عبادت کا بہترین ذریعہ نماز
خطبہ جمعہ 18؍ اپریل 2008ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
کل جلسہ سالانہ کی افتتاحی تقریر میں مَیں نے عبادت کی طرف توجہ دلائی تھی اور عبادت کا بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کو روزانہ پانچ نمازوں کی ادائیگی بتایا ہے اور اس بارہ میں خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار جگہ حکم فرمایا ہے بلکہ قرآن کریم کی ابتداء میں ہی یہ بتا دیا کہ ایک متقی کی نشانی اللہ تعالیٰ پر ایمان کے بعد یہ ہے کہ وہ باقاعدہ نماز کا حق ادا کرنے والا ہو۔ اور نماز کا حق ادا کرنا کیا ہے؟ نماز کا حق یہ ہے کہ اس کے مقررہ اوقات پر ادا کی جائے یعنی جہاں مسجد یا نماز سنٹرز ہوں وہاں جا کر باجماعت نماز کی ادا کی جائے۔ کسی دنیاوی کام کو کرنے کے لئے نمازوں کو جمع کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ عورتیں جن کو کوئی شرعی عذر نہ ہو گھر میں باقاعدہ نماز ادا کریں۔ عورتوں کے لئے نماز معاف نہیں ہے۔ پس ایک مسلمان کے حقیقی مومن کہلانے کے لئے نماز ایک انتہائی بنیادی حکم ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ نماز عبادت کا مغز ہے پس اس مغز کو حاصل کرنا ایک مومن کا مطمح نظر ہونا چاہئے۔ ان جلسے کے دنوں میں مَیں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمازوں کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے۔ مرد، عورتیں، بچے، بچیاں سب نماز کے لئے بڑی تعداد میں آرہے ہوتے ہیں۔ یہ عادت جو آپ کو اس ٹریننگ کیمپ میں پڑ رہی ہے اسے ہمیشہ جاری رکھیں۔ یہ نہ ہو کہ جب آپ گھروں کو واپس جائیں تو وہ سب کچھ بھول جائیں جو آپ نے یہاں سیکھا تھا جس میں نمازوں کی طرف توجہ بھی تھی۔ گھر کے کاموں میں، اپنی تجارتوں میں یا کھیل کود میں مشغول ہو کر اپنے اس پیدائش کے مقصد کو کہیں بھول نہ جائیں۔ جیسا کہ مَیں نے کل بتایا تھا کہ انسان کے اس دنیا میں آنے کا یہی مقصد قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی بعثت کا بہت بڑا مقصد یہی بتایا ہے کہ بندے اور خدا میں ایک زندہ تعلق قائم کیا جائے۔ پس ہر احمدی باقاعدہ نمازیں پڑھنے والا ہو اور ہونا چاہئے اور اس کی نمازیں ایسی نہ ہوں جو سر سے بوجھ اتارنے والی ہوں بلکہ ایک فرض سمجھ کر ادا کی جائیں جس کے بغیر زندگی بے کار ہے۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پوری دنیا کو احمدیت کی آغوش میں لے آئیں گے تو ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ احمدیت کیا ہے۔ احمدیت اصل میں قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق خداتعالیٰ جو واحد و یگانہ ہے اس کی حکومت لوگوں کے دلوں پر قائم کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکومت دلوں پر اس وقت قائم ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہر زمینی و آسمانی چیز سے بالا سمجھا جائے اور اس کی ہستی کو سب چیزوں سے بالا سمجھتے ہوئے حقیقی رنگ میں اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عبادت کی جائے۔
پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد ہم نے اپنے اندر ایک انقلابی تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اپنے تعلق کو اُس زندہ اور ہمیشہ قائم رہنے والے خدا سے نہ جوڑا تو ہمارا یہ دعویٰ بے معنی ہے۔ ہماری یہ بات غلط ہو گی کہ ہم اپنی تبلیغ کو ہرشخص تک پہنچا کر اس کو خداتعالیٰ کے قریب لے کر آئیں گے۔
اس زمانے میں مسیح موعودکے آنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس لئے کہ دنیا خدا کو بھلابیٹھی تھی۔ آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق قرآن کریم کی تعلیم باوجود اپنی چمک دمک کے دھند لا گئی تھی۔ اب دیکھیں دنیا میں کئی سو ملین مسلمان ہیں۔ ان میں سے کئی مسلمان ملک ایسے ہیں جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں، بے شمار دولت ان کے پاس ہے لیکن وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم نے ساری دنیا کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکانا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ ایک خونی اور تلوار کے زور سے اسلام پھیلانے والے مسیح کا انتظار کر رہے ہیں جو اَب نہیں آئے گا۔ لیکن آپ ایک چھوٹی سی جماعت ہیں لیکن آپ کا یہ فیض ہے اور ارادہ ہے کہ اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں گے۔
یہاں اس وقت افریقہ کے مختلف ملکوں کی جماعتوں کی نمائندگی ہے، برکینافاسو ہے، آئیوری کوسٹ ہے، لائبیریا ہے، گیمبیا ہے، گنی کونا کری ہے، کانگو ہے، اَور کئی ملک ہیں۔ ہر ملک میں جماعت کی تعداد ایسی نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ ہم تعداد اور مالی وسائل کے لحاظ سے اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ ان وسائل کی وجہ سے ہم اپنے ملکوں اور دنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑ دیں۔ ہاں ہمارے ساتھ ایک طاقت ہے جو تمام انبیاء کو بھیجتی ہے۔ اس ہستی کی مدد ہمارے ساتھ ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے، جس نے تمام انبیاء کو اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی آنحضرتﷺ کی غلامی میں بھیجا ہے جن کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ اسلام کی جس خوبصورت تعلیم کو مسلمان بھلا بیٹھے ہیں اسے حقیقی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرو تاکہ دنیا بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کے حسن سے آشنا ہو اور خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے والی بنے۔ ہم احمدی جو اتنے بڑے دعویٰ کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں تو ہمارا سب سے پہلا فرض بنتا ہے کہ اس خدا کے آگے جھکنے والے بنیں، اس سے دعائیں کریں۔ اور دعائیں کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ نمازیں ہیں اور یہ نمازیں اور دعائیں ہی ہیں جو ہمیں کامیابی سے ہمکنار کر رہی ہیں۔ ورنہ جیسا کہ مَیں نے کہا ہمارے پاس دنیاوی لحاظ سے تو کوئی ایسی طاقت نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ ہم دنیا کو فتح کر لیں گے اور نہ کبھی دین، دولت اور طاقت سے دنیا میں پھیلا ہے۔
اسلام پر اعتراض کرنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نعوذ باللہ تلوار سے پھیلا ہے جو بالکل غلط اور جھوٹا الزام ہے۔ کون سی دنیاوی طاقت تھی جنگ اُحد میں، جنگ بدر میں، جنگ احزاب میں جس نے مدد کی۔ نہ لڑنے کا پورا اسلحہ تھا، نہ کھانے کے لئے کوئی خورا ک تھی لیکن جس طاقت نے جتایا وہ آنحضرتﷺ کی دعائیں تھیں۔ آنحضرتﷺ کی وہ دعائیں ہی تھیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور فتح عطا فرمائی اور پھر آنحضرتﷺ کی قوت قدسی کی وجہ سے صحابہ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق تھا جس نے ان کے ایمانوں کومضبوط کیا۔ پس یہ اس فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تھیں جس نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ یہ اُسوہ آنحضرتﷺ نے ہمارے سامنے قائم فرما دیا کہ اسلام کی فتح کسی طاقت سے نہیں بلکہ دعاؤں سے ہونی ہے اور ہوئی ہے۔ طاقت سے ملک تو فتح ہو جاتے ہیں دل نہیں جیتے جاتے۔
پس آپ نے اپنے ہم قوموں کے دل جیتنے ہیں تاکہ انہیں خداتعالیٰ کے حضور پیش کر سکیں اور اس کے لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہو گا کہ اپنی نمازوں اور عبادتوں کی حفاظت کریں۔ یہ سال جس میں جماعت، خلافت کے 100سال پورے ہونے پر جوبلی منا رہی ہے، یہ جو بلی کیا ہے؟ کیا صرف اس بات پر خوش ہو جانا کہ ہم جوبلی کا جلسہ کر رہے ہیں یا مختلف ذیلی تنظیموں نے اپنے پروگرام بنائے ہیں، یا کچھ سوونیئرزبنا لئے گئے ہیں۔ یہ تو صرف ایک چھوٹا سا اظہار ہے۔ اس کا مقصد تو ہم تب حاصل کریں گے، جب ہم یہ عہد کریں کہ اس 100سال پورے ہونے پر ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اس نعمت پر جو خلافت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر اتاری ہے، ہم شکرانے کے طور پر اپنے خدا سے اور زیادہ قریبی تعلق پید اکرنے کی کوشش کریں گے۔ اپنی نمازوں اور اپنی عبادتوں کی حفاظت پہلے سے زیادہ بڑھ کرکر یں گے اور یہی شکر انِ نعمت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید بڑھانے والا ہو گا۔
قرآن کریم میں جہاں مومنوں سے خلافت کے وعدے کا ذکر ہے۔ اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰـوۃَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (النور:57) اور تم سب نمازوں کو قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اس رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ پس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ خلافت کے انعام سے فائدہ اٹھانے کے لئے قیام نماز سب سے پہلی شرط ہے۔ پس مَیں جو یہ اس قدر زور دے رہا ہوں کہ ہر احمدی، مرد، جوان، بچہ، عورت اپنی نمازوں کی طرف توجہ دے تو اس لئے کہ انعام جو آپ کو ملا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ آپ فائدہ اٹھا سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ کیا ہے اور آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق خلافت کایہ سلسلہ تو ہمیشہ رہنے والا ہے لیکن اس سے فائدہ وہی حاصل کریں گے جو خداتعالیٰ سے اپنی عبادتوں کی وجہ سے زندہ تعلق جوڑیں گے۔ پھر یہ جو آیت مَیں نے پڑھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز قائم کرنے کے ساتھ، عبادت میں اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑنے کے ساتھ تمہارے پر یہ بھی فرض ہے کہ مالی قربانی بھی کرو۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیوں میں گھانا کی جماعت بڑی تیزی سے قدم آگے بڑھا رہی ہے۔ یاددہانی کی ضرورت تو پڑتی رہتی ہے اور جب بھی یاددہانی کروائی گئی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا ردّ عمل ہوا۔ لیکن نوجوانوں اور نئے آنے والے نومبائعین کو ان کی تربیت کے لئے مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ جماعت میں مالی قربانی کا نظام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے نفس کی اصلاح کے لئے ہے۔ قرآن کریم میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی مالی قربانی کا ذکر ہے تاکہ اصلاح نفس ہو سکے۔ خداتعالیٰ کی خاطر وہی قربانی دے سکتا ہے جس کو خداتعالیٰ کی ذات پر یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نیکی، اس کا کوئی عمل جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کیا جائے ضائع نہیں کرتا۔
مَیں اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر ادا کرتا ہوں اور آپ کو بھی کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ گھانا کو یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مالی قربانی کرتی ہے۔ بعض مخلص اور صاحب حیثیت احمدیوں نے بڑی بڑی مسا جد تعمیر کی ہیں۔ ایک دنیا دار تو جب اس کے پاس دولت آ جائے اپنے مکان بنانے یا فضولیات میں رقم خرچ کرنے کی طرف توجہ کرتا ہے۔ لیکن آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے قادیان سے ہزاروں میل دُو ر بیٹھے ہوئے ایسے مخلصین عطا کئے ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی خاطر مالی قربانی کرنے کے لئے کھولا ہے۔ پس نئے شامل ہونے والے نومبائعین بھی اور نوجوان بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ مالی قربانی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے اور خلافت کے انعام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے خاص طور پر بیان فرمایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے رحم کے مستحق ٹھہرو۔ رسول کا حکم وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْاالرَّسُوْلَ کہہ کر ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ پاک معاشرے کے قیام کے لئے میری عبادت کے بعد ان تمام باتوں پر عمل کرو جومَیں نے تمہیں قرآن کریم میں بیان کی ہیں۔ پھر اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْاالرَّسُوْلَ میں یہ بات بھی ہے کہ جو مسیح و مہدی آنے والا ہے وہ آنحضرتﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر حقیقی رنگ میں عمل کرنے اور کروانے والا ہو گا۔ وہ حَکَم اور عدَل ہو گا۔ وہ جن باتوں کا تمہیں حکم دے وہ یقینا عدل پر قائم رہتے ہوئے حکم دے گا۔ اس کا حکم یقینا حکمت لئے ہوئے ہو گا۔ اس لئے اُس کی باتوں کو سرسری نظر سے نہ دیکھنا۔
اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جن کو کھول کر ہمیں بیان فرمایا ان میں سے اس وقت مَیں ایک کے حوالے سے بات کروں گا اور وہ بات ہے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے حوالے سے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اس بات پہ خاص طور پر توجہ دلائی ہے کہ احمدی لڑکیاں احمدی لڑکوں سے شادی کریں تاکہ آئندہ نسلیں احمدیت پر قائم رہیں۔ جب بچوں کے دو کشتیوں میں پاؤں ہوں تو بچے کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کرے۔ کیونکہ عموماً باپوں کا اثر زیادہ ہوتا ہے اگر باپ احمدی نہیں ہے تو باوجود ماں کے احمدی ہونے کے بچہ بعض دفعہ احمدی نہیں رہتا۔ بلکہ بعض دفعہ دونوں کے دو مختلف مذہب ہونے کی وجہ سے بچہ مذہب سے ہی دُور چلا جاتا ہے۔ اسی طرح احمدی لڑکوں کو بھی چاہئے کہ احمدی لڑکیوں سے شادی کریں جن کو ایک تو وہ غیروں سے شادی کرکے احمدی لڑکی کو اس کے حق سے محروم کرتے ہیں۔ دوسرے پھریہاں وہی دو عملی کی صورت پید اہو جائے گی اور بچے متاثر ہوں گے۔
پس اگر آپ نے اس ایمان پر اپنے بچوں کو قائم رکھنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے تو پھر صرف اپنی پسند کو نہ دیکھیں بلکہ دین کو دیکھیں۔ مجھے کئی لڑکیاں خط لکھتی ہیں یہاں بھی اور دوسرے افریقن ملکوں سے بھی کہ گو کہ ہماری پسند کا رشتہ توغیروں میں ہے لیکن آپ بتائیں کہ ہم اس سے شادی کر سکتی ہیں کہ نہیں۔ ان بچیوں کا یہ پوچھنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں اپنا دین اپنی پسندسے زیادہ پیارا ہے۔
پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب تک آپ اس بات کو پلّے باندھے رکھیں گی کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے اس وقت تک آپ اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے فیض پاتی رہیں گی اور اسی طرح لڑکے بھی فیض پاتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بنتے رہیں گے۔ پس خلافت احمدیہ کے 100سال پورے ہونے پر ہر احمدی یہ عہد کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو سب سے اوّل رکھے گا۔ اس کی عبادت اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے ہوئے عہد بیعت کو ہمیشہ نبھانے کی کوشش کرے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’سو اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو۔ اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو۔ یقینا یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے‘‘۔ (کشتی ٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ15)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔ اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکینت تم پر اترے گی اور رُوح القدس سے مدد دئیے جاؤ گے اور خدا ہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہو گا اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 68)
اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں ایمان پر قائم رکھے۔ اپنی عبادت کرنے والا بنائے رکھے۔ اپنے فضلوں سے ہمیں نوازتا رہے اور ہم ہمیشہ اس کے انعاموں کے وارث بنتے چلے جائیں۔ (نوٹ: حضور انور کے خطبہ کے دوران ساتھ ساتھ دو زبانوں میں رواں ترجمہ بھی پیش کیا جاتا رہا۔ مکرم عبدالوہاب بن آدم صاحب امیر و مشنری انچارج کو مقامی غانین زبان میں جبکہ مکرم عبدالرشید انور صاحب مبلغ سلسلہ آئیوری کوسٹ کو فرانسیسی زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔)
(الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 19، مورخہ 9 مئی تا 15 مئی 2008ء صفحہ 5 تا 7)
نماز کی برکات اور اہمیت، یہ نمازیں اور دعائیں ہی ہیں جو ہمیں کامیابی سے ہمکنارکررہی ہیں اس کے سوا ہمارے پاس دنیاوی دولت کی کوئی طاقت نہیں ہے اور نہ ہی دین کبھی دولت اور طاقت سے پھیلاہے۔ پس آپ نے اپنے ہم قوموں کے دل جیتنے ہیں تاکہ انہیں خداتعالیٰ کے حضور پیش کر سکیں اور اس کے لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہو گا کہ اپنی نمازوں اور عبادتوں کی حفاظت کریں۔
یہ سال جس میں جماعت، خلافت کے 100 سال پورے ہونے پر جوبلی منا رہی ہے، یہ جو بلی کیا ہے ؟ کیا صرف اس بات پر خوش ہو جانا کہ ہم جوبلی کا جلسہ کر رہے ہیں یا مختلف ذیلی تنظیموں نے اپنے پروگرام بنائے ہیں، یا کچھ سوونیئرزبنا لئے گئے ہیں۔ یہ تو صرف ایک چھوٹا سا اظہار ہے۔ اس کا مقصد تو ہم تب حاصل کریں گے، جب ہم یہ عہد کریں کہ اس 100 سال پورے ہونے پر ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اس نعمت پر جو خلافت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر اتاری ہے، ہم شکرانے کے طور پر اپنے خدا سے اور زیادہ قریبی تعلق پید اکرنے کی کوشش کریں گے۔ اپنی نمازوں اور اپنی عبادتوں کی حفاظت پہلے سے زیادہ بڑھ کرکر یں گے اور یہی شکر انِ نعمت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید بڑھانے والا ہوگا۔
فرمودہ مورخہ 18؍اپریل 2008ء بمطابق18؍شہادت 1387 ہجری شمسی برموقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ گھانا بمقام باغ احمد گھانا
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔