جمعہ کی نماز کی اہمیت
خطبہ جمعہ 12؍ اکتوبر 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں
یٰٓاَیَُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ۔ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَانِ انْفَضُّوْٓااِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا۔ قُلْ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ۔ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ۔ (ا لجمعۃ: 10تا 12)
آج ہم اس رمضان کے آخری دن سے گزر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں پھر اپنی رحمت سے اس سال اپنے گناہوں کی بخشش کے سامان پیدا کرنے، نیکیوں کو احسن رنگ میں بجالانے اور ان پر دوام اختیار کر نے اور اپنی رضا کے حصو ل کے لئے عطا فرمایا۔ پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ سب جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانات کے نزول کے ان خاص دنوں سے فیض پایا۔
آج یہ جو جمعہ کا دن ہے، ا س دن کی اپنی بھی ایک خاص اہمیت ہے اور اس دن کی اہمیت کا رمضان کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی اہمیت کے بارہ میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ارشاد فرمایا ہے اور احادیث میں بھی آنحضرتﷺ نے اس ارشاد کی مختلف رنگ میں وضاحت فرمائی ہے۔ گوکہ عامۃ المسلمین کی اکثریت اور بعض احمدی بھی سمجھتے ہیں کہ یہ رمضان کا جو آخری جمعہ ہے اس کی خاص اہمیت ہے اور ایک مومن قبولیت دعا کے نظارے بھی اس جمعہ میں عام جمعوں سے زیادہ دیکھتاہے۔ ا س لئے عمومًا ہم دیکھتے ہیں کہ اخباروں میں اس آخری جمعہ کے حوالے سے جسے ایک غلط نام دے کر جمعۃ الوداع بھی کہا جاتاہے، بڑی خاص اہمیت کے ساتھ مسلمان ممالک میں، مساجد میں جمعہ کی حاضری کی تصاویر اور اماموں کے خطبات کے حوالے سے خبریں شائع کی جاتی ہیں۔ بعض اخبار تو سپیشل ایڈیشن بھی شائع کرتے ہیں۔ میڈیا کے اس غلط انداز نے رمضان کے اس آخری جمعہ کے بارہ میں یہ غلط تصورپیدا کر دیا ہے کہ چاہے سارا سال نماز یں بھی نہ پڑھو، جمعہ بھی نہ پڑھو، صرف جمعۃ الوداع پر جاکر جمعہ پڑھ لو تو تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ انہی غلط قسم کی بدعات نے قضا ء عمری کا تصور بھی پیدا کیا ہواہے۔ یہ انتہائی غلط تصور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بہت شکر اور احسان ہے کہ ہم جو احمدی ہیں ہم اس بدعت سے عمومًا بچے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے تو ہمیں نیکیوں پر قائم رہنے کی، ان میں دوام اختیار کرنے کی، ان میں ایک باقاعدگی اور تسلسل رکھنے کی تلقین فرمائی اور فرمایاکہ یہ تسلسل اگر رہے گا تو اللہ تعالیٰ غلطیوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر فرماتا رہے گا اور ایسے انسان کے گناہ معاف ہوتے رہیں گے جس کا یہ عمل ہوگا۔
اس بارہ میں ایک حدیث میں آتاہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر انسان کبائر گناہ سے بچے تو پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ اور رمضان سے اگلا رمضان ان دونوں کے درمیان ہونے وا لی لغزشوں کا کفارہ بن جاتاہے۔ (الترغیب والترھیب جلد اول۔ کتاب الجمعۃ۔ الترغیب فی صلوۃ الجمعۃ والسعی الیھا و ما جاء فی فضل یومھا و ساعتھا حدیث نمبر 1031)
یعنی پہلی بات تو یہ یاد رکھو اور ہمیشہ یاد رکھو اور ذہن سے اس چیز کونکال دو کہ سارا سال جو چاہے انسان کرتا رہے، جانتے بوجھتے ہوئے گناہوں میں ملوث رہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی نہ کرے، ان سے بے اعتنائی برتے تو پھر بھی جمعۃ الوداع کے دن اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف کردے گا یا جمعۃ الوداع گناہوں کی معافی کاذریعہ بن جائے گا۔ یا بعض سمجھتے ہیں کہ ایک حج کر لیا تو پاک ہوگئے اور اب پھر سے وہی دھوکے اور فتنے اور فساد کی اجازت مل گئی ہے۔ حکم ہے کہ کبائر سے بچیں۔ بڑے بڑے گناہوں کی بہت سی مثالیں ہیں۔ دوسرے کے مال میں ناجائز تصرف یتیموں کا مال کھانا بھی کبائر میں ہے۔ جو کام انسان خودنہیں کرتا دوسروں کو کہنا کہ یہ کرو یہ بھی غلط ہے۔ آپس میں دوگروہوں کو لڑا دینا، دو آ دمیوں کے تعلقات خراب کرکے فتنہ پیدا کرنا بھی کبائر میں سے ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ فتنہ قتل سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہے۔ تو ایک مومن جس کو اللہ کا خوف ہو، صرف یہ نہیں سمجھتا کہ چوری نہیں کی، زنا نہیں کیا، ڈاکہ نہیں ڈالا، قتل نہیں کیا تو یہی بڑے گناہ ہیں، ان سے بچ گیا تو گویا میرا معاملہ صاف ہوگیا۔ نہیں، بلکہ دھوکے سے کسی کا مال کھانا، چاہے وہ کسی شخص کا کھا رہاہویاحکومت کا کھا رہاہو، پھر آپس میں دو دوستوں میں پھوٹ ڈلوانا تعلقات خراب کرنا یہ سب باتیں اور اسی قسم کی اور باتیں بھی کبائر گناہ ہیں۔ پس جب انسان ایک کوشش کے ساتھ ان برائیوں سے بچے گا، اگر غلطی سے کوئی حرکت ہو جاتی ہے تو استغفار کر ے گا تو فرمایا کہ پھر پانچ نمازیں جو سنوارکرادا کی ہوئی نمازیں ہیں، ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ اور رمضان سے اگلے رمضان کے درمیان جو چھوٹی موٹی لغزشیں تمہارے سے ہوجائیں گی، انسان کمزور ہے، کمزوروں سے ہو جاتی ہیں، ایسی باتیں جو جا ن بوجھ کر کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے نہ کی گئی ہوں، ان سے اللہ تعالیٰ درگزر فرمائے گا، ان کو معاف فرمائے گا اور یہ نمازیں اور یہ جمعہ اور یہ رمضان جنہیں نیکیوں کے حصول کے لئے اور برائیوں سے بچتے ہوئے ایک انسان ادا کرے گا یا ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی توپھر یہ چھوٹی موٹی لغزشوں کا کفارہ بن جائیں گی۔
تو دیکھیں آنحضرتﷺ نے کہیں نہیں فرمایا کہ جمعۃ الوداع معافی کے سامان پیدا کرے گا۔ بلکہ پہلے نیک اعمال کی کوشش، اللہ سے اس کی مغفرت طلب کرنا اور جوعبادات مقرر کی گئی ہیں ان کو ادا کرنا ہے اور یہی ہے جو چھوٹی موٹی برائیوں کا کفارہ بن سکتاہے۔
جو آیات مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ اللہ فرماتاہے، ترجمہ اس کا یہ ہے اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ پس جب نماز ادا کی جاچکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ اور جب وہ کوئی تجارت یا دل بہلاوا دیکھیں گے تو اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور تجھے اکیلا کھڑا ہوا چھوڑ دیں گے۔ تو کہہ دے کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ دل بہلاوے اور تجارت سے بہت بہتر ہے اور اللہ رزق عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔
تو اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ جمعہ کے دن جب تمہیں نماز کے لئے بلایا جائے توفَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ۔ اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھو۔ تمہارے لئے سب سے مقدم جمعہ ہونا چاہئے کیونکہ یہی عبادت ہے جس سے تمہارے گناہوں کی بخشش ہونی ہے۔
ایک حدیث میں آتاہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ :جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں ایک مسلمان اللہ تعالیٰ سے نماز پڑھتے ہوئے جو بھی بھلائی مانگتاہے، اللہ تعالیٰ اس کو وہ عطا کر دیتاہے اور اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ گھڑی اور وقت بہت مختصر ہے۔ (بخاری۔ کتاب الجمعۃ۔ باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ حدیث نمبر 935)
جیساکہ ہم نے دیکھا، اس سے مرادجمعہ کی نماز ہے اور خطبہ بھی نماز کا حصہ ہے۔ تو یہ جمعہ کا مقام ہے کہ دعا کی قبولیت کی ایک گھڑی ہے جس میں تم جو خیر اللہ سے طلب کرو، اللہ عطا فرماتاہے۔ پس تم یہ نہ سمجھو کہ تمہاری تجارتیں تمہیں فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ تمہیں کیا ضمانت ہے کہ اگر تم تجارت کی خاطر جمعہ کی نماز چھوڑ و توضرورتمہیں اس میں تمہاری توقعات کے مطابق فائدہ ہوگااورنفع ہوگا۔ لیکن اللہ کا رسولﷺ اس بات کی تمہیں اطلاع دیتے ہیں کہ اگر اس دن ان اوقات میں تم اللہ سے خیر اور بھلائی طلب کر رہے ہو تو وہ تمہیں ضرور ملے گی بشرطیکہ تم کبائر سے بچنے کی شرط بھی پوری کر رہے ہو۔ پس یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایاہے کہ جب ایک مسلمان کو، ایک مومن کو، جمعہ کی نماز پر بلایا جائے تو جلدی کرواورتجارتیں چھوڑ دو، یہی تمہارے لئے بہترہے۔ کہیں نہیں فرمایا کہ رمضان کے آخری جمعہ کے لئے تو تجارتیں چھوڑ دو کیونکہ اس میں خاص طورپر دعائیں قبول ہوں گی اور باقی جمعوں کوتجارتوں کی خاطر چھوڑ بھی دیاتو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آنحضرتﷺ نے ہمیں جمعہ کی اہمیت بلکہ اس کے فرض ہونے کی طر ف توجہ دلاتے ہوئے یہ ضرور فرمایا ہے کہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ ادا کرنا ایسا حق ہے جو واجب ہے، سوائے غلام، عورت، بچے اور مریض کے۔ (سنن دارقطنی، کتاب الجمعۃ باب من تجب علیہ الجمعۃ حدیث نمبر 1561)
یہ سب لوگ معذور ہیں، مجبور ہیں اور مجبوری کے زمرے میں آتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے۔ جہاں جائز عذر ہے وہاں چھُوٹ بھی دی ہوئی ہے لیکن دنیاداری کو خدا کے مقابلے پر کھڑا نہیں کیا اور نہ ہی برداشت ہو سکتاہے۔
حدیث کے الفاظ ہیں کہ اَلْجُمُعَۃُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ۔ لغت والے حق جب اللہ تعالیٰ کے احکام کے بارہ میں ہو تواس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ ایسا قول یاعمل جو اس طرح ہو کہ جس طرح پر اس کا ہونا ضرور ی ہے اور جس وقت اس کا ہونا ضروری ہے۔ اور واجب یہاں ان معنوں میں آئے گا کہ یہ ایسا فرض ہے کہ جس کے نہ کرنے سے انسان قابل ملامت سمجھا جائے۔ پس یہ الفاظ جو آنحضرتﷺ نے بیان فرمائے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یعنی جمعہ کی نماز ایک ایسا فرض ہے جس کی ادائیگی اس کاحق ادا کرتے ہوئے اس کے مقررہ وقت پر کی جائے ورنہ ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں مسلمان اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا، قابل ملامت ہوگا۔ پس جمعہ کا چھوڑنا یا اس کو کوئی اہمیت نہ دینا، بڑا ہی فکر کامقام ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ دوسری آیت میں فرماتاہے کہ جب تم نے اپنی تجارت پر، اپنے کاروبار پر جمعہ کو اہمیت دی، جب تم نے میرے اس مقرر کردہ فریضے کی ادائیگی میں اپنے مادی مفادکی کچھ پروا ہ نہیں کی، تویہ نہ سمجھو کہ مَیں نے تمہار ایہ عمل بغیر کسی انعام کے چھوڑ اہے۔ نہیں، بلکہ اب جبکہ تم نے یہ فریضہ ادا کر دیاہے تو اپنے کاروباروں میں، اپنی تجارتوں میں بیشک مصروف ہو جاؤ۔ اب ان کاموں میں تمہاری اس عبادت اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل رکھ دیاہے۔ اب تم دنیا کی منفعتیں حاصل کرو اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں برکت پاؤ گے۔ لیکن ان کاروباروں کے دوران بھی تم اللہ کا ذکر کرتے رہنا، اسے بھول نہ جانا۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گز ار بندے بنے رہنا۔ تمہاری توجہ اس طرف رہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کاروبار پر فضل فرمایاہے تو مَیں اس کے احکامات کی تعمیل پہلے سے بڑھ کرکروں گا۔ کاروبار وں کو ہوشیاریوں، چالاکیوں سے ناجائز منافعوں کا ذریعہ نہ بناؤ۔ اللہ کا جب حقیقی ذکر ہوگا تو خدا کا خوف بھی ہمیشہ رہے گا اور جب خدا کا خوف رہے گا، اس کے ذکر سے زبان تر رہے گی تو یہی چیز پھر تمہاری آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ ہوگی۔ پھر تمہارے پر اس کی طرف سے مزید کامیابیوں اور فلاح کے دروازے کھلیں گے۔
آگے اللہ تعالیٰ فرماتاہے لیکن جو لوگ میرے اس حکم کو سن کر بھی جمعہ کو اہمیت نہیں دیتے، میری اس بات کو توجہ سے نہیں سنتے کہ اللہ کا ذکر کرنا ہی دراصل ہمیشہ کی فلاح کا باعث ہے بلکہ ان کے دل دنیا کی تجارتوں اور لہوولعب میں ہی گرفتار ہیں اور اے نبی!ﷺ اللہ کے اس حکم کی طرف بلانے پرتیر ی آواز پر کا ن نہیں دھرتے تو ایسے لوگ منافق ہیں۔ اس بارے میں آنحضرتﷺ نے بڑا انذار فرمایاہواہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ جس کسی نے بلا وجہ جمعہ چھوڑا وہ اعمال نامے میں منافق لکھاجائے گا جسے نہ تو مٹایا جاسکے گا اور نہ ہی تبدیل کیا جاسکے گا۔ (مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ۔ باب وجوبھا۔ الفصل الثالث صفحہ121)
پس اللہ تعالیٰ نے جویہ فرمایاہے کہ جب وہ کوئی تجارت دیکھتے ہیں، دل بہلاوا دیکھتے ہیں اور اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے دوڑ پڑتے ہیں اور تَرَکُوْکَ قَآئِمًا تجھے اکیلا چھوڑ دیتے ہیں یعنی تیری بات پر کان نہیں دھرتے یہ ان منافقین کے بارہ میں ہے۔ ورنہ آنحضرتﷺ کے توایسے جانثار صحابہؓ تھے جنہوں نے سخت سے سخت حالات اور جنگوں میں بھی آپؐ کو اکیلا نہیں چھوڑا۔
دوسری اس بات کی اہمیت اِس زمانے کے لئے ہے جب مسلمان دنیاداری میں ملوث ہیں۔ یہ زمانہ جس میں لہو ولعب کے بھی قسم ہا قسم کے سامان میسر ہیں اور تجارتیں اور کاروبار بھی ایک خاص کشش لئے ہوئے ہیں اور عملاً مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جمعہ کی نماز کی طرف کم توجہ دیتی ہے۔ آنحضرتﷺ کے زمانے میں منافقین کے آپ ؐ کی آواز پر کان نہ دھرنے سے آپ اکیلے نہیں تھے، گو منافقین یہی تصور کرتے تھے کہ ہم نے اکیلا چھوڑ دیا، اس وقت صحابہ ؓ کا ایک گروہِ کثیر آپؐ کے ساتھ تھا۔ لیکن اس زمانہ میں جب دنیاداری بہت زیادہ آ چکی ہے اور مسلمانوں کی اکثریت صرف عید کی نماز یں پڑھتی ہے یا پھر جیساکہ غلط تصوّر پیدا ہو چکاہے جمعۃ الوداع کی نماز پڑھتے ہیں تو یہ اس زمانے کے مسلمانوں کے لئے خاص طورپر قابل توجہ ہے۔ آنحضرتﷺ اس بارہ میں انذار فرما چکے ہیں۔ ایک حدیث میں آتاہے۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہے اس پر جمعہ کے دن جمعہ پڑھنا فرض کیا گیاہے۔ سوائے مریض، مسافر، عورت، بچے اور غلام کے۔ جس شخص نے لہو ولعب اور تجارت کی وجہ سے جمعہ سے لاپرواہی برتی، اللہ تعالیٰ بھی اس سے بے پرواہی کا سلوک کر ے گا۔ یقینا اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمد والاہے۔ (سنن دارقطنی۔ کتاب الجمعۃ۔ باب من تجب علیہ الجمعۃ حدیث نمبر 1560)
پس اللہ تعالیٰ کی لاپرواہی کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ ہر ذی شعور جس میں اللہ کا خوف ہے، خوب سمجھتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی لاپرواہی سے مراد تباہی اور بربادی ہے۔ نہ دین ملتاہے اور نہ دنیا ملتی ہے۔ من حیث الجماعت اگر آج مسلمانوں کی حالت دیکھیں تو صاف پتہ چلتاہے کہ آنحضرتﷺ کے احکامات کی بجاآوری نہ کرکے، اللہ تعالیٰ کے حکمو ں کو پس پشت ڈال کر یہ حالت ہے۔ اور آخرت کا نقشہ کہ وہاں سلوک کیا ہوگا؟ایک روایت میں یوں کھینچا گیاہے۔ حضرت سمرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :نماز جمعہ پڑھنے آیا کرو اور امام کے قریب ہو کر بیٹھا کرو اور ایک شخص جمعہ سے پیچھے رہتے رہتے جنت سے پیچھے رہ جاتاہے حالانکہ وہ جنت کا اہل ہوتاہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6۔ مسند سمرہ بن جندب حدیث نمبر 20373)
ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ اللہ کے حضور جمعوں کے حساب سے بیٹھے ہوں گے۔ پس کس قدر بدنصیبی ہے کہ بعض اعمال کی وجہ سے جنت کا اہل ہوتے ہوئے بھی صرف جمعہ نہ پڑھنے کی وجہ سے جنت سے دور کر دیا جاتاہے۔ پھر آنحضرتﷺ جمعہ چھوڑنے والوں سے خود کس قدر ناراضگی کا اظہار فرماتے ہیں۔ ایک روایت میں آتاہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ وہ لوگ جو جمعہ چھوڑتے ہیں ان کے متعلق میرا دل چاہتاہے کہ مَیں کسی اور شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور مَیں جمعہ سے پیچھے رہنے والوں کے گھروں کوآگ لگا دوں۔ (مسلم۔ کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ۔ باب فضل للصلوٰۃ الجمعۃ وبیان التشدید فی التخلف عنہا حدیث نمبر 1370)
پس اس انذار کو ہرایک کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ آنحضرتﷺ کی اس کیفیت کو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ آپ ؐ تو رحمۃ للعالمین ہیں۔ آپ ؐ کا دل تو جانوروں اور پرندوں کے لئے بھی پیار، محبت اور رحمت سے بھرا ہواہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کے احکامات سے کسی کو ہٹا ہوا دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ مَیں جمعہ نہ پڑھنے والوں کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ یہ اظہار بھی اس ہمدرد ی کی وجہ سے ہے جو آپ ؐ کے دل میں اپنی قوم کے لئے تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اتنا قریب آیا ہواہے، تمہاری دنیاوی تجارتوں اور مفادات اور رونقوں کے مقابلے میں ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ تمہارے مفادات کے سامان کر رہاہے پھر بھی تم نہیں لے رہے۔ یہ اظہار اس لئے نہیں کہ مَیں کردوں گا۔ یہ اظہار اس لئے ہے کہ ایسے نافرمانوں کو جمعہ کی اہمیت کا اندازہ ہو۔ اللہ اپنی رحمتیں بانٹ رہاہے اور تم لے نہیں رہے۔ سمجھ رہے ہو کہ گھر کے آرام یا تجارتیں یا دنیاوی فائدے جمعہ کے اجر سے زیادہ فائدہ دے رہے ہیں۔ آپ کیا فرما رہے ہیں کہ اگر میرے سے پوچھو تو پھر مَیں تمہیں بتاؤں کہ اس دنیاوی آرام و آسائش، کھیل کود اور تجارتوں کو اگر تمہیں آگ لگا کر، ان سے چھٹکارا پاتے ہوئے بھی جمعہ کے لئے آنا پڑے تو آؤ اور ان سے بچو اور جمعہ کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ تاکہ روحانیت میں ترقی کرو، تاکہ قبولیت دعا کے نظارے دیکھو، تاکہ خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرو اور دائمی تجارتوں کے وارث بن جاؤ جن میں کبھی کوئی خسارہ نہیں۔ آج ہمیں غیر قوموں کی، مذہب سے بھٹکے ہوؤں کی رونقیں اور تجارتیں اور دولتیں اپنی طرف کھینچ رہی ہیں اور نتیجۃًاپنے اس مقصد کوبھول رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے میں ہی سب برکات ہیں اور اس کے بلانے پر آنے پر ہی تمام تجارتیں ہیں، ایسی تجارتیں ہیں جوہمیشہ کے لئے فائدہ دینے والی ہیں۔ تو یہ واضح کیا جارہاہے کہ سن لو یہ دنیا کی رونقیں اور تجارتیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ پس ہم میں آج اگر تھوڑی تعدا د بھی دوسروں کی نقل میں صرف جمعۃالوداع کو اس لئے اہمیت دے رہی ہے کہ آج گناہ بخشوا لئے، اب اگلے سال دیکھی جائے گی تو ایسے سب لوگ انتہائی غلطی پر ہیں۔ ہاں اگر اس لئے آئے ہیں کہ آج کے جمعہ سے فیضیاب ہوتے ہوئے، اس کی برکات سے فیضیاب ہوتے ہوئے اب جمعوں کی حاضری میں باقاعدگی اختیار کرنی ہے تویہ بہترین اور بابرکت ترین دن ہے ایسے شخص کی زندگی میں جس میں ایسا انقلاب پیدا ہوا۔ اس زمانے میں جیسا کہ مَیں نے کہا، جمعوں کی خاص اہمیت ہے کیونکہ سامان لہو ولعب بھی بہت ہے اور تجارتوں کی لالچیں بھی بہت ہیں۔ اس لئے ان سے بچنا بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑے اجر کا باعث ہے، اس کا ثواب بھی بہت بڑا ہے۔
لیکن ایک احمدی کو اس لحاظ سے بھی اس جمعہ کی اہمیت کو مدنظر رکھنا چاہئے اور اس پیغام کو پھیلانا چاہئے کہ یہ زمانہ جس میں سے ہم گزر رہے ہیں آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کی اس سورۃ یعنی سورۃ الجمعہ میں اترے ہوئے احکامات کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے۔ اس سورۃ میں وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4) کا اعلان بھی ہے کہ ایک دوسری قوم بھی ہے جن میں وہ اسے بھیجے گا جوابھی تک ان سے ملی نہیں۔ پس اس میں آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کے بھیجنے کی خوشخبری اور اعلان تھا جس نے ایک جماعت بنانے کے لئے، مسلمانوں کو جمع کر نے کے لئے، انہیں جمعہ کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے آواز دینی تھی۔ جو مبعوث ہوا اور اس نے آواز دی اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اس کو مانا کہ ہم آواز پر لبیک کہتے ہوئے فلاح کے راستوں کی تلاش کی غرض سے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں۔ ہم وہ نہیں جو صرف سال کے سال جمعہ پڑھنے والے ہیں بلکہ ہم وہ ہیں جنہوں نے اصل کو پالیا۔ اس اصل کو پالیا ہے کہ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ یعنی جو اللہ کے پاس ہے وہ اس دل بہلاوے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اے اللہ ! ہم نے تیرے اس اعلان کو خوب سمجھاہے جو تُو نے اپنے پیارے رسولﷺ کے ذریعہ سے کرایا تھا اور جس کا فہم و ادراک ہمیں حقیقت میں اس افضل الرسل ؐ کے عاشق صادق نے کروایا کہ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ کہ اللہ تعالیٰ رزق عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ اور ایسی ایسی جگہوں سے رزق دیتاہے جہاں سے بندے کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ پس ہم کس طرح رسول کو اکیلا چھوڑ کر لہو ولعب اور کھیل کود میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ یہ ہے وہ فہم و ادراک جو کم از کم ہر احمدی میں جمعہ کی اہمیت کے بارہ میں ہونا چاہئے۔ پس ہمیشہ یاد رکھو کہ احمد ی یہ کبھی نہ بھولے کہ زمانہ کے امام کو مان کر، مسیح موعود کو مان کر ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ہمارے جمعے اب عام جمعے نہیں رہے۔ ہماری اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کی کوشش اب سطحی نہیں رہی کہ عمل کرلیا، کر لیا، نہ کیا تو کوئی حرج نہیں۔ ہم نے تو اپنے جمعوں کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ اپنی نسلوں کے جمعوں کی بھی حفاظت کرنی ہے اور جو تمام مسلمانوں اور تمام قوموں کو دین واحد پر جمع کرنے کاکام ہمارے سپرد ہواہے اس کی بجا آوری بھی کرنی ہے۔ اگر ہمارے جمعوں میں باقاعدگی نہیں، اگر ہمارے جمعوں میں ایک خاص توجہ نہیں تو ہماری بیعت کا دعویٰ بھی بے فائدہ ہے۔ ہمارا قول وفعل کا تضاد بھی قابل فکر ہے۔ مَیں نے نسلوں کی تربیت کی بات کی ہے تو یہ بھی ذکر کردوں کہ بعض بیویاں، بعض عورتیں اپنے خاوندوں کے بارہ میں دعا کے لئے لکھتی ہیں کہ دعا کریں کہ انہیں نمازوں میں باقاعدگی کی طرف توجہ پیدا ہوجائے، انہیں جمعوں میں باقاعدگی کی طرف توجہ پیدا ہوجائے۔ اس بات سے خوشی بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسی عابدات عطا کی ہوئی ہیں جن کو اپنی نمازوں کے ساتھ اپنے خاوندوں اور بچوں کی بھی فکر ہے۔ لیکن اس بات سے خوشی کے ساتھ ایک فکر بھی گھیر لیتی ہے کہ اگر ان خاوندوں کی، ان باپوں کی اصلاح نہ ہوئی جو دین کی طرف پوری توجہ نہیں دیتے توان کے بچے بھی ان کی دیکھا دیکھی وہی عمل نہ شروع کر دیں۔ آج کے زمانے میں جیساکہ مَیں نے بتایا کھیل کود، لہو ولعب کی قسمیں بھی بے انتہا ہیں، دین سے بے توجہگی کہیں ان نئی نسلوں کو بھی لہو ولعب میں مبتلا نہ کردے۔ جماعت کے بچے اللہ نہ کرے، اللہ نہ کر ے، دین سے اور خدا سے اتنے دور نہ چلے جائیں جہاں سے واپسی مشکل ہو جائے۔ پس اس زمانے میں ایک احمدی کی ذمہ داریاں بہت بڑھی ہوئی ہیں۔ ایک امانت جو ہمارے سپرد ہے، ایک عہد جو ہم نے کیا ہے اس کا حق ادا کرنا ہے اور یہ حق دعا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے جمعے میں وہ گھڑی رکھی ہے جس میں وہ اپنے سے مانگی ہوئی ہر خیر کی دعا قبول فرماتاہے۔ اور اس سے بڑی خیر کی دعا کیا ہو گی کہ ہم اللہ سے اپنی نسلوں کے اس سے مضبوط تعلق کی دعا مانگیں تاکہ وہ دین جو اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے اس پر قائم رہنے، اس پر اپنی نسلوں کو قائم رکھنے اور اس کے پھیلانے میں ہمارا بھی کردار ہو اور ہم حقیقت میں جمعہ کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ ہم حقیقت میں اُس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا۔ اور آپ ؑ نے آخرین میں بھی ایک جماعت پیدا کر دی جوپہلوں سے ملے اور وہ مقام حاصل کیا اور انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی جو پہلوں نے کیاتھا۔ انہوں نے اپنی عبادتوں کے معیار بھی حاصل کئے، اپنے تعلق باللہ کے بھی مقام حاصل کئے۔ ہم میں سے بہت ہیں جن کو اس بات پر فخر ہے کہ ہم ان صحابہ ؓ کی اولادیں ہیں جن کو پہلو ں سے ملنے کا مقام ملا۔ یہ فخر کسی کام نہیں آئے گا اگر ہم نے اپنے اعمال میں بھی ان بزرگوں کے نقش قدم پرچلتے ہوئے پاک تبدیلیاں پیدا نہ کیں۔ پس فکر کا مقام ہے اور بہت فکر کا مقام ہے۔ اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔
آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلے آنے کا انقلاب تواب آنا ہے۔ تمام دنیا نے آپ ؐ کے جھنڈے تلے آناہے، انشاء اللہ، کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ ہمیں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے، شعائر اللہ کی حفاظت کرتے ہوئے اس انقلاب کا حصّہ بنناہے تبھی ہم اس زمانے اور ان جمعوں کی برکات سے فیضیاب ہونے والے کہلاسکیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاا یک ارشاد پیش کرتاہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ نے جو اتمام نعمت کی ہے وہ یہی دین ہے جس کا نام اسلام رکھاہے۔ پھر نعمت میں جمعہ کا دن بھی ہے جس روز اتمام نعمت ہوا۔ یہ اس طرف اشارہ تھاکہ پھر اتمام نعمت جو لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ(الصف:10) کی صورت میں ہوگا، وہ بھی ایک عظیم الشان جمعہ ہوگا۔ وہ جمعہ اب آگیاہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے وہ جمعہ مسیح موعودؑ کے ساتھ مخصوص رکھاہے۔ اس لئے کہ اتمام نعمت کی صورتیں دراصل دو ہیں۔ اوّل تکمیل ہدایت، دو م تکمیل اشاعت ہدایت۔ اب تم غور کر کے دیکھو تکمیل ہدایت تو آنحضرتﷺ کے زمانہ میں کامل طورپرہوچکی لیکن اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا تھا کہ تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ دوسرا زمانہ ہو، جبکہ آنحضرتﷺ برو زی رنگ میں ظہور فرماویں اور وہ زمانہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ اس شان میں فرمایا گیاہے۔ تمام مفسرین نے بالاتفاق اس امر کو تسلیم کرلیاہے کہ یہ آیت مسیح موعودؑ کے زمانہ سے متعلق ہے۔ درحقیقت اظہار دین اسی وقت ہوسکتاہے جبکہ کل مذاہب میدان میں نکل آویں اور اشاعت مذہب کے ہر قسم کے مفید ذریعے پیدا ہو جائیں اور وہ زمانہ خداکے فضل سے آگیاہے۔ چنانچہ اس وقت پریس کی طاقت سے کتابوں کی اشاعت اور طبع میں جو جو سہولتیں میسر آئی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں۔ ڈاکخانوں کے ذریعہ سے کل دنیا میں تبلیغ ہو سکتی ہے۔ اخباروں کے ذریعہ سے تمام دنیا کے حالات پر اطلاع ملتی ہے۔ ریلوں کے ذریعہ سے سفر آسان کر دئے گئے ہیں۔ غرض جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعودؑ کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہار دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں۔ اس لئے یہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے ذریعہ سے لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کہہ کر فرمائی تھی۔ یہ وہی زمانہ ہے جو اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(المائدۃ:4) کی شان کو بلند کرنے والااور تکمیل اشاعت ہدایت کی صورت میں دوبارہ اتمام نعمت کا زمانہ ہے۔ اور پھریہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے۔ اس وقت رسول اللہﷺ کا ظہور بروز ی رنگ میں ہواہے اور ایک جماعت صحابہ ؓ کی پھر قائم ہوئی ہے۔ اتمامِ نعمت کا وقت آپہنچا ہے لیکن تھوڑے ہیں جو اس سے آگاہ ہیں اور بہت ہیں جوہنسی کرتے اور ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں۔ مگر وہ وقت قریب ہے کہ خداتعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق تجلّی فرمائے گا اور اپنے زورآورحملوں سے دکھا دے گا کہ اس کا نذیر سچاہے ‘‘۔ (ملفوظات حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم صفحہ 135-134 جدید ایڈیشن)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا کہ یہ جو زمانہ ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں، اس میں تمام دینوں نے جمع ہوناہے اور اس میں اشاعت ہدایت کاکام تکمیل کو پہنچنا ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی زمانہ ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جس میں تمام دین میدان میں نکلے ہوئے ہیں بلکہ وہ بھی جو خدا کو نہیں مانتے ان اشاعت کے سامانوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دنیا کو ورغلانے میں لگے ہوئے ہیں، ہدایت سے دُور لے جانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس وقت تمام دوسرے فرقے اور مذاہب بشمول عیسائیت اور دوسرے بھی احمدیت کوچیلنج کر رہے ہیں لیکن انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی مقد رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنے وقت کی چند ایجادات کا ذکر فرمایاہے اور فرمایاکہ ’’جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اُسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعودؑ کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہار دین کی صورتیں نکلتی آتی ہی‘‘۔ آج دیکھیں سیٹلائٹ، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ نے اس میں مزید وسعت پیدا کردی ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی تائیدات کے طورپر ایم ٹی اے اور انٹرنیٹ بھی آپ کو مہیا فرما دیاہے جس کے ذریعہ سے تبلیغ کا کام ہو رہاہے۔ یہ سب دین واحد پر جمع کرنے کے سامان ہیں جیساکہ آپ ؑ نے فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ تو یہ انتظامات فرما رہاہے لیکن ہمیں بھی اس کے حکموں پر چلتے ہوئے اس زمانہ میں اپنی سوچوں کو وسعت دیتے ہوئے دعاؤں کے ساتھ اپنی اور اپنی نسل کی فکر کرتے ہوئے اس انقلاب میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جہاں ہم اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ کے نظارے دیکھتے ہوئے فیض پانے والے ہوں۔ پس اس زمانے میں ہر احمدی کو عبادتوں اور دعاؤں کے معیار کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ صرف رمضان اور رمضان کا آخری جمعہ نہیں بلکہ جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا پانچوں نمازیں اور جمعہ سے جمعہ اور رمضان سے رمضان ہمارے اندر پاکیزگی پیدا کرنے والاہو۔ اللہ ہماری لغزشوں کو معاف فرمائے اور ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل فرمائے جو فتح اور کامرانی کے نظارے دیکھنے والے ہوں گے۔ پس آج ہمیں اس جمعہ میں یہ عہد کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں روزے کے ساتھ اس جمعہ کی عبادت کی توفیق عطا فرمائی ہے تو ہم اس مقصد کو سب سے پہلے اپنے اوپر لاگو کرنے والے بنیں جس کے لئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام آئے تھے اور اس کے لئے اپنی تمام برائیوں اور بدیوں کو نیکیوں میں بدلنے کی کوشش کریں۔ تمام ناپاکیوں کوپاکیوں میں بدلنے کی کوشش کریں۔ پس یہ تھوڑا سا وقت جو روزے کے اختتام اور رمضان کے اختتام میں اور جمعہ کے اختتام میں رہ گیاہے اس میں ذکر الٰہی سے اپنی زبانیں تر رکھیں۔ بقیہ وقت اس بات کو ذہن میں رکھ کر اس کی جگالی کریں کہ ہم نے رمضان میں جو نیکیوں کی کوشش اور عبادات کی کوشش، اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کی ہے، مالی قربانیوں کی کوشش کی ہے۔ تحریک جدید اور وقف جدید کے وعدے پورے کرنے کی ان دنوں احمدی بہت کوشش کرتے ہیں تو ان تمام اعمال اور ان نیکیوں کو اس جمعہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ قبول فرمالے۔ اے اللہ !ہمیں اب ان عبادتوں، ان دعاؤں ان نیکیوں، ان حقوق کی ادائیگیوں میں ہمیشہ قائم رہنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمار اآئندہ ہر کا م اور ہر عمل تیری رضا کا حصول ہوجائے جس کی برکات سے توُہمیشہ ہمیں متمتع فرماتا رہے۔ ہمیں ان انقلابات کے نظارے دکھانا جن کاوعدہ توُ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام سے کیاہے۔ اپنے پیار کرنے والے اللہ سے ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ دعائیں جب ہر ایک احمدی کے دل سے آج کے دن یکجائی صورت میں اُبل کر نکلیں گی تو ہر دل سے نکلی ہوئی دعا کا یہ سَوتا لاکھوں کروڑوں سَوتوں کی صورت میں جمع ہو کر اس تیز بہاؤوالے دریا کی صورت اختیار کر لے گا جس کے سامنے آیاہوا ہر گند صاف ہو جاتاہے۔ ایک دوسرے کی دعاؤں کی مدد سے ہمارے دلوں کے میل اسی طرح دھلتے چلے جائیں۔ پس آج کی دعاؤں کو اس شفاف پانی کے دھارے کی صورت بنادیں، یہ شفاف پانی کا دھارا جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بنایا گیاہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہی بنتاہے اور بنے گا اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے فیض پاتے ہوئے ہمارے دلوں کی کدورتوں اور میلوں کومزید دھوتا چلا جائے گا اور ہم نیکیوں پر دوام اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مزید رضا اور اس کا قرب پانے والے بنتے چلے جائیں اور قبولیت دعا کے نظاروں کو دیکھنے والے ہوں۔ دلوں کی پاکیزگیوں کودیکھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے پیار کو دیکھنے والے ہوں۔ دشمن سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے والے ہوں اور اپنے آخری مقصد یعنی اللہ تعالیٰ کی حکومت اپنے دلوں میں بھی اور دنیا کے دلوں میں بھی قائم کرنے والے ہوں۔ اللہ کے پیارے رسولﷺ کے دین کا جھنڈا جو اس زمانے میں مسیح موعودؑ کے سپرد کیا گیاہے اسے اس جمعہ کی برکات سے تمام دنیا میں لہراتا ہوا دیکھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا ہوتا ہوا دیکھیں کہ دینِ واحد پر اس مسیح موعودؑ نے اب جمع کرناہے۔
پس یہ جمعہ جو دائمی برکات کا حامل ہے اور برکات سے فیضیاب کرنے والاہے اللہ تعالیٰ ہمیں اسے دیکھنے اور پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ بعید نہیں کہ ہماری دعاؤں کے دوران اس وقت بھی ہمیں وہ گھڑی میسر آگئی ہو جو قبولیت دعا کی گھڑی ہوتی ہے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ رمضان کے آخری دن میں خاص طورپرہر بیمار، مجبور، ضرورتمند کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ تمام دین کی خدمت کرنے والوں کو اپنی دعاؤ ں میں یاد رکھیں۔ تمام واقفین زندگی کو اپنی دعاؤ ں میں یاد رکھیں۔ وہ بچے جن کے والدین نے، بچوں نے خود اپنے آپ کو وقف کیاہے ان کو اپنی دعاؤ ں میں یاد رکھیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عہد نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ مالی قربانی کرنے والوں کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ امتِ مسلمہ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ تمام انسانیت کو دعاؤ ں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہر تکلیف اور تباہی سے ان سب کو بچائے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:
اس وقت مَیں ایک ذکر کرنا چاہتاہوں جیساکہ ہمارے میں سے اکثریت کو پتہ ہے کہ ہمارے ایک فدائی کارکن، بڑے فدائی احمدی مکرم ملک خلیل الرحمن صاحب 5؍اکتوبر کوگزشتہ جمعہ وفات پاگئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بڑے پرانے جماعت کے خدمت کرنے والے کارکنوں میں سے تھے۔ جب ایم ٹی اے شروع ہواہے اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے خطبات، تقریروں اور درسوں کا انگریزی میں ترجمہ کرتے رہے۔ پھر میرے بھی خطبات اور تقریروں کے ترجمے انہوں نے کئے۔ اور گزشتہ جمعہ کو بھی جمعہ پر جانے کے لئے تیار ہو کر بیٹھے تھے کہ مسجد جا کر ترجمہ کا فرض ادا کرنا ہے لیکن اسی دوران ان کو ہارٹ اٹیک ہوا اور جانبر نہ ہو سکے۔ پہلے تو پتہ بھی نہیں لگ رہا تھا کہ تکلیف کیاہے۔ شا م کے وقت پتہ لگا کیونکہ اس وقت وہ گھر میں اکیلے تھے۔ اکثر اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ بڑے دعاگوتھے اور اعتکاف میں جو بڑا اہتمام کیا جاتاہے، عام طورپر لوگ بڑے بڑے بستر لے کر آتے ہیں، وہ ایک رضائی یا لحاف لے آتے تھے اور بغیر تکیہ کے اس کوآدھے کو نیچے بچھا لیاکرتے تھے اور آدھے کو اوپر۔ یہ ان کے بعض ساتھیوں نے بتایا۔ بستر کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا تھاکہ مسجد میں اگر آئے ہیں اور دعا کے لئے آئے ہیں تو زیادہ وقت دعاؤں میں ہی گزرے اور درود شریف بڑی کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ یہ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے اعتکاف میں ان کے ایک دوست نے بتایا۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو نظم ہے کہ ’’اے خداوند من گناہم بخش‘‘ ہر وقت ترنم سے پڑھتے رہتے تھے، گنگناتے تھے۔ ان کے ایک دوست نے لکھا ہے کہ انہوں نے کہا جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے نفس مطمئنہ پر ایک خطبہ دیاتھا یا درس میں بیان فرمایا تھا تو جب سے مَیں نے سناہے مَیں تو اس وقت سے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ نفس مطمئنہ نصیب ہوجائے۔ اور علاوہ ترجمہ کی خدمت کے شروع میں قائد خدام الاحمدیہ بھی رہے اور اس کے علاوہ نیشنل سیکرٹری سمعی بصری تھے۔ سیکرٹری تعلیم تھے۔ ریجنل ناظم انصار اللہ بھی رہے۔ ریڈنگ جماعت کے صدرکے طورپر خدمات اداکرتے رہے۔ اور گزشتہ سال ان کو یہاں یوکے میں جماعت احمدیہ کے پریس سیکرٹری کاکام بھی مَیں نے سپرد کیا تھا۔ بڑی خوش اسلوبی سے انہوں نے اس کو نبھایا اور ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک نوجوان نے مجھے لکھا کہ باوجود اس کے کہ مَیں ناتجربہ کار تھا، نوجوان تھا لیکن جب بھی مَیں نے ان کو کوئی مشورہ دیا تو بڑی عاجزی سے اس کو سنتے تھے۔ کبھی یہ نہیں کہاکہ تم کون ہو مشورہ دینے والے۔ اگر بہتر ہوتاتھا تو قبول کرلیتے تھے، نہیں تو بڑی حکمت سے سمجھا دیا کرتے تھے کہ اس میں یہ یہ نقصانات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے، ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کوبھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب کوصبر عطا فرمائے۔
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 2تا8نومبر2007ء ص5تا9)
جمعہ کی ادائیگی کی تلقین، جمعۃ الوداع کے غلط تصور کا بیان، مکرم ملک خلیل الرحمن صاحب (مرحوم) کا ذکر خیر
فرمودہ مورخہ 12؍اکتوبر 2007ء بمطابق12؍اخاء 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔