عزیز خدا کی رحمت اور بخشش
خطبہ جمعہ 26؍ اکتوبر 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا
اسلام پر اعتراض کرنے والے ایک بہت بڑا اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے خدا کا جوتصور پیش کیاہے وہ نعوذباللہ بڑے ظالم اور ایسے قاہر خدا کا تصورہے جو صرف عذاب دینے والاہے اور اپنے ماننے والوں کو سختی اور تشدّد کا حکم دیتاہے۔ اس دنیا میں بھی سزا دینے والا ہے۔ اور مرنے کے بعد بھی جہنم کا عذاب ہی لوگوں کے حصے میں آئے گا۔ یہی باتیں قرآن کریم میں پیش کی گئی ہیں۔ ہالینڈ میں ان کے منسٹر یا ایم پی تھے انہوں نے بھی اس قسم کا سوال اٹھایا تھا۔ پوپ صاحب نے بھی اسلام کے پیش کردہ خدا کا اسی طرح مذاق اڑایا تھا اور اسی طرح دوسرے بھی ہیں جو چاہے کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں یا خدا کی ہستی کے انکاری ہیں، اکثر اسلام کی مثال دے کر یہ بات پیش کرتے ہیں کہ اسلام کا خدا بڑا جابر، ظالم اور قاہر خدا ہے جس کی ہستی میں، جس کے احکامات میں کوئی حکمت نہیں ہے اور خدا کی طرف منسوب ہونے والے سب احکامات نعوذ باللہ بے دلیل اور بے حکمت ہیں اور نتیجتاً اسلام زبردستی کرنے والا اور پُرتشدد مذہب ہے اور اس وجہ سے مسلمانوں میں سختی اور تشدّد کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ ان اعتراض کرنے والوں نے نہ توقرآن کریم کو پڑھا جو پڑھنے کا حق ہے اور نہ ان کو سمجھ آ سکتا تھا اور نہ انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی۔ ان کے دل کینوں اور بغضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اگر ان کے دل کینوں اور بغض سے بھرے ہوئے نہ ہوں، اگر ان لوگوں میں انصاف کی نظر ہو تو دیکھیں کہ اسلام میں سب سے زیادہ خدا کی ہستی کی دلیل دی گئی ہے۔ اس کی صفات ایسی مثالیں دے کر سمجھائی گئی ہیں کہ اگر انصاف کی آنکھ بند نہ ہو تو اسلام میں خدا کے خوبصورت تصور سے زیادہ خوبصورت تصور کہیں نظر نہیں آتا اور نہ ہی آسکتا ہے۔ اسلام میں تو خدا کے حسن و احسان کا تصور ابتدا میں ہی، پہلی سورۃ میں ہی بیان ہو گیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خداتعالیٰ کے حسن و احسان کا تصور سورۃ فاتحہ سے یوں پیش فرمایا ہے، آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے‘‘ یعنی تمام صفات صرف اللہ کے نام میں ہیں ’’تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہوتا ہے‘‘ یعنی صحیح، درست اور حقیقی ثابت ہوتا ہے ’’کہ جب تمام صفات کاملہ اس میں پائی جاویں۔ پس جبکہ ہر ایک قسم کی خوبی اس میں پائی گئی تو حسن اس کاظاہر ہے۔ اسی حسن کے لحاظ سے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کا نام نور ہے، جیسا کہ فرمایا اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض(النور:36) یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے۔ ہر ایک نور اسی کے نور کا پَرتَو ہے‘‘۔ لیکن اس نور کو دیکھنے کے لئے تعصب کی عینکیں اتارنی ہوں گی۔ لیکن جو شیطان کی پیروی پر تلے ہوئے ہوں وہ اپنے کئے کاخمیازہ بھگتتے ہیں اور اللہ پھر انہیں نور کی بجائے اندھیروں کی طرف لے جاتا ہے۔ پس اگرقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا حسن نظر نہیں آتا یا اللہ کی ہستی کی پہچان نہیں ہوتی تو یہ دیکھنے والے کا قصور ہے جو اپنے دل کے دروازے اور کھڑکیاں بند رکھتے ہیں۔ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کا حسن دیکھنا ہو، اس تصور کو دیکھنا ہو جو اسلام پیش کرتا ہے تو اپنے دل کے دروازوں اور کھڑکیوں کو کھولنا ہو گا۔
پھر اللہ تعالیٰ کے احسان کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’احسان کی خوبیاں اللہ تعالیٰ میں بہت ہیں جن میں سے چار بطور اصل الاصول ہیں‘‘۔ چار بنیادی چیزیں ہیں ’’اور ان کی ترتیب طبعی کے لحاظ سے پہلی خوبی وہ ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں ربّ العالمین کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی ربوبیت یعنی پیدا کرنا اور کمال مطلوب تک پہنچانا‘‘ یعنی جہاں تک کسی چیز کی کوئی طلب ہو سکتی ہے، ضرورت کسی چیز کی ہو سکتی ہے، اس کو ضرورت کے مطابق وہاں تک، اس کی ضروریات کو پہنچانا۔ اور اس میں ہر ایک کی، مختلف چیزوں کی، مختلف اجسام کی اپنی اپنی طلب اور ضرورت ہے اگر جانوروں میں سے لیں تو جانوروں کی، جمادات کی، پودوں کی، درختوں کی تو جس چیز کی تمام چیزوں کو ضرورت ہو، اس کی انتہا تک پہنچنے کا انتظام کرنا یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ تمام عالموں میں یہ جو ربوبیت کی صفت ہے وہ جاری ہے جس میں عالم سماوی بھی ہیں اور عالم ارضی بھی ہیں، زمین وآسمان کے تمام عالم میں جو بھی جس چیز کی بھی ضرورت ہے، جس چیز کی بھی مخلوق کے لئے اور اس کی پرورش کے لئے ضرورت ہے وہ اللہ تعالیٰ مہیّا فرماتا ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ربوبیت الٰہی اگرچہ ہر ایک موجود کی موجد اور ہر ایک ظہور پذیر چیز کی مُرَبّی ہے‘‘ یعنی جو بھی چیز موجود ہے، اس نے ہی اس کو پیدا کیا ہے اور جو بھی چیز ظاہر ہوئی ہے یا ہورہی ہے اس کی پرورش کرنے والی بھی خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ لیکن بحیثیت احسان کے سب سے زیادہ فائدہ اس کا انسان کو پہنچتا ہے کیونکہ خداتعالیٰ کی تمام مخلوقات سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ تمہارا خداربّ العالمین ہے تا انسان کی امید زیادہ ہو اور یقین کرے کہ ہمارے فائدہ کے لئے خداتعالیٰ کی قدرتیں وسیع ہیں اور طرح طرح کے عالم اسباب ظہورمیں لا سکتا ہے‘‘۔
پھر فرمایا کہ دوسرے درجہ کا احسان رحمانیت ہے۔ فرمایا کہ ’’خداتعالیٰ کا نام رحمن اس وجہ سے ہے کہ اس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے، اس کے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی‘‘۔ یعنی جس کی زندگی کسی جاندار کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنائی، اس کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی وہ اسے مہیا کی گئیں، جس میں جسم کی بناوٹ اور اعضاء وغیرہ بھی شامل ہیں۔ مثلاً پرندے ہیں۔ ہوا میں اڑتے ہیں۔ ان کے جسم کی بناوٹ ایسی ہے کہ اونچا اڑنے والے، زیادہ سفر کرنے والے جوپرندے ہیں، جن کو تیز ہوا کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے سامنے کا سینہ انتہائی مضبوط بنایا گیا ہے، بڑا لمبا لمبا سفر کرکے مرغابیاں اور دوسرے پرندے دُور دراز علاقوں سے آتے ہیں۔ اسی طرح دوسری مخلوق ہے تو آپ ؑ فرماتے ہیں کہ اسی طرح انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کی ہیں۔ ’’ انسان کو خداتعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہے، کیونکہ ہر ایک چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہو رہی ہے‘‘۔
پھر فرماتے ہیں کہ ’’تیسری خوبی خداتعالیٰ کی، جو تیسرے درجے کا احسان ہے، رحیمیت ہے۔ … قرآن شریف کی اصطلاح کے روسے خدا تعالیٰ رحیم اس حالت میں کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور تضییع اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے‘‘۔ یہ احسان صرف انسان کے لئے ہے ربوبیت اور رحمانیت سے تو دوسری مخلوق بھی فائدہ اٹھا رہی ہے لیکن رحیمیت صرف اور صرف انسان کے لئے مخصوص ہے اور اگر اس سے انسان فائدہ نہ اٹھائے، اپنے رحیم خدا کو نہ پہچانے تو وہ بھی جانوروں اور پتھروں کی طرح ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں، چوتھااحسان سورۃ فاتحہ میں فقرہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن میں بیان فرمایا گیا ہے۔ فرمایا کہ ’’اس میں اور صفت رحیمیت میں یہ فرق ہے کہ رحیمیت میں دعا اور عبادت کے ذریعہ سے کامیابی کا استحقاق قائم ہوتاہے۔ رحیمیت میں انسان اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے، دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ پھر اس کو کامیابی عطا فرماتا ہے۔ اس کی دعائیں سنتا ہے’’ اور صفتِ مَالکیت یوم الدین کے ذریعہ سے وہ ثمرہ عطا کیاجاتا ہے‘‘۔ (تفسیر سورۃ الفاتحہ از حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 83 تا 85) یعنی ان دعاؤں کا پھر پھل ملتا ہے۔
پس اسلام کا تو یہ خدا کا تصور ہے کہ اس کی بنیادی صفات کو پہچانو تو اس کا حسن اور اس کا احسان ایک انسان پر ظاہر ہو جاتا ہے اور ایک مومن اپنے خدا کی صفات کا مزید فہم و ادراک حاصل کرتا ہے۔ اگرمَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن فرمایا ہے تو بندے پر چھوڑا ہے کہ اس کے حسن و احسان کو دیکھتے ہوئے اس کی صفات کو سمجھ کر ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر نیک اعمال بجا لاؤ گے، دعا اور عبادت کرو گے تو نیک جزا پاؤ گے۔ اگر بد اعمال کرو گے تو نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا۔ لیکن فرمایا کہ سزا جو تمہیں ملے گی، ہر عمل کا بدلہ اس کے مطابق ملتا ہے اللہ تعالیٰ ظلم نہیں کرتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو پہچانو اور اس سے اس کی جزا اور انعام حاصل کرنے کے لئے اس کی طرف جھکو، یہ نہ ہو کہ گناہوں میں دھنستے چلے جاؤ اور پھر سزا ملے اور پھر کہو کہ اسلام کا خدا سزا دینے والا ہے۔ خدا کو بھلا دو، اس کے آگے نہ جھکو اور پھر یہ کہو کہ خدانے ہم پر رحم کیوں نہیں کیا؟ اسلام کا خدا ایک طرف کہتا ہے کہ مَیں رحمن ہوں، دوسری طرف ہم پر رحم نہیں کر رہا۔ مَیں جو مرضی عمل کرتا چلا جاؤں، مجھے اس کی کوئی سزا نہیں ملنی چاہئے۔ اس دنیا میں بھی انسان قانون بناتا ہے تو اس جزا سزا کے قانون کو اپنے سامنے رکھتا ہے جو اس دنیامیں ہے، ان کی احتیاطیں کرتا ہے لیکن خدا جو عزیز ہے، غالب ہے، قدرتوں والا ہے، قدیر ہے، اس کو یہ لوگ پابند کرنا چاہتے ہیں کہ نہیں، خداتعالیٰ کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے اور پھر اس نظریے کا پرچار کیا جاتا ہے۔ اسلام کے خلاف غلط باتیں منسوب کی جاتی ہیں۔ لیکن جو اسلام پر اعتراض کرنے والے عیسائیوں میں سے ہیں وہ جو دلیل پیش کرتے ہیں، وہ یہ (ہے) کہ اپنے گناہوں کا کفارہ دوسرے سے کرائیں جو کسی طرح بھی حکمت کی بات نظر نہیں آتی۔ کیا دنیا کے قانون میں اس کو مانتے ہیں کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ اگر یہ چیز اپنے دنیاوی قانون میں نہیں ہے تو پھر یہ احمقانہ نظریہ خداتعالیٰ کے قانون میں کیوں ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ کی صفت مالکیت کی بھی ہے کیونکہ وہ مالک ہے اس لئے اس کی مرضی ہے کہ اس کے باوجود کہ بندہ کو اپنے کئے کی سزا مل سکتی ہے، وہ بخشنے کی طاقت اور قدرت بھی رکھتا ہے۔ دنیاوی قانون تو اگر قصور ہے تو اس کی سزا دے گا لیکن اللہ تعالیٰ قصوروں کو بخشنے کی طاقت بھی رکھتا ہے اور اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ تو اسلام کا خدا باوجود عزیز ہونے کے، باوجود تمام طاقتیں اور قوتیں رکھنے کے، غالب ہونے کے پھر رحمت اور بخشش کی نظر سے ہی اپنے بندے کو دیکھتا ہے، سوائے اس کے کہ بندہ حد سے زیادہ زیادتیوں اور ظلموں پر تلا ہوا ہو۔ تمام انبیاء کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب ظلم اور زیادتی حد سے بڑھ گئے تب اللہ تعالیٰ کا عذاب یا پکڑ آئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے سوچا کہ دوزخ کے سات دروازے کیوں ہیں اور جنت کے آٹھ دروازے کیوں ہیں۔ تو مجھے سمجھایا گیا کہ جنت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک زائد دروازہ بخشش کا رکھا ہوا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ باوجود غالب ہونے کے بخشش بھی اپنے بندوں، مخلوق اور انسانوں پہ بہت کرتا ہے۔ پس کیا ایسے بخشنہار اور بندوں کی ربوبیت اور رحمانیت کرنے والے خدا کا تصور جابر اور ظالم کا ہو سکتا ہے؟ یہ معترضین کی کم عقلی اور کم علمی ہے۔ اسلام کا خدا کا تصور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اللہ کے نام میں ہے جو تمام صفات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’آجکل توحید اور ہستی الٰہی پر بہت زورآور حملے ہو رہے ہیں۔ عیسائیوں نے بھی بہت کچھ زور مارا اور لکھا ہے لیکن جو کچھ کہا اور لکھا وہ اسلام کے خدا کی بابت ہی لکھا ہے، نہ کہ ایک مردہ مصلوب اور عاجز خدا کی بابت۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی اور وجود پر قلم اٹھائے گا اس کو آخر کار اسی خدا کی طرف آنا پڑے گاجو اسلام نے پیش کیا ہے کیونکہ صحیفۂ فطرت کے ایک ایک پتّے میں اس کا پتہ ملتا ہے اور بالطبع انسان اسی خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 52)
گزشتہ جمعہ کومَیں نے اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کا ذکر کیا تھا یعنی ایسا خدا جو قوی ہے اور غالب ہے اور سب طاقتوں کا مالک ہے، اسے کبھی مغلوب نہیں کیا جا سکتا۔ آج اس اعتراض کے حوالے سے دوبارہ اسی صفت کا ذکر کروں گا خدا باوجود عزیز ہونے کے نہ سزا دینے میں جلد باز ہے، نہ اپنے بندے کی پکڑکے انتظار میں رہتا ہے۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے، یہاں یہ بھی بتا دوں کہ صفت عزیز کا جب قرآن کریم میں ذ کر آیا ہے۔ توجیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبے میں بھی بتایا تھا کہ سوائے چند ایک مقامات کے دوسری صفات کے ساتھ ذکر ہے اور جب صفت عزیز کا استعمال ہوا ہے تو نصف جگہ تقریباً عزیز کے ساتھ حکیم کی صفت کا استعمال ہوا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ صفت بھی ہر فیصلہ حکمت کے ساتھ کرتی ہے، اور پھر صفت عزیز کا استعمال صفت رحیم کے ساتھ ہوا ہے، صفت حمید کے ساتھ ہوا ہے، وہاب کے ساتھ ہوا ہے، غفور کے ساتھ ہوا ہے اور کریم کے ساتھ ہوا ہے۔ اور جہاں صفت عزیز کے ساتھ سزا دینے یا اپنے قوی یا ذو انتقام ہونے کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، یعنی انتقام لینے والا، سزا دینے والا یا قوی کا اظہا ر ہوا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے وجوہات بیان فرمائی ہیں کہ کیوں اللہ تعالیٰ انتقام لیتا ہے، کیوں سزا دیتاہے، یا طاقت کا اظہار کرتا ہے، اور یہ ذکر کل دس بارہ جگہ ہوا ہے۔
پس اگر کوئی انصاف کی آنکھ سے دیکھے، اپنے ماحول پر نظر ڈالے، اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمانیت پر غور کرے، تو سوال ہی نہیں کہ رحیمیت کی طرف توجہ پیدا نہ ہو اور جو اس حد تک بغاوت پر آمادہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی پہچان ہی نہیں کرنا چاہتا تو اللہ تعالیٰ باوجو د عزیز ہونے کے فرماتا ہے کہ اس کی سزا اُس کو اگلے جہان میں دوں گا۔ مرنے کے بعد اس سے معاملہ کروں گا۔ سوائے ان کے جنہوں نے انبیاء کے ماننے والوں کے ساتھ زیادتی کی، انبیاء کے ساتھ زیادتی کی، ان کا جینا اجیرن کر دیا ہے، معاشرے کی زندگی اجیرن کر دی انہیں اس دنیا میں بھی سزا ملتی رہی۔
پس جو اللہ تعالیٰ کا قانون توڑے اور حد سے بڑھنے والا ہو، اس کے پیاروں سے استہزاء کرنے والا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ اس لئے پکڑ کرتا ہے تاکہ جو قوم اس طرح کر رہی ہے ان میں سے اگر کسی کی اصلاح ہو سکتی ہے تو اصلاح ہو جائے یا بعد میں آنے والی قومیں بھی ان سے عبرت پکڑیں اور اپنے انبیاء کا استہزاء نہ کریں۔ ان کے لئے ایسا عبرت کا نمونہ ہو جو ان کی اصلاح کا باعث بنے۔ پس ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ ذوانتقام اور قوی ہونے کا اظہار کرتا ہے تاکہ دنیا کو پتہ لگے کہ خدا عزیز ہے، اس کو یا اس کے پیاروں کو یا اس کے ماننے والوں کو مغلوب نہیں کیا جا سکتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ایسے لوگوں کو بھسم کر دیا کرتی ہے۔
اس کی چند مثالیں میں قرآن کریم سے دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتا ہے کہ مِنْ قَبْلُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ۔ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ(آل عمران :5)یعنی ان سے پہلے لوگوں کے لئے ہدایت کے طور پر اور اُسی نے فرقان نازل کیا۔ یقینا وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا، ان کے لئے سخت عذاب مقدر ہے اور اللہ کامل غلبہ والا اور انتقام لینے والا ہے۔
تو اللہ تعالیٰ اُن سے انتقام لیتا ہے جو بار بار کی نصیحت کے باوجود اور باوجود اس کے کہ تورات اور انجیل میں (اس کو اگر سیاق و سباق سے پڑھیں تو ان میں ) بھی یہ ذکر ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرو یعنی ان کی جو بنیادی تعلیم تھی وہ تو ایک خدا کی عبادت کی ہے۔ بعد میں بعض تبدیلیاں کی گئی ہیں اور بندے کو خدا بنایا گیا یا شرک کی تعلیم دی گئی۔ پھریہ بھی تعلیم تھی کہ بعد میں آنے والے کو جس نے خاتم الانبیاء کا اعزاز پاتے ہوئے آنا ہے اس کو بھی قبول کرنا ہے۔ پھر بھی اگر عبادت کا حق ادا نہیں کر تے اور نہ صرف عبادت نہیں کرتے بلکہ شرک میں مبتلا ہو اور آنے والے کو قبول کرنے کی بجائے اس کی دشمنی میں بھی حد سے بڑھے ہوئے ہو تو پھر یاد رکھو کہ ایسے منکرین پھر کامل غلبہ والے کی پکڑ اور عذاب کے نیچے آتے ہیں۔ پھر قرآن کریم فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ۔ وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآئٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ھَدْیًا بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ اَوْکَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسٰکِیْنَ اَوْعَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ۔ عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ۔ وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ۔ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ(المآئدۃ :96)کہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، شکار مارا نہ کرو جب تم احرام کی حالت میں ہو۔ (یہ حج کے احکامات کے ساتھ ہے) اور تم میں سے جو اسے جان بوجھ کر مارے تو اس کی سزا کے طور پرکعبہ تک پہنچنے والی ایسی قربانی پیش کرے جو اس جانور کے برابر ہو جسے اس نے مارا ہے۔ اس کا فیصلہ تم میں سے دو صاحب ِعدل کریں یا پھر اس کا کفارہ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا پھر اس کے برابر روزے رکھنا ہے تاکہ وہ اپنے فعل کا نتیجہ چکھے، اللہ نے درگزر کیا ہے اس سے جو گزر چکا۔ پس جو اعادہ کرے گا تو اللہ ان سے انتقام لے گا اور اللہ کامل غلبہ والا اور انتقام لینے والا ہے۔
اب مَیں یہاں صرف دشمنوں یعنی مخالفین کا بیان نہیں کر رہا بلکہ وہ آیت لی ہے جن میں انتقام کا ذکر عزیزکے ساتھ ہے۔ یعنی چار جگہ قرآن کریم میں یہ آیات ہیں۔ اب یہاں بھی مومنوں کو یہ حکم ہے کہ یہ کام جس کے نہ کرنے کا حکم ہے وہ نہیں کرنا۔ اگر کرتے ہو تو اس کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ یہاں انتقام کا مطلب ظلم سے بدلہ لینا نہیں ہے جیسے کینہ ور ظلم سے بدلہ لیتا ہے، بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس قانون کو توڑنے کی سزا ملے گی اور اللہ عزیز ہے، غالب ہے اور برے کام کی سزا دیتا ہے۔
پھر ایک جگہ مخالفین کے تعلق میں فرمایاہے کہ فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ۔ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ (ابراھیم:48)۔ پس تو ہرگز اللہ کو اپنے رسولوں سے کئے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کرنے والا نہ سمجھ یقینا اللہ تعالیٰ کامل غلبہ والا اور ایک سخت انتقام لینے والا ہے۔ یہاں رسول کو اور ماننے والوں کو تسلی دلائی ہے کہ مخالفین جیسا بھی زور لگا لیں، جتنا چاہیں تدبیریں کر لیں، آخر کار ان کا انجام برا ہے کیونکہ انہوں نے اس خدا کے پیارے سے ٹکر لی ہے جو غلبہ والا اور سزا دینے والا ہے۔ پس ایسے لوگ اپنی زیادتیوں سے باز نہ آنے کی وجہ سے سزا کے حقدار ٹھہرتے ہیں اور یہ تسلی ہے رسول کو، اللہ کے نبی کو اور اس کے ماننے والوں کو جیسا آنحضرتﷺ کو دی تھی۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام قبول کرنے والوں کو بھی تسلی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کرتابلکہ جس طرح پہلے وعدہ پورا کرتا آیا ہے، آج بھی مخالفت سے بازنہ آنے والوں کے حصے میں رسوائی ہے اور ان کی سزا مقدر ہے۔
پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ یَّھْدِاللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّضِلٍّ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِعَزِیْزٍ ذِی انْتِقَامٍ(الزمر:38)اور جسے اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں۔ کیا اللہ کامل غلبے والا اور انتقام لینے والا نہیں ہے؟ یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تسلی دلائی ہے کہ جو اللہ سے تعلق جوڑنے والے ہیں، انہیں کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور مخالفین کے لئے یہ بات لکھی گئی ہے کہ ان کو اس مخالفت کی وجہ سے ضرور سزا ملے گی جو وہ الٰہی جماعتوں کی کرتے ہیں تاکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں، ہدایت سے ہٹ کر ان کے ساتھ نہ مل جائیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بِعَزِیْزٍ ذِی انْتِقَام۔ یہ کہہ کر مومنوں کو، ہدایت پانے والوں کو بھی تسلی دلائی ہے کہ تم ان دھمکیوں سے نہ ڈرو، اللہ کے آگے جھکتے ہوئے اس سے ہدایت کے راستے پر چلنے کی توفیق مانگتے رہو۔ وہ غالب خدا یقینا تمہارے مخالفین کو پکڑے گا اور ہمیشہ پکڑتا آیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت صالحؑ کا ذکر کرکے فرمایاکہ قوی اور عزیز خدا نے حضرت صالحؑ کے دشمنوں کو نابود کر دیا اس لئے کہ وہ حد سے بڑھنے والے تھے، اس قوم نے باوجود تنبیہ کے نہ صرف انکار کیا بلکہ اس اونٹنی کی کونچیں بھی کاٹ دیں جس سے منع کیا گیا تھا۔ تو پھر قوی اور العزیز خدا نے عذاب دکھایا۔
پھر آل فرعون کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاکُلِّھَا فَاَخَذْنٰھُمْ اَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ(القمر:43) انہوں نے ہمارے نشانات کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں کامل غلبہ والے اور طاقتور اور مقتدر کی طرح پکڑ لیا۔ پس یہ بیان کرکے اُن لوگوں کو بھی توجہ دلائی جو ظلم میں حد سے بڑھنے والے ہیں۔ خدا اور اس کے رسولﷺ کا انکار اور استہزاء کرنے والے ہیں کہ تم لوگ بھی اپنی حدوں کے اندر رہو۔ آج بھی جو استہزا ء اور زیادتیوں میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں ان کے لئے بھی یہ واضح حکم ہے، انذار ہے کہ آنحضرتﷺ کا زمانہ اب قیامت تک ممتد ہے، قیامت تک پھیلا ہوا ہے اور آپ کے عاشق صادق کے آنے کے بعد یہ پیغام دنیا تک پھیل چکا ہے۔ اس لئے استہزاء اور دلآزاری کی باتوں اور حرکتوں سے باز آ جاؤ ورنہ قادر، غلبہ والا خدا تمہیں پکڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔ تمہیں خدا کی طرف سے اپنی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ملی ہوئی۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہیں خدا کی طرف سے کوئی ضمانت مل گئی ہے تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔
پس اسلام کے خدا پر اعتراض کرنے کی بجائے، رسول کریمﷺ پر استہزاء کرنے کی بجائے، اللہ کا خوف اپنے دلوں میں طاری کرو۔ اسلام نے جس خدا کا تصور پیش کیا ہے اس نے تمام انبیاء کو وعدہ کے مطابق دشمن سے بچایا ہے۔ کیا یہ لوگ ایسے خدا کا تصور پیش کرنا چاہتے ہیں جو اپنے پیاروں کو دشمن سے بھی بچانے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ اللہ فرماتا ہے کہ اگر اللہ اپنے پیاروں کی حفاظت کرنے والا نہ ہو، اگر خدا اپنی طاقت اور غلبہ والا ہونے کا اظہار کرنے والا نہ ہو تو دنیا میں فساد پڑ جائے، اسی لئے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت بھی دی گئی تھی۔ جو یہ الزام لگاتے ہیں کہ تشدد کا حکم ہے تو اجازت اس لئے دی گئی تھی کہ اپنی حفاظت کریں اور فساد سے بچنے کے لئے یہ ضروری چیز ہے۔ سورۃ حج میں اس کا بیان ہوا ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’وَلَوْ لَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا۔ وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ(الحج:41) یعنی اگر خداتعالیٰ کی یہ عادت نہ ہوتی کہ بعض کو بعض کے ساتھ دفع کرتا تو ظلم کی نوبت یہاں تک پہنچتی کہ گوشہ گزینوں کے خلوت خانے ڈھائے جاتے اور عیسائیوں کے گرجے مسمار کئے جاتے اور یہودیوں کے معبد نابود کئے جاتے اور مسلمانوں کی مسجدیں جہاں کثرت سے ذکر خدا ہوتا ہے منہدم کی جاتیں۔ اس جگہ خداتعالیٰ یہ ظاہر فرماتا ہے کہ ان تمام عبادت خانوں کا مَیں ہی حامی ہوں اور اسلام کا فرض ہے کہ اگر مثلاً کسی عیسائی ملک پر قبضہ کرے تو تُو ان کی عبادت خانوں سے کچھ تعرض نہ کرے اور منع کر دے کہ ان کے گرجے مسمار نہ کئے جائیں ‘‘۔ ان کو چھیڑ انہ جائے، ان کو گرایا نہ جائے۔ ’’اور یہی ہدایت احادیث نبویہؐ سے مفہوم ہوتی ہے کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جبکہ کوئی اسلامی سپہ سالار کسی قوم کے مقابلے کے لئے ما مور ہوتا تھا تو اس کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے عبادت خانوں اور فقراء کے خلوت خانوں سے تعرض نہ کرے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کس قدرتعصب کے طریقوں سے دور ہے کہ وہ عیسائیوں کے گرجاؤں اور یہودیوں کے معبدوں کا ایسا ہی حامی ہے جیسا کہ مساجد کا حامی ہے۔ ہاں البتہ اس خدا نے جو اسلام کا بانی ہے یہ نہیں چاہا کہ اسلام دشمنوں کے حملوں سے فنا ہو جائے بلکہ اس نے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے اور حفاظتِ خود اختیاری کے طو ر پر مقابلہ کرنے کا اِذن دے دیا ہے‘‘۔ (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ394-393۔ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد سوم صفحہ334-333)
پس کیا ایسے حالات میں جبکہ دنیا کا امن قائم کرنا ہو ان لوگوں کے نزدیک ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے؟ کیا اگر ان اعتراض کرنے والوں پر اس طرح حملہ ہو اور ان کو مسلسل تنگ کیا جاتا رہے تو وہ ہتھیار اٹھائیں گے کہ نہیں۔ ہتھیار بنانے کے کارخانے اور جدید ترین ہتھیار اور جدید ترین اسلحہ سے لیس فوجیں تو ان ملکوں کی ہیں جن کے بعض لوگ اسلام پر شدت پسند ہونے کا اعتراض کرتے ہیں۔ یا یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا خدا تشدد کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت سے عاری ہے۔ کیا ظلم کو روکنے کے لئے اور دفاع کے لئے مقابلے کا حکم پُر حکمت ہے یا حکمت سے عاری ہے۔ پس اللہ فرماتا ہے کہ مَیں باوجود غلبہ رکھنے کے بلاوجہ مخلوق پر ظلم کرتے ہوئے طاقت کا اظہار نہیں کرتا۔ لیکن جو میرے بندوں پر ظلم کرتے ہیں، ان کے خلاف ہیں، انتہا تک پہنچے ہوئے ہیں، ان کے خلاف پھر میں صفت عزیز کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں۔ جہاں تک مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کا ادراک دلانے کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآءَ تْکُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌحَکِیْمٌ (البقرۃ:210) پس اگر تم اس کے بعد پھسل جاؤ کہ تمہارے پاس کھلے کھلے نشانات آ چکے ہیں تو جان لو کہ اللہ کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔ یعنی اگر تم ان نشانات کو دیکھنے اور قبول کرنے کے بعدصحیح طرح عمل نہیں کرتے اور ڈگمگاتے رہے اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہ دیتے رہے اور جب اللہ تعالیٰ تمہیں طاقت دیتا ہے تو پھر اس کا غلط استعمال کرتے رہے، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا نہ کرتے رہے تو یاد رکھو تمہارے اوپر بھی ایک غالب خدا موجود ہے جو تمہیں تمہارے ان ظلموں کی وجہ سے پکڑ سکتا ہے اور تمہارے سے تمہاری طاقت اور اختیارات چھین سکتا ہے۔ پس ہمیشہ اس کے حکموں پر چلو، اس پر ایمان رکھو، اس پر ایمان کو مضبوط کرو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں توفیق دی ہے کہ ایسے عزیز اور حکیم خدا کو مانا جس کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں۔ اگر اِس خدا پر ایمان میں مضبوط نہیں ہوتے رہو گے اور اس کے احکامات پر عمل نہیں کرتے رہو گے، حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں دو گے تو اس کی سزا کی پکڑ میں آ سکتے ہیں۔ اور اس کی سزا کسی ظلم کی وجہ سے نہیں ہو گی بلکہ اِس حکمت کے تحت ہو گی کہ تمہاری اصلاح ہو۔
پس یہ عزیز اور حکیم خدا کا تصور ہے اسلام کو ماننے والے کے لئے جو خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں پیش فرمایا ہے کہ ظلموں کا تو سوال ہی نہیں، اگر حقوق کی صحیح ادائیگی بھی نہیں ہو رہی تو اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہو۔
آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اسلام اور خداتعالیٰ پر ہونے والے اعتراضات کے رد ّکے لئے عزیز اور حکیم خدا کا صحیح تصور پیش کرے جو حسن و احسان میں بھی یکتا ہے اور اگر بندوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑتا ہے تو پھر زبردستی اور ظلم سے نہیں پکڑتا بلکہ ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑتا ہے اور حد سے بڑھے ہوؤں کو اس لئے پکڑتا ہے کہ دنیا میں امن اور سلامتی قائم ہو۔ جہاں یہ پیغام ہم نے غیر مذہب والوں کو دینا ہے، ان کے اعتراضات ردّکرنے ہیں وہاں مسلمانوں کو بھی یہ پیغام ہے کہ تم کہتے ہو کہ ہم عزیز خدا کو مانتے ہیں جس کا قرآن نے تصوردیا ہے لیکن یاد رکھو کہ یہ حکم بھی ہے کہ نشانات دیکھ کر پھسلو نہ۔ عزیز و حکیم خدا کا تصور تب حقیقی رنگ میں مکمل ہو گا جب مسیح موعود جو آنحضرتﷺ کے ظل ہیں، غلام ہیں، ان کی شریعت کو دنیا پرلاگو کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں، جن کا آنا بھی عزیز اور حکیم خدا کی طرف سے ہے، ان کے ساتھ اب دین کے غلبہ کا وعدہ ہے۔ پس اس دعویٰ اور مسیح موعود کے پیغام پر غور کرو کہ یہ بھی حکمت سے خالی نہیں اور حکیم خدا کی طرف سے ہے، عزیز خدا کی طرف سے ہے جس نے انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ عطا فرمانا ہے۔ اللہ مسلمانوں کو سمجھنے کی توفیق دے اور ہمیں خداتعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں حقیقی طور پر پہنچانے کی توفیق دے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے دین کے غلبہ کے دن دیکھنے والے ہوں۔ اس وقت مَیں ایک دعا کے لئے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے مجھے پتّہ کی تکلیف تھی، ڈاکٹروں نے چیک وغیرہ کیا ہے۔ پہلے تو سنا کرتے تھے، ارد ومیں محاورہ تھا’’ علاج دنداں اخراج دنداں ‘‘ لیکن اب ڈاکٹروں نے یہ محاورہ بنا دیا ہے کہ’’علاج پتّہ، اخراج پتّہ‘‘۔ ڈاکٹروں کا آپریشن کا مشورہ ہے۔ اگلے ہفتہ میں انشاء اللہ آپریشن ہو گا۔ تو یہ دعا کریں کہ جو زندگی ہے اللہ تعالیٰ فعال زندگی دے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنے والی زندگی دے اور خود اپنی رضا کی راہوں پر چلائے۔
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 6تا22نومبر2007ء ص5تا8)
اسلام کا خدا باوجود عزیز ہونے کے رحمت اور بخشش کی نظر سے ہی اپنے بندے کو دیکھتا ہے، ہر احمدی کا فرض ہے کہ اسلام اور خدا پر ہونے والے اعتراضات کے رد کے لئے عزیز اور حکیم خدا کا صحیح تصور پیش کرے، پتہ کی تکلیف کی وجہ سے اگلے ہفتہ میں آپریشن کا تذکرہ اور دعا کی تحریک۔
فرمودہ مورخہ 26؍اکتوبر 2007ء بمطابق 26؍اخا ء 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔