اللہ تعالیٰ کی صفت وہاب
خطبہ جمعہ 21؍ نومبر 2008ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت کی تلاوت فرمائی:
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ(آل عمران: 9)
اے ہمارے ربّ ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکاہے اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقیناتُو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والاہے۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ بھی آپ نے سنا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفت وَہّاب کا واسطہ دے کر اپنے دین کی مضبوطی کی دعا مانگی گئی ہے۔ ایک تو یہ کہ زمانے کے امام کو ماننے کی جو ہمیں توفیق دی آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کی تصدیق کرنے کی اے اللہ جو تُو نے ہمیں توفیق دی۔ اے اللہ تو نے اپنے پیاروں کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے آنحضرتﷺ کی امت میں آخرین میں جو آنحضرتﷺ کا غلام صادق مبعوث فرما کر ہمیں اپنے فضل اور رحم سے اس کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور پھر آنحضرتﷺ جو اے اللہ! تیرے سب سے پیارے بندے ہیں ان کی پیشگوئی جو یقینا آپﷺ نے تجھ سے سے اطلاع پا کر کی تھی کہ مسیح موعود کے بعد خلافت کا نظام جاری ہو گا جو دائمی نظام ہے، جس سے جڑے رہنے سے وہ برکات حاصل ہونی ہیں جو اِس مسیح و مہدی کی جماعت سے وابستہ ہیں، اے اللہ! تُو نے ہم پر رحم فرماتے ہوئے اس نظام سے بھی منسلک کر دیا۔ اب ہماری کو تاہیوں، ہماری لغزشوں، ہماری غلطیوں کی وجہ سے ان تمام انعامات سے جو تُو نے ہم پر کئے محروم نہ کرنا۔
انسان غلطیوں کا پتلا ہے، اس سے غلطیاں اور کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ ہم تیرے آگے جھکتے ہوئے، تیرے سے یہ التجا کرتے ہیں کہ کبھی اس وجہ سے یا کسی تکبر، غرور اور نخوت کی وجہ سے یا کسی بھی صورت میں ہماری شامت اعمال کی وجہ سے ہمیں کبھی وہ دن دیکھنے نصیب نہ ہوں جو ہمارے دلوں کو ٹیڑھا کر دیں، یا ہمارے اندر اتنی کجی پیدا ہو جائے جو ہمارے ان اعمال کی وجہ سے جو تیری نظر میں ناپسندیدہ ہیں، ہمیں تیری رحمت سے محروم کر دیں۔ پس ہمیں ہمیشہ ایسے بُرے اور بدنصیب وقت سے بچا۔
اور پھر اس جامع دعا میں صرف اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے محروم نہ رہنے کی دعا ہی نہیں سکھائی بلکہ یہ دعا ایک مومن بندے کو سکھائی کہ اس ہدایت پر ہم صرف قائم ہی نہ رہیں بلکہ یہ دعا کریں کہ اپنی طرف سے رحمت عطا کر، اپنی اس رحمت کی چادر میں لپیٹ لے جو ہمیشہ ہر شر سے محفوظ رکھے اور ہمارے ایمان میں اضافہ کرتی رہے۔ ہم ایمان میں ترقی کرتے رہیں، ہم ایقان میں ترقی کرتے رہیں، ہم تقویٰ میں ترقی کرتے رہیں، ہمارا ہر آنے ولا دن ہمیں ایمان اور تقویٰ میں گزشتہ دن سے آگے بڑھانے والا ہو۔
پس یہ خوبصورت دعا ہمیشہ ہر احمدی کا روزمرہ کا معمول ہونا چاہئے اور اگر حقیقی رنگ میں یہ ہمارا معمول ہو گی تو ہم اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنے میں بھی شعوری کوشش کرنے والے ہوں گے۔ اپنی عبادتوں کی طرف بھی دیکھنے والے ہوں گے۔ اپنی عبادتوں اور نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے اور نتیجۃً نمازیں بھی ہماری حفاظت کر رہی ہوں گی۔ ایسے اعمال بجا لانے کی کوشش کرنے والے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ اعمال ہیں کیونکہ یہی اعمال ایمان میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، ہدایت پر قائم رکھنے والے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَہْدِیْہِمْ رَبُّہُمْ بِاِیْمَانِہِمْ (سورۃ یونس آیت نمبر10) یعنی یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اور مناسب حال عمل کئے انہیں ان کا ربّ ان کے ایمان کی وجہ سے ہدایت دے گا۔
پس جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ نیک اعمال ہدایت کا راستہ دکھانے کا باعث بنتے ہیں تو ایک مومن جب رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا کی دعا پڑھے گا تو اس کی برکات سے فیض پانے کے لئے، اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنے کے لئے، ہر کجی اور ٹیڑھے پن سے بچنے کے لئے، دعا کے ساتھ اپنے عمل بھی اسی طرح ڈھالنے کی کوشش کرے گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاہے۔ اپنے ایمان کو بچانے کے لئے جو دعائیں ہم کرتے ہیں، تبھی قبولیت کا درجہ پائیں گی جب اس کے لئے ہم اپنی عبادتوں میں بھی تسلسل رکھیں گے اور اعمال صالحہ بجا لانے کی بھی کوشش کریں گے۔ نظام جماعت سے مضبوط تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ چھوٹی چھوٹی دنیاوی باتوں کو اپنے ایمان پر ترجیح نہیں دیں گے۔ کسی جماعتی کارکن کے ساتھ معمولی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے نظام جماعت کو اعتراض کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔
پس جب انسان یہ دُعا کرتا ہے تو ہر وقت ایک کوشش کے ساتھ راستے کی ٹھوکروں سے بچنے کی کوشش بھی کرنی ہو گی۔ ایک توجہ کے ساتھ یہ کوشش کرنی ہو گی۔ اگر کسی کے خلاف اس کے اپنے خیال میں جماعتی طور پرکوئی غلط فیصلہ بھی ہوا ہے تو جہاں تک اپیل کا حق ہے اسے استعمال کرنے کا ہر ایک کو حق ہے، اسے استعمال کرکے پھر معاملہ خداتعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہئے بجائے اس کے کہ پورے نظام پر بدظنی کرے۔ دنیاوی نقصان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان سمجھ کر برداشت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ورنہ اگر شکوے پیدا ہو نے شروع ہوں تو پھر یہ بڑھتے بڑھتے جماعت سے دُور لے جاتے ہیں، خلافت سے بھی بدظنیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ ایک تو کبھی ایسا موقع ہی پیدا نہ ہو کہ ہمارے دل میں کبھی نظام جماعت کے خلاف مَیل آئے۔ ہمارے اعمال ہی ایسے ہوں جو اللہ تعالیٰ کی منشاء اور حکموں کے مطابق ہوں اور نظام کو ہمارے سے کبھی شکایت پیدا نہ ہو۔ اور اگر کبھی کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے جو ہماری کسی بشری کمزوری کی وجہ سے کسی امتحان میں ڈال دے تو کبھی ایسا نتیجہ نہ نکلے جس سے ہمارے ایمان کو ٹھوکر لگے اور نظام جماعت یا نظام خلافت کے بارے میں کبھی بدظنیاں پیدا ہوں اور یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت نہ ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد ہمیں لاپرواہ نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی تلاش پہلے سے بڑھ کر کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے پرانے انبیاء کی اور قوموں کی مثال اس لئے دی ہے کہ وہ بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے مان لیا اب آئندہ ہمیں کسی ہدایت کی ضرورت نہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اسی حوالے سے کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ آنے والی جو ہدایت رکھی تھی اسے نہ مان کر وہ بگڑ گئے۔ جب بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں تو صرف اپنے علم اور سوچ کی وجہ سے انسان کا ذہن محدود ہو جاتا ہے اور ان کے بگڑنے کی بھی یہی وجہ تھی اور نہ صرف ان کے دل ٹیڑھے ہو گئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مغضوب اور ضالّ کے زمرہ میں شامل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جو ہر نماز کی ہر رکعت میں ہمیں سورۃ فاتحہ پڑھنے کی تلقین فرمائی ہے وہ اس لئے ہے کہ ان لوگوں سے سبق حاصل کرو اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کا فضل اور اسی کی رحمت مانگتے رہو۔ اپنے دلوں کو ٹیڑھا ہونے سے بچاؤ ورنہ جس طرح اُن کی دین کی آنکھ ختم ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو بھول گئے، تم نہ کہیں بھول جانا۔ لیکن بدقسمتی سے اس پانچ وقت کی نمازوں کی دعا کے باوجودآج مسلمانوں کی اکثریت انہی قدموں پر چل رہی ہے جو خداتعالیٰ سے دُور لے جانے والے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بدظنیاں اور اپنے آپ کو عالم سمجھنا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’سورۃ فاتحہ میں خدا نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ(الفاتحۃ: 7-6) اس جگہ احادیث صحیحہ کی رو سے بکمال تو اتر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ سے مراد بدکار اور فاسق یہودی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کو کافر قرار دیا اور قتل کے درپے رہے اور اس کی سخت توہین و تحقیرکی اور جن پر حضرت عیسیٰ نے لعنت بھیجی جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے اور اَلضَّآلِّیْن سے مراد عیسائیوں کا وہ گمراہ فرقہ ہے جنہوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا سمجھ لیا اور تثلیث کے قائل ہوئے اور خون مسیح پر نجات کا حصر رکھا اور ان کو زندہ خدا کے عرش پر بٹھا دیا۔ اب اس دُعا کامطلب یہ ہے کہ خدایا ایسا فضل کر کہ ہم نہ تو وہ یہودی بن جائیں جنہوں نے مسیح کو کافر قرار دیا تھا اور اُن کے قتل کے درپہ ہوئے تھے اور نہ ہم مسیح کو خدا قرار دیں اور تثلیث کے قائل ہوں، چونکہ خداتعالیٰ جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں اس اُمّت میں سے مسیح موعود آئے گا۔ اور بعض یہودی صفت مسلمانوں میں سے اسے کافر قرار دیں گے اور قتل کے درپے ہوں گے اور اس کی سخت توہین و تحقیر کریں گے اور نیز جانتا تھا کہ اس زمانہ میں تثلیث کا مذہب ترقی پر ہو گا اور بہت سے بدقسمت انسان عیسائی ہو جائیں گے اس لئے اس نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی اور اس دعا میں مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ کا جو لفظ ہے وہ بلند آواز سے کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ جو اسلامی مسیح کی مخالفت کریں گے وہ بھی خداتعالیٰ کی نظر میں مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ ہوں گے جیسا کہ اسرائیلی مسیح کے مخالف مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ تھے‘‘۔ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ419)
پس ہم احمدی اُن خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے مسیح موعود کو مان کر مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ سے بچنے کی دُعا قبول ہوتے دیکھی اور اَلضَّآلِّیْن سے بچنے کی دعا بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے حق میں قبول فرمائی کہ ہم خدائے واحد کی عبادت کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اس پر قائم رکھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ حکم کہ دعا کرو کبھی دل ٹیڑھے نہ ہوں اور کبھی مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ اور ضَآلِّیْن میں شامل نہ ہوں، یہ دعا پڑھنے کا مستقل حکم ہے۔ اس لئے ہر احمدی کو اسے یاد رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ دوسرے مسلمانوں کو بھی اس دعا کو سمجھنے کی توفیق دے تاکہ اُمّت مسلمہ آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہو کر امت واحدہ کا حقیقی نظارہ پیش کرنے والی بن جائے اور ہر مسلمان کہلانے والا مسیح محمدی کی مخالفت چھوڑ کر آنحضرتﷺ کی پیشگوئی اور اللہ تعالیٰ کے کلام کی صداقت کا مُصدّق بن جائے اور فروعی مسائل کے پیچھے چلنے کی بجائے اس دعا کے بنیادی پیغام کو سمجھنے والا بن جائے حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ کی دُعابہت پڑھا کرتے تھے۔ پھر ایک حدیث میں یہ بھی روایت ہے کہ جو حضرت شَھر بن حَوشبؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ مَیں نے اُمّ سلمہؓ سے پوچھا کہ اے اُمّ المومنین! آنحضرتﷺ جب آپ کے یہاں ہوتے تھے تو کون سی دعا کرتے تھے۔ اس پر اُمّ سلمہؓ نے بتایا کہ آنحضرتﷺ یہ دعا پڑھتے تھے کہ یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکِ کہ اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ اُمّ سلمہؓ کہتی ہیں کہ مَیں نے آنحضرتﷺ سے اس دعا پر مداومت کی وجہ پوچھی کہ آپؐ باقاعدگی سے اس کو کیوں پڑھتے ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ اے اُمّ سلمہ! انسان کا دل خداتعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے جس شخص کو ثابت قدم رکھنا چاہے اس کو ثابت قدم رکھے اور جس کو ثابت قدم نہ رکھنا چاہے اس کے دل کو ٹیڑھا کر دے۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات باب 94/89 حدیث نمبر 3522)
پس دیکھیں کس قدر خوف کا مقام ہے اور ہمیں اپنے دل کو ٹیڑھا ہونے سے بچانے کے لئے کس قدر دعا کی ضرورت ہے کیونکہ بدظنیاں ہیں، چھوٹی چھوٹی شکایتیں ہیں جو پھر اتنی دُور لے جاتی ہیں کہ آدمی دین سے بھی جاتا ہے۔ کیا آنحضرتﷺ کا دل نعوذ باللہ ٹیڑھا ہو سکتا تھا۔ یقینا نہیں اور کبھی نہیں ہو سکتا تھا۔ آپؐ کا دل تو خداتعالیٰ کی یاد کے علاوہ کچھ تھا ہی نہیں۔ آپؐ سے تو خداتعالیٰ نے یہ اعلان کر وایا کہ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ (آل عمران: 32) یعنی میری اتباع کرو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ پس آپؐ کا دل ٹیڑھا ہونے کا کیا سوال ہے۔ آپؐ کی پیروی تو گناہوں کی بخشش کے سامان کرنے والی ہے۔ آپؐ کا اوڑھنا بچھونا، جینا مرنا خداتعالیٰ کے لئے تھا۔ آپؐ نے ایک دفعہ فرمایا کہ نیند میں بھی میری آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن دماغ میں اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی یاد ہوتی ہے۔
پس آنحضرتﷺ کی دُعا ہمارے لئے نمونہ قائم کرنے کے لئے تھی جو آپؐ کیا کرتے تھے اور اُمّت کے لئے تھی کہ ان کے دل کبھی ٹیڑھے نہ ہوں اور جب مسیح و مہدی کا زمانہ آئے تو آنے والے مسیح موعود کو مان لیں۔ کاش کہ مسلمان اس اہم نکتہ کو سمجھیں۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ سچائی کو دیکھ لینے کے بعد، ان لوگوں کی نسلوں میں پیدا ہونے کے بعد جنہوں نے سچائی کو پایا اور اس کی خاطر قربانیاں دیں پھر انسان راستے سے بھٹک جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھنے اور ان سے حصہ لینے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بن جائیں۔ یہ مسلمان بھی سوچیں اور غور کریں۔ آج کل بھی دیکھ لیں کیا مسلمانوں کے حالات انہی باتوں کی نشاندہی نہیں کر رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آنحضرتؐ کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان کے طور پر جو مسیح موعود آیا اس کو مسلمان اس لئے نہیں مانتے کہ اب ہمیں کسی ہادی کی ضرورت نہیں۔ دراصل یہ آج کل کے نام نہاد علماء اور مولوی کے مفاد میں نہیں ہے کہ اُمّت مسلمہ مسیح موعود کو مانے کیونکہ اس سے ان کی دکانداری ختم ہوتی ہے۔ اور بہانہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی یا مصلح نہیں آ سکتا کیونکہ آپؐ کی خاتمیت نبوت پر حرف آتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ قرآن کریم ہمارے سامنے ہے ہمیں کسی مسیح مہدی یا مصلح کی ضرورت نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ مَیں اس پہ کافی تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں خلافت کی ضرورت کا انکار نہیں کرتے۔ لیکن جاہل یہ نہیں سمجھتے کہ مسیح موعود کے بغیر خلافت کا کوئی تصور پیدا ہو ہی نہیں سکتا اور مسیح موعود کا آپؐ کی اُمّت میں سے آناہی آنحضرتﷺ کے خاتم النبییّن ہونے کا ثبوت ہے۔ لیکن ان لوگوں کا قرآن سمجھنے کا دعویٰ تو ہے لیکن یہ چیز ان کو سمجھ نہیں آتی اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ان کایہی فہم قرآن کریم ہمارے سامنے ہے کہ کسی ہادی کی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم بھی اُنہی پر کھلتا ہے یا اُنہی پر اس کی تعلیم روشن ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے چنیدہ ہوں اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی اللہ تعالیٰ کے وہ چنیدہ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کے اسرار ہمیں کھول کر بتائے، اُن راستوں کی نشاندہی کی جن سے اس کا فہم حاصل ہو سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’دینی علم اور پاک معارف کے سمجھنے اور حاصل کرنے کے لئے پہلے سچی پاکیزگی کا حاصل کرلینا اور ناپاکی کی راہوں کا چھوڑ دینا از بس ضروری ہے۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے۔ لَایَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (الواقعہ: 80) یعنی خدا کی کتاب کے اسرار کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو پاک دل ہیں اور پاک فطرت اور پاک عمل رکھتے ہیں۔ دنیوی چالاکیوں سے آسمانی علم ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے‘‘۔ (ست بچن۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ126)
پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’قرآنی حقائق صرف انہیں لوگوں پر کھلتے ہیں جن کو خدا ئے تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف اور پاک کرتا ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ612۔ بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر3)
پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’کہتے ہیں کہ ہم کو مسیح و مہدی کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ قرآن ہمارے لئے کافی ہے اور ہم سیدھے راستے پر ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ سوائے پاکوں کے اور کسی کی فہم اُس تک نہیں پہنچتی۔ اس وجہ سے ایک ایسے مفسر کی حاجت پڑی کہ خدا کے ہاتھ نے اسے پاک کیا ہواور بینا بنایا ہو‘‘۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سورۃ الواقعۃ۔ آیت 80۔ جلد چہارم۔ صفحہ308)
پس اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جن کو خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا ہے اور صاف کیا ہے اور فہم قرآن عطا فرمایا ہے۔ پس یہ لوگ جتنا بھی زور لگا لیں مسیح موعود کی مخالفت کرکے کبھی یہ قرآن کریم کے اسرار کو سمجھ نہیں سکتے۔ اور جتنی بھی دعائیں کر لیں، جب تک مسیح موعود کو ماننے کی طرف عملی قدم نہیں اٹھائیں گے ان کے دل ٹیڑھے رہیں گے۔
پس اُن کی حالت دیکھ کر جہاں ہمیں احمدی ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے وہاں ہمیشہ ہر قسم کے ٹیڑھ سے بچنے کے لئے دعائیں بھی کرتے رہنا چاہئے۔ اور جوں جوں دنیا مادیت کی طرف بڑھ رہی ہے اور خداتعالیٰ کو بھول رہی ہے پہلے سے بڑھ کر یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس انعام کی برکت سے کبھی محروم نہ کرے۔ ہمیشہ ہمیں ثبات قدم عطا فرمائے اور ہمارے ایمان کو اپنی رحمت سے بڑھائے۔ رحمت عطا ہونے کی دعا بھی اللہ تعالیٰ نے ہی سکھائی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت انہی کو ملتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار اور ایمان میں بڑھنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’قرآن شریف میں … ایک جگہ فرمایا ہے وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا (الاحزاب: 44) یعنی خدا کی رحیمیت صرف ایمانداروں سے خاص ہے۔ جس سے کافر کو یعنی بے ایمان اور سرکش کو حصہ نہیں‘‘۔
پھر فرمایا’’جو مومنین سے رحمت خاص متعلق ہے، ہر جگہ اس کو رحیمیت کی صفت سے ذکر کیا ہے‘‘۔
فرمایا: ’’اِنَّ رَحْمَۃَ اللّٰہ ِ قَرِیْبٌ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ (الاعراف: 57) یعنی رحیمیت الٰہی انہیں لوگوں سے قریب ہے جو نیکوکار ہیں۔ پھر ایک اور جگہ فرمایا ہے’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(البقرۃ: 219) یعنی جو لو گ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطنوں سے یا نفس پرستیوں سے جدائی اختیار کی اور خدا کی راہ میں کوشش کی وہ خدا کی رحیمیت کے امیدوار ہیں اور خدا غفور اور رحیم ہے۔ یعنی اس کا فیضانِ رحیمیت ضرور اُن لو گوں کے شامل حال ہو جاتا ہے کہ جو اُس کے مستحق ہیں۔ کوئی ایسا نہیں جس نے اُس کو طلب کیا اور نہ پایا‘‘۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ452-451۔ بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر 11)
پس یہاں پھر واضح ہو گیا کہ رحمت بے شک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے لیکن آتی ان کو ہے جو ایمان میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور محسنین میں شامل ہونے کی جستجو کرتے ہیں۔ اور محسنین کون ہیں؟ محسنین وہ ہیں جو نیک اعمال بجا لانے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے دعاؤں کے ساتھ ہر قسم کے ٹیڑھ سے بچنے کی کوشش کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور نہ صرف ٹیڑھ سے بچنے کی کوشش ہے بلکہ محسنین میں شامل ہونے کی کوشش کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگ جو نیک اعمال بجالانے کی کوشش کرتے ہیں وہی محسنین ہیں اور پھر عام اعمال ہی بجا نہیں لاتے بلکہ اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور آنحضرتﷺ کے ایک ارشاد کے مطابق اس سوچ سے ہر کام کر رہے ہوتے ہیں کہ خدا کی ہم پر ہر وقت نظر ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے کہ نفس پرستیوں سے جدائی اختیار کرنے والے ہوں اور بچنے والے ہوں اور نیک اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال کی حفاظت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے ہمیشہ نفس پرستیوں سے بچنے والے ہوں، ہر قسم کی ٹیڑھ سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے بچنے والے ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جو انعامات اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے ہیں ان کی قدر کرنے والے بنیں اور پھر یہ رحمت ہم پر اور ہماری نسلوں پر بڑھتی اور پھیلتی چلی جائے۔
دوسر ے ایک بات مَیں سفر کے حوالے سے دعا کے لئے یہ کہنی چاہتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ سفر شروع ہونے والا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ مَیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انشاء اللہ قادیان کے سفر پر جا رہاہوں۔ قادیان کا انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ ہے۔ اس کے لئے دعا کریں کہ ہر لحاظ سے کامیاب اور بابرکت ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر شر سے ہر احمدی کو محفوظ رکھے۔ انشاء اللہ تعالیٰ بہت سے لوگ دنیا کے مختلف ممالک سے وہاں جا رہے ہیں۔ حکومت ہند کو اپنے مسائل کی وجہ سے بڑی تعداد میں ویزے دینے میں کچھ مشکلات ہیں۔ اس لئے ویزوں میں کچھ روک بھی پیدا ہو رہی ہے لیکن بہرحال کچھ کو مل گئے اور کچھ جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال حکومت نے کافی تعاون کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام جانے والوں کو ہر طرح اپنی حفاظت میں رکھے۔ ان روکوں کی وجہ سے جو خواہش کے باوجود جا نہ سکیں انہیں ان کی نیتوں کا اللہ تعالیٰ ثواب دے۔ بہرحال جانے والے بھی اور نہ جانے والے بھی مستقل دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ حاسدوں اور شریروں کے شر سے ہر وقت بچائے کیونکہ ان لوگوں کی نظر تو ہر وقت جماعت پر رہتی ہے۔ اور جو وہاں قادیان میں رہنے والے ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرور سے محفوظ رکھے۔
قادیان کے علاوہ انڈیا کی بعض دُور دراز کی جماعتوں کی خواہش تھی کہ ان کی جماعتوں میں بھی دورہ کیا جائے جو قادیان نہیں آ سکتے۔ ہندوستان ایک بڑا وسیع ملک ہے اور غر یب لوگ ہیں اس لئے نہیں آ سکتے۔ تو انشاء اللہ تعالیٰ بعض دوسرے شہروں میں بھی جانے کا پروگرام ہے۔ اللہ تعالیٰ ان جگہوں کے پروگرام بھی ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے اور میرا یہ دورہ بے شمار برکات کا حامل ہو اور ان کو سمیٹنے والا ہو اور دشمن کا ہر حربہ اور چال ناکام و نامراد ہوا ور ہم جماعت کی ترقی ہمیشہ دیکھتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری پردہ پوشی فرمائے اور کبھی ہم اس کے فضلوں اور رحمتوں سے محروم نہ رہیں۔ اس کے علاوہ ابھی نمازوں کے بعد دو جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ تو ہمارے درویش بھائی مکرم بشیر احمد مہار کا ہے جنہوں نے قادیان میں اپنی درویشی کی زندگی گزاری۔ 13نومبر کو ان کی وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ قادیان کے ابتدائی درویشوں میں سے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے ساری زندگی بڑی درویشی کی حالت میں بسر کی ہے۔ باوجود اس کے کہ ان کو دو تین دفعہ ایسے موقعے میسر آئے کہ پاکستان جا سکتے تھے وہاں ان کا خاندان تھا ان کی جائیداد تھی، زمینیں تھیں لیکن انہوں نے کہا نہیں اب مَیں قادیان میں ہی رہوں گا۔ یہیں میرا مرنا اور دفن ہونا ہے۔ بڑے نیک، سادہ مزاج، نمازوں کے پابند، تہجد گزار اور دعا گو انسان تھے۔ بڑے خاموش طبع تھے۔ خلافت کے ساتھ بھی بڑا والہانہ لگاؤ تھا۔ ہر تحریک پہ لبیک کہنے والے تھے۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ موصی تھے۔ ان کی تدفین وہیں قطعہ خاص درویشان میں ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیشہ اپنے پیار کی نظر ان پر ڈالے۔
دوسرا جنازہ مکرم محمد غضنفر چٹھہ صاحب کا ہے۔ آپ بورے والا میں نظارت بیت المال پاکستان کی طرف سے انسپکٹر بیت المال تھے۔ 18نومبر کو دورے کے دوران جب آپ ضلع وہاڑی کا دورہ کر رہے تھے امیرصاحب کی رہائش گاہ کے قریب دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار آئے، ان سے بیگ چھیننے کی کوشش کی اور مزاحمت پر فائر کیا اور یہ شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کی عمر 56سال تھی۔ آپ کا تعلق بھی وہاڑی سے ہی تھا۔ اس لحاظ سے بھی مَیں اس کو جماعتی شہادت سمجھتا ہوں کہ میرا خیال ہے کہ بیگ میں بھی جماعتی سامان اور چیزیں اور کاغذات تھے اور ہو سکتا ہے رقم بھی ہو۔ اس لحاظ سے ان کی شہادت جماعتی شہادت بھی کہلا سکتی ہے، صرف ڈکیتی کی شہادت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 15 شمارہ نمبر 50 مورخہ 12 دسمبر تا 18 دسمبر 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 7)
ربنا لا تزغ قلوبنا، ایک جامع دعا جو ہراحمدی کا روزمرہ کا معمول ہونا چاہیے، آج کل کے نام نہاد علماء اور مولوی کے مفادمیں نہیں کہ امت مسلمہ مسیح موعودؑ کو مانے۔ قادیان کے سفر کے لئے دعاکی تحریک۔
فرمودہ مورخہ 21؍نومبر 2008ء بمطابق21؍نبوت 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔