احمدیت: خدا اور رسول ﷺ کے احکام کی پابندی کا نام
خطبہ جمعہ 5؍ اکتوبر 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوااسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَا کُمْ لِمَایُحْیِیْکُمْ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ وَاَنَّہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ۔ (الاَنفال :25)
اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو۔ جو ایمان لائے ہو! اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہا کرو، جب وہ تمہیں بلائے تاکہ وہ تمہیں زندہ کرے اور جان لو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوتا ہے اور یہ بھی جان لو کہ تم اس کی طرف اکٹھے کئے جاؤ گے۔
جیسا کہ ہر احمدی جانتاہے کہ ہراحمدی بھی او ر ہر وہ شخص بھی جو بیعت کرکے جماعت میں نیا داخل ہوتا ہے تو وہ حقیقت میں یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ آج مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر آپؑ کو مسیح و مہدی مان کر اپنے آپ کو دراصل اس گروہ میں شامل کرنے کا اعلان کرتا ہوں جو حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہنے والے ہیں۔ وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ آج مَیں اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم میں بیان کردہ تمام احکامات اور تمام پیشگوئیوں پر ایمان لانے والا بنتا ہوں۔ وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ آج مَیں حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاءﷺ کی تمام پیشگوئیوں پر کامل ایمان لانے والا بنتا ہوں۔ وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ آج مَیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے تمام احکامات پر عمل کرنے کا عہد کرتا ہوں تاکہ ایک روحانی زندگی پاؤں۔ اگر اس کے سوا کسی کے ذہن میں کوئی بات آتی ہے تو وہ اس دعوے میں جھوٹا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات پر پابندی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سب سے پہلے تو شرائط بیعت میں بڑے واضح طور پر بیان فرما دیا ہے کہ احمدیت ہے ہی خدا اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کی پابندی کا نام۔ جیسا کہ بیعت کی تیسری شرط میں بیان ہوا ہے کہ ’’بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا۔ نبی کریمﷺ پر درود بھیجنے میں مداومت اختیار کرے گا‘‘۔ پھر پانچویں شرط میں ہے کہ خداتعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا۔ پھر چھٹی شرط میں ہے کہ ’’قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کر یگا اور قال اللّٰہ اور قال الرسولؐ کو اپنے ہر ایک عمل میں دستور العمل قرار دے گا‘‘۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانا اور آپؑ کی بیعت میں آنا اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات پر عمل کرنے اور نئی روحانی زندگی حاصل کرنے کے لئے ہے۔ پس خوش قسمت ہے ہر وہ شخص جو اس مقصد کے لئے جماعت میں شامل ہوتا ہے اور جماعت میں رہتا ہے۔ خوش قسمت ہیں ہم جو اس زمانے میں آنحضرتﷺ کے عاشق صادق پر ایمان لا کر اللہ اور اس کے رسول کی پکار کو سننے والے بنے تاکہ احیاء موتٰی کا نظارہ دیکھیں، اپنے مردہ جسموں کو زندہ ہوتا دیکھیں۔ پس ہم پر جویہ الزام لگایا جاتا ہے کہ گویا نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی مان کر، مسیح و مہدی مان کر ہم گویا آنحضرتﷺ کا درجہ نعوذ باللہ گرانے والے ہیں۔ یہ سراسر احمدیوں پر الزام ہے۔ آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) آنحضرتﷺ کے اس مقام اور یہ کہ کس طرح آپؑ نے مردوں کو زندہ کیا اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’دنیامیں ایک رسول آیا تاکہ ان بہروں کو کان بخشے کہ جو نہ صرف آج سے بلکہ صدہا سال سے بہرے ہیں۔ کون اندھا ہے اور کون بہرا؟ وہی جس نے توحید کو قبول نہیں کیا اور نہ اس رسول کو جس نے نئے سرے سے زمین پر توحید کو قائم کیا۔ وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا اور انسان سے بااخلاق انسان یعنی سچے اور واقعی اخلاق کے مرکز اعتدال پر قائم کیا‘‘۔ یعنی ایسے اعلیٰ اخلاق اور ایسے متوازن اخلاق کی تعلیم دی جس پر چل کر کسی قسم کے ظلم کا تصور ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ انصاف، عدل اور ایتاء ذی القربیٰ کی تعلیم ہے ’’اور پھر بااخلاق انسان سے باخدا ہونے کے الٰہی رنگ سے رنگین کیا۔ وہی رسول، ہاں وہی آفتاب صداقت، جس کے قدموں پر ہزاروں مردے، شرک اور دہریت اور فسق اور فجور کے جی اٹھے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 8 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس یہ ہے وہ انسان کامل جس نے یہ انقلاب پیدا کیا اور یہ وہ انسان کامل ہے جس کے غلام صادق کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اپنے آقا و مطاع کی غلامی میں مُردوں کو زندہ کرنے کے لئے بھیجا ہے۔
پھر آنحضرتﷺ کے اس مقام کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک اور جگہ اس طرح فرماتے ہیں کہ ’’واضح ہو کہ قرآن کریم اس محاورے سے بھرا پڑا ہے کہ دنیا مر چکی تھی اور خداتعالیٰ نے اپنے اس نبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر نئے سرے دنیا کو زندہ کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا (الحدید :18) یعنی اس بات کو سن رکھو کہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد خداتعالیٰ زندہ کرتا ہے۔ پھر اسی کے مطابق آنحضرتﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں فرماتا ہے وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ(المجادلۃ:23) یعنی ان کو روح القدس کے ساتھ مدد دی۔ اور روح القدس کی مدد یہ ہے کہ دلوں کو زندہ کرتا ہے‘‘۔ ایمان لانے کے بعد پھر ایمان میں بڑھاتا ہے ’’اور روحانی موت سے نجات بخشتا ہے اور پاکیزہ قوتیں اور پاکیزہ حواس اور پاک علم عطا فرماتا ہے اور علوم یقینیہ اور براہین قطعیہ سے خداتعالیٰ کے مقام قرب تک پہنچا دیتا ہے۔ …… اور یہ علوم جو مدار نجات ہیں یقینی اور قطعی طورپر بجز اس حیات کے حاصل نہیں ہو سکتے جو بتوسّط روح القدس انسان کو ملتی ہے اور قرآن کریم کا بڑے زور شور سے یہ دعویٰ ہے کہ وہ حیات روحانی صرف متابعت اس رسول کریمؐ سے ملتی ہے اور تمام وہ لوگ جو اس نبی کریمؐ کی متابعت سے سرکش ہیں وہ مُردے ہیں جن میں اس حیات کی روح نہیں ہے اور حیات روحانی سے مراد انسان کے وہ علمی اور عملی قویٰ ہیں جو روح القدس کی تائید سے زندہ ہو جاتے ہیں ‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ194تا196)
جو الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپﷺ کے مقام و مرتبہ کے بارے میں بیان فرمائے ہیں کیا کوئی برابری کرنے والا یا برابری کا خیال کرنے والا ایسے الفاظ استعمال کرسکتا ہے؟ پس ہم تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق اس بات کے ماننے والے ہیں کہ روحانی زندگی کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کی ذات کو بنایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو آپؐ کے عاشق صادق اور ایک ادنیٰ غلام ہیں جنہیں اس زمانے میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کو زندگی بخشنے کے لئے آپؐ کی متابعت میں اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے تاکہ پھر سے دنیا میں وہ گر وہ قائم ہو جو اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے روحانی زندگی حاصل کرنے کے لئے، اپنی روحانیت کو نکھارنے کے لئے، اس امام کے ہاتھ پر جمع ہو جائے۔
مسلمانوں کا یہ کہنا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم نے آنحضرتﷺ کو مان لیا ہے اس لئے اب کسی اور کو ماننے کی ضرورت نہیں، یہ ان کی غلطی ہے۔ یہ امام جس کی قرآن کریم میں پیشگوئی ہے اور جس کے بارہ میں آنحضرتﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ جب وہ آئے تو میرا سلام کہنا، اس پر ایمان لانا بہرحال ضروری ہے، اس کے بغیر ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا۔ تبھی ایک مسلمان روح القدس سے تائید یافتہ کہلا سکتا ہے جب اس امام پر بھی کامل ایمان ہو۔ پس ایمان مکمل کرنے کے لئے اور روحانی زندگی کے لئے اس زمانے کے امام کا ماننا ضروری ہے اور لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو بھی سامنے رکھنا چاہئے جیسا کہ ایک جگہ فرمایا کہ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (النسآء:137) یعنی اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور رسول پر ایمان لاؤ۔ ایمان تو پہلے ہی لے آئے ہو پھر دوبارہ کیوں کہا گیا کہ ایمان لاؤ؟ اس لئے کہ بہت سے لوگوں کا ایمان لانے کا جو دعویٰ ہے وہ صرف منہ کی باتیں ہیں۔ اس لئے اے ایمان لانے والو! حقیقی مومن کہلانے کے لئے اپنے دلوں کو ایمان سے بھرو۔ اور اس زمانے میں ایک مسلمان حقیقی مومن اس وقت کہلائے گا جب آنحضرتﷺ کے اس عاشق صادق پر بھی ایمان لانے والا ہو گا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے خلاف آجکل دنیا میں مختلف جگہ پر جو محاذکھڑا ہے، یہ محاذ کھڑا کرنے کی بجائے مسلمانوں کو غور کرنا چاہئے۔ کچھ غور کریں کہ ایمان کی مضبوطی کی طرف بلانے والا، ایمانوں کو زندگی بخشنے والا کیا کہہ رہا ہے ؟ اس کا دعویٰ کیا ہے؟خود اپنے بارے میں وہ کیا کہتا ہے؟ اس کا اپنا مقام کیا ہے؟ آنحضرتﷺ کو کیا مقام دے رہا ہے؟
آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اللہ جلشانہ کی قسم ہے کہ مَیں کافر نہیں۔ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ میرا عقیدہ ہے اور لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔ (الاحزاب:41) پر آنحضرتﷺ کی نسبت میر اایمان ہے۔ مَیں اپنے اس بیان کی صحت پر اس قدر قسمیں کھاتا ہوں جس قدر خداتعالیٰ کے پاک نام ہیں اور جس قدر قرآن کریم کے حرف ہیں اور جس قدر آنحضرتﷺ کے خداتعالیٰ کے نزدیک کمالات ہیں۔ کوئی عقیدہ میرا اللہ اور رسول کے فرمودہ کے برخلاف نہیں۔ اور جو کوئی ایسا خیال کرتا ہے خود اس کی غلط فہمی ہے۔ اور جو شخص مجھے اب بھی کافر سمجھتا ہے اور تکفیر سے باز نہیں آتا وہ یقینا یاد رکھے کہ مرنے کے بعد اس کو پوچھا جائے گا۔ مَیں اللہ جلّشانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا خدا اور رسول پر وہ یقین ہے کہ اگر اس زمانے کے تمام ایمانوں کو ترازو کے ایک پلّہ میں رکھا جائے اور میرا ایمان دوسرے پلّہ میں تو بفضلہ تعالیٰ یہی پلّہ بھاری ہو گا‘‘۔ (کرامات الصادقین۔ روحانی خزائن جلد 7صفحہ67)
پس بجائے اس کے کہ اس غلام صادق کی تکذیب کرکے اپنے ایمانوں کو کمزور کیا جائے، اپنے ایمانوں کو جلا بخشنے کے لئے، اپنے مُردہ دلوں کو زندہ کرنے کے لئے اس زمانے کے امام پر ایمان لائیں جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس غلامِ صادق اور کامل الایمان پر ایمان لائیں جس کی پیشگوئی آج سے چودہ سو سال پہلے خدا اور اس کے رسولﷺ نے کی تھی۔ غور کریں کیا اُن حالات میں کوئی تبدیلی آ گئی ہے؟کیا اُن حالات میں کوئی بہتری پیدا ہو گئی ہے جن حالات کے بارے میں فکر کا اظہار ہر درد رکھنے والا مسلمان سو سال پہلے کر رہا تھا اور اس پیشگوئی کے انتظار میں تھا کہ کب وہ شخص مبعوث ہو اور ہماری اصلاح کرے اور مسلمانوں کو رہنمائی میسر آئے۔
اگر غور کریں تو حالات بد سے بدتر ہوئے ہیں اور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ حالت باوجود ظاہراً حکومتیں قائم ہو جانے اور آزادی کے نعروں کے مزید خراب ہی ہو رہی ہے۔ روحانی طور پر مرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی کیاوجہ ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ کہیں کوئی کمی ہے اور کمی یہی ہے کہ جس کو نبی کریمﷺ نے سلام بھیجا تھا اس کے خلاف آہستہ آہستہ پہلے تو اِکّا دُکّا مولوی مخالفت کرتے تھے، پھر مخالفت کے کچھ گروہ بنے، اب اسلامی حکومتیں بھی اکٹھی ہو کر منصوبے بنا رہی ہیں۔ لیکن جو چراغ اللہ تعالیٰ نے روشن کیا ہے وہ کسی مخالف کی پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکتا۔
پس بجائے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف چل کر اپنی دنیا و عاقبت خراب کرنے کے اللہ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ جو انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے، اس سے مدد مانگنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ یااللہ! جس امت کے بارے میں تو نے فرمایا تھا کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران :111) یعنی تم سب اُمّتوں سے بہتر ہو جو لوگوں کی اصلاح کے لئے پیدا کئے گئے ہو لیکن اس کے ظاہری حالات تو ایسے نظر نہیں آتے۔ دوسروں کی اصلاح کیا کرنی تھی، ہمارے تو اپنے حالات بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ پس جب درد دل سے یہ دعائیں کی جا ئیں گی تو اللہ تعالیٰ جو انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے، ان کو سنے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن اُمّت کی اکثریت تو غلط اور مفاد پرست علماء اور حکّام کے پیچھے چل پڑی ہے اور اپنے دل کا جو اخلاص ہے اس کو ان کے پیچھے چل کر ضائع کر رہی ہے۔
یہ دعا بھی آج اُمّت کی ہمدردی میں، آنحضرتﷺ کی طرف منسوب ہونے والوں کی ہمدردی میں اگر کوئی کرنے والا ہے تو وہ آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کی جماعت کے افراد ہی ہیں۔ آپ نے ہی یہ دعاکرنی ہے کہ اے اللہ ! ان کے دلوں کو پاک کر، ان دلوں پر تیرا ہی قبضہ ہے۔ آخر یہ لوگ ہمارے محبوب آقا اور مطاع حضرت محمد مصطفیﷺ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں۔ ان لوگوں کو عقل دے کیونکہ بجز تیرے ان کے سینوں کو کھولنے والا اور ان کے دماغوں کو روشن کرنے والا اور کوئی نہیں۔ اب سوائے تیرے ان کو کوئی نہیں بتا سکتا کہ زندگی کیا ہے اور موت کیا ہے؟ اے اللہ!توُ ان کو بتا کہ صرف منسوب ہونے سے زندگی نہیں ملتی بلکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ جس بات کی طرف بلا رہے ہیں، جن باتوں کو کرنے کا حکم دے رہے ہیں، ان کی طرف جانے اور ان پر عمل کرنے سے زندگی ملتی ہے۔ پس اے اللہ! ان لوگوں کے دلوں پر سے زنگ اتار دے۔ ان کو زمانے کے امام کی مخالفت کرنے کی بجائے اسے پہچاننے کی توفیق عطا فرما۔ پس یہ دعا کرنا بھی آج ایک احمدی کی ذمہ داری ہے بلکہ فرائض میں داخل ہے، ورنہ ہم اپنے فرائض کی بجا آوری کرنے والے نہیں کہلا سکتے۔
ان نام نہاد علماء نے احمدیت کے بارے میں غلط باتیں پھیلا کر عجیب خوفناک ماحول پیدا کر دیا ہوا ہے۔ کئی سعید فطرت ہیں جو احمدیت کو سچ سمجھ کر قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے معاشرے کے خوف سے خاموش ہو جاتے ہیں۔ کئی مرد اور خواتین جرأت کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ احمدیت قبول کرتے ہیں تو پھر عزیزوں اور رشتہ داروں کی طرف سے، ماحول کی طرف سے طرح طرح کے ظلم سہنے پڑتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک رپورٹ تھی کہ ایک لڑکے نے احمدیت قبول کی تو اس کے گھروالوں نے اسے باندھ کر خوب مارا اور کئی دن گھر میں باندھے رکھا۔
ابھی چند دن ہوئے سوئٹزر لینڈ سے ایک اطلاع آئی تھی، ہمارے ایک احمدی نے خط لکھ کر یہ اطلاع دی تھی کہ ایک پاکستانی سوئٹزر لینڈ میں ہیں، احمدیت کا مطالعہ کرکے اور احمدیت کو سچ سمجھ کر بیعت کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں اپنے عزیزوں سے اس بات کا اظہار کیا تو ایسی ایسی کہانیاں جن کا احمدیت سے دُور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ان کو احمدیت کے بارے میں سننے کو ملیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ صرف ان نام نہاد علماء کی احمدیت کے بارہ میں غلط رنگ میں پھیلائی ہوئی باتوں کا اثر ہے جس کے پھیلانے کی انہیں وہاں کھلی چھٹی ہے، جو چاہے وہ احمدیت کے بارے میں کہیں اور احمدیوں پر پابندی ہے کہ تمہاری اصل تعلیم کیا ہے اس کا اظہار نہیں کر سکتے۔ بلکہ اس شخص نے لکھا ہے کہ ایک قریبی عزیز نے اسے فون پر یہاں تک کہہ دیا کہ اگر تم واقعی سنجیدہ ہوتوپھر قتل ہونے کے لئے تیار ہوجاؤکیونکہ تمہارے احمدیت قبول کرنے کے بعد مَیں وہ پہلا شخص ہوں گا جو تمہیں قتل کرے گا۔ تو یہ حالات ہیں۔ یہ ان لوگوں کی سوچ ہے۔ کیا یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات پر عمل کرنے والوں کا کام ہے؟ کیا انہوں نے اللہ کے رسولﷺ کی اس غم اور غصّے کی حالت کے اظہار کے بارے میں نہیں سنا جب آپؐ نے لڑائی کے دوران زیر ہونے کے بعد کلمہ پڑھنے والے شخص کے ایک مسلمان کے ہاتھ سے قتل ہونے پر فرمایا تھا کہ کیا توُ نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس میں خالص کلمہ بھرا ہوا ہے یا بناوٹی کلمہ ہے۔
دنیا میں ہر قسم کی طبائع ہوتی ہیں۔ کمزور بھی ہیں، جرأت والے بھی ہیں۔ جو کمزور ہیں وہ تو ڈر جاتے ہیں، لیکن جرأت والے بہرحال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کئی جرأت والے باجود سختیوں کے سچائی قبول کرتے ہیں۔ کئی جرأت مند حق کے مقابلے پر کسی بھی ظلم کی پرواہ نہیں کرتے۔ پس خوش قسمت ہیں وہ جو فرعونوں کو جرأت کے ساتھ یہ جواب دیتے ہیں کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ(طٰہٰ:73)پس جوتیرا زور لگتا ہے لگا لے اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا(طٰہٰ:73) توُصرف اس دنیا کی زندگی کو ختم کر سکتا ہے۔
پس وہ احمدی جن کو آج پاکستان میں شہید کیا جا رہا ہے، ان کا بھی یہ جواب ہے، اور ہر احمدی کا جو ایمان پر قائم ہے یہی جواب ہے۔ اور جو نئے احمدی ہوتے ہیں اور شدید مخالفت کا سامنا کر رہے ہیں، ان سے بھی میں کہتا ہوں کہ دعاؤں سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں اور ہمیشہ یہ جواب دیں کہ فَاللّٰہُ خَیْرٌ حٰفِظًا(یوسف:65) کہ اللہ سب سے بہتر ہے اور سب سے زیادہ قائم رہنے والا ہے۔ اور جو بہتر ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے وہ دشمنوں سے بھی نمٹے گا اور نیک اعمال کی جزا بھی دے گا۔ ان کے جماعت میں شامل ہونے پر ان کو بہترین جزا دے گا۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جو چراغ اللہ تعالیٰ نے روشن کیا ہے، اسے انسانی پھونکیں بجھا نہیں سکتیں اور اللہ تعالیٰ اپنے اس چراغ کا نُور لوگوں پر اس طرح اتارتا ہے کہ دنیا کی تمام طاقتیں بھی جمع ہو کر اس کے مقابلے میں روکیں کھڑی کرنے کی کوشش کریں تو اس کو روک نہیں سکتیں۔ وہ اس روشنی کو، اس نور کو دلوں میں اترنے سے روک نہیں سکتیں۔ کئی بیعتیں ہر سال ہوتی ہیں۔ کئی نیک فطرت حضرت مسیح موعودؑ کی سچائی کا اعلان کرتے ہیں اور ان تک حضرت مسیح موعودؑ کے اس پیغام کو پہنچانے کے لئے کوئی انسانی کوشش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ خود اُن کے دلوں کے دروازے کھولتا ہے اللہ تعالیٰ خود ان پر اپنے محبوبﷺ کے عاشق صادق کی سچائی ظاہر کرتا ہے۔
ابھی گزشتہ دنوں عرب کے ایک ملک سے ایک رپورٹ آئی تھی۔ مصلحتاً بعض نام مَیں نہیں پڑھوں گا۔ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ مَیں ان دنوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید و نصرت کے بڑے واضح نشانات مشاہدہ کر رہا ہوں اور سعید فطرت لوگوں سے رابطہ ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ چند دن قبل ایک دوست نے ایم ٹی اے کے سٹوڈیو میں رابطہ کیا اور وہاں سے ان دوست کا پتہ کیا اور پھر ان کے ساتھ رابطہ کیا تو رابطہ کرنے والے صاحب کے بارے میں یہ رپورٹ دینے والے لکھتے ہیں کہ یہ صاحب ایک سادہ طبیعت کے آدمی ہیں اور صوفیاء میں سے ہیں۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ انڈیا کے ایک گاؤں میں ہیں اور کچھ شریر لوگ ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لاتے ہیں اور ان کے سینے میں داخل ہو جاتے ہیں اور حضورؑ کی وہی صورت تھی جو انہوں نے بعد میں دیکھی۔ اس کے علاوہ کئی دفعہ حضورؑ کی خواب میں زیارت کر چکے ہیں اور ابھی چند دن قبل انہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آنحضرتﷺ کی شکل مبارک کے بالکل مطابق دیکھا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مجھے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے اور یہ دوست جنہوں نے لکھا ہے، کہتے ہیں کہ جب مَیں نے کسی بات کی وضاحت کرنی چاہی تو انہوں نے مجھے روک دیا کہ ایمان میرے دل میں گڑ چکا ہے، مجھے اب کسی قسم کی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ دو دن قبل ایک نوجوان نے فون کیا اور وقت مانگا۔ چنانچہ یہی صاحب جنہوں نے بیعت کی ہے، کہتے ہیں ایک اور پرانے احمدی کے ساتھ مَیں ان سے بات کرنے گیا تو اس نوجوان کے والد صاحب بھی وہاں تھے جو صوفیاء کی جماعت سے منسلک ہیں اور جب باپ سے بات شروع ہو ئی تو انہوں نے بتایا کہ 20سال قبل انہوں نے خواب میں آنحضرتﷺ کی تصویر ایک دیوار پر لٹکی دیکھی تھی اور اب جب ایم ٹی اے کے سٹوڈیو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھی تو ہو بہو وہی تصویر ہے۔ تو یہ ہے عاشق صادق اور غلام صادق کی نشانی۔ کہتے ہیں کہ ہو بہو وہی تصویر ہے جو مَیں نے 20سال قبل دیکھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ جماعتی عقائد سے متفق ہیں اور بتایا کہ ایک دفعہ وہ کسی کاڈش انٹینا سیٹ کر رہے تھے اور چینل سیٹ کرتے ہوئے جو پہلی تصویر انہیں نظر آئی وہ اس خط لکھنے والے کی تھی۔ ہمارے عربی پروگراموں میں بھی آتے ہیں، تو انہوں نے سمجھا تھا کہ انہیں میرے ذریعہ سے پیغام پہنچے گا، پھر انہوں نے بیعت کر لی۔ پھر کہتے ہیں اس ملاقات کے دوران ہی ایک فون آیا۔ ایک صاحب نے ٹیلیفون ڈائریکٹری سے ان کے گھر کا فون نمبر لیا اور گھر سے موبائل نمبر لیا، یہ گھر پہ نہیں تھے۔ پھر ملاقات کا وعدہ کیا اور ملاقات پر بتایا کہ وہ پڑھے لکھے انسان ہیں اور امریکن یونیورسٹی بیروت سے 60کی دہائی میں فارغ التحصیل ہوئے اور پھر 70کی دہائی میں فوج میں ایک آفیسر کے طور پر رہے اور پھر سعود یہ ائرفورس میں بھی رہے۔ انہوں نے بتایا انہیں کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے، خصوصاً تصوف کی کتابوں کا بہت شوق ہے۔ پھر بتایا کہ گزشتہ خیالات پر اپنے آپ کو ملامت کرتے ہیں کہ مخالفین کی کتابیں پڑھ کر جماعت کو کافر سمجھتا تھا کیونکہ جماعتی کتابیں باوجود کوشش کے میسّر نہ تھیں۔ اب وہ ہمارے چینل کے پروگرامز باقاعدگی سے دیکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت ان کے دل میں نقش ہو چکی ہے اور تصوف میں ادراک رکھنے کی وجہ سے حضور اقدسؑ کی کتابوں میں بیان معرفت کے نکات کو فوراً سمجھ جاتے ہیں، بلکہ محظوظ ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسے الفاظ کسی جھوٹے کے منہ سے نہیں نکل سکتے بلکہ یہ کلام ایک عارفِ حقیقی کا کلام ہے۔
پھر یہ کہتے ہیں کہ اکثر لوگ پہلے بحث کرتے تھے، اعتراضات اٹھاتے تھے، دلائل اور براہین کا مطالبہ کرتے تھے لیکن اب اس کے بالکل برعکس ایسی ہوا چلی ہے کہ جو لوگ ملتے ہیں متفق ہوتے ہیں اور بہت سارے ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدارکرایا ہوتا ہے۔ تو اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس سے دعا کریں تو اللہ تعالیٰ ضرور رہنمائی فرماتا ہے۔ لیکن ہمارا بھی کام ہے کہ ان لوگوں کی رہنمائی کے لئے دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں۔ پس اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ تو ہر روز اپنی تائید و نصرت کے نظارے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دکھا رہا ہے، لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا ہماری بھی ذمہ داری ہے، جو خداتعالیٰ نے لگائی ہے کہ جو تمہارے وسائل ہیں، جس حد تک تم دلوں کو پاک کر دینے والے اس پیغام کو پھیلانے میں کردار ادا کر سکتے ہو تم ادا کرو تاکہ اس ثواب سے، اُن برکات سے حصہ لینے والے بن سکو جو اللہ تعالیٰ کے اس مسیح و مہدی، جری اللہ کی جماعت سے وابستہ رہنے والوں کے لئے مقدر ہیں۔ پس اس مقصد کو بھی ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے۔ نیکی اور تقوٰی کے اعلیٰ مدارج کی تلاش میں ہر احمدی کو رہنا چاہئے۔ ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور اس کو مقصد بنانا چاہئے کہ مَیں نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر جس زندگی کو حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے، کیا حقیقت میں میرے اندر اس زندگی کے آثار نظر آ رہے ہیں جس کا آپؑ نے دعویٰ کیا تھا کہ میرے ماننے والوں کی زندگی میں پیدا ہوگی۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی غرض اس جماعت سے یہ ہے کہ گمشدہ معرفت کو دوبارہ دنیا میں اس جماعت کے ذریعہ قائم کر دے۔ پس اس گمشدہ معرفت کو قائم کرنے کے لئے جہاں ہمیں اپنے اعمال پر نظر رکھنی ہو گی، جہاں اپنے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہو گی، وہاں دوسروں تک بھی اس گمشدہ معرفت کے پیغام کو پہنچانے کے انتظام کرنے ہوں گے۔ اپنے ماحول میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو پہنچانا ہو گا کہ اس زمانے میں معرفت کا جام اب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ میں دیا ہے۔ آؤ اور اس سے فیض پاؤ اور دائمی زندگی حاصل کرو۔
آپؑ فرماتے ہیں : ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے۔ مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے، وہ ہرگز نہیں مرے گا۔ وہ زندگی بخش باتیں جو مَیں کہتا ہوں، اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اَور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا۔ لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مُردہ دلوں کے لئے آب حیات کا حکم رکھتی ہے، دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی تو تمہارے پاس اس جرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اس سرچشمہ سے انکار کیا۔ جو آسمان پر کھولا گیا زمین پر اس کو کوئی بند نہیں کر سکتا‘‘۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ104)
پس اس سلسلے میں اب ہر ایک کی کوشش ہونی چاہئے کہ ایک نئے جوش کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کریں لیکن یہ ہمیشہ پیش نظر رہے کہ مومن کا کوئی کام بغیر دعا کے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ رمضان کے یہ دن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے مہیا فرمائے ہیں اس کے آخری عشرے میں سے ہم گزر رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم دعا یہی ہے جو اگر ہم کریں تو ہماری باقی تمام دعاؤں کو بھی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا(انشاء اللہ تعالیٰ)۔ اللہ تعالیٰ جب ہماری دعاؤں میں اپنی مخلوق کی تڑپ دیکھے گا، جب آنحضرتﷺ کی امت کے لئے تڑپ دیکھے گا، جب اپنے دین کی اشاعت کے لئے تڑپ دیکھے گا اور اس مقصد کے حصول کے لئے تڑپ سے کی گئی دعاؤں کو دیکھے گا تو یقینا ہماری دوسری ضروریات کو اپنے وعدے کے مطابق خود بخود پورا فرمائے گا۔
پس رمضان کے یہ جو باقی چند دن ہیں، اپنی روحوں کو زندہ کرنے کے لئے، اُمّتِ مسلمہ کی زندگی کے لئے اور انسانیت کی زندگی کے لئے خاص دعاؤں میں ہم گزاریں تو ہم یقینا ایک بہت بڑے انقلاب کو برپا ہوتا دیکھیں گے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ خود رؤیا صادقہ کے ذریعہ سے لوگوں کو اپنے مسیح کی آمد کی خبر دے رہا ہے اور یہ ایک جگہ نہیں دنیا میں کئی اور جگہوں پر ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود سعید فطرت لوگوں کو جگا رہا ہے۔ دراصل یہ تو اس فانی فی اللہ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے جس نے اپنی دعاؤں سے آج سے 1400سال پہلے لاکھوں مُردوں کو تھوڑے دنوں میں زندہ کر دیا تھا اور آج آپﷺ ا کے عاشق صادق کا زمانہ بھی انہی دعاؤں کا فیض پا رہا ہے جو آپﷺ نے اپنے عاشق صادق کے زمانے کے لئے کی تھیں۔ دراصل یہ زمانہ بھی آنحضرتﷺ کا زمانہ ہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ آپؐ کا زمانہ تو آپ کی بعثت سے شروع ہو کر اب قیامت تک پر حاوی ہے۔ پس یہ ہمارا زمانہ بھی آنحضرتﷺ کا زمانہ ہی ہے۔ پس ہم تو اگر اپنی کوشش کریں گے اور ان کوششوں اور دعاؤں سے اپنے آپ کو اور انسانیت کو زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کوئی کامیابی دیکھنے والے ہوں گے تو وہ ہماری کسی بڑائی یا ہماری دعاؤں یا کسی کام کا اثر نہیں ہو گا بلکہ آقا و غلام سے اللہ کے کئے گئے وعدوں کی وجہ سے ہو گا۔ ہماری دعائیں اگر بار آور ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کے اپنے محبوب اور اس کے عاشق صادق سے کئے گئے وعدے کے مطابق ہوں گی اور پھر اس بارانِ رحمت سے ہم بھی فیضیاب ہو رہے ہوں گے۔
پس ان بقیہ دنوں میں غلبۂ اسلام کے لئے، مسلم اُمّہ کی روحانی زندگی کے لئے، اور ان کے روحانی زندگی سے بھرپور مقام حاصل کرنے کے لئے، اپنی روحانیت کے لئے اور اپنی زندگیوں کے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے ہر احمدی کو بہت دعائیں کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 26اکتوبرتا1نومبر2007ء ص5تا8)
احمدیت ہے ہی خدا اور اس کے رسول کے احکام کی پابندی کا نام۔
آنحضرتﷺ کی شان کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کے اقتباسات، کئی نیک فطرت خود حضورؑ کی سچائی کا اعلان کرتے ہیں خداتعالیٰ خود ان کے دل کے دروازوں کوکھولتا ہے۔
فرمودہ5؍ اکتوبر 2007ء بمطابق5؍ اخاء 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔