اللہ تعالیٰ کے حقیقی مومنین کے ساتھ وعدے
خطبہ جمعہ 17؍ اگست 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد، تعوذ و سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال اُن کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں۔ جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے ہیں اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہوسب اپنے تئیں دُور کر لئے جاتے ہیں۔ پس جیسا کہ پہلے بھی قرآنی تعلیم کی روشنی میں بیان کرتا آیا ہوں کہ جو بھی عمل اللہ تعالیٰ کی رضا سے دُور لے جانے والا ہے وہ ایمان سے دُور لے جانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم میں بے شمار جگہ جو مومن کی تعریف اور مومنین کے لئے جو احکامات ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو کھول کر پیش فرمایا ہے اور اپنی جماعت کے افراد کو اس معیار پر دیکھنے کی بار بار تلقین فرمائی ہے جس سے ایمان کے اعلیٰ معیار حاصل ہوں اور ہم میں سے ہر ایک پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اُس سلوک سے حصہ لینے والا بنے جو اللہ تعالیٰ ایک مومن سے فرماتا ہے۔ پس اس سلوک کا حامل بننے کے لئے تقویٰ کی راہوں کی تلاش کرنی ہو گی۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ’’مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جو تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں ‘‘۔ اور تقویٰ کی باریک راہوں کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:’’ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط وخال ہیں اور ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سَر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21صفحہ210-209)
آپ نے یہ فرمایا ہے کہ ’’تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط وخال ہیں‘‘۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ’’ ایمان کے لئے خشوع کی حالت مثل بیج کے ہے‘‘ یعنی اللہ کا خوف ہر عمل سے پہلے اس کی موجودگی کا احساس دلائے۔ یہ بیج تمہارے دل میں پیدا ہونا چاہئے اور کسی کا م کو سرانجام دینے سے پہلے یہ احساس اور یقین رکھناکہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے، یہ احساس ہر وقت دل میں موجود رہے۔ انتہائی عاجزی سے اور ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارنا۔ یہ حالت ایسی ہے کہ جس کی مثال بیج سے دی جا سکتی ہے اور پھر جب یہ خشوع پیدا ہو جائے اور تمام لغو باتوں کو انسان ترک کر دے تو پھر انسان کے دل کی زمین جو ہے اس پر ایمان کا نرم نرم سبزہ نکلتا ہے، وہ بیج پھوٹتا ہے، اس کھیت میں ہریالی نظر آنے لگتی ہے۔ اور یہ نرم سبزہ ایسا ہوتا ہے کہ بہت نازک ہوتا ہے۔ ایک بچے کے پاؤں کے نیچے بھی آجائے تو کچلا جاتا ہے۔ پس اس بات پر راضی نہیں ہو جانا چاہئے کہ میرے اندر بہت خشوع پیدا ہو گیا ہے۔ مَیں نے اس وجہ سے لغویات کو بھی ترک کر دیا ہے یا اس کے ترک کرنے کی طرف کافی ترقی کر لی ہے بلکہ اس نرم پودے کی حفاظت کے لئے بہت سے مراحل ابھی باقی ہیں۔ آپؑ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایمان کی مضبوطی کے لئے پھر اپنے محبوب مال میں سے قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔ اس کی ضرورت ہے۔ جب یہ مالی قربانی ہو تو پھر ایمانی درخت کی ٹہنیاں نکل آتی ہیں۔ اس کی شاخیں پھوٹ پڑتی ہیں جو اس میں کسی قدر مضبوطی پیدا کرتی ہیں۔ پھر ان ٹہنیوں کو مزید مضبوط کرنے کے لئے شہوات نفسانیہ کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قدم قدم پر شیطان نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ جو مختلف طریقوں سے نفس کو بھڑکا کر بُرائیوں کی طرف مائل کرتا ہے اور نیکیوں سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے ہر جگہ اس سے بچنا ہر مومن کا کام ہے۔ بُرائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا، شیطان کے دھوکے میں نہ آنا اور جب یہ صورت پیدا ہو گی تو فرمایا پھر ان ٹہنیوں میں خوب مضبوطی اور سختی پیدا ہوجاتی ہے اور پھر اس پودے کو جو ٹہنیوں کی حد تک مضبوط ہو گیا، لیکن ابھی مضبوط تنے پر کھڑا ہونا باقی ہے، اس کو مضبوط تنے پر کھڑا کرنے کے لئے اپنے وہ تمام عہد جو تم نے خدا سے اور خدا کی خاطر اس کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے کئے ہیں ان کی حفاظت کرو، اپنی تمام امانتوں کی حفاظت کرو۔ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات امانتیں ہیں ان کی حفاظت کرنا، ان کو موقع محل کے مطابق بجا لاناضروری ہے اور یہ امانتیں ایمان کی شاخیں ہیں۔ پس یہ تمام چیزیں پھر ایمان کے درخت کو مضبوط تنے پر کھڑا کر دیتی ہیں اور تنا ان کو خوراک مہیا کرتا ہے۔
ایمانی عہدوں کی مزیدوضاحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ ایمانی عہدوں سے مراد وہ عہد ہیں جن کا انسان بیعت کرتے وقت اور ایمان لاتے وقت اقرار کرتا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جن شرائط پر ہم نے بیعت کی ہے وہ ہمیشہ ہمیں پیش نظر رکھنی چاہئیں اور جب اس عہد کی حفاظت کر رہے ہوں گے۔ اس کا خلاصہ (جیسا کہ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے بیان کیا تھا) خدا کی توحید کا قیام، آنحضرتﷺ کی مکمل پیروی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تمام فیصلوں پر حکم اور عدل ماننا ہے، مخلوق کے حقوق ادا کرنا، خلافتِ احمدیہ کی اطاعت کرنا تو پھر یہ ایمان کا درخت مضبوط تنے پر قائم ہو جائے گا اس کی جڑیں مضبوط ہوں گی اور جب یہ صورت پیدا ہو گی تو پھر ایک مومن کا فعل خدا کی رضا کے حصول کے لئے ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہمیشہ شیطان سے بچانے اور اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے کے سامان پیدا فرماتا رہے گا۔ کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ایک دنیاوی دوست اپنے دوست کے لئے کوشش کرکے اس کے فائدے کے سامان کرے اور خداتعالیٰ جو سب دوستوں سے زیادہ وفا کرنے والا ہے وہ اپنے دوست کو، ایک مومن کو، باوجود اس کے چاہنے کے (کہ خداتعالیٰ اسے ایمان میں مضبوط رکھے اور شیطان سے اسے بچا کر رکھے، اس کے حملوں سے محفوظ رکھے) یوں اندھیروں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کبھی بھی نہیں ہو گا۔ اگر تم میری طرف بڑھ رہے ہو اور ایمان کی مضبوطی کی کوششیں کر رہے ہو تو میرا قرب حاصل کرنے والے ہو گے۔
ایک جگہ فرماتا ہے کہ اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ (البقرۃ:258) کہ اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے وہ ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔ پس یہ جو اللہ تعالیٰ مومنوں سے دوستی کا اعلان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ مومنوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائے گا، ان کو ایک نور دکھائے گا تو یہ اعلان ہے کہ تمہاری کوشش، تمہارے ایمان کی مضبوطی کی کوشش تمہیں یقینا ترقیات نصیب کرے گی۔ تمہیں روحانی ترقی میں بڑھائے گی، پھر اس کی وجہ سے تمہاری جسمانی ضروریات بھی پوری فرمائے گا۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں نیک نیت سے کوشش ضروری ہے۔ دنیا کی طرف دوڑنے والوں کو تو پتہ نہیں دنیا ان کی خواہش کے مطابق ملتی بھی ہے کہ نہیں۔ کیونکہ بہت سے جو دنیا کمانے والے ہیں اور خدا کو بھولنے والے ہیں ان میں سے اکثریت کیا بلکہ سارے ہی بے چینی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ لیکن خدا کی خاطر خالص ہو کر اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والوں کو خدا بھی ملتا ہے اور دنیا بھی ان کے دَر کی لونڈی ہو جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرے گا تو خداتعالیٰ بھی اس کی طرف رجوع کرے گا۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ جہاں تک بس چل سکے وہ اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرے۔ پھر جب اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نقطہ تک پہنچے گی تو وہ خدا تعالیٰ کے نور کو دیکھ لے گا۔ یہ جو آپؑ نے فرمایا کہ اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نقطے تک پہنچے گی۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر خاص احسان ہے کہ ہر انسان کی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں، اس کی استعدادیں مختلف ہوتی ہیں، اس کی اپنی استعدادوں کی انتہا کے مطابق اس کا ٹارگٹ مقرر فرماتا ہے۔ پس ایمان کی مضبوطی اور اللہ کے نور سے حصہ لینے کے لئے اپنی استعدادوں کے انتہائی نقطے تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:70) کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ ’’اس میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو حق کوشش کا اس کے ذمّہ ہے اسے بجا لائے۔ یہ نہ کرے کہ پانی اگر بیس ہاتھ نیچے کھودنے سے نکلتا ہے تو وہ صرف دو ہاتھ کھود کر ہمت ہار دے۔ ہر ایک کام میں کامیابی کی یہی جڑ ہے کہ ہمت نہ ہارے۔ پھر اس اُمّت کے لئے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی پورے طور سے دعا اور تزکیہ نفس سے کام لے گا تب قرآن شریف کے وعدے اس کے ساتھ پورے ہو کر رہیں گے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 223-224 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس اللہ تعالیٰ دوستی کا حق ادا کرتا ہے، اس دنیا میں بھی انعامات سے نوازتا ہے، دنیاوی ضروریات بھی پوری کرتا ہے، روحانی ترقیات سے نوازتا ہے۔ اس دنیا کوبھی جنت بناتا ہے اور مرنے کے بعد بھی ہمیشہ رہنے والی جنت میں مومن کو رکھے گا۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی مومنین کے ساتھ قرآن میں بے شمار وعدے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پورا فرماتا ہے اور آج بھی ہم ان کو مختلف شکلوں میں پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، دیکھتے ہیں۔ ہزاروں احمدی اس وعدے کے مطابق اپنی دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھتے ہیں۔ خلافت کا جاری نظام بھی خداتعالیٰ کے وعدوں میں سے ایک بہت بڑا وعدہ ہے جو مومنین کے سکون کے لئے اور ان کو تمکنت دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ احمدیوں کے ساتھ، مومنین کی جماعت کے ساتھ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سچا تعلق رکھنے والوں کے ساتھ، گزشتہ سو سال سے ہم یہ وعدہ بڑی شان سے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں اور ایک احمدی کی سکون اور آرام کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے۔ کئی قسم کے فتنہ اور فساد سے احمدی بچے ہوئے ہیں جن میں جو دوسرے ہیں وہ ڈوبے پڑے ہیں۔ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ جب یو کے میں گزشتہ دنوں جلسہ ہوا تھا توامریکہ میں ان کے ایک دوست ان کو ملنے آئے۔ اس وقت میری تقریر شروع ہونے والی تھی، میرے حوالے سے بتایا کہ ان کی تقریر ہے مَیں تو ابھی ٹی وی پرسننے لگا ہوں آپ بیٹھ کے میرا ذرا انتظار کر لیں۔ تو انہوں نے کہا مَیں بھی آپ کے ساتھ سنتا ہوں۔ شیعہ دوست تھے پاکستان سے امریکہ آئے ہوئے تھے۔ پڑھے لکھے آدمی تھے پوری تقریر انہوں نے سنی اور اس کے بعد کہنے لگے کہ مجھے مذہب سے ویسے زیادہ دلچسپی نہیں ہے لیکن آج مجھے پتہ لگا ہے کہ کیوں احمدی دوسروں سے مختلف ہیں۔ احمدی میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لئے اسلام کی راہنمائی کرنے کے لئے ایک انتظام کیا ہوا ہے جو ہمارے اندر نہیں۔ ایک آواز کے ساتھ تم لوگ اٹھتے بیٹھتے ہو۔ تو اللہ تعالیٰ کایہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ جماعت کے حق میں پورا ہو رہا ہے۔
پھر قرآن کریم کے وعدوں میں سے اللہ تعالیٰ کا ایک وعدہ ہے کہ وہ کافروں کے مقابلے میں مومنوں کا مددگار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑے واشگاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ تم دنیا میں پھر لو، تاریخ مذاہب پر نظر ڈال لو، کہیں بھی تمہیں یہ نظر نہیں آئے گا کہ نبیوں کی جماعت کا اور مومنوں کا آخری نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا ہو۔ عارضی ابتلا اور مشکلات بے شک آتے ہیں۔ لیکن آخر کار دشمن و کافر تباہ ہو جاتے ہیں۔ مومنین کے مخالفین کے حصہ میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ پس یہ ایک ایسا اصول ہے جو آنحضرتﷺ سے قبل کے انبیاء اور مومنین کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا۔ آنحضرتﷺ کے ساتھ بھی اور مسلمانوں میں مومنین کے لئے بھی قائم فرمایا اور آپؐ کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے حقیقی ایمان لانے والوں کے لئے یہ معیار قرار دے دیا کہ انجام کار کافروں کی تباہی ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا کافروں کی تباہی، انکار کرنے والوں کی تباہی اور مومنوں کی کامیابی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو مُکَفِّرِیْن و مُکَذِّبِیْن ہیں ان کا بدانجام ہوگا اور بد انجام کا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَھُمْ (محمد:12) یہ اس لئے ہے کہ اللہ ان لوگوں کا مولیٰ ہوتا ہے جو ایمان لائے اور کافروں کا یقینا کوئی مولیٰ نہیں ہوتا۔
پس حقیقی مومن اور تقویٰ پر قدم مارنے والوں کا مولیٰ اور دوست وہ عظیم جاہ و جلال والا خدا ہے جس کی بادشاہت تمام زمین و آسمان پر حاوی ہے۔ پس جو ایسے جاہ و جلال اور قدرت رکھنے والے خدا کی آغوش میں ہو کیا اسے مخالفین کا مکر اور ان کی تدبیریں کچھ نقصان پہنچا سکتی ہیں؟ یقینا نہیں، کبھی نہیں۔ کیونکہ جو خداتعالیٰ پر کامل ایمان لاتا ہے خدا اس کی حفاظت کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ یہ اس کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی مدد فرماتا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ (الروم:48) یعنی مومنوں کی مدد کرنا ہمار افرض ہے۔ پس یہ ہے مومنوں کا خدا جو کسی لمحہ بھی اپنے مومن بندوں سے غافل نہیں۔ یہ زمین و آسمان کا مالک خدا جس کو نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ آتی ہے، ہر وقت اپنے مومن بندے کی پکار پر ہر جگہ پہنچ جاتا ہے۔ پس کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے اس خدا سے تعلق جوڑتے ہیں اور خشوع اور تقویٰ میں بڑھے ہوئے ہیں اور بڑھتے چلے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو خدا اپنے مومن بندے کی حفاظت و نصرت کے لئے اس پر نظر رکھے ہوئے ہے، اس کو ماننے والے ہیں۔ پس ہمیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آئے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس زمانے میں آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق کی بیعت میں آنے والے ہی حقیقی مومن ہیں، ایک تو اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ صرف یہ ایک عمل کہ ہم بیعت میں آ گئے کافی نہیں، بلکہ ہم نے اپنے اعمال کے بیج کی حفاظت کرکے اس کے اُگنے کے سامان کرنے ہیں۔ پھر اس کے اُگنے کے بعد نرم سبزے کی حفاظت کرنی ہے۔ پھر نرم سبزے نے جب ٹہنیوں کی صورت اختیار کرنی ہے اس کی نگہداشت کرنی ہے، اسے ہر قسم کے کیڑے مکوڑوں اور جانوروں سے محفوظ رکھنا ہے۔ پھر اس پودے کی نگہداشت رکھتے ہوئے اسے مضبوط تنے پر کھڑا کرنا ہے، تب جا کر یہ ثمر آور درخت بنے گا، پھل دینے والا درخت بنے گا جو فائدہ پہنچائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو تمام اعمال اور اخلاق کے جامع ہوتے ہیں وہی متقی کہلاتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر ایک ایک خُلق فرداً فرداً کسی میں ہو تو اسے متقی نہیں کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاقِ فاضلہ اس میں نہ ہوں۔ کسی ایک نیکی کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو نیک نہ سمجھے تقویٰ پر قدم مارنے والا نہیں جب تک تمام اخلاقِ فاضلہ اس میں نہ ہوں۔ پس ایک تو یہ بات ہر وقت ہر احمدی کو ذہن نشین کرنی چاہئے کہ ایمان میں مضبوطی کے لئے تمام نیکیوں کو اختیار کرنا اور ان میں بڑھتے چلے جانا ضروری ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کا دوست ہے اس لئے ان کی حفاظت فرماتا ہے اور کافر اس لئے تباہ ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں۔ اب اس مدد کو اور رنگ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا کہ صرف دوست نہیں ہے اور صرف حفاظت ہی نہیں کرتا بلکہ مومنوں کو یہ ضمانت ہے کہ مومنوں کو کافروں پر فوقیت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے ایسے سامان پیدا فرمائے گا کہ جیت یقینا مومنوں کی ہو گی، غلبہ یقینا تمہارا ہو گا۔ مخالفین کی کثرت سے ان کے سازوسامان سے، ان کے مکروں سے، ان کی حکومتوں سے تم پریشان نہ ہو۔ ان کے حملے تمہارے ایمانوں میں کمزوری پیدا نہ کریں۔ یاد رکھو کہ دشمنوں کے جتھے تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ اپنے اوپر فرض کر لیا ہے کہ انبیاء اور مومنین کی جماعت ہی آخرکار غالب آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ذریعوں سے دشمن کی تباہی کے سامان کرتا ہے جو ایک عام آدمی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
جنگِ بدر کے ذکر میں اللہ فرماتا ہے کہ اس وقت تمہاری کیا حیثیت تھی۔ آنحضرتﷺ تڑپ تڑپ کراللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض کر رہے تھے کہ اگر آج مومنین کی چھوٹی سی جماعت ختم ہو گئی تو پھر اے اللہ !تیرا نام لیوا اس دنیا میں کوئی نہیں ہو گا اور اس جنگ میں سازوسامان اور تعداد کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کی اور کفارکی کوئی نسبت ہی نہیں تھی۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا۔ ان دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے جو آنحضرتﷺ نے کیں اور مومنین کے ایمان کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور کفار کی اس کثرت کو بے بس اور مغلوب کر دیا۔ ہر طرف ان کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْ(الانفال:18) یعنی یا د رکھو کافروں کو تم نے نہیں مارا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے مارا تھا اور پھر آنحضرتﷺ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی(الانفال:18)کہ جب تم نے مٹھی بھر کنکر پھینکے تھے تو توُ نے نہیں پھینکے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکے تھے۔ پس اس جنگ میں کافروں کو ذلیل و خوار کر دیا۔ وہ جو مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے آئے تھے کہ آج مٹھی بھر مسلمان ہیں ان کو ختم کر دیں گے خود نہایت ذلیل و خوار ہو کر گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تسلی دلائی کہ یہ میری مدد کی اور اس وعدے کی (کہ غلبہ انشاء اللہ تمہارا ہے) ایک جھلک ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَ کُمُ الْفَتْحُ وَاِنْ تَنْتَھُوْا فَھُوَخَیْرٌ لَّکُمْ وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ۔ وَلَنْ تُغْنِیَ عَنْکُمْ فِئَتُکُمْ شَیْئًا وَلَوْ کَثُرَتْ۔ وَاَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُؤْ مِنِیْنَ (الانفال:20) پس اے مومنو! اگر تم فتح طلب کیا کرتے تھے تو فتح تو تمہارے پاس آ گئی اور اے منکرو اب بھی اگر تم باز آ جاؤ تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم شرارت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی عذاب کا اعادہ کریں گے اور تمہارا جتھہ تمہارے کسی کام نہ آئے گا خواہ کتنا ہی زیادہ ہو اور یہ جان لو کہ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔ پس فتح کا یہ نشان اس زمانے میں یقینا مومنوں کے ایمان میں مضبوطی قائم کرنے والا بنا۔ صحابہ ؓ کے ایمان مضبوط ہوئے اور یہ بات قرآن کریم میں فرما کر مومنوں کو اور خاص طور پر آخرین کو جنہوں نے مسیح و مہدی کو مانا ہمیشہ کے لئے تسلی دلا دی کہ اللہ کی مدد ہمیشہ مومنوں کے ساتھ ہے اس لئے تم مخالفین کے جتھے اور کثرت سے نہ ڈرو۔ ان کی حکومتوں سے نہ ڈرو، ان کی تدبیروں سے نہ ڈرو بلکہ اعلان کرو کہ تمہاری کثرت، تمہارے یہ سب مکرو فریب اور یہ سب کوششیں ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں الہام فرما کر تسلی دلائی۔ کئی دفعہ یہ الہام ہوا ہے کہ یَا اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ مَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔ قُلْ اِنِّیٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (تذکرہ صفحہ 35 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
کچھ حصے مَیں نے پڑھے ہیں۔ کہ اے احمد! اللہ تعالیٰ نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے۔ جو کچھ توُ نے چلایا وہ توُ نے نہیں چلایا بلکہ خداتعالیٰ نے چلا یا ہے۔ کہہ کہ مَیں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ اعلان کروانا یقینا اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ آخری فتح آپؑ کی جماعت کی ہو گی۔ آپؑ کی زندگی میں بھی انتہائی مشکل حالات آئے، ان کا سامنا آپؑ کو کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر آپؑ کو کامیاب فرمایا۔ آپؑ کی حفاظت فرمائی، آپؑ کی مدد فرمائی۔ آپؑ کے بعد مومنین کی جماعت پر بھی بڑے شدید حالات آئے اور ہم نے ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد کے نظارے دیکھے۔ پس یقینا یہ اللہ تعالیٰ کا سلوک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کی دلیل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ہر فرد کو اس یقین پر قائم رہنا چاہئے کہ یقینا خداتعالیٰ کی تائیدات آپؑ کے ساتھ اور آپؑ کی جماعت کے ساتھ ہیں اور اللہ تعالیٰ جو ہوائیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی کامیابی کے لئے چلا رہاہے اسے اب کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ پہلے مومنین کو فتوحات نصیب کرتا آیا ہے اور ہمیشہ ان کے ساتھ رہا ہے تو آج بھی وہ سچے وعدوں والا خدا مومنین کے ساتھ ہے اور احمدیت کے غلبہ کو اب کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن اس بات کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو فتح دکھائی اور آئندہ بھی دکھائے گا اور وہ مومنوں کے ساتھ ہے اور کافر ذلیل و خوار ہوں گے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی کامل اطاعت کرو اور کسی کے حکم سے منہ نہ پھیرو۔ یہ بات پھرایمان میں مضبوطی پیدا کرے گی اور تم خداتعالیٰ کے نشانات دیکھتے چلے جاؤ گے۔ یہ فتح کے وعدے مومنین کے ساتھ ہیں، کامل اطاعت گزاروں کے ساتھ ہیں، جماعت کی لڑی میں پروئے جانے والوں اور خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے والوں کے ساتھ ہیں۔ پس اللہ اور رسول کی کامل اطاعت کرنے والے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان دعاؤں کے جو آپؑ نے جماعت کے حق میں کی ہیں حصہ دار بنیں گے، ان دعاؤں کے وارث بنیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اور تائید اور حفاظت کے وعدے ان سب کے حق میں پورے ہوں گے جو حقیقی مومن ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر موقع پر جب بھی ضرورت ہو گی مومنین کی مدد کو آئے گا جیسا کہ ہمیشہ سے چلا آتا ہے اور ان کے دشمن کو جو جماعت کو نقصان پہنچانا چاہیں گے ہمیشہ خائب و خاسر کرے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایک جگہ حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خداتعالیٰ اس پر ایسا جھپٹ کر آتا ہے جیسا ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ 438 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس رسوائی اور ناکامی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مخالفین کا مقدر ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ خدا آپؑ کی جماعت کے ساتھ ہے۔ اگر ہم تقویٰ اور ایمان کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں گے تو اپنی زندگی میں یہ فتوحات اور غلبہ کے نظارے دیکھیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اور اپنے نفسوں کا محاسبہ کرتے ہوئے یہ معیار قائم کرنے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اس پر باقاعدگی سے کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ان انعاموں کا وارث بنائے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایاہے۔
خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:
انشاء اللہ تعالیٰ مَیں جرمنی کے سفر پر جا رہا ہوں۔ اس مہینہ کے آخر میں وہاں ان کا جلسہ سالانہ ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ اس سفر کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور بے انتہا فضلوں سے ہرآن نوازتا رہے۔
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 7 تا 13 ستمبر2007ء ص 5 تا 7)
حقیقی مومنین کا بیان، اللہ تعالیٰ کے حقیقی مومنین کے ساتھ وعدے، خلافت کا نظام بھی مومنین کے ساتھ ایک وعدہ جو بڑی شان سے پورا ہو رہا ہے، جرمنی کے سفر پر روانگی کے لئے دعا
فرمودہ مورخہ 17 ؍اگست 2007ء (17؍ ظہور 1386ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔