صفت رزاق کی روح پرور لطیف تفسیر
خطبہ جمعہ 13؍ جون 2008ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
گزشتہ خطبہ کے مضمون کو ہی آگے چلاتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کے حوالہ سے رزق اور صفت رزاق کے بارے میں آج بھی کچھ کہوں گا۔ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں ہی ہوں جو تمہیں رزق مہیا کرتا ہوں اور نہ صرف انسانوں کو بلکہ ہر قسم کی مخلوق کو جسے بھی کھانے کی حاجت ہے۔ اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے، بحیثیت اشرف المخلوقات اسے مادّی رزق کی بھی ضرورت ہے اور روحا نی رزق کی بھی ضرورت ہے۔
ایک مومن کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکّل رکھو اور اس کے احکامات پر عمل کرو، تقویٰ کو مدنظر رکھو، تو ایسے ذریعوں سے اسے رزق ملتا رہے گا جس کا ایک غیر مومن تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کئی خط مجھے احمدیوں کے ملتے ہیں جن میں مختلف لوگوں نے، مختلف ملکوں میں بسنے والے احمدیوں نے اپنے اپنے تجربات اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کیا ہوتا ہے کہ کس کس طرح اللہ تعالیٰ ان کے کاروباروں میں برکت ڈال کر انہیں نواز رہا ہے۔ بعض دفعہ ایک کام کے ہونے یا کسی کاروبار میں اس قدر منافع ہونے کی امید بھی نہیں ہوتی، لیکن اللہ تعالیٰ غیر معمولی فضل فرماتا ہے اور توقع سے کئی گنا زیادہ منافع ہو جاتا ہے۔ اور پھر لکھنے والے لکھتے ہیں کہ یہ بات ہمارے ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ حقیقت میں ایک حقیقی مومن کی یہی نشانی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس پر فضل فرمائے تو فوراً اس کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے۔ وہ شکر گزار بنتا ہے اور اسے بننا چاہئے کیونکہ ایک مومن کو اس بات کا ادراک ہے کہ وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ(لقمان:13) یعنی جو بھی شخص شکر کرتا ہے اس کے شکر کرنے کا فائدہ اسی کو پہنچتا ہے اور یہی ایک مومن کی نشانی ہونی چاہئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب اپنی اولادکے لئے رزق کی دعا کی تو ساتھ ہی یہ عرض کی کہ وہ تیرے شکر گزار رہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر ملتا ہے وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْن(ابراھیم:38) یعنی انہیں پھلوں میں سے رزق عطا فرما تا کہ وہ تیرے شکر گزار بنیں۔ پس کاروبار میں برکت، تجارتوں میں برکت، زراعت میں برکت، یہ سب پھل ہیں جو رزق میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور جب مومن ان فضلوں کو دیکھتا ہے تو شکر گزاری میں بڑھتا ہے اور یہ بات اس کے ایمان میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ اس کے تقویٰ میں اضافہ کا باعث بنتی ہے اور بننی چاہئے۔ جب ایک مومن ایمان اور تقویٰ اور شکر گزاری میں بڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مزید نعمتوں سے نوازتا ہے۔ اس کے پھلوں میں مزید برکت پڑتی ہے۔ اس کے رزق کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مزید بڑھاتا ہے۔ یہ سلوک اللہ تعالیٰ انہی سے فرماتا ہے جو ایمان میں بڑھے ہوئے ہیں یا بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو یہ رزق کا اضافہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے کہ کسی نے لکھا کہ میرے رزق میں غیر معمولی طورپر اضافہ ہو گیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ہے کہ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ(ابراہیم:8) یعنی اگر تم شکر گزار بنو گے تو مَیں تمہیں اَور بھی زیادہ دوں گا۔ ایک غیر مومن کے لئے تو کہا جا سکتا ہے کہ قانون قدرت کے تحت اس کی محنت کو اللہ تعالیٰ نے پھل لگایا لیکن ایک مومن کے لئے اس سے زائد چیز بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور ایمان اور تقویٰ میں بڑھنے کے ساتھ جب محنت ہو تو کئی گنا زیادہ پھل لگتا ہے اور پھر صرف محنت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پھر مومن کو اگر اس کی محنت میں کوئی کمی رہ بھی گئی ہو تو اپنے فضل سے اس کمی کو پورا کرتے ہوئے زائد بھی عطا فرماتا ہے یا اس کمی کو پور افرماتا ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر اُس کا خداتعالیٰ پر ایمان ہے تو خدائے تعالیٰ رزّاق ہے۔ اس کا وعدہ ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کا ذمہ وار مَیں ہوں۔ پس یہ ہے اس خدا کااپنے بندوں سے سلوک جو رزّاق ہے کہ تھوڑی محنت میں بھی برکت ڈال دیتا ہے۔
یا بعض دفعہ غیر مومن کو یہ بتانے کے لئے، مومن کی انفرادیت قائم کرنے کے لئے، ایک جیسی محنت کے باوجود مومن کے کام میں برکت ڈال دیتا ہے۔ مَیں ذاتی طور پر بھی اس بات کا تجربہ رکھتا ہوں اور کئی احمدی بھی مجھے لکھتے ہیں کہ ہماری فصل ہمارے غیر از جماعت ہمسائے سے زیادہ نکلتی ہے تو وہ بڑے حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ تم نے کیا چیز ہمارے سے زائد کی ہے جو تمہاری فصل اچھی ہو گئی۔ تو یہی لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ہمارا جواب یہی ہوتا ہے کہ جو 1/10 یا 1/16ہم نے اس فصل کاخدا کی راہ میں دینا ہے وہ تمہارے سے زائد ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے برکت ڈال دی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق :4-3) یعنی اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیارکرے، اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا اسے خیال بھی نہیں ہو گا۔
یہ معجزات جو ہوتے ہیں، یہ غیر معمولی فضل جو ہوتے ہیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک شرط رکھی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے صفت رزّاق کا کوئی غیرمعمولی اظہار کرنا ہے تو بندے کو بھی تو غیر معمولی تعلق میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے ولی ہونے کا ثبوت دیتا ہے تو بندہ بھی تو اپنی بندگی کے حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والا ہونا چاہئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حق تو بندگی کا کبھی ادا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا شکر کرتے انسان اگر اپنی تمام زندگی بھی ماتھا رگڑتا رہے تو حق بندگی ادا نہیں ہو سکتا۔ لیکن کوشش تو ہونی چاہئے، تقویٰ کی راہوں کی طرف قدم تو بڑھنے چاہئیں۔ تقویٰ کیا ہے؟ ایک جگہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں : ’’تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں۔ عُجب، خود پسندی، مال حرام سے پرہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ50جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس ایک مومن کا کام ہے کہ ان بُرائیوں سے بچے، تبھی وہ ان لوگوں کے زُمرہ میں شمار ہو گا جو تقویٰ پر قدم مارنے والے ہیں اور جن کے لئے اللہ تعالیٰ بھی اپنی جناب سے پھر ایسے ایسے ذریعوں سے ضروریات پورا کرنے کے سامان پیدا فرماتا ہے کہ انسان خود حیران ہوجاتا ہے کہ یہ کیسے ہوا؟
مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا (الطلاق :3)کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’باریک سے باریک گناہ جو ہے اسے خداتعالیٰ سے ڈر کر جو چھوڑے گا خداتعالیٰ ہر ایک مشکل سے اسے نجات دے گا۔ یہ اس لئے کہا کہ اکثر لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم کیا کریں، ہم تو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر ایسی مشکلات آ پڑتی ہیں کہ پھر کرنا پڑ جاتا ہے۔ خداتعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ وہ اُسے ہر مشکل سے بچا لے گا‘‘۔ (البدرجلد 2نمبر12 مورخہ10؍اپریل1903ء صفحہ92)
جو اقتباس مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پڑھا ہے اس حوالے سے اُن لوگوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جو اِن مغربی ملکوں میں سوشل ہیلپ (Social Help) لیتے ہیں۔ مختلف ملکوں میں اس مدد کے جو بھی نام ہیں، یہ حکومت کی طرف سے ملنے والی مدد ہے جو یا بیروزگاروں کو ملتی ہے یا کم آمدنی والوں کو تاکہ کم از کم اس معیار تک پہنچ جائیں جو حکومت کے نزدیک شریفانہ طور پر زندگی گزارنے کے لئے ر وزمرہ ضروریات پورا کرنے کا معیار ہے۔ مغربی حکومتیں، بعض ان میں سے بڑے کھلے دل کے ساتھ یہ مدد دیتی ہیں اور برطانیہ کی حکومت بھی اس بارے میں قابل تعریف ہے شہریوں کی بڑی مدد کرتے ہیں۔ لیکن مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض لوگ جو چھوٹا موٹا کاروبار بھی کرتے ہیں یا ایسی ملازمت کرتے ہیں جو پوری طرح ظاہر نہیں ہوتی یا ٹیکسی وغیرہ کا کام کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی حکومت کو غلط معلومات دے کر اس سے مدد بھی لیتے ہیں۔ یا مکان بھی خریدا ہوا ہے لیکن حکومت سے مکان کا کرایہ بھی لیتے ہیں۔ تو یہ بات تقویٰ سے بعید ہے۔ اس طرح کرکے وہ دوہرے بلکہ کئی قسم کے جرم کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ ایک تو حکومت کو صحیح آمد نہ بتا کر حکومت کا ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ پھر نہ صرف یہ ٹیکس کی چوری ہے بلکہ دوسروں کے اُس ٹیکس کو بھی کھا رہے ہوتے ہیں جو دوسرے لوگ حکومت کے معاملات چلانے اور شہریوں کو سہولتیں مہیا کرنے کے لئے حکومت کو دیتے ہیں۔ پھر جھوٹ کے مرتکب ہوتے ہیں جو بذات خود شرک کے برابر ہے، تقویٰ تو دُور کی بات ہے۔ پس اگر ہم میں ایسے چند ایک بھی ہوں تووہ نہ صرف اپنے آپ کو اللہ سے دُور کر رہے ہوتے ہیں بلکہ جماعت کو بھی بدنام کرنے والے بن رہے ہوتے ہیں اور جماعت کا جو وقار حکومتی اداروں اور لوگوں میں ہے اس کو کم کرنے والے بن رہے ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’جب انسان خدا پر سے بھروسہ چھوڑتا ہے تو دہریت کی رگ اس میں پیدا ہو جاتی ہے۔ خداتعالیٰ پر بھروسہ اور ایمان اسی کا ہوتا ہے جو اسے ہر بات پر قادر جانتا ہے‘‘۔
پس ان معیاروں کو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں اور جن کی بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں تلقین فرمائی ہے۔ جو لوگ غلط معلومات دے کر چند پاؤنڈ حکومت سے لے لیتے ہیں گویا وہ زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا رازق خدا نہیں بلکہ ہماری چالاکیاں ہیں۔ اس بات کی مَیں یہاں وضاحت کر دوں کہ حکومتی اداروں کو بعض ایسے لوگوں پر شک پڑنا شروع ہو گیا ہے اور یہ لوگ بڑی ہوشیاری سے اپنا دائرہ تنگ کرتے ہیں۔ ابھی تک ان اداروں پر یہی تأثر ہے کہ احمدی دھوکہ نہیں کرتے۔ کوئی ایک بھی اس قسم کا دھوکہ دہی میں ان کے ہاتھ لگ گیا تو اچھے بھلے شریف احمدی جو صرف اپنا حق لیتے ہیں وہ بھی پھر متأثر ہوں گے اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جماعت پر اعتماد علیحدہ ختم ہو گا۔
مَیں نے تو امیر صاحب کو کہہ دیا ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کا اگر پتہ چلے تو اس سے چندہ لینا بند کر دیں۔ ایسے لوگوں سے چندہ نہ لینے سے اوّل تو جماعتی چندوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا انشاء اللہ اور اگر پڑے بھی تو اس کا پھر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کم از کم اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہوا مال تو پاک ہو گا۔
پس مَیں ایسے لوگوں سے جو چاہے چند ایک ہوں، یہی کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کو رزّاق نہیں سمجھنا تو پھر اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے دین کے لئے آپ کے مال کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر آپ کا معاملہ اللہ سے ہے، جس طرح بھی چاہے اللہ سلوک کرے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا یقینا اللہ عزوجل نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہیں رزق عطا کیا ہے۔ پس تم اس کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ۔
پس اگر اس حقیقت کو ہر ایک سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے رزق پہنچانا اپنے ذمہ لیا ہے جس کا گزشتہ خطبہ میں مَیں نے ذکر بھی کیا تھا تو حقیقی رنگ میں اس کی عبادت کی طرف توجہ رہے گی اور جب اس کی عبادت کی طرف توجہ رہے گی تو ہم حقیقی رنگ میں اس کے عبد بن کر رہیں گے اور پھر ہمارے اندر قناعت بھی پیدا ہو گی۔ اور جب قناعت پیدا ہو گی تو دوسرے کے رزق کی طرف نظر بھی نہیں ہو گی اور جب دوسرے کے رزق کی طرف نظر نہیں ہو گی تو ناجائز ذریعہ سے پیسے جوڑنے کی کوشش بھی نہیں ہو گی۔ تو یہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہر قسم کے لالچ سے بچائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ اور طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے۔ اس کا معیار قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیاسے آزاد کرکے اس کے کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے‘‘۔
پھر فرمایا ’’اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا۔‘‘ یعنی بے کار اور جھوٹی قسم کی ضرورتیں جو ہیں۔ ’’مثلاً ایک دکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغ گوئی کے سوا اس کا کام نہیں چل سکتا۔ اس لئے دروغگوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے۔ لیکن یہ امر ہرگز سچ نہیں‘‘۔
یہ جو آج کل حکومت سے غلط بیا نی کرکے مدد لیتے ہیں یا ٹیکس بچانا۔ یہ بھی اس قسم کی مثال ہی ہے۔ غلط بیانی کرکے یہ چیزیں لی جاتی ہیں۔ اگر تھوڑی سی تنگی بھی ہو تو برداشت کرنی چاہئے کہ خدا کی رضا کے حصول کے لئے ضروری ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کمزور ہے۔ وہ بڑی طاقت والی ذات ہے جب اس پر کسی امر میں بھی بھروسہ کرو گے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا‘‘۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام زیر سورۃ الطلاق آیت 4-3۔ جلد چہارم صفحہ 401-400)
اللہ ہمیں حقیقی بھروسہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر اتنا مہربان ہے کہ ان کو اس طرف توجہ دلاتا رہتا ہے کہ یہ سب طریقے اختیار کرو تو تمہارا رزق پاک بھی رہے گا اور اس میں اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔
ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ (الروم:40) اور جو تم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے زکوٰۃ کے طور پر دیتے ہو تو یاد رکھو اس قسم کے لوگ خدا کے ہاں روپیہ بڑھا رہے ہیں۔ پس یہ ہے اپنے مال میں برکت ڈالنے کا ذریعہ کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور جتنی توفیق ہے اتنا خرچ کرو۔ اس سے قناعت بھی پیدا ہو گی اور ترجیحات بھی بدلیں گی۔ ذاتی خواہشات کی بجائے دینی ضروریات کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔
اگر کوئی یہ کہے کہ مَیں جس طرح بھی جو بھی کمائی کرتا ہوں، چندہ بھی اس میں سے اسی حساب سے دیتاہوں اس لئے کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر مَیں حکومت سے اپنی ہوشیاری کی وجہ سے کچھ لے بھی لوں تو چندہ بھی تو اس پہ دے رہا ہوں، اس لئے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تو ایسا مال خداتعالیٰ کو نہیں چاہئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میری راہ میں خرچ کرنا ہے تو اس میں سے خرچ کرو جو پاک ہے۔ فرمایا یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ(البقرۃ:268) اے مومنو! تم نے جو کچھ کمایا ہے اس میں سے پاکیزہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جوبُرا، اچھا کمایا اس میں سے جو پاک ہے وہ خرچ کرو دوسرا نہ کرو۔ مطلب یہ ہے کہ تم نے پاکیزہ کمائی ہی کرنی ہے اور پھر اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ جو مال غلط بیانی سے کمایا ہو وہ پاکیزہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ پس اگر کوئی کسی غلط فہمی کی وجہ سے یہ غلط مفاد اٹھا رہا ہے تو اسے بھی باز آنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کو پاک کمائی میں سے مال دیں اور پھر اللہ تعالیٰ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ یہ روپیہ برکت والا ہو گا اور دینے والے کے مال میں اضافے کا باعث بنے گا۔
ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ بڑھا سکتا ہے۔ لیکن مال ہمیشہ پاک ہونا چاہئے۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْن(البقرۃ:4) یعنی اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ تو ناجائز طریقوں سے نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ تو پاک مال اور جائز طریقوں سے مال دیتا ہے۔ پس مومن کی یہ نشانی بتائی کہ ان کا رزق بھی پاک ہوتا ہے اور پھر وہ اس پاک رزق میں سے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں۔ کمائی تو چور بھی کرتے ہیں، ڈاکو بھی کرتے ہیں، ذخیرہ اندوز بھی کرتے ہیں، رشوت خور بھی کمائی کرتے ہیں اور اس طرح مختلف ناجائز ذرائع سے کمانے والے بھی کمائیاں کرتے ہیں تو کیا وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مال ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے؟ اللہ تعالیٰ جو بندوں کو حکم دیتا ہے کہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرو، کیا وہ دوسرے کے حق کو مارنے والے کی کمائی کو جائز قرار دے سکتا ہے؟ کبھی نہیں ہو سکتا۔ گو کہ پاکستان میں یا اور بعض ملکوں میں ناجائز ذرائع سے دولت کما کر کہتے ہیں کہ یہ اللہ نے دیا ہے۔ تو یہ گندہ مال خدا کا نہیں ہو سکتا۔ یہ تو شیطان کے ذریعہ سے کمایا ہوا مال ہے اور یہ پاکستان میں جو بڑے بڑے تاجر بنے پھرتے ہیں یا پیسے والے، ایسا مال کما کے پھر ڈھٹائی سے یہ بھی کہتے ہیں، ان کا تو یہ حال ہے کہ اپنے گھروں پر بھی لکھ کے لگا دیتے ہیں کہ ھٰذا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ۔ یعنی غلط طریقے سے مال بھی کماتے ہیں اس کو اللہ کا فضل بھی قرار دیتے ہیں (اِنَّا لِلّٰہ)۔ سیاستدان ہیں تو وہ قوم کا مال لوٹ رہے ہیں۔ غلط طریقے سے کمایا ہوا مال چاہے چھوٹے پیمانے پر ہو یا بڑے پیمانے پر ہو طیب مال نہیں ہوتا اور جو طیب مال نہیں وہ اللہ تعالیٰ کا مال نہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو قابل قبول ہے۔
پس ہر احمدی کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ اس کا مال پاک ہو اور اگر وہ اپنے مال میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو پھر خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے تو دیکھے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اس میں برکت ڈالتا ہے۔
یہاں ایک بات کی اور وضاحت کر دوں۔ بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہم نے اپنے بجٹ اپنی متوقع آمد کے پیش نظر لکھوائے تھے لیکن کاروبار میں بعض مشکلات کی وجہ سے اتنی آمد نہیں ہوئی یا بعض کو ملازمت میں دِقتیں ہیں تو ایسے لوگ اپنے جائزے لے کر خود تقویٰ کو مدنظر رکھ کر اپنے بجٹ پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔ لیکن شرط تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے وَیَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَا یُنْفِقُوْن(البقرۃ:216) یعنی وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں؟ ان کو کہہ دے کہ جتنا تکلیف میں نہ ڈالے۔ پس اگر دل میں تقویٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر بھی نظر ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے راستے میں خرچ کرے گا مَیں اسے بڑھا کر دوں گا تو ایک مومن یہی کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ دے تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا زیادہ وارث بنے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں کئی ایسے لوگ ہیں جو اپنے اوپر تنگی بھی کر لیتے ہیں لیکن چندوں میں کمی نہیں آنے دیتے۔ پس یہ چندہ بھی ہر ایک کی اپنی ایمانی حالت اور اللہ کے توکل پرمنحصر ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں برکت بھی ڈالے گا اور اپنی رضا کی جنت کا وارث بھی بنائے گا۔
آنحضرتﷺ کی ایک دعا ہے جو آپؐ کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں تو خاص طورپر یہ دعا بہت اہم ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ام سلمیٰؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ جب صبح کی نماز ادا کرتے تو سلام پھیرنے کے بعد یہ دعا کرتے کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا طَیِّباً وَّعَمَلًا مُتَقَبِّلًا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ باب ما یقال بعد التسلیم حدیث 925)
کہ اے اللہ! مَیں تجھ سے ایسا علم جو نفع رساں ہو اور ایسا رزق جو طیب ہو اور ایسے عمل جو قبولیت کے لائق ہوں مانگتا ہوں۔ پس یہ دعا ہے اس کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ رزق ’حصّہ‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور ’حصّہ‘ بُرا بھی ہو سکتا ہے اور اچھا بھی ہو سکتا ہے۔ تو اس حوالے سے بھی میں اس وقت کچھ بیان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَ نَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ (الواقعۃ:83) اور تم اپنے رزق بناتے ہو اس بنا پر کہ تم جھٹلاتے ہو۔
یہ سورۃ واقعہ کی آیت ہے اور یہ وہ سورۃ ہے جس میں دَور اوّل اور دَور آخر کے خوش نصیبوں کا بھی ذکر ہے اور دَور اوّل اور دَور آخر کے بدنصیبوں کا بھی ذکر ہے۔ اس آیت میں جو مَیں نے پڑھی ہے اس میں ان بدنصیبوں کا ذکر ہے جو جھٹلانے کی وجہ سے اپنا رزق بناتے ہیں۔ ان کی حالت اس قدر گر گئی ہے کہ خداتعالیٰ کا خوف ان میں نہیں رہا بلکہ دنیا کا خوف ہے۔ یہ لوگ شیطان کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔ کچھ لوگ تو اپنے دنیاوی رزق کے بند ہونے کے خوف سے سچ کو قبول کرنے سے انکاری ہیں اور کچھ لوگ جو اپنے آپ کو عالِم سمجھتے ہیں جن کو مسجدوں کے منبر ملے ہوئے ہیں اس لئے حق کو قبول نہیں کرنا چاہتے کہ ان منبروں کی وجہ سے جو عوام الناس کو وہ لوٹ رہے ہیں اس سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ تو خلاصۃً یہ کہ یہ سیاستدان بھی اور مُلّاں بھی اپنی اس غلیظ کمائی کی وجہ سے اس روحانی مائدے سے اپنے آپ کو محروم رکھے ہوئے ہیں جو خداتعالیٰ نے اس زمانے میں بھیجا ہے اور کیونکہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے وہ دنیا کے کیڑے بن چکے ہیں اس لئے اُن کے نصیب میں حق کو پہچاننا نہیں ہے۔ اُن کا کام حق کو جھٹلانا ہی ہے یہاں تک کہ ان کا آخری وقت آ جائے اور پھر ان کا معاملہ خدا کے ساتھ ہو۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ جن ملکوں میں احمدیت کی مخالفت ہے سیاستدان اور مُلّاں اکٹھے ہیں اور اکٹھے ہو کر احمدیت کے خلاف کھڑے ہیں۔ خلافت کے سو سال پورے ہونے نے ان کے اندر حسدکی اور بغض کی آگ کو اور بھی بھڑکا دیا ہے کہ یہ جو ہمارا جھوٹا رزق ہے یہ نہ کہیں چھن جائے۔ سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے مولوی کی بات نہ مانی اور احمدیوں کی مخالفت نہ کی تو ہمارے ووٹ کم ہو جائیں گے۔ کیونکہ سیاستدان کو تو مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ان کو تو اپنی سیاست اور کرسی سے دلچسپی ہے۔ ان کو تو اس سے غرض نہیں کہ ملک کی خدمت کرنی ہے۔ غرض ہے تو صرف یہ کہ اگر مخالفت نہ کی تو اپنی کرسی سے اور لوٹ مار سے جو ملک کا پیسہ کھا رہے ہوتے ہیں اس سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ وہ رزق جو غیر طیب اور ناپاک رزق ہے جس کی بنیاد جھوٹ پر ہے وہ ان کے ہاتھ سے چھن جائے گا اور مولوی تو جیسا کہ مَیں نے کہا صرف اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اس کے رزق کے ذرائع بند ہو جائیں گے۔ مدرسوں کے نام پر، جامعات کے نام پر جو لوگوں کو بے وقوف بنا کر ان سے پیسے لیتے ہیں یا بعض حکومتوں سے رقم لیتے ہیں، یہ بند ہو جائے گی۔ پس یہ لوگ ہیں جو جھوٹ بول کر رزق کمانے والے ہیں یاجن کا رزق جھٹلانے پر منحصر ہے۔ یعنی ان کے حصے میں جس پہلو سے بھی دیکھ لیں جھوٹ کی وجہ سے رزق ہے اور یہی بُرا رزق ہے اور یہ رزق ان کو صداقت کا نہ صرف انکار کرنے کی وجہ سے بلکہ مخالفت میں حد سے زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے مل رہا ہے۔ یہ رزق جو وہ کماتے ہیں اس مخالفت کی وجہ سے، صداقت کے انکار کی وجہ سے ہے، جھوٹ بولنے کی وجہ سے ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ پھر اللہ بھی گرم پانی کے ساتھ ان کی دعوت کرے گا اور پھر فرماتا ہے تَصْلِیَۃُ جَحِیْمٍ (الواقعۃ:95) یعنی ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
پس آج جو احمدیوں کے خلاف پاکستان میں بھی مخالفت کا بازار گرم ہے اور انڈونیشیا سے بھی خبریں آرہی ہیں، دونوں جگہ مُلّاں اور سیاستدانوں کے جوڑ کی وجہ سے یہ مخالفت ہے۔ عوام الناس کو بیوقوف بنایا جاتا ہے کہ تمہاری دینی غیرت کا سوال ہے اٹھو اور احمدیوں کو ختم کر دو۔ حالانکہ یہ تکذیب اس لئے ہے کہ ان لوگوں کو یہ خوف ہے کہ ہمارے رزق بند نہ ہو جائیں۔ ہم جو لوٹ ما ر کر رہے ہیں وہ بند نہ ہو جائے۔
پس احمدیوں کو مَیں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ صبر اور حوصلے سے اور دعا سے کام لیں۔ اللہ تعالیٰ کے مسیح کو مانا ہے تو یقینا اس پیغام کے ماننے کی وجہ سے آپ اللہ کے مقرب ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے لئے نعمتوں سے پُر جنتوں کی بشارت دیتا ہے۔
گزشتہ 120سال سے انہوں نے اپنی ہر طرح کی مخالفت کرکے دیکھ لی ہے۔ بے شک ہمیں عارضی تکلیفیں تو برداشت کرنی پڑیں لیکن ان کی خواہشات کبھی پوری نہیں ہوئیں کہ جماعت کو ختم کر دیں۔ ایک آمر نے اعلان کیا کہ مَیں ان کے ہاتھ میں کشکول پکڑاؤں گا تو خود اس کا جو انجام ہوا وہ ظاہر وبا ہر ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی مالی وسعت اختیار کرتی چلی گئی۔ دوسرے نے جب جماعت کو کچلنا چاہا، ہر لحاظ سے معذور کرنا چاہاتو اس کا انجام بھی ہم نے دیکھ لیا۔ اور جماعت کے لئے ترقی کی نئی سے نئی راہیں کھلتی چلی گئیں۔ اس رازق خدا نے رزق کے نئے سے نئے راستے، نئے سے نئے باب جماعت کے لئے کھول دئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر لحاظ سے ہمارے لئے اپنا رزّاق ہونا اور تمام قوتوں اور طاقتوں کا مالک ہونا ظاہر فرمایا جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوْالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ (الذٰریٰت:59) یقینا اللہ ہی ہے جو بہت رزق دینے والا ہے اور صاحب قوت اور مضبوط صفات والا ہے۔ پس ہم تو اس خدا کی عبادت کرنے والے اور اس سے رزق مانگنے والے ہیں اور اس سے ڈرنے والے ہیں۔ یہ دنیاوی لوگ نہ ہمارے رزق بند کر سکتے ہیں، نہ ہمارے ایمانوں کو ہلا سکتے ہیں، نہ ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روک سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں 27مئی کے بعد، پاکستان کے مختلف شہروں میں، کوٹری شہر ہے ایک، حیدر آباد کے قریب، لاڑکانہ میں، آزاد کشمیر میں کوٹلی ہے، اسی طرح پنجاب کے بعض شہر ہیں، احمدیوں پہ ظلم کا بازار دوبارہ گرم ہو چکا ہے۔ فیصل آباد میں پنجاب میڈیکل کالج کے طلباء کو کالج سے نکالا گیا۔ اُن کے خیال میں اس طرح انہوں نے احمدیوں کے رزق بند کرنے کی کوشش کی ہے کہ احمدی طلباء ڈاکٹر بن رہے ہیں۔ فائنل ایئر کے سٹوڈنٹ ہیں۔ وہ گھبرا کے کہیں گے اچھا ٹھیک ہے ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں نکالتے ہیں لیکن ان کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ان کی ایمانی حالت کیا ہے، کیونکہ اُن کے اپنے ایمان نہیں ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ خوفزدہ ہو کر احمدیت چھوڑ دیں گے۔ کوٹری میں گھیراؤ جلاؤ کی صورتحال ہے، بلکہ ایک گھر سے کل خط ملا ہے ان کا سامان نکال کے جلایا بھی گیا، گھروں کو گھیرا ہوا ہے۔ لیکن یہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ ہم ڈرنے والی قوم ہیں یا اپنے ایمانوں کا سودا کرنے والے لوگ ہیں۔ ہم تو اس ذُوْالْقُوَّۃِ الْمَتِیْن خدا کے ماننے والے ہیں جو اپنے بندوں کے لئے غیرت دکھاتا ہے اور جب دشمنوں کو پکڑتا ہے تو ان کی خاک اڑا دیتا ہے۔ یہی ہم دیکھتے آئے ہیں۔ پس سب احمدی صبر اور حوصلے سے کام لیں۔ اسی طرح انڈونیشیا کے احمدیوں سے بھی مَیں کہتا ہوں وہاں پر تبلیغ پر پابندی لگائی ہے اور اسی طرح بعض باتوں پر حکومت نے پابندی لگائی ہے۔ گو بَین (Ban) تو اس طرح مکمل طور پر نہیں کیا لیکن مختلف ذریعوں سے ایسی صورت حال پیدا کی گئی ہے جوبَین کے برابر ہی ہے۔ تو یہ لوگ بھی دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ دیں۔ پاکستان میں جو پابندیاں لگیں یا قانون پاس ہوئے اس سے کون سا انہوں نے جماعت کو پھیلنے سے روک دیا۔ دنیا بھر میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش پہلے سے بڑھ کر جماعت پر ہوئی اور انڈونیشیا پر بھی جو پابندیاں حکومت نے لگائی ہیں پہلے سے بڑھ کر جماعت کی ترقی کا باعث بنیں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ پس دعاؤں پر زور دیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ اب وہ وقت دُور نہیں کہ ان کے مَکَر ان پر ہی اُلٹ کر پڑیں گے۔ بہرحال تمام دنیا کے احمدی اپنے انڈونیشین اور پاکستانی بھائیوں کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے اور ان کی مشکلات دور فرمائے۔
آخر پر آج پھرمَیں دعا کا یہ بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اس ہفتہ انشاء اللہ تعالیٰ مَیں امریکہ اور کینیڈا کے سفر پر جا رہا ہوں۔ وہاں ان کے جلسے بھی ہیں اور جوبلی کے حوالے سے وہاں جماعتوں نے بڑی تیاریاں بھی کی ہوئی ہیں۔ ان کی خواہش بھی بڑی شدید ہے۔ خطوں میں اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے۔ براہ راست ملنے سے بہرحال جماعت میں کئی لحاظ سے بہتری پیدا ہوتی ہے۔ امریکہ کا تو میرا پہلا سفر ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ سفر ہر طرح اپنی تائید و نصرت کے نظارے دکھاتے ہوئے بہتر فرمائے اور یہ سفر جماعت کے لئے ہر لحاظ سے بابرکت ہو اور اللہ تعالیٰ ان تمام مقاصد کا حصول آسان فرمائے جن کے لئے یہ سفر اختیار کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان ملکوں کے احمدیوں میں ترقی کرنے کی ایک نئی روح پیدا فرمائے اور ساری دنیا کے احمدیوں میں یہ نئی روح پیدا فرمائے اور اس صدی میں جب ہم نئے نئے عہد باندھ رہے ہیں اور جلسے کر رہے ہیں اور پروگرامز کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ہر ایک میں نئی روح پھونک دے۔ اللہ تعالیٰ سفر میں راستے کی جو بھی کوئی مشکل ہے اس کو بھی آسان فرمائے‘‘۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 15 شمارنمبر 27 مورخہ 6 جولائی تا 10 جولائی 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
مغربی ملکوں میں جھوٹ بول کرسوشل ہیلپ لینا تقویٰ سے دوری توکیا ایک شرک ہے، اور جماعت کی بدنامی کاباعث، ایسے لوگوں سے چندہ لینا بندایسا مال خداکونہیں چاہیے، احمدی کامال پاک ہوناچاہیے، کم آمدنی والے خودتقویٰ کو مدنظررکھ کراپنے بجٹ پر نظرثانی کرسکتے ہیں، مخالف ملااور سیاستدان کو صرف کرسی اور پیسے سے غرض ہے اور ایسے رزق سے جو ناپاک ہے اور جس کی بنیا دجھوٹ پر ہے، اس رزاق خدانے جماعت کے لئے رزق کے نئے سے نئے باب کھول دئے۔ امریکہ اور کینیڈا کے دورہ کے لئے دعاکی تحریک۔
فرمودہ مورخہ 13؍جون 2008ء بمطابق13؍احسان 1387ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن برطانیہ
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔