خوبصورت اسلامی تعلیم، صفائی، نظافت، حسد، ادائیگی قرض

خطبہ جمعہ 25؍ جنوری 2008ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(البقرۃ:130)

آج اس آیت میں بیان کردہ ابراہیمی دعا کے چوتھے پہلو یا اس عظیم رسول کی چوتھی خصوصیت کا ذکر کروں گا جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کے نزدیک آئندہ تاقیامت رہنے والے زمانے کے لئے آنے والے اس خاتم النبییّن میں ہونی چاہئے اور وہ دعا یہ تھی’’ وَیُزَکِّیْھِمْ‘‘ اور وہ ان کا جو اس کے ماننے والے ہوں تزکیہ کر دے۔

اب اگر دیکھا جائے تو ہر نبی جو خداتعالیٰ دنیامیں بھیجتا رہا ہے، اس کا کام ایسی تعلیم دینا ہی ہوتا ہے۔ ایسے عمل بجا لانے کی تلقین کرنا ہی ہوتا ہے جو خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور جن سے ماننے والوں کا تزکیہ بھی ہو۔ تو یہاں یہ کون سا خاص تزکیہ ہے؟

جیسا کہ میں پہلے خطبات میں بتا چکا ہوں کہ اس عظیم رسول پر اترنے والی آیات بھی خاص مقام کی حامل تھیں۔ آپ پر اترنے والی آیات ایسی محکم تھیں جن کا کبھی پہلے کسی شریعت میں ذکر نہیں ہوا۔ آپؐ پر اترنے والی شریعت ایسی کتابی شکل میں موجود ہے اور آج تک موجود ہے جیسی پہلے دن تھی اور یہ تعلیم جو آنحضرتﷺ پر اتری، ایسی پُر حکمت ہے جس کے ہر حکم کی دلیل بیان کی گئی ہے، اس کی حکمت بیان کی گئی ہے۔ جو ہمیں کسی دوسری شرعی کتاب میں نظر نہیں آتی۔

پس اس دعا میں تزکیہ کرنے کے معیار بھی وہی مانگے گئے ہیں، یا مانگے گئے تھے جو اس دعا کے پہلے تین حصوں کے لئے مانگے گئے تھے۔ یعنی ایسی پر حکمت تعلیم جو اتاری گئی ہے جس کا ہر ہر لفظ ایک آیت اور نشان ہے اس کے ذریعہ سے جب تزکیہ ہو تو وہ بھی ایسے اعلیٰ معیار کا ہو جس کا کوئی پہلی تعلیم مقابلہ نہ کر سکے۔ کیونکہ اس تعلیم کے ذریعے تزکیہ کا سامان تاقیامت رہنا ہے۔ تاقیامت اس کے ذریعہ سے تزکیہ ہوتے رہنا ہے اس لئے ہر زمانے کی برائیوں سے پاک کرنے کا سامان اس تعلیم میں موجو دہو۔ اور اللہ تعالیٰ نے دعا کے اس حصے کو بھی قبول فرمایا اور قبولیت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا وَیُزَکِّیْھِمْ کہ وہ نبی جو مبعوث ہوا وہ تمہیں پاک کرتا ہے۔ جب ایسی عظیم آیات سے بھری ہوئی پر حکمت تعلیم مل گئی جس نے نہ سابقہ، نہ آئندہ۔ تاقیامت آنے والے کسی معاملے کو بھی نہیں چھوڑا تو تزکیہ والا حصہ کس طرح خالی رہ سکتا تھا۔ پس آنحضرتﷺ اب تاقیامت پیدا ہونے والے ہر شخص کے لئے مزکّی ہیں اور اب کوئی شخص حقیقی تزکیہ حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ آپؐ کے دامن کو پکڑتے ہوئے آپؐ کی لائی ہوئی تعلیم پر ایمان نہیں لاتا۔

تزکیہ سے متعلق چندباتیں بیان کرنے سے پہلے اس کے لغوی معنی بتا دیتا ہوں تاکہ اس کی وسعت کا اندازہ ہوسکے۔ زَکّٰی کے ایک معنی ہیں بڑھایا اور نشوونما کی۔ دوسرے معنی ہیں :تطہیر کرنے یا پاک کرنے کے۔ اور پھر یہ بات جو میں نے پہلے بیان کی تھی کہ بڑھانا یا نشوونما پانا۔ یہ بھی دو طرح کا ہے۔ ایک ذات میں بڑھنا اور بڑا ہونا۔ دوسرے سامان اور تعداد میں بڑھنا۔ اور پھر تطہیر بھی دوطرح کی ہے۔ ایک ظاہری پاکیزگی اور طہارت ہے۔ اور دوسرے اندرونی پاکیزگی اور طہارت ہے۔

پس اس لحاظ سے اس لفظ کی حضرت مصلح موعود ؓ نے جو جامع تعریف کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ انہیں پاک کرے گا۔ نہ صرف دماغوں کو پاک کرے گا بلکہ حکمت سکھا کر دلوں کو بھی پاک کرے گا اور پھر اس تطہیر کی وجہ سے دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے بھرجائیں گے یہاں تک کہ وہ ماننے والے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی صفات میں جذب کر لیں گے۔ عام انسان تو نظر آئیں گے لیکن اس طرح کے عام انسان نہیں ہوں گے بلکہ خدا نمائی کا آئینہ دکھائی دیں گے۔ یعنی ہر دیکھنے والا ان سے فیض پانے والا ہو گا۔ ان کے اندر سے خدائی صفات ظاہر ہو رہی ہوں گی۔ ان کو دیکھ کر دیکھنے والے یہ سمجھ جائیں گے کہ یہ اللہ والے لوگ ہیں اور ان سے ملنے والے بھی پاک اور اللہ کے خالص بندے ہیں۔ پس یہ بات ہمارا بھی مدعا اور مقصود ہونی چاہئے اور اس کے لئے ہماری کوشش بھی جاری رہنی چاہئے تبھی ہم اس مُزکّی حقیقی کی لائی ہوئی تعلیم سے حقیقی رنگ میں فیضیاب ہو سکتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کی زندگی میں تزکیہ اور تطہیر کا یہ رنگ جو ہمیں آپؐ کی تعلیم اور قوت قدسی کی وجہ سے صحابہ ؓ میں چڑھا ہوا نظر آتا ہے وہ بھی ایک خاص نشان ہے اور اس زمانے کے عرب معاشرے میں یہ عظیم انقلاب اس عظیم نبی کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا اور انسان سے بااخلاق انسان بنایا یعنی سچے اور واقعی اخلاق کے مرکز اعتدال پر قائم کیا اور پھر بااخلاق انسان سے باخدا ہونے کے الٰہی رنگ سے رنگین کیا‘‘۔ (تبلیغِ رسالت جلد نمبر 6صفحہ9)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ : ’’واضح ہو کہ قرآن کریم اس محاورے سے بھرا پڑا ہے کہ دنیا مرچکی تھی اور خداتعالیٰ نے اپنے اس نبی خاتم الانبیاءﷺ کو بھیج کر نئے سرے سے دنیا کو زندہ کیا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِعْلَمُوْااَنَّ اللّٰہَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَمَوْتِھَا (الحدید:18) یعنی یہ بات سن رکھو کہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد خداتعالیٰ زندہ کرتا ہے۔ پھر اس کے مطابق آنحضرتﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں فرماتا ہے وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ(المجادلہ 23:) یعنی ان کو روح القدس کے ساتھ مددد ی۔ اور روح القدس کی مدد یہ ہے کہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور روحانی موت سے نجات بخشتا ہے اور پاکیزہ قوتیں اور پاکیزہ حواس اور پاک علم عطا فرماتا ہے اور علوم یقینیہ اور براہین قطعیہ سے خداتعالیٰ کے مقام قرب تک پہنچا دیتا ہے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد نمبر 5صفحہ نمبر 194تا 195)

پس یہ ہے اس مزکی کی قوت قدسی اور تعلیم کا اثر کہ وہی لوگ جو وحشی تھے جن کے دل کینوں اور بغضوں سے بھرے ہوئے تھے جو شراب، نشہ، جؤا، زنا جیسی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ جو اپنے باپوں کی بیویوں کو بھی ورثے میں بانٹا کرتے تھے، جو ذرا ذرا سی بات پر بھڑک جاتے تھے اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو جاتا تھا اور پھر یہ سلسلہ سالوں تک چلتا تھا۔ لیکن جب اسلام کی آغوش میں آئے تو یہی قربانیاں لینے والے لوگ قربانیاں دینے والے بن گئے۔ وہی جو کینوں اور بغضوں سے بھرے ہوئے تھے عفو و درگزر سے کام لینے والے بن گئے۔ وہی جو شراب کے نشے میں دھت رہنے والے تھے اور پانی کی طرح شراب پینے والے تھے شراب کی ممانعت کا اعلان سنتے ہی شراب کے ہونٹوں سے لگے ہوئے پیالوں کو پھینکنے والے بن گئے۔ وہی جن کے مٹکوں میں پانی کی بجائے شراب ہوتی تھی ایک آواز پر مٹکوں کو توڑنے والے بن گئے اور مدینہ کی گلیوں میں شراب پانی کی طرح بہنے لگ گئی۔ وہی جن کے دن اور رات برائیوں اور گناہوں سے بھرے ہوئے تھے خدمت دین اور عبادت سے اپنے دن اور رات سجانے لگے۔ وہی جو مجلسوں کے رسیا تھے گوشہ خلوت میں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑانے والے بن گئے۔

پس یہ انقلاب ان میں اس لئے آیا کہ انہوں نے اس مُزَکّی کی قوت قدسی اور پاک تعلیم سے فیض پایا۔ ایک جذبے اور اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں پاک قوتیں عطا فرمائیں جن سے ان کی سوچوں کے دھارے بدل گئے۔ وہی جو اس برائی کو برائی نہ سمجھتے تھے نیکی کے اعلیٰ معیاروں کے حصول میں سرگرداں ہو گئے۔ وہی جو جہالت کے اندھیرے گڑھوں میں پڑے ہوئے تھے علم و فضل کے خزانے بن گئے۔ آنحضرتﷺ کی مجلسوں کی صحبت سے نہ صرف ان کے اپنے دل پاک ہوئے بلکہ وہ پاک علم پھیلانے والے بن گئے۔ خداتعالیٰ کی ذات پر ان کا یقین کامل ہوا اور روشن نشانوں سے انہوں نے اپنے رب کو پہچانا۔ 360 بتوں کی بجائے خداتعالیٰ جو واحد و یگانہ ہے اس کی ذات پر ایمان ہر روز بڑھتا چلا گیا۔ ہر روز انہوں نے خدا کی ذات کو نئی شان سے دیکھا اور جانا۔ اور پھر جب ایسے پاک دل ہوئے تواللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہ یعنی اپنے کلام سے، روح القدس سے ان کی مدد کی۔

پس یہ انقلاب تھا جو یہ عظیم رسول اس زمانے کے جاہل عربوں میں لایا۔ ایسا تزکیہ کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس عظیم رسول کا زمانہ تاقیامت ہے اس لئے اس تعلیم سے بھی ہمیشہ ان لوگوں کا تزکیہ ہوتا رہے گا جو حقیقی رنگ میں اس سے فیض پانے والے ہوں گے۔ اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں گے۔

جیسا کہ ہم نے لغوی معنوں میں دیکھا ہے کہ’’ یُزَکِّیْھِمْ ‘‘کے معنی یہ بنیں گے کہ ان کی تعداد بڑھائے گا۔ یعنی اس کلام کی غیر معمولی تاثیر کی وجہ سے جو اس پر اترا لوگ اسے قبول کرتے چلے جائیں گے اور ایک وقت آئے گا جب اس عظیم رسول کا دین یعنی اسلام تمام دینوں پر غالب ہو گا۔ یہ انقلاب جو لوگوں کی طبائع میں آپؐ نے پیدا کیا۔ لوگوں کی سوچیں اور ذہنیتیں بدلیں۔ ان کے دماغوں اور دلوں کو یکسر بدل ڈالا۔ یہ ایک دن میں تو نہیں آیا تھا۔ پہلے دن تو تمام عرب نے پاکیزگی اختیار نہیں کر لی تھی۔ آہستہ آہستہ اس تعلیم سے انقلاب آنے لگا جس جس طرح لوگ عقل سے کام لیتے چلے گئے۔ بعض ایسے لوگ ہیں جن کا تزکیہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ان کا تزکیہ نہیں ہو سکتا یہ تو عذاب کے مورد بننے والے لوگ ہیں۔ مکہ میں مخالفت بڑھی تو مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے راستے کھول دئیے اور آہستہ آہستہ تمام عرب حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔

پس جب اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ابراہیمی دعا کو سنتے ہوئے اس عظیم رسول کے ذریعہ سے پشتوں کے بگڑے ہوؤں کو سیدھا کر دیا۔ وہی ہندہ جو میدان جنگ میں شہید ہونے والے آنحضرتﷺ کے چچا کا کلیجہ چبانے والی تھی جب اسلام قبول کرکے پاک دل ہوئی تو عبادت گزار بن گئی۔

پس جب ہم یہ نظارے دیکھتے ہیں، ان واقعات کو سنتے ہیں تو دل اس یقین سے بھر جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ آج بھی ہم پورا ہوتا ہوا دیکھیں گے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح و مہدی کو بھیج کر آنحضرتﷺ کے مشن کی تکمیل کا اعلان فرمایا ہے۔ پس اگر کہیں عارضی روکیں جماعت کی راہ میں حائل ہوتی ہیں تو یہ کسی بھی قسم کی مایوسی پیدا کرنے والی نہیں ہونی چاہئیں۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب تک اس مزکّی کی لائی ہوئی تعلیم سے چمٹے رہیں گے یا وہ لوگ چمٹے رہے، سابقہ تاریخ یہی کہتی ہے کہ جب تک وہ لوگ چمٹے رہے، حقیقی طور پراس پر عمل پیرا رہے تو لوگوں کے دل جیتتے ہوئے انہیں اسلام کی آغوش میں لاتے چلے گئے۔ ان کے تزکیہ کے سامان ہوتے چلے گئے۔ اور آج مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی ہم نے یہی نظارے دیکھے ہیں۔ ہمارا کام اپنے تزکیہ کے لئے اس تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہے اور پھر چاہے دنیا جتنا زور لگا لے اس الٰہی وعدے کو نہیں ٹال سکتی کہ اس دین نے غالب آنا ہے۔ پاکستان میں احمدیوں کے خلاف قانون پاس ہونے سے کیا جماعت کی ترقی رک گئی؟ ہر احمدی جانتا ہے کہ رکنے کا تو سوال ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اس تیزی کے ساتھ چھلانگیں مارتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پس جن جن ملکوں میں جماعت کی مخالفت آج ہو رہی ہے انہیں بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ، ایک راستہ بند ہو گا تو ہزاروں راستے اللہ تعالیٰ کھول دے گا۔

انڈو نیشیا میں آجکل مُلّانوں کے دباؤ کی وجہ سے حکومت جماعت پر بعض سختیاں کر رہی ہے جن میں یہ بھی ہے کہ بعض ایسی باتیں منوانے کی کوشش کر رہے ہیں جوہمارا نکتہ نظر ہی نہیں ہیں۔ تو میں انڈونیشین احمدیوں سے بھی کہتا ہوں کہ اگر حکومت اپنی بزدلی کے نتیجے میں یا اس وجہ سے جماعت پر پابندی لگاتی ہے، ملانوں کے ڈر سے جماعت پر پابندی لگاتی ہے تو لگا لے۔ اچھا ہے پاک لوگوں کی جماعت مزید نکھر کر دنیا کے سامنے آ جائے گی۔ یہ تسلی رکھیں کہ اس سے انشاء اللہ جماعت کا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ آج تک کی جماعت کی جو تاریخ ہے اس بات کی گواہ ہے کہ ہر راستے کی روک نے اونچا اڑانے کے لئے ایندھن کا کام کیا ہے۔ پس ہم علی وجہ البصیرت اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہی مسیح و مہدی ہیں جن کے آنے کی آنحضرتﷺ نے خبر دی تھی تاکہ اس اندھیرے زمانے میں دلوں کو پاک کرکے روشنی بخشیں اور خدا سے ملائیں۔ پس آپؑ کا مقام مسیح ومہدی ہونے کی حیثیت سے، آنحضرتﷺ کی غلامی میں آنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غیر شرعی نبی ہونے کا دیا ہے اور اس لحاظ سے آپؑ نبی ہیں اور آج دلوں کی پاکیزگی آنحضرتﷺ کے اس غلام صادق سے وابستہ ہو کر ہی ہونی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہی ایک جماعت ہے جس نے نفوس میں بھی اور اموال میں بھی بڑھنا ہے اور بڑھ رہی ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس بڑھنے کو نہیں روک سکتی۔ کیونکہ یہ مزکّی حقیقی کے عاشق صادق کی جماعت ہے۔ پس جہاں جہاں بھی مخالفتیں ہو رہی ہیں انہیں میں کہتا ہوں اپنے حوصلے بلند رکھیں اور کسی بھی مخالفت سے گھبرانے کی بجائے اپنے دلوں کو پاک کرنے کے سامان پیدا کرتے چلے جائیں۔ مزید بڑھ کر اس مزکّی کی تعلیم سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔ جتنے دل پاک ہوتے جائیں گے روح القدس کی تائید شامل ہوتی جائے گی، انشاء اللہ اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ہماری تعداد بڑھتی چلی جائے گی۔ پس ایک مومن کا فرض ہے کہ یُزَکِّیْ کے معنوں پر غور کرتے ہوئے عمل کرنے کی کوشش کرے جس سے ہم انشاء اللہ تعالیٰ دینی اور دنیاوی دونوں طور پرترقی کرتے چلے جائیں گے۔

اس بارے میں ہمیں قرآن کریم نے کیا احکامات دئیے ہیں اور آنحضرتﷺ نے کیا نصائح فرمائی ہیں ان کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور یہ تبھی ہو گا جب ہم قرآن کریم پر غور کرنے والے اور روزانہ تلاوت کرنے والے ہوں گے۔ دلوں کی پاکیزگی کے چند ایک احکامات مَیں پیش کرتا ہوں۔ پہلی بات جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ کسی قوم کے امراء میں ان کی دولت کی وجہ سے بڑائی پیدا ہو جاتی ہے اور دولت بڑھنے کے ساتھ ساتھ لالچ بڑھتا ہے۔ اپنے ذاتی خزانے بھرنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہوتی ہے۔ بعض اوقات دوسروں کا حق مار کر بھی اپنے خزانے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر غریبوں کا حق مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض تو میں نے دیکھا ہے کہ بہانوں کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح ملازمین کے پیسے کاٹتے رہیں۔ اسلام نے ان باتوں کوناپسند فرمایا ہے بلکہ یہ چیزیں ظلم ہیں اور ظلم بہت بڑا گناہ ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیاں بن کر سامنے آئے گا۔ حرص، بخل اور کینہ سے بچو کیونکہ حرص، بخل اور کینہ نے پہلوں کو ہلاک کیا، اس نے ان کو خون ریزی پرآمادہ کیا اور ان سے قابل احترام چیزوں کی بے حرمتی کروائی۔ (صحیح مسلم۔ کتاب البر و الصلۃوالاداب۔ باب تحریم الظلم حدیث 6472)

پھر ایک حدیث ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ ہم نے عرض کیا جس کے پاس نہ روپیہ ہو نہ سامان۔ حضورؐ نے فرمایا میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ وغیرہ عبادات ایسے اعمال لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی اور کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا ناحق خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا ہو گا۔ پس ان مظلوموں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی۔ اس شخص کی ساری عبادتیں ان مظلوموں کی طرف چلی جائیں گی۔ یہاں تک کہ ان کے حقوق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ اس کے ذمے ڈال دئیے جائیں گے اور اس طرح جنت کی بجائے اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ یہی شخص دراصل مفلس ہے۔ (صحیح مسلم۔ کتاب البر و الصلۃوالاداب۔ باب تحریم الظلم حدیث 6474)

پس ایسے لوگ جو عبادات تو کرتے ہیں بعض دفعہ جماعتی طور پر چندے بھی بڑھ بڑھ کر دے رہے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے حق مارنے والے ہیں، ایسے لوگ ظالم ہیں جن کا بیان اس حدیث میں ہوا ہے اور اس ظلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تو مفلس ہونے کی حالت میں حاضر ہوں گے۔ پاکیزگی صرف ظاہری عبادتوں سے نہیں ہے بلکہ دلوں کی حالت پاکیزہ بنانے سے ہے اور دلوں کی پاکیزگی عبادتوں کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق ادا کرنے سے ہوتی ہے۔ پس امراء کا غریبوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے ان کے لئے مالی قربانیاں دینا، انہیں پاک کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا(التوبۃ:103) یعنی اے رسول ان کے مالوں سے صدقہ لے تاکہ انہیں پاک کرے اور ان کی ترقی کے سامان کرے۔ ان کا تزکیہ کرے۔ یعنی یہ صدقہ مومنوں کے مال میں بھی برکت کا موجب ہو گا اور ان کے نفوس میں بھی برکت کا موجب ہو گا۔ بشرطیکہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے دیا جائے .اور یہ مال جو امیروں سے لیا جائے گا پھر قوم کے کمزور طبقے پر خرچ ہو گا جو پھر ان کمزور لوگوں کے مال میں اضافے کا بھی باعث بن سکتا ہے اور ان غریبوں میں سے کئی حالات اچھے ہونے کی وجہ سے پھر اس قابل ہو جائیں گے کہ جو پھر خود اپنے مال کو صاف کرنے کے لئے صدقہ کرنے والے ہوں گے، زکوٰۃ دینے والے ہوں گے، چندوں میں بڑھنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ خوبصورت تعلیم ہے جو اس پاک نبیﷺ کے ذریعہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے اتاری، جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور جس سے تزکیہ کا صحیح مفہوم سمجھ آتا ہے اور پھر صرف صدقہ اور چندے کا حکم ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ کن کن جگہوں پر وہ خرچ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (التوبۃ:60)کہ صدقات تو محض محتاجوں اور مسکینوں اور ان صدقات کا انتظام کرنے والوں اور جن کی تالیف قلب کی جا رہی ہے اور گردنوں کو آزاد کرانے اور چٹّی میں مبتلا لوگوں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں عمومی خرچ کرنے اور مسافروں کے لئے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ دائمی علم رکھنے والا، بہت حکمت والا ہے۔

حقوق ادا کرنے کے لئے اسلامی نظام حکومت کی اب یہ ایک ذمہ داری بتائی گئی ہے۔ پہلے تو یہ بتایا کہ فقراء پر خرچ کرو یعنی جو بہت زیادہ غربت زدہ ہیں، بیمار ہیں، علاج معالجے کی سہولت مہیا نہیں کر سکتے۔ پھر مساکین ہیں جو کام کی خواہش رکھتے ہوئے بھی سرمائے کی کمی کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے۔ ان کی اگر مالی مدد کی جائے تو بہت سی برائیوں سے بچ جائیں گے اور پاک معاشرے کا حصہ بن جائیں گے۔

پھر یہ زکوٰۃ، صدقات کا روپیہ ان پر خرچ کرنے کی اجازت ہے جو حکومتی کارندے یا مال جمع کرنے کے لئے متعین کئے گئے ہیں یا کوئی اور حکومتی کام کر رہے ہیں۔ پھر تالیف قلب ہے اس کے لئے خرچ کیا جائے۔ پہلے زمانے میں یہ خرچ ان لوگوں پر بھی ہوتا تھا جو اسلام قبول کرنا چاہتے تھے لیکن بعض پابندیوں کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کر سکتے تھے۔ معاشرے کی پابندیوں میں جکڑے ہوتے تھے۔ یا پھر بعض نئے مسلمان ہونے والے جن کو اپنے معاشرے سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے مالی تکلیفوں کا سامنا تھا تو ان کے لئے یہ رقم خرچ کی جا سکتی تھی اور کی جاتی تھی لیکن اس کامطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اسلام جو ہے وہ رقم دے کر یا پیسے دے کر مسلمان بنواتا ہے بلکہ جو مجبورہیں خود اس بات کا مطالبہ کریں کہ ہماری بعض مجبوریاں ہیں۔ ہمارے بعض مالی بندھن ہیں اگر ہمیں اس سے آزاد کر دیاجائے تو ہم اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں یا بعض پابندیاں ہیں ان سے آزاد ہونا چاہتے ہیں تو ان کے لئے خرچ کرنے کی اجازت ہے۔ آجکل تبلیغ کے ذرائع ان لوگوں کو مہیا کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ تالیف قلب میں یہ ساری چیزیں آ جاتی ہیں۔ پھر غلاموں کی آزادی ہے۔ اُس زمانے میں تو غلام رکھنے کا رواج تھا، آج تو یہ نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بعض امراء نے بعض جاگیرداروں نے غریبوں کو قرض دے کر اپنا غلام بنایا ہوتا ہے اور نہ وہ قرض اترتا ہے اور نہ ہی یہ نوکری کی صورت میں غلامی ختم ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی اس کا بہت رواج ہے۔ خاص طور پر بھٹے والوں میں یا زمینداروں میں۔ بعض جگہ پر تو اب اس کے خلاف کچھ آوازیں اٹھنی شروع ہوئی ہیں۔ لیکن یہ حکومت کا کام ہے کہ ان کو آزاد کرائے۔ جو مالک ہیں ان کو بھی محروم نہ کرے۔ جو مزدور ہے اس کو بھی محروم نہ کرے تاکہ کسی بھی قسم کا ایسارد عمل نہ ہو جو بجائے پاکیزگی پیدا کرنے کے فساد کا موجب بن رہا ہو۔

پھر جن کو کاروبار میں نقصان ہوئے ہوں ان پر خرچ ہو سکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں عمومی خرچ پر یہ رقم خرچ ہو سکتی ہے یعنی ہر اچھے اور نیک کام پر جس کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس پر یہ رقم خرچ ہو سکتی ہے۔

پھر مسافروں کے لئے ایسے مسافر جو بعض دفعہ رقم کی کمی کی وجہ سے راستوں میں پھنس گئے ہوتے ہیں یا پھر ایسے لوگ جو علم کی تلاش میں نکلنے والے ہیں ان کو اگر خرچ کی کمی ہو تو ان کے لئے یہ رقم خرچ ہو سکتی ہے۔

تو یہ جوسارے احکامات ہیں، یہ معاشرے کو پاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پراتری ہوئی کتاب کے ذریعہ سے ہم تک پہنچائے ہیں۔ اگر اسلامی حکومتیں نیک نیتی سے ان باتوں پر عمل شروع کر دیں تو پھر اسلام اور مسلمانوں کا ایک ایسا تصور دنیا کے سامنے ابھرے گا جس کا کوئی نظام مقابلہ نہیں کر سکتا اور ہر قسم کے اعتراضات جو اسلام پر کئے جاتے ہیں خود بخود مٹتے چلے جائیں گے۔ کیونکہ نہ کسی مذہب کی تعلیم اس کے مقابلے پر ہے، نہ کوئی معاشی نظام اس کے مقابلے پر ہے اور اسلام کا معاشی نظام کیونکہ سود کے بغیر ہے اور پاک دل ہو کر حقوق العباد ادا کرنے کے لئے ہے اس لئے غیر ضروری بوجھ بھی کسی پر نہیں پڑتا۔ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے محدود طور پر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن وسائل اتنے محدود ہیں کہ باوجود خواہش کے اس پر عمل نہیں ہو سکتالیکن اگر حقیقی رنگ میں حکومتیں ہیں جو حکومتی نظام چلا رہی ہیں ان کے پاس وسائل بھی ہوتے ہیں وہ یہ بہتر طورپر کر سکتی ہیں۔ پاکستان کے وسائل کو بھی اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو اتنے وسائل ہیں کہ پاکستان میں غربت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

تو قرآن کریم کی تعلیم ایک ایسی خوبصورت تعلیم ہے جو ہر پہلو سے معاشرے کا تزکیہ کرتی ہے اور اسلامی حکومت میں رہنے والے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی تزکیے پر مبنی اس معاشی نظام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پھر تزکیے سے ظاہری صفائی بھی مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ (البقرہ :223) یعنی اللہ تعالیٰ ان سے جوبار بار اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جو ظاہری اور باطنی صفائی کرنے والے ہیں ان سے محبت کرتا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے ہوئے جھکنا، غلطیوں پر نادم ہو کر استغفار کرنا دل کی صفائی کا باعث ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ ظاہری صفائی پسند فرماتا ہے اور نظافت اور صفائی کے بارے میں خاص طور پر ہدایت ہے۔ دانتوں کی صفائی ہے، کپڑوں کی صفائی ہے جسم کی صفائی ہے، ماحول کی صفائی ہے اور عبادت کرنے کے لئے بھی ظاہری صفائی یعنی وضو کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں مسلمانوں میں صفائی کا معیار اتنا نہیں جتنی اس بارے میں نصیحت کی گئی ہے۔ آنحضرتﷺ نے جمعہ والے دن خاص طور پر نہانے اور خوشبو لگانے کا حکم دیا ہے۔ (بخاری کتاب الجمعۃ باب الطیب للجمعۃ حدیث نمبر880)

مسجد میں آتے ہوئے ایسی چیزیں کھانے سے منع کیا ہے جن سے بو آتی ہو۔ (مسلم کتاب المساجد مواضع الصلاۃ باب نھی من اکل ثوماً … حدیث 1141)

پھر ماحول کی صفائی ہے۔ ہم نے، عموماً ہمارے بعض لوگوں نے جوخاص طور پر غریب ممالک ہیں یہ تصور کر لیا ہے، پاکستان بھی ان میں شامل ہے کہ اگر غربت ہو تو گندگی بھی ضروری ہے حالانکہ اپنے ماحول کی صفائی سے غربت یا امارت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اَلطُّہُوْرُ شَطْرُالْاِیْمَانِ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے یہ روایت ہے آپ ؓ بیان کرتے ہیں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اَلطُّہُوْرُ شَطْرُالْاِیْمَانِ کہ طہارت، پاکیزگی اور صاف ستھر ارہنا یہ ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الطھارۃ۔ باب فضل الوضوء حدیث 422)

حضرت عطا بن یسار بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص پراگندہ بال اور بکھری داڑھی والا آیا حضورﷺ نے اسے اشارے سے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ سر کے اور داڑھی کے بال درست کرو اور جب وہ سر کے بال ٹھیک ٹھاک کرکے آیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کیا یہ بھلی شکل بہتر ہے یا یہ کہ انسان کے بال اس طرح بکھرے اور پراگندہ ہوں کہ شیطان اور بھوت لگے۔ (موطأ امام مالک۔ کتاب الشعر۔ باب اصلاح الشعر حدیث 1770)

آجکل ہمارے ہاں بعضوں کو خیال ہے کہ جو اللہ والے ہوتے ہیں ان کے لباس بھی گندے ہونے چاہئیں اور حلیہ بھی بگڑا ہوا ہونا چاہئے اور ان میں سے بو بھی آنی چاہئے تو یہ حدیث اس کی نفی کرتی ہے۔ آجکل یہاں بھی میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ میں سیر سے آتا ہوں، بچے سکول جاتے ہیں، یہاں کے مقامی بچے تو ہیں ہی، ہمارے بعض پاکستانی بچے بھی ہیں اور بعض احمدی بھی کہ بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ لگتا ہے کہ بس سو کے اٹھے ہیں اور اسی طرح اٹھ کر سکول جانا شروع ہو گئے ہیں۔ تو ماں باپ کو چاہئے کہ بچوں کی تربیت بھی ابھی سے اس عمر میں کریں کہ صبح اٹھیں، تیار ہوں، بال سنواریں، منہ ہاتھ دھوئیں اور وقت پہ اٹھیں تاکہ وقت پہ تیار ہو کر سکول جا سکیں اور خود بھی ماں باپ اپنی صفائی کا خیال رکھیں۔ جن گرم ممالک میں پسینہ زیادہ آتا ہے وہاں خاص طور پر جسمانی صفائی کا خیال رکھنا چاہئے۔ پانی اگر میسر ہے، بعض جگہ تو پانی بھی میسر نہیں ہوتا لیکن بہرحال ایک دفعہ ضرور نہانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تو یہ باتیں ہیں جن کے بارے میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ یہ صفائی ہے، یہ ستھرائی ہے، یہ ایمان کا حصہ ہے۔ پھر دل کی صفائی ہے، جس سے تزکیہ ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ صحابہ نے کس طرح اپنا تزکیہ کیا اور برائیوں کا خاتمہ کیا۔

میں یہاں چند ایک برائیوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جس نے باوجود اس کے کہ دلوں میں نیکی موجود ہے لیکن پھر بھی بعض احمدیوں کے دلوں میں بھی یہ برائیاں پیدا کر دی ہیں۔ اور نیکی اور برائی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ اگر برائیاں بڑھتی رہیں یا قائم رہیں تو نیکیوں کو نکال دیتی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے دلوں میں نیکیوں کے قدم مضبوط ہوں اور برائیوں کو باہر نکالیں تاکہ تزکیہ قلب حقیقی رنگ میں ہو۔ ان برائیوں میں سے ایک حسد ہے۔ ایک جھوٹ ہے۔ پھر قرض لینے کی عادت ہے اور قرض نہ واپس کرنے کی عادت ہے۔ تو آجکل کے معاشرے میں ان باتوں نے بہت سے مسائل پیدا کئے ہوئے ہیں، اس لئے ان کا بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ حسد سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی ہے کہ یہ دعا کرو : وَمِنْ شَرِّ حَا سِدٍ اِذَا حَسَدَ (الفلق:6) کہ حاسد کے حسد سے اللہ تعالیٰ بچائے۔ جب ایک مومن خود بچنے کی دعا کرے گا تو پھر ایک پاک دل مومن یہ بھی کوشش کرے گا کہ دوسرے سے حسد کرنے سے بھی بچے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ حسد سے بچوکیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح بھسم کر دیتا ہے جس طرح آگ ایندھن اور گھاس کو بھسم کر دیتی ہے۔ (ابو داؤد کتاب الادب باب فی الحسد حدیث نمبر 4903 و سنن ابن ماجہ ابواب الزھدباب الحسدحدیث نمبر 4210)

نیکیاں جو ہیں وہ حسد سے بالکل ختم ہو جاتی ہیں جل کے راکھ ہو جاتی ہیں۔ پھر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، بے رخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو باہمی تعلقات نہ توڑو، بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو، کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اس سے قطع تعلق کرے۔ (مسند احمد جلد نمبر4 مسند انس بن مالک حدیث نمبر 13084 عالم الکتب بیروت لبنان1998)

یہ چیزیں ہیں جو دلوں میں پاکیزگی پیدا کرتی ہیں۔ دلوں کی پاکیزگی اگر قائم رکھنی ہے۔ اگر اپنی عبادات سے فائدہ حاصل کرنا ہے۔ اس مزکیؐ کی تعلیم سے فائدہ اٹھانا ہے تو حسد سے بچنے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔

اگر ہر شخص اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی کرنے کا عہد کرے تو حسد پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض بظاہر بڑے اچھے نظر آنے والے جو لوگ ہیں ان میں بھی دوسروں کے لئے حسد ہوتا ہے جس کی آگ میں وہ آپ بھی جل رہے ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جتنا وقت ایسے لوگ حسد کرنے اور چالاکیوں کے سوچنے میں لگاتے ہیں کہ دوسروں کو کس طرح نقصان پہنچایا جائے اتنا وقت اگر وہ تعمیری سوچ میں لگائیں، دعاؤں میں لگائیں تو شاید حسد سے بچنے اور مسابقت کی روح کی وجہ سے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان لوگوں سے زیاد ہ آگے بڑھا دے اور جلدی آگے بڑھا دے۔

پھر دوسری بات جھوٹ ہے۔ اس بارے میں بھی میں اکثر کہتا رہتا ہوں۔ ہر قسم کی غلط بیانی سے بچنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق جھوٹ بھی شرک کے قریب کر دیتا ہے۔ پس اس سے بچنا بھی ایک مومن کے لئے، ایک ایسے شخص کے لئے جو اپنا تزکیہ کرنا چاہتا ہو انتہائی ضروری ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تمہیں سچ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے۔ انسان سچ بولتا ہے اور سوچ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیق کہلاتا ہے۔ صدیق لکھا جاتا ہے۔ ہمیں جھوٹ سے بچنا چاہئے کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کا باعث بن جاتا ہے اور فسق و فجور سیدھا آگ کی طرف لے جاتے ہیں۔ ایک شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کا عاد ی ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذّاب یعنی جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الأدب باب قول اللہ یا ایھا الذین امنوا اتقوا اللہ و کونوا … حدیث نمبر 6094)

پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں ؟ ہم نے عرض کیا۔ جی حضور ضرور بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا اللہ کا شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا۔ آپؐ تکیے کا سہارا لئے ہوئے تھے جوش میں آ کر بیٹھ گئے اور بڑے زور سے فرمایا دیکھو تیسرا بڑا گناہ جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے۔ آپؐ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایاکہ ہم نے چاہا کہ کاش آپ خاموش ہو جائیں۔ (صحیح بخاری کتاب الشہادات باب ما قیل فی شھادۃ الزور حدیث نمبر 2654)

پس آنحضرتﷺ کو گوارا نہیں تھا کہ ان کی امت میں سے ہو کر اس مزکّی کی طرف منسوب ہو کر پھرآگ میں پڑنے والا ہو اور اس تصور نے ہی آپؐ کو بے چین کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس لعنت سے ہمیشہ بچنے کی توفیق دے اور اپنے دلوں کا حقیقی تزکیہ کرنے والا بنائے۔

تیسری بات جو آجکل کا مسئلہ بن کر سامنے آ رہی ہے جیسا کہ میں نے کہا وہ قرضوں کی واپسی ہے۔ لوگ ضرورت ہو تو قرض لے لیتے ہیں مگر واپسی پر بہت لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ قرض لینے سے پہلے جس شخص سے قرض مانگا جا رہا ہو۔ اس سے زیادہ نیک اور پر خلوص دل رکھنے والا اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ نیکیوں او ر خوبیوں کا وہ مالک ہوتا ہے۔ لیکن جب اس کی طرف سے واپسی کا مطالبہ ہوتا ہے تو اس سے زیادہ خبیث اور بددماغ اور ظالم شخص کوئی نہیں ہوتا۔ تو مومن کا تویہ شیوہ نہیں ہے۔ پاک دل کی خواہش رکھنے والوں کا تو یہ شیوہ نہیں ہے۔ اس عظیم رسول اور مزکی کی طرف منسوب ہونے والوں کا تو یہ شیوہ نہیں ہے۔ پس ہمیں وہی راستے اختیار کرنے چاہئیں جو اس مزکّی نے اپنے اسوہ کے طور پر ہمارے سامنے پیش فرمائے۔

ایک روایت میں آتاہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ سے قرض اداکرنے کا تقاضاکیااور بڑی گستاخی سے پیش آیا۔ آپ کے صحابہؓ کو بڑا غصہ آیا اور اسے ڈانٹنے لگے۔ حضور نے فرمایاکہ اسے کچھ نہ کہو کیونکہ جس نے لینا ہو وہ کچھ نہ کچھ کہنے کا بھی حق رکھتا ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اسے اس عمر کا جانور دے دو جس عمر کا اس نے وصول کرنا ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ اس وقت تو اس سے بڑی عمر کا جانور موجود ہے۔ آپؐ نے فرمایا: وہی دے دو کیونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنا قرض زیادہ عمدہ اور اچھی صورت میں ادا کرتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الوکالۃباب الوکالۃ فی قضاء الدیون حدیث نمبر 2305)

پس یہ ہے اسوہ جس کے مطابق قرض ادا کرنے والے کو قرض ادا کرنا چاہئے۔ ہاں اگر حالات ایسے ہوں کہ قرض ادا نہ کر سکیں تو پھر احسن رنگ میں مہلت مانگ لینی چاہئے یا پھر کوئی ضمانت دینی چاہئے۔ اور ایک مومن قرض دینے والے کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ مہلت کی یہ بات مان لے اور ضمانت مان لے تاکہ معاشرے سے فتنہ و فساد ختم ہو۔ دونوں طرف کے دلوں کی رنجشیں اور کدورتیں دور ہوں اور پاک دل رہیں اور یہی اخلاق ہیں جو معاشرے میں دلوں کی پاکیزگی کا باعث بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم رسول اور مزکّی کی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم ان لوگوں میں شامل ہوں جن کے بار ے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے قَدْاَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (الاعلیٰ: 15)۔ یعنی وہ کامیاب ہو گیا جو پاک ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں پاک لوگوں میں شمار کرتا رہے۔ آمین

(الفضل انٹرنیشنل جلد 15 نمبر 7۔ مورخہ 15 تا 21 فروری 2008ء صفحہ 5-8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 25؍ جنوری 2008ء شہ سرخیاں

    حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کا چوتھا پہلو جواس عظیم نبیﷺ کی خصوصیت تھی ویُزکیہم

    فرمودہ مورخہ 25؍جنوری 2008ء بمطابق25؍صلح 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن(برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور