تلاوت قرآن کریم اور اس کا طریق
خطبہ جمعہ 7؍ مارچ 2008ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ۔ اُوْلٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ۔ وَمَنْ یَّکْفُرْبِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْن۔ (البقرہ :122)
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے قرآن کریم کے حوالے سے بات کی تھی کہ کیوں مغرب میں اس قدر اسلام کے خلاف نفرت اور استہزاء کی فضا پیدا کی جا رہی ہے اور یہ بھی بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا اسلام کے غلبے کا بھی اور قرآن کریم کی حفاظت کا بھی وعدہ ہے۔ پس اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جتنی بھی یہ کوشش چاہیں کر لیں ان کے یہ رکیک حملے نہ اسلام کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ اس کامل کتاب کے حسن کو ماند کر سکتے ہیں۔ ہاں ایسے لوگ جو سامنے آ کر حملے کر رہے ہیں یا وہ جو پیچھے سے ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں ان کے اسلام کے خلاف بغض اور کینوں کے اظہار ہو رہے ہیں۔ بہرحال یہ کام تو ان اسلام دشمنوں نے کرتے رہنا ہے اس لئے اس کی کوئی فکر نہیں کہ کیا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اس کی یعنی قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ ہے۔ لیکن جب ایسی حرکتیں ہوں اسلام مخالفین کی تو اس پر ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہئے۔ ایک احمدی مسلمان کو اپنے اندر کیا خصوصیات پیدا کرنی چاہئیں جس سے وہ دشمنوں کے حملے کے رد ّکے لئے تیار ہو سکے۔ اس فوج کا سپاہی بن سکے جس کے لئے اس نے زمانے کے امام سے عہد باندھا ہے۔ ان فضلوں کا وارث بن سکے جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے والوں کے لئے مقدر کئے ہوئے ہیں۔ اس بارے میں کچھ باتیں میں کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ اس خوبصورت تعلیم کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں اور آپؐ کے عاشق صادق نے اس پیغام کو ہم پر واضح کرتے ہوئے ہم سے کیا توقعات رکھی ہیں ؟لیکن اس سے پہلے میں ایک کتاب کے حوالے سے ذکر کرنا چاہتا ہوں جو گزشتہ دنوں نظر سے گزری۔ کتاب کا نام ہے Women Embracing Islam ’عورتیں اسلام قبول کر رہی ہیں، اور مختلف حوالے سے ذکر ہے کہ کیوں یہی صنف جوہے وہ اسلام قبول کر رہی ہے۔ یہ کتاب کسی ایک مصنف کی نہیں ہے بلکہ کیرن وان نیومین (KARIN VAN NIEUMAN)نے ایڈٹ (edit) کی ہے۔ اصل میں تو یہ مختلف لوگوں کی تحقیقات کا نتیجہ ہے۔ ہالینڈ کے ایک شہر میں جس کا نام ہے نائے میخن (NIJMEGEN)۔ اس کی ایک یونیورسٹی میں ایک کانفرنس ہوئی۔ وہاں ریسرچ پیپرز یعنی تحقیقی مقالے پڑھے گئے۔ 2003ء میں یہ کانفرنس ہوئی تھی۔ اس کو خاتون نے ایڈٹ کیا اور 2006ء میں ٹیکساس یونیورسٹی پریس نے اس کی اشاعت کی۔ اس کتاب میں جیسا کہ میں نے کہا مختلف لوگوں کے حوالے سے باتیں ہیں۔ ابتداء اس کی اس طرح ہوتی ہے کہ مذہب میں گزشتہ چند دہائیوں سے دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ اور پھرلکھتے ہیں کہ 11ستمبر 2001ء کے بعد دنیا کی اسلام میں واضح دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ لکھتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کا عمومی تاثر ہے کا جو اسلام مخالف مغربی عیسائی ہیں کہ لوگوں میں یہ دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ یا ان لوگوں کا بھی تاثر ہے جو خدا کو نہیں مانتے۔ لکھنے والا یہ لکھتا ہے کہ جو لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں چاہے یہ اسلام کے قبو ل کرنے والے کے ذہن میں ہو یا نہ ہو لیکن سمجھا یہی جاتا ہے کہ اس کی مذہب سے زیادہ سیاسی وجوہات ہیں۔ بہرحال یہ ان کی سوچ ہے اور ظاہر ہے کہ جب سیاسی وجوہات سمجھی جائیں گی تو اس کو روکنے کے لئے مذہب کی آڑ میں سیاسی اور سیاست کی آڑ میں مذہبی طاقتیں کام کریں گی۔
ایک دلچسپ بات اس میں یہ لکھی ہے کہ پہلا مشنری جو امریکہ آیا وہ احمدی تھا۔ پھر لکھتے ہیں کہ اصل میں یہ مشنری امریکہ میں اسی رد عمل کے طور پر آیا تھا یا اس حملے کو روکنا اس کا مقصد تھا جو عیسائی مشنری تبلیغ کا کام کر کے ہندوستان میں کر رہے تھے۔ اپنے پاس سے انہوں نے یہ بات بھی گھڑ لی کہ اس کا بنیادی مقصد امریکہ میں ایسا ماحول پیدا کرنا تھا جو مسلمان مہاجرین کے لئے سازگار ہو۔ اور اس کے لئے انہوں نے یعنی احمدیوں نے سفید فارم امریکن کو کنورٹ (Convert) کرنے کی کوشش کی، اسلام میں لانے کی کوشش کی لیکن کہتے ہیں کہ چند ایک کو اپنے میں شامل کر سکے۔ پھر آگے لکھتے ہیں :لیکن جن مسلمان مہاجرین کو یہ احمدی امریکہ میں آباد کرنے کی سوچ رہے تھے تاکہ ان کی تعداد بڑھے، انہوں نے احمدیوں کو دائرہ اسلام سے باہر کرتے ہوئے رد کر دیا اور آخر احمدیوں نے سوچا کہ ان کی کوششیں تب بار آور ہو سکتی ہیں جب یہ ایفرو امریکن میں تبلیغ کریں اور انہیں بتائیں کہ تمہاری ایک پہچان ہے جو مسلمان ہو کر ہی مل سکتی ہے۔ مزید یہ کہ تمہاری جڑیں مسلمانوں میں ہیں۔ تمہیں ان لوگوں نے، عیسائیوں نے زبردستی عیسائی بنا لیا ہے اور پھر ظلم بھی کیا ہے۔ برابری کا حق اگر تم لینا چاہتے ہو تو یہ صرف تمہیں اسلام میں مل سکتا ہے۔ اور اس طرح افریقن امریکن اور افریقن مسلمان ایک طاقت بن سکتے ہیں اگر یہ مسلمان ہو جائیں۔ یہ احمدیوں نے تبلیغ کی۔ اور احمدیوں کے اس طرز سے دوسرے مسلمان گروپوں نے بھی فائدہ اٹھایا اور اس ذریعہ سے بڑی تیزی سے اسلام ایفرو امریکن میں پھیلا، یا ابھی تک پھیل رہا ہے۔ دوسری بڑی تعداد اسلام لانے میں سفید فارم امریکن عورتوں کی ہے۔ بہرحال جماعت کے متعلق تو توڑ مروڑ کر باتیں پیش کرنے سے ہی پتہ لگ جاتا ہے کہ واضح طور پر بیان نہیں کرنا چاہتے۔ کیونکہ جس طرح یہاں بیان کیا گیا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ معلومات بہرحال ان کے پاس مکمل ہیں لیکن بیان ٹھیک نہیں۔ اسی کتاب میں پھر ایک جگہ نئے شامل ہونے والوں میں سے ایک سفید فام عورت کو پوچھا گیا کہ کیوں مسلمان ہوئی تھی؟ تو اس نے یہ جواب دیا کہ مسلمان ہوتے ہوئے کلمہ پڑھ لو تو انسان اس کے بعد اس طرح معصوم ہو جاتا ہے جس طرح ایک نوزائیدہ بچہ۔ اور پھر جنت کا تصور ہے کہ اگلے جہاں میں گناہ بخشے جائیں گے۔ تو یہ باتیں کہ کلمہ پڑھ کر انسان پاک ہو جاتا ہے اور گناہ بخشے جاتے ہیں، یہ بات کسی طرح بھی اسلام مخالف طبقے کو خاص طورپر مغرب میں برداشت نہیں ہو سکتی۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک طبقے میں یہ سوال اٹھنا شروع ہو گیا ہے کہ کفّارہ کا جو نظریہ ہے وہ غلط ہے۔ اپنے گناہوں کی فکر کرنے والے یہ سوچ سکتے ہیں کہ انسان معصوم ہو جاتا ہے اور اگلے جہان میں جنت دوزخ کا سوال ہے، جزا سزا کا سوال ہے اور یہ عیسائیت کے ایک بنیادی دعوے کا رد ہے جو کسی صورت میں بھی ان لوگوں کو برداشت نہیں ہو سکتا۔ بہرحال یہ بہت ہی سوچی سمجھی سکیم کے تحت اسلام پر حملے ہیں۔ ایک آدھ بات میں نے مختصراً بیان کر دی ہے۔ کیونکہ یہ مختلف پیپرز ہیں، مقالے ہیں اور مقالوں کا مجموعہ ہے۔ اسلام کے بارے میں بیچ بیچ میں بعض اچھی باتیں بھی ظاہر کی گئی ہیں۔ لیکن جو بھی صورت حال ہوجب اس طرح اسلام کی طرف توجہ دلانے والے نتائج سامنے آئیں گے تو اسلام مخالف طاقتوں کا ایک منظم کوشش کے لئے جمع ہونا ضروری ہے اور ضرور ی تھا، جو وہ ہو گئیں۔ اب میں پھر اصل بات کی طرف آتا ہوں جیسا کہ شروع میں میں نے کہا تھاکہ ایسے حالات میں ایک احمدی کا کردار کیا ہونا چاہئے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ احمدی جب بیعت کرتا ہے، یہ عہد کرتا ہے کہ میں روحانی تبدیلی کے لئے زمانے کے امام کی بیعت میں آیا ہوں تو وہ خود بخود اس طرف متوجہ ہو کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی بڑھانا ہے جو کہ اس کا حقیقی عبد بن کے ہی بڑھ سکتا ہے، جوکہ عبادتوں کے معیار بلند کرنے سے ہی ہو سکتا ہے۔ دوسرے اس تعلیم کی طرف توجہ ہوجوقرآن کریم کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میری کتاب کو اس کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھو۔ جیسا کہ میں نے ابھی جو آیت تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے :
کہ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی در آنحالیکہ وہ اس کی ایسی تلاوت کرتے ہیں (جبکہ وہ ایسی تلاوت کرتے ہیں) جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو (درحقیقت) اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو کوئی بھی اس کا انکار کرے پس وہی ہیں جو گھاٹا پانے والے ہیں۔ تلاوت کا حق کیا ہے؟ تلاوت کا حق یہ ہے کہ جب قرآن کریم پڑھیں تو جو اوامرونواہی ہیں ان پر غور کریں۔ جن کے کرنے کا حکم ہے ان کو کیا جائے۔ جن سے رُکنے کا حکم ہے ان سے رُکا جائے۔ آنحضرتﷺ کے سامنے یہود و نصاریٰ کا یہی دعویٰ تھا کہ ہمارے پاس بھی کتاب ہے۔ چاہتے تھے کہ مسلمان ان کی بات مان لیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ایک توان یہود کا یہ رد کر دیا کہ تمہاری کتاب اب اس قابل نہیں رہی کہ اسے اب سچی کہا جا سکے کیونکہ تمہارے عمل اس کے خلاف ہیں۔ بعض باتوں کو چھپاتے ہو بعض کو ظاہر کرتے ہو۔ پس تمہاری کتاب اب ہدایت نہیں دے سکتی۔ بلکہ آنحضرتﷺ کی بعثت کے بعد، اس شریعت کے اترنے کے بعد، یہ قرآن کریم ہی ہے جو ہدایت کا راستہ دکھانے والی کتاب ہے جس نے اب دنیا میں ہدایت قائم کرنی ہے۔ پس صحابہ رضوان اللہ علیہم نے یہ ثابت کیا، ان کی زندگیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ وہ مومن ہیں جنہوں نے اس کتاب کی تلاوت کا حق ادا کیا اور یہی ایمان لانے والے کہلائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کو اعمال صالحہ کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ پس حقیقی مومن وہ ہیں جو تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں اور حقیقی مومن وہ ہیں جو اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں۔ لہذاتلاوت کا حق وہی اداکرنے والے ہیں جو نیک اعمال کرنے والے ہیں۔ پس اس زمانے میں یہ مسلمانوں کے لئے انذار بھی ہے کہ اگر تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو اور وہ عمل نہیں جن کا کتاب میں حکم ہے تو ایمان کامل نہیں۔ اس زمانے کے حالات کے بارے میں (جو حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانے کے حالات تھے) آنحضرتﷺ نے انذار فرمایا ہے جو ظاہر و باہر ہے، ہر ایک کو پتہ ہے۔ احادیث میں ذکر ہے اور ایسے حالات میں ہی مسیح موعود کا ظہور ہونا تھا جب یہ حالات پیدا ہونے تھے۔ پس حقِ تلاوت ادا کرنے والے وہی لوگ ہوں گے جو فی زمانہ اس مہدی کی جماعت میں شامل ہو کرقرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنے والے بھی ہوں گے۔ پس یہ ذمہ داری ہے ہر احمدی کی کہ وہ اپنے جائزے لے کہ کس حد تک ان احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دئیے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں مگر طوطے کی طرح یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں۔ جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دھند پڑھتا جاتا ہے۔ نہ خود سمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتہ لگتا ہے۔ اسی طرح پر قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سپارے پڑھ لئے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ سُر لگا کر پڑھ لیا اور ’’ق‘‘ اور ’’ع‘‘ کو پورے طور پر ادا کر دیا۔ قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے۔ مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر ے۔ یہ یاد رکھو کہ قرآن شریف میں ایک عجیب و غریب اور سچا فلسفہ ہے۔ اس میں ایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی۔ جب تک نظام اور ترتیب قرآنی کومدنظر نہ رکھا جاوے، اس پر پورا غور نہ کیا جاوے، قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے‘‘۔ (الحکم جلد 5نمبر12 مورخہ 31مارچ1901 ء صفحہ3)
پس یہ ہے تلاوت کا حق جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے۔
ایک وقت تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ صحیح طورپر قرآن کریم نہیں پڑھا جاتا جماعت کوصحتِ تلفّظ کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اس طرح پڑھا جائے۔ کیونکہ زیر زبر پیش کی بعض ایسی غلطیاں ہو جاتی تھیں، کہ ان غلطیوں کی وجہ سے معنے بدل جاتے ہیں یا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ تو اس طرح آپ نے صحتِ تلفّظ کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد جماعت میں اس طرف خاص توجہ پیدا ہوئی۔ لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ ترجمۂ قرآن کی طرف بھی توجہ دی جائے۔ ذیلی تنظیمیں بھی کام کریں۔ جماعتی نظام بھی کام کرے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انصاراللہ یو کے نے شروع کیا ہے۔ یہ انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بھی پڑھا رہے ہیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ ترجمہ آئے گا تو پھر ہی صحیح اندازہ ہو سکے گا کہ احکامات کیا ہیں ؟جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ غور کروتبھی غور کی عادت پڑے گی۔ عمل کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور یہی تلاوت کا حق ہے۔
ایک صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال کیا کہ قرآن شریف کس طرح پڑھا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’قرآن شریف تدبر و تفکر و غور سے پڑھنا چاہئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ رُبَّ قَارٍ یَلْعَنُہُ الْقُرْآنُ۔ یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں ‘‘۔ پڑھنے والے ہیں کہ ’’جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے‘‘۔ فرمایا :’’تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خداتعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خداتعالیٰ کے عذاب سے خداتعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر و غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد5صفحہ 157جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس یہ اسلوب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں قرآن کریم پڑھنے کے بارے میں بتا دیا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا یہ تبھی ممکن ہے جب اس کا ترجمہ آتا ہو گا۔ اب بہت سے ایسے ہیں جن کی تلاوت بہت اچھی ہے۔ دل کو بھاتی ہے لیکن صرف آواز اچھی ہونا ان پڑھنے والوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی جب تک کہ وہ اس کو سمجھ کر نہ پڑھیں۔ کسی بھی اچھی آواز کی تلاوت اس شخص کو تو فائدہ پہنچا سکتی ہے جو اچھی آواز میں یہ تلاوت سن رہا ہے اور اس کا مطلب بھی جانتا ہے۔ جب پیشگوئیوں کے بارے میں سنتا ہے اور پھر اپنے زمانے میں انہیں پوری ہوتی دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنتا ہے کہ اس زمانے کی پیشگوئیوں کے پورے ہونے کے نظارے دیکھے۔ اور اس پرپھر مستزاد یہ کہ ایک احمدی شکر گزاری کرتا ہے کہ جس مسیح و مہدی کے آنے کی آنحضرتﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی، جس کے زمانے میں یہ قرآنی پیشگوئیاں پوری ہونی تھیں، اسے ماننے کی بھی ہمیں توفیق ملی۔ پھر نئے سائنسی انکشافات ہیں۔ ان کو دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل لبریز ہوتا ہے، دل بھر جاتا ہے۔ چودہ سو سال پہلے یہ باتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم کے ذریعے سے بتا دیں۔ پرانی قومیں جنہوں نے نبیوں کا انکار کیا اور اس انکار کی وجہ سے ان سے جو سلوک ہوا اس پر ایک خدا کا خوف رکھنے والا، قرآن کریم کا ترجمہ سمجھنے والا، اس کے الفاظ کو سمجھنے والا استغفار کرتا ہے کہ خداتعالیٰ نے ہمیں اس حالت سے بچایا ہوا ہے اور آئندہ بھی بچائے رکھے۔ تو جتنا جتنا فہم و ادراک ہو گااتنا اتنا اللہ تعالیٰ کی کامل کتاب پر ایمان اور یقین بڑھتا جائے گا۔ اور یہی چیز ہے جو حق تلاوت ادا کرنے والی ہے۔ آنحضرتﷺ اس بارہ میں کیا نصیحت فرماتے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ کہ حضرت عُبیدہ مُلیکی رضی اللہ عنہ جو صحابہ ؓ میں سے ہیں یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے اہل قرآن! قرآن پڑھے بغیر نہ سو یا کرو اور اس کی تلاوت رات کواور دن کے وقت اس انداز میں کرو جیسے اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے۔ اور اس کو پھیلاؤ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھا کرو اور اس کے مضامین پر غور کیا کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان بحوالہ مشکاۃ المصابیح کتاب الفضائل کتاب فضائل القرآن حدیث نمبر2210)
پس اس آیت کی مزید وضاحت بھی ہو گئی کہ حق تلاوت ادا کرکے صرف گھاٹے سے ہی نہیں بچ رہے ہو گے جیسا کہ اس کے آخر میں لکھا ہوا ہے بلکہ ان لوگوں میں شامل ہو رہے ہوگے جو فلاح پانے والے ہیں۔ ان لوگوں میں شامل ہونے جا رہے ہو جو کامیابیاں حاصل کرنے والے ہیں۔ پھر ایک روایت میں حق تلاوت ادا کرنے والے کے مقام بلکہ اس کے والدین کے مقام کا بھی، جنہوں نے ایک بچے کو اس تلاوت کی عادت ڈالی، ذکر یوں ملتا ہے۔ سھل بن معاذ جُہنی ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا تو قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو دو تاج پہنائے جائیں گے جن کی روشنی سورج کی چمک سے بھی زیادہ ہو گی جو ان کے دنیا کے گھروں میں ہوتی تھی۔ پھر جب ان کے والدین کا یہ درجہ ہے تو خیال کرو کہ اس شخص کا کیا درجہ ہو گا جس نے قرآن پر عمل کیا۔ (ابوداؤد کتاب الوتر باب ثواب قراء ۃ القرآن حدیث نمبر 1453)
پس والدین کو بھی توجہ کرنی چاہئے کہ یہ اعزاز ہے جوبچوں کو قرآن پڑھانے پر والدین کو ملتا ہے۔ تو اپنے بچوں کو اس خوبصورت کلام کے پڑھانے کی طرف بھی توجہ دیں اور ان میں پڑھنے کی ایک لگن بھی پیدا کریں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا :وہ شخص جو قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس کا حافظ ہے وہ ایسے لکھنے والوں کے ساتھ ہو گاجو بہت معزز اور بڑے نیک ہیں۔ اور وہ شخص جو قرآن کریم کو پڑھتا ہے اور اس کی تعلیمات پر شدت سے کار بند ہوتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہے۔ (بخاری کتاب التفسیرباب سورۃ عبس حدیث نمبر 4937)
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : یقینا یہ دل بھی صیقل کئے جاتے ہیں جس طرح لوہے کے زنگ آلودہونے پر اسے صیقل کیا جاتاہے۔ کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول! اس کی صفائی کیسے کی جائے؟ یعنی دل کی صفائی کس طرح کی جاتی ہے۔ تو آنحضورﷺ نے فرمایا :موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کریم کی تلاوت کرنا۔ (الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلد نمبر3 باب التاسع عشر(وھو باب فی تعظیم القرآن) فصل فی ادمان تلاوۃ القرآن حدیث نمبر 1859۔ مکتبۃ الرشد۔ ریاض۔ طبع ثانی 2004ء)
پس موت کی یاد اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں رکھتی۔ اس پر یقین ہو کہ جزا سزا کا دن آنا ہے۔ اور قرآن کریم کی تلاوت، اس کا حق اداکرنے سے نیکیوں کی توفیق ملتی ہے۔ اس حق ادا کرنے کی وجہ سے ایک مومن اس دنیا میں بہترین اجر حاصل کرنے والا بن جاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لئے بہترین اجر ہوتا ہے۔ صاف دل ہو کر حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کی طرف ایک مومن کی توجہ رہتی ہے۔ آنحضرتﷺ کس طرح قرآن پڑھتے تھے؟ اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ کیونکہ بعض لوگ قرآن کریم جلدی جلدی پڑھنے میں زیادہ قابلیت سمجھتے ہیں جبکہ آنحضرتﷺ کا طریق اس سے بالکل مختلف تھا۔ اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے:
حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے نبیﷺ کی قرا ءت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد۔ کتاب الوتر باب استحاب الترتیل فی القراء ۃ حدیث نمبر 1465)
آنحضرتﷺ نے فرمایاہے قرآن کریم کے کئی بطن ہیں۔ یعنی اس کے الفاظ میں اتنے گہرے حکمت کے موتی ہیں کہ ہر دفعہ جب ایک غور کرنے والا اس کی گہرائی میں جاتا ہے تو نیا حسن اس کی تعلیم میں دیکھتا ہے۔ آنحضرتﷺ سے زیادہ تو کوئی اس گہرائی کا علم نہیں رکھ سکتاجو قرآن کریم کے الفاظ میں ہے۔ پس آپؐ جب ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے تو ان الفاظ کے مطالب، ان کے معانی، ان کی گہرائی کی تہ تک پہنچتے تھے۔ لیکن آپ کا یہ اسوہ ہمیں اس بات پر توجہ دلاتا ہے کہ قرآن کریم کو غور اور ٹھہر ٹھہرکر پڑھیں اور تدبر اور فکر کریں۔ اسی غور و فکر کی طرف توجہ دلانے کے لئے آپؐ نے اپنے ایک صحابی ؓ کو یوں تلقین فرمائی تھی۔
روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: قرآن کریم کی تلاوت ایک ماہ میں مکمل کیا کرو۔ اس پر میں نے عرض کیاکہ میں اس سے جلدی پڑھنے کی قوت پاتا ہوں۔ اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا :پھر ایک ہفتہ میں مکمل کیا کرو اور اس سے پہلے تلاوت قرآن مکمل نہ کرنا۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن باب فی کم یقرء القرآن حدیث نمبر 5054)
پس اگر وقت ہے تو پھر بھی اجازت نہیں کہ ایک ہفتہ سے پہلے قرآن کریم کا دور پورا مکمل کیا جائے کیونکہ فکر اور غور نہیں ہو سکتا۔ جلدی جلدی پڑھنا صرف مقصد نہیں ہے۔ اس بات سے صحابہ ؓ کے شوق تلاوت کا بھی پتہ لگتا ہے کہ ان کے نزدیک اس کی کتنی اہمیت تھی۔ اور یہ جو ہمارا زمانہ ہے اس زمانہ میں قرآن کریم کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ ترجیحات بدل گئی ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ میں نے قرآن کے لفظ میں غور کی تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبردست پیشگوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہو گی جب کہ اور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی۔ اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بُطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی‘‘۔ (الحکم جلد4نمبر37مورخہ17اکتوبر1900ء صفحہ5)
پس یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں اس کتاب کو پڑھنے سے مخالفین کے منہ بند کئے جا سکتے ہیں اور یہی اسلام کی عزت بچانا ہے۔ لیکن کیا صرف پڑھنا کافی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ بڑے واضح ہیں کہ ’اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے‘۔ یعنی قرآن کریم میں وہ دلائل ہیں جن سے اسلام کی عزت قائم ہو گی اور اُس جھوٹ کی جو مخالفین اسلام پرافتراء کرتے ہیں، جڑیں اکھیڑی جائیں گی۔ اور یہی اصول ہے جس سے اسلام کی عزت بچائی جائے گی۔ جھوٹ کا خاتمہ اس وقت ہو گا جب ہمارے ہر عمل میں اس تعلیم کی چھاپ نظر آ رہی ہو گی اور یہ چھاپ بھی اس وقت ہو گی جب ہم اس پر غور کرتے ہوئے باقاعدہ تلاوت کرنے والے بنیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں ‘‘۔ یعنی جوچاہتے ہیں کہ قرآن کریم کے بغیر فتح حاصل ہو جائے۔ ’’ صحابہ ؓ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو۔ دیکھو انہوں نے جب پیغمبر خداﷺ کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے، پورے ہو گئے۔ ابتداء میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں۔ لیکن رسول اللہﷺ کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایاجو صدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 409مطبوعہ ربوہ)
یہ آنحضرتﷺ کی اطاعت کیا تھی؟ یہ اس تعلیم پر مکمل طور پر عمل کرنے کی کوشش تھی جو آنحضرتﷺ پر اتری تھی۔ اور پھر ایک دنیا نے دیکھا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جس شہر میں آزادانہ طورپر پھر نہ سکتے تھے اور پھر ایک وقت آیا کہ جب اس شہر سے نکالے بھی گئے۔ اسی اطاعت اور اسی تعلیم پر عمل کرنے کی وجہ سے اس شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ آج بھی ہماری فتوحات اسی تعلیم پر عمل کرنے کی وجہ سے ہوں گی۔ انشاء اللہ۔
پھر اچھی آواز میں تلاوت کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے آنحضرتﷺ فرماتے ہیں۔ یہ ایک روایت ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قرآن کے حسن میں اپنی عمدہ آواز کے ساتھ اضافہ کیا کرو کیونکہ عمدہ آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کا موجب ہوتی ہے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب تفریع ابواب الوتر باب استحباب الترتیل فی القراء ۃ حدیث نمبر 1468)
اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سے پڑھنا چاہئے۔ بلکہ اس قدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور خود اس میں ایک اثر ہے۔ عمدہ تقریر خوش الحانی سے کی جائے تو اس کا بھی اثر ہوتا ہے۔ وہی تقریرژولیدہ زبانی سے کی جائے‘‘ یعنی کہ واضح طور پر نہ ہو’’تو اس میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جس شے میں خداتعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے اس کو اسلام کی طرف کھینچنے کا آلہ بنایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔ حضرت داؤدؑ کی زبور گیتوں میں تھی اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضرت داؤد ؑ خداتعالیٰ کی مناجات کرتے تھے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے‘‘۔ (ملفوظات جلد4 صفحہ524 مطبوعہ ربوہ)
تو اس خوش الحانی کا بھی مقصدہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا رکھا ہے ؟یہ کہ اس سے اسلام کی تبلیغ ہو۔ وہ لوگ جو اچھی آواز سے متاثر ہوتے ہیں ان کو متاثر کرکے پھر اس تعلیم کے اصل مغز سے آ گاہ کیاجائے۔ جس کتاب کا میں نے شروع میں حوالہ دیا ہے، اس میں اکثر عورتوں نے یہی ذکر کیا ہے کہ کیوں انہوں نے اسلام قبول کیا؟ اس کو سنا اور پھر جب اس کی تعلیم کو دیکھا تو ان کو پسند آئی۔ تو یہی بات جو انہوں نے کی ہے’ اس کی تعلیم ان کو پسند آئی، یہی قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ حقیقی تعلیم اور فطرت کے مطابق تعلیم اور ہدایت کے راستے قرآن کریم میں ہی ہیں۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَبِیۡرًا (بنی اسرائیل:10)
یعنی یقینا یہ قرآن اس (راہ) کی طرف ہدایت دیتا ہے جوسب سے زیادہ قائم رہنے والی ہے اور ان مومنوں کو جو نیک کام کرتے ہیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر (مقدر) ہے۔
پس یہ اعلان غیر مسلموں کے لئے بھی ہے اور مومنین کے لئے بھی۔ قرآن کریم کی ہدایت اور مقاصد بہت اعلیٰ ہیں۔ اور یہ ہدایت اور یہ شریعت ہمیشہ کے لئے ہے جبکہ پہلی شریعتیں نہ مکانی وسعت رکھتی تھیں نہ زمانی وسعت۔ نہ ہی ان میں کاملیت ہے، نہ ہی فطرت کے مطابق ہیں۔ پس نیک فطرت لوگوں کا اس کو قبول کرنا اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پس یہ پیغام ہے ہر غیر کے لئے جو ہم نے پہنچانا ہے کہ آئندہ اگر روحانی اور جسمانی انعامات حاصل کرنے ہیں تو یہی قرآن ہے جس کی تعلیم پر عمل کرکے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پھر مومنوں کو بشارت ہے کہ جب تک تمہارے عمل نیک رہیں گے، اعلیٰ مقاصد کے حصول کی کوشش کرتے رہو گے تو تمہارے انعام اس اعلیٰ عمل کے نتیجے میں بڑھتے بھی رہیں گے اور بہت اعلیٰ بھی ہوں گے۔
پس جیسا کہ میں پہلے شروع میں ذکر کر آیا ہوں کہ قرآن کریم کی تلاوت کا حق مومنین کے نیک اعمال کے ساتھ مشروط ہے۔ اس لئے اپنے اعمال کی حفاظت کرتے رہنا یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ایک مسلمان پر ڈالی گئی ہے۔ اور نہ صرف ہر مسلمان پر اپنی ذات کے بارے میں یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی اس انعام اور اس کے بڑے اجر سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ یہ نہ ہو کہ صرف اس بات پر فخر رہے کہ ہمیں وہ کتاب دی گئی ہے جس کا مقام سب پہلی شریعتوں سے اعلیٰ ہے بلکہ یہ فکر رہے کہ اس کی تعلیم اپنے اوپر لاگو کریں اور اپنے اوپر لاگو کرکے اس کے انعامات کے مستحق خود بھی ٹھہریں اور اپنی نسلوں میں کوشش کرکے اسی تعلیم اور حق تلاوت کو راسخ کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ یاد رکھیں اگر ہر احمدی نے اس اہم نکتے کو نہ سمجھا اور صرف اسی بات پر ہم اِتراتے رہیں کہ ہم قرآن کو ماننے والے ہیں تو جیسا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس سے بتایا ہے کہ قرآن ایسے پڑھنے اور ماننے والوں پر لعنت کرتاہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے لئے نیک اعمال کی بجا آوری اصل چیز ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا اصل چیز ہے اور جب تک ہم اس پر قائم رہیں گے ہدایت کے راستے نہ صرف خود پاتے رہیں گے بلکہ دوسروں کو بھی دکھاتے رہیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’یہ قرآن اس سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے جس میں ذرا کجی نہیں اور انسانی سرشت سے بالکل مطابقت رکھتی ہے اور درحقیقت قرآن کی خوبیوں میں سے یہ ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ ایک کامل دائرہ کی طرح بنی آدم کی تمام قویٰ پر محیط ہو رہا ہے اور آیت موصوفہ میں سیدھی راہ سے وہی راہ مراد ہے‘‘ جوآیت میں نے پڑھی تھی ’’کہ جو راہ انسان کی فطرت سے نہایت نزدیک ہے یعنی جن کمالات کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے ان تمام کمالات کی راہ اس کو دکھلا دینا اور وہ راہیں اس کے لئے میسر اور آسان کر دینا جن کے حصول کے لئے اس کی فطرت میں استعداد رکھی گئی ہے اور لفظ اَقْوَمْ سے آیت یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَم میں یہی راستی مراد ہے ‘‘۔ (کرامات الصادقین۔ روحانی خزائن جلد7 صفحہ54-53)
پھر آپ اس صحیفہ فطرت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’ قرآن کوئی نئی تعلیم نہیں لایا بلکہ اس اندرونی شریعت کو یاد دلاتاہے جو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی شکل میں رکھی ہے۔ حلم ہے۔ ایثار ہے۔ شجاعت ہے۔ صبر ہے۔ غضب ہے۔ قناعت ہے وغیرہ۔ غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی قرآن نے اسے یاد دلایا۔ جیسے فِیْ کِتَابٍ مَّکْنُوْنٍ۔ یعنی صحیفہ فطرت میں کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا۔ اسی طرح اس کتاب کا نام ’’ذِکْر‘‘ بیان کیا تا کہ وہ پڑھی جاوے تو وہ اندرونی اور روحانی قوتوں اور اس نور قلب کو جو آسمانی ودیعت انسان کے اندر ہے یاد دلا وے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بھیج کر بجائے خود ایک روحانی معجزہ دکھایا تاکہ انسان ان معارف اور حقائق اور روحانی خوارق کو معلوم کرے جن کا اسے پتہ نہ تھا‘‘۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ1897 ء صفحہ94)
قرآن کریم کو تدبر سے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔ حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظلّ تھے۔ سو تم قرآن کو تدبُّرسے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیارکہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا اَلْخَیْرُکُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اُس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدّق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے۔ اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے‘‘۔ (یعنی قرآن کے واسطے کے بغیر کوئی اور تمہیں ہدایت نہیں د ے سکتا) ’’خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے۔ اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے۔ پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے۔ یہ بڑی دولت ہے۔ اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی۔ قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں ‘‘۔ (کشتیٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ27-26)
پس یہ توقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک احمدی سے ہیں۔ قرآن کریم کے تمام احکامات کی پیروی کی کوشش ہی ہے جو ہمیں نجات کی راہیں دکھانے والی ہے۔ اس کے لئے ایک لگن کے ساتھ، ایک تڑپ کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ تقویٰ کے راستوں کی تلاش ہم نے کرنی ہے اور اسی مقصدکے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے تو پھر یہ تقویٰ انہی راستوں پر چل کر ہی ملے گا جن پر آنحضرتﷺ کے صحابہ ؓ چلے تھے۔ اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان کر دنیا میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے اور ایک انقلاب لانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنی حالتوں میں انقلاب لانا ہو گا۔ اپنی نسلوں میں انقلاب لانا ہو گا۔ اپنے ماحول کو اس روشن تعلیم سے آگاہ کرنا ہو گا۔ اس تعلیم سے اور اس پر عمل کرتے ہوئے ان لوگوں کے منہ بند کرنے ہوں گے جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں۔ جن کو یہ فکر پڑ گئی ہے کہ اسلام کی طرف کیوں دنیا کی توجہ ہے۔ جس کی تحقیق کے لئے دنیا کے مختلف ممالک میں جائزہ کے لئے پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ یہ اسلام کی خوبیاں تلاش کرنے کے لئے ریسرچ ہو رہی ہے یا تحقیق ہو رہی ہے کہ خوبیاں کیا ہیں جس کی وجہ سے ہمیں اسلام کا حسن نظر آئے تو یہ غلط فہمی ہے۔ یہ تحقیق اس لئے ہے کہ ان طاقتوں اور حکومتوں کو ہوشیار کیا جائے جو اسلام کے خلاف ہیں کہ اس رجحان کو معمولی نہ سمجھو اور جو کارروائی کرنی ہے کر لو۔ جو ظاہری اور چھپے ہوئے وارکرنے ہیں کر لواور اس کے لئے جو بھی حکمت عملی وضع کرنی ہے وہ ابھی کر لو، وقت ہے۔ پس ہر احمدی کی آج ذمہ داری ہے کہ اس عظیم صحیفہ الٰہی کی، اس قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا کریں۔ اپنے آپ کو بھی بچائیں اور دنیا کو بھی بچائیں۔ جن لوگوں کی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے لیکن احمدی نہیں ہوئے ان میں سے بہت سوں نے آخر حقیقی اسلام اور حق کی تلاش میں احمدیت کی گود میں آنا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس کے لئے ہر احمدی کو اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے۔ آج جب اسلام دشمن طاقتیں ہر قسم کے ہتھکنڈے اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر تُلی ہوئی ہیں، بیہودگی کا ایک طوفان برپا کیا ہوا ہے تو ہمارا کام پہلے سے بڑھ کر اس الٰہی کلام کو پڑھنا ہے، اس کو سمجھنا ہے، اس پر غور کرنا ہے، فکر کرنا، تدبر کرنا ہے اور پہلے سے بڑھ کر اس کلام کے اتارنے والے خدا کے آگے جھکنا ہے تاکہ ان برکات کے حامل بنیں جو اس کلام میں پوشیدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 15 شمارہ نمبر 13۔ مورخہ 28 مارچ تا 4 اپریل 2008ء صفحہ 5 تا 8)
قرآن اور اسلام کے خلاف مغرب کی ایک مہم اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کابیان اور ایک احمدی کا کردار۔
فرمودہ مورخہ 7مارچ 2008ء بمطابق7 امان 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔