک تاثرات کا تذکرہ
فرمودہ مورخہ 03 ؍اگست 2007ء (03؍ ظہور 1386ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت المہدی، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔