اللہ تعالیٰ کی صفت الحکیم

خطبہ جمعہ 21؍ دسمبر 2007ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عََلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(البقرۃ:130)

اس کا ترجمہ ہے کہ اور اے ہمارے ربّ! تو اُن میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور (اس کی) حکمت بھی سکھائے اور ان کا تزکیہ کر دے۔ یقینا تو ہی کامل غلبے والا اور حکمت والا ہے۔

یہ آیت جومَیں نے تلاوت کی ہے، کل عید کے خطبہ پر بھی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کے ضمن میں مَیں نے پڑھی تھی۔ لیکن صرف اتنا ذکر ہوا تھا کہ ایک عظیم رسول کے دنیا میں آنے کی دعاحضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عاجزی سے کی۔ اور اللہ تعالیٰ نے وہ عظیم رسول آنحضرتﷺ کی صورت میں مبعوث فرمایا جس کی زندگی اور موت، قربانیاں اور عبادتیں مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو گئی تھیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ جو انسان کامل کہلایا جو رسول بھی تھا اور جس کے مقام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ افضل الرسل بھی ہے اور خاتم النبییّن بھی ہے۔

کل عید کے حوالے سے مَیں نے صرف قربانی کا ذکر کیا تھا کہ آپؐ نے قربانی کے بھی اعلیٰ معیار قائم کئے اور اپنے صحابہ میں بھی وہ روح پھونکی جس نے اپنی جان کو خدا کی امانت سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹانے کی کوشش کی اور کسی بھی قسم کی قربانی سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ لیکن اس آیت میں حضرت ابراہیم نے جو دعا کی تھی وہ چار باتوں کی تھی کہ میری نسل میں سے آنے والا نبی ان باتوں میں وہ معیار قائم کرے جو نہ پہلوں نے کبھی قائم کئے ہوں اور نہ بعد میں آنے والے اس تک پہنچ سکیں۔ یعنی پہلوں میں تو اس لئے یہ اعلیٰ معیار قائم نہیں ہو سکتے کہ انسانی ذہن اور روحانیت کے معیار ابھی اس معراج تک نہیں پہنچ سکے تھے جن تک اللہ تعالیٰ نے انسانی ارتقاء کے ساتھ اسے پہنچانا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی فراست اور یقینا الہام سے بھی نظر آ رہا تھا کہ انسان کی ذہنی علمی اور روحانی ترقی بہت دور تک جانی ہے اور ایک زمانہ آئے گا جب یہ منازل حاصل ہوں گی۔ تو آپؑ نے یہ دعا کی کہ اے میرے خدا جب تیری تقدیر کے تحت وہ زمانہ آئے جب روحانی، علمی اور ذہنی جلا اور ترقی کا زمانہ ہو تو اے میرے خدا ! اُس وقت روحانی ترقیات کے حصول کے لئے جو نبی تُو مبعوث فرمائے، انسان کو نئے علوم سے متعارف کرانے اور اپنی ہستی کے ثبوت کے لئے دلائل سے پُر تعلیم تُو جس نبی پر اتارے، کائنات کے اسرار و رموز جس نبی کے ذریعہ سے ظاہر فرمائے، وہ رسول، وہ آخری شرعی کتاب کو لانے والا رسول اے خدا ! میری دعا ہے کہ وہ میری نسل میں سے ہو اور بنی اسماعیل کی نسل میں سے ہو اور اس کے لئے آپ نے چار چیزیں اللہ تعالیٰ سے اس عظیم رسول کے لئے مانگیں۔ پہلی بات آپؑ نے یہ عرض کی کہ یَتْلُوْا عََلَیْہِمْ اٰیٰتِک جو اُن پر تیری آیات تلاوت کرے۔ دوسری بات یہ کہ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ انہیں کتاب کی تعلیم دے۔ تیسری بات یہ کہ کتاب کی تعلیم کے ساتھ حکمت سکھانے والا بھی ہو اور پھر چوتھی بات یہ کہ جن لوگوں میں مبعوث ہو اور جو قیامت تک پیدا ہونے والے ہیں ان سب کا تزکیہ بھی ہمیشہ کرنے والا ہو اور ایسی تعلیم ہو جس کے ذریعہ سے ہمیشہ تزکیہ ہوتا چلا جائے۔ اور آخر میں یہ دعا کی کہ اے خدا ! تُواَلْعَزِیْزہے، کامل غلبہ والا ہے اور اَلْحَکِیْم ہے، بڑی حکمت والا ہے۔ تیری جیسی عزیز ہستی ہی ایسا کامل انسان پیدا کرسکتی ہے اور تجھ جیسی حکیم ہستی ہی اُس نبی کو وہ حکمت عطا کر سکتی ہے جس سے وہ یہ تمام امور سر انجام دے سکے۔

پس حضرت ابراہیم نے یہ دعا کی کہ میری اس قربانی اور میری بیوی اور بیٹے کی اس قربانی کو ہم تبھی تیری درگاہ میں قبول سمجھیں گے جب یہ تمام خصوصیات رکھنے والا سب نبیوں سے افضل اور تیرا پیارا ہماری نسل میں سے ہو اور حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہو۔ جس طرح تُونے یہ احسان کیا ہے کہ خانہ کعبہ کی نشاندہی کر کے اس کی تعمیر ہم سے کرائی ہے تاکہ اس جگہ کو مرجع خلائق بنادے، لوگوں کے آنے کی جگہ بنا دے۔ اسی طرح یہ بھی ہماری دعا قبول فرما کہ تیرے علم کے مطابق جو عظیم رسول مبعوث ہونا ہے جس نے آکر آئندہ نسل انسانی کو اپنے کمال کے نمونے دکھانے ہیں وہ ہماری نسل میں سے ہو۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ اس سور ۃ بقرہ میں جس میں اس آیت کا بیان ہوا ہے جو حضرت ابراہیم کی دعا تھی، اسی میں آگے جا کے فرماتا ہے کہ ابراہیم نے دعا کی تھی اس رسول کیلئے جو عظیم رسول اور عظیم شریعت لانے والا رسول ہے، مَیں نے وہ دعا قبول کر لی اور تم میں وہ رسول بھیج دیا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًامِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ(البقرۃ:152)

اور پھر قرآن کریم میں سورۂ جمعہ میں اس بات کا دوبارہ ذکر کیا ہے۔ فرمایا ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْاعَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(الجمعۃ:3)

پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ جیسا کہ ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے رسول بھیجا ہے جو تم پر ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور اس کی حکمت سکھاتا ہے اور تمہیں ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن کا تمہیں پہلے علم نہ تھا۔

اور پھر دوسری آیت میں فرمایا (وہی چیز دوبارہ) کہ وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہیں میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے، انہیں پاک کرتا ہے انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔

لیکن ان دونوں آیات میں اور پہلی آیت میں جو حضرت ابراہیم کی دعا تھی ایک بظاہر معمولی ترتیب کا فرق ہے جو نظر آتا ہے۔ لیکن یہ فرق کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات حکیم ہے اس نے خاص حکمت سے رکھا ہے گویا قرآن کریم کا ہر ہر لفظ اور نہ صرف لفظ بلکہ اس کی ترتیب بھی اپنے اندر حکمت لئے ہوئے ہے۔ قرآن کریم پر اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں کہ اس کی ترتیب نہیں ہے جبکہ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو قرآن کریم کی آیات پر غور کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور جب تک دل پاک نہ ہوں یہ صلاحیت پیدا بھی نہیں ہو سکتی۔ یہ فرق جو حضرت ابراہیم ؑ کی دعا میں ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے پہلی چیز جو مانگی تھی وہ یہ تھی کہ جو تیری آیات تلاوت کرے دوسری بات انہیں تعلیم دے۔ تیسری بات اپنی حکمت دے۔ اور چوتھی بات یہ کہ ان کا تزکیہ کرے۔ تو یہ دعا کی ترتیب ہے جو حضرت ابراہیم نے مانگی۔ اور جب اللہ تعالیٰ اگلی آیتوں میں قبولیت دعا کی بات کرتا ہے تو فرماتا ہے کہ مَیں نے یہ رسول مبعوث کر دیا جو تمہیں یہ باتیں سکھاتا ہے اس ترتیب میں اگلی باتوں میں ایک فرق ہے۔ پہلی بات یہ کہ آیات پڑھ کر سناتا ہے۔ یہ الفاظ ترتیب کے لحاظ سے جو دعا کے الفاظ تھے ان کے مطابق ہیں۔ دوسری بات یہاں یہ لکھی کہ تمہیں پاک کرتا ہے، تمہارا تزکیہ کرتا ہے۔ دعا میں یہ تزکیہ کے الفاظ سب سے آخر میں تھے۔ کتاب سکھانے اور حکمت سکھانے کی ترتیب آگے دونوں وہی ہیں جو پہلی دعا میں تھیں۔ تو بہرحال یہ جو ترتیب میں فرق ہے اس میں بھی ایک حکمت ہے جو بعد میں انشاء اللہ بیان کروں گا۔

اس وقت پہلے میں اس بات کو لیتا ہوں جو حضرت ابراہیم نے دعا کی تھی اور خاص طور چار امور کی جو استدعا اللہ تعالیٰ کے حضور اس عظیم رسول کے لئے کی تھی۔ ان چار باتوں کا مطلب کیا ہے۔ آیات کیا چیز ہیں ؟ کتاب کیا ہے؟ حکمت کیا ہے؟ اور تزکیہ کیا ہے؟

سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا مانگی تھی کہ یَتْلُوْا عََلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ یعنی وہ تیری آیات انہیں پڑھ کر سنائے۔ تو آیات کے مختلف معانی اہل لغت اور تفسیر نے کئے ہیں۔ اس کے معنی نشان کے بھی ہیں۔ اس کے معنی معجزات کے بھی ہیں۔ آیت کے معنی ایسی عبرت کی بات کے بھی ہیں جو دوسروں کے لئے نصیحت کا باعث بنے۔ پھر آیت کے معنی وہ بھی ہیں کہ ہر چیز جس سے دوسری چھپی ہوئی چیز کا پتہ لگے یہ بھی آیت کہلاتی ہے۔ آیت کے معنی ٹکڑوں کے بھی ہیں۔ جیسے قرآن کریم کی آیات ہیں۔ غرض اس کے بہت سے معانی ہیں۔ تو اس کا یہاں مطلب یہ ہو گا کہ وہ تعلیم جو اس پاک نبی پر اترے، اس کو لوگوں کو سنائے اور اس میں جن نشانات اور معجزات کا ذکر ہو وہ بتا کر لوگوں کے ایمانوں کو تازہ کرے اور ایسے دلائل لوگوں کے سامنے پیش کرے جن سے ان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے پیدا ہو۔ اُن لوگوں کا ان دلائل کو سن کر اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا ہو جائے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تفسیر بڑی تفصیل سے بیان فرمائی ہے، اس پر روشنی ڈالی ہے اور بڑے لطیف نکات پیش فرمائے ہیں جن سے میں استفادہ کر کے خلاصۃً پیش کر رہا ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا، ہم نے آیت کے معنی میں دیکھا ہے کہ اس کے معنی ٹکڑے کے بھی ہیں تو یَتْلُوْا عََلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جو تعلیم آنحضرتﷺ پراترے گی وہ ایک وقت میں نہیں اترے گی بلکہ ٹکڑوں میں اترے گی۔ تو اس بار ے میں جو دعا کی گئی تھی کہ یَتْلُوْا عََلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ اور پھر اس کی قبولیت کے تعلق میں خدا تعالیٰ نے بتادیا کہ اس تعلیم کا اترنا پہلے دن سے ہی ٹکڑوں کی صورت میں تھا۔ یہی اللہ تعالیٰ کی اس میں حکمت تھی اور یہ فیصلہ تھا۔ اس لئے یہی دعا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے کروائی اور اس کو قبول فرمایا تاکہ اس کو بھی ایک نشان بنا دے۔ قرآن کریم کے اس طرح ٹکڑوں میں اترنے کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نشان کے طور پر پیش فرمایا ہے جبکہ دشمن اس پہ اعتراض کرتا ہے کہ ٹکڑوں میں کیوں اتری ہے۔ قرآن کریم دشمن کے اس اعتراض کو یوں پیش فرماتا ہے کہ لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً(الفرقان:33) یعنی اس پر سارے کا سارا قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں اترا۔ دشمن کو تو یہ اعتراض نظر آ رہا ہے۔ لیکن مومن کو دعا کی قبولیت کا نشان نظر آ رہا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ 23سال کے عرصہ پر پھیل کر قرآن کریم کا اترنا قرآن کریم کی سچائی کی بھی دلیل ہے اور آ نحضرتﷺ کی سچائی کی بھی دلیل ہے کہ ایسے ایسے سخت حالات آئے، سخت جنگیں ہوئیں یہاں تک کہ خود آنحضرتﷺ کی ذات مبارکہ کو بھی نقصان پہنچا یا پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ ایک یہودیہ نے زہر دینے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فوراً بتا دیا اور آپؐ نے منہ سے لقمہ نکال دیا اور زہر کا اثر نہیں ہوا لیکن بہرحال اس کی تکلیف آپؐ کو آخر تک رہی۔ پھر جنگ اُحد میں آپؐ کو بڑے گہرے زخم آئے۔ جنگوں میں آپؐ کو بڑی تکالیف پہنچیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جب تک قرآن کریم کو مکمل طور پر نازل نہیں کر دیا دین کامل ہونے اور نعمت تمام ہونے کا اعلان نہیں فرما دیاآپؐ کی ذات پر کوئی حملہ جان لیوا ثابت نہ ہو سکا۔ آپؐ کی وفات طبعی طور پر ہوئی۔ پس یہ آیات کا ٹکڑوں میں اترنا بھی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عظیم رسول پر ایک عظیم تعلیم کے اترنے کا بھی نشان ہے اور یہی اس تعلیم کی خوبصورتی بھی ہے۔ اس کے ٹکڑوں میں اترنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت کا انسان ابھی اس قابل نہیں تھا کہ ایک دم میں اس تعلیم کو سمجھ سکتا بلکہ بہت سی باتیں بعض صحابہ ؓ کو بھی سمجھ نہیں آتی تھیں۔ لیکن دوسرے نشانات اور معجزات دیکھ چکے تھے اس لئے ایمان کامل تھا۔ یا ان کی سمجھ اتنی تھی جتنا ان کا علم اس زمانے میں تھا۔ بعض زیادہ پڑھے لکھے نہیں بھی تھے لیکن ان کا ایمان کامل تھا ان نشانات کو دیکھ چکے تھے۔

یا دآیا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان کامل ہونے کے ضمن میں بیان کرتے ہیں کہ غالبًا حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا واقعہ ہے۔ اُن کو کسی نے مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے بارے میں کہا تھا یا ثناء اللہ صاحب کے بارہ میں۔ بہرحال ان دونوں میں سے کسی ایک کے بارے میں کہ کبھی ان کی مجلسوں میں بیٹھ کر ان کے اعتراضات سنے ہیں جو مرزا صاحب پر کرتے ہیں اور جو تقریر کرتے ہیں اور جو وہ دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا مَیں نے سنے تو نہیں لیکن وہ بھی مَیں سن لیتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا میرا ایمان تو اور بھی مضبوط ہو گا ان اعتراضات نے مجھے کیا کرنا ہے۔ مَیں نے تو وہ چہرہ دیکھا ہوا ہے جس نے میرے ایمان کوکامل کیا ہوا ہے۔ تو ان لوگوں کا علم تھا یا نہیں چہرہ دیکھ کے بھی ایمان کامل تھابہرحال بہت ساری باتیں سمجھ نہ آنے کے باوجود ان کا ایمان کامل تھا اور اس زمانے میں علم بھی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تو مستقبل کی پیشگوئیاں قرآن کریم میں بیان فرمائی ہوئی ہیں۔ آج انسانی ذہن کی ترقی او ر سائنسی ترقی نے انسان کو ان آیات کو سمجھنے کی نئی سوچیں بھی عطا فرمائی ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ اپنے ہر تجربہ کی بنا مَیں قرآن کریم کی آیات پر رکھتا ہوں۔ تو بہرحال یہ نشانات تھے جو آنحضرتﷺ کے ذریعہ ہم پرظاہر ہوئے اور اس زمانے میں بھی جب آنحضرتﷺ پر آیات نازل ہوئی تھیں تو آپ کے ماننے والوں کو ان ٹکڑوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے میں آسانی ہوتی تھی۔ ایک یہ بھی مقصد ٹکڑوں میں نازل ہونے کا تھا۔

آیت کے معانی مخفی چیزوں کی علامت بنا کر ظاہر کرنا بھی ہے۔ پس آنحضرتﷺ نے اس تعلیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو جو دنیا دار کو نظر نہیں آتا، ایسے نشانات، معجزات اور علامات بتا کر جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر اتاری، ان آیات کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے وجود سے لوگوں کو روشناس کروایا۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی لوگوں پر ظاہر فرمائی جس کو لوگ بھول چکے تھے۔ ہر مذہب اور قوم ظاہری یا مخفی شرک میں مبتلا تھی اور ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ(الروم:42) یعنی خشکی اور تری میں لوگوں میں کاموں کی وجہ سے فساد پڑا ہوا تھا۔ اور وہ کام کیا تھے ؟یہی کہ خدا کو دنیا بھول بیٹھی تھی۔ بظاہر مذہب کا لبادہ اوڑھنے والے بھی خدا کو بھلا بیٹھے تھے اور ظاہری شرک نے بھی انتہا کی ہوئی تھی۔ آج کل بھی یہی حالات ہیں۔ ان حالات کا بھی ذکر مَیں بعد میں کسی وقت آئندہ خطبوں میں کروں گا۔ تو آپؐ پر جو آیات اتریں ان کے ذریعہ سے ان لوگوں کو جو آپؐ کی پیروی کرنے والے تھے خدا تعالیٰ کی ذات کا ادراک پیدا ہوا۔ ان کو اس ہستی پر یقین کامل ہوا کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا کوئی خدا ہے۔ ہر چیز کی پیدائش کے پیچھے کسی ہستی کا ہاتھ ہے جو خدا کی ذات ہے۔ تو آپ نے یہ ادراک پیدا فرمایا کہ اس کو پہچانو اور اس کو پہچاننے کی یہ علامات ہیں۔ حضرت ابراہیم کو یقینا اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھا دیا ہو گا۔ تبھی انہوں نے یہ دعا کی تھی کہ جب وہ وقت آئے تو جس طرح مَیں نے شرک کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے اور تیری توحید کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے اے خدا ! جب وہ زمانہ آئے جو میرے وقت سے بھی زیادہ خطرناک اور توحید کو بھلانے والا زمانہ ہے اور اُس وقت دنیا پر تُو اپنی ہستی اور اپنے وجود سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے رسول بھیجے تو اے خدا ! وہ رسول میری نسل میں سے ہو۔ وہ دنیا کو وہ علامتیں بتائے جن کے ذریعہ تیری پہچان دنیا کو ہو۔ ایسے دلائل بتائے جن کو مان کر دنیا تیری تلاش کرے اور توان کو نظر آ جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے وہی دیکھ سکتے ہیں جو مجھے تلاش کرتے ہیں جیسا کہ فرمایا وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70) اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ان کو ضرور اپنے راستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے۔ پس ملنے کے راستے دکھانے والے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی علامتیں بتانے والے یہی عظیم رسول ہیں جن کا نام محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ والصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف فرما یا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دروازوں کے کھلنے کے لئے مجاہدہ کی ضرورت ہے اور وہ مجاہدہ اسی طریق پر ہو جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے۔ اس کے لئے آنحضرتﷺ کا نمونہ اور اُسوہ حسنہ ہے۔ بہت سے لوگ آنحضرتﷺ کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر سبز پوش یا گیروے پوش فقیروں کی خدمت میں جاتے ہیں کہ پھونک مار کر کچھ بنا دیں۔ یہ بیہودہ بات ہے۔ ایسے لوگ جو شرعی امور کی پابندیاں نہیں کرتے اور ایسے بیہودہ دعوے کرتے ہیں وہ خطرناک گناہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بھی اپنے مراتب کو بڑھانا چاہتے ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 240جدید ایڈیشن)

پس نشان دکھانا اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے سپرد فرمایا ہے۔ آپؐ نے ہمیں ان آیات کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر اتاریں یہ بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے لئے اس کی راہ میں کوشش اور جہاد ضروری ہے۔ پس یہ نشانی بتا دی۔ اب کوشش کرنا تمہارا کام ہے۔ علامات بتا دیں، دلائل دے دئیے کہ خدا ہے اور ہونا چاہئے۔ دنیا کو پیدا کرنے والا ہے، زمین و آسمان کو پید اکرنے والا ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لئے تمہاری کوشش ضروری ہے۔

پس اللہ تعالیٰ پیروں فقیروں کے ذریعہ سے نہیں ملتا۔ اللہ تعالیٰ تو آنحضرتﷺ کے بتائے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے آپ ؐ کو بتائے ہوئے جو طریق ہیں ان پر عمل کرنے اور چلنے سے ملتا ہے۔ اور پھر اگر خدا تعالیٰ کی علامتوں کا پتہ کرنا ہے تو پھر معجزات ہیں جو آنحضرتﷺ نے دکھائے۔ وہ معجزے بھی، اعجازی نشان بھی سب سے زیادہ آنحضرتﷺ نے ہی دکھائے ہیں۔ پیروں فقیروں کے اعجازی نشان زیادہ نہیں ہو سکتے۔ ا ُن اعجازی نشانوں کو چھوڑ کر جو آنحضرتﷺ نے دکھائے یہ جو نام نہاد فقیروں کے معجزات ہیں، پیروں فقیروں کے معجزات کے نام پر جو دھوکے ہیں ان کو خدا سے ملنے کا ذریعہ نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ خود اپنے نفس پر بھی ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ آنحضرتﷺ کے نشانات کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس اللہ اس تک خود پہنچتا ہے جو ان علامات کے مطابق جو آنحضرتﷺ نے بتائیں اسے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اُس طریق کے مطابق تلاش کرتا ہے جو آنحضرتﷺ نے اپنی آیات میں بیان کئے ہیں۔ پس اس کے مطابق ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو تلاش کریں۔ پھر مفردات جو لغت کی ایک کتاب ہے اس میں وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا(بنی اسرائیل:60) یعنی ہم تو صرف خوف دلانے کے لئے آیات بھیجتے ہیں، سے مراد انہوں نے آیت کے ایک معنے عذاب بھی کئے ہیں جو مختلف شکلوں میں آتا ہے اور پہلے انبیاء کے وقت بھی آتا رہا ہے۔ ان سب کا اللہ تعالیٰ نے آیات کے رنگ میں ذکر کیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس حوالے سے آیت کے یہ معنی لئے ہیں اور یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ یَتْلُوْا عََلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ سے یہ استنباط بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے خلاف عذاب کی خبریں دے گا۔ (تفسیر کبیر جلد 2صفحہ191زیر آیت ربنا وابعث فیھم رسولا منہم…) اور آپﷺ کا زمانہ کیونکہ قیامت تک منتج ہے اس لئے قرآن کریم میں جو پرانے انبیاء کے واقعات بیان کئے گئے ہیں یہ تنبیہ ہے تمام دنیا کو بھی اور آپؐ کے ماننے والوں کو بھی کہ ان واقعات سے عبرت حاصل کرو۔ پس آج بھی ان آیات کی جو آپ نے بیان کیں، جو آپ پڑھا کرتے تھے، جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر اتاریں اسی طرح یہ وضاحت پوری ہو رہی ہے کہ عذاب انہیں پر آتے ہیں یا آنے ہیں جو خدا کی خدائی پر ہاتھ ڈالنے والے ہیں، یا ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظلم وستم میں حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ صرف نبی کو نہ ماننا عذاب کا باعث نہیں بنتا۔ گو کہ یہ بھی بڑی بدقسمتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس پر اتنا ناراض نہیں ہوتا۔ لیکن جب انتہا سے زیادہ فتنہ و فساد اور ظلم بڑھ جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان جو سب سے پہلے قرآن کریم کے مخاطب ہیں وہ بھی اس کو بھول رہے ہیں اور اپنی حدو ں سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ اور ان آیات سے سبق نہیں لیتے جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے اور تمام دنیا کو بھی اور ہمیں بھی ان آیات کا صحیح فہم و ادراک عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کے رسول نے ہمیں عطا کیا ہے تاکہ ہم صحیح طور پر اس کی ذات کا فہم وادراک حاصل کرنے والے ہوں اور اس کے آگے جھکنے والے ہوں۔ باقی جو خصوصیات ہیں وہ مَیں انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 11 تا 17 جنوری 2008 ء ص5تا7)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 21؍ دسمبر 2007ء شہ سرخیاں

     یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیَاتِکَ کے ضمن میں لفظ آیۃ کے مختلف معانی، تشریح اور اس دعا کی قبولیت کا روح پرور بیان۔

    فرمودہ مورخہ 21؍دسمبر 2007ء بمطابق 21؍فتح 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور