جمعہ کی اہمیت، فضائل اور احکام
خطبہ جمعہ 26؍ ستمبر 2008ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آن آیات تلاوت فرمائی:
یٰٓاَیَُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوْا الْبَیْعَ۔ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْا َرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوًا انْفَضُّوْا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا۔ قُلْ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ۔ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ (ا لجمعۃ: 12-10)
ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جب جمعہ کے دن ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ پس جب نماز ادا کی جا چکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ اور جب وہ کوئی تجارت یا دل بہلاوا دیکھیں گے تو اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور تجھے اکیلا کھڑا ہوا چھوڑ دیں گے۔ تُو کہہ دے کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ دل بہلاوے اور تجارت سے بہت بہتر ہے اور اللہ رزق عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔
جیسا کہ ہم نے قرآن کریم کے ان الفاظ میں سنا جو کہ سورۃ جمعہ کی آخری آیات ہیں جن کی مَیں نے ابھی تلاوت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جمعہ کی کس قدر اہمیت ہے کہ اس کے بارے میں علیحدہ احکامات ہیں۔ باوجود اس کے کہ عبادات اور نمازوں کی ادائیگی، اُن کے وقت پر ادا کرنے، باقاعدہ ادا کرنے، مسجد میں جا کر ادا کرنے، ان کی ادائیگی سے پہلے ظاہری طور پر وضو کرکے پاک صاف ہونے وغیرہ کے تفصیلی احکامات قرآن کریم میں موجود ہیں لیکن جمعہ جو ایک عبادت اور نماز ہی ہے اس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے علیحدہ حکم اتارا ہے۔ پس جمعہ کی نماز کی ایک خاص اہمیت ہے جس کی مزید وضاحت ہمیں احادیث سے بھی ملتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات سے بھی واضح ہوتی ہے۔
رمضان کے پہلے جمعہ میں جب مَیں نے رمضان میں د عاؤں کی طرف توجہ دلائی تھی تو ضمناً جمعہ کے دوران اور جمعہ کے دن دعاؤں کی قبولیت کی خاص گھڑی یا عرصہ کا ذکر کیا تھا جس کا احادیث میں ذ کر آتا ہے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ اس اہمیت کے پیش نظر جمعہ کی جو اہمیت ہے، اکثر نے اس رمضان کے گزشتہ جمعوں میں خاص طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہو گی کہ جمعہ اور روزے جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کے قرب اور دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان کے آخری عشرے کا پانچواں دن گزار رہے ہیں اور اس رمضان کا یہ آخری جمعہ ہے، جس کو بعض دوسرے مسلمان گروہوں میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے کہ یہ آخری جمعہ ہے اس لئے اس میں اپنے تمام گناہ بخشوانے کے لئے ضرور شامل ہو۔ جب سلیٹ صاف ہو جائے تو پھر نئے سرے سے جو چاہو کرو۔ بلکہ بعض کئی سال بعد ایک جمعہ پڑھنے کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔ اُن لوگوں میں یہ تصور اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہ مان کر اللہ تعالیٰ کے احکامات کو صحیح طور پر سمجھنے سے عاری ہیں۔ پس ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اصل حکم کو سمجھتے ہوئے ہر جمعہ کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہیں، چاہے وہ رمضان کا جمعہ ہے یا اس کے علاوہ۔ لیکن اگر رمضان کے جمعوں کی ہمارے نزدیک کوئی اہمیت ہے تو اس لئے کہ جیسا کہ مَیں نے ابھی کہا کہ ایک طرف تو ہمیں یہ خوشخبری مل رہی ہے کہ جمعہ کے دن ایک وقت ایسا آتا ہے جب خداتعالیٰ بندے کی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے اور رمضان کے روزوں کی وجہ سے یہ خوشخبری مل رہی ہے کہ
اللہ تعالیٰ بندے کے قریب ہو کر اس کی دعائیں سنتا ہے اور رمضان میں تہجد اور نوافل کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے اور ہر شخص عموماً توجہ دیتا ہے۔ پس رمضان کے جمعوں کی یہ اہمیت ہو گئی کہ اس میں دن کو بھی خداتعالیٰ خاص فضل فرماتے ہوئے بندے کی دعائیں سن رہا ہے اور رات کو بھی خاص فضل فرماتے ہوئے اپنے بندے کی دعائیں سن رہاہے۔ پس ان دنوں اور راتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لئے اللہ تعالیٰ کی دائمی رحمت مانگنے، ہمیشہ اس کی مغفرت کی چادر میں ڈھکے رہنے، ہمیشہ اس دنیا کی جہنم سے بھی اور اگلے جہان کی جہنم سے بھی بچے رہنے کی دعا مانگنی چاہئے تاکہ صرف رمضان اور رمضان کے جمعے یا صرف آخری جمعہ ہمیں عبادتوں میں توجہ دلانے والا نہ ہو بلکہ سال کا ہر جمعہ اور ہر دن ہمیں خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کی طرف توجہ دلانے والاہو۔ پس ہر احمدی کو اس بات کو پلّے باندھنے کی ضرورت ہے اور باندھنی چاہئے کہ صرف رمضان کا جمعہ نہیں یا آخری جمعہ نہیں جس کے لئے بعض لوگوں میں اہتمام کیا جاتا ہے کہ جس طرح بھی ہو ضرورمسجد جانا ہے یا بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ عید ضرور عیدگاہ یا مسجد میں جا کر پڑھنی ہے۔ جبکہ عید کی اہمیت کے بارے میں قرآن کریم میں براہ راست کوئی حکم نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عید کی اتنی اہمیت ہے کہ آنحضرتؐ نے اس میں شامل ہونے کی خاص تاکید فرمائی ہے اور ان عورتوں کو بھی عیدپر جانے کا حکم ہے جنہوں نے نماز نہیں پڑھنی لیکن جمعہ کے بارے میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ ضرور شامل ہونا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ عید پر جانے کا حکم صرف اس لئے نہیں کہ سال کے بعد دو رکعت پڑھ لینے سے یا چند منٹ کا خطبہ سن لینے سے گناہ بخشے جائیں گے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور جو عبادت اور قربانی کی توفیق ملی یا جس کی خواہش تھی لیکن مجبوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہی اس پر مکمل عمل نہ ہو سکا۔ لیکن کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کے شکرانے کی عبادت میں شامل ہو تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہو سکیں، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے والے ہوں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ توفیق دے کہ عبادت کا ہر فرض پورا کرنے والے بن سکیں اور نوافل کی توفیق پا سکیں تو تب ہی ہر عید میں شامل ہونے کا فائدہ ہے اور یہی ایک مومن کی شان ہے کہ ایسی عید منانے کی کوشش کرے۔ بہرحال اس وقت مَیں جمعہ کی اہمیت کا ذکر کر رہا تھا۔
حدیث میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جلد 2کتاب الصلاۃ باب فی الجمعۃ وفضلھا حدیث نمبر 2999۔ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 2001ء)
پھر ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ سب سے پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور پہلے آنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اونٹ کی قربانی کرے پھر بعد میں آنے والا اس کی طرح ہے جو گائے کی قربانی کرے پھر مینڈھا یعنی دو نبہ کی قربانی، پھر مرغی اور پھر انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے۔ پھر جب امام منبر پر آ جاتا ہے تو وہ اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں اور ذکر کو سننا شروع کر دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب الاستماع الی الخطبۃ حدیث نمبر 929)
پھر ایک روایت ہے، جس کا کچھ حصہ مَیں بیان کرتا ہوں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کیا مَیں تمہیں دنوں میں سب سے افضل دن کے بارے میں نہ بتاؤں؟ پھر آپؐ نے فرمایا وہ جمعہ کا دن ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ مہینوں میں سے سب سے افضل مہینے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ فرمایا وہ رمضان کا مہینہ ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا راتوں میں سے سب سے افضل رات کے بارے میں نہ بتاؤں؟ فرمایا وہ لیلۃ القدر ہے۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جلد 2کتاب الصلاۃ باب فی الجمعۃ وفضلھا حدیث نمبر 3005۔ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 2001ء)
پھر ایک روایت میں آ تا ہے، حضرت ابو لبابہؓ بن منذر سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کا دن، دنوں کا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عظیم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یوم الاضحی اور یوم الفطر سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس دن کی پانچ خصوصیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن حضرت آدمؑ کو پیدا کیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو زمین پر اتارا۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو وفات دی۔ اور اس دن ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اس میں بندہ حرام چیز کے علاوہ جو بھی اللہ سے مانگے تو وہ اسے عطا کرتا ہے۔ اور اسی دن قیامت برپا ہو گی۔ مقرر فرشتے آسمان اور زمین اور ہوائیں اور پہاڑ اور سمندر، اس دن سے خوف کھاتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ۔ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ وسنۃ۔ باب فی فضل الجمعۃ حدیث نمبر 1084)
اب یہ تمام حدیثیں جمعہ کی اہمیت واضح کر رہی ہیں۔ اس طرف توجہ دلا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوْا الْبَیْعَ (الجمعۃ: 10) یہ اس دن کی خاص برکات کی وجہ سے ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ تمہاری تجارتیں، تمہارے کاروبار، تمہارے لئے بہتر ہیں۔ نہیں، بلکہ اصل خیر تمہارے لئے جمعہ کے دن کی عبادت میں ہے۔
اب یہ جو حدیث میں آیا کہ نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے تو پہلی نیکی تو اُس اطاعت میں ہے جو ایک مومن اللہ تعالیٰ کے حکم پر کرتے ہوئے اپنے تمام دنیاوی دھندے چھوڑ کر، تجارتیں چھوڑ کر خاص طور پر مسجد میں جمعہ کی ادائیگی کے لئے آتا ہے۔ اور جمعہ کی نماز بھی وہ نماز ہے جو عموماً ظہر کی نماز سے لمبی ہوتی ہے اور پھر خطبہ بھی دیا جاتا ہے۔ کاروبار میں مصروف انسان بظاہر یہ خیال کرتا ہے کہ اتنا لمبا عرصہ کاروبار سے باہر رہنے کی وجہ سے میرا نقصان ہو گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری اطاعت کی وجہ سے تمہارا نقصان نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ (النور: 53) یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کا تقویٰ اختیار کریں وہ بامراد ہو جاتے ہیں۔ پس اللہ فرماتا ہے کہ عام حالات میں بھی اطاعت کرنے والے بامراد ہوتے ہیں۔ تو جمعہ کے دن تو یہ اطاعت اتنی زیادہ برکات لانے والی ہے کہ اس کا حساب شمار ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ کے ذکر کے لئے وہی آئے گا جو اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت دل میں رکھتا ہو گا، تقویٰ پر قدم مارنے والا ہو گا اور ایسا انسان جو اس معیار پر قائم ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے کاروبار چھوڑ کر آئے وہ بھلا اپنی مرادوں کو حاصل کئے بغیر کس طرح لوٹایا جا سکتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ایسا خدا کا خوف رکھنے والا جب خدا کے حضور عبادت کے لئے حاضر ہوتا ہے تو کئی گنا اجر پاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (الجمعۃ: 10) ہر اس انسان کو جو اللہ تعالیٰ کو تمام قدرتوں اور طاقتوں کا مالک سمجھتا ہے۔ خداتعالیٰ کو ربّ العالمین سمجھتاہے، تسلی دلانے والا ہونا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں علم ہی نہیں کہ تم کتنی برکتیں نماز پر آ کر سمیٹتے ہو۔ اگر تم جانتے ہو کہ کتنی برکتیں تم جمعہ سے سمیٹ رہے ہو تو رمضان کے آخری جمعہ یا رمضان کے جمعہ پر ہی بس نہ کرتے بلکہ جمعہ کے بعد جمعہ کا انتظار رہتا۔ اور پھر مسجد میں آنے کے لئے جلدی کرتے تاکہ اونٹ کی قربانی کا ثو اب لو، یا گائے کی قربانی کا ثواب لو، یا یہ کوشش تو کرتے کہ کچھ نہ کچھ ثواب فرشتوں کا رجسٹر بند ہونے سے پہلے فرشتوں کے رجسٹر میں لکھا جائے۔ اُس گھڑی اور لمحے کی تلاش میں دعاؤں میں مشغول رہتے۔ ذکر الٰہی اور جمعہ کی نماز کے مقابلہ پر ہر دنیاوی چیز کو ثانوی حیثیت دیتے۔ ہم احمدیوں کے دلوں میں اس دن کی خاص اہمیت ہونی چاہئے۔ کیونکہ اس زمانے میں آخرین کو پہلوں سے ملانے میں اس دن کی بھی بہت اہمیت ہے جبکہ دنیاداری انتہا تک پہنچی ہوئی ہے اور شیطان ہمیں ہر اس نیک کام سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے جو خداتعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو، اس کی رضا کے حصول کا حامل بنانے والا ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جہاں اپنی بعثت کا اس دن اور اس زمانے سے تعلق جوڑتے ہوئے وضاحت فرماتے ہیں، ذکر فرماتے ہیں اور اپنے نہ ماننے والوں کو تنبیہ فرمائی ہے وہاں اپنے ماننے والوں کو بھی بڑے درد سے نصیحت فرمائی ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں سچ کہتاہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے سعادت مندوں کے لئے پیدا کر دی ہے۔ مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس بات پر ہرگز ہرگز مغرور نہ ہو جاؤ کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پا چکے۔ یہ سچ ہے کہ تم منکروں کی نسبت قریب تر باسعادت ہو۔ جنہوں نے اپنے شدید انکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسن ظن سے کام لے کر خداتعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچا نے کی فکر کی۔ لیکن سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمے کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خداتعالیٰ نے ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا ہے۔ ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے‘‘۔ یہ فقرہ بڑے غور کے قابل ہے اور ہم سب کو بڑا فکر دلانے والا ہے۔ فرمایا ’’پس خداتعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرے کیونکہ خداتعالیٰ کے بَدُوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ مَیں یقینا جانتا ہوں کہ جو اس چشمے سے پیئے گا وہ ہلاک نہ ہو گا کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے۔ اس چشمے سے سیراب ہو نے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کئے ہیں ان کو بحال کرو اور پورے طورپر ادا کرو۔ ان میں سے ایک خدا کا حق ہے اور دوسرا مخلوق کا‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم۔ صفحہ 135 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
بڑے واضح طور پر آپ نے فرما دیا کہ یہ ٹھیک ہے تم نے حسن ظن کرکے مجھے مان لیا۔ زمانہ کے امام کو مان لیا۔ اس اہمیت کو تسلیم کر لیا کہ آخر ی زمانے میں امام نے آنا تھا جنہوں نے پچھلوں کو پہلوں سے ملانا تھا۔ اس زمانہ عبادتوں کی بھی بڑی اہمیت تھی۔ لیکن فرمایا کہ صرف یہ سمجھ لینا کافی نہیں ہے۔ ابھی بھی کئی ایسے ہیں جنہوں نے اپنے اندر پوری تبدیلیاں پیدا نہیں کیں۔ بہت ساروں کے لئے خداتعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی میں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس زمانہ میں اپنے ساتھیوں کے بارے میں، ان لوگوں کے بارے میں فرما رہے ہیں جو براہ راست آپؑ کی صحبت سے فیض پانے والے تھے تو ہمیں کس قدر اپنے جائزے لیتے ہوئے اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ یہ جمعہ جو ایک عظیم جمعہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر ہمیں نصیب ہوا ہے، اس کا حق اداکرنے کے لئے کوشش اور سعی کریں۔ صرف سال کے رمضان میں ہی توجہ نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر عبادات اور مخلوق کے حق کی ادائیگی کیلئے ہمیشہ کوشاں رہیں۔ رمضان میں جو نیکیوں کی توفیق ملی ہے، یہ نیکیاں اب ہماری زندگیوں کا لازمی حصہ بن جائیں۔ جب جھگڑوں اور لغویات سے ہم جو ان دنوں میں اِنِّی صَائِمٌ کہہ کر بچتے رہے تو اب رمضان کے بعد بھی بچتے رہیں۔ نمازوں میں جو باقاعدگی ہم نے حاصل کی اسے مستقل اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ جیسا کہ حدیث میں جومَیں نے ابھی سنائی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ بہترین دن جمعہ کا دن ہے اور بہترین مہینہ رمضان کا مہینہ ہے اور بہترین رات’’لیلۃ القدر‘‘ کی رات ہے۔ آج اسی دن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں اپنی دعاؤں میں اس دعا کو ضرور شامل کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے آئندہ آنے والے جمعوں کی برکات سے بھی ہمیں فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ پھر بہترین مہینے سے بھی ہم گزر رہے ہیں جس کے آخری چند دن رہ گئے ہیں۔ ان دنوں میں بھی اپنی دعاؤں میں اس دعا کو ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان دنوں کی برکات ہمارے لئے اللہ تعالیٰ اتنا لمبا کر دے کہ اگلے رمضان تک ہم ان سے فیض پاتے چلے جائیں اور پھر آئندہ آنے والے رمضان میں اور ترقی کی منازل طے کریں۔ اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کو مزید حاصل کرنے والے ہوں اور پھر یہ نیکیوں کے حصول کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہمیشہ ہمار ے ساتھ، تاحیات ہمارے ساتھ چلتا چلا جائے بلکہ مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے اپنی رحمت اور مغفرت کی چادر میں ہمیں لپیٹے رکھے۔ پھر بہترین رات کا ذکر ہے جو لیلۃ القدر ہے۔ اس کے بارہ میں روایات میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ آخری عشرہ میں تلاش کرو اور بعض جگہ ہے کہ آخری سات دنوں میں تلاش کرو۔ (بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب تحری لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الاواخر حدیث نمبر 2017)
پس ہم اس لحاظ سے بھی آخری ہفتہ سے گزر رہے ہیں۔ پھر روایات سے طاق راتوں میں تلاش کرنے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ تو اس لحاظ سے بھی دعاؤں کی طرف توجہ ہونی چاہئے کیونکہ یہ قبولیت دعا کی رات ہے۔
مختصراً یہاں لیلۃ القدر کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں کر دیتا ہوں۔ قرآن کریم میں سورۃ القدر جس میں لیلۃ القدر کا ذکر ملتا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کے ذکر میں فرماتے ہیں کہ ایک لیلۃالقدر تو وہ ہے جو پچھلے حصہ رات میں ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تجلی فرماتا ہے اور ہاتھ پھیلاتا ہے کہ کوئی دعا کرنے والا اور استغفار کرنے والا ہے جو مَیں اس کو قبول کروں۔ لیکن ایک معنے اس کے اَور ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہم نے قرآن کو ایسی رات میں اتارا ہے کہ تاریک و تار تھی اور وہ ایک مستعدمصلح کی خواہاں تھی۔ چنانچہ پھر آپ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ آنحضرتﷺ کا آنا اور قرآن کا نازل ہونا اس زمانہ کی ضرورت تھی جو تاقیامت رہنے والا زمانہ ہے اور اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ (القدر: 2) کی آیت اس کی دلیل ہے کہ حقیقی ضرورت تھی۔ یہ ایک علیحدہ مضمون ہے۔ اس وقت تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ کے پہلے حصے کے حوالے سے مَیں کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جب دعا اور استغفار قبول کرنے کے لئے ہاتھ پھیلا رہا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تو ہمیں ہمیشہ ایسی راتوں کی تلاش میں رہنا چاہئے جب ہم اس سے فیض پانے والے ہوں اور حقیقت یہی ہے کہ جمعہ کا دن یارمضان کا مہینہ یا لیلۃ القدر اُس وقت ہمارے لئے فائدہ مند ہوں گے جب ہم وہ انقلاب اپنی زندگیوں میں پیدا کریں گے جو ہمیں اپنے مقصد پیدائش کو پورا کرنے والا بنائے، ہماری عبادتیں اور نمازیں دائمی ہو جائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر صرف جمعہ کے وقت یا جمعہ کے دن ہی نہیں رہے گا بلکہ ہم ہمیشہ اپنی زبانوں کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے تر رکھنے والے ہوں گے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ جب جمعہ پڑھ لو، اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاؤ تو یادر کھوکہ پھر یہ نہ سمجھنا کہ اب اگلے جمعہ تک دنیاوی دھندوں میں پڑے رہو۔ نہیں، بلکہ اپنے کاموں کے دوران بھی، اپنی تجارتوں کے دوران بھی، اپنی مصروفیات کے دوران بھی خداتعالیٰ کی یاد تمہیں آتی رہنی چاہئے۔ اس کا ذکر تمہاری زبانوں پر رہنا چاہئے۔ دن کی پانچ وقت کی نمازیں تمہارے سامنے رہنی چاہئے۔ فرمایا وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (الجمعۃ: 11) جب تم نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنے کاموں میں مصروف ہو جاؤ تو اللہ کا فضل تلاش کرو۔ یعنی یہ دنیاوی کام بھی جائز کام ہونے چاہئیں۔ کسی ناجائز کام کو اللہ تعالیٰ کے فضل پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔ ان نمازیوں اور حاجیوں کی طرح نہ بنو جو اپنی ظاہری عبادتوں کے بعد پھر اپنی تجارتوں میں دھوکہ کرتے ہیں۔ پس اپنے ذہنوں کو پاک رکھنے کے لئے ذکر الٰہی ضروری ہے۔ صرف ظاہری تسبیح پھیرنا ذکر الٰہی پر دلالت نہیں کرتا بلکہ دل دماغ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں، فضلوں کی سمت کو سامنے رکھ اس طرح اللہ کو یاد کرے کہ تقویٰ پیدا ہو اور اللہ فرماتا ہے تمہاری اصل فلاح اور کامیابی اسی میں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ذکر کس طرح کرنا چاہئے؟ اس بارہ میں بھی قرآن کریم میں کئی جگہ مختلف حوالوں سے بیان کیا گیا ہے مثلاً سورۃ آل عمران میں تخلیق کے بارے میں، کائنات کے بارے میں، زمین و آسمان کے بارے میں ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قَُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ۔ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا۔ سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران: 192) وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں اور بے ساختہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ تو نے کسی چیز کو بھی بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ پاک ہے تو۔ ُ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
پس ذکر الٰہی اس طرح ہونا چاہئے کہ ہر وقت خدا یا د رہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش کی طرف توجہ دلا کر پھر یہ جو فرمایا کہ اس پیدائش پر غور کرنے والے کہتے ہیں کہ سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ تُو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ یہ اس لئے ہے کہ جو کچھ زمین و آسمان میں پیدا کیا گیا ہے وہ سب اللہ کی مخلوق ہے۔ ہماری زندگی کے تمام انحصار اور ذرائع اصل میں اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں اور جو کچھ زمین و آسمان میں اور اس کے درمیان ہے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ پس جب ہر چیز ہی خدا کی ہے اور خدا کے فضل سے ملتی ہے اور ملنی ہے تو خداتعالیٰ کو چھوڑ کر اور کسی طرف انسان کس طرح جا سکتا ہے۔ اسے شریک بنائیں گے تو اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرتا۔ اللہ کے مقابلے میں اگر تجارتوں کو شریک بناؤ گے تو معاف نہیں ہوگے۔ فرمایا یہ چیزیں پھر آگ کی طرف لے جانے والی ہیں۔ اس لئے انسان دعا کرتا ہے کہ اے اللہ ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ ہر لمحہ ہر آن اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہمیں ہر قسم کے فضلوں سے نوازنے والا ہے۔ اس لئے انسان کو کوشش کرنی چاہئے کہ کبھی ایسا موقع اس کی زندگی میں نہ آئے۔ اور یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ! کبھی ہماری زندگی میں ایسا موقع نہ آئے کہ تیرے مقابل پر ہم کوئی چیز لائیں۔ یہ دعا ہمیشہ کرنی چاہئے کہ اے اللہ! ہم ہمیشہ تیرے عبادت گزار اور ذکر کرنے والے رہیں تاکہ دین و دنیا میں بھی ذلیل و رسوا نہ ہوں اور آخرت کے عذاب سے بھی بچے رہیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ ہمیں فرماتا ہے کہ نماز جمعہ کے بعد اس کے فضلوں کو تلاش کرو اور ذکر الٰہی کرتے رہو تو یہ یاددہانی ہے کہ تمہارے تمام نفع و نقصان میرے ہاتھ میں ہیں۔ پس یہ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ میرے سے تعلق جوڑ کر تم روحانی فائدہ بھی اٹھا رہے ہو اور دنیاوی فائدہ بھی اٹھا رہے ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دوسراپہلو یہ بیان کیا ہے کہ اولوالالباب اور عقلِ سلیم بھی وہی رکھتے ہیں جو اللہ جلّشانہ کا ذکر اٹھتے بیٹھے کرتے ہیں۔ یہ گمان نہ کرنا چاہئے کہ عقل و دانش ایسی چیزیں ہیں جو یونہی حاصل ہو سکتی ہیں۔ نہیں، بلکہ سچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیرحاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو۔ فرمایا کہ حقیقی دانش کبھی نصیب نہیں ہو سکتی جب تک تقویٰ نہ ہو۔
پس یہ بات بھی اگر کسی کے ذہن میں ہے کہ ہم اپنی تجارتوں اور کاروباروں کو اپنی عقلوں سے چلا رہے ہیں تو یہ غلط ہے۔ ٹھیک ہے ایک انسان محنت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا قانون قدرت کے تحت پھل دیتا ہے۔ ایک دنیاد ار جو خدا کو نہیں مانتا یا اس کا خدا سے تعلق نہیں وہ تو اپنی تجارتوں سے، اس دنیاداری سے عارضی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ لیکن ایک احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب زمانہ کے امام کو ہم نے مانا ہے تو پھر ہمارے ہر کا م میں برکت تبھی پڑے گی، ترقی بھی تبھی ملے گی جب خداتعالیٰ کا ذکر بھی رہے اور اُن شرائط کی پابندی بھی رہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہیں اور تقویٰ بھی رہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو ماننے کے بعد پھر دو عملی نہیں ہو سکتی۔ ہمیں اُس اُسوہ کو اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جوصحابہ نے قائم فرمایا تھا۔ اگر کاروبار کیا بھی تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کو نہیں بھولے۔ آنحضرتﷺ کے کئی صحابہ تھے جنہوں نے چند سکّوں سے کاروبار شروع کیا اور کروڑوں میں لے گئے۔ اس لئے کہ ایمانداری، فراست اور اللہ تعالیٰ کا فضل اُن کو اس مقام پر لے گیا۔ ان کی ایمانداری تھی، فراست تھی، اللہ تعالیٰ کا فضل ان کے شامل حال رہا اور وہ اس مقام پر پہنچے۔ پس ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اپنی عبادتوں کے معیار اونچے سے اونچے کرنے کی کوشش کرنی ہے تاکہ ہمیشہ فلاح پانے والے رہیں۔ اس زمانہ کے دل بہلاوے اور تجارتیں کیونکہ ہماری زندگیوں پہ زیادہ اثر انداز ہونی تھیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے کہ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ خدا کی ذات ہے۔ ہر خیر اس کی طرف سے ملتی ہے۔ کاروباری فائدے اور اس بارہ میں وقت پر اور صحیح فیصلے کی توفیق بھی خداتعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ کئی لوگوں کے بڑے بڑے کاروبار ہیں۔ صحیح فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے یا اور وجوہات کی وجہ سے دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔ آج کل جو دنیا کی معاشی حالت ہے اس میں بھی دیکھ لیں بڑے بڑے بینک بھی دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر کے مقابلے میں ہر دوسری چیز کو ہیچ سمجھو۔ اللہ کا فضل ہو تو سب کچھ ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو توفیق دے کہ ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے نہ صرف اس جمعہ کو بلکہ ہر جمعہ کو اہتمام کے ساتھ ادا کرنے والے بنیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے تساہل کرتے ہوئے تین جمعے لگاتار چھوڑے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (ابوداؤد۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب التشدید فی ترک الجمعۃ۔ حدیث نمبر1052)
اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے اور کبھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے دور ہٹنے والے نہ ہوں۔ آمین۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 15 شمارہ 42 مورخہ 17 اکتوبر تا 23 اکتوبر 2008ء صفحہ 5 تا 7)
رمضان اور تہجد و نوافل، لیلۃ القدرکی اہمیت وفضائل۔
فرمودہ مورخہ 26؍ستمبر 2008ء بمطابق26؍تبوک 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔