صفت رزاق،عالمی معاشی بحران اور اس کا پس منظر
خطبہ جمعہ 31؍ اکتوبر 2008ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ان آیات کی تلاوت فرمائی:
اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ۔ فَاٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَالسَّبِیۡلِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَ اللّٰہِ ۫ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ وَ مَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّیَرۡبُوَا۠ فِیۡۤ اَمۡوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرۡبُوۡا عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ وَ مَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ زَکٰوۃٍ تُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ۔ اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ ثُمَّ رَزَقَکُمۡ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ؕ ہَلۡ مِنۡ شُرَکَآئِکُمۡ مَّنۡ یَّفۡعَلُ مِنۡ ذٰلِکُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ (الروم: 38 تا41)
ان آیات کا ترجمہ ہے کہ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور تنگ بھی کرتا ہے۔ یقینا اس میں ایمان لانے والی قوم کے لئے بہت سے نشانات ہیں۔ پس اپنے قریبی کو اس کا حق دو، نیز مسکین کو اور مسافر کو۔ یہ بات ان لوگوں کے لئے اچھی ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے و الے ہیں اور جو تم سُود کے طور پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں مل کر وہ بڑھنے لگے۔ اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا اور اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تم جو کچھ زکوٰۃ دیتے ہو تو یہی ہیں وہ لوگ جو اسے بڑھانے والے ہیں۔ اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔ پھر تمہیں رزق عطا کیا۔ پھر وہ تمہیں مارے گا اور وہی تمہیں پھر زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے شرکاء میں سے بھی کوئی ہے جو ان باتوں میں سے کچھ کرتا ہو۔ وہ بہت پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ یہ آیات جن کی مَیں نے تلاوت بھی کی اور ترجمہ بھی پڑھا ہے۔ ان کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رزّاق ہونے کا اعلان فرمایاہے کہ رزق میں کشائش وہ عطا فرماتا ہے اور تنگی بھی۔ کسی کا اگر رزق تنگ کرتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ رزق کو دیتا بھی وہی ہے اور رزق کو روکتا بھی وہی ہے۔ فرمایا کہ حقیقی مومن کو اللہ تعالیٰ کی صفتِ رزّاق بہت نشان دکھاتی ہے اگر اس کا ایمان پختہ ہو۔ آج کل جو دنیا کے معاشی حالات ہیں، جس معاشی بحران سے دنیا ہمیں گزرتی نظر آ رہی ہے، جس سے امیر ملک بھی متاثر ہیں اور غریب ممالک بھی۔ صنعتی ممالک بھی متاثر ہیں اور زراعت پر انحصار رکھنے والے ممالک بھی۔ اور وہ بھی جو سمجھتے ہیں کہ تکنیکی مہارت ہمارے پاس اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ دنیا کو ہماری خدمات کی ہر حالت میں ضرورت ہے کیونکہ آج کے اس سائنسی دور میں اور اس جدید دور میں ان خدمات کی بہت اہمیت ہے۔ بعض بڑی طاقتیں یہ سمجھ بیٹھی تھیں کہ ہماری معیشت اتنی زیادہ مضبوط ہو گئی ہے کہ اب ہم جلد ہی تمام دنیا کو اپنے زیر نگیں کر لیں گے گو کہ بہت سارے ملکوں کو وہ پہلے ہی ڈکٹیٹ (Dictate) کرواتے ہیں لیکن تمام دنیا پر اپنی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہی تھیں۔ اُن کے خیال میں سائنس میں ہم اس حد تک ترقی کر چکے ہیں کہ اب ہمارا سائنس کے میدان میں کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وسیع رقبہ اور مختلف موسموں کی وجہ سے خوراک میں ہم خود کفیل ہو چکے ہیں۔ اب ہمیں کھانے پینے کی اشیاء کے لئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں رہی۔ طبّی میدان میں ہم نے وہ ترقیات حاصل کر لی ہیں کہ اب دنیا ہی ہے جو ہم سے سب کچھ اس میدان میں سیکھے گی۔ ہتھیاروں کی دوڑ میں ہم سب دنیا سے آگے نکل چکے ہیں۔ اب دنیا ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ زمین کی تسخیر کے ساتھ ساتھ ان کے خیال میں آسمانوں پر بھی ہم نے کمندیں ڈال لی ہیں اس لئے اب ہر طرح سے اس دنیا پر ہمارا قبضہ ہو سکتا ہے اور ضروری ہے کہ اب دنیا ہماری برتری تسلیم کرے اور خود بخود اپنے آپ کو ہماری جھولی میں گرا دے۔
پھر بعض طاقتوں نے یہ سمجھا کہ ہمارے پاس معیشت کو کنٹرول کرنے کی جو طاقت ہے دنیا مجبور ہو کے ہم پر انحصار کرے اور اپنی مضبوط معیشت اور بعض میدانوں میں تکنیکی مہارت کے زعم میں ان لوگوں نے ایسی پلیننگ (Planning) کی کہ بہت ساری اپنی صنعت ختم کر دی اور زراعت بھی برائے نام رہ گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معیشت کی تیزی سے گرتی ہوئی حالت اور جو ان کے پاس پہلے تھی، صنعت اور زراعت ان چیزوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ان کی معیشت بڑی تیزی سے گرنے لگی۔ تو یہ سب کچھ جو دنیا میں معاشی بحران کی صورت میں ہمیں نظر آ رہا ہے اس کی اصل وجہ کی طرف اب بھی ان لوگوں کی سوچیں نہیں جا رہیں اور وہ ہے سب قدرتوں کے مالک اور رازق خدا کو حقیقی طور پر نہ ماننا۔ یا ماننے کا حق ادا نہ کرنا، یہ بھی نہ ماننا ہی ہے۔ یہ طاقتیں یا ملک جو معاشی لحاظ سے مضبوط ہیں یا کچھ عرصہ پہلے تک مضبوط تھے اس طرف کم توجہ دیتے ہیں کہ زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کا اپنا بھی ایک قانون چل رہا ہے۔ جب ارضی و سماوی آفات، زلزلوں اور سمندری طوفانوں یا ہری کینز (Hurricans) وغیرہ کی صورت میں یہ آفات آتی ہیں تو ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہر چیزتلپٹ ہو جاتی ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی غیر فطری طور پر جب معیشت کو چلایا گیا تو اس کے نتائج بھی سامنے آ گئے۔ ایک تو خدا کو بھولنے کی وجہ سے جو زمینی و آسمانی آفات تھیں، انہوں نے اپنے اثرات دکھائے۔ دوسرے معیشت کے لحاظ سے بھی جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کام کئے گئے تو اس نے اپنا اثر دکھایا اور اس کے لئے اب جو حل سوچے جا رہے ہیں وہ بھی کوئی ایسے دیر پا نہیں ہیں۔ اصل حقیقت تک نہیں پہنچ رہے۔ گو کچھ حد تک قریب آنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن جو اب تک حل ہیں، لگتا ہے کہ وہ ان کو مزید الجھاتے چلے جائیں گے۔
پس یہ سب باتیں جب ہم دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہمارا ایمان مزید بڑھتا ہے۔ اس وقت ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے کہ دنیا کو اس بات سے ہوشیار کریں کہ ان سب آفتوں اور بحرانوں کی اصل وجہ خداتعالیٰ سے دُوری ہے۔ بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف عدم توجہگی ہے۔ دوسروں کے وسائل پر حریصانہ نظر رکھنا ہے۔ پس اگر مستقل حل چاہتے ہیں تو ان چیزوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ کئی بلین ڈالرز یا کئی بلین پاؤنڈز کی جو بیل آؤٹ (Bailout) ہے یا خرچ کرنا ہے یا امداد ہے وہ مستقل حل نہیں ہے کیونکہ اگر سوچا جائے تو یہ رقم بھی اسی جیب سے نکلتی ہے جس کو پہلے ہی نقصان ہو چکا ہے۔ اور آج مسلمان ممالک کا بھی یہی حال ہے کہ وہ بھی دنیا کے معاشی نظام کی طرف چل پڑے ہیں، بجائے اس کے کہ اس سے راہنمائی لیتے جو خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں اُن کورا ہنمائی دی ہے۔
ایمانداری اور اپنے ملک سے وفا کے تعلق کی جو انتہا ہے اس کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ سربراہان مملکت صرف اپنے مفاد دیکھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ یا عرب ممالک جہاں تیل کی فراوانی ہے ان ملکوں نے بھی اپنی معیشت کو اس طرح نہیں چلایا جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم تھا۔ ایمان داری اور اس اصول پر چلنے کی وہ کوشش نہیں کی یا وہ حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرما یا تھا۔ بے شک اپنے ملک کو ترقی دی ہے، باقی ملکوں کی نسبت اس کا انفراسٹرکیچر بڑا بہتر بنا لیا لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا وسائل کو اس طرح استعمال نہیں کیا گیا جیساخداتعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ مثلاً ان کے پاس اگر زائد رقم تھی اور بے تحاشا زائد رقم تھی، تیل کا اندھا پیسہ تھا تو اس رقم کو ان مغربی ممالک میں تجارت پر لگایا جہاں سے ان کوسود ملنا تھا اور وہ بھی ایسے غیر پیداواری کام پر جو صرف عارضی نفع کی چیز تھی۔ یعنی بعض بینکوں کو یا بعض اداروں کو رقمیں جمع کروائی گئیں تاکہ سود ملتا رہے۔
ان اسلامی ممالک نے اپنے ملکوں میں د کھانے کے لئے گو ایک بینکاری نظام شروع کیا جسے اسلامی بینکنگ کہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک شوگر کوٹڈ (Sugar Coated) قسم کی بینکنگ ہے۔ ظاہر طور پر ہے کہ اسلامی بینکنگ ہے لیکن حقیقت میں وہ چیز نہیں ہے جو اسلام چاہتا ہے، جو قرآن چاہتا ہے۔ کیونکہ اگر گہری نظر سے دیکھیں تو گو کہنے کو اسلامی بینکنگ ہے لیکن سود کی ایک قسم ہے جو ان کو منافع میں ملتا ہے۔
بہرحال مَیں یہ بتا رہا تھا کہ اسلامی تعلیم سے ہٹ کر انہوں نے اپنے پیسے کا استعمال کیا اور مغربی ممالک کو یہ رقم دی جس کا کوئی پیداواری مقصدنہیں ہے اور اب جب معاشی بحران آیا ہے تو یقینا ان کی رقوم کو بھی دھچکا لگا ہوگا۔ ظاہر ہے جب سب دنیا متاثر ہوئی تو یہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب اپنے رزّاق ہونے کا ذکر فرمایا تو مومنوں کو جو نصیحت فرمائی ہے۔ مَیں نے سورۃ الروم کی جوآیات تلاوت کی ہیں ان میں سے دوسری آیت میں فرمایا کہ اپنے قریبی کو بھی اس کا حق دو، مسکین کو اس کا حق دو اور مسافر کو اس کا حق دو۔ یعنی اپنے پیسے کے صحیح استعمال کے لئے تین حقوق اس آیت میں بتائے گئے ہیں۔ اور پھر آخر میں ان حقوق کو ادا کرنے کی وجہ سے دو باتیں بیان کی گئیں کہ اس کا مفاد تم کو اس طرح ملے گا کہ اللہ کی رضا حاصل کرو گے اور پھر دین و دنیا میں کامیابی حاصل کرو گے۔
پس مومن ہونے کے لئے صرف منہ سے یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم ایمان لائے یا ہم مسلمان ہیں یا یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں جو رزّاق ہے۔ ایمان کے اعلان اور صفت رزّاق پر یقین کے لئے عملی نمونے دکھانے کی ضرورت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ رزّاق ہے تو جو کامل ایمان والا ہے وہ کبھی رزق کی کمی سے نہیں ڈرتا۔ اس کو پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے رزق مہیا کرنے کے سامان پیدا فرما دے گا اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق کو اس کے حکم کے مطابق خرچ کرتا ہے۔ بہتر رزق پانے والا جس کے حالات بہتر ہیں، مالی حالات بہتر ہیں، معاشی حالات بہتر ہیں دوسرے کو بھی اپنے مال میں حصہ دار بناتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ زیادہ آمدنی والا ضرورت مند کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ جس میں اپنے قریبی بھی ہیں، رشتہ دار بھی ہیں، ہمسائے بھی ہیں بلکہ مسلمان مسلمان کا جو بھائی ہے تو تمام اُمّت کو اس کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ امیر اسلامی ممالک جو ہیں ان کو اپنے غریب ملکوں کے بارے میں سوچنا چاہئے کہ ان کی ترقی کس طرح کی جائے اور پھر ہی یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق صحیح حق ادا کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فَاٰتِ ذَاالْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ اور ’اٰتِ‘ کا جو اللہ تعالیٰ نے لفظ فرمایا (الفت سے) اس کے لفظ میں اعزاز کے ساتھ چیز دینا شامل ہے اور پھر حق کا لفظ استعمال کرکے مزید اس کو کھول دیا کہ اعزاز کے ساتھ ان کی خدمت کرنا تمہارا فرض ہے۔ یہ عطا نہیں ہے، یہ بخشش نہیں ہے، یہ خیر نہیں ہے جو تم دوسرے کو ڈال رہے ہو۔ بلکہ جو زائد رقم ہے اس میں سے ان کو دینا تم پر فرض ہے۔
پس اسلامی ممالک اگر اپنے غریب مسلمان ملکوں کی بہتری کا سوچتے، اپنے تیل کے پیسے سے ان کی ترقی کی طرف توجہ دیتے، بجائے لالچ میں آ کر اپنا مال مغربی ملکوں کے بینکوں کو دینے کے اور ان سے سود لینے کے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے اور پھر فلاح پانے والوں میں ہوتے۔ ان ملکوں کے کئی دفعہ بیان آتے ہیں کہ ہمارے حالات ٹھیک ہیں ان کا یہ خیال غلط ہے کہ ہمارے پاس تیل کی دولت ہے اس لئے ہمارے روپے کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایک تو یہ کہ ان کا مغربی بینکوں میں جو روپیہ ہے یا ان اداروں میں ہے جو قرض دینے والے ہیں وہ تو بہرحال متاثر ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا روپیہ بھی متاثر ہوا۔ مختصراً بتا دوں، اس پر ہمارے بعض احمدیوں نے مضمون بھی لکھے ہیں۔ بڑے اچھے مضمون ہیں۔ یہاں بھی آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سارے احمدی بھی جو قرضے بینکوں سے لیتے ہیں، یہ ادارے جو قرضے دیتے ہیں، یہ تمام غیر پیداواری قرضے ہیں اور ان میں سے بہت بڑی رقم گھروں کے سامانوں کے خریدنے کے لئے، کاروں کے خریدنے کے لئے، گھر خریدنے کے لئے ہیں یہ سب غیر پیداواری چیزیں ہیں۔ اور جب ان تیل کی دولت والوں کا روپیہ ان کے پاس آیا، ان بینکوں میں جمع ہوا تو ان مغربی ملکوں نے دیکھا کہ یہ تو بڑی تیزی سے ہمارے پاس مال آنے لگ گیا ہے تو انہوں نے اور زیادہ کُھلے دل سے قرضے دینے شروع کر دئیے۔ بنک اپنا تو بہت تھوڑا سا خرچ رکھتے ہیں اور بقایا رقم کا بڑا حصہ یعنی 90، 95 فیصد دوسروں کا استعمال ہو رہا ہے اور اس میں جیسا کہ مَیں نے کہا، ان ملکوں کا جو تیل کی دولت پیدا کر رہے ہیں اور کوئی تعمیری کام یا پیداواری انویسٹمنٹ تو انہوں نے کی نہیں، غیر پیداواری مقاصد پر یہ لوگ خرچ کر رہے ہیں۔ تو بہت بڑی رقم ہے جو اس کے اوپر خرچ کی جاتی ہے۔ مثلاً یہاں ایک بینک والے نے مجھے بتایا کہ جو بینکوں کی کل انویسٹمنٹ ہے اس کا تقریباً 45فیصد حصہ وہ گھروں کے خریدنے کے لئے قرضے دینے پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت ساری رقم دوسرے قرضوں میں چلی جاتی ہے اور تھوڑی سی رقم ہے جو پیداواری مقاصد کے لئے خرچ ہوتی ہے یاقرض دی جاتی ہے۔ اس طرح آسان شرائط پر قرض دے دیا جاتا ہے۔ آسان شرائط کے بارہ میں میرے سامنے بیٹھے ہوئے بہت سارے لوگ جانتے ہیں کہ اگر تین لاکھ کا مکان ہے تو پہلے 15-10 ہزار اُن سے کیش مانگ لیا جاتا ہے حالانکہ پہلے خاص فیصد ہوتی تھی کہ اتنے فیصد دو گے تو تمہارا قرض منظور ہو گا اور بقایا تمام رقم بینک کا قرض ہو تا ہے۔
پھر جو قرض لینے والا ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ شرح سود کتنی ہے، کتنا مجھے اس پر دینا پڑے گا، کتنا عرصہ تک میں دیتا چلا جاؤں گا اور کتنی زائد ادائیگی کرنی پڑے گی؟ وہ صرف یہ سوچ رکھتا ہے کہ چلو گھر خرید لو۔ واپسی آہستہ آہستہ ہوتی رہے گی۔ لیکن نہیں جانتا کہ ایک تویہ لمبا عرصہ کی ادائیگی ہے دوسرے اس کی اپنی آمدنی محدود ہے۔ اس کے وسائل محدود ہیں اور اس قرض کی ادائیگی میں۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جو وہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ عموماً مہنگائی دوسری چیزوں کی بھی بڑھ رہی ہے اور پھر گھر کے بھی اخراجات بڑھتے ہیں۔ اگر وہ قرض اتارنے لگے تو گھر کو کس طرح چلائے۔ بہرحال اس چکر میں پھر ایسا قرض لینے والا پھنستا چلا جاتا ہے اور پھر قرض بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ بعض لوگ یہاں پر اور دنیا میں ری مورگیج کا رواج ہے جو کرواتے ہیں اور پھر مزید قرضوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ کہنے کو تو ان کورقم بینک سے مل گئی۔ لیکن اگر سوچیں تو مزید قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا۔ عارضی طور پر تو جان چھُٹ گئی لیکن مستقل اُن کے اوپر ایک قرضہ چڑھ گیا۔ پھر بعض لوگ ایسے ہیں بعض بینکوں نے ایسے Incentive دئیے ہوئے ہیں کہ اپنی جیب سے بھی کچھ نہیں دیا، معاہدہ بینک کے ساتھ ہو گیا۔ مکان خرید لیا، کرایہ جمع سود بینک کو ادا کرتے رہے اور ساری زندگی کرایہ جمع سود ادا ہوتا رہتا ہے اور جب مرنے کے قریب آتے ہیں تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ چیزواپس بنک کو چلی جاتی ہے۔ جب مَیں نے پچھلی دفعہ سود پہ خطبہ دیا تھا تو بہتوں نے اس سے جان بھی چھڑا ئی۔ اگر حقیقت میں سوچا جائے تو جو سُود کا قرض ہے وہ پھر اس طرح بڑھتا چلا جاتا ہے۔ بہت سارے ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور ڈیفالٹر بن جاتے ہیں۔ جن بینکوں نے لوگوں کو قرض دئیے ہوتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا وہ بھی لوگوں سے لے کر دئیے ہوتے ہیں، دوسرے کا پیسہ ہوتا ہے اور اس میں جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ تیل کے ملکوں کی بہت بڑی رقم شامل ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں نے قرض دینے میں کھلے دل کا مظاہرہ کیا۔
یہ صورت حال صرف یہاں نہیں ہے، امریکہ میں بھی ہے اور دنیا میں بھی ہے تو بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ قانون قدرت پھر اپنا کام کرتا ہے۔ جب ایک حد کو پہنچ کر لوگوں کی قرض کی واپسی کی طاقت ختم ہوئی تو بنکوں کو ہوش آئی کہ ہمارا اپنا پیسہ تو قرض میں تھا نہیں، یہ تو دوسروں کا پیسہ تھا اور پھر انہوں نے مزید قرضے دینے بند کر دئیے اور نہ صرف ان غیر پیداواری مقاصد کے لئے قرضے دینے بند کر دئیے بلکہ پیداواری مقاصد کے لئے بھی قرضے دینے بند کر دئیے۔ اس کا پھر یہی نتیجہ نکلا کہ پوری معیشت متاثر ہو گئی اور ملکوں کی معیشتوں کا کیونکہ ایک دوسرے پر انحصار ہے اس لئے پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ گئی۔ اس لئے کسی ملک کا یہ کہنا کہ ہمارے پاس وسائل ہیں اور ہمیں فرق نہیں پڑتا، بالکل غلط ہے۔ ایک تو وہ رقم جو مغرب میں ہے اس کے فوری ملنے کا امکان نہیں۔ دوسرے جب معیشت برباد ہوئی تو جو چیز ان کے پاس ہے یعنی تیل جس کو وہ کہتے ہیں کہ اپنی معیشت (Economy) کو سنبھال لیں گے اس میں بھی کمی ہو گی۔ اس ہفتے کا ٹائمز رسالہ ہے اس نے مضمون لکھاہے، کچھ حقائق پیش کئے ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ A sea of Debt کہ قرضوں کا ایک سمندر ہے اور ایسا سمندر جس کا پانی امریکہ، جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی معیشت سمجھتا ہے اس کی کشتی میں بھی اس حد تک بھرچکا ہے کہ وہ ڈول رہی ہے اور ڈوبنے کے قریب ہے۔ اور اس نے لکھا کہ امریکہ کی معیشت اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ جو بھی وہ کوشش کر لیں اس کی جلد بحالی کا امکان نہیں ہے۔ پھر یہ کہ معیشت کو جو جھٹکے لگ رہے ہیں اس سے دنیا کا کوئی ملک بھی اب محفوظ نہیں ہے۔ مغربی ملکوں، خاص طور پر امریکہ کی معیشت کا جو حال بیان کیا گیا ہے اس کا یہ حال ہے کہ مثلاً کریڈٹ کارڈ کا ان ملکوں میں بڑا رواج ہے۔ جس کو بغیرسوچے سمجھے استعمال کرنے کا رواج ہے۔ اس کی اب پابندی لگ گئی ہے اور بہت حد تک اس میں پابندی لگ رہی ہے۔ وہ جو لوگوں کی ایک لحاظ سے عیاشی بنی ہوئی تھی کہ بغیر سوچے سمجھے خرچ کئے جاتے تھے اس میں کمی آ گئی۔ کاروں کی سیل (Sale) کہتے ہیں کہ گزشتہ 15سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ ہوائی سفروں میں کمی ہوگئی ہے جس کی وجہ سے بہت ساری کمپنیوں نے اپنی فلائٹس بند کر دی ہیں۔ یہ دو چیزیں خاص طور پر ایسی ہیں جن میں تیل کا استعمال ہوتا ہے تو جب استعمال ہی نہیں تو رقم کہاں سے آئے گی۔ کسی کو ضرورت ہی نہیں تو خود بخود اس کی طلب میں کمی ہو جائے گی اور جب طلب میں کمی ہو گی تو ظاہر ہے اس کا اثر پڑے گا۔
پھر لوگوں کے جو تفریحی پروگرام ہیں، کھانے پینے کے، ریسٹورنٹس وغیرہ کے، اینٹرٹینمنٹ (Entertainment) کے، ان ملکوں میں اس کا بہت زیادہ رواج ہے اس میں بھی کمی آ گئی ہے اور جب اس میں کمی آئے، خاص طورپر سردیوں میں کوئی آؤٹنگ (Outing)نہیں رہی تو پھر اس کا بعد میں یہ نتیجہ نکلے گا کہ ڈیپریشن جوان ملکوں میں پہلے ہی بہت زیادہ ہے اس میں مزید اضافہ ہو گا۔ پھرجب یہ بیماری شروع ہو جاتی ہے تواس کے اپنے بداثرات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایاہے کہ سود پر انحصار کرنے والے یا اس کا کاروبار کرنے والے ایسے لوگ ہیں جیسے شیطان نے انہیں حواس باختہ کر دیاہو۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ؕ وَ اَمۡرُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ (البقرۃ: 276) یعنی وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں وہ کھڑے نہیں ہوتے۔ مگر ایسے جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے اپنے مَس سے حواس باختہ کر دیا ہو۔ یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے کہا یقینا تجارت سود ہی کی طرح ہے جبکہ اللہ نے تجارت کو جائز اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ پس جس کے پاس اس کے ربّ کی طرف سے نصیحت آ جائے اور وہ باز آ جائے تو جو پہلے ہو چکا اسی کار ہے گا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو کوئی دوبارہ ایسا کرے تو یہی لوگ ہیں جو آگ والے ہیں جو اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔ باقی اثرات تو جو ہونے ہیں وہ تو ہیں ہی۔ اس وجہ سے جن کی رقم ضائع ہو گئی یا کم از کم یہ خوف ہو گیا کہ کچھ عرصہ کے لئے ہمیں رقم نہیں ملے گی یا باوجود حکومتوں کی تسلّیوں کے یہ خوف کہ ہماری رقم ضائع ہو جائے گی تو یہ خوف ہی بہت خطرناک چیز ہے۔
پھر جن کے پروگرام تھے کہ اپنی جائیداد کو ری مورگیج کروا لیں گے پھر قرضے اتاریں گے تو ان کا بھی حال خراب ہے۔ قرضے نہ ملنے کی وجہ سے مکان باوجوداس کے کہ ان کی قیمتیں کئی فیصد گر گئی ہیں، فروخت نہیں ہو رہے۔ کیونکہ لوگوں کے پاس نقدنہیں ہے اور بینک والے قرض نہیں دے رہے کیونکہ بینک پہلے تو جرأت کر رہے تھے اب ان کے پاس خود پیسہ نہیں ہے۔ اب جب حالات بدلے ہیں تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس طرح ہے جس طرح شیطان کے مَس سے حواس باختہ ہو گئے ہیں، دنیا کی اکثریت جو اس میں ملوث تھی مخبوط الحواس ہو چکی ہوئی ہے۔ اللہ رحم کرے۔ اور لگتا ہے کہ جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا کہ جب ایسی حالت ہو تو ڈیپریشن بھی بڑھتا ہے اور معاشرے میں ایک ابتری پیدا ہو جاتی ہے۔ اس ڈیپریشن سے ان کا ہی ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ اقتصادیات والے یہ کہتے ہیں، ان کا انگریزی کا لطیفہ ہے کہ
.If my neighbour loses his Job, it is recession. If I loose my Job it is depression
یعنی اگر میرا ہمسایہ اپنی ملازمت سے فارغ ہوتا ہے، اس کی نوکری ختم ہوتی ہے تو یہ recession کہلاتا ہے اور اگر مجھے نوکری سے فارغ کر دیا جائے تو پھر depression ہو گیا۔ اقتصادیات میں recession اور depression کی ٹرم ہے۔ اس کا موٹا مطلب یہ ہے کہ recession وہ ہے جو عارضی معاشی بحران ہوتا ہے اور depression وہ ہے جو مستقل معاشی بحران ہوتا ہے۔ لیکن اس وجہ سے اور لوگوں میں بھی depression پیدا ہو جاتا ہے۔ جب نوکریاں چھٹتی ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا اور وہ بیماری کا Depression ہے اور یہ معاشی بحران جو آیا ہے تو اس نے دنیا میں لاکھوں لو گوں کی نوکریاں چھڑوا دیں۔ پس اب بھی اگر دنیا میں عقل ہے تو اس سودی نظام سے جان چھڑانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ وہ تجارت کریں جسے اللہ تعالیٰ نے جائز قرار دیا ہے اور مسلمان ممالک بھی جن کے حالات بہتر ہیں اپنی مثالیں قائم کریں۔ مسلمان کو سود کی سختی سے مناہی کی گئی ہے۔ ورنہ پھر اس دنیا کے بعد آخرت کی سزا کی بھی وارننگ ہے۔
جو ممالک اپنے وسائل ہوتے ہوئے ایماندار نہیں ہیں اور ان کی حکومتیں اپنے وسائل ضائع کر رہی ہیں یا اپنے ذاتی مفاد اٹھا رہی ہیں ان کو بھی ہوش کرنی چاہئے۔ مثلاً پاکستان ہے یا اس جیسے اور ممالک ہیں جن کے لیڈروں نے کبھی بھی اپنے ملک سے وفا نہیں کی اور ملک کو لُوٹتے ہی رہے ہیں اور دنیا سے قرضے لے لے کر اس پہ گزار اکرتے رہے ہیں۔ ابھی چند دن ہوئے بڑی خوشی سے یہ اعلان ہوا کہ چار سوملین یاپتہ نہیں کتنے سو ملین ڈالر کا پاکستان کے لئے قرض دوبارہ منظور ہو گیا ہے۔ اس کی واپسی کس طرح ہوگی؟ کچھ پتہ نہیں ہے۔ کیونکہ پہلی پیمنٹ (Payment) جوا نہوں نے کرنی ہے، جو قرضے دینے ہیں اس کے بارے میں ایک شورپڑا ہوا ہے۔ بڑاشور تھا کہ ہمارے فارن ایکسچینج کے ریزرو بڑھ گئے۔ اب جب حقیقت ساری ظاہر ہوئی تو پتہ لگا کہ ان کے پلّے کچھ بھی نہیں۔ حالانکہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل سے بھی نوازا ہوا ہے اور زراعت کے لحاظ سے بہترین موسمی لحاظ سے، زمینوں کے لحاظ سے بھی نوازا ہوا ہے۔ لیکن مانگنے اور قرض لینے کی اور اپنے وسائل کو صحیح طور پر استعمال نہ کرنے کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ پھر غیرت بھی ختم ہو گئی ہے۔ یہی حال بعض افریقن ملکوں نائیجیریا کا ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال ہے لیکن ان کے لیڈروں کو بھی کوئی خیال نہیں۔ بہرحال اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ خدا کو بھلا کر، اس تعلیم پر عمل نہ کرکے سودی نظام میں پھنس گئے ہیں، لالچوں میں پھنس گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سود دینے والوں کو فرماتا ہے کہ تمہارے خیال میں جو مال سود کی وجہ سے بڑھ رہا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہیں بڑھتا۔ اور جو اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اس میں پھر برکت نہیں پڑ سکتی۔
پس جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا کہ مسلمان ممالک جو سُود پر بینکوں میں رقم رکھتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کی اس تنبیہ کے نتیجہ میں زیادہ بڑی سزا ملے گی۔ اس لئے یہ خیال کرنا کہ ہم محفوظ ہیں بالکل غلط خیال ہے۔ بلکہ اب تو حالات نے ثابت کردیا ہے کہ غیرمسلم بھی اس سزا کے جال میں آ گئے ہیں، اس پکڑ میں آ گئے ہیں اور وقتاً فوقتاً آتے رہیں گے۔
اس آیت میں جو آیت نمبر40 ہے اس میں زکوٰۃ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو غریبوں کا حق ہے۔ پہلے بھی تین مختلف باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی اور اس میں بھی کہ زکوٰۃ ادا کرو۔ غریبوں کا بھی حق ہے اور حکومت کا بھی حق ہے اور اسلام کی خدمت بھی ہے۔ جبکہ سودی نظام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جب یہ حق ادا نہیں کرتے تو امیر، امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور ایک حد تک ہی ہو گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے تو وہی نتیجے نکلتے ہیں جو آجکل نکل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پہلے بھی اس کی ہدایت دے چکا ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کا حق ادا کرو کیونکہ یہی حقیقت میں تمہارے مال میں اضافے کا باعث بنے گا نہ کہ سود۔ پس اس اہم نکتے کو مسلمان ملکوں کو خاص طور پر یاد رکھنا چاہئے اور یہ بات ایسی ہے جس کو ان مغربی ممالک نے بھی کسی زمانے میں ریئلائز (Realise) کیا۔ جرمنی کی حکومت نے چند دہائیاں پہلے اس بات کو سمجھا اور وہ چاہتے تھے کہ سود ختم ہو جائے۔ لیکن پھر بدقسمتی کہنا چاہئے کہ اپنی سوچ کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔ اب بھی گزشتہ دنوں یہ خبر تھی اس کرائسز کے بعد شرح سود میں کمی کی وجہ سے معیشت میں کچھ بہتری پیدا ہوئی۔ لیکن اصل حل یہی ہے کہ جو لے لیا وہ تو لے لیا۔ وہ تو معاملہ ختم ہو گیا، اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا۔ جو بقایا سود ہے اس کو اب ختم کرو اور اسے معاف کر دو اور آئندہ سود لینے سے توبہ کرو۔ اور جو مومن ہیں، جو مسلمان ہیں ان کو خاص طور پر بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر یہ ہو گا تو پھر یہ جوچند سالوں بعد بار بار بحران آتے ہیں، معیشت کو دھچکے لگتے ہیں، ساری دنیا میں ہر ایک ملک اور افراد کو مصیبت پڑ جاتی ہے اس سے بچ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الرّوم کی آیت نمبر41میں (جو مَیں نے تلاوت کی) یہ ساری باتیں بیان کرنے کے بعد فرماتا ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔ پھر تمہیں رزق عطا کیا پھر وہ تمہیں مارے گا اور وہی پھر تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے شرکاء میں سے کوئی ہے جو ان باتوں میں سے کچھ کرتا ہو؟۔ وہ بہت پاک ہے۔ وہ بہت بلند ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور پیدا کرکے پھر چھوڑ نہیں دیا۔ رزق عطا کیا ہے۔ وہ رزق عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے وہ اپنی تمام مخلوق کو رزق دیتا ہے جو جانور ہیں ان کو بھی رزق دیتا ہے، جو پرندے ہیں ان کو بھی رزق دیتا ہے۔ تمام مخلوق کو اللہ تعالیٰ ہی رزق دیتاہے توتمہیں بھی رزق دے گا اگر اس کے حکموں پر چلنے کی کوشش کرو گے۔
پس اللہ فرماتا ہے تمہاری توجہ یہ رہنی چاہئے کہ ان حکموں کو ہر وقت اپنے سامنے رکھو، کیونکہ موت دینے والا بھی وہی ہے اور موت کے بعد زندہ کرکے اس کو اپنے سامنے حاضر بھی وہ کرے گا۔ سوال وجواب بھی ہوں گے۔ اس لئے نہ ظاہری شرک کرو۔ نہ مخفی شرک کرو اور نہ ہلکا سا بھی اس کے حکموں سے انحراف کرنے کی کوشش کرو۔ اور مسلمان کے لئے خاص طور پر یہ تنبیہ ہے۔ اس سُودی کاروبا ر کا جو بیان ہے یہ ایسا خطرناک ہے کہ ہم احمدیوں کو تو خاص طور پر اس سے بچنا چاہئے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا کہ سود چھوڑ دو۔ فرماتا ہے یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (البقرۃ: 279) اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو سود میں سے باقی رہ گیا ہے اگر تم فی الواقع مومن ہو۔
اللہ تعالیٰ سود لینے کی مناہی کے بارے میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ (البقرۃ: 280) اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لواور اگر تم توبہ کرو تو اصل زر تمہارے ہی رہیں گے۔ نہ تم ظلم کرو گے نہ تم پہ ظلم کیا جائے گا۔ مومنوں کو خاص طور پر تنبیہ کی گئی ہے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اسی نظام یعنی سودی نظام کے اثرات ہر مذہب والے پر پڑرہے ہیں چاہے وہ مسلمان ہے یا غیرمسلم ہے۔ پہلے تو یہ بتایا تھا کہ شیطان اس وجہ سے تمہارے حواس کھو دے گا اور اس حواس کھو نے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سُود میں ڈوبتے چلے گئے۔ پتہ ہی نہیں لگ رہا کہ کس طرح خرچ کرنا ہے۔ وہ سوچیں ہی ختم ہو گئیں جس سے اچھے بھلے کی تمیز کی جا سکتی ہو۔ اور اب فرمایا اللہ اور رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے اور جب اللہ اور رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہو تو نہ دین باقی رہتا ہے اور نہ دنیا۔ دین تو گیا ہی، اس کے ساتھ دنیا بھی گئی۔
مسلمان ممالک اگر خاص طور پر یہ جائزہ لیں۔ ہر ملک کویہ جائزہ لینا چاہئے لیکن ان ملکوں کو تو خاص طور پر (جائزہ لینا چاہئے) تو انہیں نظر آئے گا کہ سُود کی وجہ سے امیر غریب کی خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے، ملکوں کے اندر بھی اور ایک دوسرے ممالک میں بھی، جو غریب مسلمان ممالک ہیں وہ غریب تر ہو رہے ہیں۔ جو امیر ہیں، تیل والے ہیں وہ سمجھ رہے ہیں ہمارے پاس دولت ہے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر بے چینیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پھر بغاوتیں ہوتی ہیں مسلمان ملکوں کے اندر بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی۔ جیسا کہ مَیں نے پاکستان کی مثال دی تھی۔ وہاں بھی امیر غریب کا فرق بہت وسیع ہوتا چلا جا رہاہے اور ملک میں بے چینی کی وہاں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ دولت کے لالچ میں امیر غریب کے حقوق ادا نہیں کرتے اور اسی وجہ سے پھر مولوی کو اس ملک میں کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔ اگر غریب کا حق صحیح طرح ادا ہوتا تو وہ خود کش بموں کے حملے جو غریبوں کے بچوں کو استعمال کرکے کروائے جاتے ہیں اس میں ان لوگوں کو آج اس طرح کامیابی نہ ہوتی۔ گو اس کی اور بھی وجوہات ہیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ پس یہ جو ہنگامی حالتیں ہیں، غریب ملکوں میں بھی اور امیر ملکوں میں بھی جو اور زیادہ ابھر کر سامنے آ رہی ہیں یہ اب اللہ تعالیٰ کے اعلان کا نتیجہ نکل رہا ہے۔ پھر ماضی میں بھی ہم نے دیکھا اور آج کل بھی دیکھتے ہیں کہ سُود کے لئے دیا گیا جو روپیہ ہے یہ جرموں کی وجہ بن رہا ہے۔ یہ روپیہ اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ اس کو استعمال کرکے دوسروں کے وسائل پر قبضہ کرو تاکہ یہ واپسی قرض بھی محفوظ ہو جائے اور آمد کا ذریعہ بھی مستقلاً بن جائے۔
آج کل امن کی بحالی کے نام پر جو جنگیں ہو رہی ہیں یہ جغرافیائی حدود پر قبضہ کرنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ و سائل پر قبضہ کرنے کے لئے ہیں۔ اگر کوئی حکومت ان کی اچھی شرائط مان لے تو وہیں امن بھی قائم ہو جاتا ہے یااپنی مرضی کا مقامی شخص وہیں ان کا صدر بنا دیا جاتاہے یا حکومت بنا دی جاتی ہے ورنہ پھر جنگیں لمبی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ کیونکہ پیچھے سے رقم ان کو فیڈ(Feed) ہوتی رہتی ہے اور یہ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے خلاف ہے اس لئے ایک و قت آتا ہے کہ طاقتور کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا نظارہ دکھاتا ہے اور پھر اسے ذلیل کر دیتا ہے اور یہ ہم نے اب اس زمانے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ تمام تر کوششوں اور بہتر معاشی حالات کے باوجود جب اللہ تعالیٰ نے جھٹکا دیا تو تمام بڑی طاقتوں کی جو معیشتیں تھیں وہ ایک ٹھوکر سے گرتی چلی گئیں۔ وہ رقمیں دینے والے ادارے بھی کسی کام نہ آ سکے بلکہ حکومتوں کو اپنے خزانے سے، لوگوں کے مال سے، ان کو سہارا دینا پڑا۔ جن سے قرضے لئے جاتے تھے انہی کو سہارے بھی دیتے جا رہے ہیں اور وہاں بھی پبلک کا پیسہ استعمال ہو رہا ہے لیکن کوئی ضمانت نہیں کہ کس حد تک اور کتنی جلدی حالات بہتر ہوں گے۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ دنیادار اب خود بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ جیسی طاقتور معیشت کے بھی جلدی سنبھلنے کے امکانات نہیں ہیں۔ مَیں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ دوسروں کے وسائل پر نظر ہے اور ان لوگوں کو نظر آر ہا ہے کہ دوسروں کے وسائل پر نظر ہے۔ اور یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے جو دنیا کے امن برباد کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖ (ا لحجر: 89) اور ان کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نہ دیکھو جو ہم نے انہیں عارضی دنیا کا سامان دیا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ جو مال تمہارا نہیں ہے، جو تمہیں نہیں ملا اس کے پیچھے نہ پڑو۔
پس یہ ایک اصولی ہدایت ہے کہ ہر ایک اپنے وسائل پر انحصار کرے اور مومنوں کے لئے خاص طور پر ہدایت ہے کہ دنیا کا مال و متاع عارضی چیز ہے تمہاری اس طرف نظر نہ ہو۔ کیونکہ یہ دائمی رہنے والی چیز نہیں ہے بالکل عارضی چیزیں ہیں۔ ایک مومن کو اپنی عاقبت کی فکرکرنی چاہئے۔ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کی فکر کرنی چاہئے۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ عارضی مال و متاع رکھنے والے بھی تباہی کی طرف جا رہے ہیں اور اس کی خواہش رکھنے والوں کا بھی یہی انجام ہو گا۔ پس دنیا کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے وسائل کے اندر رہیں چاہے وہ گھریلو سطح پر ہوں، معاشرے کی سطح پر ہوں، ملکی سطح پر ہوں، بین الاقوامی سطح پر ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق سود سے بچیں۔ گھریلو سطح پر اگر قناعت ہو جائے تو نہ زائد گھریلو ضروریات ہوں گی نہ قرض کی خواہش ہو گی۔ نہ ہمسائے کا اچھا صوفہ یا کوئی چیز دیکھ کریہ خیال ہو گا کہ مَیں بھی خریدوں۔ نہ اپنے دوست کی اچھی کار دیکھ کر یہ خیال ہو گا کہ میرے پاس بھی ایسی کار ہو۔ اور نہ کسی عزیز کا گھر دیکھ کر فوری طور پر گھر خریدنے کی خواہش بھڑکے گی۔ بے شک گھر ہونا چاہئے، ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے لیکن سود کے پیسے سے نہیں۔ اسی طرح ملک ہیں۔ دوسرے کے مال پر قبضہ کرنے کی بجائے اگر تجارت سے ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھائیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے غریب ملکوں کو بھی اس تحفظ کا احساس ہو کہ میرے وسائل، جو ہمارے ملک کے وسائل ہیں ہماری ترقی کے لئے خرچ ہوں گے، استعمال ہوں گے۔ اگر بین الاقوامی مدد ہے تو ملکوں کو یہ احساس ہو کہ یہ ہماری بھلائی کے لئے ہے نہ کہ ہمارے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے۔ پھر لیڈرز اپنے ملک کی دولت پر مجموعی طور پر جو ملک کی دولت ہے اس کو ایمانداری سے ملک کے مفاد کے لئے استعمال کریں تو فساد ختم ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے حقدار کو اس کا حق ادا کیا جائے تو شیطان کے مَس سے بچ سکتے ہیں۔ سودی نظام سے بچیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن سکتے ہیں۔ اگر دنیا اسے ہر سطح پر نہیں سمجھے گی تو پھر جنگ کی صورت رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقتاً فوقتاً اسی طرح دنیا والوں کو مار پڑتی رہے گی۔
پس آج کل کے بحران کا حل مومنوں کے پاس ہے اور تمام مسلمانوں اور مسلمان ملکوں کو اس بحران سے نکلنے اور نکالنے کے لئے پہل کرنی چاہئے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَا تَاْکُلُوْا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (آل عمران: 131) اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو سُود درسُودنہ کھایا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
پس اللہ کرے کہ فلاح پانے کے لئے کم از کم مسلمان دنیا کو یہ تقویٰ حاصل ہو جائے اور خاص طور پر امیر مسلمان ممالک کو جنہوں نے سُود کی کمائی کے لئے اپنی رقمیں لگائی ہوئی ہیں۔ لیکن اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی اس آواز کو بھی سننا ہو گا جو اس کے مسیح و مہدی کے ذریعہ ہم تک پہنچی کیونکہ اس کے بغیراس زمانے میں کوئی نجات نہیں، کوئی تحفظ نہیں، کوئی ضمانت نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’اس وقت لوگ روحانی پانی کو چاہتے ہیں۔ زمین بالکل مر چکی ہے۔ یہ زمانہ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ(الروم: 42) کا ہو گیا ہے۔ جنگل اور سمندر بگڑ چکے ہیں۔ جنگل سے مراد مشرک لوگ اور بحر سے مراد اہل کتاب ہیں۔ جاہل اور عالم بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ غرض انسانوں کے ہر طبقے میں فساد واقع ہو گیاہے۔ جس پہلو اور جس رنگ میں دیکھو دنیاکی حالت بدل گئی ہے۔ روحانیت باقی نہیں رہی اور نہ اس کی تاثیریں نظر آتی ہیں۔ اخلاقی اور عملی کمزوریوں میں ہر چھوٹا بڑا مبتلا ہے۔ خدا پرستی اور خداشناسی کا نام و نشان مٹا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لئے اس وقت ضرورت ہے کہ آسمانی پانی اور نور نبوت کا نزول ہو اور مستعددلوں کو روشنی بخشے۔ خداتعالیٰ کا شکر کرو اس نے اپنے فضل سے اس وقت اس نُور کو نازل کیا ہے مگر تھوڑے ہیں جو اس نُور سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘‘۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد سوم صفحہ 52۔ زیر سورۃ الروم آیت نمبر 42)
خداتعالیٰ دنیا کو توفیق دے کہ اس نُور کے دائرے کے اندر آ جائیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی کی وجہ سے جو اس دنیا میں فساد برپا ہے اس سے بچ سکیں کیونکہ اب خدا کی پہچان کروانے، اس تک پہنچانے کا یہی ایک ذریعہ ہے جو بندے کو خدا کا صحیح عابد بنائے گا، جو آنحضرتﷺ کا صحیح اور حقیقی مطیع اور فرمانبردار بنائے گا۔ اللہ کرے کہ دنیا اس اہم بنیادی اصول اور نکتے کو پہچان لے۔
حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:
ایک تو یہ اعلان ہے کہ عصر کی نماز کا وقت آجکل سوا دو بجے سے شروع ہو جاتا ہے تو ابھی میں جمعہ کے بعد عصر کی نماز بھی پڑھاؤں گا۔ صرف آج جمعہ کے لئے۔ کل سے نہیں۔ اور دوسرے یہ بھی وجہ ہے کہ لجنہ کا اجتماع ہو رہاہے۔
نمازوں کے بعد انشاء اللہ ایک نماز جنازہ پڑھاؤں گا جو میری خالہ زاد امتہ المجیب بیگم صاحبہ کا ہے جونواب مصطفی خان صاحب کی اہلیہ تھیں۔ 21؍ا کتوبر کو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کی و فات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 66سال ان کی عمر تھی۔ صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ کی یہ سب سے بڑی بیٹی اور اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی نواسی بھی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ ان کی ربوہ میں تدفین ہوئی ہے۔ میرے ساتھ ان کا بڑا اخلاص اور وفا کاتعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور جنت میں جگہ دے۔
ان کی دو بیٹیاں رملہ خان۔ جو ہمارے ڈاکٹر افضال الرحمن صاحب جو امریکہ میں ہیں ان کی اہلیہ ہیں۔ دوسری صائمہ خان۔ باسل احمد خاں صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے نواسے اور حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کے پوتے ہیں ان کی اہلیہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے۔ نمازوں کے بعد انشاء اللہ جیسا کہ میں نے کہا نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 15 شمارہ 47 مورخہ 21 نومبر تا 27 نومبر 2008ء صفحہ)
مسلمان ملکوں کے سربراہوں نے اپنا مفاد دیکھا ہے اور معیشت کو اس طرح نہیں چلایا جس طرح اللہ نے حکم دیاہے، ایمانداری اور اپنے ملک سے وفا کااحساس نہیں، اسلامی بینکنگ Sugar Coated قسم کی بینکنگ، عالمی معیشت پرسود کے تباہ کن اثرات، پاکستان کو اللہ نے قدرتی وسائل سے نوازا ہوا ہے، ہرایک اپنے وسائل پر انحصار کرے، ملک ایک دوسرے پرقبضہ کرنے کی بجائے تجارت سے فائدہ اٹھائیں۔
فرمودہ مورخہ 31؍اکتوبر 2008ء بمطابق31؍اخاء 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔