مساجد کی تعمیر اور مالی قربانی
خطبہ جمعہ 25؍ اپریل 2008ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورٹونووو کی اس مسجدمیں ہم نماز جمعہ ادا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ توفیق دی کہ ایسی خوبصورت اور وسیع مسجد بنائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں جمع ہو سکیں۔ گزشتہ دورے میں جب مَیں آیا تھا تو کوتونو کی خوبصورت اور بڑی مسجد کا افتتاح کیا تھا۔ جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ وہ ہمیں توفیق دے رہا ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں، ہر شہر میں مسجدوں کی تعمیر کریں۔ افریقہ کے غریب ممالک کے دُور دراز کے علاقوں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں اور قصبوں میں بھی مسجد کی تعمیر ہو رہی ہے اور بڑے شہروں میں بھی مساجد بن رہی ہیں۔ اسی طرح یورپ اور دوسرے مغربی ممالک میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد تعمیر ہو رہی ہیں۔ ہر جگہ جماعت بڑی قربانیاں کرکے مسجدیں بنا رہی ہے۔ جماعت احمدیہ کے پاس نہ تو تیل کی دولت ہے، نہ کسی اور ذریعہ سے ہم دولت جمع کرتے ہیں، ہاں ایمان کی دولت ہے جس کی وجہ سے احمدی قربانی کرتے ہیں۔ پس آپ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اس دولت کی ہمیشہ حفاظت کرنی ہے۔ یہ ایک ایسا بے بہا خزانہ ہے جس کوچھیننے کے لئے ہر راستے پر چور، اچکے اور ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ ان لوگوں سے ہماری راتیں محفوظ ہیں، نہ ہمارے دن محفوظ ہیں بلکہ یہ ڈاکو شیطان کی صورت میں ہمارے خون میں دوڑ رہا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات سے ہوشیار کیا کہ شیطان جو تمہاری رگوں میں دوڑ رہا ہے اس سے بچو۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ آدم کی پیدائش کے وقت بھی شیطان نے یہ عہد کیا تھا کہ مَیں انسانوں کو ضرور ان کے راستے سے بھٹکاؤں گا۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایمان کی دولت ایسی دولت ہے جس کی حفاظت سب سے مشکل کام ہے۔ باقی دنیاوی دولتوں کے لئے تو آپ بنیادی حفاظت کے سامان کر سکتے ہیں۔ تالے لگا سکتے ہیں، پہرے بٹھا سکتے ہیں۔ لیکن یہ دولت ایسی ہے جس کی حفاظت کے لئے مسلسل اپنے نفس کی پاکیزگی کے سامان کرنے اور مسلسل جہاد کرنا پڑتا ہے۔ جس کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو تلاش کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ہر راستے پر بیٹھے شیطان نے انسان کو ورغلاناہے۔ شیطان نے تو پہلے دن سے کہہ دیا تھا کہ جس فطرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہے وہ ہمیشہ دنیاداری کی طرف اور لالچ کی طرف جھکتا چلا جائے گا۔ اس نے یہ اعلان کیا تھا کہ انسان میری باتیں مانیں گے۔ عارضی خواہشات اور دنیاداری ان انسانوں کو اللہ تعالیٰ سے دور لے جائے گی اور اکثریت خداتعالیٰ کی ناشکرگزار ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو یہی کہا تھا کہ ایسے ایمان ضائع کرنے والے اور ناشکر گزار لوگوں سے مَیں جہنم کو بھر دوں گا۔ پس ایک مومن کے لئے یہ دنیا ایسی ہے جس میں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے، اپنے ایمانوں کی حفاظت کی ضرورت ہے اور ایمان کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے بغیر ناممکن ہے۔
پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ عبادالرحمن بنے۔ اُس رحمن خدا کے آگے جھکنے والا بنے جس نے بے شمار انعامات سے ہمیں نوازا ہے۔ ان انعامات میں سے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خوبصورت مسجدہمیں عطا فرمائی ہے۔ ہر مسجد کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ہم خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کے لئے یہاں جمع ہوں۔ پس شکر گزاری کا ایک بہت بڑا طریق یہ ہے کہ اس مسجد کو ہمیشہ آباد کرنے کی طرف ہماری توجہ رہے۔ جماعت کی ہر مسجد ہمیں آباد نظر آنی چاہئے اور مسجد کی آبادی کیا ہے؟جیسا کہ مَیں نے کہا مسجد کی آبادی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے پانچ وقت مسجد میں آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے مسجد میں حاضر ہونا ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ مسجد میں آ کر نماز پڑھنے کا ثواب 27 گنا زیادہ ہے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ مسجد بنانے کا حق تبھی ادا ہو گا جب اس نیت سے آیا جائے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی اور خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے جمع ہونا ہے تو پھر ہی حقیقی ثواب ہو گا۔ تبھی ایک مومن اپنی پیدائش کے حق کو ادا کرنے والا کہلائے گا۔ اس مقصد کو پورا کرنے والا کہلائے گا جس کے لئے خداتعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذاریات: 57) کہ مَیں نے جنّوں اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ پس چاہے کوئی بڑے رتبے والا آدمی ہے، بڑے جاہ و جلال والا آدمی ہے، کوئی بہت امیر آدمی ہے یا کوئی غریب آدمی ہے، اللہ تعالیٰ نے دونوں طرح کے لوگوں کی پیدائش کا مقصد یہی بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور یہ مساجد اسی لئے ہیں کہ تا تمام امیر و غریب ایک جگہ جمع ہوں اور تمام دنیاوی رشتوں کو ایک طرف رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور عبادت کے لئے صف بستہ ہو جائیں تاکہ ایک جان ہو کر، ایک جماعت ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس کا فضل تلاش کریں اور جب اس طرح ایک جان ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے تاکہ اس کے فضلوں کی بارش پہلے سے بڑھ کر ہو تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسی عبادتوں کا ثواب 27گنا بڑھا دیتا ہے۔ اگر دل میں یہ ہو کہ مَیں نے فلاں کے ساتھ کھڑے ہونا ہے یا فلاں کے ساتھ کھڑے نہیں ہونا یا فلاں شخص نے ابھی بیعت کی ہے اس کا مقام مجھ سے کم تر ہے توباوجود اس کے کہ مسجد میں عبادت کے لئے آتے ہیں اس ثواب کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ جہاں آنحضرتﷺ نے یہ فرمایا کہ مسجد میں نماز کا ثواب 27گنا ہے، وہاں یہ بات بھی آنحضرتﷺ نے فرمائی کہ اِنَّمَاالْا َعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ کہ ہر عمل کا ثواب اس کی نیت پر ہے۔ اگر نیت نیک نہ ہو تو باوجود بظاہر نیک عمل کے اللہ تعالیٰ ثواب روک بھی لیتاہے۔ پس ہر فعل کا ثواب اس صورت میں ہے جب نیتیں نیک ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا کہ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ یعنی ایسے نماز پڑھنے والوں پر ہلاکت ہو۔ یہ ہلاکت اس لئے ہے کہ نماز کے اصل مقصد کو بھول جاتے ہیں، ان کی نیتوں میں کھوٹ ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات نہیں ہوتے۔ دنیاداری کے خیالات دماغ میں پھرتے رہتے ہیں۔ پس نمازوں سے فیض پانے کے لئے اپنے خیالات کو پاک کرنا بھی ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس نماز میں دل کہیں ہے اور خیال کسی طرف ہے اور منہ سے کچھ نکلتا ہے وہ ایک لعنت ہے جو آدمی کے منہ پہ واپس ماری جاتی ہے اور قبول نہیں ہوتی۔ آپؑ نے فرمایا نماز وہی اچھی ہے جس میں مزا آتا ہے۔ ایسی ہی نماز کے ذریعہ سے گناہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ نماز ہے جس کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے، نماز ہر مومن کے واسطے ترقی کا ذریعہ ہے۔ پس ایسی نمازیں ہیں جو ہمیں پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ایسی نمازیں پڑھنے کی نیت سے ہمیں مسجد میں آنا چاہئے۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہماری ذاتی ترقی بھی اور جماعتی ترقی بھی خداتعالیٰ کے فضل سے ہی ہونی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، اپنے مقصد پیدائش کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ خاص طور پر مسجدوں میں اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم نے کوئی دنیاداری کی بات یہاں نہیں کرنی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی ہے۔ مسجد میں آتے وقت جب یہ صورت ہوگی اور جب ہر شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مسجد میں آ رہا ہو گا تو دوسرے کے متعلق اگر کوئی دل میں برا خیال بھی ہے تو وہ اسے جھٹکنے کی کوشش کرے گا اور ان نمازوں اور عبادتوں کی برکت سے مسجد سے باہر بھی پیار، محبت اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے والی باتوں کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ دلوں کی ناراضگیوں اور کینوں سے نجات مل جائے گی۔
پس یہ مسجدیں بنانے کا فائدہ تبھی ہے جب اس نیت سے مسجد بنائی جائے اور اس نیت سے مسجد میں عبادت کے لئے جایاجائے کہ ہم نے اپنے دلوں کو خداتعالیٰ کی خاطر پاک صاف رکھنا ہے۔ ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بے شمار مسجدیں ہیں۔ کئی مسجدیں ہیں جن میں خطبوں میں خطیب ایک دوسرے فرقہ پر گالیوں اور نہایت گندے الفاظ کے استعمال کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے ہوتے۔ دنیا میں کئی مسجدوں میں جماعت کو بھی گالیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پھر مسجدوں میں بعض دفعہ خود اپنے اندر سے ہی دو گروہ لڑ پڑتے ہیں اور اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ حکومت کو دخل اندازی کرکے مسجدوں کو تالے لگانے پڑتے ہیں۔ تو کیا ایسی مسجدیں ثواب کا ذریعہ بن رہی ہیں؟ ایسے لوگ تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ پس مسجد بنانا اور اس کو خوبصورت بنانا کوئی ایسی بات نہیں جس پر بہت زیادہ خوش ہوا جائے۔ اگر حقیقی خوشی حاصل کرنی ہے تو اس صورت میں ممکن ہے جب خوبصورت دل رکھنے والے اور نیک نیت، پیار اور محبت پھیلانے والے اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے نمازی پیدا کئے جائیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد بندے کو خداتعالیٰ کے قریب کرنا ہے۔ آپس میں محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔ اگر ہم اس مقصد کے حصول کی کوشش نہیں کر رہے تو ہمارا احمدی کہلانا بے مقصدہے۔
مَیں نے کل جلسے پر بھی بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو وہی پیارا ہے جو تقویٰ میں ترقی کرنے والا ہے۔ اور تقویٰ میں ترقی کے لئے اس نے ہمیں جو راستے سکھائے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اسی طرح اس کے دوسرے حقوق کی ادائیگی بھی ہے اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی بھی ہے۔ پس ہم احمدیوں کو ہمیشہ ان حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ رکھنی چاہئے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کس قدر احسان ہے کہ اس نے زمانہ کے امام کو ماننے کی ہمیں توفیق عطا فرمائی۔ دنیا جب آپس میں فساد میں مبتلاہے ہمیں ایک جماعت میں پرویا ہواہے۔ پس اس احسان کا شکر گزار ہوتے ہوئے اپنی عبادتوں کے معیار کو بلند کرنا ہمارا فرض ہے۔ آپس میں پیار اور محبت اور بھائی چارے کو پہلے سے بڑھا کر تعلق کا اظہار کرنا ہمارا فرض ہے۔ اپنے دلوں کو ایک دوسرے کے لئے بالکل پاک صاف کرنا ہمارا فرض ہے۔ نئے بیعت کرنے والے، نومبائعین کو اپنے اندر پیار و محبت سے جذب کرنا ہمارا فرض ہے۔ اگر ہم یہ تمام باتیں نہیں کر رہے تو یہ بڑی بدقسمتی ہو گی۔
پس ہر ایک احمدی کو اس کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے، بلکہ یہ بات پلّے باندھنی چاہئے کہ ہم اس نبیﷺ کے ماننے والے ہیں جس کا اوڑھنا، بچھونا، سونا، جاگنا، مرنا، جینا سب اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے تھا۔ ہم بھی اُس وقت حقیقی مومن کہلائیں گے یا کہلانے والے بن سکیں گے جب ہم اس اُسوہ کو اپنائیں گے۔ جب ہمارا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو گااور جب یہ ہوگا تو ہماری عبادتیں بھی قبول ہوں گی اور ہمارے دوسرے اعما ل بھی قبول ہوں گے۔ ہمارے اندربھی پر امن فضا رہے گی اور ہم دوسروں کو بھی حقیقی امن اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے والے بن سکیں گے۔ ہماری تبلیغ کے نتائج بھی کامیاب ہوں گے اور ہم اللہ تعالیٰ کے انعامات کو پہلے سے بڑھ کر حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ یہ مسجد ہر لحاظ سے یہاں جماعت کے لئے بابرکت کرے اور ہمیں اس کے بہترین ثمرات سے نوازے۔
اب مَیں ایک انتظامی بات بھی یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں جو ذیلی تنظیموں سے متعلق ہے۔ یعنی انصار، خدام اور لجنہ۔ ان ذیلی تنظیموں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر تنظیم کی ذمہ داری صرف اپنی متعلقہ تنظیم کی حد تک ہے۔ انصاراللہ نہ لجنہ اماء اللہ، نہ خدام الاحمدیہ کے معاملات میں دخل دے سکتے ہیں اور نہ ہی جماعتی پروگراموں اور جماعتی معاملات میں۔ اسی طرح خدام اور لجنہ صرف اپنے دائرہ کار میں محدود ہیں اور جماعتی نظام ان تمام تنظیموں سے بالا ہے۔ یہ بات بھی واضح ہو کہ ذیلی تنظیمیں اپنے معاملات میں براہ راست خلیفہ ٔوقت کے ماتحت ہیں۔ لیکن اپنے پروگرام بناتے وقت امیر سے مشورہ کر لیا کریں تاکہ جماعتی پروگراموں کے ساتھ ٹکراؤ نہ ہو۔ دوسرے یاد رکھیں کہ ذیلی تنظیم کا ہر ممبر جماعت کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے جماعتی نظام کا پابند ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو محبت اور پیار سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ذاتی اَناؤں سے بچائے، خداتعالیٰ کی رضا کا حصول آپ کا مقصد ہو۔ آمین
(الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 20۔ مؤرخہ 16 مئی تا 22 مئی 2008ء صفحہ 5 تا 6)
فرمودہ مورخہ 25؍اپریل 2008ء بمطابق25؍شہادت 1387 ہجری شمسی بمقام پورٹونووو (بینن۔ مغربی افریقہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔