جرمنی کے جلسہ اور دورہ کی بابت ایمان افروز تاثرات
خطبہ جمعہ 29؍ اگست 2008ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو دن پہلے میری جرمنی کے سفر سے واپسی ہوئی ہے۔ گزشتہ اتوار کو جیسا کہ سب جانتے ہیں جرمنی کا جلسہ سالانہ تھا۔ آج میرا خیال کچھ اور مضمون بیان کرنے کا تھا، نوٹس بنانے لگا تو خیال آیا کہ روایت کے مطابق جلسہ کے بارہ میں جس میں مَیں شامل ہوتا ہوں یا اس ملک کی جماعت کے بارے میں جہاں دورے پہ جاتا ہوں عموماً میں بیان کیا کرتا ہوں۔ اس لئے آج جرمنی کے جلسے کے بارہ میں ہی مَیں کچھ کہنا چاہوں گا اور اس لئے بھی ضروری ہے کہ جو کارکنان کام کر رہے ہوتے ہیں ان کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ یہی ایک مومن سے توقع کی جاتی ہے۔ نیز اس لئے بھی ضروری تھا کہ اگر مَیں اپنی روایت کے مطابق ذکر نہ کروں تو جرمنی والے کہیں پریشان نہ ہو جائیں کہ کہیں دوبارہ کوئی ناراضگی نہ ہو گئی ہو۔
یہ جلسہ جس کا اجراء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تاکہ احمدیوں کی دینی، اخلاقی اور روحانی حالت کو بہتر بنایا جائے، تربیت کے بہتر سامان پیدا کئے جائیں، اب تمام دنیا کی جماعتوں کے جو پروگرام ہیں یہ جلسہ اُن کے پروگراموں کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ اور اس سال تو جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ خلافت جوبلی کے حوالے سے اس سال کے جلسوں کو خاص اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور اگر جرمنی کے اس سال کے جلسے کے بارہ میں مختصراً کچھ نہ بتاؤں تو فوراً وہاں سے خطوط کا سلسلہ شروع ہو جائے گا کہ کیا وجہ ہے آپ جلسہ کے اختتام پر عموماً تأثرات بیان کیا کرتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ نہیں کیا۔ جرمنی کی جماعت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص و وفا میں بڑھنے والی جماعت ہے اور اگران کو اس طرح کا شکوہ ہو تو بڑا جائز شکوہ ہو گا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اخلاص و وفا میں بڑھنے والے عجیب پیارے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فرمان آج بھی بڑی شان سے پورا ہو رہا ہے کہ جماعت نے اخلاص و محبت میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے۔ پس آج جس طرح مَیں دنیا کے دوسرے ممالک میں بسنے والے بعض احمدیوں کے اخلاص و وفا میں ترقی دیکھتا ہوں اسی طرح جرمنی کی جماعت بھی اس میں قدم آگے بڑھا رہی ہے۔ بعض احمدی لوگ یعنی جو بڑی عمر کے احمدی ہیں، وہ نوجوانوں کو بڑی تنقید کی نظر سے دیکھتے تھے۔ خود کئیوں نے میرے سامنے بیان کیا ہے کہ جرمنی میں نوجوانوں میں نمازوں کی طرف توجہ اور اخلاص میں قدم واضح طور پر بہتری کی طرف بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ پس یہی باتیں ہیں جن کا اگر ہمارے نوجوان خیال رکھتے رہے تو اپنی دنیا و عاقبت بھی سنوارنے والے ہوں گے اور جماعت کے لئے بھی مفید وجود بنیں گے۔ اللہ کرے کہ یہ اس میں ترقی کرتے چلے جائیں۔ جیسا کہ دنیائے احمدیت نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دیکھا اور سن لیا کہ جلسہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر قسم کی برکات پھیلاتا ہوا اپنے اختتام کو پہنچا تھا اور حاضری بھی اس دفعہ جرمنی کے لحاظ سے ریکارڈ حاضری تھی، یعنی 37 ہزار سے اوپر۔ مَیں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ مَیں نے 33-32 ہزار کا اندازہ لگایا تھا اور بڑی چھلانگ لگائی تھی اور یہی مقا می انتظامیہ کا اندازہ ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا اور یہ احمدیوں کے خلافت کے ساتھ پختہ تعلق کا اور اللہ تعالیٰ کی تائید کاایک ثبوت ہے۔ دشمن جس چیز کو ختم کرنے کے درپے تھا وہ مزید صیقل ہو کر ہر جگہ سامنے آ رہی ہے۔ اب بھی اگر دنیا داروں اور عقل کے اندھوں کو سمجھ نہ آئے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ ہم تو دنیا کی راستی کے لئے دعا کر سکتے ہیں اور وہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقل اور سمجھ دے۔ بہرحال اتنی بڑی تعداد کے آنے کے باوجود وہاں کے انتظامات عمومی طور پر بہت اچھے تھے۔
پھر جلسہ کے پروگرام تھے۔ اس سال کی اہمیت کی نسبت سے وہ بھی بڑے اچھے پروگرام تھے۔ مقررین کی تقاریر کی تیاری بھی یعنی مواد کے لحاظ سے اور اس کاجو انہوں نے بیان کیا وہ بھی بڑی اچھی طرح کیا۔ ہر طرح سے بڑا بہترین تھا اور یہی اکثر کا تاثر ہے جن سے بھی مَیں نے پوچھا ہے۔ اور پھر جلسہ میں شامل ہونے والوں نے ان تقریروں کو سنا بھی بڑے غور سے ہے۔ اکثر کا جلسہ کے دوران مکمل انہماک نظر آتا تھا۔ وقتاً فوقتاً مَیں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دیکھتا رہتا تھا۔ عمومی طور پر وہاں بیٹھے ہوؤں کی حاضری بھی اچھی ہوتی تھی اور سن بھی بڑے غور سے رہے ہوتے تھے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس سال کیونکہ خلافت کے 100سال پورے ہونے کے حوالے سے خلافت کے موضوع پر تقاریر تھیں اس لئے جہاں سننے والوں کی توجہ نظر آتی تھی وہاں ان کے چہروں پر اخلاص ووفا بھی چھلکتا ہوا نظر آتا تھا۔ عموماً مَیں نے دیکھا ہے کہ میری تقریروں کے علاوہ جلسوں میں حاضری اس قدر نہیں ہوتی جس قدر اس دفعہ نظر آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سننے والوں کے اخلاص و وفا میں بھی مزید ترقی دے اور نہ صرف وہ لوگ جو جلسے میں موجود تھے ان کے بلکہ تمام دنیائے احمدیت کے ہر احمدی کے اخلاص و وفا کو اللہ تعالیٰ بڑھاتا چلاجائے۔
جرمنی میں میرے جلسہ کے جو عموماً پروگرام ہوتے ہیں ان میں گزشتہ سالوں کی نسبت ایک زائد کام بھی تھا اور وہ جرمنی اور دوسرے ہمسایہ ممالک سے آئے ہوئے غیر مسلم لوگوں کے ساتھ جن میں اکثریت جرمنوں کی تھی، دوسرے ممالک کے بھی کچھ لوگ تھے، غیر مسلم تھے اور کچھ غیر احمدی بھی تھے جن کی تعداد چار ساڑھے چار سو تھی ان کے ساتھ ایک علیحدہ پروگرام تھا۔ اس میں مَیں نے جہاد کی حقیقت پر ان کے سامنے قرآنی تعلیم رکھی اور بتایا کہ ہجرت سے پہلے کفار مکہ مسلمانوں سے کیا سلوک کرتے رہے۔ ہجرت کے بعد کس طرح حملے کئے۔ کس طرح مسلمان دفاع کرتے رہے۔ قرآن نے کس طرح اور کس حد تک ان حملوں کا جواب دینے کا مسلمانوں کو حکم دیا اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاد کی کیا تعریف کی ہے اور کس طرح کا جہاد اب ہم احمدی کرتے ہیں۔ اس کا ان مہمانوں پر بڑا اچھا اثر تھا۔ جس کا بعض نے ملاقات کے دوران بعد میں اظہار بھی کیا اور بڑا کھل کر اظہار کیا کہ آج ہمارے مسلمانوں کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات دور ہوئے ہیں۔ اسلام کی تاریخ اور جہاد کا ہمیں پتہ لگا ہے۔ جہاد کی تعریف پتہ لگی ہے۔ بعض ملکوں کے پڑھے لکھے لوگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اکثریت تو پڑھے لکھوں کی تھی لیکن اس لحاظ سے پڑھے لکھے کہ ان میں لکھنے والے بھی تھے کچھ جرنلسٹ بھی تھے۔ ان میں سے ایک دو نے مجھے کہا کہ ہم اپنے ملکوں میں جا کر اخباروں میں جلسہ کے حوالے سے خبر اور مضمون لکھیں گے اور اسی طرح اس تقریر کے حوالے سے بھی آرٹیکل لکھیں گے کہ مسلمانوں کا اصل جہاد کیا ہے اور آج کل احمدیہ جماعت کس طرح کا جہاد کر رہی ہے۔ اللہ کرے کہ یہ لوگ صحیح طور پر لکھ سکیں کیونکہ بعض دفعہ یہ لوگ صحافتی مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کچھ نہ کچھ ایچ پیچ ضرور ڈالنا ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال ان کے چہروں سے یہ واضح اور عیاں تھا کہ وہ ہمارے جلسہ میں شامل ہو کر بہت متأثر ہوئے ہیں۔ جن ممالک سے یہ مہمان شامل ہوئے ان میں ایسٹونیا، آئس لینڈ(آئس لینڈ کے تمام لوگ عیسائی تھے ان میں سے کوئی احمدی یا مسلمان نہیں تھا اور انہی میں بعض لکھنے والے بھی تھے) البانیہ، مالٹا، رومانیہ، بلغاریہ اور اسی طرح پانچ چھ اور ممالک تھے۔ ان مہمانوں میں اکثریت عیسائی تھی۔
بلغاریہ ایسا ملک ہے جہاں مسلمانوں کی کافی بڑی تعداد ہے اور مسلمانوں کے یہاں ہونے کی وجہ سے یہاں مخالفت بھی ہے۔ ان یورپین، یعنی مشرقی یورپ کے ملکوں میں سے پرانے مقامی مسلمان بھی یہاں رہتے ہیں۔ اسلام کا تو ان کو کچھ پتہ نہیں ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جیسا کہ ہمیں دنیا میں ہر جگہ نظر آتا ہے کہ جہاں جہاں بھی مذہب کے نام پر فساد برپا ہوتے ہیں وہاں ان مسلمان ملکوں میں مُلّاں کا بڑا اہم کردار ہے کیونکہ عموماً لوگوں کو تو اسلام کا پتہ نہیں لیکن جماعت کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔ بلغاریہ میں بھی احمدیوں کے خلاف حکومت کا جورویہ ہے، حکومت حالانکہ مسلمان نہیں ہے اس کی وجہ بھی یہ مُلّاں ہی ہے کیونکہ اگر جماعت مکمل آزادی سے تبلیغ کرتی ہے تو اسلام سے متعلق لوگوں کو بتاتی ہے۔ ایک حقیقی مسلمان بنا کر اسے خدا سے تعلق پیدا کرنے پر زور دیتی ہے تو یہ جو مُلّاں ہے یا نام نہاد دین کے لیڈر یا ٹھیکیدار ہیں ان کی انفرادیت ختم ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اکثریت عوام کو تو اسلام کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔ ہر کام کے لئے انہوں نے اپنے نام نہاد مسلمان سکالروں کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی کی باتیں ان کو بتاتے ہیں۔ حکومت نے ایک کونسل بنائی ہوئی ہے جس کو وہ کونسل سرٹیفیکیٹ دے دے یا جو ان کا لیڈر کہے کہ یہ صحیح مسلمان ہیں یا یہ صحیح مسلمانوں کی تنظیم ہے وہی اپنی ایکیٹویٹی (activity) اس ملک میں جاری رکھ سکتی ہے۔ تو بہرحال اس کے لئے تو جما عت کوشش کر رہی ہے مقدمے بھی ہوئے آئندہ دیکھیں اللہ کرے، اللہ مدد فرمائے اور جماعت وہاں رجسٹر ڈہو جائے۔
بلغاریہ سے ایک بہت بڑا وفد آیا ہوا تھا جس میں کافی تعداد غیر از جماعت مسلمانوں کی بھی تھی اور کچھ ان میں غیر مسلم بھی تھے، سب نے برملا اس بات کا اظہار کیاکہ یہاں آ کر ہمیں پتہ چلا ہے کہ حقیقی اسلام کا تصور جماعت احمدیہ ہی پیش کرتی ہے۔ اور اب ہم واپس جا کر اپنے اپنے حلقہ میں اپنے اپنے سفر کے تاثرات بیان کریں گے تو یہ بات بھی بتائیں گے۔ بلکہ مَیں نے انہیں کہا کہ مُلّاں کے اس غلط تصور کو دور کریں اور اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جو آپ لوگوں نے دیکھا ہے، جو محسوس کیا ہے، جو سنا ہے اسے اپنے اپنے حلقہ میں جا کر بتائیں اور ضرور بتائیں۔ بعض نے اس بات کا اظہار کیا کہ جماعت کا لٹریچر زیادہ سے زیادہ بلغاریہ میں تقسیم ہونا چاہئے۔ لٹریچر تو بہرحال بلغارین زبان میں ہے اگرچہ کچھ پابندیاں اور کچھ شرطیں ہیں لیکن جب مَیں نے پتہ کیا تو مجھے بتایا گیاکہ فلاں فلاں لٹریچر موجود ہے تو مَیں نے جو یہاں کے مربی صاحب تھے، مشنری تھے ان کو کہا کہ جو موجود لوگ ہیں ان کو فوری طور پر مہیا کر دیں۔ کیونکہ ان کو بھی جماعت کے بارہ میں بہت معمولی علم تھا۔ اللہ کرے کہ وہاں جماعت جلد تر آزادی کے ساتھ قائم ہوجائے اور اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو کامیاب فرمائے۔ جماعت تو وہاں ہے جیسا کہ مَیں نے کہالیکن حکومت نے رجسٹریشن کینسل کر دی تھی۔ بلغاریہ میں جتنے بھی احمدی ہوئے ہیں، کافی بڑی تعداد ہے۔ اخلاص میں بڑے بڑھے ہوئے ہیں اور جذباتی رنگ رکھنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جسے بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق دیتا ہے اس کے دل میں اخلاص ووفا بھی اتنا بھر دیتا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تائید کے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہونے کے وعدے کے اظہارہیں۔ پھر جرمن احمدی مردوں اور عورتوں سے جلسے کے آخری دن ملاقات ہوئی۔ گزشتہ سال تو صرف عورتوں کے ساتھ ملاقات کا پروگرام ہوا تھا۔ اس سال امیر صاحب نے کہہ کر مردوں کے ساتھ بھی ایک پروگرام رکھا۔ پہلے عورتوں کی ملاقات میں ایک عورت نے کہا کہ وہ ابھی بیعت کرنا چاہتی ہے۔ 28-27سال کی نوجوان لڑکی تھی اور وہ کافی حد تک پہلے جماعت کے بارہ میں معلومات حاصل کر چکی تھی لیکن بیعت نہیں کر رہی تھی۔ اس ملاقات کے دوران ہی اس نے کہا کہ مَیں جلسہ سے متاثر ہوئی ہوں اور کافی عرصے سے جماعت سے رابطہ ہے جو تھوڑے بہت شکوک و شبہات تھے وہ اب دور ہو گئے ہیں۔ اس لئے مَیں آج ابھی فوری طور پر بیعت کرنا چاہتی ہوں۔ اسی طرح مردوں میں ایک دوست جو غالباً یونان کے رہنے والے تھے وہ کہنے لگے کہ مَیں بھی جماعت سے رابطے میں ہوں اور لٹریچر بھی پڑھاہے اور میرے پوچھنے پر کہ کس چیزنے انہیں احمدیت کے زیادہ قریب کیاہے۔ انہوں نے بتایاکہ ایک احمدی دوست نے انہیں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ پڑھنے کو دی جس کو پڑھنے کے بعداسلام کی مکمل تصویر اور تعلیم جو ہرچیز کا احاطہ کئے ہوئے تھی وہ میرے سامنے آگئی۔ اور بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگے کہ آج آپ سے ملاقات کے بعد مَیں نے احمدی ہونے کا فیصلہ کر لیاہے۔ مَیں نے پوچھا کہ بیعت فارم ابھی بھرناہے یا بعد میں۔ توانہوں نے فوراً جواب دیا کہ ابھی اور اسی وقت میری بیعت لیں۔ چنانچہ وہاں جو جرمن اور پاکستانی لوگوں کی مجلس تھی جس میں اکثریت تو احمدیوں کی تھی بلکہ سار ے احمد ی تھے وہاں ان کی بیعت بھی لی۔ وہاں ایک نوجوان لڑکا بھی تھا جس نے بیعت میں شمولیت کی۔ کسی پاکستانی لڑکے کا دوست تھااور لباس وغیرہ سے احمدی لگتا تھا۔ شاید اس سے مانگ کے شلوار قمیص پہن کر جلسہ میں آیا تھا۔ میرے پاس آیا کہ مَیں بھی احمدی ہونا چاہتا ہوں۔ مَیں نے اسے کہا کہ تم توشکل سے یالباس سے کم ازکم احمدی لگتے ہو۔ توکہنے لگا کہ نہیں مَیں عیسائی ہوں۔ اب مَیں آج احمدی ہوناچاہتاہوں۔ مَیں نے کہا بیعت تو تم کرچکے ہو۔ مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ لیکن مَیں نے اسے کہاکہ ابھی تمہاری عمر چھوٹی ہے۔ سولہ سترہ سال کا نوجوان تھا۔ تمہارے والدین تمہارے بیعت کرنے کو بُرا نہ سمجھیں۔ سوچ لو، دیکھ لو۔ بعدمیں اپنے گھرمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ کہنے لگاجو بھی ہو، مَیں حق کی تلاش میں ہوں اور احمدیت کو اچھی طرح سے جانتاہوں۔ اور آج مَیں نے بالکل اچھی طرح سب کچھ دیکھ لیاہے اور مَیں احمدی ہوں۔ بیعت کے وقت بھی وہاں بڑا جذباتی ماحول تھا۔ و ہ یونانی دوست جنہوں نے بیعت کی اور دوسرے لوگ بھی ہچکیوں کے ساتھ روتے ہوئے بیعت کے الفا ظ دہرا رہے تھے۔ بہرحال ان نوجوانوں تک جوآج کل یورپ میں بسنے والے ہیں اگر صحیح رنگ میں احمدیت کاپیغام پہنچ جائے تو یہ نوجوان جوان ملکوں میں ہیں، ان میں ایک بے سکونی کی کیفت ہے جیسا کہ مَیں نے جلسہ کی اپنی تقریر میں بھی ذکر کیا تھا، سکون کی تلاش میں وہ ضرور احمدیت کی آغوش میں آئیں گے بشرطیکہ پیغام انہیں صحیح طورپر پہنچاہو۔ پس ہمیں بھی اپنی حالتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے تا کہ ان لوگوں کے لئے عملی نمونہ بن سکیں اور اسی طرح تبلیغ کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے تاکہ دنیا کو خدا کے قریب لاکر حقیقی سکون مہیاکرنے والے بن سکیں۔ ہر سعید فطرت جس کوحق کی تلاش ہے اگراسے صحیح رنگ میں پیغام پہنچ جائے یا وہ عملی نمونہ دیکھ لے تو ضرور اس کو احمدیت کی طرف توجہ ہوگی۔ جیساکہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے کہ ؎
ہرطرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج
جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار
پس یہ جو آواز ہم لگا رہے ہیں، دے رہے ہیں یہ آوازکوئی منفرد چیزہے جس کی طرف توجہ پھرانے کی احمدی کوشش کرتاہے۔ اگر عام چیز ہو تو توجہ پیدا ہی نہیں ہوسکتی۔ کوئی منفرد آواز ہونی چاہئے۔ پس توجہ دینے کے لئے اپنی حالت کو بھی قابل توجہ بنانے کی ضرورت ہے اور یہ حالت عملی نمونہ سے پیداہوتی ہے۔ اور جب بھی ایک آواز دینے والا آواز دے تو اپنے نمونے بھی قائم کرے۔ اور جب نیک اور سعید فطرت کی اس طرف توجہ پیدا ہوگی تو اس کے لئے اس آواز میں شامل ہوئے بغیر چارہ نہیں ہو گااور حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونا ہی اس کے لئے سکون کا باعث بنے گا اور انہی جذبات کا اظہار احمدیت میں شامل ہونے والا ہر نیا احمدی کرتا ہے، جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا۔
اس سال خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے کی وجہ سے باقی جلسوں کی طرح جرمنی کے جلسہ کا بھی ایک ذرا مختلف انداز اور شان تھی۔ حاضری زیادہ اور اسی وجہ سے انتظامات وسیع تھے اور کارکنان نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وسیع انتظام کو خوب سنبھالا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ملک میں کارکنان کی اس قدر ٹریننگ ہو چکی ہے کہ انتظامات کی وسعت ان میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہیں کرتی۔ لیکن ان مغربی ممالک میں جب انتظامات میں وسعت پیدا ہوتی ہے تو سرکاری محکمے زیادہ متوجہ ہو جاتے ہیں۔ سو جرمنی میں بھی یہی ہوا۔ ہائی جین (Hygiene) والوں کا ایک محکمہ ہے جو صفائی، ستھرائی کا انتظام دیکھتا ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال بھی کچھ سختی کی تھی لیکن اس دفعہ صفائی ستھرائی اور کھانے وغیرہ پر اس محکمہ کی خاص نظر تھی اور لنگر خانہ جہاں کھانا پکتا ہے اس پہ چھوٹی چھوٹی بات پر اعتراض لگتے رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے کارکنان نے ہر طرح سے کوشش کرکے مطلوبہ معیار حاصل کرنے کی طرف توجہ رکھی اور کسی بڑے اعتراض کا بظاہر موقع نہیں ملا۔ بعد میں کیا ہوا یہ تو اب پتہ لگے گا۔ بہرحال اللہ کا شکرہے کہ جلسہ خیریت سے گزر گیا اور کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ان کو ہر پریشانی سے محفوظ رکھے۔
گزشتہ سال دیگیں دھونے کی جس مشین کا مَیں نے وہاں اپنے جرمنی کے خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا۔ یہ تین بھائی ہیں جنہوں نے مشین بنائی تھی، پہلے دو تھے اب ان میں تیسراشامل ہو گیا ہے، اس مشین کو مکمل آٹو میٹک بنا دیا اور حیرانی والی بات یہ ہے کہ ان بھائیوں میں سے کوئی بھی انجینئر نہیں ہے۔ ایک شاید بیالوجی میں ڈگری کرکے اب آگے پڑھ رہا ہے دوسرا بھی کسی ایسے مضمون میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے اور تیسرا بھائی سیکنڈری سکول میں پڑھتا ہے۔ تو اگر لگن سچی ہو تو پڑھائی یا کسی بھی قسم کا مضمون جماعت کی خدمت میں روک نہیں بن سکتا۔ بہرحال اب اس مشین کو انہوں نے آٹو میٹک کر لیا اور اب آٹو میٹک اس طرح کیا ہے کہ گندی دیگ ایک بیلٹ پر رکھی جاتی ہے اور یہ بیلٹ دیگ کو مشین کے اندر خود لے جاتی ہے جہاں مکمل کمپیوٹرائزڈ نظام ہے اور اس کے تحت صابن اور گرم پانی مطلوبہ مقدار میں دیگ کے اندر پھینکا جاتا ہے، ساتھ ہی مختلف قسم کے برش مشین کے اندر اور باہر اس کو دھونے لگ جاتے ہیں بلکہ مشین میں سکریپر(Scraper) بھی لگا ہوا ہے۔ اگر دیگ میں کچھ حصہ جلا ہوا ہو تو اس کو بھی بالکل صاف کرکے چمکا دیتا ہے اور دو منٹ میں دیگ دھل کر دوسری طرف سے باہر نکل آتی ہے۔ اب یہ لوگ قادیان کے لئے بھی وہاں کی دیگوں کے مطابق مشین تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہاں کی دیگیں یہاں کی نسبت ذرا مختلف ہیں۔ وہ ایک تو گولائی میں ہوتی ہیں اور اندر سے کھلی اور منہ سے تنگ ہوتی ہے۔ اس کے مطابق بہرحال ان کو ڈیزائن کرنا پڑے گا۔ ان کایہ پکا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد ہی وہ یہ مشین بھی تیار کر دیں گے۔ ان بھائیوں کے نام ہیں عطاء المنان حق، ودودالحق اور نورالحق۔ اللہ تعالیٰ ان تینوں بھائیوں کی کوششوں میں برکت ڈالے اور ان کا اخلاص و وفا ہمیشہ قائم ر کھے اور آئندہ بھی انہیں جماعت کی بہتر رنگ میں خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور ہر کامیابی ان میں مزید عاجزی پیدا کرے۔ بعض دفعہ تکبر بعض چیزوں سے پیدا ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ہر احمدی کے دل کو جب بھی وہ اچھا کام کرے اللہ تعالیٰ ہمیشہ عاجزی میں بڑھائے۔
اس دفعہ خدام الاحمدیہ نے خلافت جوبلی کے حوالے سے جو سپورٹس ٹورنامنٹ کروایا تھا وہ بھی کیونکہ وہیں مئی مارکیٹ منہائیم میں ہوا تھا جہاں جلسہ ہوتا ہے اس لئے تیاری بھی کچھ پہلے شروع ہوگئی تھی۔ خدام نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی محنت سے پہلے کام شروع کیا اور تمام انتظامات مکمل کئے۔ گویا ہر سال کی نسبت اس سال ہفتہ دس دن پہلے خدام نے وقار عمل کے لئے وقت دینا شروع کر دیا تھا۔ بڑی محنت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدام ہر جگہ ہی کام کرتے ہیں۔ جرمنی میں مار کیز بھی یہ لوگ خود لگاتے ہیں اور یہ بڑا محنت طلب اور پیشہ ورانہ قسم کا کام ہے۔ بڑا ماہرانہ کام ہے۔ بعض کو جو اناڑی ہوتے ہیں اس کام میں چوٹیں بھی لگتی ہیں۔ لیکن ایک جوش اور جذبے سے یہ کام کرتے چلے جاتے ہیں اور بغیر کسی چوں چراں کے کئی دن لگاتار کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعضوں کو تو 36اور 48 گھنٹے کے بعد سونے کا موقعہ ملتا ہے۔ پھر جلسہ کے بعد وائنڈاَپ کا کام ہے، صفائی کرنا اور سب کچھ سمیٹنا اور پھر صاف بھی کرنا اور یہ بھی بڑا مشکل اور ذمہ داری کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کام کرنے والوں کو جزا دے۔ تمام کارکنان ہی شکریہ کے مستحق ہیں۔ جلسہ میں شامل ہونے والے تو جلسہ میں شامل ہوکر، سن کر چلے جاتے ہیں ان کو احساس نہیں ہوتا کہ اس کے انتظامات کو معیار کے مطابق بنانے کے لئے اور پھر اس کو سمیٹ کر جگہ صاف کرکے انتظامیہ کے حوالے کرنے میں کتنی محنت اور وقت صرف ہوتا ہے۔ یہ حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے سپاہی ہیں جن کا آپؑ کے مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے کا ایک مزاج بن گیا ہے اگر کسی وجہ سے ان سے خدمت نہ لو تو یہ لوگ بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جو خلافت سے وفا کے تعلق کی وجہ سے خلافت کی طرف سے ہر آواز پر لبیک کہنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور ان کے مالوں اور جانوں میں بے انتہا برکت ڈالے۔
جیسا کہ UK جلسہ پر بھی غیروں کا تأثر تھا اور دنیا کے دوسرے ممالک کے جلسوں پر بھی ہوتا ہے، جرمنی میں بھی غیروں نے اس بات کا اظہار کیا کہ اس بات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح خوش دلی سے چھوٹے سے لے کر بڑے تک جن میں 8-7سال کے بچے بھی شامل ہیں اور 70-60سال کے بڑے بھی، نوجوان بھی اور مرد بھی اور عورتیں بھی۔ جو جو اپنی ڈیوٹیوں پر ہوتے ہیں، انتہائی خدمت کے جذبے سے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں اور اتنی لمبی لمبی ڈیوٹیاں دینے کے باوجود کسی کے ماتھے پر بل تک نہیں آتا بلکہ ان کے چہروں سے مہمانوں کی خدمت کرکے خوشی ظاہر ہو رہی ہوتی ہے۔
پھر شامل ہونے والوں کی آپس کی محبت اور بھائی چارے کا ماحول ہے، یہ بھی غیروں کو بہت متأثر کرتا ہے اور یہ بات ایسی ہے جو ہر احمدی کا خاصہ ہے اور ہونی چاہئے کیونکہ حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جلسہ کی اغراض میں سے ایک بڑی غرض یہ بھی تھی کہ آپس میں محبت اور پیار پیدا ہو۔ یہ بات جلسہ دیکھنے جوغَیر آتے ہیں ان کو بہت متاثر کرتی ہے۔ جس کا کئی غیروں نے جرمنی میں میرے سامنے بھی اظہار کیا کہ اتنا مجمع ہے اور ہمیں پولیس کہیں نظر نہیں آتی اور آرام سے سارے کام ہو رہے ہیں۔ اب ان کو کوئی کس طرح بتائے کہ یہی تو وہ پاک انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے اندر پیدا فرمایا۔ تم بھی اگر اس جماعت میں شامل ہو جاؤ تو تمہاری بھی یہی حالت اور کیفیت ہو جائے گی کیونکہ اس حالت کے پیدا کرنے کے لئے ایک تسلسل سے حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہماری تربیت فرمائی اور توجہ دلاتے رہے اور اس کے بعد خلافت توجہ دلاتی رہی۔
حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ جب تک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتا رہے یہ اصلاح نہیں ہوتی۔ زبان کی بداخلاقیاں دشمنی ڈال دیتی ہیں۔ اسی لئے اپنی زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہئے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 262 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر آپؑ نے ہماری تربیت کرتے ہوئے فرمایا: ’’پس یہ دستور ہونا چاہئے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے‘‘۔
پھر آپؑ نے فرمایا: ’’قرآن شریف میں آیا ہے تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی کمزور بھائیوں کا بار اٹھاؤ۔ …کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی، جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ ان کی پردہ پوشی کی جاوے۔ صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چِڑو کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت اور ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے دیکھو وہ جماعت، جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے‘‘۔
پھر آپؑ نے ایک جگہ فرمایا: ’’جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے۔ پردہ پوشی کی جاوے۔ جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں‘‘۔ یعنی اعضاء بن جاتے ہیں ’’اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں‘‘۔
پھر آپؑ نے فرمایا: ’’اب تم میں ایک نئی برادری اور نئی اخوت قائم ہوئی ہے۔ پچھلے سلسلے منقطع ہو گئے ہیں۔ خداتعالیٰ نے یہ نئی قوم بنائی ہے جس میں امیر، غریب، بچے، جوان، بوڑھے ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ پس غریبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے معزز بھائیوں کی قدرکریں اور عزت کریں اور امیروں کا فرض ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کریں اور ان کو فقیر اور ذلیل نہ سمجھیں کیونکہ وہ بھی بھائی ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 263-265جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس یہ ہے وہ تعلیم جو حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں ایک تسلسل سے دی اور یہی وجہ ہے کہ یہ تعلیم آئندہ نسلوں میں منتقل ہوتی چلی جا رہی ہے اور ہماری اصلاح بھی ہوتی ہے۔
پس جو ایسی تعلیم کے ماننے والے ہوں وہی ہیں جو ایک دوسرے سے محبت اور پیار سے پیش آتے ہیں اور خاص طور پر ایسے موقع پر جب خداتعالیٰ کی خاطر جمع ہوئے ہوں۔ پس ان باتوں کو ہر احمدی کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھناچاہئے تاکہ اخلاق کے معیار بلند ہوتے چلے جائیں اور ہم غیروں کی توجہ جذب کرنے والے بنیں اور یہی چیز ہماری تبلیغ کا ذریعہ بنے گی۔
اس دفعہ عورتوں کے جلسہ گاہ سے بھی عمومی رپورٹ اچھی تھی اور گزشتہ سال جو اِن سے شکوہ پیدا ہوا تھا اس کو انہوں نے بڑے اخلاص و وفا سے دھویا۔ عورتوں کو اس پابندی کی وجہ سے جو مَیں نے ان پر لگائی تھی استغفار کا بھی بڑا موقع ملا اور اس دوران جو دردناک قسم کے خط وہ معافی کے لئے مجھے لکھتی رہیں وہ یقینا ان کے دل کی آواز تھے۔ کیونکہ اس دفعہ عمومی طور پر اکثریت کا جو عمل تھا اُس نے اُسے ثابت بھی کر دیا۔ پس یہ بات بھی اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور حمد کی طرف توجہ پھیرتی ہے کہ اُس نے حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسی پیاری جماعت عطا فرمائی ہے جو خلافت کی آواز پر اس طرح اٹھتی اور بیٹھتی ہے اور اس طرح لبیک کہتی ہے کہ سوائے خداتعالیٰ کی ذات کے جس کے قبضہ قدرت میں ہر دل ہے کوئی یہ حالت اور کیفیت مومنوں میں پیدا نہیں کر سکتا، کسی کے دل میں پیدا نہیں کر سکتا۔ پس یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ یہی جماعت وہ سچی جماعت ہے جس کے پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلا م آئے تھے اور جس نے اس زمانہ میں اسلام کی صحیح تعلیم کو دنیا میں دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا ہے۔
جلسہ کے آخری دن عورتوں اور مردوں میں جو جذبات کا اظہار ہوا تھا وہ بھی پہلے سے بڑھ کر تھا اور بڑا جوش تھا۔ مجھے وہاں کسی احمدی نے کہا کہ اس دفعہ کا تعلق مجھے کچھ اور طرح سے نظر آ رہا ہے اور واقعی اس کی یہ بات ٹھیک تھی۔ ایک جرمن احمدی سے مَیں نے پوچھا کہ اس دفعہ گزشتہ جلسوں کی نسبت تمہیں کوئی فرق محسوس ہوا ہے؟ تو فوری ردّ عمل اس کا یہ تھا اور اس کا جواب تھا کہ منصب خلافت کا فہم و ادراک اور ایک خاص تعلق زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ یہ عمومی طور پر ہر جگہ نظر آتا ہے اور کہنے لگا کہ مَیں خود بھی یہ محسوس کرتا ہوں۔ خلافت جوبلی کی تیاریوں، مضامین، جن کی تیاری کے لئے خلافت کے مضمون کو بہت سارے لوگوں کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کا موقع ملا اور پھر اس حوالے سے مختلف تربیتی فنکشنز بھی ہوئے تو ان سب باتوں نے اس طرف خاص توجہ اور تبدیلی پیدا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے بڑھاتارہے اور ہر احمدی وہ مقام حاصل کرے جو نیکی اور تقویٰ میں بڑھنے کا مقام ہے، جس کی حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت سے توقع کی ہے اور جس کی طرف توجہ دلانے کی خلافت احمدیہ ہمیشہ کوشش کرتی ہے۔
حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام رسالہ الوصیت میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’اور چاہئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے روح القدس سے حصہ لو کہ بجز روح القدس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی اور نفسانی جذبات کو بکلّی چھوڑ کر خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو۔ دنیا کی لذّتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں‘‘۔ (رسالہ الوصیّت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 307)
پس یہ تقویٰ کا معیار حاصل کرنے کے لئے جو بھی کوشش کرتا رہے گا وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا مقام پائے گا، اس کے انعامات سے حصہ لینے والا ہو گا۔
اس دفعہ جرمنی میں خلافت کے حوالے سے ایک تصویری نمائش کا بھی انہوں نے اہتمام کیا۔ وہ بھی ان کی اچھی کوشش تھی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی طور پر جرمنی کا جلسہ سالانہ بھی خاص برکات لئے ہوئے تھا۔ اللہ تعالیٰ تمام کام کرنے والے کارکنان اور کارکنات کو جزا دے۔ ان سب کو اخلاص و وفا اور ایمان میں بڑھائے اور وہ تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں اور اپنے مقصد کو سمجھنے والے ہوں۔ اس کے بعد مَیں آج کل کے بعض حالات کی وجہ سے ایک دعا کی درخواست بھی کرنا چاہتا ہوں۔ آج کل ہندوستان کے بعض علاقوں میں احمدیت کی مخالفت نے بڑا زور پکڑا ہوا ہے۔ خلافت جوبلی کے حوالے سے حیدر آباد دکن انڈیا میں جو ہمارے جلسے ہو رہے تھے ان میں مخالفین نے بڑا شور مچایا۔ تیاریوں کے ابتدائی مراحل میں جلوس اور توڑ پھوڑ کی۔ آخر انتظامیہ بے بس ہو گئی اور بعض جگہ جلسے نہیں ہو سکے۔
اور پھر گزشتہ دنوں سہارنپور میں احمدیوں کے گھروں پر حملے کئے گئے، احمدیوں کو مارا گیا، سامان کی توڑ پھوڑ کی گئی، گھروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ آگ لگانے کی کوشش کی گئی اور یہ سب کام کوئی اور نہیں کر رہا، یہ نہیں کہ ہندو اکثریت کا علاقہ ہے تو ہندو ہی ظلم کر رہے ہوں بلکہ خدا اور اسلام کے نام پر یہ ظلم یہ نام نہاد مسلمان کر رہے ہیں اور یہاں بھی مُلّاں ہی ہے جو اس کو ہوا دے رہا ہے۔ مقامی لوگ شامل نہیں ہوتے۔ باہر سے مُلّاں آ جاتے ہیں۔ بعض احمدیوں کو جیسا کہ مَیں نے کہا بڑی بری طرح مارا پیٹا گیا۔ زخمی ہیں۔ ہسپتال میں پڑے ہیں اور یہ سب نومبائعین ہیں۔ زیادہ پرانے احمدی بھی نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام کے تمام مضبوط ایمان والے ہیں۔ اس بات پر قائم ہیں کہ جس مسیح و مہدی کو ہم نے قبول کیا ہے وہ وہی ہے جس کی پیشگوئی آنحضرتﷺ نے فرمائی تھی۔ یہ تمام احمدی اس وقت تو وہاں سے نکال لئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہیں۔ قادیان میں ہیں اور کچھ ہسپتال میں داخل ہیں لیکن ان کے گھروں اور مالوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔
ظالموں نے تو یہ ظلم اس لئے کیا تھا کہ نئے احمدی ہیں خوفزدہ ہو کر احمدیت چھوڑ دیں گے لیکن اس ظلم کی وجہ سے اگر کسی گھر میں باپ احمدی ہے اور باقی گھر والے نہیں تو اپنے باپ پر ظلم دیکھ کر اور اس کے ایمان میں اس ظلم کی وجہ سے مزید پختگی دیکھ کرجوباقی گھر والے تھے، جوبالغ اولاد تھی انہوں نے بھی اعلان کر دیا کہ ہم احمدی ہیں۔ اس شہر میں آٹھ دس گھر احمدی تھے اور اس ماڑدھاڑ کی وجہ سے تو دس پندرہ اور بیعتیں ہو گئیں۔ ان مُلّانوں کا کیونکہ اپنا ایمان سطحی ہے بلکہ دکھاوے کا ہے اس لئے احمدیوں کو بھی وہ اسی نظر سے دیکھتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اب احمدیت قبول کرنے کے بعد وہی لوگ جو اِن میں سے آئے ہیں لیکن نیک فطرت اور سعید فطرت تھے ان کی حالتوں میں کیا انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے بعض اور علاقے ہیں جہاں مسلم اکثریت ہے، وہاں بھی احمدیوں پر ظلم کی خبریں آ رہی ہیں۔ اسی طرح آج کل پاکستان میں بھی نئے سرے سے احمدیوں کے خلاف فسادوں میں سرگرمی نظر آ رہی ہے۔ لاہور میں ہمارے ایک سنٹر میں پولیس نے کلمہ طیبہ اتارا ہے۔ اسی طرح کُنری میں گزشتہ دنوں ہماری مسجد میں پتھراؤ کیا گیا، نقصان پہنچایا گیا۔ اسی طرح احمدیوں کے گھروں پر پتھراؤ کیا گیا۔
اور ساری تکلیف ان کو یہ ہے کہ تمام تر مخالفت کے باوجود جماعت کے قدم ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہر جگہ خلافت جوبلی کے حوالے سے جلسے اور پروگرام ہو رہے ہیں اور اس چیز نے ان کو بڑی تکلیف دی ہے اور ان کے خیال میں کہ ہم اپنے اپنے اختلافات میں بڑھ رہے ہیں اور احمدی اپنی ترقیات میں بڑھ رہے ہیں۔ کسی نے مجھے بتایا کہ گزشتہ دنوں جب خلافت جوبلی کے حوالے سے لاہور میں پروگرام ہو رہے تھے تو جماعت اسلامی کے ایک سیاسی لیڈر نے کہا کہ ان کے پروگرام نہیں ہونے دینے چاہئیں۔ اگر ان لوگوں نے خلافت جوبلی منا لی تو پھر یہ لوگ تو آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے اور ہماری حیثیت گلی کے کُتّوں کی طرح ہو جائے گی۔ اب ہم نے تو ان کو گالی نہیں دی یہ تو اپنی حیثیت کا خود اظہار کر رہے ہیں کہ کیا ہو جائے گی۔
بہرحال ان مخالفین پریہ واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر ہے کہ جماعت احمدیہ کے قدم آگے بڑھنے ہی بڑھنے ہیں۔ اور انہیں کوئی روک نہیں سکتا انشاء اللہ تعالیٰ۔ تمہاری کیا حیثیت ہونی ہے؟ یہ تم اپنی ظاہری حالت دیکھ کر خود جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس نے کیا حیثیت کرنی ہے۔ تو ان مظلوم احمدیوں کے لئے بھی خاص طور پردعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ظلم کے خاتمے کے دن جلد تر لائے اور قریب لائے۔
حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہوجائے گا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور د رمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے‘‘۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ309)
پس احمدیوں کا تو اس بات پر ایمان اور مضبوط ہوتا ہے۔ ہمارے مخالفین بھی سن لیں کہ جب یہ نازک پودا تھا اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت فرمائی اور کوئی حملہ بھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔ آج اس پودے نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے درخت کی شکل اختیار کر لی ہے اور آج بھی یہ درخت اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ نے ہی اس کی حفاظت کرنی ہے۔ ان ابتلاؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے بھی جماعت کامیاب گزری ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے گزارے گا۔ لیکن تم لوگ یاد رکھو کہ تمہارے نشان مٹا دئیے جائیں گے۔ اس لئے ہوش کرو اور اپنی تباہی اور بربادی کو آواز نہ دو۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل اور سمجھ دے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 15شمارہ 38 مورخہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2008ء صفحہ 5 تا 8)
اخلاص وفامیں بڑھنے والے عجیب پیارے لوگ، خلیفہ وقت سے ملاقات کرتے ہی بیعت کافیصلہ، یورپ کی بے سکونی کا علاج احمدیت کی آغوش، ہراحمدی کواپناعملی نمونہ پیش کرنا ہو گا۔ ہندوستان اور پاکستان میں احمدیہ مخالف جوش، ہمارے مخالفین بھی سن لیں کہ جب یہ نازک پودا تھا اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت فرمائی، آج اس پودے نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے درخت کی شکل اختیار کر لی ہے اور آج بھی یہ درخت اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ، ان ابتلاؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے بھی جماعت کامیاب گزری ہے اور آئندہ بھی، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے گزارے گا۔ لیکن تم لوگ یاد رکھو کہ تمہارے نشان مٹا دئیے جائیں گے۔ اس لئے ہوش کرو اور اپنی تباہی اور بربادی کو آواز نہ دو۔
فرمودہ مورخہ 29؍اگست 2008ء بمطابق29؍ظہور 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔