اللہ کی صفت الحکیم کی پُرحکمت تشریحات
خطبہ جمعہ 7؍ دسمبر 2007ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
گزشتہ چند خطبوں سے صفت عزیز کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف آیات میں جو مختلف مضامین بیان کئے ہیں اُن کا ذکر کر رہا تھا۔ جیسا کہ مَیں نے صفت عَزِیْز کے مضمون کے شروع میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے صفت عَزِیْز کا جہاں بیان فرمایا ہے ان آیات میں تقریباً نصف جگہ پرعَزِیْز اور حَکِیْم کو ملا کر بیان کیا ہے۔ تو آج مَیں صفت حَکِیْم کا بیان کروں گا۔ گو کہ صفت عَزِیْزکے ساتھ آیات کی وضاحت میں صفتِ حَکِیْم کا بھی کچھ بیان ہو چکا ہے لیکن اس لفظ حَکِیْم کے لغوی معنی اور ان معنوں کے اللہ تعالیٰ کی ذات کے تعلق میں، یعنی لفظ حَکِیْم جب خدا تعالیٰ کی ذات کے بارے میں بولا جاتا ہے، جب اس کی صفت کا بیان ہوتا ہے، تو اس کے حقیقی معنی کیا ہیں، پہلے اس کا بیان صحیح طریقے سے نہیں ہو سکا، وہ مَیں آج مختلف لُغات اور تفسیروں سے بیان کروں گا۔
لسانُ العرب میں لکھا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اَلْحَکِیْم حکمت والے کو کہتے ہیں۔ عربی کے الفاظ یہ ہیں کہ قِیْلَ اَلْحَکِیْمُ ذُوْالْحِکْمَۃ یعنی حکمت والے کو حکیم کہتے ہیں اور اَلْحِکْمَۃ سے مراد یہ ہے کہ افضل ترین اشیاء پر افضل علوم کے ذریعہ اطلاع پانا۔ اور اس کو بھی اَلْحَکِیْم کہتے ہیں جو مختلف امور کے اسرارو رموز کو مدنظر رکھ کر انہیں عمدگی اور مہارت سے بجا لائے۔ یعنی افضل ترین اشیاء بہترین اشیاء، مثلاً پیدائش کے لحاظ سے، خصوصیات کے لحاظ سے، بناوٹ کے لحاظ سے، مقام کے لحاظ سے، مرتبہ کے لحاظ سے، علم کے لحاظ سے، غرض ہر لحاظ سے جو بہترین چیزیں ہیں ان کا کامل علم اور مکمل طور پر احاطہ کرنا۔ یہ حکمت سے مراد ہے۔ اور پھر ان کی گہرائی تک علم حاصل کرنا اور وَالْحَکِیْم عالِم اور صاحب حکمت کو بھی اَلْحَکِیْم کہتے ہیں۔ پھر لکھا ہے کہ حدیث میں قرآن کریم کی صفت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ وَھُوَالذِّکْرُالْحَکِیْم یعنی یہ قرآن تمہارے لئے حاکم ہے اور تم پر حاکم ہے یا یہ ایسی محکم کتاب ہے جس میں کوئی اختلاف اور اضطراب نہیں۔ صاف احکام ہیں، کوئی ابہام نہیں، جن سے کسی قسم کے نقصان کا احتمال کرتے ہوئے انسان ڈرے۔ لیکن اس کے سمجھنے کے لئے تقویٰ شرط ہے۔ صاف دل ہونا شرط ہے۔ اس محکم کتاب کو، جو خدائے حکیم کی طرف سے نازل ہوئی، سمجھنے کے لئے اپنی استعدادوں کے مطابق حکیم ہونا ضروری ہے تب ہی اس کے محکم ہونے کی سمجھ آئے گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے ایک جگہ فرمایا ہے کہ:
’’علوم ظاہری اور علوم قرآنی کے حصول کے درمیان ایک عظیم الشان فرق ہے۔ دنیوی اور رسمی علوم کے حاصل کرنے کے واسطے تقویٰ شرط نہیں ہے۔ صَرف ونحو، طبعی، فلسفہ، ہیئت و طبابت پڑھنے کے واسطے یہ ضروری امر نہیں ہے کہ وہ صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو اور امر الٰہی اور نواہی کو ہر وقت مدنظر رکھتا ہو، اپنے ہر قول وفعل کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی حکومت کے نیچے رکھے۔ بلکہ بسا اوقات عموماً دیکھا گیا ہے کہ دنیوی علوم کے ماہر اور طلبگار دہریہ منش ہو کر ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں۔ آج دنیا کے سامنے ایک زبردست تجربہ موجود ہے‘‘۔
فرماتے ہیں کہ’’ یورپ اور امریکہ باوجودیکہ وہ لوگ ارضی علوم میں بڑی بڑی ترقیاں کر رہے ہیں ‘‘۔ دنیاوی علوم میں بڑی بڑی ترقیاں کر رہے ہیں۔ ’’ اور آئے دن نئی ایجادات کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی روحانی اور اخلاقی حالت بہت ہی قابل شرم ہے۔ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے حالات جو کچھ شائع ہوئے ہیں ہم تو اُن کا ذکر بھی نہیں کر سکتے۔ مگر علوم آسمانی اور اسرار قرآنی کی واقفیت کے لئے تقویٰ پہلی شرط ہے۔ اس میں تو بۃ النّصوح کی ضرورت ہے۔ جب تک انسان پوری فروتنی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہ اٹھا لے اور اس کے جلال اور جبروت سے لرزاں ہو کر نیازمندی کے ساتھ رجوع نہ کرے قرآنی علوم کا دروازہ نہیں کھل سکتا اور روح کے ان خواص اور قویٰ کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا جس کو پا کر روح میں ایک لذت اور تسلّی پیدا ہوتی ہے۔ قرآن شریف اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کے علوم خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ پس اس کے لئے تقوٰی بطورنَردبان کے ہے‘‘یعنی ایک سیڑھی کے طورپر ہے۔ ایک اوپر لے جانے والا جو کوئی ذریعہ ہے، اس طورپر تقویٰ ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے تقویٰ ایک انتہائی ضروری چیز ہے۔
فرماتے ہیں کہ’’پھر کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ بے ایمان، شریر، خبیث النفس، ارضی خواہشوں کے اسیر، اِن سے بہرہ وَر ہوں۔ اس واسطے اگر ایک مسلمان، مسلمان کہلا کر خواہ وہ صرف ونحو، معانی و بدیع وغیرہ علوم کا کتنا ہی بڑا فاضل کیوں نہ ہو، دنیا کی نظر میں شیخ الکُل فی الکُل بنا بیٹھا ہو لیکن اگر تزکیہ نفس نہیں کرتا تو قرآن شریف کے علوم سے اس کو حصہ نہیں دیا جاتا ‘‘۔
فرماتے ہیں ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ اس وقت دنیا کی توجہ ارضی علوم کی طرف بہت جھکی ہوئی ہے اور مغربی روشنی نے تمام عالم کو اپنی نئی ایجادوں اور صنعتوں سے حیران کر رکھا ہے۔ مسلمانوں نے بھی اگر اپنی فلاح اور بہتری کی کوئی راہ سوچی تو بدقسمتی سے یہ سوچی ہے کہ وہ مغرب کے رہنے والوں کو اپنا امام بنا لیں اور یورپ کی تقلید پر فخر کریں۔ یہ تو نئی روشنی کے مسلمانوں کا حال ہے۔ جو لوگ پرانے فیشن کے مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنے آپ کو حامی ٔدینِ متین سمجھتے ہیں، ان کی ساری عمر کی تحصیل کا خلاصہ اور لُبّ لُباب یہ ہے کہ صرف ونحو کے جھگڑوں اور اُلجھیڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ضَآلِّیْن کے تلفّظ پر مر مٹے ہیں ‘‘۔ کہضَآلِّیْن کس طرح کہنا ہے۔ ’’قرآن شریف کی طرف بالکل توجہ ہی نہیں اور ہو کیونکر جبکہ وہ تزکیہ نفس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ283-282جدید ایڈیشن)
تو آپؑ نے فرمایا کہ جو نئی روشنی کے چاہنے والے ہیں وہ بھی تقویٰ سے عاری ہیں اور جو اپنے آپ کو عالم سمجھتے ہیں وہ بھی تقویٰ سے عاری ہیں اور جب تک تقوٰی نہ ہو قرآنی علوم حاصل نہیں ہوتے۔
پھر اس کے معنی کے لحاظ سے مَیں آگے چلتا ہوں۔ مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ حکمت کا مطلب علم اور عقل کی مدد سے حق بات تک پہنچ جانا ہے۔ اور خداتعالیٰ کے صاحب حکمت ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کی اشیاء کے بارہ میں معرفت اور ان کو غایت درجہ تک تکمیل اور عمدگی کا حامل بنا کر وجود میں لانا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی کسی بھی چیز اور اس کی تکمیل کے بارے میں جومعرفت ہے اس کو عمدگی کا حامل بنا کر وجود میں لانا، کوئی اس میں نقص نہ رہنے دینا۔ اور انسان کے صاحب حکمت ہونے سے مراد ہے، ان وجود میں لائی گئی اشیاء کی معرفت حاصل کر لینا اور بھلائی کے کام کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی پیدائش کے بارے میں معرفت حاصل کرنا، علم حاصل کرنا۔ تو دنیاوی علم حاصل کرنا بھی جو کہلاتا ہے وہ منع نہیں ہے۔ قرآن کریم میں اس کی طرف رہنمائی بھی فرمائی گئی ہے۔ لیکن تقویٰ سے عاری ہوکر صرف اسی کو سب کچھ سمجھنا اور دین کا خانہ خالی رکھنا، یہ چیز حکمت سے عاری ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ جب اللہ کے بارہ میں کہا جائے کہ وہ حکیم ہے تو اس سے وہ معانی مراد نہیں ہوتے جو معانی کسی انسان کو حکیم کہنے سے ہوتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ(التین:9) کہ اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم ہے، یہ بھی اسی لفظ سے نکلا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف لغات کے حوالے سے حکمت اور حکیم کے مختلف معنی بیان فرمائے ہیں۔ اَلْحَکِیْم کا ایک معنی عالِم کا ہے۔ پھر ایک معنی صَاحِبُ الْحِکْمَۃ کے ہیں (حکمت والا)۔ ایک معنی تمام کاموں کواچھی طرح کرنے والا۔ جس کے کاموں کو کوئی بگاڑ نہ سکے۔ اور حکمت کے معنے ہیں، عدل، علم، حلم یعنی دانائی۔ پھر ایک معنی ہیں ہر وہ بات جو جہالت سے روکے، ہر وہ کلام جو سچائی کے موافق ہو۔ بعض کے نزدیک اس کے معانی وَضْعُ الشَّیْ ءِ فِیْ مَوْضِعِہٖ کے ہیں۔ یعنی ہر امر کو اس کے مناسب حال طور پر استعمال کرنا۔ نیز اس کے ایک معنی صَوَابُ الْا َمْرِ وَسِدَادُہٗ۔ بات کی حقیقت اور اس کا مغز۔ حکم جو حکیم کامادہ ہے، اس کے معانی ہیں۔ اصلاح کی خاطر کسی کوکام سے روکنا اور اسی وجہ سے جانور کی لگام کو حَکَمَۃ کہتے ہیں۔ تفسیر کی کتاب روح المعانی میں آیت قَالُوْٓا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَٓا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ(البقرۃ:33) کی علامہ محمود آلوسی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہاں فرشتوں نے علم کو بکمالہٖ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا اور پھر اس کے بعد اس کی صفت حکیم کا اقرار کیا کیونکہ ان پر حقیقت کھل گئی تھی۔
یہ آگے پھر تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں، الْحِکْمَۃ کے معانی ہیں : روکنا۔ اسی سے سواری کے منہ میں ڈالی جانے والی لگام کو اَلْحَکَمَۃ َ کہتے ہیں، کیونکہ وہ اسے کجی سے روکتی ہے۔ نیز علم کو بھی حکمت کہتے ہیں کیونکہ یہ طریق اس کام میں بگاڑ پیدا ہونے میں روک بنتا ہے اور حکیم کے معانی ہیں ذُوْالْحِکْمَۃ: یعنی حکمت والااور بعض نے حکیم کے معانی یہ کئے ہیں کہ وہ جو اپنی تمام مخلوقات کو محکم طور پر بنانے والا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی تفسیر کی ہے جس کو مَیں اختصار سے یہاں بیان کرتا ہوں۔ اس آیت کو سمجھنے کے لئے گزشتہ آیات کو بھی دیکھنا ہو گا۔ یہ جو آیت تھی لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا(البقرۃ:33) اس سے پہلی آیات ہیں۔ وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً۔ قَالُوْا أَ تَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَ یَسْفِکُ الدِّمَآءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ۔ قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ:31) یعنی اور یاد رکھ جب تیرے ربّ نے فرشتوں سے کہا کہ یقینا مَیں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا کیا تو اس میں وہ بنائے گا جو اس میں فساد کرے اور خون بہائے۔ جبکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور ہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ اس نے کہا یقینا مَیں وہ سب کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ پھر اگلی آیت میں آتا ہے کہ وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ ۙ فَقَالَ اَنۡۢبِـُٔوۡنِیۡ بِاَسۡمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ(البقرۃ:32) اور اس نے آدم کو تمام نام سکھائے۔ پھر ان مخلوقات کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ مجھے ان کے نام بتلاؤ اگر تم سچے ہو۔ اس پر فرشتوں نے کہا کہ قَالُوْٓا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ(البقرۃ:33) انہوں نے کہا کہ پاک ہے تُو ہمیں کسی بات کا کچھ علم نہیں سوائے اس کے جس کا تو ہمیں علم دے۔ یقینا تو ہی ہے جو دائمی علم رکھنے والا اور بہت حکمت والا ہے۔
جیسا کہ ہم اَلْحَکِیْم کے لغوی معنی میں دیکھ آئے ہیں کہ اس کے معنی حکمت والا اور تمام کاموں کو اچھی طرح کرنے والا ہیں یعنی جسے کوئی بگاڑ نہ سکے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ بات کی حقیقت اور اس کے مغز تک پہنچنا۔ یہ تمام معنی اَقْرَب نے کئے ہیں۔ بہرحال یہ آیت اور اس سے پہلے کی جو آیات ہیں، جو مَیں نے ابھی پڑھ کر سنائیں، ترجمہ ہم نے سن لیا ان سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیا معاملہ درپیش تھا۔ اس پر فرشتوں نے کہا کہ ہمیں جتنا تُو نے سکھایا ہے اتنا ہی ہمیں علم ہے۔ پہلے انہوں نے کہا آدم کو کیوں پیدا کرنے لگا ہے؟ فساد پیدا کرنے کے لئے؟ جب اللہ تعالیٰ نے سب کچھ معاملہ سامنے رکھا تو اس پر ان کا جواب تھا، ہمیں تو وہی علم ہے جتنا توُنے ہمیں سکھایا۔ ہم اس بات کا بہرحال احاطہ نہیں کرسکتے جو تیرے علم میں ہے کیونکہ تُو تو اَلْعَلِیْم بھی ہے اور اَلْحَکِیْم بھی۔ یعنی تُو بہت جاننے والا اور بہت زیادہ حکمت والا ہے۔ ہم نے تو ظاہری امور کو مد نظر رکھ کریہ کہہ دیا تھا کہ آدم کی وجہ سے خونریزی اور فساد پیدا ہوگا اور فرشتوں نے بھی جو یہ کہا تھا اپنے علم کے مطابق غلط نہیں کہا تھا۔ آج دیکھ لیں دنیا میں فساد اور خونریزی بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ دنیا اس سے بھری پڑی ہے تو اس کا نعوذ باللہ یہ مطلب بھی نہیں کہ فرشتوں کا علم خداتعالیٰ سے زیادہ تھا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ بتایاکہ مَیں جو خلیفہ بنانے لگا ہوں، یہ وجہ فساد نہیں ہوں گے اور فرشتوں نے فوراً سمجھ لیا۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ اے اللہ تُو یقینا علیم اور حکیم ہے، ہم اب سمجھ گئے ہیں کہ ابن آدم جوخونریزی کریں گے، جوفساد ہوگا اس کی ذمہ داری آدم پر نہیں ہوگی بلکہ اس کی وجہ بیرونی دشمنی یا اندرونی کمزوری ہوگی۔ وہ وجود ہوں گے جو اندرونی طور پر کمزور ہوں گے۔ تو اللہ تعالیٰ کے خلیفہ نے تو نیکیوں اور اعمال صالحہ کی تلقین کی لیکن بیرونی دشمنوں نے اس وجہ سے فساد پھیلایا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے اور اندرونی طور پر بعض نے عمل نہ کیا جس کی وجہ سے کمزوریاں بڑھتی گئیں اور فساد پھیلتا گیا۔ تمام انبیاء کی امتوں کو بعد میں ایسے ہی مسائل کا سامنا کرناپڑا۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ بتایا اور فرشتے اس بات کو سمجھ گئے کہ آدم کی خلافت کے نتیجے میں خونریزی اور فساد تو ہو سکتے ہیں اور ہوں گے لیکن ایسے وجودوں کا ظہور بھی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی متعدد صفات کے حامل ہوں گے اور خداتعالیٰ کے مظہر ہوں گے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس کے مطابق آدمؑ کو صفات الٰہیہ کی تعلیم دی اور آدمؑ نے اس پر عمل کرکے بتادیا کہ صفات الٰہیہ کا کامل ظہور بغیر ایسے معبود کے جس میں خیر اور شرّ کی طاقتیں رکھی ہوں نہیں ہوسکتا۔ پھر وہ دونوں میں سے ایک کو اختیار کرے اور خیر کی طاقتوں کو محبت الٰہی کے جذبے سے سرشار ہو کر خداتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اختیار کرے۔ فرشتوں میں تو یہ طاقتیں نہیں ہیں انہوں نے تو وہی کرنا ہے جس کا حکم ہے۔ اس لئے کسی شاعر نے کہا ہے۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
پس جیسا کہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک اقتباس میں بھی ہم دیکھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم کو سمجھنے کے لئے خیر اور تقویٰ شرط ہے اور جب یہ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی صفات بھی انسان اپنے اندر پیدا کرسکتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ صفات حضرت محمد رسول اللہﷺ نے اپنے اندر پیدا کیں اور انسان کامل کہلائے۔ پس فرشتوں نے آدم کی پیدائش پر بھی یہ اقرار کیا اور ہر نبی کی پیدائش پر بھی یہ اقرار کرتے ہیں کہ ان کا علم محدود ہے اور انسان کا اُن کے مقابل پر علم لامحدود ہے اور اس بات سے انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ اللہ تعالیٰ اَلْعَلِیْم اور اَلْحَکِیْم ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ضمن میں ایک یہ نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ آدم ؑ کے واقعہ کی تفصیل بیان کرنے سے پیدائش عالم کی غرض اور حکمت بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں الہام الٰہی کا ظہور اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ہوتا ہے اور جو لوگ نبیوں پر معترض ہیں وہ گویا اس بات پر اعتراض کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کی غرض کو کیوں پورا کرنے لگا ہے۔ آج کل کے معترضین مسلمانوں میں سے بھی ہیں۔ باوجود اس کے کہ یہ آیت پڑھتے ہیں پھر سمجھتے نہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں کہ ہر زمانے میں خیر کو پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے چنیدہ بندے بھیجتا ہے اور اس زمانہ میں اس نے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے تو اس پر کیا اعتراض ہے۔ جو لوگ اعتراض کرتے ہیں تو پھر یہ بالواسطہ خداتعالیٰ کی انسانی پیدائش کی غرض پر اعتراض ہے۔ پس سوچنے والوں کے لئے یہ سوچنے کا مقام ہے۔
پھر آپ نے ایک نکتہ یہ بیان فرمایا کہ جب فرشتوں نے عرض کی لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا تواس کا صرف اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ ہمیں اتنا ہی علم ہے جتنا تُو نے ہمیں سکھایا بلکہ اس کی گہرائی میں دیکھیں تو یہ مطلب ہے کہ فرشتوں نے یہ اعتراف کیا کہ ہمارا علم اس طرح نہیں بڑھتا جس طرح انسان کابڑھتا ہے اور اُسے یعنی انسان کو اِسے بڑھانے کی مقدرت بھی حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو طاقت اور قدرت دی ہے۔ اور پھر فرشتوں نے اس بات سے یہ اعتراف کیا کہ ہمارے اندر وہی ایک قسم کی طاقتیں ہیں جو تُونے ہمارے اندر رکھی ہیں اور ان طاقتوں کے ساتھ ہم انسان کے متنوع اور جامع علوم کو نہیں پہنچ سکتے۔ یعنی فرشتوں کا اقرار ہے کہ ہم سمجھ گئے ہیں کہ انسان کی پیدائش میں حکمت ہے اور انسان کے سپرد ایسا کام ہے جو ہم نہیں کرسکتے۔ اگر بعض انسان صرف شرّ پھیلانے والے ہیں تو اس پیدائش کی حکمت کا رَد اس وجہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ پھر اس متنوع قسم کے کاموں کے ساتھ جو تسبیح اور تحمید کرنے والے ہیں وہ اس میں فرشتوں سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ (ملخص از تفسیر کبیر جلد 1صفحہ321-322)
شیخ اسماعیل حقّی لکھتے ہیں کہ اَلْحِکْمَۃ وہ معارفِ حقّہ اور احکامِ شریعہ ہیں جن کے ذریعہ نفوس کی تکمیل ہوتی ہے، اَلْحَکِیْم جو حکمت و مصلحت کے تقاضے کے مطابق کام کرے۔ بزرگ و برتر اشیاء کی معرفت اعلیٰ ترین علم کے ذریعہ حاصل کرنے کو حکمت کہتے ہیں اور تمام اشیاء میں سے معزز ترین اور بالاترین خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا اس کی معرفت کی کنہ کو نہیں جانتا۔ پس اللہ تعالیٰ حَکِیْم ہے اس وجہ سے کہ وہ بالا اور معزز ترین اشیاء کو بلند ترین علم کے ذریعہ سے جانتا ہے۔ کیونکہ عظیم ترین علم وہ ازلی دائمی علم ہے جس کا زوال متصور نہ ہو، کوئی تصور نہ کرسکے اور وہ علم اس چیز کے حالات سے، جس کے متعلق وہ علم ہے، ایسی کامل مطابقت رکھتا ہے کہ اس میں ذرّہ بھر بھی اخفاء یا شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں، کوئی مشتبہ نہیں اور یہ وصف صرف اللہ تعالیٰ کو ہی حاصل ہے۔ ہاں بسااوقات ایسے شخص کو بھی حَکِیْم کہا جاتا ہے جو کسی چیز کی صنعتکاری کی باریک درباریک تفصیلات کا علم رکھتا ہو اور اس چیز کو کمال عمدگی سے بناتا ہو۔ اور اس پہلو سے بھی تمام کمال صرف اللہ تعالیٰ کو ہی حاصل ہے کیونکہ وہی حکیم مطلق ہے۔ اور جو شخص تمام اشیاء کی معرفت رکھتا ہو مگر اللہ کا عرفان نہ رکھتا ہو وہ حَکِیْم کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اسے عظیم اور بزرگ ترین چیز یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ دنیا وی چیزوں میں ترقی بھی بڑ ی کر لی لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کا راستہ بند ہے اس لحاظ سے وہ حکمت سے عاری ہیں۔ باوجود تمام دنیاوی ترقیوں کے اس تعریف کی رو سے ان کو حَکِیْم نہیں کہا جا سکتا۔
پھر کہتے ہیں کہ ’’حکمت تمام علوم میں سے سب سے زیادہ شرف رکھنے والا علم ہے اور کسی علم کی جلالتِ شان معلوم (یعنی جس چیز کا علم حاصل کیا جائے اس کی شان، بزرگی اس کا جلال ہے) کی جلالت شان کے مطابق ہوتی ہے‘‘۔ کسی علم کی جو بڑائی ہے، اس کی جو شان ہے وہ جس کے بارے میں علم حاصل کیا جائے اس کی شان کے مطابق ہوتی ہے۔ ’’ اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر تو کوئی صاحب ِشرف نہیں ہو سکتا۔ اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کر لے وہ حَکِیْم ہے اگرچہ دیگر رسمی علوم میں وہ کمزورہی ہو۔ اس کی زبان بہت روانی سے نہ چلتی ہو۔ اس کا بیان بظاہر بہت زور دار نہ بھی ہو۔ ہاں بندے کی حکمت کی اللہ تعالیٰ کی حکمت سے نسبت ایسی ہی ہے جیسے بندے کو حاصل اللہ کی معرفت کی، خود اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات کی معرفت سے نسبت ہے‘‘۔ یعنی حکمت کا بھی وہی معیار ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بڑی وسیع ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات کے بارے میں جو معرفت ہے، جو علم ہے اُتنا بندے کو تو نہیں ہو سکتا۔ پس جتنا بندے کا معیار اس علم کے حاصل کرنے کے بارے میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ہے۔ اور جو علم اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات کے بار ے میں ہے ان کے درمیان جو فرق ہے وہی انسان کی اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کے درمیان فرق ہے۔
آگے پھر کہتے ہیں کہ ’’لیکن اگرچہ بندے کی حاصل حکمت کو اللہ کی حکمت سے بہت دُور کی نسبت ہے لیکن پھر بھی یہ بندے کو حاصل ہونے والی حکمت تمام معرفتوں میں سے نفیس ترین اور اپنی خو بی کے اعتبار سے کثیر ترین ہے اور جسے حکمت عطا کر دی جائے تو یقینا اسے خیر کثیر عطا کر دی گئی اور نصیحت تو صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں‘‘۔ یہ ایک آیت کی تشریح ہے جو مَیں نے پڑھی۔
پھر کہتے ہیں کہ ’’ہاں یہ بات درست ہے کہ جسے پھر اللہ کی معرفت حاصل ہو جائے اس کا کلام اس کے غیر سے مختلف ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسا شخص چیزوں کی جزئیات میں کم ہی جاتا ہے بلکہ اس کا کلام اجمالی ہوتا ہے نیز وہ عارضی اور دنیاوی مصالح کی بجائے اُن اُمور کی طرف توجہ کرتا ہے جو عاقبت میں نفع بخش ہوتے ہیں اور جبکہ اس کے کلمات کلیۃً اللہ تعالیٰ کی معرفت کے طفیل لوگوں کے نزدیک بھی واضح ترین ہوتے ہیں اس لئے بسا اوقات لوگ اس کے کلام کے لئے حکمت کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور اس قسم کا کلام کرنے والے شخص کے لئے حَکِیْم کا لفظ بولتے ہیں اور یہ ویسا ہی مضمون ہے جیسا کہ حضرت سید الانبیاءﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ راْسُ الْحِکْمَۃِ مَخَافَۃُ اللِّٰہ یعنی اللہ کا خوف ہی اصل حکمت ہے۔ تقویٰ ہی اصل حکمت ہے‘‘۔
حضرت ابن عباسؓ کے نزدیک حَکِیْم وہ ہے جو مجرموں کا مؤاخذہ کرتے ہوئے حکمت کے تقاضوں کو ترک نہیں کرتا۔ اس کی تشریح کر رہے ہیں کہ فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْکُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (البقرۃ:210) تو کہتے ہیں کہ عزیز وہ ہے جواپنے امر پر غالب ہے۔ کوئی چیز اسے تم سے نافرمانوں سے انتقام لینے سے نہیں روکتی۔ لیکن وہ حکیم بھی ہے جو مجرموں کا مؤاخذہ کرتے ہوئے حکمت کے تقاضوں کو ترک نہیں کرتا۔
پھر دوسری آیت کے بارے میں ہی بیان کرتے ہیں کہ وَاِذْ قَالَ اِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی۔ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ۔ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ۔ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئً اثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا۔ وَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(البقرۃ:261) کہ اور کیا تُونے اس پر بھی غور کیا جب ابراہیمؑ نے کہا کہ اے میرے ربّ! مجھے دکھلا کہ تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ اس نے کہا کیا تو ایمان نہیں لا چکا؟ اس نے کہا کیوں نہیں؟ مگر اس لئے پوچھا ہے کہ میرا دل مطمئن ہوجائے، اس نے کہا تو چار پرندے پکڑ لے اور انہیں اپنے ساتھ مانوس کر لے۔ پھر ان میں سے ایک ایک کو پہاڑ پر چھوڑ دے پھر انہیں بلا۔ وہ جلدی کرتے ہوئے تیری طرف چلے آئیں گے اور جان لے کہ اللہ غلبہ وا لا اور بہت حکمت والا ہے۔
ابن عباسؓ کہتے ہیں یہاں صرف حَکِیْم کے معنی استعمال کئے ہیں کہ اپنے تمام افعال میں حکمت بالغہ سے کام لینے والا، اس کے افعال کی بنا روز مرہ کے اسباب پر نہیں کیونکہ وہ خارق عادت نشان دکھانے سے عاجز نہیں بلکہ اس کے جملہ افعال اپنے اندر بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں لئے ہوئے ہیں۔ نشانات اللہ تعالیٰ دکھا سکتا ہے اور ایسے ایسے عجیب نشان دکھاتا ہے کہ بندہ وہاں تک پہنچ نہیں سکتا۔
اس آیت میں حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے نشان مانگا ہے جس کا ذکر ہے اور اس پر خداتعالیٰ کا جواب یہ ہے جو ابھی پڑھا گیا۔ مفسرین اس کو ظاہری ایمان پر محمول کرتے ہیں اور بعض کی عجیب عجیب اس بارے میں تفسیریں ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس کی تفسیر کی ہے۔ مَیں اس کا مختصر ذکر کرتا ہوں جو اس کی حقیقت پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس میں حضرت ابراہیم نے یہ دعا کی کہ احیاء موتیٰ کا کام جو میرے سپرد ہے وہ کس طرح ہو گا؟ مُردوں کو یعنی روحانی مردوں کوزندہ کرنے کا کام جو میرے سپرد ہے وہ کس طرح ہو گا؟ تو اے اللہ! تُو ہی مجھے دکھا کہ قوم میں زندگی کس طرح پیدا ہو گی جبکہ مَیں بوڑھا ہوں اور کام بھی بے انتہا اہم ہے۔ یہ کس طرح پورا ہو گا؟ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چار پرندے لے کر ان کو سدھا، انہیں پہاڑوں پر رکھ دے وہ تیری طرف آئیں گے۔ تو اس کی تشریح میں فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت کر۔ وہ تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے احیاء دین کے کام کی تکمیل کریں گے اور یہ روحانی پرندے حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف ہیں، ان میں سے دو کی حضرت ابراہیم نے براہ راست تربیت کی اور دو کی بالواسطہ۔ پہاڑ پر رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اس کے رفیع الشان، رفیع الدرجات ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ اور چار پرندوں کو علیحدہ علیحدہ پہاڑ پر رکھنے سے یہ بھی مراد ہے کہ احیاء دین چار مختلف وقتوں میں ہو گا۔ ایک تو پہلے زمانے میں ہوا۔ پھر کیونکہ حضرت ابراہیم نے دعا بھی کی تھی کہ مَیں اپنی اولاد کے بارے میں بھی یہ نشان دیکھنا چاہتاہوں یعنی بعد میں آنے والوں میں بھی یہ نشان ظاہر ہو کہ وہ احیاء موتیٰ کرنے والے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری قوم چار مرتبہ مُردہ ہو گی اور ہم چار مرتبہ زندہ کریں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے میں پہلے یہ آواز بلند ہوئی جو حضرت ابراہیم ؑ کی آواز تھی۔ پھر حضرت عیسیٰ کے ذریعہ سے آواز بلند ہوئی۔ پھر آنحضرتﷺ کے ذریعہ سے آواز بلند ہوئی اور اب اس زمانہ میں چوتھی مرتبہ وہ آواز بلند ہوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے بلند ہوئی۔
پس پہلاپرندہ موسوی امت تھی، دوسرا پرندہ عیسوی امت تھی اور تیسرا پرندہ آنحضرتﷺ کی امت تھی جن پر آپؐ کا جلالی ظہور ہوا اور چوتھا پرندہ جمالی ظہور کی مظہر جماعت احمدیہ ہے جن کے ذریعہ سے حضرت ابراہیم کے قلب کو راحت پہنچی اور نزدیک اور دُور کی اولاد کے زندہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نظارے دکھائے اور یہی خداتعالیٰ کے عَزِیْز اور حَکِیْم ہونے کا اظہار ہے اور یہ زندہ ہونا اب ہم پر بحیثیت احمدی ایک ذمہ داری بھی ڈالتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق جو احیاء موتیٰ اس زمانے میں ہونا تھا اس نے دائمی رہنا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی پُر حکمت تعلیم جو تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے اس سے چمٹے رہنا ضروری ہے تاکہ ہر فرد جماعت احیاء موتیٰ کا نظارہ دکھانے والا بھی ہو اور دیکھنے والا بھی ہو۔ پس جب تک ہم تقویٰ پر قائم رہیں گے یہ نظارے انشاء اللہ دیکھتے رہیں گے۔
پھر حضرت ابن عباسؓ ایک مثال میں بیان کرتے ہیں کہ اَفَغَیْرَاللّٰہِ اَبْتَغِیْ حَکَمًا۔ سورۃ الانعام کی 115ویں آیت ہے۔ کہتے ہیں کہ حَکَمْ اپنے معنے کے اعتبار سے حاکم سے وسیع ترمفہوم رکھتا ہے۔ حَکَمْ اس حاکم کو کہتے ہیں جس کا کوئی ہمسر نہ ہو اور جسے اس کام کے لئے بطور خاص مختص کیا گیا ہو۔ اسی وجہ سیحَکَمکی صفت صرف عادل کے لئے آتی ہے یا اس کے لئے استعمال ہوتی ہے جسے بار بار فیصلے کرنے کا موقع ملتا ہے۔
یہ جو آیت ہے اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خداتعالیٰ جو میرا حَکَم ہے اس کے علاوہ کسی اور کو مَیں کیوں حَکَم بناؤں۔ کسی اور کے پاس فیصلے کروانے کے لئے کیوں جاؤں ؟ یا فیصلے کرانے کے لئے اللہ کے علاوہ دوسرے انسانوں کو کیوں بلاؤں؟ جبکہ خداتعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے اور وہ سب سے زیادہ بہترین فیصلہ کرنے والوں میں سے ہے۔ مخالفین دین آج جتنا بھی شور مچاتے رہیں کہ ہم فیصلہ کرتے ہیں، ایک مومن کا یہی جواب ہونا چاہئے اور ہوتا بھی ہے کہ اَفَغَیْرَاللّٰہِ اَبْتَغِیْ حَکَمًا (الانعام:115) یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ مَیں کوئی اور فیصلے کرنے والا ڈھونڈوں ؟ مجھے تو کسی دوسرے کی حاجت نہیں ہے۔ مَیں تو اس یقین سے پُر ہوں اور مَیں اس یقین پر قائم ہوں کہ اللہ جو حَکِیْم اور حَکَمہے اس نے ایک ایسی پُر حکمت تعلیم کی طرف میری رہنمائی کر دی ہے اور ایسے فیصلہ کُن نشان دکھا دئیے ہیں کہ مجھے ضرورت نہیں کسی اور کے پاس جانے کی۔ جس مرضی نام نہاد عالم کی یا بڑے آدمی کی تحریریں لے آؤ جو میرے خلاف ہیں اگر خداتعالیٰ کا فیصلہ میرے ساتھ ہے تو کوئی پرواہ نہیں کہ تم کتنا شور مچاتے ہو۔ تمہارے دنیاوی منصب تو لوگوں کی حمایت کے مرہون منت ہیں اور جب اسمبلیاں اور عدالتیں اور حکومتیں فیصلہ کرتی ہیں تو شور مچانے والوں کی اور بعض اوقات شر پسندوں کی طاقتوں کو دیکھتی ہیں لیکن میرا خدا جو غالب بھی او ر حکیم بھی ہے جب فیصلہ دیتا ہے تو وہ فیصلہ ہے جو ہماری دنیا و آخرت سنوارنے والا فیصلہ ہے۔ پس ایسے خدا کے علاوہ مجھے کسی منصف کی ضرورت نہیں ہے۔ آج ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے والے ہیں۔ آج ہم قرآنی پیشگوئیوں کو پورا ہوتا دیکھ کر اس یقین پر قائم ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہی مسیح و مہدی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی تھی اور خدا کی کتاب حضرت عیسیٰ کو فوت شدہ قرار دے کر آنے والے مسیح کی آمد کا اعلان کر رہی ہے۔ خدا کی کتاب آنحضرتﷺ کی اُمّت میں سے ہی مسیح و مہدی کی آمد کا اعلان کر رہی ہے۔ تو پھر عدالتیں یا حکومتیں یا اسمبلیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں کہ ہم ان کے فیصلوں کو تسلیم کریں اور خداتعالیٰ کے فیصلے کو جو اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْن ہے ردّ کر دیں۔ پس اس فیصلے کو جو عزیز و حکیم خدا نے کیا ہے ردّ کرنے والے ردّ کئے جائیں گے۔ ہمیں زور لگانے والے، یا ہمیں کہنے والے کہ اس کو ردّ کر دو، وہ خود رد ّکئے جائیں گے اور ہم انشاء اللہ ہمیشہ کی طرح کامیابی کی منزلیں طے کرتے چلے جائیں گے۔ اس لئے چاہے وہ پاکستان کی اسمبلی ہو یا کسی اور ملک کی اسمبلی ہو ہمیں اُن کے فیصلوں کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں۔ کیونکہ ان کے فیصلے تقویٰ سے عاری اور جہالت کے پلند ے ہوتے ہیں۔ آج اگر کسی حَکَمْ نے فیصلہ کرنا ہے اور ہمیشہ سے جوحَکَم ْ فیصلہ کرتا آیاہے وہ خداتعالیٰ کی ذات ہے اور وہی سب سے بڑا حَکَمْ ہے، منصف ہے، جج ہے جس نے فیصلے کئے ہیں اور ان کے فیصلوں کے مطابق ہم اسی دین پر قائم ہیں جو محمد مصطفیﷺ لے کر آئے تھے اور انشاء اللہ مرتے دم تک قائم رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ پر چلتے ہوئے اس حکیم خدا کی صفتِ حکیم کو بھی اپنانے کی توفیق دے اور ہمیشہ حکمت سے چلنے والے اور ہمیشہ خداتعالیٰ کے احکامات پر حقیقی طور پر تقویٰ سے چلتے ہوئے عمل کرنے والے ہوں۔
ضمناً مَیں یہ بھی بتاد وں کہ آج کل ایم ٹی اے پر ایک پروگرام مولانا دوست محمدصاحب شاہدؔ دے رہے ہیں جو 1974ء کی اسمبلی کے بارے میں حالات پر ہے۔ وہاں ماشاء اللہ بڑی حقیقت بیانی ہو رہی ہے۔ خوب کھول کھول کر ان کے کچے چٹھے بیان ہو رہے ہیں اور مخالفین کے پاس ان کا جواب نہ اُس وقت تھا جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اسمبلی میں پیش ہوئے تھے، نہ آج ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت ہی ہے جس نے ہمیشہ صحیح رستے پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا اظہار اپنے ہر ماننے والے پر بھی کرنا ہے اور دنیا میں بھی پھیلانا ہے۔
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 28 دسمبر 2007ء تا 3 جنوری 2008 ء ص 5 تا 8)
لفظ الحکیم کے مختلف معانی کا بیان۔
فرمودہ مورخہ 07؍دسمبر 2007ء بمطابق 07؍فتح 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔