مساجد کی اہمیت اور ضرورت۔ بیت النور کیلگری کینیڈا کا افتتاح
خطبہ جمعہ 4؍ جولائی 2008ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
الحمدللہ جماعت احمدیہ کینیڈا کو ایک اور مسجد کی تعمیر کی توفیق ملی۔ گو کہ نمازوں کے ساتھ اس کا افتتاح تو ہو چکا ہے لیکن رسمی افتتاح خطبہ جمعہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کیلگری میں ایک لمبے عرصہ سے مسجد کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ کچھ سال پہلے اگر مسجد بنتی تو ہو سکتا ہے کہ اتنی بڑی اور خوبصورت مسجد نہ بنتی۔ کل جب مَیں ائرپورٹ پر پہنچا ہوں تو شہر کے میئر اور کچھ صوبائی اسمبلی کے ممبران ائرپورٹ پر ریسیو (Recieve) کرنے آئے ہوئے تھے اُن سے بھی باتیں کرتے ہوئے مَیں نے کہا کہ امید ہے کہ یہ مسجد اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے شہر میں ایک خوبصورت اضافہ ہو گی۔ تو سب نے اس کی خوبصورتی کی تعریف کی اور مجھے بتایا کہ مختلف سڑکوں سے اس مسجد کا خوبصورت نظار ہ نظر آتاہے۔ مَیں نے اُس وقت مسجد دیکھی نہیں تھی لیکن ائیرپورٹ سے آتے ہوئے دُور سے ہی اس کا مینارہ اور گنبد نظر آئے۔
پس ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اُس نے جماعت احمدیہ کینیڈا کو اس علاقے میں ایک خوبصورت مسجد بنانے کی توفیق دی۔ یہ مسجد جو تقریباً 15 ملین ڈالر کی لاگت سے بنی ہے اور یہاں یہ جگہ بھی بڑی اچھی مل گئی ہے۔ چار ایکڑ کا رقبہ ہے۔ کیونکہ ساری دنیا سن رہی ہوتی ہے اس لئے معلومات مہیا کر رہاہوں۔ یہ ایک بہت بڑا پراجیکٹ (Project) تھا جو یہاں کی جماعت نے شروع کیا۔ مجھے اکثر یہاں سے افراد جماعت کے خطوط جاتے تھے اور ابھی بھی آ رہے ہیں کہ ہم نے اتنا وعدہ مسجد کے لئے کیا ہواہے بظاہر حالات ایسے نہیں کہ وعدہ جلد پورا ہو سکے۔ دعا کریں کہ ہم نے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کر سکیں۔ بڑی قربانی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا دے جنہوں نے اس مالی قربانی میں حصہ لیا اور ان لوگوں کو بھی توفیق دے جنہوں نے بڑے وعدے کئے ہیں لیکن حالات کی مجبوری کی وجہ سے اپنے وعدے فوری طور پر، مکمل طور پر پورے نہیں کر سکے۔ ایک بے چینی کی کیفیت ان کے دلوں میں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت دے۔
یہ مسجد کی تعمیر ظاہر کرتی ہے کہ باوجود ان ملکوں میں رہنے کے جماعت کے افراد خداتعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے لئے بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والے ہیں۔ دنیامیں بسنے والے دوسرے احمدیوں کی معلومات کے لئے جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا، یہ بھی بتا دوں کہ اس مسجد کا نقشہ اس لحاظ سے بہت خوبصورت اور اچھا ہے کہ ایک تو مسجد کا مین ہال (Main Hall) ہے۔ عورتوں اور مردوں کا جو مسقف حصہ ہے اس میں 10ہزار 4 سو مربع فٹ ہے۔ اس کے علاوہ ایک ملٹی پرپز (Multy Purpose) ہال بھی ہے 7 ہزار 200 مربع فٹ کا۔ ڈائننگ ہال ہے تقریباً 18 سو مربع فٹ کاہے۔ رہائش کے حصے ہیں، جماعت اور ذیلی تنظیموں کے دفاتر ہیں۔ تو ایک اچھا بڑا کمپلیکس (Complex) ہے۔ بہرحال فی الحال تو جماعتی ضروریات کے لئے کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری ضرورتیں بھی بڑھاتا رہے اور اُس کے حضور مزید پیش کرنے کی اور مزید مسجدیں بنانے کی توفیق بھی ہم پاتے رہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسجد کو یا مسجدوں کو جماعت کے پھیلنے کا ذریعہ بتایا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ مسجد بھی اس مقصد کو پورا کرنے والی ہو اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا ایک سے اگلی مسجدبھی تعمیر ہوتی رہے اور جاگ لگتی چلی جائے۔
مسجدوں کی تعمیر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانہ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے، پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت باخلاص ہو۔ محض للہ اسے کیا جاوے۔ نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو تو تب خدا برکت دے گا‘‘۔
فرمایا ’’غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہئے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے اور جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز باجماعت ادا کیا کریں۔ جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہیں۔ پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد و اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہئے اور ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 93۔ جدید ایڈیشن۔ مطبوعہ ربوہ)
اس زمانہ میں، ان مغربی ممالک میں ہماری مساجد اسلام کی طرف کھینچنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ بلکہ آج جبکہ اسلام کے خلاف ایک مہم زور و شور سے شروع ہے غیر مسلموں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ ہماری مساجد ہیں اور ہونی چاہئیں۔ یہ قربانی جو آپ نے کی ہے اس کے پیچھے یقینا وہ روح ہے اور ہونی چاہئے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد ڈالی جائے۔ مسلمانوں کی توجہ بھی ہو گی اور غیر مسلموں کی توجہ بھی ہو گی۔ پس اللہ کرے کہ یہ مسجد جو آپ نے محض للہ بنائی ہے جس میں یقینا نفسانی اغراض اور شر کو دخل نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا۔ ہم تو اس مسیح محمدی کے ماننے والے ہیں آنحضرتﷺ کے اُس عاشق صادق کے ماننے والے ہیں جو اس زمانے میں بندے کو خدا کے قریب کرنے آیا ہے۔ جو بندے کو بند ے کے حقوق بتانے آیا ہے۔ جو ہر قسم کے شر کو دور کرنے آیا ہے۔ جو اپنے ماننے والوں کو تقویٰ کی باریک راہوں پر چلانے آیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’یقینا سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولتمند اور خوش خور ہوں بلکہ خداتعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لئے ہو جاتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 596۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس خالص خدا کے ہونے والے مسجد کا بھی حق ادا کرتے ہیں اور آپ کی بیعت کا بھی حق ادا کرتے ہیں۔ مسجد کا حق کس طرح ادا ہوتا ہے؟ یہ حق جیسا کہ آپ ؑ نے فرمایا اُس وقت ادا ہو گا جب سب مل کر مسجد میں باجماعت نماز ادا کریں گے اور اس باجماعت نماز سے غرض علاوہ خداتعالیٰ کی عبادت کے یہ ہے کہ اتفاق اور اتحاد کو ترقی ہو اور ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداز کیا جائے۔ صرف مسجدیں بنانا کام نہیں، بلکہ یہ مسجدیں اس وقت کار آمد ہوں گی جب ان میں خدا کے حقوق بھی اد اہو رہے ہوں اور خدا کی مخلوق کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں۔ ورنہ ایسی مساجد جو یہ حق ادا نہیں کر رہیں ان کو خداتعالیٰ نے مسجد ضرار کے نام سے موسوم کیا ہے۔ جو مومنوں کے دل جوڑنے کی بجائے، جو ایک دوسرے کے حقوق کی طرف توجہ کرنے کی بجائے یا کروانے کی بجائے، مومنوں میں پھوٹ ڈالنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ آج دیکھ لیں اُن لوگوں کی مساجد یہی کردار ادا کررہی ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو نہیں مانا۔ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے اور اگر کسی جگہ پر کہیں کسی میں آپس میں اتفاق ہے بھی تو جماعت احمدیہ کے خلاف کفر کے فتوے دینے پر اتفاق ہے۔ نفرتوں کے لاوے ابل رہے ہیں ان لوگوں کے دلوں میں سے۔ کئی غیر از جماعت بھی بعض دفعہ اس بات کا برملا اظہار کر جاتے ہیں کہ جو امن اور پیار کے درس تمہاری مساجد سے دئیے جاتے ہیں اس سے ہماری مساجد خالی ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں؟یہ اس نبی ٔ صادق کی پیشگوئی ہے جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے یہ اعلان خدا سے خبر پا کر کیا تھا کہ میرے مسیح اور مہدی کے ظہور سے پہلے اور اس زمانے میں مساجد کا یہی حال ہو گا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ’’عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا اور الفاظ کے سو اقرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانے کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے‘‘۔ یعنی تمام خرابیوں کا وہی سرچشمہ ہوں گے۔ (شعب الایمان للبیہقی الثامن عشر من شعب الایمان باب فی نشر العلم و الا یمنعہ اھلہ اھلہ حدیث نمبر 1763 مکتبۃ الرشد، ریاض 2004ء)
پس آج ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق ملی۔ پس ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ہمیشہ اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں۔ زمانے کے امام سے سچا تعلق قائم کرنے والے بھی ہوں۔ صرف خوبصورت مسجد ہی ہمارے کام نہیں آئے گی، خوبصورت مسجد بنا دینا ہی کافی نہیں ہے۔ اس کے اندر لگے ہوئے قیمتی فانوس جو ہیں یہ ہمارے کسی کام نہیں آئیں گے۔ بلند و بالا مسجد جو دور سے نظر آتی ہے ہمارے کسی کام نہیں آئے گی۔ آنحضرتﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانے میں بلند و بالا مساجد تعمیر ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی، حقوق اللہ اور حقوق العباد سے بے بہرہ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب فرمایا کہ مسلمان پیدا کرنے کے لئے مسجدیں بناؤ تو ساتھ ہی آپؑ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ضروری نہیں کہ مسجدمرصّع اور پکی عمارت کی ہو۔ خداتعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔ مسجد نبوی جو تھی ایک لمبے عرصے تک کچی مسجد ہی رہی تھی لیکن تقویٰ پر اس کی بنیادیں تھیں۔ جس کی خدا نے بھی گواہی دی۔ افریقہ میں ہماری جماعتیں قائم ہوئی ہیں اکثر جگہ غریبانہ سی مسجد ہم بناتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی مسجدیں وہاں مضبوط جماعت کے قیام کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ حالات کے مطابق اور اس لئے کہ غیروں کی توجہ کھینچی جائے بڑی بڑی مساجد بھی جماعت بناتی ہے اور یہ مسجد بھی آپ نے یقینا اس سوچ سے بنائی ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا بہت سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بننا شروع ہو گئی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ مزید بنے گی۔ لیکن یہ کبھی نہ بھولیں کہ اس کی تعمیر کے بعد ایک اور بہت اہم کام کے ذمہ دار ہم بنا دئیے گئے ہیں اور وہ ہے اس کی آبادی۔ اور ایسے پاک لوگوں سے آبادی جن کا دل اللہ تعالیٰ کے تقویٰ سے بھرا ہوا ہو۔ جو خوف خدا رکھتے ہوں اور اس خوف کی وجہ سے خداتعالیٰ کے آگے جھکنے والے اور اس کی عبادت کرنے والے ہوں۔ اور عبادت کے ساتھ حقوق العباد اور نظام جماعت کی اطاعت کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں۔ کیونکہ ہماری مساجد کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے اُس گھر کی طرز پر اور ان مقاصدکے حصول کے لئے رکھی جاتی ہے جس کی بنیادیں جب حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ نے دوبارہ دعائیں مانگتے ہوئے اٹھائی تھیں تو ان کے بہت بڑے بڑے مقاصد تھے۔ جو گھر لوگوں کے بار بار جمع ہونے کی اور امن کی جگہ بنایا گیا تھا اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم فرمایا ہے کہ تم بھی اس مقصد کے لئے مسجدیں بناؤ جو مقصد حضرت ابراہیمؑ کا تھا، تبھی یہ مسجد ان مسجدوں میں شمار ہو گی جو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اور تقویٰ سے بنائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَاِذْ جَعَلْنَاالْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۔ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی وَعَہِدْنَآ اِلٰیٓ اِبْرَاہِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرََا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ (البقرہ :126) یعنی ہم نے اپنے گھرکو لوگوں کے باربار اکٹھا ہونے کی اور امن کی جگہ بنایا اور ابراہیم کے مقام میں سے نماز کی جگہ پکڑو اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل کو تاکید کی کہ تم دونوں میر ے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجد ہ کرنے والوں کے لئے خوب پاک صاف بنائے رکھو۔ پس یہ مسجد جو آج ہم نے بڑی قربانی کرکے بنائی ہے اس کو ایک خوبصورت عمارت کے طور پر بنا کر چھوڑ دینا ہمارا کام نہیں۔ بلکہ اس کی خوبصورتی اس وقت مزید بڑھے گی جب ہم باربار یہاں آئیں گے۔ پانچ وقت نمازوں کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ ہم پانچ وقت کی نمازوں کے لئے یہاں حاضر نہیں ہوتے تو بار بار آنے کا مقصد پورا نہیں کر رہے ہوں گے۔ اور پھر ہم آنحضرتﷺ کے ارشادکے مطابق ایک نماز سے اگلی نماز اور ایک جمعہ سے اگلے جمعہ، جو انسان کو بڑے گناہوں سے بچاتا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین کتاب العلم حدیث نمبر 412 مکتبہ نزار مصطفی الباز، سعودیہ۔ الطبعۃ الاولیٰ 2000ء)
اس بات کی ضمانت سے بھی محروم ہو رہے ہوں گے کہ ان گناہوں سے بچیں گے۔
پس اگر برائیوں سے بچنے کی ضمانت حاصل کرنی ہے تو خالص ہو کر واحد ویگانہ خدا کی عبادت کے لئے بار بار اس مسجد میں آنا بھی ضروری ہے اور یہی اس مسجد کی اصل خوبصورتی اور زینت ہے۔ اس میں آپ کے امن کی بھی ضمانت ہے اور علاقے کے امن کی بھی ضمانت ہے۔ نیک اور عبادت گزار لوگوں کی خاطر اللہ تعالیٰ دوسروں کو بھی آفات سے بچا لیتا ہے۔ پھر مسجد میں آنے والے جب خالص ہو کر خداتعالیٰ کی عبادت کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے، مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور یہ بھی معاشرے کے امن کا باعث بنے گی۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی یعنی جس مقام پر حضرت ابراہیمؑ کھڑے تھے تم بھی اس مقام پر کھڑے ہونے کی کوشش کرو اور وہ مقام تقویٰ کا تھا۔ ظاہری پتھر یا جگہ کی نشاندہی کی جاتی ہے اصل چیز جو ہے، جو مقام ہے وہ تقویٰ ہے۔ اور انسان جب اس مقام پر کھڑا ہوتا ہے تو خدا کی حقیقی پہچان اسے ہوتی ہے۔ پھر وہ خدا تعالیٰ کی عبادت میں بڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے دین کی خاطر قربانیاں دینے کی کوشش کرتا ہے۔ پس یہ مَقامِ ابراہیم صرف رسمی اور ظاہری جگہ نہیں بلکہ ان عبادتوں اور قربانیوں کے تسلسل کا نام ہے جو حضرت ابراہیمؑ نے خداتعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے کیں۔ اگر ہم یہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، ان دعاؤں کی طرف بھی توجہ کریں گے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیں تو اپنی نسلوں کے نیکیوں پر قائم ہونے کے سامان کر رہے ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے نہ صرف خود حصہ لے رہے ہوں گے بلکہ اپنی اولادوں کو بھی اس انعام کے ساتھ جوڑ رہے ہوں گے جو اس زمانے کے ابراہیم کو خداتعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً ابراہیم کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مخاطب فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا ’’سَلَامٌ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ صَافَیْنَاہ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی۔ قُلْ رَّبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ‘‘……۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ ’’یعنی سلام ہے ابراہیم پر۔ یعنی اس عاجز پر(حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر) ہم نے اس سے خالص دوستی کی اور ہر ایک غم سے اس کو نجات دے دی اور تم جو پیروی کرتے ہو تم اپنی نماز گاہ ابراہیم کے قدموں کی جگہ بناؤ یعنی کامل پیروی کرو تا نجات پاؤ اور پھر فرمایا کہہ اے میرے خدا مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو بہتر وارث ہے……۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ’’اس الہام میں یہ اشارہ ہے کہ خدا اکیلا نہیں چھوڑے گا اور ابراہیم ؑ کی طرح کثرت نسل کرے گا اور بہتیرے اس نسل سے برکت پائیں گ……‘‘۔
آپؑ فرماتے ہیں ’’اور یہ جو فرمایا کہ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی یہ قرآن شریف کی آیت ہے اور اس مقام میں اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ ابراہیم جو بھیجا گیا تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجا لاؤ اور ہر ایک امر میں اس کے نمونے پر اپنے تئیں بناؤ‘‘۔
پھر فرمایا’’… ایسا ہی یہ آیت وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب اُمت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہو گا اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائے گا کہ اس ابراہیم کا پیرو ہو گا‘‘۔ (اربعین۔ روحانی خزائن جلد 17صفحہ421-420)
پس یہ ہے ایک احمدی کی زندگی کا مقصد کہ کامل پیروی کرو تا نجات پاؤ۔ اب کامل پیروی کس طرح ہو سکتی ہے؟ ہر احمدی کامل پیروی کی طرف متوجہ اس وقت قرار پائے گا جب ہر وقت یہ ذہن میں رکھے کہ اطاعت کے بہترین نمونے قائم کرنے ہیں۔ اپنے عہدبیعت کا ہر دم خیال رکھنا ہے۔ شرائط بیعت پر چلنے کی حتی المقدور کوشش کرنی ہے۔ تب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روحانی اولاد میں شامل ہوں گے اور حضرت ابراہیمؑ کی اس اولاد کی طرح جو نیکیوں پر قائم رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنی، اِس زمانہ کے ابراہیم کی کامل اطاعت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ آپ کو مخلصین کی جماعت عطا فرماتا چلا جائے گا۔ لیکن ہمارا کام یہ ہے کہ اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال کے وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں، اپنی مسجدوں کی آبادی کے وہ معیار حاصل کریں، امن و سلامتی اور محبت کے وہ نمونے قائم کریں جو خداتعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والے ہوں۔ اطاعت نظام کے حق ادا کریں جو کبھی ہمیں ان انعاموں سے محروم نہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے مقدر کئے ہیں۔ پھر آپؑ نے فرمایا کہ عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بناؤ یعنی ابراہیمؑ کی طرز پر، اس زمانے کے ابراہیمؑ کی طرز پر اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ اور جب ایسا کرو گے تو آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اس مسیح محمدی کی جماعت میں شامل قرار دئیے جاؤ گے جو اسلام کے فرقوں میں سے نجات یافتہ فرقہ ہے۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے خلافت کا بھی انعام فرمایا ہوا ہے۔ جو ایک جماعت کی شکل میں ہے۔ جس کے افراد ایک ہاتھ پر اٹھنا بیٹھنا جانتے ہیں۔ جو قربانیاں کرنے کے لئے بے چین ہوتے ہیں۔ جو خانہ کعبہ کی طرز پر اپنی مسجدیں بناتے ہیں۔ جو اپنی اولادوں کو حضرت ابراہیمؑ کی طرح دین کی خاطر قربان کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں۔ پس ہم نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہیں حسب توفیق مساجد بھی بناتے چلے جانا ہے تاکہ اسلام کی طرف دنیا کی توجہ بھی رہے اور اپنی اولادوں کو بھی دین کی خاطر قربان کرتے چلے جانا ہے تاکہ ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو دنیا میں خدائے واحد کی پہچان کروانے والے ہوں۔ اس کا پیغام دنیا میں پھیلانے والے ہوں۔ یہاں ایک بات کی طرف مَیں خاص طورپر توجہ دلانی چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجا لاؤ یعنی اب اس زمانے میں نجات اسی میں ہے کہ اپنی عبادتوں کو اس شوق اور توجہ اور اس طریق پر ادا کرو جو اس زمانے کے حکم و عدل نے ہمیں بتائے ہیں یا ہم سے خواہش کی ہے۔ جو زمانے کے امام نے ہمیں بتائے ہیں۔ اپنے عقیدے پر اس طرح قائم ہو جس طرح اس زمانے کے امام ہمیں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان اصولوں پر چلو جو اس زمانے کے حکم اور عدل نے ہمیں بتائے ہیں۔ ذاتی خواہشوں اور دنیاوی مصلحتوں کی وجہ سے اپنے عقیدے کے سودے نہ کرو۔ عقیدہ کیا ہے؟ یہ دلی یقین کی وہ کیفیت ہے جس کے مقابلے پر ہر دوسری چیز ہیچ ہے اور ہونی چاہئے۔ کسی بھی چیز کی اس کے مقابلے پر کوئی اہمیت نہیں۔ ہر احمدی یہ عقیدہ رکھتا ہے اور اس پر کامل یقین اور ایمان کے ساتھ قائم ہے کہ آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق جس مسیح و مہدی نے آنا تھا وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں، ان کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ا ور آپؑ کی بیعت میں آ کر اب ہمارے لئے آپ ؑ کا ہر حکم بجا لانا ضروری ہے۔ لیکن بعض دفعہ لوگ اپنی ذاتی پسند کی وجہ سے ایسے فعل کے مرتکب ہو جاتے ہیں جو ان کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان اور اعتقاد کو ڈانواں ڈول کر دیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’جواعتقادی کمزوری دکھاتا ہے وہ ظالم ہے‘‘۔ وہ اس حرکت کی شدت کو نہیں سمجھتے جو وہ بعض دفعہ شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر کر رہے ہوتے ہیں جو انہیں بیعت کے دعویٰ سے منحرف کر رہا ہوتا ہے۔ جس کی ایک مثال میں پیش کرتا ہوں۔ یہ کمزوری ہے جو بعض دفعہ شدت سے بڑھنے لگ گئی ہے اور جو میرے نزدیک بڑی واضح اعتقادی غلطی بھی ہے اور یہ مسئلہ ہے شادی بیاہ کا۔
شادی کرنا ایک احسن عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے اور آنحضرتﷺ نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے بلکہ خداتعالیٰ نے بیوگان کو ایک طرح کا حکم دیا ہے کہ وہ شادی کریں اور اس کے عزیز اس کے راستہ میں روک نہ بنیں۔ آنحضرتﷺ بھی اپنے صحابہ ؓ کو تحریک فرماتے، شادی کی ترغیب دلاتے تھے، رشتے بھی تجویز فرماتے تھے۔ لیکن یہی مستحسن عمل جو ہے بعض حالتوں میں بعض احمدی خاندانوں کے لئے ابتلاء بن جاتا ہے اور اس میں نظام جماعت کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ لیکن بعض لوگ نظام جماعت کو بھی الزام دیتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب ایک شخص اپنی مرضی سے کسی غیر از جماعت لڑکی یا عورت سے شادی کرتا ہے اور اس خوف سے کہ نظام جماعت یا بُرا منائے گا اور مجھے اجازت نہیں ملے گی یا بعض اوقات غیر از جماعت لڑکی والوں کی طرف سے بھی یہ شرط رکھ دی جاتی ہے کہ نکاح غیر از جماعت مولوی یا کوئی شخص پڑھائے تو ایسے لوگ غیر از جماعت سے نکاح پڑھوا لیتے ہیں اور ایک ایسی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں جو انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت سے باہر نکال دیتی ہے۔ کیونکہ یہ نکاح پڑھانے والے وہ شخص ہوتے ہیں، یاہوتا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب کی ہوئی ہوتی ہے۔ آپؑ کی تکفیر کرنے والے ہیں۔ گویا عملاً ایسا احمدی لڑکا یا اس کا خاندان جو اس شادی میں اس کا مددگار ہوتا ہے یہ اعلان کرتا ہے کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت سے باہر نکل کر مولوی سے یہ نکاح پڑھوا کرنعوذ باللہ آپؑ کی تکفیر اور تکذیب کرتا ہوں۔ ایسے شخص یا اشخاص اعتقادی لحاظ سے آپؑ کے دعویٰ مسیحیت اور مہدویت سے انکاری ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مکفّر اور مکذّب مولوی کو آپؑ کے مقابل پر کھڑا کیا ہے۔ اور جب اس بات پر اخراج ازجماعت ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم پر ظلم ہوا ہے۔ نکاح تو ہم نے مسنون طریقہ سے پڑھایا تھا۔ اگر کسی کے باپ کو کوئی برا بھلا کہنے والا ہو تو اس پر تو مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے غیرت کا سوال آتا ہے توایسے لوگوں کی غیرتیں مصلحت اور نفسانی خواہشات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اگر ایسی کوئی اضطراری کیفیت ہے تو ایسے لوگ اجازت لے کر احمدی سے نکاح پڑھوا لیں تو اپنے ایمان کو بھی بچانے والے ہوں گے اور ابتلاء سے بھی بچ جائیں گے۔ دوسرے ایسے لوگوں کو ہمیشہ یہ سوچنا چاہئے کہ آنحضرت ؐ کے بتائے ہوئے خوبصورت اصول کے مطابق اپنی خواہشات اور نفسانیت کا شکار ہونے کی بجائے دینی پہلو کو دیکھا کریں اور احمدی خاندانوں میں رشتہ کریں۔ نیک اور دیندار لڑکی کی تلاش کریں تو نہ صرف ابتلاء سے بچ جائیں بلکہ اپنے خاندانوں کو بھی ابتلاء سے بچانے والے ہوں بلکہ ثواب کمانے والے ہوں گے۔
اسی طرح بعض بچیاں جن کو ان کے ماں باپ نے آزادی دی ہوئی ہے یا کسی بھی وجہ سے غیروں سے شادی کر لیتی ہیں، وہ بھی نہ صرف اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے علیحدہ کرتی ہیں بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اولاد کو غیروں کے ہاتھ میں دے دیتی ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے مَیں نے اس لئے کہا ہے کہ بعض لڑکیاں نہیں چاہتیں کہ احمدیت سے تعلق توڑیں لیکن شادی کے بعد ایسے حالات ہوتے ہیں کہ ان کے لئے کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے کہ ان کی اولاد دوسروں کی گود میں پلے بڑھے۔ تو یہ مسئلہ چونکہ بڑھ رہا ہے اس لئے اس کا ذکر کرنا بھی مَیں نے ضروری سمجھا۔
پس ہر احمدی کو ہمیشہ اپنے اس عہد کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ جہاں یہ احساس پیدا ہو کہ میرے کسی فعل کی وجہ سے میرا دین متاثر ہو رہا ہے وہاں تما م دنیاوی خواہشات اور عمل پر ایک سچے احمدی کو بند باندھ دینا چاہئے۔ اگر ہر احمدی اس کی پہچان کر لے، اگر اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو یقینا خداتعالیٰ کے پیار کی نظر حاصل کرنے والے ہوں گے۔ اس زمانہ کے ابراہیم کے ساتھ سچا تعلق قائم کرنے والے ہوں گے او ر سچی پیروی اور اطاعت کرنے والے ہوں گے اور ضمناً مَیں یہ بھی بتا دوں کیونکہ جب سزا کے معاملات میرے سامنے آتے ہیں تو بہرحال اصولی بات ہے سزا دینی پڑتی ہے۔ لیکن جب مَیں کسی کو سزا دیتاہوں تو یہ بات میرے لئے بہت تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ پھر امن کا قیام بھی مسجدوں سے وابستہ ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ جو مسجد میں اس نیت سے آئے گا کہ خالص ہو کر خداتعالیٰ کی عبادت کرنی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرے گا۔ لیکن جو لوگ مسجدوں میں آکر بھی بندوں کے حقوق ادا نہیں کرتے وہ عملاً اپنے آپ کو سچی اطاعت سے باہر کر رہے ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو اپنی کتابوں میں اپنے ملفوظات میں اس قدر دوسروں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپؑ کا سچا پیرو کبھی اس سے صَرفِ نظر کرے۔ لیکن افسوس کہ بعض لوگ، بعض احمدی اس خوبصورت تعلیم سے دُور ہٹتے چلے جا رہے ہیں اور پھر دعویٰ یہ ہے کہ ہم احمدی ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں، جھگڑے، خاص طور پر میاں بیوی کے جھگڑے ہوں تو پورے کا پورا خاندان اس میں ملوث ہوجاتا ہے۔ پھر لڑکیوں پر، عورتوں پر گندے الزام لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔ تو اُن کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے جائزے لیں، کچھ خدا کا خوف کریں۔ مجھے بعض دفعہ شکایات آتی ہیں بعض عہدیدار بھی انصاف کے تقاضے پورے نہ کرتے ہوئے۔ غلط قسم کے لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ ان سے بھی مَیں یہی کہوں گا کہ انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ اس وحدانیت اور امن کے قیام کی کوشش کریں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ ورنہ عہد کا پاس نہ کرنے والے اور امانت کا حق ادا نہ کرنے والے بلکہ خیانت کرنے والے کہلائیں گے۔ اور ایسے لوگ پھر اگر یہاں کسی پکڑ سے بچ بھی جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے آگے جوابدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر اس کا حق ادا کرنے والا ہو۔ مسجدوں کی تعمیر اور اس میں عبادتوں کا حق اس طرح ادا کرنے والا ہو جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے اور جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے توقع کی ہے۔ آپس میں محبت اور پیار کی فضا پیدا کرنے والے ہوں۔ امن اور سلامتی کا پیغام دینے والے ہوں۔ مسجد جہاں ہمارے اندر عبادت کا شوق پیدا کرے وہاں ہمیں ایک وحدت کی لڑی میں پرونے کا باعث بھی بنے۔ ہمیشہ ہم میں سے ہر ایک دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے، اپنی خواہشات کو اپنے دین پر قربان کرنے والا بنائے اور بن جائے۔ اس مسجد سے جوں جوں رابطے اور تعارف وسیع ہوں گے، یقینا بڑھیں گے کیونکہ نئی مسجد بنی ہے تو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام ہم نہ صرف اپنے قول سے بلکہ اپنے عمل سے بھی پہنچانے والے ہوں کہ تبلیغ کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ اسلام کے خلاف غلط فہمیاں دُور کرنے کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ ہر ایک کا جو عمل ہے وہ جتنا اثر ڈالتا ہے آپ کی بحثیں یا دلیلیں اتنا اثر نہیں ڈالتیں۔ آپ کی نیکی کا اثر یہاں اکثر یت پر قائم ہے، اس کو قائم کرنا ہے آپ نے اور اسی نے پھر جماعت کے پھیلنے کے مقصد پورے کرنے ہیں۔ اسی سے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی ترقی بھی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(الفضل انٹرنیشنل خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی نمبرجلد 15 شمارہ 30-31 مورخہ 25 جولائی تا 7 اگست 2008ء صفحہ 5تا 8)
کیلگری کینیڈاکی مسجد کا افتتاح، صرف مسجدیں بنانا کام نہیں خداکے اور اسکی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی بھی ضروری ہے، باربارمسجد میں آنا ہی اس کی اصل خوبصورتی اور زینت ہے، ذاتی خواہشوں اور مصلحتوں کی بناء پر اپنے عقیدے کا سودانہ کریں، اعتقادی کمزوری اور بیاہ شادی کے معاملات، نظام کوتوڑکر غیروں میں شادی کرنے والے اللہ تعالیٰ کے حضورجوابدہ ہیں۔
فرمودہ مورخہ 04؍جولائی 2008ء بمطابق 04؍ وفا 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت النور۔ کیلگری (کینیڈا)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔