اسلام، بانی اسلامﷺ اور قرآن مجید پر اعتراضات کا جواب
خطبہ جمعہ 24؍ اگست 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد، تعوذ و سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَکَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰہُ بِہِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَأْتِیَھُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ(النحل:46)
آج مادیّت کی وجہ سے، مادیّت پسندی کی وجہ سے انسان بعض اخلاقی قدروں سے دُور، مذہب سے دُور اور خدا سے دُور جا رہا ہے اور بہت کم ایسے ہیں جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ تمام وہ نعمتیں اور وہ چیزیں جن سے انسان فائدہ اٹھا رہا ہے خداتعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے انہیں انسان کے تابع کیا ہوا ہے اور پھر اس اشرف المخلوقات کو جو دماغ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس سے وہ نت نئی ایجادیں کرکے اپنی سہولت اور حفاظت کے سامان کر رہا ہے۔ پس یہ بات ایسی ہے کہ جو انسان کو اس بات کی طرف توجہ دلانے والی بننی چاہئے کہ وہ اپنے خدا کا شکر گزار بنے، اپنے مقصد پیدائش کو سمجھے، جو کہ اس خدائے واحد کی عبادت کرنا ہے جس نے یہ سب نعمتیں مہیا کی ہیں، جس نے یہ تمام نظام پیدا کیا اور انسان کی خدمت پر لگایا ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا بہت کم ایسے ہیں جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں بلکہ ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو نہ صرف سمجھتے نہیں بلکہ اس کے خلاف چل رہے ہیں اور مادیت پسندی اور مادیت پرستی میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ نہ صرف مذہب سے تعلق نہیں رہا بلکہ مذہب کا مذاق اڑانے والے بن رہے ہیں، انبیاء کے ساتھ استہزاء کرنے والے ہیں اور ایسا طبقہ بھی ہے جو خدا کے وجود کا نہ صرف انکاری ہے بلکہ مذاق اڑانے والا ہے۔ خدا سے انکار کے بارے میں کتابیں لکھی جاتی ہیں اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتب میں ان کا شمار ہوتا ہے، بڑی پسندیدہ کتب میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ یورپ اور مغرب میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو خدا سے دُور جا رہے ہیں جو اس قسم کا بیہودہ لٹریچر پیدا کر رہے ہیں اور ایسے پیدا کردہ لٹریچر کو پسند کرنے والے ہیں اور اس بات میں یہ لوگ اس لحاظ سے مجبور ہیں ان کی بیچارگی بھی ہے کہ ان کو ان کے مذہب نے دل کی تسلی نہیں دی۔
ایک خدا کی بجائے جو سب طاقتوں کا سرچشمہ اور ہر چیز کا خالق ہے، اس کو چھوڑ کر جب یہ لوگ ادھر ادھر بھٹکتے ہیں اور کئی خداؤں کے تصور کو جگہ دیتے ہیں، دعا کے فلسفے اور دعا کے معجزہ سے ناآشنا ہیں اور زندہ خدا کے تعلق سے ناآشنا ہیں۔ تو پھر ظاہر ہے کہ یہ جو ایسے لوگ سوچتے ہیں ان سوچنے والے ذہنوں کو خدا اور مذہب کے بارے میں یہ بات بے چینی میں بڑھاتی ہے کہ تصور تو مذہب کا ہے لیکن ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ ایک خدا کو بھول گئے ہیں اور یہی چیز ان کو مذہب سے دور لے جا رہی ہے، جیسا کہ مَیں نے کہا، بعض اس میں اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ خدا کے تصور سے ہی انکاری ہیں اور صرف انکاری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر استہزاء آمیز الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ پھر ایک طبقہ ایسا ہے جو اسلام کے بغض اور کینے میں اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہر روز اسلام، بانی ٔاسلام حضرت محمد مصطفیﷺ اور قرآن کریم پر نئے سے نئے انداز میں حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن اور آنحضرتﷺ کی طرف وہ باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا قرآن کی تعلیم اور آنحضرتﷺ کے عمل سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ تو بہرحال یہ لوگ اور پہلی قسم کے لوگ جو مَیں نے بتائے جو مذہب سے دور ہٹے ہوئے ہیں اور خدا کے تصور کو نہ ماننے والے ہیں یہ بھی تنقید کا نشانہ بنانے کے لئے زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان سب کو نظر آ رہا ہے کہ مذہب کا اور خدا کی ذات کا صحیح تصور پیش کرنے والی اگر کوئی تعلیم ہے تو اب صرف اور صرف اسلام کی تعلیم ہے، قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ بعض سے تو اسلام اور آنحضرتﷺ سے بغض اور کینے کا اظہاراس قدر ہوتا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس زمانے میں، ان پڑھی لکھی قوموں میں، مغرب میں، جو اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ اور آزادی کا علمبردار اور دوسروں کے معاملے میں دخل نہ دینے کا دعویٰ کرنے والے ہیں یہاں ایسے لوگ ہیں جو تمام حدیں پھلانگ گئے ہیں اور اسلام دشمنی نے ان کو بالکل اندھا کر دیا ہے۔
گزشتہ دنوں یہاں ایک سیاسی لیڈر جن کا نام خیرت ولڈرز (Geert Wilders) تھا انہوں نے ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے اپنے دل کے بغض اور کینے کا اظہار کیا ہے۔ ان کی ہرزہ سرائی آپ میں سے بہت سوں نے سنی ہو گی۔ دنیا کو بھی پتہ لگے، لکھتے ہیں کہ مَیں چاہتا ہوں کہ لوگ سچائی کو خود دیکھیں۔ ان لوگوں کی یہ بڑی دجّالی چالیں ہوتی ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ اس بات کا آغاز محمدﷺ سے شروع ہوتا ہے جس طرح اکثر مسلمان ان کی محبت بھری شخصیت کی خاکہ کشی کرتے ہیں حقیقت میں وہ ویسے نہیں تھے۔ جب تک وہ مکّہ میں رہے اور یہاں پر بھی صرف قرآن کے کچھ حصے وجود میں آئے اس وقت تک تو ان کی شخصیت میں محبت تھی لیکن جیسے جیسے ان کی عمر بڑھتی گئی اور خاص طور پر مدینے میں رہائش کے زمانے میں وہ بتدریج تشدد آمیز طبیعت کی طرف مائل ہوتے گئے(نعوذ باللہ)۔
پھر لکھتے ہیں کہ سورۃ 9 آیت 5 میں آپ دیکھتے ہیں کہ کس طرح عیسائیوں، یہودیوں اور مرتدوں کے خلاف تشدّد پر اُکسایا گیا ہے۔ اکثر آیات ایک دوسرے کی ضدّ ہیں۔ پھر بائبل کی تعریف کی ہے۔ خیر اس کا ایک علیحدہ موضوع ہے، مَیں نہیں چھیڑتا۔
پھر لکھتے ہیں قرآن میں حکومت اور مذہب کی علیحدگی کا کوئی تصور نہیں ہے، اس سے آپ انکار نہیں کر سکتے کہ نہ صرف محمدﷺ (نعوذ باللہ) ایک تشدد پسند شخصیت تھے بلکہ قرآن خود بھی متشددانہ خیالات پر مبنی کتاب ہے۔
پھر ایک اور اخبار میں لکھتا ہے کہ مَیں خدا کی عبادت کا سن سن کر تنگ آ گیا ہوں، اخبار میں بیان دیتے ہوئے خیرت ولڈرز (Geert Wilders) نے صرف قرآن پر پابندی لگانے کا ہی مطالبہ نہیں کیا بلکہ سیاسی رہنماؤں پر بھی تنقید کی کہ دہشت گرد مسلمانوں کو ملک میں جگہ دے رہے ہیں یعنی یہ بے چارے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ مَیں اسلام سے تنگ آ گیا ہوں اب کوئی مسلمان یہاں ہجرت کرکے نہیں آنا چاہئے، مَیں ہالینڈ میں اللہ کی عبادت کا سن سن کر بھر چکا ہوں، مَیں ہالینڈ میں قرآن کے تذکرے سے تنگ آ گیا ہوں، نعوذ باللہ اس فاشسٹ (Fascist) کتاب پر پابندی لگائی جائے۔ فاشزم کا اظہار تو یہ خود کر رہے ہیں۔ اب آنحضرتﷺ پر انہوں نے پہلا اعتراض کیا ہے کہ جس طرح عمر بڑھتی گئی نعوذ باللہ تشدّد آمیز طبیعت کی طرف مائل ہوتے گئے، صاف ظاہر ہے کہ بغض اور کینے نے انہیں اتنا اندھا کر دیا ہے کہ قرآن پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور قرآن کو یہ لوگ ویسے بھی پڑھتے ہی نہیں، اِدھر اُدھر سے سنی سنائی باتیں کرتے ہیں اور قرآن تو خیر کیا پڑھنا تھا، یہ تاریخ کو بھی مسخ کر رہے ہیں۔ جوان سے بہت زیادہ علم رکھنے والے عیسائی تھے وہ بھی جو اعتراض نہیں کر سکے انہوں نے وہ اعتراض بھی کر دیا۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے یہ اعتراض ڈھونڈ نکالے ہیں۔ سورۃ مائدہ نہ صرف مدنی سورۃ ہے بلکہ اس بارے میں ساری روایتیں یہی ہیں کہ آنحضرتﷺ کے آخری سال میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس میں دشمنی اور تشدّد کو ختم کرنے کی اور انصاف قائم کرنے کی کیا ہی خوبصورت تعلیم ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ مدینے میں آ کر تشدّد کی تعلیم بڑھ گئی۔ یہ آخری سورۃ جو آنحضرتﷺ کی زندگی میں نازل ہوئی اس کی تعلیم کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (سورۃ المائدۃ آیت 9) کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم انصاف نہ کرو، تم انصاف کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔ اب یہ دکھائیں، یہ خوبصورت تعلیم ان کے یا کسی اور مذہب میں کہاں ہے۔ لیکن جن کو بغض اور کینے نے اندھا کر دیا ہو، ان کو سامنے کی چیز بھی نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ نے تو پہلے ہی فرما دیا ہے کہ جو اندھے ہیں ان کو تم نے راستہ کیا دکھانا ہے، ان کو تم نے روشنی کیا دکھانی ہے، کوشش کر لو، نہیں دکھا سکتے۔
پھر یہ صاحب کہتے ہیں کہ سورۃ توبہ کی آیت 5میں عیسائیوں، یہودیوں اور مرتدوں کے خلاف تشدّد پر اکسایا ہے۔ اگر آنکھوں کے پردے اتار کر دیکھیں، قرآن کریم کو صاف دل ہو کر پڑھیں تو خود ان کو نظر آئے گا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین سے جنگ کی اجازت دی ہے جو باز نہیں آتے، کسی قسم کا معاہدہ نہیں کر رہے ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں۔ اور اب جبکہ اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو حکم ہے کہ ایسے مشرکین سے جو تم سے جنگ کر رہے ہیں تم بھی جنگ کرو کیونکہ وہ تمہارے خلاف فتنہ فساد اور جنگ کی آگ بھڑکا رہے ہیں مختلف قبائل کو بھی بھڑکا رہے ہیں اور صرف یہی نہیں جس طرح یہ فرماتے ہیں کہ سب کو قتل کر دینا ہے بلکہ اس میں قید کا بھی حکم ہے کہ قید کرو، ان کو محصور کرو، ان پر نظر رکھو، تاکہ وہ ملک میں فتنہ وفساد کی آگ نہ بھڑکائیں۔ ا گر خیرت ولڈرز (Geert Wilders) صاحب کے نزدیک ایسی صورت میں بھی کھلی چھٹی ہونی چاہئے، اگر ہر ایک کو اجازت ہے تو پھر یہ اپنے ملک میں پہلے سیاسی لیڈر ہیں جو تمام مجرموں کو کھلی چھٹی دلوانے کے لئے قانون پاس کروائیں گے کہ ہر کوئی جو چاہے کرتا پھرے۔ یہ مجرم کسی خاص مذہب کے نہیں ہوں گے۔ مجرم تو ہر قوم اور ہر مذہب میں ہیں پھر صرف مسلمانوں کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں جو امن سے ملک میں رہ رہے ہیں، جو ملک کے قانون کی پابندی کر رہے ہیں۔ اور آخر پر اپنے کینے کا اظہار اس طرح کر دیا کہ جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اصل میں تو یہ صاحب خداتعالیٰ کے خلاف ہیں، اسلام کے زندہ اور واحد خدا کے خلاف ہیں۔ کیونکہ ان کو یہ نظر آ رہا ہے کہ یہی ایک ایسا دین ہے جو دلیل سے ہر ایک کا منہ بند کرنے والا ہے اس لئے دلیل سے کام نہیں بنے گا، وہ تو ان کے پاس ہے نہیں، ملک کے قانون پاس کرکے سختی سے کام کرو تو پھر ہی بات بنے گی۔ تو یہی ہارے ہوؤں کی نشانی ہوتی ہے۔ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ ہم ہار گئے۔ ہالینڈ میں وقتاً فوقتاً اسلام کے خلاف باتیں اٹھتی رہتی ہیں، ابال اٹھتا رہتا ہے۔ عورتوں کے پردے کے بارے میں اٹھا اور کبھی کسی معاملے میں اٹھا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام ڈچ قوم ایسی ہے، شرفاء بھی ان میں ہیں، لیڈرز میں بھی اچھے لوگ ہیں، مختلف قسم کے لوگوں میں اچھے لوگ ہیں اور انہوں نے اس بات پرجوقرآن کریم کے بارے میں انہوں نے کی اور آنحضرتﷺ کے بارے میں کی، ردّ عمل کا اظہار بھی کیا ہے، ان کے ایک ممبر پارلیمنٹ ہیں ہالبے زائل سترا (Helbe Zejlstra) یا جو بھی نام ہے یہ اس کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ آپ کو مذہبی آزادی سلب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ پھر یراؤن دائسل بلوم (Jeroen Dijselbloem) لکھتے ہیں کہ ولڈرز (Wilders) اپنے راستہ سے بھٹک گیا ہے۔ ہالینڈ میں آپ جس طرح کے عقیدے پر ایمان رکھنا چاہیں رکھ سکتے ہیں۔ ایک اور پارٹی کے لیڈر نے لکھا(یہ ممبر پارلیمنٹ ہیں ) کہ تمام حدود کو پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے، ولڈرز (Wilders) کو ایک ریشسٹ (Raciest) کا نام دینا چاہئے۔ پھر ایک وکیل جو کونسلر رہے ہیں، انہوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں اس کی اس حرکت پر پولیس میں کیس درج کروایا ہے۔ ایک خاتون نے بھی اس کی بات کو ردّ کیا ہے۔ اسی طرح ایک نے لکھا کہ کتابوں پر پابندی لگانا دراصل ڈکٹیٹرشپ کا آغاز ہے۔ یہاں کی کابینہ نے بھی ولدرز (Wilders) کے بیان پر سخت ردّعمل ظاہر کیا ہے اور کہتے ہیں کہ اس قسم کے بیانات دے کر ہالینڈ میں بسنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت کی بے عزتی کی گئی ہے۔ وزیر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ ہالینڈ میں قرآن پر پابندی کا کوئی خیال نہیں۔ بہرحال یہاں شرفاء بھی ہیں اور اس قسم کے لوگ بھی ہیں۔ ہر احمدی کا فرض ہے کہ جہاں مخالفین کے اعتراض کو ردّ کریں، ان کو جواب دیں وہاں ان شرفاء کا شکریہ بھی اداکریں جو ابھی تک اخلاقی قدریں رکھے ہوئے ہیں۔ اُن تک اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچائیں۔ ان کے اندر جو نیک فطرت اور انصاف پسند انسان ہے، اس کو ایک خدا کا پیغام پہنچائیں۔ آج دنیا میں جو ہر طرف افراتفری ہے اس کی وجوہات بتائیں کہ تم لوگ خدا سے دور جا رہے ہو، اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچانو، ان میں بھی ایک خدا کا پیغام پہنچائیں ان کو بتائیں کہ دل کا چین اور سکون دنیا کی چکا چوند اور لہو و لعب میں نہیں ہے، نشّہ میں نہیں ہے۔ دلی سکون کے لئے یہاں کے لوگ نشہ کی بہت آڑ لیتے ہیں، ہر قسم کا نشہ کرتے ہیں۔ ان کو بتائیں کہ اصل سکون خدا کی طرف آنے میں ہے، اس لئے اس خدا کو پہچانو جو واحد اور تمام قدرتوں کا مالک ہے۔ جو لوگ حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور مذہب سے دور جانے والے ہیں یا مذہب اور خاص طور پر اسلام سے استہزاء کرنے والے ہیں، ان کے پیچھے نہ چلو۔ اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کی پکڑبھی کرتا ہے، ولڈرز(Wilders)جیسے لوگوں کو بھی بتائیں کہ اللہ کے عذاب کو دعوت نہ دو، اور اللہ کی غیرت کو نہ بھڑکاؤ۔
آج کل جو یہ طوفان اور زلزلے دنیا میں آ رہے ہیں، پانی کے طوفان ہیں، کہیں ہواؤں کے طوفان ہیں، کہیں زلزلے آ رہے ہیں۔ یہ وارننگز ہیں کہ حد سے زیادہ بڑھنے والے اس کی لپیٹ میں بھی آ سکتے ہیں، کوئی دنیا کا ملک محفوظ نہیں ہے، کوئی دنیا کا شخص محفوظ نہیں ہے۔ ہالینڈ تو ویسے بھی ایسا ملک ہے جس کا اکثر حصہ سمندر سے نکالا ہوا ہے، طوفان تو بلندیوں اور پہاڑوں کو بھی نہیں چھوڑتے، یہ تو برابر کی جگہ ہے بلکہ بعض جگہ نیچی بھی ہے۔
1953ء میں یہاں طوفان آیا تھا جس نے بڑی آبادی کو نقصان پہنچایا تھا اس کے بعد ان لوگوں نے، یہاں کی حکومت نے بچاؤ کے لئے ایک بڑا منصوبہ بنایا جس میں دریاؤں کے منہ پر سمندر میں بہت سارے بند باندھے گئے، روکیں بنائی گئیں، ڈیم بنائے گئے، یہ منصوبہ جہاں مختلف جگہوں پر ہے ڈیلٹا ورکس کہلاتا ہے، مَیں بھی اسے دیکھنے گیا تھا، یہ ایک اچھی انسانی کوشش ہے لیکن دنیا میں آج کل جس طرح طوفان آ رہے ہیں، کوئی بھی ملک اس سے محفوظ نہیں ہے۔ ہمارے ساتھ وہاں گائیڈ تھا، مجھے کہنے لگا کہ اس کی وجہ سے ہم نے آئندہ کے لئے ہالینڈ کو محفوظ کر دیا ہے۔ تو مَیں نے اس سے کہا کہ یہ کہو کہ محفوظ کرنے کی جو بہترین کوشش ہو سکتی تھی ہم نے کی ہے۔ اصل تو خدا جانتا ہے کہ کب تک کے لئے تم نے اس کو محفوظ کیاہے، اور کب تک یہ حفاظت رہے گی۔ کہنے لگا کہ بالکل ٹھیک ہے۔ اس کے بعد جتنی دیر بھی وہ مجھے تفصیل بتاتا رہا، ہر فقرے کے ساتھ یہی کہتا تھا کہ یہ کوشش ہے، کیونکہ ایسے طوفان عموماً 200سال بعد آتے ہیں۔ لیکن اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب طوفان آئے اور کس حد تک یہ محفوظ رہ سکے۔ بہرحال اس دوران میں جب بھی وہ مجھے کوئی تفصیل بتا رہا تھا، کم از کم چار پانچ مرتبہ اس نے خدا کی خدائی کا اقرار کیا اور بیان کیا کہ ہاں اگر اللہ محفوظ رکھے تو ہم رہ سکتے ہیں۔ تو یہاں ایسے لوگ ہیں جن کو اگر سمجھایا جائے تو ایک خدا کا تصور فوراً ابھرتا ہے۔ آفت میں گھرے ہوں تو اللہ کہتا ہے کہ اس وقت میرا نام ہی لیتے ہیں اور کوئی خدا یاد نہیں آتا۔ اس نے مجھے کہا کہ وزیٹرز بک (Visitor’s Book) پر اپنے تأثرات لکھ دو، دستخط کرو تو مَیں نے اس پر یہی لکھا کہ یہ ایک اچھی انسانی کوشش ہے اور کوشش کے لحاظ سے ایک زبردست منصوبہ ہے جو ملک کو بچانے کے لئے انجینئرز نے بنایا ہے۔ لیکن ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اصل منصوبے خداتعالیٰ کے ہیں اور حقیقی حفاظت میں رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی یاد ہمیشہ رہنی چاہئے۔
تو بہرحال آج کل دنیا جس مادیت پرستی میں پڑی ہوئی ہے، اور اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے، مغرب بھی اسی طرح ہے اور مشرق بھی اسی طرح ہے، سب خدا کو بھولے ہوئے ہیں۔ پھر بعض طبقے جو مزید آگے بڑھے ہوئے ہیں وہ پھر اللہ تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکانے والے بھی ہیں، نہ صرف بھولے ہوئے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بیہودہ گوئی بھی کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں خداتعالیٰ کے عذاب کو آواز دینے والی ہیں۔ پس ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں اتمام حجت کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جائے۔ اسلام کی صحیح تصویر دنیا کو دکھائیں۔ عیسائیوں کو بھی، یہودیوں کو بھی، لامذہبوں کو بھی اور مسلمانوں کو بھی جو تمام نشانات دیکھنے کے باوجود مسیح موعود کا انکارکر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی، پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ268 مطبوعہ لندن)
گزشتہ 100سال کا جائزہ لیں تو زلزلوں اور آسمانی آفات کی تعداد گزشتہ کئی 100سال سے زیادہ ہے۔ گزشتہ گیارہ بارہ سو سال میں اتنی آفات نہیں آئیں جتنی گزشتہ 100سال میں آئی ہیں۔ اس سال بھی کئی زلزلے اور طوفان آئے اور دنیا میں کئی جگہ آئے، یہ انسان کو وارننگ ہے کہ خدا کو پہچانو۔ ہر احمدی کا کام ہے کہ جہاں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے دنیا کو بھی بتائے کہ ان آفات سے بچنے کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ ایک خدا کو پہچانو اور اس کے پیاروں کو ہنسی ٹھٹھے کا نشانہ نہ بناؤ۔
ساری دنیا میں اس سال چند مہینوں میں جو قدرتی آفات آئی ہیں، ان کا مختصر جائزہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں، کبھی یہ نہیں ہوا کہ چند ماہ میں دنیا کا ہر خطہ کسی نہ کسی آفت کی لپیٹ میں آ گیا ہو لیکن اس سال آپ دیکھیں گے کہ ہر جگہ آفات آ رہی ہیں۔ ان کو بتائیں کہ اب بھی وقت ہے کہ انسان خدا کو پہچانے۔ یہ چھوٹے درجہ کی جو آفات ہیں یہ انتہائی درجہ کی بھی ہو سکتی ہیں۔ پس ہر احمدی پہلے سے بڑھ کر دنیا تک خدا کا پیغام پہنچانے والا بن جائے۔ مَیں نے جومعلومات لی تھیں، پتہ نہیں یہ مکمل بھی ہیں کہ نہیں لیکن اس کے مطابق اس سال فروری میں انڈونیشیا میں Floods آئے، 3لاکھ چالیس ہزار آدمی گھروں سے بے گھر ہو گئے۔ پھر 2زلزلے آئے 6.4 اور 6.3 ریکٹر سکیل میں میگنی چیوڈ تھا۔ پھر چند گھنٹوں کے وقفے سے انڈونیشیا، سماٹرا میں زلزلہ آیا۔ پھر سولومن آئی لینڈز پیسیفک میں زلزلہ آیا، بہت بڑا زلزلہ تھا، بڑی تباہی پھیلائی اور ہزاروں آدمی بے گھر ہو گئے۔ ریکٹر سکیل پر 8.1 میگنی چیوڈتھا۔ پھر پاکستان میں Floods آئے، کراچی میں بارشوں سے بے تحاشا Floods آئے۔ ہزاروں آدمی بے گھر ہو گئے، کئی مرے، کہتے ہیں کہ بلوچستان میں تقریباً 25 لاکھ آدمی متاثر ہوئے۔ 80 ہزار گھر تباہ ہو گئے، ساڑھے 6ہزار گاؤں برباد ہو گئے۔ پھر جون میں پاکستان میں سائیکلون (Cyclone) کا خطرہ تھا، بہرحال وہ ٹل گیا لیکن دوسری طرف بلوچستان کی طرف چلا گیا، وہاں تباہی پھیلائی۔ پھر جون میں بنگلہ دیش میں ایک بہت بڑا طوفان آیا جس سے بڑی تباہی ہوئی۔ پھر جولائی میں انڈیا میں Floods آئے، پھر جولائی میں یوکے میں بھی Floods آئے اور آدھا یو کے ڈوب گیا اس سے پہلے جو طوفان آ چکے ہیں اس سے جرمنی وغیرہ ہر جگہ متاثر ہوئے تھے۔ پھر پاکستان میں آسمانی بجلی گرنے سے بڑی تباہی ہوئی، پھر جاپان میں زلزلہ آیا اس کا بھی 6.8 میگنی چیوڈ تھا۔ پھر اگست میں امریکہ میں طوفان آئے، کئی عمارتیں گر گئیں، کافی تباہی ہوئی۔ چین میں پُل گر گئے جو طوفان سےCollapse ہوئے اور کافی تباہی ہوئی۔ نارتھ کوریا میں بارشوں اور Flood سے تباہی ہوئی۔ پھر پیرو میں زلزلہ آیا، اس نے بڑی تباہی مچائی۔ پاکستان میں اس کے بعد پھر دوبارہ Floods آئے تو یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن کے بارہ میں مَیں نے مختصراًبتایا ہے، یہ توجہ دلانے والی ہیں۔ آسٹریلیا میں طوفان سے بڑی تباہی آئی، ان کی بڑی بڑی موٹرویز ڈوب گئیں، بلکہ بہہ گئیں جس کا وہاں تصور نہیں تھا۔ پھر برکینا فاسو افریقہ میں پچھلے دنوں بارش ہوئی، خوفناک تباہی آئی، دو لاکھ آدمی متاثر ہوئے۔ پھر ہوائی (Hawai) میں ہر یکین (Hurricane)سے تباہی آئی اور ساتھ زلزلہ بھی آیا اور وہ کہتے ہیں ہوائی میں اس قسم کے طوفانوں اور زلزلوں کا بہت کم امکان ہوتا ہے۔ پھر بحیرہ عرب (Arabian Sea) میں طوفان آیا، کہتے ہیں دوسرے سمندروں میں تو ایسا طوفان آتا ہے، لیکن اس قسم کا طوفان بحیرئہ عرب میں کبھی نہیں آتا۔ وہی طوفان خشکی پر بھی چڑھ سکتا تھا جس کو ٹراپیکل سائیکلون (Tropical Cyclone) کہتے ہیں۔ البامہ (Alabama) میں طوفان آیا، پہلے وارننگ تھی، انہوں نے بڑی تیاری کی تھی، اس کے باوجود اس نے بڑی تباہی پھیلائی۔ کہتے ہیں کہ اس میں ایک ہائی سکول کی ایک عمارت گر گئی، عمارت میں لوگوں نے پناہ لی ہوئی تھی، دوسری جگہ پناہ لی تو وہ عمارت تباہ ہو گئی اور اس طرح بہت ساری عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ جہاں لوگ پناہ لیتے تھے اسی کو یہ ٹارینڈو (Tornado) اڑا کر لے جاتا تھا۔ اسی طرح جنوبی افریقہ میں بھی بڑا طوفان آیا۔ یہ ساری چیزیں بتا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کام کر رہی ہے اور انسان کو اس طرف توجہ دلا رہی ہے کہ ایک خدا کی پہچان کرو اور حد سے آگے نہ بڑھو، انبیاء کا اور خدا کا استہزا ء نہ کرو۔
یہ آیت جومَیں نے تلاوت کی ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے کہ کیا وہ لوگ جنہوں نے بُری تدبیریں کیں امن میں ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان کے پاس عذاب وہاں سے آ جائے
جہاں سے وہ گمان نہ کرتے ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ بُری تدبیر کرنے والے اللہ کے سامنے ٹھہر نہیں سکتے ہیں۔ جب یہ لوگ حد سے بڑھتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی چکی چلتی ہے۔ پس یہ بظاہر جو چھوٹے چھوٹے طوفان اور زلزلے ایک تسلسل کے ساتھ اس سال دنیا میں آئے ہیں، ان سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔ مغرب کو بھی اور مشرق کو بھی اور ہر مذہب والے کو بھی۔ مسلمانوں کو بھی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی۔ اس بات کو سوچیں اور وجہ تلاش کریں کہ کیوں خدا کا عذاب بھڑ کا ہے۔ آواز دینے والے کی اس آواز پر غور کریں، جو آپ نے فرمایا تھا کہ مَیں نہ آیا ہوتا تو بلاؤں میں تاخیر ہو جاتی۔ پس اگر ان بلاؤں سے بچنا ہے تو اس آنے والے کی آواز پر مسلمانوں کو بھی غور کرنا ہو گا اور عیسائیوں کو بھی غور کرنا ہو گا اور دوسرے مذاہب والوں کو بھی غور کرنا ہو گا اور لامذہب والوں کو بھی غور کرنا ہو گا۔ ورنہ پھرآواز دینے والے کا یہ اعلان بھی ہے کہ:’’ اے یورپ! تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تُو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ مَیں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا۔ مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ مَیں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں ‘‘۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں : ’’خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔ جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ کیڑا ہے نہ کہ آدمی۔ اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ269 مطبوعہ لندن)
پس یہ پیغام ہے جو آج ہر احمدی نے دنیا میں، دنیا کی بقا کے لئے، دنیا کوبچانے کے لئے دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی خدا کی حقیقی پہچان کی توفیق دے اور دنیا کو بھی اس واحد خدا کی پہچان کرانے والا بنائے تا اس واحد اور یگانہ خدا کے عذاب کی بجائے ہم اس کے رحم کو حاصل کرنے والے بن سکیں۔
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 14تا 20ستمبر 2007ء ص 5 تا 7)
ہالینڈ کے ایک سیاسی لیڈر کے اسلام، بانی اسلامﷺ اور قرآن مجید پر اعتراضات کا جواب اور احباب جماعت کو اس پہلو سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو نیک فطرت، انصاف پسند لوگوں تک پہنچانے کی تاکیدی نصائح، آج کل یہ طوفان اور زلزلے جو دنیا میں آرہے ہیں یہ وارننگز ہیں۔
فرمودہ مورخہ 24؍اگست 2007ء (24؍ظہور 1386ہجری شمسی) بمقام نن سپیٹ۔ (ہالینڈ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔