جلسہ سالانہ جرمنی کا کامیاب انعقاد

خطبہ جمعہ 7؍ ستمبر 2007ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد، تعوذ و سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:

الحمدللہ! گزشتہ اتوار کو جماعت احمدیہ جرمنی کا سالانہ جلسہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اختتام کو پہنچا۔ آج اس جلسے کے حوالے سے ہی کچھ باتیں کروں گا۔ ان جلسوں کی تیاری کے لئے ہر سال ٹیمیں بنائی جاتی ہیں جن کے سپرد مختلف کام کئے جاتے ہیں۔ ایک شوق ہوتا ہے، ایک لگن ہوتی ہے جس کے تحت تمام ڈیوٹیاں دینے والے اپنے فرائض ادا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ مجھے بھی جلسے سے پہلے دنیا کے ہر اس ملک سے جہاں جلسے منعقد ہو رہے ہوتے ہیں احمدی خط لکھ رہے ہوتے ہیں کہ دعا کریں تمام انتظامات بخیرو خوبی اپنے انجام کو پہنچیں۔ یہی حال جرمنی کے کارکنان اور مختلف شعبہ جات کے افسران کا ہوتا ہے۔ بہرحال یہ جماعت کا ایک مزاج ہے، ان کی تربیت ہے اور خداتعالیٰ سے تعلق ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جماعت کی تربیت کرکے احمدی کا خداتعالیٰ سے پیدا کیا ہے اور اس ربّ العالمین اور رحمن اور رحیم کی پہچان کروائی ہے جس نے اس زمانے میں آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق کے ذریعے اپنی صفات کا فہم و ادراک ہمیں عطا کروایا۔ ہمیں اپنے عطا کردہ وسائل اور طاقتوں کا صحیح اور استعدادوں کے مطابق استعمال کرتے ہوئے ان سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی جس سے سارے ڈیوٹیاں دینے والے جلسے کے انتظامات اپنی عقل کے مطابق بہترین رنگ میں کرنے کے قابل ہوئے اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس عرصہ میں جب انتظامات کی تیاری ہو رہی تھی، خود بھی ان سب کارکنوں کی دعاؤں کی طرف توجہ رہی اور مجھے بھی دعا کے لئے لکھتے رہے کیونکہ اس کے بغیر ہر احمدی جانتا ہے کہ ہمارا کام ادھورا ہے اور اگر یہ نہیں تو اللہ تعالیٰ سے تعلق کا دعویٰ صرف دعویٰ رہے گا۔ پس ہمارے کام میں برکت بھی اسی لئے پڑتی ہے کہ ہم اُس خدا کے آگے جھکنے والے ہیں جس کے قبضۂ قدرت میں سب کچھ ہے اور وہ تمام مراحل میں ہماری کوششوں کو قبول فرماتے ہوئے ان میں برکت ڈالتا ہے۔ پس جہاں جلسے کا کامیاب انعقاد اور اختتام ہر کارکن کے لئے سکون اور خوشی کا باعث بنتا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کے اس پیار بھرے سلوک کو اسے اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکنے والا اور شکر گزار بنانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ(ابراہیم:8) یعنی اے لوگو! اگر تم شکر گزار بنے تو مَیں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔ پس اللہ تعالیٰ کے یہ انعام پہلے سے بڑھ کر نازل ہوں گے اگر ہم اس کا شکر گزار بندہ بنے رہیں گے۔

اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ خلافت جوبلی سال کا جلسہ آ رہا ہے۔ امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ حاضری بھی اس سال سے زیادہ ہو گی اور انتظامات بھی اس سال سے شاید زیادہ وسیع کرنے پڑیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو بھی پہلے سے بڑھ کر یاد رکھیں کہ تمہارے انتظامات کی بہتری میری مرہونِ منت ہے۔ اس لئے ہمیشہ میرے پہلے انعاموں پر، احسانوں پر، رحمانیت کے جلوے دکھانے پر پہلے سے بڑ ھ کر شکر گزار بندے بنتے ہوئے میرے آگے جھکنے والے بنو۔ انتظامات کی احسن رنگ میں سرانجام دہی کو صرف اپنی ہوشیاری اور چالاکی اور عقل اور محنت پر محمول نہ کرو بلکہ میری خاطر کئے گئے کاموں میں، اللہ تعالیٰ کی خاطر کئے گئے کاموں میں، اُسی وقت برکت پڑے گی جب اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنتے ہوئے، جب اللہ تعالیٰ کا عبد شکور بنتے ہوئے، اللہ کے آگے جھکتے ہوئے اس کا شکر گزار بنو گے۔

پھر اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ جتنی چاہے کام میں وسعت پیدا ہو جائے، جتنی چاہے بظاہر انتظامات میں دقتیں نظر آتی ہوں، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کے لئے ہر وقت موجود ہو گا، بلکہ پہلے سے بڑھ کر انعامات اور افضال کی بارش برسائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنے دل و دماغ کو تازہ رکھیں گے تو یہ شکر گزاری بڑھے گی اور شکر گزاری کا اظہار ہو گا جس سے فضلوں کی بارش ہمیشہ جماعت پر ہوتی رہے گی۔ آنحضرتﷺ  کا کیا اُسوہ تھا۔ آپؐ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے ذکر کرنے والا اور اپنا شکر کرنے والا بنا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الوتر باب مایقول الرجل اذا سلّم حدیث نمبر 1510)

پھر شکر گزاری کے لئے آنحضرتﷺ کا یہ فرمان بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے، دوسرے فرمایا اللہ کے ان بندوں کا بھی شکر گزار بنو جنہوں نے تمہاری کسی نہ کسی رنگ میں، کسی نہ کسی معاملے میں مدد کی۔ کیونکہ اگر تم اللہ کی مخلوق سے فیض پا کر اس کے شکر گزار نہیں بنتے تو پھر اللہ تعالیٰ کے شکر کی عادت بھی تم میں پیدا نہیں ہو گی۔ پس جماعتی انتظامات جس کے لئے انتظامیہ کوشش کرتی ہے اس کے لئے جماعتی انتظامیہ کو بھی اور ان لوگوں کو بھی، ان تمام کارکنان کا شکر گزا ر ہونا چاہئے جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں جلسے کے انتظامات میں کوئی کردارادا کیا ہو، کوئی کام کیا ہو، کوئی خدمت کی ہے جس سے جلسے کے کاموں میں آسانی پیدا ہوئی، جس سے لوگوں کو سہولت سے جلسہ سننے کا موقع فراہم ہوا۔ بڑے آرام اور سکون سے تمام لوگوں نے، نہ صرف جلسہ سنا بلکہ رہائش، کھانے اور دوسرے انتظامات میں بھی کم سے کم تکلیف میں یہ دن گزرے۔ ظاہر ہے جب ایسے وسیع انتظامات ہوتے ہیں تو گھر جیسی سہولت تو بہرحال نہیں ہوتی، سفر میں کچھ نہ کچھ تکلیف تو برداشت کرنی پڑتی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ بہتر انتظامات کی حالات کے مطابق انتظامیہ کوشش کرتی ہے اور کارکنان اس کے مطابق کام کرتے ہیں اور یہ کام کارکنان کے اخلاص کی وجہ سے انجام کو پہنچتا ہے جس میں مرد بھی شامل ہیں، عورتیں بھی شامل ہیں، لڑکے بھی، لڑکیاں بھی اور سب ایک جوش کے ساتھ یہ کام سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ مزاج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کیا ہے اور یہ غیروں کو بھی نظر آتا ہے۔ مالٹا کے ایک ممبر پارلیمنٹ اور انڈونیشیا سے آئے ہوئے دو بڑے اسلامی سکالرز یہ اعتراف کر گئے ہیں کہ آپ کے انتظامات میں ایک عجیب ڈسپلن تھا اور اِسی طرح اَور غیر مسلم عیسائی، بلغاریہ سے بھی آئے ہوئے تھے اس بات کو دیکھ کر حیران ہوتے تھے اور اس بات کا برملااظہار کیا کہ تم لوگ عجیب قسم کے لوگ ہو، کس طرح جلسے کے تمام انتظام خود ہی بغیر کسی حکومتی مدد کے کر لیتے ہو۔ اور پھر اس بات پر بھی حیران تھے کہ ڈسپلن (Discipline) بھی جیسا کہ مَیں نے کہا کس طرح عمومی طور پر قائم رہتا ہے اور ڈسپلن کا بڑے احسن طریق پر شامل ہونے والے کی طرف سے بھی اور ڈیوٹی دینے والوں کی طرف سے بھی اس کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ ہم احمدی اپنے مزاج کے مطابق بعض دفعہ جس کام کو کم معیار کا سمجھتے ہیں، یہ لوگ اس کو بھی اعلیٰ معیار کا سمجھتے ہیں۔ بعض دفعہ بعض بے قاعدگیاں جوہمیں برداشت نہیں ہو رہی ہوتیں، ان کے لئے نارمل ہوتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ غیروں کے آگے جماعت کی عزت و وقار قائم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فضل کے شکرانے کے طور پر بھی ہمارے معیار مزید بہتر ہونے چاہئیں، مزید بہتر ہونے کی کوشش ہونی چاہئے اور اس کوشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے اور اس کا ذکر کرنے کے معیار بھی پہلے سے بڑھنے چاہئیں اور جب تک ہم اس سوچ کے ساتھ اپنے امور سرانجام دیتے رہیں گے، ان کو سرانجام دینے کی کوشش کرتے رہیں گے، اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہماری مشکلات خود بخود دور ہوتی چلی جائیں گی۔ ہمارے کاموں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے خود بخود آسانیاں پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔

پاکستان سے آنے والے بھی اور دوسرے ممالک سے آنے والے بھی، جرمنی کے جلسے کو دیکھ کر اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ یہاں کے کارکنان عموماً ایک مشین کے کَل پُرزوں کی طرح بغیر کسی دِقّت کے، بغیر کسی ہنگامے کے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ گو کہ یہ مزاج اب میرے خیال میں جہاں جہاں بھی جماعت کے جلسے ایک عرصے سے ہو رہے ہیں اور بڑے جلسے ہوتے ہیں، یو کے کے جلسوں میں بھی اور باقی جلسوں میں بھی قائم ہو چکا ہے اور ایک لمبے عرصہ کے جلسوں کے انعقاد کی وجہ سے کارکنان عموماً دنیا میں جہاں بڑی جماعتیں ہیں اس وجہ سے کافی تجربہ کار ہو چکے ہیں۔ لیکن جرمنی میں شروع سے ہی یہ مزاج اس لئے ہے کہ پاکستان سے بہت سے ایسے لوگ یہاں آ کر آباد ہوئے، جرمنی کی جماعت نے جب وسعت اختیار کرنا شروع کی تو ابتدا میں ہی یہاں ایسے لوگ آئے جن کو کام کا تجربہ تھاجو پاکستان کے جلسوں میں ڈیوٹیاں دیا کرتے تھے۔ خدام الاحمدیہ کے تحت ٹریننگ ہوتی رہی۔ بلکہ جیسا کہ مَیں ایک دفعہ پہلے بھی ذکر کر چکاہوں کہ اب جب انشاء اللہ تعالیٰ پاکستان میں جلسے ہوں گے تو یہ فکر پیدا ہوتی ہے کہ ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے ایک لمبا عرصہ گزر گیا ہے، وہاں کے انتظامات میں کوئی دِقّت نہ ہو اور جب انشاء اللہ تعالیٰ وہاں جلسہ ہو گا تو وہ بھی اتنا بڑا اور وسیع ہو گا کہ یو کے اور جرمنی کے دونوں جلسے ملا کر بھی شاید وہاں دس گنا زیادہ حاضری ہو۔ لیکن بہرحال یہ فکر بھی رہتی ہے اور یہ تسلی بھی کہ جب موقع آتا ہے اللہ تعالیٰ خود انتظامات بھی فرما دیتا ہے۔ وقت آنے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی کام کر ہی لیتا ہے، روٹین کا کام چاہے کریں نہ کریں لیکن احمدی مزاج میں ہنگامی کام کرنے کی بڑی صلاحیت ہے۔ بہرحال مَیں جرمنی کے کارکنان کی آرگنائزڈ (Organized) طریقے پر کام کرنے کی بات کر رہا تھا، اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس لحاظ سے یہ بڑا آرگنائزڈ جلسہ ہوتا ہے۔ اس میں انتظامی لحاظ سے بڑا ٹھہرا ؤ ہوتا ہے۔ یو کے سے آئے ہوئے ایک عزیز نوجوان سے مَیں نے پوچھا کہ تمہیں UKکے جلسہ میں اور جرمنی کے جلسہ میں کیا فرق نظر آیا؟ تو اس کا فوری جواب یہ تھا کہ یہاں کا جلسہ زیادہ آرگنائزڈ لگتا تھا۔

اس کی زیادہ وجہ تو یہی ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ پاکستان سے آئے ہوئے ٹرینڈ کارکنان کا میسر آ جانا اور ان کا آگے پھر دوسروں کو بھی ٹریننگ دینا لیکن یہ سُن کے شاید یو کے والے پریشان ہو رہے ہوں، ان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایک لمبے عرصے کی ٹریننگ کے بعد ان کے معیار بھی بڑے بلند ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں انتظامات کی بہتری کا نظر آنا اس جگہ کے میسر آنے کی وجہ سے بھی ہے جو جگہ مئی مارکیٹ یامن ہائم میں جماعت کو جلسے کے لئے ملی ہے جس میں بہت سے انتظامات موجود ہیں۔ ایسا انفراسٹرکچر (Infrastructure) میسر ہے جس کی وجہ سے بہت سے کام نہیں کرنے پڑتے، جس کی وجہ سے دوسرے کاموں میں بہتری کی زیادہ کوشش ہو جاتی ہے۔ اتنی بڑی جگہ کا بہت سی سہولتوں کے ساتھ ملنا بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس کا شکر گزار بننا چاہئے۔ گو کہ بعض قسم کی پابندیاں بھی ہیں جن میں سے گزرنا پڑتا ہے لیکن یہ پابندیاں بھی ہمارے فائدے کے لئے ہیں، ہمارے کاموں میں بہتری پیدا کرنے کے لئے ہیں، ان کے معیار بلند کرنے کے لئے ہیں۔ مثلاً محکمہ صحت یا جو بھی محکمہ ایسے معاملات سے تعلق رکھتا ہے اس نے لنگر خانہ کے معیار صفائی کو بہتر بنانے کا کہا تھا۔ یہ تو بڑی اچھی بات ہے، صفائی اور نظافت تو ایمان کا حصہ ہے اور بہت سے باہر سے آنے والوں نے بھی اس بات کا اظہار کیا کہ اس دفعہ ڈائننگ ہال کا معیار صفائی بھی بہت اچھا تھا۔

پھر برتنوں کی صفائی دھلائی کے معیار کو بہتر کرنے کے لئے ہمارے ایک انجینئر نے دیگیں دھونے کے لئے ایک سیمی آٹو میٹک (Semi Automatic) مشین بنائی ہے جس میں مزید بہتری پیدا کرکے اس کو آٹو میٹک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے ایک منٹ میں ایک دیگ اس طرح چمک جاتی ہے جیسے کبھی اس کو استعمال ہی نہیں کیا گیا ہو، بالکل نئی ہو۔ تو یہ بھی اس دفعہ کے بہتر انتظامات میں ایک نئی چیز شامل ہوئی ہے۔ مَیں نے انجینئر صاحب کو کہا ہے کہ اَور ایسی مشینیں بنائیں اور اس میں مزید بہتری پیدا کریں اور اس کو پیٹنٹ (Patent) کروا لیں۔ دنیا کے مختلف جگہوں پر جہاں بڑے جلسے ہوتے ہیں، پہلے تو ہم ان کو یہ صفائی کرنے کے لئے دیں گے۔ بڑی سادہ اور کارآمد مشین ہے۔

پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اور ہمارے دل اس شکر گزاری میں اور بھی بڑھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو ایسے دماغ عطا فرمائے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ کس طرح کم سے کم خرچ میں ایسی چیزیں بنائی جائیں، ایسی ایجادیں کی جائیں جو جماعت کے مختلف شعبوں میں کام آ سکیں۔ پس یہ جو دوسروں کو آپ کام کرنے والوں کے بہتر انتظامات نظر آتے ہیں، ہر سال اس میں بہتری پیدا ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ جو یہ توفیق دیتا ہے کہ اپنے دماغ کو کام میں لا کر جماعتی ضروریات کے لئے ایجادات کریں، یہ چیزیں کسی بھی کام کرنے والے کے ذہن میں کسی قسم کا تکبر اور بڑائی پیدا نہ کرے بلکہ مزید عاجزی سے خداتعالیٰ کے حضور جھکتے چلے جائیں، شکر گزاری میں مزید بڑھتے چلے جائیں کہ خداتعالیٰ ہمیں خدمت کی توفیق دے رہا ہے۔ اور یہ عاجزی اور شکر گزاری اُس وقت حقیقی عاجزی اور شکر گزاری کہلائے گی جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جب اپنی عبادتوں کی بھی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔ اپنی ہر کوشش کو خداتعالیٰ کا انعام سمجھیں گے اور اس کا فضل جانیں گے۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی پر اللہ تعالیٰ کے فضل جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے اور جماعت بن کر رہنے کی وجہ سے ہیں۔ نظام جماعت کے ساتھ منسلک رہنے کی وجہ سے ہیں۔ اطاعت کے جذبے کے تحت ہر خدمت بجا لانے کی وجہ سے ہیں۔ پس اس چیز کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور اطاعت نظام کا جذبہ پہلے سے بڑھ کر اپنے دلوں میں پیدا کریں۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ہر احمدی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے تعلق کے معیار کو بلند سے بلند تر کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ اطاعتِ نظام کے اعلیٰ نمونے دکھائے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اطاعتِ خلافت، اطاعتِ نظام سے منسلک ہے۔ اگر کسی کا غلط رویہ دیکھیں، نظام جماعت کے کسی پرزے، کسی عہدیدار کی اصلاح چاہتے ہوں تو خلیفۂ وقت کو اطلاع کر سکتے ہیں لیکن اطاعت سے انکار کسی طرح بھی قابلِ برداشت نہیں۔ پس جلسوں کی غیر معمولی کامیابی کی حقیقی شکر گزاری کا بھی صحیح طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بھی امتیازی اور نمایاں تبدیلی پیدا ہو اور نظامِ جماعت کی اطاعت کا بھی بہترین نمونہ بنیں۔ ہمیشہ یہ بات پیش نظر رکھیں کہ آنحضرتﷺ ہمارے اطاعت کے کیا معیار دیکھنا چاہتے تھے؟ کیا تعلیم ہمیں دی ہے اور وہ یہ کہ تمہارا حق ادا ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا، لیکن تمہارا یہ فرض ہے کہ سنو اور اطاعت کرو۔ ان لوگوں پر جن پر تمہارے حقوق ادا کرنا فرض ہے اُن پر اُن کے عملوں کا بوجھ ہے اور تمہارے پر تمہارے عملوں کا بوجھ۔ پس اللہ تعالیٰ خود ایسے حق ادا نہ کرنے والے عہدیداروں سے پوچھ لے گا۔ جماعتِ احمدیہ پر تو اللہ تعالیٰ کا یہ بھی بہت بڑا فضل ہے اور احسان ہے کہ خلافت کی نعمت سے نوازا ہے اور اس کو اپنے انعاموں میں سے ایک انعام کہا ہے۔ پس یہ انعام بھی اس لئے ہے کہ اس نے حق کا ساتھ دینا ہے۔ خلیفۂ وقت کسی کی پارٹی نہیں ہوتا۔ کسی سے ایسا رویہ اختیار نہیں کرتا کہ یہ اظہار ہو رہا ہو کہ اس کی طرفداری کی جا رہی ہے۔ اگر کوئی شکایت ہو تو خلیفۂ وقت کو اطلاع دی جا سکتی ہے۔ پس نئے احمدی بھی اور پرانے احمدی بھی یہ نمونے قائم کریں تو جماعتی ترقی میں ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ جلسے کے دنوں میں مَیں نے مقامی جرمن لوگوں سے ایک میٹنگ کی، جو نومبائع تھے اور چند مہینے پہلے احمدی ہوئے، کچھ چند سال پرانے بھی تھے۔ وہاں ایک نَو مسلم جرمن نے یہ سوال کیا کہ اگر کوئی عہدیدار رہ چکا ہو اور اب عہدیدار نہ ہونے کی وجہ سے نئے عہدیداروں سے مکمل طور پر تعاون نہ کر رہا ہو، اس کی اطاعت نہ کر رہا ہو تو اس کا کیا علاج ہے؟کس طرح اصلاح کی جائے؟ یہاں اصلاح کا سوال تو بعد میں آتا ہے اس سوال نے تو مجھے ویسے ہی ہلا دیا ہے کہ پاکستان سے آئے ہوئے احمدیوں نے اپنے یہ نمونے قائم کئے ہیں کہ جب تک عہدیدار رہے نظام کی اطاعت پر تقریر بھی کرتے رہے اور اطاعت کی توقع بھی کرتے رہے۔ جب عہدہ ختم ہوا تو بالکل ہی گھٹیا ہو گئے۔ پاکستانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ آپ سے اعلیٰ نمونے کی توقع کی جاتی ہے۔ اگر یہی مثالیں قائم کرنی ہیں تو آپ نے تو اپنی پرانی تربیت بھی ضائع کر دی اور جلسوں کے مقاصد کو بھی ضائع کر دیا۔ دوسرے یہ یاد رکھیں کہ تمام قوموں نے انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت اور حقیقی اسلام میں شامل ہونا ہے اور ہر قوم نے نظامِ جماعت میں شامل ہو کر اپنے ملکوں کا نظام بھی خود چلانا ہے۔ اس لئے اس خیال سے اپنے ذہنوں کو پاک کریں کہ ایک نیا آیا ہوا جرمن ہم پر کس طرح مسلط کیا جا سکتا ہے یا وہ ہمارا عہدیدار کس طرح بن سکتا ہے؟ اس بات سے کہ آپ عہدیدار نہیں بنے اور نیاآیا ہو اعہدیدار بن گیا، آپ کو استغفار کا زیادہ خیال آنا چاہئے، استغفار میں زیادہ بڑھنا چاہئے کہ ہماری کمزوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کی خدمت کا موقع ہم سے لے کر ان نئے شامل ہونے والوں کو دے دیا جو اخلاص و وفا اور اطاعتِ نظام اور اطاعتِ خلافت میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ پس ایسے بدخیالات رکھنے والے اپنی اصلاح کریں۔ اُس جرمن کو تو مَیں نے یہی کہا تھا کہ ان لوگوں کو پیار سے سمجھائیں، ان کے لئے دعا کریں۔ اگر پھر بھی باز نہیں آتے تو امیر صاحب کو لکھیں۔ اگر امیرصاحب کے کہنے پر بھی اصلاح نہیں کرتے تو مجھے لکھیں تاکہ ایسے لوگوں کے خلاف پھر تعزیری کارروائی ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو نیک اور اخلاص میں بڑھے ہوئے لوگ چاہئیں نہ کہ خود سر اور خود پسند لوگ، نہ کہ وہ لوگ کہ جب تک مفاد ہو اطاعت پر زور دیتے رہیں اور جب مفاد نہ رہا تو اطاعت بھی ختم ہو گئی۔

جرمن نَو احمدی ماشاء اللہ نظامِ جماعت کو سمجھنے میں بھی بہت ترقی کر رہے ہیں۔ ایک جرمن نوجوان نے سوال کیا کہ ایک طرف جماعت کا کام ہے، یعنی جماعتی نظام کاجو جماعت کے کسی عہدیدار کی طرف سے ان کے سپرد کیا جاتاہے۔ دوسری طرف ذیلی تنظیموں، خدام، انصار اور لجنہ کے کام ہیں جو ان کے عہدیداروں کی طرف سے سپرد کئے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک ہی وقت میں مجھے جماعتی عہدیدار بھی ایک کام کہتا ہے اور خدام الاحمدیہ کا عہدیدار بھی ایک کام کہتا ہے اور میرا دل بھی نوجوان ہونے کی وجہ سے یہی چاہتا ہے کہ خدام الاحمدیہ کا کام کروں تو اُس وقت کِس کام کو پہلے سرانجام دوں ؟ مجھے ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے۔ اس کو تو مَیں نے اس کا تفصیلی جواب دیا تھا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ جماعتی نظام ایک مرکزی نظام ہے اور خدام، لجنہ اور انصار ذیلی تنظیمیں ہیں اور گو یہ ذیلی تنظیمیں بھی براہِ راست خلیفۂ وقت کے ماتحت ہیں، ان سے ہدایات لیتی اور اپنے پروگرام بناتی ہیں لیکن جماعتی نظام بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور خلیفۂ وقت کے قائم کردہ نظاموں میں سے سب سے بالانظام ہے۔ ہر ذیلی تنظیم کا ممبر جماعت کا بھی ممبر ہے اور جماعت کا ممبر ہونے کی حیثیت سے وہ جماعتی نظام کا پابند ہے۔ اگر کوئی جماعتی عہدیدار کسی نوجوان کو، کسی خادم کو بحیثیت فرد جماعت کوئی کام سپرد کر تا ہے اور اس دوران خدام الاحمدیہ کے عہدیدار کی طرف سے بھی کوئی کام سپرد ہوا ہے تو وہ خادم جس کے سپرد جماعتی عہدیدار نے کام سپرد کیا ہے، بحیثیت خادم نہیں بلکہ بحیثیت فردِ جماعت خدام الاحمدیہ کے متعلقہ افسر کو اطلاع کرکے کہ جماعت کے عہدیدار نے میرے سپرد فلاں فوری کام کیا ہے، اس لئے مَیں اس کو پہلے کرنے کے لئے جا رہا ہوں، اس کام کو پہلے کرے اور خدام الاحمدیہ یا کسی بھی ذیلی تنظیم کا کام بعد میں۔ یہ توہے ہنگامی موقع پر لیکن عام طور پر روٹین (Routine) کے جو کام ہوتے ہیں، اس کا سالانہ کیلنڈر جماعت کا بھی بن جاتا ہے اور ذیلی تنظیموں کا بھی اور جماعت کا کیلنڈر کیونکہ پہلے بن جاتا ہے اس لئے ذیلی تنظیمیں اپنے پروگرامز اس کے مطابق ایڈجسٹ کریں مثلاً اجتماع ہے، ٹورنامنٹس ہیں اور مختلف جلسے ہیں۔ اگر ہنگامی طور پر کوئی جماعتی پروگرام کسی جگہ بن جاتا ہے تو جماعتی پروگرام بہرحال ذیلی پروگراموں پر مقدم ہے۔ ذیلی تنظیموں کے جو پروگرام ہیں ان میں براہ راست جماعتی انتظامیہ کو دخل دینے کا حق نہیں ہے، یہ بھی واضح ہونا چاہئے۔ خدام الاحمدیہ کے کام میں مقامی صدران یا امیر وغیرہ کوئی دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ نہ لجنہ کے کام میں نہ انصاراللہ کے کام میں، باوجود اس کے کہ ان کا نظام بالا ہے۔ اگر امراء خلافِ تعلیمِ سلسلہ اور خلافِ روایت ذیلی تنظیموں سے کوئی کام ہوتا ہوا دیکھیں تو فوری طور پر متعلقہ ذیلی تنظیم کے صدر کوبلا کرسمجھائیں، اگر مقامی طور پر ہو رہا ہے تو امیر کو اطلاع دی جائے اور قائد کو سمجھایا جائے اور پھر فوری طور پر خلیفۂ وقت کو اطلاع دینی ضروری ہے۔ کیونکہ جماعتی روایات کا تقدس بہرحال قائم کرناضروری ہے۔ لیکن یہ فرق یاد رکھنا چاہئے کہ پروگراموں میں براہ راست دخل اندازی نہیں کی جاسکتی۔ بعض اَور جگہوں سے بھی یہ سوال اٹھتے ہیں اس لئے میں ان کومختصراً بیان کر رہا ہوں۔ لجنہ کے اجلاسوں کے بارے میں بھی واضح کر دوں کہ بعض لجنہ کی تنظیموں سے یہ سوال اٹھتے رہتے ہیں کہ مردوں کے جو ماہانہ اجلاسات ہوتے ہیں اس میں لجنہ کو بھی لازماً شامل ہونے کے لئے کہا جاتا ہے۔ اس بارہ میں واضح ہو کہ لجنہ کے کیونکہ اپنے ماہانہ اجلاس ہوتے ہیں اس لئے جماعتی ماہانہ اجلاسوں میں لجنہ کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے، نہ ان کا شامل ہونا ضروری ہے۔ ہاں جو بڑے جلسے ہیں، جیسے سیرت النبی ؐ کا جلسہ ہے یوم مسیح موعود، یوم مصلح موعود، یوم خلافت وغیرہ یا اور کوئی پروگرام جو مرکزی طور پر یا ریجن کے طورپر بنتے ہوں ان میں لجنہ ضرور شامل ہو۔ اس کے علاوہ لجنہ خود بھی اپنے یہ اجلاسات اور جلسے کر سکتی ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذیلی تنظیمیں بنانے کا یہ مقصد تھا کہ جماعت کے ہر طبقے کو جماعتی ایکٹیویٹیز (Activities) میں شامل کیا جائے تاکہ ترقی کی رفتار میں تیزی پیدا ہو۔ ہر ایک کا اپنا اپنا ایک لائحہ عمل ہو تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسابقت کی روح پیدا ہو۔ گاڑی کی پٹڑی کی طرح، لائن کی طرح دونوں برابر چل رہے ہوں، کہیں ٹکراؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے۔ اس کی قدر کریں تاکہ اسلام اور احمدیت کی گاڑی اس پٹڑی پر منزلوں پر منزلیں طے کرتی چلی جائے اور ہم اسلام کا جھنڈا دنیا میں لہراتا ہوا دیکھیں۔ جلسہ کے حوالے سے ایک بات میں عورتوں کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں۔ عموماً عورتوں کی یہ شکایت ہوتی تھی کہ ان کی مارکی میں پروگراموں کے دوران شور بہت ہوتا ہے۔ میری تقریر کے دوران بھی بچوں کی وجہ سے کچھ نہ کچھ حد تک شور رہتاتھا۔ تو مَیں نے انتظامیہ کو کہا تھا کہ یو کے میں بھی اس طرح ہوتا ہے یہاں بھی یہی کریں کہ بچوں والی عورتوں کی علیحدہ مارکی ہو تاکہ جو مین مارکی ہے اس میں شور کم سے کم ہو۔ عورتیں بے شک خود شور مچا رہی ہوں، باتیں کر رہی ہوں لیکن بچوں کی موجودگی کی وجہ سے ان کو بہانہ مل جاتا ہے کہ بچے شور کر رہے ہیں۔ بہرحال اس دفعہ غیرمعمولی طور پرعورتوں نے میری تقریر کے دوران خاموشی کا مظاہرہ کیا اور اس خاموشی کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ مَیں اس بات پر خوش بھی تھا اور اس بات کا افسوس بھی کر رہا تھا کہ یہ میری بدظنی تھی کہ عورتیں بچوں کی آڑ میں خود باتیں کرتی رہتی ہیں۔ لیکن میری یہ خوش فہمی تھوڑی دیر کے بعد ہی دور ہو گئی اور پتہ لگ گیا کہ یہ میری بدظنی نہیں تھی کیونکہ میری تقریر کے علاوہ عورتوں نے خاموشی اختیار نہیں کی اور ایک بڑا طبقہ مسلسل باتیں کرتا رہا اور ڈیوٹی والیوں کے کہنے پر بھی خاموش نہیں ہوتی تھیں۔ کسی کا جواب تھا کہ پہلے فلاں کو چپ کراؤ پھر مَیں چپ کروں گی۔ کسی نے یہ جواب دیا کہ اتنے لمبے عرصے کے بعد تو ہم ملے ہیں۔ ہمارے خاوند تو ملنے بھی نہیں د یتے تو ہم اب بیٹھ کر باتیں بھی نہ کریں۔ اور جو بیچاری نیک نیتی سے جلسہ سننے کے لئے آئی تھیں، وہ جو بیچاری اس نیت سے آئی تھیں اور اس شور کی وجہ سے ان پروگراموں سے استفادہ نہیں کر سکیں ان میں سے بہت ساری ایسی تھیں جنہوں نے رونا شروع کر دیا کہ ہمیں پروگرام بھی سننے نہیں دے رہیں۔ سنا ہے ایک دفعہ تو اتنا شور تھا کہ مائیکرو فون سے بھی آواز نہیں آ رہی تھی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک سال جلسہ ہی اس لئے منعقدنہیں کیا تھا کہ جو جلسے کا مقصد ہے اسے پورا نہیں کیا جاتا۔ مَیں بھی یہ سوچ رہاہوں کہ لجنہ کا وسیع پیمانے پر جلسہ ہی بند کر دیاجائے اور چھوٹے چھوٹے ریجنل جلسے کئے جائیں اور پھر اگرتربیت ہو جائے، تسلی ہو جائے تو پھر مرکزی جلسہ کریں۔ یا پھر دوسری صورت یہی ہے کہ تھوڑا سا ان کو توجہ دلانے کے لئے مَیں لجنہ میں براہ راست خطاب بند کر دوں اور جب تک یہ اطلاع نہیں مل جاتی کہ اس سال تمام پروگرام لجنہ نے خاموشی سے سنے ہیں اس وقت تک وہاں خطاب نہ کیاجائے۔

مجھے پتہ ہے، احساس ہے کہ عورتوں کی کافی تعدادجو خالصتاً جلسہ کی نیت سے آتی ہیں ان کے لئے بہت تکلیف دہ ہو گا۔ لیکن علاج کے لئے بعض دفعہ کڑوی گولیاں دینی پڑتی ہیں۔ تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ایک سال جلسہ نہیں کیا تھا، حالانکہ بڑے اخلاص سے بڑی تعداد جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئی تھی تو یہاں بھی ایک صورت کی جائے تاکہ شاید اصلاح ہو جائے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صرف نَومبائعات جو بڑے آرام سے اور شوق سے جلسہ سنتی ہیں اور بیس پچیس سال تک کی لڑکیاں، عورتیں جن میں فی الحال کم باتیں کرنے کا شوق ہے، ان کو جلسہ پر یا مرکزی اجتماع پر آنے کی اجازت ہو اور باقیوں پر پابندی لگا دی جائے اور صرف یہاں نہیں بلکہ مَیں اب سوچ رہاہوں کہ اپنے نمائندوں کے ذریعہ سے مختلف ملکوں میں اس طرح کے جائزے لوں جہاں بڑی جماعتیں ہیں۔ عورتوں کو اتنی مرتبہ توجہ دلائی گئی ہے کہ اپنے مقام کو سمجھیں اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا کریں لیکن بہت کم اثر ہوتا ہے۔ میری تقریر کے دوران لجنہ کی مارکی میں اس قدر خاموشی تھی کہ مَیں سمجھا تھا کہ ضرور میری باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن میرے مارکی سے باہر نکلنے کے بعد ہی وہاں شور شروع ہو گیا۔ وہی ہنگامہ، وہی باتیں اور سارے پروگراموں کے دوران اسی طرح ہوتا رہا۔ یاد رکھیں اگر اسی طرح کی حرکتیں ہوتی رہیں تو یہ پرانے احمدیوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کیونکہ نئے آنے والے اخلاص میں بڑھ رہے ہیں اور پُرانوں کو جلسے کا صرف ایک مقصد یاد رہ گیا ہے کہ آپس کے تعلقات بڑھاؤ۔ یاد رکھیں کہ ہر عمل جو موقع محل کے لحاظ سے نہ کیاجائے، بے شک صحیح اور اچھا ہو، وہ عملِ صالح نہیں کہلاتا۔

مَیں سمجھتا ہوں کہ لجنہ کی تنظیم بھی نچلی سطح سے لے کر، اپنے شہر کی تنظیم سے لے کر مرکزی سطح تک تربیت میں اس کمی کی ذمہ دار ہے۔ بڑے بڑے مسائل یاد کرنے سے بہتر ہے پہلے اپنی تربیت کریں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا جماعت میں نئے شامل ہونے والے اپنے اخلاص میں بڑھ رہے ہیں اور دنیا کے ہر ملک میں بڑھ رہے ہیں اُن کو دیکھ کر جہاں خوشی ہوتی ہے کہ نئے آنے والے اخلاص میں بڑھ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نیکی اور اخلاص میں بڑھنے والے ملک ملک میں عطا کئے ہیں اور عطا فرما رہا ہے اور دل سے بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کے جذبات نکلتے ہیں، وہاں یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ پرانے احمدیوں کی قربانیوں کو کہیں ان کی اولادیں ضائع نہ کردیں۔ جرمنوں میں مَیں نے دیکھا ہے خاص طور پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں جو احمدی ہو رہے ہیں اسلام کی پیاری تعلیم کا بہت اثر ہے۔ کوشش کرتے ہیں کہ حتی الوسع ہر حکم کو مانیں اور ہر حکم کی پابندی کریں۔ وقتی اطاعت نہیں بلکہ مستقل اطاعت کا جؤا اپنی گردن پر ڈالیں۔ اس وقت یہاں نومبائعین کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور اس تھوڑی سی تعداد میں بھی اطاعت اور خدمت کا جذبہ نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ لوگ نمایاں ہو کر سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن انشاء اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی دور نہیں ہے جب یہ تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہونے والی ہے۔ اس لئے میں جرمن احمدیوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اسلام کی تعلیم جہاں اپنی زندگیوں پر لاگو کریں وہاں شمع ہدایت بنتے ہوئے اپنے ہم وطنوں میں بھی یہ تعلیم پھیلائیں۔ اسلام کی جو روشنی آپ کو ملی ہے اس شمع سے دوسروں کے دل بھی روشن کریں۔ اسلام کے خوبصورت پیغام سے دوسروں کو بھی آگاہ کریں۔ اس تأثر کو دھوئیں کہ اسلام ایک شدت پسند مذہب ہے۔ گزشتہ دنوں یہاں جرمنی میں کچھ لڑکے گرفتار ہوئے، کچھ جرمن اور کچھ ترک لڑکے تھے جو دہشت گردی کرنے والے تھے اور کہا جاتاہے کہ وہ پاکستان سے ٹریننگ لے کر آئے تھے۔ ایک بڑے نقصان سے اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو بچا لیاہے۔ ان بھٹکے ہوؤں تک بھی اسلام کی صحیح تعلیم پہنچائیں اور اپنے ہم قوموں کو بتائیں کہ اس اسلام کو اسلام نہ سمجھو جس کا اظہار ان لوگوں سے ہو رہاہے بلکہ حقیقی اسلام کے لئے ہمارے پاس آؤ، ہماری بات سنو۔ پس یہ پیغام پہنچانے کے لئے جامع پروگرام بنائیں اور یہی شکر گزاری اور اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کا طریق ہے۔

پاکستانی احمدیوں سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ اپنی حالتوں میں پہلے سے بڑھ کر تیزی کے ساتھ تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اپنی حالتوں میں انقلاب لانے کی کوشش کریں۔ یہی صحیح شکر گزاری کا طریق ہے۔ یہی اپنے بزرگوں کے نام کو زندہ رکھنے کا طریق ہے جنہوں نے احمدیت کی خاطر قربانیاں دی تھیں۔ یہی آپ کا جماعت میں شامل ہو کر صحیح حق ادا کرنے کا طریق ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے۔

جلسہ کی برکات میں سے ایک برکت یہ بھی حاصل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان دنوں میں گیارہ سعید فطرت مردوں، عورتوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور وہ بیعت کرکے جماعت میں شامل ہوئے۔ مردوں میں بھی دستی بیعت ہوئی، بہت ساروں نے دیکھا ہو گا، جس میں دورانِ سال بعض نئے شامل ہونے والوں اور جلسہ کے دوران بھی پانچ یا چھ مردوں نے بیعت کی جو احمدی ہوئے تھے۔ اس وقت بھی مَیں نے ان مرد نو مبائعین کی عجیب جذباتی کیفیت دیکھی تھی۔

لیکن اس دفعہ بہت سوں کو علم نہیں، مَیں بتا دوں کہ مَیں نے براہِ راست جرمن عورتوں میں بھی بیعت لی ہے اور اس طرح لی تھی کہ اپنی بیوی کا (محرم کا ہاتھ پکڑا جا سکتا ہے) ہاتھ پکڑ کے اور باقی عورتوں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اور پھر چین (Chain) بن کے 70-60 عورتوں نے اس طرح بیعت کی اور بیعت کرنے والیوں میں بعض بالکل نئی تھیں، ان کو احمدیت قبول کئے کچھ عرصہ ہواتھا۔ عموماً تو تمام عورتیں ہی اس وقت جذباتی کیفیت میں تھیں لیکن خاص طور پر ان نئی شامل ہونے والیوں کی حالت عجیب تھی، جن کی احمدیت کی زندگی صرف چند دن یا چند مہینے تھی۔ اس قدر اخلاص اور جذبات کا اظہار کر رہی تھیں کہ صاف نظر آ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس آخری نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ کی پناہ میں آکر ان میں ایک انقلاب آ گیاہے۔ بیعت کے الفاظ شروع ہوتے ہی انہوں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ بیعت کے بعد جو دعا ہوئی اس میں بھی ان کی تڑپ بیان سے باہر ہے اور جب مَیں وہاں سے اٹھ کر باہر آ گیا ہوں تو مجھے بتایا گیا کہ پھر وہ سجدۂ شکر بجا لانے کے لئے سجدہ میں پڑ گئیں۔ یہ اس معاشرے کی وہ نوجوان تھیں جس نے خدا کو بھلا دیا ہوا ہے۔ لیکن خدا کے مسیح اور آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق سے تعلق جوڑ کر انہوں نے اس دنیا اور اپنے معاشرے کو ٹھکرا کر واحد و یگانہ خدا سے پیار اور صدق و وفا کا زندہ تعلق قائم کر لیا ہے۔

پس جلسہ کی یہ بھی برکات ہیں اور یہ برکات ہمیں تبھی فائدہ دیں گی جب ہم ہمیشہ شکر گزاری کر تے چلے جائیں گے، ہمیشہ اپنے عہد بیعت میں مضبوطی پیدا کرتے چلے جائیں گے، ہمیشہ شکرگزاری کے جذبات کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے کامل فرمانبردار بنتے چلے جائیں گے۔ اور تبھی ہر فرد جماعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا ایک مفید رکن بننے والا کہلا سکے گا، جب ان باتوں پر عمل ہو گا ورنہ ایک خشک ٹہنی کی طرح ہو گا جو بے فائدہ ہے جو جلانے کے کام آتی ہے۔ تو ہر احمدی کو خشک ٹہنی بننے کی بجائے سرسبز اور ثمر آور شاخ بننے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کا صحیح عبد بنتے ہوئے اور اس کا شکر گزار بنتے ہوئے ان برکات سے فائدہ اٹھانے والا بننا چاہئے جن کے حصول کے لئے یہ جلسہ منعقد کیا جاتا ہے اور جس مقصد کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے جاری فرمائے تھے۔

اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 28ستمبر تا 4اکتوبر2007ء ص5تا8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 7؍ ستمبر 2007ء شہ سرخیاں

    جلسہ سالانہ جرمنی کے کامیاب انعقاد پر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور اس کے بندوں کا شکریہ ادا کرنے کا طریق بتاتے ہوئے منتظمین کو اہم ہدایات اور بالخصوص لجنہ اماء اللہ کو جلسہ کے پروگراموں کو خاموشی اور توجہ اور انہماک سے سننے کے بارہ میں تاکیدی ارشادات۔

    فرمودہ مورخہ 07؍ستمبر 2007ء بمطابق07؍ تبوک 1386 ہجری شمسی۔بمقام Martin Buber Schole Hall گروس گیراؤ (جرمنی)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور