صفت رزاق کی پرمعارف تفسیر

خطبہ جمعہ 6؍ جون 2008ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت رزّاق ہے۔ مختلف اہل لغت نے اس صفت کے جو معنی کئے ہیں، وہ مَیں بیان کرتا ہوں۔ علامہ جمال الدین محمد کی لغت لسان العرب ہے، وہ اَلرَّازِق وَالرَّزَّاق کے تحت لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کیونکہ وہی تمام مخلوق کو رزق دیتا ہے اور وہی ہے جو مخلوقات کو ظاہری اور باطنی رزق عطا کرتا ہے۔

اَقْرَبُ الْمَوَارِد ایک لغت کی کتاب ہے، اس میں بھی اَلرَّزَّاق کے تحت لکھا ہے کہ لفظ رَزَّاق صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے، غیر اللہ کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔

اسی طرح مفردات امام راغب میں یہ لکھا ہے کہ رزّاق صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہی بولا جاتا ہے۔ امام راغب عموماً قرآنی آیات کی روشنی میں اپنی لغت کی بنیاد رکھتے ہیں، اسی بنیاد پر معنی بیان کرتے ہیں۔ بہرحال بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ رزّاق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کے معنی کیا ہیں؟ مختلف اہل لغت نے کیا معنی کئے ہیں۔ عموماً ہم یہ لفظ استعمال کرتے ہیں، ہماری زبان میں استعمال ہوتا ہے، اُردو میں بھی، پنجابی میں بھی، لیکن بڑے محدود معنوں کے لحاظ سے جبکہ اس کے معنوں میں بڑی وسعت ہے۔

لفظ رزق کے تحت امام راغب نے اس کے تین معنی بیان کئے ہیں، ایک یہ کہ رزق مسلسل ملنے والی عطا کو کہتے ہیں خواہ وہ دنیا کی عطا ہو یا آخرت کی عطا ہو۔ دوسرے یہ کہ کبھی ’’حصّہ‘‘ کے لئے ’’رزق‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ حصّہ میں اچھائی بھی ہوسکتی ہے اور برائی بھی ہو سکتی ہے۔ تیسرے یہ کہ کبھی خوراک کو بھی رزق کہتے ہیں جو پیٹ میں جاتی ہے اور غذا کا کام دیتی ہے۔

پھرلسان العرب کے مطابق ہر اس چیز کو رزق کہتے ہیں جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو۔ اس کا مطلب عطا کرنا بھی ہے۔ بارش کو بھی رزق کہتے ہیں۔ اَقْرَبُ الْمَوَارِد کے مطابق ہر وہ چیز جس سے فائدہ اٹھایا جائے وہ رزق ہے، تنخواہیں وغیرہ یہ سب رزق میں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی مختلف آیات میں رزق کا جو لفظ استعمال کیا ہے، وہ چند آیات پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ ہود میں فرماتا ہے کہ وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْا َرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَ مُسْتَوْدَعَھَا۔ کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ (سورۃ ھود:7) کہ زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ پر ہے اور وہ اس کا عارضی ٹھکانہ بھی جانتا ہے اور مستقل ٹھہرنے کی جگہ بھی۔ ہر چیز ایک کھلی کھلی کتاب میں ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑے زور دار طریقہ سے یہ اعلا ن فرمایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اس د نیا میں موجود ہر جاندار کو رزق مہیا کرتا ہے۔ ہر چرند پرند بلکہ کیڑے مکوڑے اور ایسے چھوٹے چھوٹے کیڑے بھی جنہیں کھانے کی حاجت ہے اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انہیں خوراک مہیا کرتا ہے۔ زمین میں ہزاروں لاکھوں قسم کے کیڑے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لئے اس زمین کے اندر سے خوراک مہیا کر دی ہے۔ پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کا رزق مہیا کرنا کہ ایسے بھی کیڑے ہیں جن کا گو کہ تحقیق سے پتہ چل گیا ہے، اللہ تعالیٰ جنہیں رزق مہیا کرتا ہے، خوراک مہیا کرتا ہے اور کئی ایسے ہیں جن کے بارہ میں ابھی انسان اندھیرے میں ہے کہ کس طرح انہیں خداتعالیٰ رزق مہیا کرتا ہے۔

پھر انسان فصلیں اگاتا ہے۔ مختلف قسم کی فصلیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ ان کا اگر ایک حصہ انسان اپنی خوراک کے لئے استعمال کرتا ہے تو دوسرا حصہ دوسرے جانوروں کے کام آ جاتا ہے۔ غرض کہ ہر ایک کو رزق مہیا کرنے والا خدا ہے۔ اور صرف مادی رزق نہیں جو اس مادی زندگی کے لئے ضروری ہے بلکہ جیسا کہ لغت میں ہم نے دیکھا ہر قسم کی عطا چاہے وہ دنیا کی ہو یا آخرت کی، رزق کہلاتا ہے اور آخرت کا رزق صرف انسان کے لئے ہے جو اشرف المخلوقات ہے۔ اور آخرت کے رزق کی بنیاد روحانیت ہے اور نیک اعمال کرنا اور نیک اعمال کی وجہ سے نیک جزا اس دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی اس کو ملتی ہے، جس کی انتہا آخرت میں جا کر ہوتی ہے۔ اور اس کے لئے، اس آخرت کے رزق کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں سامان بہم پہنچائے ہیں۔ وہ رزق بھی اللہ تعالیٰ یہاں مہیا فرماتا ہے جو روحانی نشوونما کا باعث بنے۔ اس کے لئے انبیاء آتے ہیں، آتے رہے تاکہ وہ روحانی رزق بھی مخلوق کو دیتے رہیں اور آخر میں آنحضرتﷺ کے ذریعہ خداتعالیٰ نے ایسا بہتر روحانی رزق ہمیں عطا فرمایاجو ہمیشہ کے لئے ہے۔ نہ اس کے باسی ہونے کا خطرہ ہے اور نہ ختم ہونے کا خطرہ ہے۔

اس آیت میں رزق کے بارے میں بیان کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ عبادت اور نیک اعمال کی طرف توجہ دلا رہا ہے اور واضح کیا ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف ہی تمہارا لوٹنا ہے۔ جہاں اس دنیا میں جو بہترین روحانی رزق حاصل کرنے والے تھے، وہ لوگ اس کے اَور بھی اعلیٰ معیار حاصل کرنے والے ہوں گے جنہوں نے نیک اعمال بجالائے ہوں گے۔ مادی رزق اور تمام جانداروں کی مثال دینے کا مطلب یہ ہے کہ مادی رزق پر غور کرنے والا جب اس بات کے ماننے پر مجبور ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اصل رازق ہے۔ اور اس عارضی زندگی کے لئے جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر اس قدر مہربان ہے تو جو ہمیشہ کی زندگی ہے اس کے لئے رزق کیوں مہیا نہیں کرے گا۔

پس اللہ کی عبادت اور نیک اعمال بھی ایسا ہی رزق ہیں جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے ضروری ہیں اور انسان کو جو اشرف المخلوقات ہے اور مخلوق میں صرف اسی کے ساتھ دائمی اور آخری زندگی کا وعدہ ہے تو اسے اپنی روحانیت کی طرف اس وجہ سے توجہ دینی چاہئے۔ ایک مومن کے لئے قرآن کریم نے کھول کر رزق کے حصول کے ذریعے بتائے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ رزق معیار کے لحاظ سے بھی اور مقدار کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے ذریعہ ہمیں بھیجا ہے اور انسانوں کو قرآن کریم نے مختلف جگہوں پر اس طرف توجہ دلائی کہ تمہارے لئے روحانی رزق اُتارا گیا ہے اس کی قدر کرو کیونکہ یہ ناقدری جب حد سے بڑھتی ہے تو پھر بعض دفعہ اس دنیا میں ہی انسان مادی رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتا ہے کہ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَارَغَدًامِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَاکَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(النحل:113) اور اللہ ایک ایسی بستی کی مثال بیان کرتا ہے جو بڑی پُرامن اور مطمئن تھی۔ اس کے پاس ہر طرف سے اس کا رزق بافراغت آتا تھا۔ پھر اس کے مکینوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا اُن کاموں کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے۔

اب یہ جو مثال جو دی گئی ہے، یہ مکّہ کی مثال ہے۔ باوجود اس کے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃو السلام کی دعائیں ہی رزق مہیا کرنے والی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے باوجود جو اللہ تعالیٰ نے کئے تھے آنحضرتﷺ کے انکار کی وجہ سے ان پر بھوک اور سختی کے دن آئے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ بھوک سے بے چین ہو گئے۔ جب تک آنحضرتﷺ ان میں رہے اُن کی یہ حالت نہ ہوئی۔ ہر طرف سے رزق مکّہ میں آتا تھا۔ لیکن آنحضرتﷺ کی ہجرت کے بعد ایک دفعہ مکّہ میں ایسا قحط پڑا کہ سب کو زندگی کے لالے پڑ گئے اور ابو سفیان جو اسلام اور آنحضرتﷺ کا جانی دشمن تھا آنحضرتﷺ کے پاس مدینہ میں آیا اور بڑی لجاجت سے درخواست کی کہ خدا کے حضور دعا کریں کہ ہماری بھوک اور افلاس اور خوف اور قحط کی حالت کو اللہ تعالیٰ ختم کر دے۔ کہنے لگا کہ کیا آپؐ اپنے بھائیوں کی دل میں ہمدردی نہیں رکھتے کہ انہیں اس طرح خوف اور بھوک کی حالت میں مر جانے دیں گے! آنحضرتﷺ تو محسن انسانیت تھے۔ آپ تو محبت اور ہمدردی کے پیکر تھے۔ آپؐ نے یہ نہیں کہا کہ تم ہمارے دشمن ہو، تم نے مسلمانوں کو جس بے دردی سے ظلم کا نشانہ بنایا ہے تم اس بات کے سزاوار ہو کہ تمہارے سے یہ سلوک کیا جائے بلکہ آپؐ کا نرم دل فوراً اہل مکّہ کے لئے ہمدردی کے جذبات سے مغلوب ہو گیا اور آپؐ نے ان کے قحط کے حالات ختم ہونے کے لئے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور وہ حالات ختم ہوئے۔ تو دشمن یہ جانتا تھاکہ آپؐ سچے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپؐ کے پاس آنا اور دعا کی د رخواست کرنا۔ اور یہ بھی جانتا تھا کہ جس روحانی رزق کو مہیا کرنے کے آپ دعویدار ہیں مادی رزق بھی اُسی خدا سے وابستہ ہے جس نے آپؐ کو بھیجا ہے۔ لیکن پھر بھی مخالفت سے باز نہیں آئے اور بعد میں اپنی مخالفت میں بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فتح مکّہ کے سامان پیدا فرمائے اور سب زیر نگیں ہو گئے۔

اس زمانے میں بھی رزق کی کمی تھی۔ آج بھی یہ دنیا کو سوچنا چاہئے کہ آج کل بھی خوراک کی کمی اور مہنگائی کا شور ہے۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر یہ حالات پرانے زمانے میں ہوسکتے تھے تو اب نہیں ہو سکتے؟ کیا یہ روحانی رزق کی طرف تو عدم توجہ نہیں؟ جس کی وجہ سے یہ حالات ہیں۔ امریکہ میں بھی جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے، معاشی لحاظ سے مضبوط سمجھا جاتا ہے اپنی خوراک کی کمی اور معاشی گراوٹ کا شور پڑ گیا ہے۔ وہ ان حالات میں اس کو بہتر نہیں کر سکا۔ وہاں بھی مہنگائی کا شور مچا ہوا ہے۔ باوجود اس کے کہ ایسی مختلف قسم کی نئی نئی فصلیں آگئی ہیں جو کھانے والی خوراک کی فصلیں ہیں جو آج سے پچاس سال پہلے کی نسبت دس سے بیس گنا زیادہ پیداوار دیتی ہیں۔ پھر بھی امریکہ سمیت آج کل دنیا میں ہر طرف اس کی کمی کا شور ہے۔ چاول کی کمی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ دوسری چیزوں کی مہنگائی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ اگر خداتعالیٰ کی طرف سے پانی نہ برسے تو فصلیں بھی نہیں ہو سکتیں اور جب دنیا اللہ تعالیٰ سے دورہٹ جائے بلکہ بغاوت پر آمادہ ہو جائے تو یہ جھٹکے لگتے ہیں۔ ایک مسلمان کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کھول کر بیان کر دیا ہے کہ رزّاق اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کی طرف توجہ دینا جہاں تمہارے روحانی رزق اور آخرت کے رزق میں اضافے کا باعث بنے گا، وہاں تمہارے اس دنیا کے مادی رزق بھی اس سے مہیا ہوں گے۔ پس مسلمانوں کو تو دوسروں سے بڑھ کر اپنی حالتوں کے جائزے لینے چاہئیں اور غور کرنا چاہئے۔

ایک جگہ اللہ تعالیٰ اپنے رزاق ہونے کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرماتا ہے کہ وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّاتَحْمِلُ رِزْقَھَا۔ اَللّٰہُ یَرْزُقُھَا وَاِیَّاکُمْ۔ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(ا لعنکبوت:61) اور کتنے زمین پر چلنے والے جاندار ہیں جو اپنا رزق نہیں اٹھاتے پھرتے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انہیں رزق عطا کرتا ہے اور تمہیں بھی۔ اور وہ خوب سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔

یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ نیک اعمال کرنے والوں اور دین پر قائم رہنے والوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو بھی حالات ہو جائیں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم رہتے ہوئے اُن احکامات پر عمل کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں۔ یہ خوف نہ رکھو کہ اگر ہم نے دنیاداروں کی بات نہ مانی، اگر بڑے لوگوں یا بڑی حکومتوں کی پیروی نہ کی تو ہمارے رزق کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اس لئے مومن کا کام یہ ہے کہ ہمیشہ خداتعالیٰ کو یاد رکھے۔ مومن کا کام یہ نہیں کہ کسی بھی موقع پر کمزوری دکھائے۔ اس خوف میں رہے کہ ان لوگوں کی جن سے میرا رزق وابستہ ہے اگر ہاں میں ہاں نہیں ملاؤں گا تو اپنی نوکری سے، اپنے رزق سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا۔ یا قومی سطح پر اگر لیں تو یہ خوف کسی مسلمان حکومت کو دامنگیر نہ ہو کہ ہماری تجارتیں کیونکہ اب فلاں ملک سے وابستہ ہیں یا ہمارے مختلف مفادات فلاں ملک سے وابستہ ہیں، اس لئے مسلمان، مسلمان حکومتوں کو دوسروں کی خاطردھوکہ دیں جو آج کل ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑا واضح فرما تا ہے کہ دین کی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ تو انفرادی طورپر اور نہ ہی ملکی سطح پر، مومنین کو کسی دوسرے کے زیر اثر نہیں آنا چاہئے۔ یہ خوف نہیں رکھنا کہ ہمارا رزق اُس جگہ سے یا اُس ملک سے وابستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو، ایمان والوں کو، مومنین کو، غیرت رکھنے والوں کورزق مہیا کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنی دوسری مخلوق کے لئے رزق مہیا کر سکتا ہے تو مومنوں کے لئے کیوں نہیں کر سکتا۔ پس اللہ تعالیٰ جو زمین و آسمان کا مالک ہے، جس نے سورج اور چاند کو اپنی مخلوق کی خدمت پر لگایا ہوا ہے، کیا اس میں اتنی طاقت نہیں کہ اپنے خالص بندوں کے لئے رزق کے سامان مہیا فرماسکے۔ پس ہمیشہ اس بات کو یاد رکھو کہ اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُلَہٗ (العنکبوت:63) یعنی کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ پس دنیاوی ذریعوں پر اپنے رزق کا انحصار نہ سمجھو۔ رزق دینا اور روکنا اللہ تعالیٰ پر منحصر ہے۔ جو انسان دنیاوی ذریعوں پر انحصار کرتا ہے اس کا حال تو آج کی دنیا دیکھ رہی ہے۔ ان امیر ملکوں میں رہنے والوں میں بھی رزق کی تنگی کا شور مچنا شروع ہو گیا ہے۔ اگر کوئی بھی بڑے سے بڑا اور امیر ملک ہی رزّاق ہو تو پھر آج ان ملکوں میں رزق کی تنگی کی چیخ و پکار کیوں ہو گی۔ پس ایک مومن کو چاہئے کہ ہمیشہ اس طرف نظر رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف خالص ہو کر توجہ دیتا رہے، اس کی عبادت کرتا رہے اور اس کے روحانی رزق سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرتا رہے تو پھر اسے کوئی فکر نہیں۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کی دنیاوی ضرورتیں بھی پوری کرتا رہتا ہے اور قناعت بھی پیدا کرتا ہے۔ پس جو حقیقی رازق ہے اس کی طرف ہمیشہ ایک مومن بندے کی نظر رہنی چاہئے نہ کہ انسانوں کی طرف۔

اس زمانے میں تو خاص طور پر خداتعالیٰ کی صفات کا ادراک بندوں کو ہونا چاہئے کیونکہ یہ زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ ہے اس میں ہی حقیقی ربّ کی پناہ میں آنے کی دعا سکھائی گئی ہے۔ حقیقی مالک کی پناہ میں آنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور حقیقی معبود کی پناہ میں آنے کی دعا سکھائی گئی ہے۔ کیونکہ وسیع رابطوں اور ایک دوسرے پر انحصار اور کم سے کم وقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جانے اور اپنے تمام تر سازو سامان اور طاقتوں کے اظہار کے ساتھ پہنچنے کی وجہ سے غریب قومیں اور غریب لوگ امیر قوموں اور امیر لوگوں کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں۔ یا سمجھنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے اور مومن بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے فرمایا کہ مَیں ربّ ہوں۔ کوئی دنیا کا انسان یا مُلک تمہارا ربّ نہیں۔ مَیں ہی تمہاری پرورش کرتا ہوں اور مَیں ہی تمہیں یہ مادی رزق بھی مہیا کرتا ہوں۔ پس اس کے حاصل کرنے کے لئے مَیں جو معبود حقیقی ہوں میری پناہ میں آؤ اور اس کے صحیح فہم و ادراک کے لئے میرے بھیجے ہوئے روحانی پانی سے فیض پانے والے روحانی رزق کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس کو حاصل کرنے والے بنو۔ یہی چیز تمہیں دنیا اور آخرت کی نعماء کاحقدار بنائے گی۔

حصرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’جب انسان حد سے تجاوز کرکے اسباب ہی پر بھروسہ کرے اور سارا دارو مدار اسباب پر ہی جا ٹھہرے تو یہ وہ شرک ہے جو انسان کو اس کے اصل مقصد سے دور پھینک دیتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں سبب نہ ہوتا تو مَیں بھوکا مر جاتا۔ یا اگر یہ جائیداد یا فلاں کام نہ ہوتا تو میرا براحال ہو جاتا۔ فلاں دوست نہ ہوتا تو تکلیف ہوتی۔ یہ امور اس قسم کے ہیں کہ خداتعالیٰ ان کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ جائیداد یا اَور اَور اسباب واحباب پر اس قدر بھروسہ کیا جاوے کہ خداتعالیٰ سے بکلّی دور جا پڑے۔ یہ خطرناک شرک ہے جو قرآن شریف کی تعلیم کے صریح خلاف ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَفِی السَّمَآءِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ(الذّٰریٰت:23) اور فرمایا وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھَُوَ حَسْبُہٗ (الطلاق: 4) اور فرمایا مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ(الطلاق: 4-3) اور فرمایا وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ(الاعراف: 197)‘‘۔

آپؑ  فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف اس قسم کی آیتوں سے بھرا پڑا ہے کہ وہ متقیوں کا متولّی اور متکفّل ہو تا ہے۔ تو پھر جب انسان اسباب پر تکیہ اور توکّل کرتا ہے تو گویا خداتعالیٰ کی ان صفات کا انکار کرنا ہے اور ان اسباب کو ان صفات سے حصہ دینا ہے اور ایک اَور خدا اپنے لئے ان اسباب کا تجویز کرتا ہے۔ چونکہ وہ ایک پہلو کی طرف جھکتا ہے۔ اس سے شرک کی طرف گویا قدم اٹھاتا ہے۔ جو لوگ حکاّم کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور ان سے انعام یا خطاب پاتے ہیں اُن کے دل میں اُن کی عظمت خدا کی سی عظمت داخل ہو جاتی ہے۔ وہ ان کے پرستار ہو جاتے ہیں اور یہی ایک امر ہے جو توحید کا استیصال کرتا ہے اور انسان کو اس کے اصل مرکز سے ہٹا کر دُور پھینک دیتا ہے۔ پس انبیاء عَلَیْھمُ السَّلام یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب اور توحید میں تناقض نہ ہونے پاوے بلکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر رہے اور مآل کار توحید پر جا ٹھہرے۔ وہ انسان کو یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ ساری عزتیں، سارے آرام اور حاجات براری کا متکفّل خدا ہی ہے۔ پس اگر اس کے مقابل میں کسی اور کو بھی قائم کیا جاوے تو صاف ظاہر ہے کہ دو ضدّوں کے تقابل سے ایک ہلاک ہو جاتی ہے۔ اس لئے مقدم ہے کہ خداتعالیٰ کی توحید ہو۔ رعایت اسباب کی جاوے۔ اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے۔ اسی توحید سے ایک محبت خداتعالیٰ سے پیدا ہوتی ہے جبکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ نفع و نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ یعنی خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ’’محسن حقیقی وہی ہے۔ ذرّہ ذرّہ اسی سے ہے۔ کوئی دوسرا درمیان نہیں آ تا۔ جب انسان اس پاک حالت کو حاصل کرلے تو وہ مُوحّد کہلاتا ہے۔ غرض ایک حالت توحید کی یہ ہے کہ انسان پتھروں یا انسانوں یا اور کسی چیز کو خدا نہ بنائے بلکہ ان کو خدا بنانے سے بیزاری اور نفرت ظاہرکرے اور دوسری حالت یہ ہے کہ رعایت اسباب سے نہ گزرے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 58-57جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

یعنی ظاہری اسباب بھی ہوں لیکن توکل اللہ تعالیٰ پہ ہو۔ رزّاق اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھا جائے۔ یہ بنیادی چیز ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ رِّزْقٍ فَاَحْیَا بِہِ الْا َرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(الجاثیہ:6) اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں اور اس بات میں کہ اللہ آسمان سے رزق اتارتا ہے۔ پھر اس کے ذریعہ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے اور ہواؤں کے رخ پلٹ پلٹ کر چلانے میں عقل کرنے والی قوم کے لئے بڑے نشانات ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کے لئے خصوصاً یہ پیغام ہے کیونکہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ قرآن کریم پر ایمان لائے ہیں کہ جس طرح ہم روز رات اور دن کے آنے کو دیکھتے ہیں۔ جو کام اور ترقی ہم دیکھتے ہیں دن کی روشنی میں ہوتی ہے وہ رات میں نہیں ہوتی اور اسی طرح روحانی دنیا میں بھی رات اور دن کا دَور آتا رہتا ہے۔ آنحضرتﷺ سے پہلے ایک ظلمات کا دور تھا، اندھیرے کا دور تھا جس کو آپؐ نے آکر روشن کیا۔ اور اللہ تعالیٰ سے آخری شریعت پا کر یہ اعلان فرمایا کہ اب یہ روشن کتاب اور کامل شریعت تاقیامت دلوں کی روشنی کا باعث بنے گی۔ لیکن ساتھ ہی آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ بھی الٰہی تقدیر ہے کہ میرے بعد ایک دَور ظلمت کا آئے گا لیکن اس ظلمت اور اندھیروں کے دَور میں بھی اس کامل شریعت کی روشنی مختلف جگہوں پر لیمپ اور دیوں کی صورت میں جلتی رہے گی۔ ایسے لوگ ہوں گے جو روشنی بکھیرتے رہیں گے۔ اور پھر اس ظلمت کے دَورسے آپؐ کی پیشگوئی کے مطابق مسیح محمدی کے آنے سے پھر تمام دنیا کا روشن ہونا تھا۔ اس کے بعد پھر وہ رزق اترنا تھا جس نے مُردہ زمین کو دوبارہ زندہ کرنا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے سے پھر وہ پانی آیا جس نے مُردہ زمین کو زندہ کیا اور آنحضرتﷺ کی غلامی میں آپؑ وہ نور لائے جس سے دن دوبارہ روشن ہوا، تاریکیاں دور ہوئیں۔ ایک شعر میں اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں۔ کہ ؎

مَیں وہ پانی ہوں جو آیا آسماں سے وقت پر

مَیں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار

پس اب یہ نور اور یہ پانی آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے۔ اس سے فیض پانا جہاں ہر مسلمان کافرض ہے، اس پر عمل کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ اور اتنا ہی فرض ہے جتنا آنحضرتﷺ پر ایمان لاناکیونکہ آپ نے اس آنے والے مہدی و مسیح کو اپنا سلام پہنچانے کا حکم فرمایا تھا۔ یہاں ایک بات اور بھی جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا ہے کہ اہل لغت نے بارش کو بھی رزق کہا ہے اور اس کی تائید میں یہی سورۃ جاثیہ کی جو آیت مَیں نے پڑھی ہے وہ پیش کرتے ہیں تو بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں یہ پانی اتارا ہے جس کے بعد لمبی زندگی اور روشنی ہے۔ رزق کے ذرائع ہیں۔ آنحضرتﷺ کا نور دنیا میں پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کومبعوث فرمایا ہے۔ پس اب دنیا میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے یہی رزق اتارا ہے جس سے روحانی اور مادی بھوک ختم ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے اور ہونی ہے۔ اس کے لئے ہمارا بھی فرض ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ دنیا تک پھیلائیں اور پہنچائیں۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رِزْقًا لِّلْعِبَادِ وَاَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا۔ کَذٰلِکَ الْخُرُوْجُ(قٓ:12)کہ بندوں کے لئے رزق کے طور پر اور ہم نے اس یعنی بارش کے ذریعہ ایک مردہ علاقے کوزندہ کر دیا اسی طرح خروج ہو گا۔

یہاں بارش کی مثال دی گئی ہے کہ جس طرح بارش کے آنے سے مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے۔ ہر طرف سبزہ نظر آنے لگتا ہے بلکہ بعض دفعہ بظاہر ریگستان نظر آنے والے علاقے اس طرح سرسبز ہو جاتے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی بنجر علاقے ہیں۔ پاکستان میں بھی سندھ میں تھر کا علاقہ ہے۔ وہاں خشک موسم میں ریت اڑتی ہے اور اگر بارشیں ہو جائیں تو وہی ریت کے ٹیلے سرسبز پہاڑ نظر آرہے ہوتے ہیں۔ اچانک ایسی تبدیل ہوتی ہے، حیرت ہوتی ہے انہیں دیکھ کے کہ یہ سرسبزی اس زمین سے کس طرح پیدا ہو سکتی تھی۔ وہی علاقے جہاں لوگوں کی فاقوں تک نوبت پہنچی ہوتی ہے بارش ہوتے ہی ان کی فصلیں لہلہا رہی ہوتی ہیں اور ان کے رزق کی فراخی ہو جاتی ہے۔ اب ہر عقل والا انسان جب سوچتا ہے، چاہے وہ کسی مذہب کا ہو تو اس کے منہ سے بے اختیار اللہ تعالیٰ کی تعریف ہی نکلتی ہے، سبحان اللہ نکلتا ہے۔ گو ان الفاظ میں نہ سہی۔ اس کے رزّاق ہونے کی صفت پر کامل یقین پیدا ہو تا ہے۔ اگر مومن ہے تو اور بھی زیادہ اس کا ادراک پیدا ہوتا ہے تو کیا یہ زمین جو باوجود خشکی کے ان جڑی بوٹیوں کے بیجوں کو اپنے اندر سمیٹ کے رکھتی ہے اور وقت آنے پر وہ بوٹیاں باہر نکلتی ہیں، یہ کسی بڑے آدمی یا حکومت نے محفوظ رکھا ہوتا ہے؟ کیا بارش برسانا کسی بھی بڑی حکومت کا کام ہے؟ پس یہ تمام چیزیں ایک مومن کے لئے غور کرنے والی ہیں کہ یہ تمام رزق خدا ہی مہیا فرماتا ہے۔ وقتی طور پر ہر ایک اور ہر مذہب والا یہی کہتا ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ خدا نے رزق مہیا فرمایا ہے لیکن بعد میں بھول جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بندوں کو یاد کروا رہا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین سے زندگی نکالتا ہے اسی طرح انسان کے اس دنیا سے جانے کے بعد پھر اسے زندہ کرے گا۔ آخرت کی طرف توجہ بھی رکھنا جہاں حساب کتاب بھی ہو گا، حد سے بڑھی ہوئی حرکتوں اور نبیوں کے انکار اور ان کی جماعت پر ظلموں کی وجہ سے باز پرس بھی ہو گی۔ پس اگر آخرت میں اچھے رزق کی خواہش رکھتے ہو، مسلمان کہلاتے ہوئے یہ خواہش رکھتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں، ہمیں اچھا رزق ملے، بعد میں ہمارے ساتھ نرم سلوک ہو تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر اس دنیا میں بھی نیک اعمال کرو۔ کیونکہ یہی اعمال، یہی نیکیاں اور یہی کمایا ہوا رزق آخرت میں کام آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹتے ہوئے ہمیشہ ان راہوں پر چلنے کی توفیق دے جو اس کی رضا کی راہیں ہیں اور ان لوگوں کو بھی عقل اور سمجھ دے جو حق کو نہیں پہچانتے اور اللہ تعالیٰ کے اشاروں کو نہیں سمجھتے۔ دنیا میں مختلف جگہوں پر احمدیوں پر ظلم پر کمر بستہ ہیں۔ اپنی رضا کی راہوں اور نیک اعمال کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاْمُرْاَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْعَلَیْھَا۔ لَا نَسْئَلُکَ رِزْقًا۔ نَحْنُ نَرْزُقُکَ۔ وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی(طٰہٰ :133) اور اپنے گھر والوں کو نماز کی تلقین کرتا رہ اور اس پر ہمیشہ قائم رہ۔ ہم تجھ سے کسی قسم کا رزق طلب نہیں کرتے۔ ہم ہی تو تجھے رزق عطا کرتے ہیں اور نیک انجام تقویٰ ہی کا ہوتا ہے۔

پس اس روحانی رزق کا جو بہترین حصّہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اتارا ہے عبادت اور خاص طور پر نمازیں ہیں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے تلقین فرمائی ہے۔ ہمارا کام ہے کہ اپنے گھروں میں بھی اس بارہ میں اب خاص اہتمام کریں۔ خدا اور اس کے رسولؐ کی حکومت قائم کرنے اور خلافت کے انعام سے فیضیاب ہونے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے نمازوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور پھر جو اللہ تعالیٰ نے نمازوں کے ساتھ رزق کا ذکر فرمایا ہے تو اس کی اہمیت بھی اس زمانے میں بہت زیادہ ہے۔ یہی زمانہ ہے جس میں رزق کے لئے ایسے ایسے طریقے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے جو بعض دفعہ حلال اور جائز نہیں ہوتے۔ ایسے کام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے خلاف ہیں۔ پس اپنے نیک انجام اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا وارث ہونے کے لئے قیام نماز کی ضرورت ہے اور رزق حلال کی ضرورت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ بلکہ نماز پر قائم رہنے والوں یعنی خالص ہو کر عبادت کرنے والوں کو رزق حلا ل کی طرف متوجہ رہنے کی بھی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جویہ فرمایا ہے کہ ہم تم سے رزق طلب نہیں کرتے۔ اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال اٹھایا کہ ایک طر ف تو چندہ کے لئے اللہ تعالیٰ کہتاہے۔ مالی قربانیوں کے لئے کہا جاتا ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ کہہ رہا ہے کہ تم سے کسی قسم کا رزق طلب نہیں کرتے تو اس کا کیا جواب ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ چندہ جولیا ہے وہ بھی اس نیکی کی وجہ سے کئی گنا کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوٹانے کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اتنا بڑھا کر دیتا ہے کہ جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ پس خداتعالیٰ جو لیتا ہے وہ اس لئے نہیں کہ اسے ضرورت ہے بلکہ اس لئے کہ تمہاری اس نیکی کی وجہ سے کئی گنا بڑھا کر وہ تمہیں واپس کرے اور کیونکہ یہ سب عمل تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے تقویٰ کے حصول کے لئے کئے جاتے ہیں اس لئے اس کا انجام اس دنیا میں بھی نیک ہے اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کی جنت کے وارث بننے کا ذریعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ تقویٰ پر چلاتے ہوئے ہمارے ہر عمل کواس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی نیک انجام کے حاصل کرنے والا بنائے اور اپنے بہترین رزق سے ہرآن ہمیں نوازتا رہے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 26 مورخہ 27 جون تا 3 جولائی 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • English اور دوسری زبانیں

  • 6؍ جون 2008ء شہ سرخیاں

     اس زمانے میں خاص طورپر، خداتعالیٰ کی صفات کا ادارک ہونا چاہیے ،مسیح موعودؑ کی بعثت ایسا رزق ہے جس سے روحانی اور مادی دونوں قسم کی بھوک ختم ہوتی ہے ۔نمازوں کا رزق کے ساتھ تعلق۔

    فرمودہ مورخہ 06؍ جون 2008ء بمطابق 06؍ احسان 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور