جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد
خطبہ جمعہ 30؍ نومبر 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۔ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ وَاُولُو الْعِلْمِ قَآئِمًابِالْقِسْطِ۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (آل عمران :19)
جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد نیکی اور تقویٰ اور خداتعالیٰ کی وحدانیت کا ادراک اپنے اندر پیدا کرنا، اس کے قیام کے لئے عملی تصویر بننا اور دنیا میں بھی اس کو قائم کرنا ہے۔ اُس خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم کرنا ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ اس کی بے شمار مخلوق اس زمین میں ہی ہے اور یہ زمین کائنات کا اتنا معمولی حصہ ہے کہ اس کی حیثیت ایک نقطے سے زیادہ نہیں ہے۔ پس ہم جو انسان کہلاتے ہیں اور بعض بڑے فخر اور تکبر سے زمین پرچل رہے ہوتے ہیں، ان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے اِس بے حیثیتی کے باوجود ہمیں اشرف المخلوقات ہونے کا مقام دیا ہے اور ہمارے سپردبعض کام کئے ہیں اور ہماری پیدائش کی ایک غرض یہ بتائی ہے کہ اس کا ہم نے عابد بننا ہے۔ لیکن دنیا کی اکثریت اس غرض پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ دنیا کی لہو ولعب نے، اس کھیل کود نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ شیطان نے اسے اپنے جال میں پھنسا لیا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پرایمان لانے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں، وہ اس غرض کو یاد رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو تمام قدرتوں کا مالک ہے، غالب ہے، جس نے زمین و آسمان پیدا کیا ہے، خالق ہے، بے شمار قسم کی مخلوق اِس زمین پر اُس نے پیدا کر دی ہے۔ اُس کو اس زمین پر اپنی عبادت کروانے اور اپنی بادشاہت کے قیام کے لئے کسی انسان کی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اس نے اپنے بندوں کو عقل و شعور دے کر اس طرف توجہ دلائی کہ مَیں نے تمہیں اس عقل و شعور کے ساتھ یہ آزادی بھی دے دی ہے کہ میرے انبیاء جو تعلیم میری طرف سے لے کر آئیں ان پر ایمان لاؤیا انکار کر دو۔ یہ تمہاری آزادی ہے۔ اگر عقل اور علم کا صحیح استعمال کرو گے تو ایمان لانے والے اور اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہو گے۔ تو پھر مَیں تمہیں ان لوگوں میں شمار کروں گا جو میری بادشاہت کے قائم کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ جو انکار کریں گے ان کا شمار ان لوگوں میں ہو گا جو شیطان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔ پس فرماتا ہے کہ میرے بندے اور مجھے معبود سمجھنے والے وہی لوگ ہیں جو میری تعلیم اور میرے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں۔ وہ احکامات جومَیں نے انبیاء کے ذریعہ سے نازل فرمائے اور جن کی انتہا آنحضرتﷺ پر آخری شرعی کتاب قرآن کریم کی صورت میں ہوئی۔ اب کوئی احکامات لانے والا نہیں مگر وہی جو آنحضرتﷺ کی پیروی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے۔ پس اس تعلیم کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کی غلامی میں بھیجا تاکہ دنیا کو معبود حقیقی کی پہچان کروائیں۔ خدا میں اور اس کی مخلوق میں جو دُوری پیدا ہو گئی ہے، جو فاصلے بڑھ گئے ہیں اور بڑھتے چلے جا رہے ہیں، ان کو ختم کرکے اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان حقیقی تعلق قائم کریں۔ اب ہم میں سے ہر ایک کا یہی کام ہے کہ اس مشن کو آگے بڑھائے تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے کہلا سکیں گے۔ تبھی ہم خداتعالیٰ کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کرنے والوں میں شمار ہو سکیں گے۔
خداتعالیٰ تو زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کا خالق ہے۔ وہ عزیز ہے۔ وہ مالک ہے۔ پہلے بھی میں بتا چکا ہوں۔ ہر چیز پر قادر ہے۔ جب چاہے اور جس پر چاہے غلبہ پا سکتا ہے۔ پھر اس کو ہماری جو ہم عاجز بندے ہیں، ان کی اپنی بادشاہت کے قیام کے لئے مدد کی کیا ضرورت تھی۔ بادشاہت تو پہلے ہی اسی کی ہے۔ تو جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو ایک اختیار دیا ہے کہ یہ اچھا ہے، یہ بُرا ہے اور مجھے معبود حقیقی سمجھنے والے ہمیشہ میری عبادت کرنے والے ہیں۔ نیکیاں کرنے والے ہیں۔ تقویٰ پر قائم رہنے والے ہیں اور آگے ان باتوں کو دنیا میں پھیلانے والے ہیں۔ اور جب بندے یہ عمل کر رہے ہوں گے تو خداتعالیٰ کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے والے بن رہے ہوں گے اور اس کے بدلے میں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بہترین جزا پانے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری جنتوں کے وارث ہوں گے۔ اس کے مقابلے میں شرک کرنے والے، خدا کے مقابلے میں غیراللہ کے پیچھے چلنے والے، سزا پانے والے لوگ ہیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی ضرورت نہیں بلکہ بندے کی ضرورت ہے کہ معبود حقیقی کا صحیح ادراک اپنے اندر پیدا کرے اور اس کی رضا کی جنتوں کو حاصل کرنے والا بنے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو اس غرض کے لئے بھیجتا ہے تاکہ اُن کے ذریعہ سے معبود حقیقی ہونے کا پتہ دے۔ وہ انبیاء اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے اور اس کے پیغام کو پہنچانے والے ہوتے ہیں اور جو ان انبیاء کے مخالفین ہوتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں پر ظلم و تعدی کرتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے عزیز ہونے کا جلوہ دکھاتے ہوئے اپنے انبیاء کی مدد کرتا ہے، انہیں غالب فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ اپنے معبود حقیقی ہونے کا ذکر فرمایا ہے کہ مَیں اپنے انبیاء کے مخالفین کو، ان کی جماعتوں کے مخالفین کو، ان لوگوں کو جو میری صحیح رنگ میں عبادت کرنے والے ہیں، میرے پیغام کو سمجھنے والے ہیں ان کے مخالفین کو، مَیں سزا دیتا اور پکڑتا ہوں اور ان کا نام و نشان تک مٹا دیتا ہوں۔ اور بعض دفعہ اس طرح ہوتا ہے، بلکہ اکثر دفعہ، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ساتھ ان کی زندگی میں تو یہ خاص سلوک رکھا ہے کہ ان کے مخالفین عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔ اگر اپنے نبی کے مقابلے میں آنے والے کسی کو محفوظ کیا تو تب بھی اسے عبرت کا نشان بنا دیا جیسا کہ حضرت موسیٰ کے مقابلے پر فرعون کو۔ فرعون جو خدائی کا دعویٰ دار تھا۔ جس کو یہ زعم تھا کہ تمام لوگ میری رعایا ہیں۔ مجھے سجدہ کرنے والے ہیں۔ میرے سے بڑا اور کون ہوسکتا ہے اور خدا کیا چیز ہے؟ موت سامنے دیکھ کر اس نے جب معافی مانگنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب وقت گزر چکا ہے۔ اب تمہاری بقیہ زندگی اور اس کے بعد تمہاری لاش یہ عبرت کا نشان بنی رہے گی کہ یہ خدائی کا دعویٰ کرنے والا تھا جو عبرت کا نشان بنا رہا اور عبرت کا نشان بن کر آج تک پڑا ہے۔ پس فرعون کا یہ انجام اس غالب خدا نے کسی بندے کے ذریعہ سے تو نہیں کروایا تھا۔ اس کا یہ انجام تو اس پانی کی وجہ سے ہوا تھاجس کا چڑھنا اور اترنا خدا کے حکم کے مطابق تھا۔ پس اللہ تعالیٰ کو اپنی عبادت، اپنی بادشاہت قائم کروانے کے لئے نہیں چاہئے بلکہ بندوں کو جو اس کے حکموں پر چلنے والے ہیں جزا دینے کے لئے ہے اور پھر اتنا بڑا انعام کہ تم میری وحدانیت کو قائم کرکے میری بادشاہت کے قیام کرنے والوں میں شمار ہو رہے ہو۔
پھر دیکھیں حضرت خاتم الانبیاء محمدمصطفیﷺ کے ساتھ خدا کا سلوک جسے خدا نے تمام دنیا میں اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ ایک یتیم بچہ جو بچپن سے ہی خاموش اور علیحدہ رہنے والا تھا لیکن خدا نے آپﷺ پر ہی نظر ڈالی کیونکہ آپؐ سب سے بڑے عابد تھے۔ اللہ تعالیٰ بتانا چاہتا تھا کہ تم اس شخص کو جس کا بچپن یتیمی میں گزرا۔ جو اپنے کام سے کام رکھنے والا ہے۔ بظاہر دنیا کی نظر میں کمزور ہے۔ لیکن مَیں نے اسے بچپن سے ہی اپنے اُس کام کے لئے چن کر تیار کر لیا ہے جو دنیا کی رہنمائی کا کام ہے اور یہ میرا وہ حقیقی عابد ہے جس کے مقابلے کا کوئی عابد نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسانوں میں میری صفات کا کوئی حقیقی پرتَوہو سکتا ہے تو یہ انسان کامل ہے۔ پس اے مکّہ والو! جسے آج تم کمزور سمجھ رہے ہو، کل یہ تمہارا حکمران ہو گا۔ مکّہ کے ابتدائی حالات دیکھیں۔ کیا کیا ظلم تھے جو آپؐ پرروا نہیں رکھے گئے یا وہ ظلم آپؐ کے ماننے والوں پر نہیں ہوئے۔ ان کے واقعات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپؐ کے خلاف قتل تک کے منصوبے ہوئے لیکن فتح مکّہ اس بات پر گواہ ہے کہ وہ معبودِ حقیقی جو عزیز اور غالب ہے جس کے آگے آپؐ جھکتے تھے۔ اس کے آگے اس کا عابد بندہ اور کامل انسان ہی آخر کو غالب آیا اور کفار مکہ کے وہ بُت جن کی تعداد 360تک پہنچی ہوئی تھی کچھ کام نہ آ سکے۔ وہ بت جو انہوں نے خدا کے مقابلے پر گھڑے ہوئے تھے وہ ان کے کسی بھی کام نہیں آ سکے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ قُلْ اَرُوْنِیَ الَّذِیْنَ اَلْحَقْتُمْ بِہٖ شُرَکَآئَ کَلَّا۔ بَلْ ھُوَ اللّٰہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (سبا:28) تو کہہ دے کہ مجھے وہ دکھاؤ توسہی جنہیں تم نے شرکاء کے طور پر ان کے ساتھ ملا دیا ہے۔ ہرگز ایسا نہیں بلکہ وہی اللہ ہے جو کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔
پس فتح مکّہ اور آنحضرتﷺ کی زندگی میں عرب کے وسیع علاقہ میں بلکہ باہر تک بھی اسلام کا پھیل جانا اُس معبود حقیقی کے عزیز ہونے کا بڑا روشن نشان ہے جس کی عبادت آنحضرتﷺ نے کی اور اپنے ماننے والوں سے کروائی اور پھروہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت قائم کرنے والے بنے۔ وہ شریک جو کفّار نے اللہ تعالیٰ کے بنا کر خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے تھے، وہ تو ان کے کچھ کام نہیں آ سکے۔ غلبہ تو اسی عزیز خدا کو حاصل ہوا جس کی عبادت میں حکمت ہے۔ بتوں کی عبادت میں کیا حکمت ہو سکتی ہے۔ اگر ہے تو اللہ تعالیٰ کا چیلنج ہے کہ دکھاؤ۔ لیکن نہیں دکھا سکتے۔ کوئی بھی شریک جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ہے جس کو تم طاقتور سمجھتے ہو اس کی طاقت کا اظہار تو کرکے دکھاؤ لیکن نہیں کر سکتے۔ پھر آنحضرتﷺ کا دور ختم نہیں ہو گیا۔ آپؐ کی وفات کے بعدیا آپؐ کے خلفاء کی وفات کے بعد ہر صدی میں اللہ تعالیٰ کی حکومت دلوں میں قائم کروانے اور سچے اور واحد و یگانہ خدا کی پہچان کروانے کے لئے مجدد پیدا ہوتے رہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی بشارت اور پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے۔ آپؑ کا ابتدائی زمانہ دیکھیں کیا تھا۔ اپنے گھر والوں کی عدم توجہ کا شکار۔ اس لئے کہ دنیا سے بے رغبتی تھی۔ اس لئے کہ صرف اور صرف معبود حقیقی سے لو لگائی ہوئی تھی جس کی وجہ سے بعض دفعہ گھروالے آپؑ کے لئے کھانے وغیرہ کا بھی کوئی خیال نہیں رکھتے تھے۔ لیکن جب معبودحقیقی نے آپؑ کواپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے چنا تو وہی شخص جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ دیکھ لو مسجد کے کسی کونے میں پڑا ہو گا یا یہ الفاظ سننے کو ملتے تھے کہ یہ لڑکیوں کی طرح شرماتا ہے اور لوگوں کے سامنے آنے سے ڈرتا ہے۔ وہی کمزور شخص معبود حقیقی کا حقیقی عبد بنا اور تمام دنیا نے اس کے علم و عرفان سے پُر کلام کے وہ نظارے دیکھے کہ حیران و ششدر رہ گئے۔ وہی جو لڑکیوں کی طرح شرمانے والا کہلاتا تھا، جادوبیان مقرر کہلایا۔ آج اس کے علم کلام کو دنیا حیرت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ کئی عرب جو انصاف کی نظر سے دیکھنے والے لوگ ہیں۔ آپؑ کا عربی کلام پڑھ کر مجھے خط لکھتے ہیں کہ یہ کلام خدا کے کسی خاص تائید یافتہ بندے کا ہی ہو سکتا ہے۔ آج اس شخص کو ماننے والے جو دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں یہ اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود جس طرح چاہتا ہے اپنی بادشاہت قائم کرتا ہے۔ ہمیں تو خدا تعالیٰ پاک لوگوں سے تعلق جڑوا کر اپنے حقیقی معبود ہونے کا فہم و ادراک دلوا رہا ہے تاکہ ہم اس معبود حقیقی کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرکے اس کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں۔ پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ عرب کے اس فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تھیں جس نے ہزاروں لاکھوں مردے زندہ کر دئیے اور آج بھی اس فانی فی اللہ کے عاشق صادق کی د عائیں ہی ہیں جو جماعت کی ترقی کا باعث بن رہی ہیں اور اگر ہماری کسی کوشش میں کوئی پھل لگ رہا ہے تو ان دعاؤں کے طفیل ہی لگ رہا ہے اور ہم مفت میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت قائم کرنے والے کہلا رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ پھل اس وقت تک کھاتے رہیں گے جب تک ہم اس معبود حقیقی کی طرف جھکتے چلے جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرتﷺ کے مقام عبودیت کا حقیقی فہم و ادراک دلواتے ہوئے ہمیں اس اُسوہ پر چلنے کی تلقین فرمائی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’دنیا میں ایک رسول آیا تاکہ ان بہروں کو کان بخشے کہ جو نہ صرف آج سے بلکہ صد ہا سال سے بہرے ہیں‘‘۔ پھر فرماتے ہیں کہ’’ کون اندھا ہے اور کون بہرا، وہی جس نے توحید کو قبول نہیں کیا اور نہ اس رسول کو جس نے نئے سرے سے زمین پر توحید کو قائم کیا۔ وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا اور انسان سے بااخلاق انسان یعنی سچے اور واقعی اخلاق کے مرکز اعتدال پر قائم کیا اور پھر بااخلاق انسان سے باخدا ہونے کے الٰہی رنگ سے رنگین کیا۔ وہی رسول، ہاں وہی آفتاب صداقت، جس کے قدموں پر ہزاروں مردے شرک اور دہریت اور فسق و فجور کے جی اٹھے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 8 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس حقیقی بااخلاق وہی ہے جو ظاہری اخلاق سے ترقی کرکے معبود حقیقی کی پہچان کرے اور آنحضرتﷺ کی بعثت کا یہی مقصد تھا کہ آپؐ دنیا کو معبود حقیقی کی پہچان کروانے کے لئے آئے تھے اور آپؐ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کا بھی یہی مقصد ہے اور آپؑ کو ماننے والوں، وہ جو حقیقی ماننے والے ہیں، کا بھی یہی مقصد ہونا چاہئے۔ کہ صرف ظاہری دنیاوی اخلاق ہی مطمح نظر نہ ہوں بلکہ معبود حقیقی کا حقیقی عابد بننے کی ہم کوشش کریں اور دنیا کو بھی اس سے آگاہ کریں۔ ظاہری دنیاوی اخلاق رکھنے والے جن کا خدا کا خانہ خالی ہے ان کا حال تو حضرت خلیفہ ثانی نے ایک دفعہ یوں بیان فرمایا تھا کہ ایک مجلس ہوئی جس میں بہت پڑھے لکھے لوگ اور بڑے بااخلاق اور بڑے معاشرے کے اعلیٰ اخلاق کے کہلانے والے اور سوبر (Sober) کہلانے والے لوگ تھے۔ اس مجلس میں دوستوں نے کہا کہ ہم تکلف، تصنع اور رکھ رکھاؤ سے تنگ آ گئے ہیں۔ یہ ضرورت سے زیادہ تکلّف شروع ہو گیا ہے۔ اس تکلّف نے ہماری زندگیاں اجیرن کر دی ہیں تو آج کی اس مجلس میں جو دوست بیٹھے ہیں یہ بے تکلّف ہونی چاہئے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مَیں سمجھا کہ دائرہ اخلاق میں رہتے ہوئے بے تکلّفی کی مجلس ہو گی۔ لیکن فرماتے ہیں کہ وہاں ایسا طوفان بدتمیزی تھا اور اخلاقیات سے گری ہوئی حرکتیں تھیں کہ وہاں بیٹھنا مشکل ہو گیا۔
کچھ عرصہ ہوا مجھے بھی ایک عزیز نے بتایا کہ پاکستان میں جو بظاہر پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا طبقہ ہے یا کہلاتا ہے۔ ان کی مجالس میں اتنی اخلاق سوز اور بے ہودہ حرکتیں ہوتی ہیں کہ ان مجالس میں کوئی احمدی تو کیا وہاں کوئی بھی شریف آدمی جس میں ذرا بھی شرافت ہو نہیں بیٹھ سکتا۔ تو ان لوگوں کی یہ حرکتیں تو ہوں گی کیونکہ معبود حقیقی سے دور جانے والے ہیں۔ اس کی پہچان کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ معبود حقیقی کی بادشاہت تو اس وقت قائم ہو گی جب نیکی اور تقوٰی قائم ہو گا یا اس کی بادشاہت قائم کرنے والے تب کہلا سکیں گے جب اعلیٰ اخلاق، دنیاوی اخلاق کے ساتھ دینی اخلاق کے بھی اعلیٰ معیار حاصل ہوں گے، عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار حاصل ہوں گے۔ پس اس زمانے میں بھی بااخلاق اور باخدا بننے والے وہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرکے پھر اس کے حقیقی حسن کو سمجھا اور دیکھا ہے اور آج بھی ہمیں حقیقی کامیابیاں اُسی وقت حاصل ہوں گی جب ہم باخدا انسان بننے کی کوشش کریں گے۔ معبود حقیقی کو پہچانیں گے۔ پس اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر احمدی کو اس اصل کو پکڑنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری کامیابی، ہماری ترقی چاہے انفرادی ہو، چاہے جماعتی ہو اس کا راز معبود حقیقی کی عبادت میں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے صفت عزیز کے ذکر میں قرآن کریم میں اس طرف توجہ دلائی ہے۔ تمام انبیاء کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے اور آج بھی مومنین کی ترقی اسی سے وابستہ ہے۔
اس وقت مَیں قرآن کریم کی چند آیات پیش کرتا ہوں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے معبود حقیقی ہونے کے ساتھ صفت عزیز کا ذکر فرمایا ہے۔ جو آیت مَیں نے تلاوت کی ہے آل عمران کی 19ویں آیت ہے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انصاف پر قائم رہتے ہوئے شہادت دیتا ہے کہ اُس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور فرشتے بھی اور اہل علم بھی یہی شہادت دیتے ہیں کوئی معبود نہیں مگر وہی کامل غلبہ والا اور حکمت والا۔
اس آیت سے پہلے کی آیات میں بھی ایمان لانے والوں کے استغفار کا بیان ہے اور پھر یہ کہ وہ صبر کرنے والے ہیں۔ سچ بولنے والے ہیں۔ فرمانبردار ہیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں اور راتوں کو اٹھ کر اپنے معبود حقیقی کے آگے استغفار کرتے ہوئے جھکنے والے ہیں۔ پس ایسے لوگ ہیں جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچانتے ہیں اور اس کی بادشاہت اپنے دلوں میں قائم کرتے ہیں اور دنیامیں بھی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس یہ گواہی جو اللہ نے دی ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے یہ گواہی فرشتے بھی دیتے ہیں اور علم رکھنے والے بھی دیتے ہیں۔ یہ یونہی گواہی نہیں ہے اللہ تعالیٰ یہ بات انصاف کے ساتھ کر رہا ہے۔ علم رکھنے والے کون لوگ ہیں جو گواہی دے رہے ہیں ؟ یہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہیں اسی طرح انبیاء کی تعلیم کو حقیقی طور پر ماننے والے ہیں۔ ایسے لوگ جو خدائے واحد کی پرستش نہیں کرتے وہ چاہے جتنا بھی اپنے آپ کو اہل علم کہیں، اپنے آپ کو عقل و شعور والا کہیں، اللہ تعالیٰ کی گواہی یہ ہے کہ وہ دنیاوی آنکھ رکھنے والے تو ہیں لیکن دین کی آنکھ ان کی اندھی ہے۔ اپنے مقصد پیدائش کو وہ بھولنے والے ہیں۔ جو یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ کسی نبی نے کہا کہ مجھے خدا کے برابر ٹھہراؤ وہ جھوٹے ہیں کیونکہ سب سے زیادہ اولوالعلم تو انبیاء ہوتے ہیں اور وہ کبھی یہ حرکت نہیں کر سکتے۔ پس یقینا یہ الزام جو حضرت عیسیٰ پر لگایا جاتا ہے یہ بعد میں آنے والوں کا الزام ہے جو آپؑ کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ وہ خدا کے برابر ہیں۔ انہوں نے تو کبھی نہیں کہا اور نہ کہہ سکتے تھے۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے سچے نبی تھے۔ قرآن کریم کی رو سے ایسے لوگ اہل علم نہیں کہلا سکتے۔ اللہ تعالیٰ تو واحد ہے، غالب ہے اور حکمت والا ہے۔ کیا جب وہ عزیز ہے اور سب طاقتوں کا مالک ہے تو کیا اسے کسی مدد گار معبود کی ضرورت ہے؟ اس طرح تو پھر ہر خدا اپنی اپنی مرضی کرنے لگ جائے گا اور تمام کائنات کا نظام تہ و بالا ہو جائے گا۔ یہ گواہی اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ اسلام تو خداتعالیٰ کا یہ تصور پیش کرتا ہے کہ اس کا ہر فعل حکمت سے پُر ہے۔ کیا یہ حکمت ہے کہ مقابلے پر اور خدا کھڑے ہوں ؟ ایک عام عقل کا آدمی بھی ایسی حکمت سے عاری بات نہیں کر سکتا کہ اس کے دائرہ اختیار میں کوئی دوسرا ہر وقت دخل دینے والا ہے۔ کجا یہ کہ خداتعالیٰ جو عزیز ہے اور تمام دوسری صفات کا بھی جامع ہے اس کی طرف یہ باتیں منسوب کی جائیں۔ تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ سورۃ المومن میں فرماتا ہے کہ تَدْعُوْنَنِیْ لِاَکْفُرَ بِاللّٰہِ وَاُشْرِکَ بِہٖ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ وَّاَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلَی الْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ (المؤمن:43) کہ تم مجھے بلا رہے ہو کہ مَیں اللہ تعالیٰ کا انکار کر دوں اور اس کا شریک اسے ٹھہراؤں جس کا مجھے کوئی علم نہیں اور مَیں کامل غلبے والے اور بے انتہا بخشنے والے خدا کی طرف بلاتا ہوں۔ پس یہ عقل والوں کا جواب ہے۔ یہ انبیاء کا جواب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو سکھایا اور انبیاء کے ذریعے سے ان کے ماننے والوں کو سکھایا۔ اور جگہوں پر یہ بھی ہے کہ تم جس طرف بلا رہے ہو اس کی دلیل کیا ہے۔ کیا ایسے خداؤں پر مَیں ایمان لاؤں جو کسی قسم کا نفع یا نقصان کی طاقت نہیں رکھتے۔ یہ تو ایسی باتیں ہیں جو عقل سے عاری لوگوں کی باتیں ہیں۔ میرا خدا تو وہ غالب خدا ہے جو میرے گناہوں کو بخشنے والا ہے اگر مَیں اس کے آگے جھکتے ہوئے استغفار کروں۔ پس یہ جہالت کی باتیں تم تو کر سکتے ہو، مَیں نہیں کر سکتا۔ جس کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مکمل ادراک ہو چکا ہے۔ کیونکہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے نور ایمان سے بھر دیا۔ یہ ایک مومن کا جواب ہوتا ہے۔
اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے کہو میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف بلاتے ہو۔ پس مَیں توتمام طاقتوں والے خدا کی طرف بلاتا ہوں جو تمہیں نجات دے گا اور تم استغفار کرتے ہوئے اس کے آگے جھکو تاکہ اب تک جو برائیاں ہو چکی ہیں اس سے بخشے جاؤ اور نجات پاؤ اور پھر جب ایمان میں ترقی کرو گے، اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نجات سے اوپر کے بھی راستے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ (المؤمنون:2) یقینا مومن فلاح پا گئے، اپنی مراد کو پہنچ گئے۔ صرف گناہوں سے بخشش نہیں ہوتی بلکہ جو ایمان میں ترقی کرتے ہیں۔ جو یہ تڑپ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت قائم کریں۔ پھر وہ خداتعالیٰ کا قرب پانے والے ہوتے ہیں۔ ان کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ ہر نئے درجے پر پہنچ کر انہیں مزید نئے درجے حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس یہ ہے معبود حقیقی سے تعلق پیدا کرنے والوں کا مقام کہ درجوں کے بڑھنے کے بعد درجے ختم نہیں ہو جاتے بلکہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اب کوئی ہوش مند یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ شرک کرکے آگ کے عذاب میں پڑے؟ وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا فہم و ادراک عطا فرما دیا کیا وہ یہ سوچ سکتا ہے کہ ان لوگوں کی باتیں سن کر آگ کا عذاب سہیڑے؟ بجائے اس کے کہ جو اونچی چوٹیاں ہیں، نیکیوں کی تلاش ہے ان کو حاصل کرے۔
پھر اللہ تعالیٰ سورۃ الحج میں فرماتا ہے مَا قَدَرُوااللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ(الحج:75) انہوں نے اللہ کی ایسی قدر نہیں کی جیسا اس کی قدر کا حق تھا۔ یقینا اللہ تعالیٰ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے۔ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی طاقتوں کو اپنی طاقتوں پر قیاس نہ کرو۔ اور اپنی طاقتوں پر قیاس کرتے ہوئے یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کی طاقتیں بھی محدود ہیں۔ وہ قوی ہے۔ عزیز ہے اور اس کی طاقتیں لامحدود ہیں۔ تم کو اس کی طاقتوں کا اندازہ نہیں ہے۔ اس لئے شریک ٹھہراتے ہو۔ تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ تو بہت طاقت والا ہے۔ اس کی قوتوں کا اندازہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اگر عقل کا صحیح استعمال ہو اور زمین اور آسمان کی پیدائش پر ہی غور کرو تو اندازہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں کیا کیا عجائبات ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت اور اس سے پہلی آیت کو جوڑ کر اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ معبودوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِاجْتَمَعُوْا لَہٗ۔ وَاِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۔ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ۔ مَا قَدَرُوااللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ(الحج:75-74) کہ’’ جن لوگوں کو تم خدا بنائے بیٹھے ہو، وہ تو ایسے ہیں کہ اگر سب مل کر ایک مکھی پیدا کرنا چاہیں تو کبھی پیدا نہ کر سکیں اگرچہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں۔ بلکہ اگر مکھی ان کی چیز چھین کرلے جائے تو انہیں طاقت نہیں ہو گی کہ وہ مکھی سے چیز واپس لے سکیں۔ ان کے پرستار عقل کے کمزور اور وہ طاقت کے کمزور ہیں۔ کیا خدا ایسے ہوا کرتے ہیں ؟ خدا تو وہ ہے کہ سب قوتوں والوں سے زیادہ قوت والا اور سب پر غالب آنے والا ہے۔ نہ اس کو کوئی پکڑ سکے اور نہ مار سکے۔ ایسی غلطیوں میں جو لوگ پڑتے ہیں وہ خدا کی قدر نہیں پہچانتے اور نہیں جانتے خدا کیسا ہونا چاہئے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ375-374)
جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ خدا کی حقیقی صفات کا ادراک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے احمدیوں میں پیدا کیا ہے۔ دوسرے اس تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ دوسرے مسلمان آج کل باوجود آنحضرتﷺ پر ایمان لانے کے، اللہ تعالیٰ کی صفات کا حقیقی ادراک نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کو عزیز ماننے کے باوجود، سب قدرتوں کا مالک ماننے کے باوجود بعض ایسے نظریات رکھتے ہیں جن سے لاشعوری طور پر خدا کے شرک کا اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ آسمان پر بیٹھنا سمجھنا۔ ابھی بہت بڑا طبقہ اس نظریے پر قائم ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا ظاہری طور پر پرندے پیدا کرنا۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ انسان یا جو بھی اس کے مقابلے پر شریک کھڑے کئے جائیں ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے، کجا یہ کہ تم کہتے ہو کہ فلاں انسان نے زندہ پرندے بنا کر پیدا کر دئیے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک واقعہ لکھا ہے۔ (یہ لطیفہ ہی ہے) کہ ایک دفعہ ایک مولوی صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا کہ مسیح نے پرندے پیدا کئے ہیں اور ہوا میں جو پرندے اڑ رہے ہیں ان میں سے کچھ مسیح نے پیدا کئے ہوں گے کچھ خداتعالیٰ نے پیدا کئے ہیں۔ تو آپ ان میں کوئی فرق کرکے دکھا سکتے ہیں ؟ جن سے پتہ لگے کہ مسیح کے پیدا کردہ پرندے کون سے ہیں اور خداتعالیٰ کے پیدا ہونے والے پرندے کون سے ہیں۔ تو مولوی صاحب پنجابی میں کہنے لگے۔ ’’ اے تے ہن مشکل اے او دونوں رَل مِل گئے نیں ‘‘۔ (ملخص از تفسیر کبیر جلد 6صفحہ96) کہ اب تو یہ بہت مشکل بات ہو گئی ہے کیونکہ جو مسیح نے پرندے پیدا کئے تھے اور جو اللہ تعالیٰ نے پرندے پیدا کئے تھے اب دونوں اس طرح مل گئے ہیں کہ ان کی پہچان مشکل ہے۔ یہاں بیٹھے ہوئے ہوا میں پہچانے نہیں جا سکتے کہ کون کس کا پیدا کیا ہوا ہے۔ تو یہ حال ہے ہمارے بعض علماء کا جن کے پیچھے چل کر بعض معصوم لوگ اپنے ایمان کو بھی خراب کرتے ہیں۔ پس احمدی کو اس واحد خدا کی طرف ہمیشہ جھکنا چاہئے جو سب طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔ کوئی نہیں جو اس کی طاقتوں کا مقابلہ کر سکے اور یہی خدا کی بادشاہت دلوں میں پیدا کرنے کا طریق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَہُ الْکِبْرِیَآءُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (الجاثیۃ:38) اور اسی کی ہے ہر بڑائی آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی اور وہی کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔ پس اس خدا کے سامنے ہمارا ہر وقت سر جھکے رہنا چاہئے۔ ہر قسم کے شرک سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس معبود حقیقی کے آگے ہمیں جھکنا چاہئے کہ اس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے۔ وہی ہے جو تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔ عزیز خدا ہے، حکیم خدا ہے جس کے ساتھ وابستہ رہ کر غلبہ عطا ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے، ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے۔ اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا۔ یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔ مَیں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں۔ کس دف سے مَیں بازاروں میں مُنادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں۔ اور کس دوا سے مَیں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں ‘‘۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 22-21)
پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’اس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرّہ ذرّہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قویٰ کے ظہور پذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے۔ اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے نہ اس کے تصرف سے۔ نہ اس کے خلق سے اور ہزاروں درُود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اس پاک نبی محمد مصطفیﷺ پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایاجو آپ کلام کرکے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے۔ سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کو پایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا۔ اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے۔ جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ ہمارا سچا خدا بے شمار برکتوں والا ہے اور بے شمار قدرتوں والا اور بے شمار حسن والا، احسان والا، اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ‘‘۔ (نسیم دعوت۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ363)
پس ہمیں اپنے مقصد کے حصول کے لئے اپنے خدا سے اتنا تعلق پیدا کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے ہمارے تعلق کو دیکھ کر اور اس کے ہمارے حق میں صفت عزیز کے اظہار کو دیکھ کر اور تمام دنیا میں نیکی اور تقویٰ کے قائم کرنے کی خواہش اور کوشش کو دیکھ کر اور ہمارے غلبہ کو دیکھ کر غیر کے منہ سے بھی یہ الفاظ نکلیں جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے کہ رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْکَانُوْا مُسْلِمِیْنَ(الحجر:3) یعنی بسااوقات وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا یہ چاہیں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔ پس ہماری عبادتوں کے معیار، ہمارا خدا تعالیٰ پر انحصار اور ہمارا مقصد جب تک اس حد تک نہ چلا جائے کہ دوسرے مجبور ہوں کہ اس کا اظہار کریں ہمارا عبد بننے کا دعویٰ اور ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے کوشش مکمل نہیں ہو گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ عبادتیں کسی کو دکھانے کے لئے نہیں کرنی۔ نیکی اور تقویٰ کسی سے انعام کے لئے نہیں دکھانا۔ لیکن اس لئے ضرور ہونا چاہئے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے سفیر ہیں اور ہمارا مقصد دنیا میں خدا اور رسولﷺ کی بادشاہت قائم کرناہے۔ آج کی دنیا میں یہ بہت بڑا چیلنج ہے اور اس چیلنج کو ہر احمدی کو قبول کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی عابد اور موحد بننے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے مقصد کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 21 تا 27 دسمبر 2007ء ص5تا8)
جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد نیکی اور تقویٰ اور خداتعالیٰ کی وحدانیت کا ادراک اپنے اندر پیدا کرناہے، ہمارا مقصد دنیا میں خدا اور رسول کی بادشاہت قائم کرنا ہے۔
فرمودہ مورخہ 30؍نومبر 2007ء بمطابق30؍نبوت 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔