آنحضرتﷺ کا پیداکردہ عظیم روحانی انقلاب
خطبہ جمعہ یکم فروری 2008ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عََلَیْْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (البقرۃ:130)
کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًامِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ:152)
یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں پہلی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے جس کا مضمون گزشتہ چند خطبوں سے چل رہا ہے اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ ہم نے تم میں وہ رسول بھیج دیا جو اس دعا کی قبولیت کا نشان ہے کہ وہ رسول حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے مبعوث ہوا جس نے دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا کرنا تھا اور کیا۔ اس دعا میں مانگی گئی چاروں باتوں کا میں گزشتہ خطبوں میں کچھ حد تک بیان کر چکا ہوں۔ یہ مضمون شروع کرتے وقت میں نے چند جمعے پہلے یہ دونوں آیات پڑھی تھیں اور مختصراً ذکر کیا تھا کہ اس دعا کے مانگنے کے الفاظ میں اور خداتعالیٰ کے قبولیت کے اعلان کے الفاظ میں ترتیب کا کچھ فرق ہے۔ اس میں ایک حکمت ہے اور حکیم خدا کا کوئی کام بھی بغیر حکمت کے نہیں ہوتا، یونہی نہیں کہ الفاظ آگے پیچھے ہو گئے اور بلاوجہ ہو گئے۔ ان الفاظ کا یعنی اس عظیم رسول کی ان چار خصوصیات کا جو اس اعلیٰ معیار کی تھیں کہ جن کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اور جوصرف اور صرف آنحضرتﷺ کی ذات کا ہی خاصہ تھیں۔ (جیسا کہ میں نے اس مضمون کی ابتدا میں کہا تھا کہ اس فرق کو بھی میں بعد میں کچھ بیان کروں گا کہ کیوں یہ فرق ہے؟ تو اس وقت میں وہی کچھ بیان کرنے لگا ہوں۔ )
قرآن کریم میں دو اور جگہ(دوسری جگہ پر)بھی یہ بیان ہوا ہے، ایک سورۃ آل عمران میں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (سورۃ آل عمران :165) یعنی اللہ نے مومنوں پر احسان کیا جب اس نے ان کے اندر انہیں میں سے ایک رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتاہے۔ اور انہیں پاک کرتا ہے۔ اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔
دوسری جگہ سورۃ جمعہ میں ذکر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْا ُ مِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْاعَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (الجمعۃ:3) وہی ہے جس نے اُمی لوگوں میں انہیں میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔
تو یہ دونوں جگہ بلکہ تینوں جگہ جیسا کہ میں نے کہا جہاں قبولیت کا اعلان ہورہا ہے ترتیب ان آیات میں ایک طرح ہے اور دعا کی ترتیب سے فرق ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا میں تزکیہ کو آخر میں رکھا تھا اور جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وہ دعا قبول ہو گئی اور وہ رسول جس کے لئے ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی تھی یہ یہ کام کرتا ہے تو اس میں تزکیہ کو آیات کی تلاوت کے بعد رکھا ہے۔ اس فرق پر چند مفسرین نے روشنی ڈالی ہے لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا جو مفسرین پہلے گزرے ہیں، انہوں نے زیادہ تفصیل بیان نہیں کی۔ مثلاً علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ :
’’تزکیہ کو تلاوت آیات اور تعلیم کتاب و حکمت کے درمیان اس لئے رکھا ہے تا کہ بتایا جائے کہ ان چاروں امور کو ایک بات نہ سمجھ لیا جائے بلکہ چار الگ الگ امور ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ بڑی نعمت ہے۔ دوسری بات کہتے ہیں کہ تلاوتِ آیات کو پہلے اس لئے رکھا گیاہے کہ تزکیہ کے لئے پہلے مخاطبین کو تیار کرنا ضروری تھا۔ اس کے بعد تزکیہ کو رکھا کیونکہ یہ پہلی صفت ہے جسے مومنوں کو سب سے پہلے اپنانا چاہئے کیونکہ اچھی صفات کو اپنانے سے پہلے بری عادات کو چھوڑنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بعد تعلیم کو رکھا گیا کیونکہ ایمان کے بعدہی تعلیم حاصل کی جاتی ہے۔ تاہم سورۃ بقرہ کی آیت میں تعلیم کو تزکیہ سے پہلے شاید اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ یہ بتایا جائے کہ خوبیوں کو اپنا نا زیادہ اہم ہے۔‘‘ (تفسیر روح المعانی سورۃ آل عمران آیت165)
تو اس طرح دو ایک اور مفسرین نے بھی اس ترتیب کے جو الفاظ ہیں ان پر مختصر بحث کی ہے۔ اس لئے اس فرق کو واضح کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیادہ وسیع تفسیر کی ہے۔ اس سے میں نے استفادہ کیاہے جو بیان کروں گا۔
دعائے ابراہیمی کی بنیاد اس بات پر ہے کہ نبی مبعوث ہونے کے بعد اپنے پر نازل ہونے والی وحی پیش کرتا ہے پھر اپنی تائید میں ہونے والے نشانات اور معجزات کو پیش کرتا ہے۔ پھر جس جس طرح احکامات نازل ہوتے جاتے ہیں وہ احکامات کی حکمتیں بیان کرتا ہے او ر آخرکار اس وحی کو سننے، ان معجزات کو دیکھنے جو نبی نے دکھائے ہوتے ہیں اور ان احکامات کو سمجھنے کے بعد پھر جو جماعت تیار ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے تقدُّس عطا فرماتا ہے۔ یہ پاک لوگوں کی جماعت ہے جو پھر اس پیغام کو آگے پہنچاتی ہے اور غلبہ حاصل کرتی ہے۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں تزکیہ کو سب سے آخر میں رکھنے کی یہ وجہ ہے۔ یہ ایک ظاہری تقسیم ہے۔ اس میں کمزور ایمان والوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے جو ترتیب بیان فرمائی ہے اس میں ایمان میں ترقی اور روحانیت کو پہلے رکھا ہے اور علوم ظاہری والی باتیں بعد میں لی ہیں۔ پس ایمان میں ترقی اور روحانیت میں ترقی اور معرفت کے پیدا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وحی پر ایمان ہو۔ جب یہ ایمان بالغیب ہو گا تو پھر ایسی نظر بھی عطا ہو گی جو ان نشانات اور معجزات کو دیکھنے والی ہو گی۔ اور جب یہ نشانات اور معجزات نظر آئیں گے اور تزکیہ نفس میں ترقی ہو گی تو پھر اس ترقی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات اپنانے کی کوشش ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی صفات اپنانے سے ایمان میں پھر مزید ترقی پیدا ہو گی۔ تمام نفسانی کدورتیں صاف ہو جائیں گی۔ تمام آلائشوں سے دل پاک ہو جائے گا۔ پس کتاب اور حکمت پر تزکیہ کے تقدُّم کی یہ وجہ ہے، کیونکہ کتاب پڑھنا، اسے سمجھنے کی کوشش کرنا، اس میں سے حکمتیں تلاش کرنا یہ ظاہری علم کی چیزیں ہیں اور یہ باتیں یعنی کتاب اور حکمت کو آخر پر رکھ کر یہ اشارہ فرمایا کہ ایک انسان کی زندگی کا اصل مقصود نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ اور احکامات کی حکمتیں نہیں ہیں بلکہ اصل مقصود تزکیہ نفس ہے اور ہونا چاہئے۔ اگر ظاہری نمازیں کوئی لمبی لمبی پڑھتا ہے اور نفس کی اصلاح نہیں۔ یا اگر زکوٰۃ دیتا ہے اور ناجائز کمائی کر رہا ہے۔ یا اگر حج کیا ہے اور دل میں یہ ہے کہ دوسروں کو پتہ لگے کہ میں حاجی ہوں یا اس لئے کہ کاروبار زیادہ چمکے۔ کئی کاروباری لوگ اس لئے بھی حج پر جاتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے بیان کیا ہوا ہے کہ :
’’جب میں حج پر گیا تو ایک لڑکا میرے ساتھ حج کر رہا تھا۔ نہ نمازیں تھیں اور نہ دعائیں پڑھ رہا تھا بلکہ کوئی گانے گنگنا رہا تھا تو میں نے پوچھا تم اس لئے حج پر آئے ہو؟اس نے کہا بات یہ ہے کہ ہماری دکان ہے اور وہی کاروبار مقابلے پر ایک اور آدمی بھی کررہا ہے اور وہ حج کرکے آیا ہے جس کی وجہ سے اس کاکاروبار زیادہ چمکا ہے تو میرے باپ نے کہا ہے کہ تم بھی جا کر حج کر آؤ۔ مجھے تو پتہ نہیں حج کیا ہوتا ہے اس لئے میں آیا ہوں کہ ہمارا کاروبار چمکے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد6صفحہ35)
تو یہ حال ہوتا ہے حاجیوں کا۔ اگر اس طرح کے حج ہیں تو پھر اس کتاب کی تعلیم پر عمل بے فائدہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک حاجی کا قصہ بیان فرمایا ہے کہ:
’’ اس نے کسی نیک شخص کی دعوت کی۔ وہ امیر آدمی تھاجو حج کرکے آیا تھا۔ جب وہ بزرگ دعوت پہ آیا تو اس کے سامنے اس نے اپنے ملازم سے کہا کہ فلاں چیز فلاں طشتری میں رکھ کے لاؤ جو میں پہلے حج پہ لے کے آیا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا کہ فلاں چیزفلاں طشتری میں لاؤ جو میں دوسرے حج پہ لے کے آیا تھا۔ پھر کہنے لگا کہ فلاں چیز فلاں طشتری میں لاؤ جو میں تیسرے حج پہ لے کے آیا تھا۔ تو اصل مقصد اس کا یہ بتانا تھا کہ میں نے حج کئے ہیں۔ اس نیک بزرگ مہمان نے کہا۔ تیری حالت بڑی قابل رحم ہے۔ تو نے تو اس اظہار سے اپنے تینوں حج ضائع کر دئیے۔‘‘ (ماخوذ از ملفوظات جلد1صفحہ280)
پس یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ کتاب کی کسی بھی تعلیم پر آپ جو بھی عمل کرتے ہیں اس پر عمل کا مقصد تزکیہ نفس ہے۔ اس لئے تزکیہ مقدم رکھا گیا ہے اور اس عظیم رسول کے صحبت یافتوں نے اپنے دلوں کا تزکیہ کیا۔ تعلیم تو ساتھ ساتھ اترتی رہی۔ تقویٰ کے معیار بھی بڑھتے رہے۔ لیکن دلوں میں پاکیزگی پہلے پیدا ہو گئی تھی۔ آہستہ آہستہ ترقی تو ہوتی رہی لیکن دل صاف ہو گئے تھے۔ پہلے دن سے ہی ان صحابہ کا تزکیہ ہو گیا تھا۔ اس تزکیہ کی ہی وجہ تھی کہ حکم آتے ہی شراب کے مٹکے توڑے گئے تھے۔ کسی نے دلیل نہیں مانگی۔ حکم پہ عمل کیا۔ تو اصل چیز دلوں کی پاکیزگی ہے جو اس عظیم رسول نے کی۔ آنحضرتﷺ کی ذات، آپ ؐ کا ہر عمل، آپ کا اٹھنا بیٹھنا بصیرت رکھنے والوں کے لئے ایک نشان تھا۔
چنانچہ آپؐ کے قریبیوں میں جیسے حضرت خدیجہ ؓ ہیں، حضرت ابو بکرؓ ہیں، حضرت علی ؓ ہیں۔ انہوں نے وحی کے اترنے کے ساتھ ہی آپؐ کو قبول کر لیا تھا اور علم و معرفت میں پھر بڑھتے چلے گئے۔ انہوں نے تفصیلی تعلیم اور حکمتوں کی تلاش نہیں کی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ جب واپس آئے توکسی نے کہا تیرے دوست نے یہ یہ دعویٰ کیاہے۔ وہ سیدھے آنحضرتﷺ کے پاس گئے۔ ان سے پوچھا کہ آپؐ نے یہ دعویٰ کیا ہے؟ آنحضرتﷺ نے اس کی تفصیل بتانے کی کوشش کی کہ یہ تعلیم اتری ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی کہ مجھے تعلیم، حکمت اور دلیل نہیں چاہئے۔ میں تو آپؐ کو بچپن سے جانتا ہوں۔ ایسا زکی انسان کوئی غلط بات نہیں کر سکتا۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد اول صفحہ449ذکر اول من آمن باللہ ورسولہ دارلکتب العلمیۃ بیروت طبع اول 1996)
پس یہ جو آیات ہیں اس مزکّی کے ہر ہر لفظ میں ان کی پاک باتوں میں نظر آئیں جنہوں نے ان کو قبول کیا۔ لیکن کور باطن جو تھے وہ واضح آیات اور کتاب کی پاک کرنے والی پُر حکمت تعلیم کو دیکھ کر بھی اس فیض سے محروم رہے۔
پھر تزکیہ کے بعد تعلیم کتاب کو حکمت پر مقدم کیا گیا ہے یعنی کتاب حکمت سے پہلے رکھی گئی ہے کیونکہ اعلیٰ ایمان والا شخص یہ دیکھتا ہے کہ اس کے محبوب کا کیا حکم ہے۔ وہ دلیلوں کی تلاش میں نہیں رہتا۔ بلکہ سَمِعْنَاوَاَطَعْنَا کہتا ہے کہ ہم نے حکم سن لیا ہے اور ہم اس کے دل سے فرمانبردار ہو چکے ہیں۔ ہمارے پچھلے تجربات بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ہر حکم پر عمل کرنے سے ہمارے دلوں کا تزکیہ ہوا ہے۔ اس لئے یقینا اے نبیﷺ !تیرے پر خداتعالیٰ کی طرف سے اترے ہوئے اس حکم میں بھی کوئی حکمت ہو گی۔ چاہے ہمیں اس کی سمجھ آئے یا نہ آئے۔ ہمارا اصل مقصود تو محبوب حقیقی کی رضا حاصل کرنا ہے جو اس پیارے نبی کے ساتھ جُڑ کر اس کے کہے ہوئے لفظ لفظ پر عمل کرنے سے ملتی ہے۔ پس حکمتیں تو اس حکم کی جو بھی آئے بعد میں سمجھ آتی رہیں گی لیکن اپنے محبوب کی اطاعت ہم ابھی فوری کرتے ہیں۔ یہ فلسفیوں اور کمزور ایمان والوں کا کام ہے کہ حکمتوں کے سراغ لگاتے پھریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دین العجائز اختیار کرنے کی اسی لئے تلقین فرمائی ہے۔ لیکن جہاں تکبر اور فلسفہ میں انسان پڑے گا تو تزکیہ نہیں ہو سکتا اور جب آدمی میں تکبرآ جائے تو پھر ایمان میں ترقی تو کیا قبول کرنے کی بھی توفیق نہیں ملتی۔ پس حکمت کا علم ہونا ایک کامل مومن کے لئے، ایمان لانے کے لئے ضروری نہیں ہے اور جس کا ایمان صرف دلائل کی حد تک ہو اس کو حکمت کی بھی ضرورت ہے اور یہ کمزوریٔ ایمان ہونے کی نشانی ہے۔ پس نبی کا تزکیہ کرنا، اس کا حکم دینا اور اس حکم کو ماننا اور نبی کی باتیں سن کر اپنے دلوں کو پاک کرنے کی کوشش، یہ کامل الایمان لوگوں کا شیوہ ہے۔ اور ناقص ایمان حکمت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس لئے ہر قسم کی طبائع کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس عظیم رسول پر وہ تعلیم اتاری جس میں ہر حکم کی حکمت بھی بیان ہوئی ہے۔ پس یہ خاصہ ہے آنحضرتﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کا جو ہر قسم کی طبائع اور مزاج کے لوگوں کے لئے مکمل تعلیم ہے۔ کسی کے لئے کوئی فرار کی جگہ نہیں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دین العجائز کو ہی کامل ایمان والوں کا خاصہ فرماتے تھے۔ ہمیں حکمتوں کی بجائے پہلے ایمان میں مضبوطی کی کوشش کرنی چاہئے پھرحکمتیں بھی سمجھ آجاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:۔
’’خداتعالیٰ کا کلام ہمیں یہی سکھلاتا ہے کہ تم ایمان لاؤ تب نجات پاؤ گے۔ یہ ہمیں ہدایت نہیں دیتا کہ تم ان عقائد پر جو نبی علیہ السلام نے پیش کئے، دلائل فلسفیہ اور براہین یقینیہ کا مطالبہ کرو اور جب تک علوم ہندسہ اور حساب کی طرح وہ صداقتیں کھل نہ جائیں‘‘ یعنی ایک اور ایک دو کی طرح ہر چیز ثابت نہ ہو جائے ’’تب تک ان کو مت مانو۔ ظاہر ہے کہ اگر نبی کی باتوں کو علوم حسیّہ کے ساتھ وزن کرکے ہی ماننا ہے تو وہ نبی کی متابعت نہیں بلکہ ہر یک صداقت جب کامل طورپر کھل جائے خود واجب التسلیم ٹھہرتی ہے۔ خواہ اس کو ایک نبی بیان کرے خواہ غیر نبی‘‘۔ یعنی اگر ظاہری باتوں پر جاکر لینا ہے تو جب سچائی کھل گئی پھرکوئی بھی بات کرے تو لوگ اس کومان ہی لیتے ہیں۔ وہ ایمان بالغیب نہیں ہوتا۔ غیر نبی بھی کوئی ایسی بات کرے تو وہ بھی لوگ مانتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ:۔ ’’بلکہ اگر ایک فاسق بھی بیان کرے تب بھی ماننا ہی پڑتا ہے۔ جس خبر کو نبی کے اعتبار پر اور اس کی صداقت کو مسلّم رکھ کر ہم قبول کریں گے وہ چیز ضرور ایسی ہونی چاہئے کہ گوعندالعقل صدق کا بہت زیادہ احتمال رکھتی ہو مگر کذب کی طرف بھی کسی قدر نادانوں کا وہم جا سکتا ہو‘‘۔ یعنی اگر عقلی طور پر دیکھیں تو سچائی اس میں نظر آتی ہو، آ سکتی ہو، مگر اس میں ایسے لوگ ہیں جو پوری طرح سوچتے نہیں اور اس کو جھوٹ کی طرف بھی لے جا سکتے ہوں۔ ایسی بات ہو جو بالکل واضح نہ ہو۔
فرمایا: ’’تاہم صدق کی شق کو اختیار کرکے اور نبی کو صادق قرار دے کر اپنی نیک ظنی اور اپنی فراست دقیقہ اور اپنے ادب اور اپنے ایمان کا اجر پالیویں۔ یہی لب لباب قرآن کریم کی تعلیم کا ہے جو ہم نے بیان کر دیا ہے۔ لیکن حکماء اور فلاسفر اس پہلو پر چلے ہی نہیں اور وہ ہمیشہ ایمان سے لاپروا رہے اور ایسے علوم کو ڈھونڈتے رہے جس کا فی الفور قطعی اور یقینی ہونا ان پر کھل جائے۔ مگر یاد رہے کہ خداتعالیٰ نے ایمان بالغیب کا حکم فرما کر مومنوں کو یقینی معرفت سے محروم رکھنا نہیں چاہا بلکہ یقینی معرفت کے حاصل کرنے کے لئے ایمان ایک زینہ ہے جس زینہ پر چڑھنے کے بغیر سچی معرفت کو طلب کرنا ایک سخت غلطی ہے لیکن اس زینہ پر چڑھنے والے معارف صافیہ اور مشاہدات شافیہ کا ضرور چہرہ دیکھ لیتے ہیں‘‘۔ ان کو صاف کھلے معارف بھی نظر آ جاتے ہیں جن پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو بڑے تسلی دینے والے مشاہدات بھی نظر آتے ہیں۔ ’’جب ایک ایماندار بحیثیت ایک صادق مومن کے احکام اور اخبار الٰہی کو محض اس جہت سے قبول کرلیتا ہے کہ وہ اخبار اور احکام ایک مخبر صادق کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو عطا فرمائے ہیں تو عرفان کا انعام پانے کے لئے مستحق ٹھہر جاتا ہے‘‘۔ یعنی ایک سچا مومن، اللہ تعالیٰ جواحکامات دیتا ہے یا ان کو نبی کی طرف سے جو احکامات ملتے ہیں یا جو اللہ تعالیٰ ان کو خبریں دیتاہے، ان کوصرف اس لئے قبول کرتا ہے کہ یہ ایک سچے خبر دینے والے نے خداتعالیٰ کی طرف سے اطلاع پا کر خبریں دی ہیں۔ تو پھر اس کو اس کاعرفان بھی حاصل ہوتا ہے۔
فرمایا کہ: ’’اسی لئے خداتعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے یہی قانون ٹھہرا رکھا ہے کہ پہلے وہ امور غیبیہ پر ایمان لا کر فرمانبرداروں میں داخل ہوں اور پھر عرفان کا مرتبہ عطا کرکے سب عقد ے ان کے کھولے جائیں ‘‘۔ تو پہلے فرمانبرداری ضروری ہے۔ سَمِعْنَاوَاَطَعْنَا کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد پھر اس کو عرفان بھی حاصل ہو جائے گا، اس کی حکمتیں بھی معلوم ہو جائیں گی۔ ’’ لیکن افسوس کہ جلد باز انسان اِن راہوں کو اختیار نہیں کرتا۔ خداتعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ وعدہ ہے کہ جو شخص ایمانی طور پر نبی کریمﷺ کی دعوت کو مان لیوے تو وہ اگر مجاہدات کے ذریعہ سے ان کی حقیقت دریافت کرنا چاہے وہ اس پر بذریعہ کشف اور الہام کے کھولے جائیں گے‘‘۔ پہلے ایمان لانا ضروری ہے۔ پھر مجاہدات کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اطلاع دے گا’’ اور اس کے ایمان کو عرفان کے درجہ تک پہنچایا جائے گا‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد نمبر 5صفحہ 251تا 253حاشیہ)
پس یہ ہے وہ طریق جو ایمان میں کامل بننے والوں کے لئے ضروری ہے۔
پھر ان دوآیات میں یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی قبولیت دعا کے اعلان کے الفاظ میں ایک اور فرق بھی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کے آخر میں عرض کی اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم اور اللہ تعالیٰ جب جواب دیتا ہے تو فرماتا ہے وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْن اس فرق کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے عزیز و حکیم صفات کے واسطے سے دعا کی کہ جو کچھ میں مانگ رہا ہوں وہ اپنی سوچ کے مطابق مانگ رہا ہوں لیکن جس زمانے میں یہ نبی مبعوث ہونا ہے اور پھر تاقیامت جس کی آیات اور تعلیم نے تزکیہ بھی کرنا ہے اور حکمت بھی سکھانی ہے اس زمانے کی ضرورتوں کو توُ بہتر جانتا ہے اس لئے اُس وقت اے اللہ توُ اپنی صفت عزیز اور حکیم کے ساتھ اس زمانے کی ضروریات کو اس نبی کے ذریعہ پورا فرمانا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد2صفحہ280مطبوعہ ربوہ)
پس اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما کر اس آیت میں کہ رسول یہ یہ کام کرتا ہے آخر پر فرمایا وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْن یعنی یہ رسول تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے۔ پس اس عظیم نبی پر وہ آیات اور کتاب اتری جن میں ایسی تعلیم بھی ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے۔ اس نبی کی تعلیم میں ایسی باتیں بھی ہیں جودوسری پرانی تعلیمات سے زائد ہیں۔ بعض ایسی پیشگوئیاں ہیں جن کا زمانے کے ساتھ ساتھ انسان کو ادراک ہوتا ہے، پتہ لگتا ہے، ظاہر ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض باتوں کا میں گزشتہ خطبوں میں ذکر کر چکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں محکمات اور متشابہات کا ذکرکیا ہے جیسا کہ فرماتا ہےہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ(آل عمران:8) یعنی وہی ہے جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی ہے جس کی بعض آیتیں تو مُحْکَم آیتیں ہیں جو اس کتاب کی جڑ ہیں اور کچھ اور ہیں جو متشابہ ہیں۔ پس مُحْکَم آیات دے کر اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ وہ باتیں بھی میں نے اتاری ہیں جنہیں تم پہلے نہ جانتے تھے اور وہ باتیں بھی ہیں جو پہلی شریعتوں میں آبھی چکی ہیں۔ بعض ایسی ہیں جو واضح ہیں، بعض ایسی ہیں جن پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ مُحْکَم کے معانی لغتوں میں یہ لکھے ہیں کہ جو کسی بھی قسم کی تبدیلی یا تحریف سے محفوظ کر دی گئی ہو۔ یہ مُحْکَم ہے۔ دوسری جس میں کسی بھی قسم کے ابہام کا شائبہ نہ ہو۔ تیسری بات جو معنوی لحاظ سے اور اپنی شوکت کے لحاظ سے فیصلہ کن ہو تو یہ مُحْکَمٰت ہیں۔ اور مُتَشَابِہ وہ چیزکہلاتی ہیں جس کے مختلف معانی کئے جا سکیں۔ یا جس کا کچھ حصہ دوسری ویسی اسی طرح کی چیزوں سے مشابہ ہو۔ اب جو تزکیہ سے عاری ہیں وہ اس تعلیم کے حقیقی پیغام کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ پھر اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ جس کے حقیقی معانی مُحْکَم احکامات کے خلاف نہ ہوں۔ متشابہ کے یہ معنی بھی ہیں کہ بعض دفعہ بعض ظاہری الفاظ شبہ میں ڈال دیتے ہیں لیکن اس کے جو حقیقی معانی ہیں وہ مُحْکَم احکامات جو قرآن کریم کی جڑ ہیں ان کے خلاف نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر ان کے خلاف جاتے ہیں تو پھر اس کی وجہ تلاش کرنی ہو گی۔ اس لئے ان متشابہات کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کی جائے جو محکم احکامات سے تطابق رکھتے ہیں۔ متشابہ کا بھی یہی مطلب ہے کہ بغیر حقیقی غور و فکر کے صحیح طریق سے سمجھ نہیں آ سکتے اس کے لئے پھر دلوں کو پاک کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے۔ پس وہ عزیز خدا جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے ایسے تزکیہ شدوں کے دلوں کے دروازے کھولتا اور انہیں حکمت کے موتی اکٹھے کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ تو یہ عظیم رسول جو قیامت تک کے زمانے کے لئے مبعوث ہوا اس کی تعلیم کی حفاظت کا بھی اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمایا ہے جیسا کہ میں پہلے ایک خطبہ میں یہاں بیان کر چکا ہوں۔ اس تعلیم کو بدلنے کی کوشش کی گئی لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے۔ اس مزکّیٔ اعظم کی اتباع میں ہر صدی میں مجدد آتے رہے اور ان آیات و تعلیم کے ذریعہ سے تزکیہ کا کام کرتے رہے۔ علماء اور فقہا پیدا ہوتے رہے جو احکامات کی وضاحت کرتے رہے اور حکمت سکھاتے رہے۔ آجکل کے نام نہاد علماء کی طرح نہیں جو بے تکی باتیں کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ فیصل آباد میں، یہ 1974ء کی بات ہے، ایک مسجد سے مولوی صاحب سورۃ اخلاص پڑھ کے خطبہ دے رہے تھے، قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدْ کے بعد انہوں نے اس کی تشریح یہ کی تھی کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احمدی جھوٹے ہیں، (یا اس نے مرزائی کہا تھا)۔ اگر کوئی ثابت ہوتا ہے تو یہ نتیجہ تو نکلتا ہے کہ خدا کا بیٹا بنانے والے غلط اور جھوٹے ہیں یا یہ نتیجہ تو نکالا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ جو قبروں کو پوجنے والے ہیں اور غلط قسم کی پیر پرستی میں مبتلا ہیں، یہ جھوٹے ہیں۔ لیکن ہم تو اس مزکّی کے عاشق صادق کو ماننے والے ہیں جو توحید کا پھیلانے والا تھا۔ اور جس کے ماننے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ پیغام دیا تھا کہ خُذُواالتَّوْحِیْدَ اَلتَّوْحِیْدَ یَا اَبْنَآءَ الْفَارِس کہ توحید کو پکڑو، توحید کو پکڑو، اے فارس کے بیٹو۔ (تذکرۃ صفحہ197ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
پس اگر جھوٹے ہیں تو یہ لوگ ہیں، ہم نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس تعلیم کی حفاظت کے یہ سامان پیدا فرمائے اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، اس مزکّی سے کئے گئے وعدے کے مطابق مسیح موعود اور مہدی موعود کو بھیجا جو خاتم الخلفاء کہلائے۔ قرآن کریم میں اس کا یوں ذ کر آتا ہے۔ سورۃ جمعہ کی آیات ہیں، ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْا ُ مِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْاعَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ وَّآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(الجمعۃ:3-4)کہ وہی ہے جس نے اُمِّی لوگوں میں انہیں میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔ اور انہیں میں سے دوسروں کی طرف بھی اسے مبعوث کیا ہے جو ابھی ان سے ملے نہیں۔ وہ کامل غلبے والا اور صاحب حکمت ہے۔
ان آیات میں سے جو پہلی آیت ہے اس میں اُمِّی لوگوں میں سے عظیم رسول کے مبعوث ہونے کی خبر ہے۔ یہاں پھر جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کے اعلان کا اعادہ کیا گیا ہے اور واضح اعلان آخر میں ہے کہ اس سے پہلے وہ لوگ کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ یہ کھلم کھلا گمراہی میں مبتلا ہونے کے الفاظ اس حوالے سے سورۃ آل عمران کی آیت میں بھی بیان کئے گئے ہیں۔ سورۃ آل عمران میں ان خصوصیات کا ذکر کرنے سے پہلے یعنی جو نبی نے آ کر چار باتوں پر عمل کرنا تھا یا کروانا تھا، یہ ذکر ہے کہ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْن یقینا اللہ نے مومنوں پر احسان کیا ہے جو ان میں ایک رسول بنا کر بھیجا ہے۔ پس اس زمانے میں جب بحرو بر میں فساد برپا تھا اللہ تعالیٰ کاان لوگوں پر ایک احسان ہوا کہ ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا جس نے انہیں آیات سنائیں، پاک کیا، تعلیم کتاب اور حکمت دی۔ اور انہیں عربوں نے جو جاہل کہلاتے تھے ایک انقلاب برپا کر دیا۔
سور ۃ جمعہ میں پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس خدا نے ان اَن پڑھ لوگوں پر احسان کرتے ہوئے رسول بھیجا کہ انہیں پاک کرنے اور اللہ کا قرب دلانے کا باعث بنا، کیا اس عظیم رسول کا زمانہ ختم ہو گیا ہے کہ پھر ایک ہزار سال سے وہی اندھیرا زمانہ چلتا چلا جائے۔ کیا وہ زمانہ چند سو سالوں کے بعد دوبارہ لوٹ کر آ گیا؟ سوائے چند ایک چھوٹے چھوٹے گروہوں کے جن کے دائرے محدود ہیں اس ایک ہزار سال میں جو پچھلا اندھیرا دور گزرا ہے کہیں روشنی نظر نہیں آتی رہی۔ تو اللہ تعالیٰ جو احسان کرنے والا ہے اس نے ان لوگوں پر تو احسان کر دیاجو مشرکین تھے اور جو امت میں سے تھے، جو دعائیں مانگ رہے تھے کہ امت میں کوئی اصلاح کرنے والا آئے، ان پر اللہ تعالیٰ نے احسان نہیں کیا۔ تو یہ تو کوئی عظمت نہ ہوئی۔ یہ تو قیامت تک کے لئے تعلیم قائم رکھنے کا وعدہ پورا کرنا نہ ہوا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو وہ ذات ہے جس کی ہر چیز جو بھی زمین و آسمان میں ہے تسبیح کرتی ہے اور اس کی پاکیزگی بیان کرتی ہے۔ وہ عزیز ہے اور ہر چیز پر غالب ہے۔ تو کیا عزیز خدا اور حکیم خدا سے یہ توقع کرتے ہو کہ وہ اب دنیا کو بھٹکنے دے گا؟ کیا یہ حکمت ہے کہ اس تعلیم کو سنبھالا نہ جائے جو دنیا کی نجات کے لئے آخری تعلیم ہے ؟خداتعالیٰ کے بارے میں یہ سوچ تو بڑی محدود سوچ ہے اور بدظنی ہے۔
پس اے وہ لوگو! جو اپنے آپ کو محمد رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کرتے ہو! اس عظیم رسول کی طرف منسوب کرتے ہوجس کی تعلیم تاقیامت دلوں کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس تعلیم کی روشنی دکھانے کے لئے محدود پیمانے پر نہیں جیسا کہ سابقہ صدیوں میں آتے رہے بلکہ وسیع پیمانے پر پاک کرنے کے لئے اور کمزور دلوں اور دنیاداروں اور فلسفیوں میں بھی پاکیزگی اور حکمت کے بیج ڈالنے کے لئے آخرین میں پھر یہ نبی مبعوث ہو گا۔ جو اپنے اس جسم کے ساتھ نہیں بلکہ بروزی رنگ میں مبعوث ہو گا اور یہ اس خدا کا فیصلہ ہے جو عزیز اور حکیم ہے۔ اور اس خدا کی طاقتوں کو محدود نہ سمجھو۔ اس کے فیصلوں کو بغیر حکمت کے نہ سمجھو۔ پس جس طرح اس عظیم نبی نے ایک پاک جماعت کا قیام کیا تھا اور بگڑے ہوؤں کو خدا سے ملایا تھا اس نبی کا غلام بھی اس بگڑے زمانے میں خدا سے ملانے کا کام کرے گا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ ؓ نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہوں گے؟وہ ہو گا کون جو آخرین میں مبعوث ہو گا؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی ؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو ان کی نسل میں سے ایک شخص اسے زمین پر واپس لے آئے گا۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہ وآخرین منہم لما یلحقوا بہم حدیث:4897)
آنحضرتﷺ کی ایک اور حدیث ہے کہ وہ زمانہ آئے گا کہ قرآن کے الفاظ کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہے گا اور اسلام کے نام کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ پس ہر غور کرنے والا ذہن اور ہر دیکھنے والی آنکھ یہ دیکھتی ہے اور اظہار کرتی ہے کہ آجکل یہی حالات ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس عظیم رسول کو بھیج کر جو دین قائم کیا اور جس نے تاقیامت رہنا ہے اس کے اس شان و شوکت سے قائم رہنے کے لئے آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کو بھیجا ہے۔
پس ہم احمدی کہلانے والوں کی اب دوہری ذمہ واری ہے کہ ایک تو اپنے پاک ہونے اور اس کتاب پر عمل کرنے کی طرف مستقل توجہ دیں۔ دوسرے اس پیغام کو ہر شخص تک پہنچانے کے لئے ایک خاص جوش دکھائیں تاکہ کسی کے پاس یہ عذر نہ رہے کہ ہم تک تو یہ پیغام نہیں پہنچا۔ کیونکہ آج سوائے احمدی کے کوئی نہیں جس کے سپرد امت مسلمہ کے سنبھالنے کا کام کیا گیا ہے۔ بڑے بڑے اسلام کے نام نہاد چیمپٔن تو نظر آئیں گے اور بزعم خویش اپنے آپ کو سب کچھ سمجھنے والے بھی ہوں گے۔ ہر گروہ اور ہر فرقہ اصلاح کا دعوٰی کررہا ہے لیکن ایمان سے عاری ہیں اس لئے ہر طرف یہی شور ہے کہ مسلمانوں کو سنبھالو۔ اور اس گروہ بندی اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے انکار کی وجہ سے یہ علیحدہ علیحدہ گروہ بنے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے انکار کی وجہ سے دلوں کی پاکیزگی ختم ہو رہی ہے۔ تعلیم و حکمت سے عاری ہو رہے ہیں اور دشمن کے پنجے میں جکڑے چلے جا رہے ہیں۔ کبھی کبھی یہ آواز اٹھتی ہے کہ خلافت ہونی چاہئے لیکن یہ سب جس وجہ سے ہو رہاہے وہ نہیں سوچتے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :۔ ’’ اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ خدا وہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بے بہرہ ہو چکے تھے اور علوم حکمیہ دینیہ جن سے تکمیل نفس ہو اور نفوس انسانیہ علمی اور عملی کمال کو پہنچیں بالکل گم ہو گئی تھی اور لوگ گمراہی میں مبتلا تھے یعنی خدا اور اس کی صراط مستقیم سے بہت دور جا پڑے تھے تب ایسے وقت میں خداتعالیٰ نے اپنا رسول اُمِّی بھیجا اور اس رسول نے ان کے نفسوں کو پاک کیا۔ اور علم الکتاب اور حکمت سے ان کو مملوّ کیا یعنی نشانوں اور معجزات سے مرتبہ یقین کا مل تک پہنچایا اور خدا شناسی کے نورسے ان کے دلوں کو روشن کیا اور پھر فرمایا کہ ایک گروہ اَور ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہو گا۔ وہ بھی اول تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے اور علم اور حکمت اور یقین سے دور ہوں گے تب خدا ان کو بھی صحابہ ؓ کے رنگ میں لائے گایعنی جو کچھ صحابہ ؓ نے دیکھا وہ ان کو بھی دکھایا جائے گا۔ یہاں تک کہ ان کا صدق اور یقین بھی صحابہ ؓ کے صدق اور یقین کی مانند ہو جائے گااور حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے اس آیت کی تفسیر کے وقت سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ لَوْکَانَ الْاِیْمَان مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّالَنَالہٗ رَجُلُٗ مِّنْ فَارس یعنی اگر ایمان ثریا پر یعنی آسمان پر بھی اٹھ گیا ہو گا۔ تب بھی ایک آدمی فارسی الاصل اس کو واپس لائے گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک شخص آخری زمانہ میں فارسی الاصل پیدا ہو گا۔ اس زمانے میں جس کی نسبت لکھا گیا ہے کہ قرآن آسمان پر اٹھایا جائے گا یہی وہ زمانہ ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے اور یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام مسیح موعود ہے کیونکہ صلیبی حملہ جس کے توڑنے کے لئے مسیح موعود کو آنا چاہئے وہ حملہ ایمان پر ہی ہے اور یہ تمام آثار صلیبی حملہ کے زمانہ کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ اور لکھا ہے کہ اس حملے کا لوگوں کے ایمان پر بہت برا اثر ہو گا۔ وہی حملہ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں دجّالی حملہ کہتے ہیں۔ آثار میں ہے کہ اس دجّال کے حملہ کے وقت بہت سے نادان خدائے لاشریک کو چھوڑ دیں گے اور بہت سے لوگوں کی ایمانی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی اور مسیح موعود کا بڑا بھاری کام تجدید ایمان ہو گا کیونکہ حملہ ایمان پر ہے اور حدیث لَوْکَانَ الْاِیْمَان سے جو شخص فارسی الاصل کی نسبت ہے یہ بات ثابت ہے کہ وہ فارسی الاصل ایمان کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے آئے گا…‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’ …سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوت کا اور کس نے پایا۔ اس زمانے میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے۔ وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا۔ وہ خداتعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیساکہ صحابہ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دل آزاری اور بدزبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا۔ وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی۔ بہتیرے ان میں سے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے۔ بہتیرے ان میں ایسے ہیں جن کو سچی خوابیں آتی ہیں اور الہام الٰہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوتے تھے۔ بہتیرے ان میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خداتعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے۔ ان میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یاد رکھتے اور دلوں کے نرم اور سچی تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی۔ وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو پاک کر رہاہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے ان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا۔ غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ کے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں اور ضرور تھا کہ خداتعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پوراہوتا‘‘۔ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 304۔ 307)
پس یہ جو انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لے کر آئے اس کو جاری رکھنا جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے۔ نہیں تو ہم بھی اسی طرح گناہگار ٹھہریں گے جس طرح پہلے ایمان کو ضائع کرنے والے ٹھہرے تھے۔ لوگ تو انشاء اللہ پیدا ہوتے رہیں گے جو اس پیغام، کتاب اور تعلیم کو اپنے پر لاگو بھی کریں گے لیکن ہم میں سے ہر فرد کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ کبھی اس تعلیم سے روگردانی کرنے والے نہ ہوں اور کبھی اپنے دلوں کی پاکیزگی کو ختم کرنے والے نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلدنمبر15نمبر8مورخہ 22تا28فروری 2008صفحہ5تا8)
دعائے ابراہیمی اور آنحضرتﷺ کا پیداکردہ عظیم روحانی انقلاب، اسلامی نظام حکومت اور ادائیگی حقوق، آخری زمانہ میں اسلام کی کمزورحالت اور مسیح موعودؑ کی بعثت۔
فرمودہ مورخہ یکم فروری 2008ء بمطابق یکم تبلیغ 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔