دورۂ ہندوستان کے تاٴثرات
خطبہ جمعہ 12؍ دسمبر 2008ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
گزشتہ دو جمعے تو مَیں نے ہندوستان میں پڑھائے تھے۔ ایک کالیکٹ میں جو جنوبی ہندوستان کے صوبہ کیرالہ کا ایک شہر ہے اور دوسرا دہلی میں اور پھر جیسا کہ آپ جانتے ہیں بعض حالات کی وجہ سے مَیں اپنا دورہ مختصر کرکے واپس آ گیا۔ عموماً مَیں اپنے دورے سے واپسی پر دورے کے مختصر حالات بیان کیا کرتا ہوں۔ ان حالات کو سننے کے لئے دنیا میں بیٹھے ہوئے احمدیوں کو بھی عادت ہو گئی ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے اور جن جگہوں کا دورہ کیا جاتا ہے انہیں بھی یہ سننے کا شوق ہوتا ہے کہ ہمارے بارہ میں کچھ بیان کیا جائے۔ گو کہ مَیں نے کیرالہ کے دورہ کے دوران ہی بلکہ کالی کٹ کے خطبہ میں ہی اس علاقہ کی اہمیت، اس علاقہ میں مذہب کی تاریخ کے حوالہ سے مختصراً باتیں کر دی تھیں اور اُن لوگوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلا دی تھی۔ ان کے اخلاص و و فا کا بھی ذکر کر دیا تھا۔ لیکن اپنے دورہ کے حوالے سے مزید کچھ باتیں اختصار کے ساتھ بیان کروں گا۔
کیرالہ جانے سے پہلے ہی راستے میں ہم چنائی (Chenai)جو پہلے مدراس (Madras) کہلاتا تھا وہاں رُکے تھے۔ گو کہ قیام چند گھنٹوں کا تھا لیکن وہاں لجنہ کا بھی اچھا پروگرام ہو گیا جس میں مختصراً ان کی ذمہ داریوں کی طرف ان کو توجہ دلا دی اور ہماری ایک نئی مسجد جو ماؤنٹ تھومس (Mount Thomas) میں بنی ہے، اس کا بھی افتتاح کیا۔ چنائی کی جماعت اتنی چھوٹی بھی نہیں، چند سو نفوس پر مشتمل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص و وفا میں بہت بڑھی ہوئی جماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کی جو نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے اس نے جماعتوں میں وحدت اور خلافت سے ایک تعلق کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے۔ یہ علاقہ جو قادیان سے تقریباً 2ہزار میل کے فاصلے پر ہے۔ بہت سے ایسے احمدی لوگ ہیں جو کبھی قادیان بھی نہیں گئے ہوں گے، اُن سب کی نظر میں خلافت کے لئے وفا ہے۔ ان کا ایک ڈسپلن، ایک جماعتی وقار کا اظہار اور جماعت سے تعلق بہت زیادہ نظر آتا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو بڑوں کی تربیت ہے۔ کیونکہ اس علاقہ میں بھی بہت سے بزرگ گزرے ہیں۔ دوسرے ایم ٹی اے کا بھی کردار ہے جیسا کہ مَیں نے کہا نظمیں ہیں۔ نظمیں پڑھنے کا انداز ہے۔ دنیا میں اب ہر جگہ تقریباً ایک جیسا ہو گیا ہے، چاہے وہ افریقہ ہے یا ایشیا ہے یا یورپ ہے۔ یہ تعلق اور وحدت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مَیں نے یہاں بڑوں کی تربیت کا ذکر کیا تھا، اس ضمن میں یہ بتا دوں کہ چنائی شہر میں یا اس علاقہ میں احمدیت حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں پہنچی تھی۔ حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کے 16صحابہ کا تاریخ میں ذکر ملتا ہے۔ اُن کی اولادیں اور اُن کی نسلیں ہیں جو اب احمدیت پہ قائم ہیں۔ پھر نئے احمدی بھی ہیں۔ ماؤنٹ تھومس میں مَیں نے مسجد کا ذکر کیا ہے تو اس جگہ مذہب کی بھی مختصر تاریخ بتا دوں۔ یہاں کی عیسائیت کی تاریخ کے مطابق تھو ماحواری جو حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری تھے، وہ 52عیسوی میں اس علاقہ میں آئے تھے اور کیرالہ سے ہوتے ہوئے وہاں پہنچے تھے۔ یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جسے ماؤنٹ تھومس کہتے ہیں جہاں ایک چرچ بھی ہے۔ یہاں انہوں نے زندگی کے 16-15سال گزارے اور یہیں ان کو کسی دشمن نے قتل کر دیا تھا اور وہیں وہ چرچ میں دفن ہوئے۔ پھر ان کی لاش بعد کے کسی زمانہ میں ویٹیکن (Vatican)لے جائی گئی۔
بہرحال تھوما حواری کا یہاں آنے کا مقصد یہی لگتا ہے کہ اسرائیل کی جو گمشدہ بھیڑیں تھیں۔ یعنی جو (گمشدہ) قبیلے تھے ان کی تلاش کرکے ان کو عیسائیت کا پیغام پہنچایا جائے۔ حضرت تھوما حواری جو ہیں، ان کے بارہ میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے حضرت عیسی ٰؑ کے ساتھ صلیب کے واقعہ کے بعد سفر کیا تھا۔ یہ واحد تھے جن کے بارہ میں حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی براہین احمدیہ حصہ پنجم میں لکھا ہے۔ حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت عیسیٰؑ کے صلیب سے زندہ بچ جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’عیسائی اس بات کے خود قائل ہیں کہ بعض حواری ان دنوں میں ملک ہند میں ضرور آئے تھے اور دھوما حواری کا مدراس میں آنا اور اب تک مدراس میں ہر سال اس کی یاد گارمیں عیسائیوں کا ایک اجتماع میلہ کی طرح ہونایہ ایسا امر ہے کہ کسی واقف کار سے پوشیدہ نہیں‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 351-350)
اس کے علاوہ ملفوظات میں بھی تھوما حواری کے حوالہ سے آپ نے ذکر فرمایا۔ ایک جگہ فرمایا کہ جس طرح آنحضرتﷺ ہجرت کے وقت صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے تھے اسی طرح حضرت عیسیٰؑؑ بھی ہجرت کے وقت تھوما حواری کے ساتھ نکلے تھے اور وجہ اس کی یہ تھی کہ لوگوں کو زیادہ پتہ نہ لگے تاکہ احتیاط کے ساتھ سفر طے ہو اور اسی طرح سفر کرتے ہوئے پھر وہ کشمیر پہنچے تھے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ390-389 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
کیرالہ میں یہودیت کی بھی تاریخ ہے اس کے بارہ میں بھی بتا دوں۔ یہاں یہودی بہت عرصہ پہلے آ کے آباد ہوئے تھے۔ ان کو تبلیغ کے لئے حضرت عیسٰیؑ کے حواری کا آنا ضروری تھا تاکہ پیغام پہنچ جاتا اور یہ قبیلہ بھی اس پیغام سے محروم نہ رہ جاتا جو حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام لے کر آئے تھے۔
بہرحال کہنے کا یہ مقصد ہے کہ یہ شہر بڑی پرانی مذہبی تاریخ رکھتا ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسیح محمدی کے حواریوں کے ذریعہ، آپؑ کے صحابہؓ کے ذریعہ اس علاقہ میں جواحمدیت آئی ہے تو وہ بھی اللہ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے۔ اگلی نسلیں بھی ایمان اور اخلاص میں ترقی کر رہی ہیں۔ جماعت کو اس سال عین اس علاقہ میں مسجد بنانے کی بھی توفیق ملی ہے جہاں مسیح موسوی کے حواری نے اپنی جگہ بنائی تھی اور جیسا کہ مَیں نے کہا پھریہاں عیسائیت پھیلی اور یہاں کا بہت بڑا چرچ ہے۔ اللہ تعالیٰ اب احمدیوں کو توفیق دے رہا ہے کہ اس مسجد کی برکت سے پہلے سے بڑھ کر مسیح محمدی کے پیغام کو اس علاقہ میں پھیلائیں۔ اللہ کرے کہ ان کو اس کی توفیق ملتی چلی جائے۔ کیونکہ اب ان لوگوں کی نجات اس باطل عقیدے کو چھوڑ کر آنحضرتﷺ کی غلامی میں آنے میں ہے اور خدائے واحد کے آگے جھکنے میں ہے، بجائے اس کے کہ بندے کو خدا بنایا جائے۔ تو بہرحال یہ ہے چنائی کی مختصر تاریخ۔
یہاں سے جیسا کہ مَیں نے بتایا اگلا سفر کیرالہ کے شہر کالی کٹ کا تھا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں حضرت تھوماسب سے پہلے آئے تھے کیونکہ یہاں یہودیوں کی کافی بڑی تعداد آباد تھی اور یہ لوگ مالا باری یہودی کہلاتے تھے۔ ان کی تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانہ سے تجارتی قافلے یہاں آیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ پھر یہودیت بھی یہاں آئی ہو گی۔ بہرحال تھوما حواری جب یہاں آئے تو یہیں انہوں نے اپنا زندگی کا اکثر وقت گزارا اور یہودیوں کو عیسائیت کا پیغام پہنچاتے رہے۔ اکثریت نے پیغام کو قبول کیا۔ جولوگ حضرت تھوما کے ذریعہ سے اس علاقہ میں عیسائی ہوتے نصرانی یاتھومائی عیسائی کہلاتے ہیں اور بہت سارے ان میں سے ابھی بھی ہیں جو موحّد ہیں۔ بہرحال یہ تو اس علاقے میں یہودیت اور عیسائیت کی مختصر سی تاریخ ہے۔
ہندو یہاں بہت بڑی اکثریت میں ہیں اور مسلمان بھی کافی تعداد میں ہیں۔ لیکن یہ اس علاقہ پر اللہ کا خاص فضل ہے کہ آپس میں سب مل جل کر رہتے ہیں۔ اگر ملک کے ایک حصہ میں مذہبی فساد ہوتا بھی ہے تو کیرالہ والوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ان کو کوئی پتہ نہیں لگتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ گھانا میں ایک ہمارا دوست کیرالہ کا رہنے والا تھا تو مَیں ایک دن دفتر میں گیا تو وہاں وہ بھی تھا۔ ایک گھانین آ گیا تو گھانین نے مجھ سے پوچھا کہ تم انڈین ہو۔ مَیں نے بتایا کہ نہیں مَیں پاکستانی ہوں۔ تو وہ پاکستا نی اور انڈین میں فرق پوچھنے لگا۔ تو میرے سے پہلے ہی کیرالہ کا جو عیسائی انجینئر تھا وہ کہتا تھا کہ ہمارا کوئی فرق نہیں صرف سرحدوں کا جغرافیائی فرق ہے یا پھر کچھ فرق ہمارے لیڈروں نے پیدا کر دیا ہے۔ تو بہرحال ان لوگوں کی سوچ بڑی مثبت سوچ ہے۔ ان میں برداشت بھی بہت زیادہ ہے۔ و ہ کچھ فرق رکھنا نہیں چاہتے۔
اس علاقہ میں جو عرب تجارتی قافلے آتے تھے ان کے ذریعہ سے اسلام بھی پہنچا ہے۔ ان کی تاریخ یہی بیان کرتی ہے کہ جب تجارتی قافلے یہاں آیا کرتے تھے تو ان کے ساتھ خلافت راشدہ کے دور میں حضرت مالک بن دینارؓ یہاں آ گئے تھے۔ ان کے ساتھ بارہ عرب تاجر اَور تھے۔ اس زمانہ میں وہاں کا جو راجہ تھا، پارومل، اس نے اسلام قبول کیا ہے۔ اس نے پہلے معلومات حاصل کیں اور آخر اسلام کوسچا سمجھ کے اسے قبول کیا اور پھر اسی تجارتی قافلے کے ساتھ وہ مکّہ بھی گیا۔ یہ جو راجہ تھا وہ اسلام کی خوبصورت تعلیم اور معجزات دیکھ کر مسلمان ہوا۔ اس علاقہ میں ایک راجہ کے مسلمان ہونے کا حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ذکر فرمایا ہے۔ ناموں میں کچھ فرق ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس زمانہ کے نام اور آج کل کے ناموں میں فرق ہو۔ بہرحال حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے کہ وہاں کا راجہ مسلمان ہوا اور پھر یہاں اسلام پھیلا۔ بلکہ وہاں ایک احمدی خاندان ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم بھی اسی راجہ کی اولادہیں۔ اس راجہ کی کچھ نیکیاں تھیں جو اس زمانے میں مسلمان ہوا اور اس کی آئندہ نسلوں کے لئے یقینا دعائیں بھی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ نے آئندہ نسل کے ایک حصّہ کو احمدیت قبول کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائی۔
یہاں یہ بھی بتا دوں جیسا کہ مَیں پہلے بھی ایک خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ اس علاقہ میں لٹریسی ریٹ (Literacy Rate) تقریباً 100فیصد ہے جبکہ باقی ملک میں شرح خواندگی بہت کم ہے اور مسلمانوں میں تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن اس علاقہ کے مسلمانوں میں بھی 90 فیصد سے اوپر شرح خواندگی ہے اور یہ علاقہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اس خطّہ کے جوتمام بڑے مذاہب ہیں انہیں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور پڑھے لکھے اور روشن خیال لوگ یہاں موجود ہیں۔ ان میں برداشت کا مادہ بھی بہت زیادہ ہے۔ احمدیت کی تبلیغ کی صحیح اور مسلسل کوشش ہو تو مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کے لئے یہ بڑی زرخیز زمین بن سکتی ہے۔ گو کہ آج کل جس طرح باقی دنیا میں بعض مسلمان تنظیموں نے نفرتیں پھیلانے اور شدت پسندی کے رویے اپنائے ہوئے ہیں اسی طرح یہاں بھی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کیونکہ بعض ایسے گروہ یہاں ملے ہیں لیکن عمومی طور پر لوگ اس بات کے خلاف ہیں اور اس چیز کو ختم بھی کرنا چاہتے ہیں۔ عین ممکن تھا کہ میرے جانے پر لوگ غلط اور منفی ردّ عمل ظاہر کرتے لیکن مجھے بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ایک دو مہینے پہلے ہی ایک ایسے گروہ کی نشاندہی ہوئی جو فتنہ پیدا کرنا چاہتے تھے یا دہشت گردوں میں شمار ہوتے تھے اور حکومت نے انہیں پکڑ کے بند کیا ہوا ہے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ہمارے دورہ کے دوران کسی ایک طرف سے بھی مخالفانہ آواز نہیں اٹھی۔ بلکہ وہاں کے ایک احمدی جرنلسٹ نے مجھے لکھا کہ مخالف مسلمان تنظیمیں یا فرقے جوہیں، وہ ہمارے مخالف تو ہیں ہی لیکن ان کے اخباروں نے بھی انتہائی شریفانہ رنگ میں میرے وہاں جانے کی خبر دی۔ ہمارے جماعتی پروگرام بھی بھرپور طریقے سے ہوتے رہے۔ ایک احمدی دوست جس کے گھر میں مَیں ٹھہرا ہوا تھا وہاں سے مسجد کا فاصلہ تقریباً 20 منٹ کے فاصلہ پر تھا اور ہماری مسجد بھی عین شہر کے وسط میں ہے۔ ہماری وہاں جو ریسیپشن ہوئی جس میں مہمان آئے ہوئے تھے ان میں ایک بڑے سیاسی لیڈر تھے جومجھے کہنے لگے کہ آپ لوگوں کی مسجد تو شہر کے دل میں ہے۔ بڑی مرکزی جگہ پہ ہے۔ اس شہر کے دل میں جو ہماری مسجد ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ اسی طرح یہاں سے محبت کا پیغام پھیلے گا اور اسی نے انشاء اللہ تعالیٰ دلوں کو فتح کرنا ہے۔
صوبائی حکومت نے بھی وہاں کافی تعاون کیا۔ ایک احمدی پولیس افسر دے دیا جو اپنی ٹیم کے ساتھ آئے ہوئے تھے لیکن عموماً لوگوں کا اپنا تعاون بھی بڑا اچھا تھا۔ روزانہ کم از کم دو دفعہ مسجد میں جانے کے باوجود یہ نہیں تھا کہ لوگ تنگ آئے ہوں یا ان کو ایک طرف روکا جاتا ہو۔ بعض دفعہ ٹریفک خود بخود رک جاتی تھی اور خود شوق سے راستہ دے دیتے تھے۔ اسی لئے مَیں نے کہا کہ اس زمین سے صحیح رنگ میں احمدیوں کو فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
کالیکٹ (Kalicut)میں کالیکٹ اور ارد گرد کے احمدیوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس علاقے کے جتنے بھی احمدی آئے تھے جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اللہ کے فضل سے سب سے ملاقاتوں کی توفیق ملی۔ ان ملاقاتوں کے دوران جو تعلق اور وفا کا اظہار سب مرد و زن اور بچوں نے کیا وہ بھی حیرت انگیز تھا۔ جیسا کہ مَیں پہلے ہی بتا چکا ہوں، یہ لوگ اخلاص و وفا میں بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ کئی ایسے ہیں جنہوں نے گزشتہ چند سال پہلے ہی بیعت کی اور جماعت میں شامل ہوئے لیکن اخلاص و وفا میں بہت بڑھ گئے ہیں۔ اس طرح جماعتی نظام میں سموئے گئے ہیں کہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ نئے احمدی ہیں یا پرانے احمدی ہیں۔ خدمات میں پیش پیش ہیں۔ کئی ہیں جن کے پاس اہم جماعتی عہدے ہیں اور بڑے احسن طریق سے خدمات بجا لا رہے ہیں۔ جماعتی نظام کو سمجھنے کے لئے اور اپنے معیار بہتر کرنے کے لئے وہ بار بار سوال کرتے رہے۔ اپنے علم میں اضافہ کی کوشش کرتے رہے تاکہ جماعتی کاموں کو صحیح طرز پر اور صحیح نہج پر چلا سکیں۔ تو اس قسم کے نئے احمدی ہیں جو ہر جگہ ہونے چاہئیں۔ صرف بیعتیں کروانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ایک جگہ فرمایا تھا کہ مجھے تعداد بڑھانے سے غرض نہیں ہے، تقویٰ میں بڑھنے والے ہونے چاہئیں۔ تو باقی دنیا سے بھی مَیں یہ کہتا ہوں اور اسی طرح ہندوستان کے دوسرے علاقہ کی جماعتوں کو بھی کہ بیعت ایسی ہو جو ایسا پکا ہوا پھل ہو جو جماعتی زندگی کے لئے مفید ہو۔ جو صحت بخشنے والا ہو۔ جس کے بیج سے پھر ایسے پودے نکلیں جو ہر لحاظ سے ثمر آور ہوں۔ پس جب مَیں جماعتوں کو کہتا ہوں کہ گمشدہ بیعتوں کو تلاش کرو تو اس کے ساتھ اس میں یہ بھی پیغام ہے کہ ایسی بیعتیں نہ لاؤ جو تربیت کی کمی وجہ سے غائب ہو جائیں۔ جن کے صرف اپنے مفاد ہوں۔ اگر اُن کی مثال پرندوں کی ہے تو ایسے پرندے ہوں جن کی مثال قرآن کریم نے اس طرح دی ہے کہ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ یعنی ان کو اپنے ساتھ ایسا سدھا لے کہ ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا (البقرۃ: 261) پھر انہیں اپنی طرف بلا وہ تیری طرف تیزی کے ساتھ چلے آئیں گے۔ پس ایسے احمدی چاہئیں جو اپنے آپ کوجماعت کے کام کے لئے بغیر عذر پیش کریں۔ جو جماعت میں داخل ہوتے ہی اس نظام میں سموئے جائیں اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک دعوت الی للہ کرنے والے، تبلیغ کرنے والے خود بھی اپنے نفس کی خواہشات سے آزاد ہو کر تبلیغ نہیں کرتے۔ جب تک خود بھی اس مثال پر قائم نہ ہوں کہ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ (ابراہیم: 25) کہ جن کی ایمان کی جڑیں مضبوط ہیں اور جن کی شاخیں آسمان کی طرف جا رہی ہیں۔ جنہیں دنیا کا کوئی خوف نہیں ہے۔ جن کے کام دکھانے کے لئے نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہیں۔ اگر اس طرح اور ایسے داعیان نے کوشش کی ہوتی یا اس طرح کے داعیان ہوں تو تبھی نئے شامل ہونے والے بھی جماعتی نظام میں صحیح طرح پروئے جاتے ہیں اور جماعتی نظام نئے آنے والوں کو حقیقی رنگ میں سنبھالتا ہے اور پھر آگے ان سے کام لیتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر وہی صورتحال ہے جس کا مَیں کئی دفعہ ذکر چکا ہوں کہ بعض بیعتوں کا پتہ ہی نہیں لگتا۔ بہرحال یہ ذکر مَیں نے ضمناً کر دیا۔ اس مضمون پہ کسی اور وقت بات کروں گا۔
یہ مثال مجھے جنوبی ہندوستان میں نظر آئی کہ یہ لوگ نئے شامل ہو کر بھی قربانیوں میں شامل ہونے والے ہیں اور مثالی رنگ میں شامل ہونے والے ہیں۔ قربانیوں میں مالی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ اس مسجد میں جس کا مَیں نے ذکر کیا کہ عین شہر کے دل میں ہے اور یہ بڑی قیمتی جگہ ہے اس کے ساتھ ایک بہت بڑا پلاٹ کئی کروڑ کا فروخت ہو رہا تھا تو وہاں کی جماعت نے پہلے مرکز سے درخواست کی۔ مَیں نے کہا نہیں اپنے وسائل سے خریدیں۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ میرے جانے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں جوش اور جرأت پیدا ہوئی اور پختہ ارادہ بھی کر لیا اور کافی رقم جمع بھی ہو گئی۔ پہلے تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے لئے مشکل ہو گا خریدنا لیکن اب انہوں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ ہم خریدیں گے اور اپنے وسائل سے خریدیں گے بلکہ ایک احمدی جن کا اس پلاٹ میں بہت بڑا حصہ ہے انہوں نے کہا کہ مَیں اس کی قیمت ہی نہیں لوں گا۔ اسی طرح اور وں نے بھی مالی قربانی کا وعدہ کیا ہے۔ یہ وہیں کھڑے کھڑے جب مَیں اس پلاٹ کی قیمت کی باتیں ان سے کررہا تھا، وہاں کی جماعت کے جو مخیر حضرات ہیں انہوں نے خریدنے کا وعدہ کر لیا۔ تو قربانی کے لحاظ سے بھی یہ لوگ بہت بڑھنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نئے احمدیوں کو بھی اور پرانے احمدیوں کو بھی توفیق دے کہ وہ حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے والے بھی ہوں اور اس خوبصورت تعلیم پر عمل کرنے والے بھی ہوں اور حقیقی قربانی کی روح کو سمجھنے والے بھی ہوں۔ کالیکٹ میں لجنہ کا ایک چھوٹاسا اجتماع بھی ہو گیا۔ کم از کم 4ہزار کے قریب ناصرات اور خواتین تھیں۔ UK اجتماع سے تو زیادہ تعداد لگ رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا بہت اچھااثر ہوا۔ ہر عورت اور ہر بچی کے چہرے پر کام کرنے کا ایک نیا عزم اور ایک نیا ولولہ تھا۔ مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جس طرح انہوں نے اظہار کیا ہے وہ اپنے پروگراموں میں کئی گنا ترقی کریں گی۔ ویسے بھی کیرالہ کی لجنہ بھارت کی صف اوّل کی لجنات کی تنظیم میں ہے۔ لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ لوگ چھلانگیں مارتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔ ہندوستان کی باقی لجنہ کی مجالس بھی میری باتیں سن رہی ہوں گی۔ اللہ کرے انہیں بھی یہ باتیں سن کر جوش پیدا ہو اور مسابقت کی روح پیدا ہو۔ جمعہ کا خطبہ تو اکثر نے سن ہی لیا ہے۔ وہاں سے پہلی دفعہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے یہ خطبہ نشر ہوا۔ اس جمعہ پر ارد گردکے احمدی جو تھے ہزاروں کی تعداد میں سارے آئے ہوئے تھے۔
وہاں ایک ہوٹل میں جماعت نے ایک ریسیپشن کا انتظام بھی کیا ہوا تھا۔ وہاں کافی تعداد میں سرکاری افسران اور پڑھے لکھے لوگ آئے ہوئے تھے۔ شہر کے میئر بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے جماعت سے متعلق اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کے متعلق بڑے اچھے انداز میں اظہار کیا۔ کچھ تو خیر رسمی اظہار کرتے ہی ہیں لیکن اس کے بعد جب بعض مجھ سے ملے ہیں تو وہ خاص طور پر اس شدت سے باتوں کا اظہار کر رہے تھے کہ لگ رہا تھا کہ دل سے ان کو باتیں پسند آئی ہیں۔ اس کو اخباروں نے بھی اپنی خبروں میں بڑی اچھی طرح شائع کیا۔ ایسے فنکشن کا اس بات کے علاوہ کہ بڑے پڑھے لکھے طبقے میں اسلام کی خوبصورت تعلیم صحیح رنگ میں پہنچ جاتی ہے، یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ اخبار اچھی کوریج دے کر بہت وسیع طبقے تک اسلام کی خوبصورت تعلیم جماعت احمدیہ کے حوالے سے پہنچا دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد اور بعثت کا بھی دنیا کو علم ہوجاتا ہے۔
کالیکٹ میں ملیالم زبان کے سب سے بڑے اخبار ماترو بھومی کے چیف ایڈیٹر گوپال کرشنن، ہندو تھے، انہوں نے میرا انٹرویو لیا اور اپنے اخبار میں شائع بھی کیا۔ اس اخبار کے پڑھنے والوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے۔ مختلف سوال مذہب کے حوالے سے بھی اور دنیا کے حوالے سے بھی کرتے رہے اور بہرحال اچھا اثر لے کر گئے۔ یہ لوگ آزاد خیال تو بے شک بنتے ہیں لیکن اچھی چیز کو صرف اپنے تک محدود رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ہمارے میں اچھائیاں ہیں۔ یہ بڑے پڑھے لکھے ہیں۔ قرآن کا بھی انہوں نے ترجمہ پڑھا ہوا ہے اور آنحضرتﷺ کے اُسوہ کے متعلق بھی ہمارے ایک کالم لکھنے والے ہیں جو ان کے ساتھ اخبار میں کالم لکھتے ہیں اور یہ اس کو پڑھتے بھی ہیں۔ لیکن میری ساری باتیں سننے کے بعد باوجود اس کے کہ وہ بعض دفعہ تعریف کر رہے ہوں۔ جب ہماری باتیں ختم ہوئیں تو آخر پر مجھے بڑے ہلکے پھلکے انداز میں کہنے لگے کہ آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ گاندھی جی سے بہت متاثر ہیں۔ تو مَیں نے انہیں فوراً جواب دیا کہ مَیں بالکل گاندھی جی سے متاثر نہیں ہوں، مَیں تو قرآن کریم کی تعلیم سے متاثر ہوں، اس تعلیم سے جو آنحضرتﷺ پر اتری ہے اور اس کی روشنی میں مَیں نے آپ سے ساری باتیں کی ہیں۔ تو بعض لوگوں کو ہر اچھی بات کا کریڈٹ اپنے پر لینے کی عادت ہوتی ہے۔ بہرحال اچھے خوشگوار ماحول میں ان سے باتیں ہوئیں اور یہ ان کی شرافت ہے کہ ساری باتیں انہوں نے لکھ بھی دیں۔ پھر کالیکٹ سے دوسرے شہر کوچین (Cochine)گئے۔ یہاں بھی اچھی جماعت ہے۔ ارد گرد کی چھوٹی جماعتیں بھی وہاں جمع ہو گئی تھیں۔ انہوں نے یہاں نئی مسجدبنائی ہے۔ اس کا بھی افتتاح تھا اور اسی طرح تین چار اور قریب کی مساجد بھی ہیں۔ وہاں تو نہیں جاسکے لیکن وہ ایک جگہ اکٹھے جمع ہو گئے اور پھر وہیں مساجد کا نام لے کرایک رسمی افتتاح ہو گیا۔ اس جگہ بھی شہر میں جو ہماری نئی مسجد بنی ہے، وہ بڑے آباد علاقے میں ہے اور ارد گرد ہمسائیگی میں عیسائی اور ہندو ہیں۔ انہوں نے بڑے کھلے دل کا مظاہرہ کیا۔ جب یہ پتہ چلا کہ مَیں مسجد کے افتتاح کے لئے آؤں گا تو ان لوگوں نے بھی اپنے گھروں کی چاردیواری پر اندر باہر رنگ و روغن کیا تاکہ علاقہ صاف ستھرا لگے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا یہ شہر کے اندر ہے لیکن یہاں بھی انتظامات اچھے تھے اور لوگوں کا تعاون بڑا اچھا تھا کہ کوئی آنے جانے میں دِقّت نہیں ہوئی۔ مَیں نے ذکر کیا ہے کہ چار اور مساجد بنائی تھیں لیکن وہاں جا نہیں سکا جب لوگوں کو مجبوریاں بتائیں تو باوجود خواہش کے انہوں نے اس کو سمجھا اور بڑی شرح صدر کے ساتھ بغیر کسی انقباض کے فوراً تسلیم کر لیا۔ گو کچھ دیر کے لئے ان لوگوں کے چہرے ذرا مرجھا گئے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے یہی کہا کہ جو آپ کا فیصلہ ہے اسی میں برکت ہے۔
یہاں بھی بڑے اخلاص و وفا کا تعلق رکھنے والی جماعتیں ہیں۔ کوچین اچھا بڑا شہر ہے۔ کو چین میں بھی ایک نیشنل اخبار، The Hindu ہے، اس کے چیف رپورٹر نے بھی انٹرویو لیا۔ یہ اخبار ان کے مطابق ہندوستان کے تمام بڑے شہروں سے بیک وقت شائع ہوتا ہے اور اس کی سرکولیشن بھی کروڑوں میں ہے۔
پھر انڈین ایکسپریس ہے۔ یہ بھی تمام بڑے شہروں سے شائع ہوتا ہے۔ اس کی سرکولیشن بھی کروڑوں میں ہے۔ اس کے بھی سینئر نمائندے نے خواہش کا اظہار کرکے انٹرویو لیا تو ان سے بھی حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے اور احمدیت کے حوالے سے احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں میں فرق اور مختلف موضوعات پر اور اسلام کی امن کی تعلیم پر گفتگو ہوئی۔ وہ آئے تو چند منٹ کے انٹرویو کے لئے تھے لیکن تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک یہ اخباری نمائندے باتیں کرتے رہے اور سوال پوچھتے رہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ذریعہ سے بھی اس علاقہ میں احمدیت کا تعارف بڑے وسیع طبقہ میں ہو گیا ہے۔
ریسیپشن پر دونوں جگہ بعض MPsبھی تھے اور دوسرا پڑھا لکھا طبقہ بھی تھا۔ پروفیسر بھی تھے انجینئر بھی تھے۔ جیسا کہ مَیں نے کہایہاں بھی ریسیپشن تھی۔ یہاں کے ایک ایم پی مہمان خصوصی تھے۔ مجھ سے اکثر نے یہی اظہار کیا کہ جس طرح تم لوگ اسلام کی تعلیم بیان کرتے ہو، تم لوگوں سے ہی توقع رکھی جا سکتی ہے کہ دنیا میں امن قائم کر سکو۔ بلکہ وہاں ایک ریسرچ سکالر ہیں، انہوں نے اپنی تجاویز بھی لکھ کے دی تھیں۔ بہرحال ان کا تو اپنا ایک انداز ہے لیکن خلاصہ یہی تھا کہ دنیا میں نیکی قائم کرنے کے لئے تم لوگ ہی ہو جو کچھ کر سکتے ہو۔
عمومی طور پر بہرحال بڑا اچھا اور باثمر دورہ تھا۔ احمدیوں کو تربیتی لحاظ سے بڑا فائدہ ہوا۔ بچوں بڑوں اور سب کا جماعت سے اخلاص کا تعلق مضبوط ہوا۔ اب جو خطوط کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دورے نے وہاں جماعت میں ایک نئی روح پھونکی ہے اور احمدیت اور اسلام کے سلسلہ میں تو مَیں بتا ہی چکا ہوں کہ کس طرح کروڑوں تک پیغام پہنچا جو عام حالات میں نہیں پہنچ سکتا۔ تو دورے سے تبلیغ کے نئے راستے بھی کھلتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ خلیفہ ٔوقت کا دورہ تبلیغ کرنے کے لئے نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ سوچنا چاہئے۔ بلکہ اُس جگہ کے براہ راست حالات جان کر وہاں تبلیغی حکمت عملی اور تبلیغ کو وسعت دینے کے لئے نئے اقدامات پر غور کرنے کے لئے ہوتا ہے اور بہرحال اس وجہ سے تبلیغ کے چند مواقع بھی مل جاتے ہیں۔ تبلیغ تو ایک مسلسل عمل ہے جو وہاں رہنے والے ہی زیادہ بہتر طور پر اور تسلسل کے ساتھ کر سکتے ہیں جس علاقے کے بھی ہوں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جہاں جس علاقہ میں دورہ ہو رہا ہو براہ راست معلومات سے وہاں کے حالات کی واقفیت سے مَیں نے دیکھا ہے کہ مبلغین کو اور جماعت کو بعض نئے طریقوں کو اپنانے کی طرف توجہ دلانے کا بھی موقع مل جاتا ہے۔ مشورے ہو جاتے ہیں۔ نئی حکمت عملی اختیار کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے اور پھر دورے سے جماعتوں میں خود بھی تیزی پیدا ہو جاتی ہے جس سے وہ جماعتیں اپنے تبلیغ کے اس اہم مقصد کو سمجھنے لگ جاتی ہیں اور کم از کم کچھ عرصہ ضرور پُرجوش رہتی ہیں۔ لیکن اگرعلاقے کی واقفیت ہی نہ ہو تو جیسی بھی رپورٹیں آ رہی ہوں بعض دفعہ اسی پر یقین کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال ایک بات تو یہ ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ لیکن اس کا ایک فائدہ اور بھی ہو جاتا ہے کہ میڈیا کے ذریعہ سے آج کل دورے کی اتنی کوریج ہو جاتی ہے کہ غیروں کی بھی مخالفت میں یا موافقت میں جماعت کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اس وجہ سے جماعت کے افراد اور نظام جماعت کو بھی کچھ نہ کچھ تیز ہونا پڑتا ہے گویا ان غیر لوگوں کی وجہ سے پھر سوئے ہوئے احمدیوں کو یا سُست جماعتوں کو جاگنا پڑتا ہے۔ تو جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ ایسے اخباروں میں جماعت کا تعارف آگیا ہے جس کی اشاعت کروڑوں میں ہے تو اب اس تعارف سے جماعت کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہ انتظار نہ کریں کہ ہمیں منفی یا مثبت ردّ عمل ظاہر کرکے جگائیں گے یا یہ نہ کریں کہ خاموش بیٹھے رہیں کہ ٹھیک ہے کچھ عرصہ خاموش رہو۔ اگر کوئی ری ایکشن ظاہر ہوا بھی ہے تو خود بخود معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ اس موقع سے وہاں کی جماعتوں کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اپنے پیغام پہنچانے کے ذریعہ، تبلیغ کے ذریعہ، جو بھی ردّ عمل ہے اس کو یا جو بھی ایک ہلجل آپ کے اندر پیدا ہوئی ہے یا جوش پیدا ہوا ہے اس کو کبھی ٹھنڈا نہ ہونے دیں۔ اگر مخالفت ہوئی ہے تو شرفاء بھی ہیں جو سننے کے لئے تیار ہیں۔ دنیا چاہتی ہے کہ امن قائم کرنے والے لوگ، منظم طریقہ سے کام کرنے والے کوئی لوگ سامنے آئیں۔ پس احمدیوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے کام میں تیزی اور وسعت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
جنوبی ہندوستان کے ان علاقوں کی تاریخ مذہب سے جڑی ہوئی ہے۔ انشاء اللہ اگر صحیح منصوبہ بندی کرکے تبلیغ کے کام کو تیز کریں گے تو اللہ تعالیٰ بہتر نتیجے پیدا فرمائے گا۔ مسیح محمدیؐ کے ماننے والوں کایہی کام ہے کہ اس طریق پر چلیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے قائم فرمایا ہے۔ پیار محبت نرمی کے ذریعہ سے اس پیغام کو ہر شخص تک پہنچا دیں جس طرح آپ پہنچانا چاہتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’عوام الناس کے کانوں تک ایک دفعہ خداتعالیٰ کے پیغام کو پہنچا دیا جاوے کیونکہ عوام الناس میں بڑا حصہ ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جو کہ تعصّب اور تکبّر وغیرہ سے خالی ہوتے ہیں اور محض مولویوں کے کہنے سننے سے وہ حق سے محروم رہتے ہیں‘‘۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں۔ عوام، متوسط درجہ کے، امراء۔ عوام عموماً کم فہم ہوتے ہیں۔ ان کی سمجھ موٹی ہوتی ہے۔ اس لئے ان کو سمجھانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ امراء کے لئے بھی سمجھانامشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ نازک مزاج ہوتے ہیں اور جلد گھبرا جاتے ہیں اور ان کا تکبّر اور تعلّی اور بھی سدّ راہ ہوتی ہے‘‘۔ ان امراء کا تکبرراستے کی روک بن جاتا ہے۔ ’’اس لئے ان کے ساتھ گفتگو کرنے والے کو چاہئے کہ وہ ان کے طرز کے موافق ان سے کلام کرے یعنی مختصر مگر پورے مطلب کو ادا کرنے والی تقریر ہو۔ قَلَّ وَ دَلَّ ‘‘ یعنی تھوڑے الفاظ میں ہو اور پوری دلیل کے ساتھ بات ہو۔ ’’مگر عوام کو تبلیغ کرنے کے لئے تقریر بہت ہی صاف اور عام فہم ہونی چاہئے۔ رہے اوسط درجے کے لوگ، زیادہ تر یہ گروہ اس قابل ہوتا ہے کہ ان کو تبلیغ کی جاوے۔ وہ بات کو سمجھ سکتے ہیں اور ان کے مزاج میں وہ تعلّی اور تکبّر اور نزاکت بھی نہیں ہوتی جو امراء کے مزاج میں ہوتی ہے۔ اس لئے ان کو سمجھانا بہت مشکل نہیں ہوتا‘‘۔
یہ اوسط درجہ کے لوگ اِس علاقے میں بہت ہیں اور یہ علاقہ ابھی تک اس لحاظ سے بھی پاک ہے کہ مسلمانوں میں مولویوں کا زیادہ خوف بھی نہیں ہے۔ اور عیسائی تو ویسے بھی اگر سننا چاہیں تو سن لیتے ہیں۔ اگر کوئی ریجڈ (Rigid) ہندو ہیں تو ان سے بچا بھی جا سکتا ہے۔ پاکستان میں تو جو اوسط درجہ کے لوگ ہیں وہ سننا نہیں چاہتے، اگر سنتے ہیں تو خوفزدہ رہتے ہیں کہ مولوی کفر کا فتویٰ لگا دے گا۔ لیکن یہاں ابھی بعض جگہوں پہ ایسے حالات نہیں ہیں۔ جن علاقوں میں زمین کچھ حد تک سازگار ہو اور موافق ہو وہاں اس پیغام کے ساتھ ہمیں ضرور کوشش کرنی چاہئے۔ کیونکہ اب یہی مسیح محمدی کے ماننے والوں کا کام ہے کہ حکمت کے ساتھ عیسائیوں کو بھی، مسیح موسوی کے ماننے والوں کو بھی صحیح صحیح راستہ دکھائیں اور مسلمان ہونے کے دعویداروں کو بھی صحیح راستہ دکھائیں جو خدا کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اخلاص و وفا کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اُن کے کاموں میں برکت ڈالے اور حکمت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام پہنچانے کی طرف ہر ایک کی توجہ پیدا ہو اور اس ذریعہ سے پھر ہم دنیا کو نجات دلانے والے بنیں۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ نمبر 1 مورخہ 2 جنوری تا 8 جنوری 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
وہاں کے مردوخواتین کے اخلاص ووفا سے بھرپورجذبات، ان سب کی نظر میں خلافت کے لئے وفاہے، ایم ٹی اے کی نعمت، ہندوستان کے اس علاقہ میں اسلام اور احمدیت اور دیگر مذاہب کی تاریخ، احمدیت کے لئے انشاء اللہ بڑی زرخیززمین بن سکتی ہے، مجھے تعداد بڑھانے سے غرض نہیں تقویٰ میں بڑھنے والے ہونے چاہئیں، ایسی بیعتیں نہ لاؤ جو تربیت کی کمی کی وجہ سے غائب ہوجائیں، اخبارات ومیڈیا میں کوریج، تبلیغی اور تربیتی لحاظ سے ایک کامیاب اور بابرکت دورہ، خلیفہ وقت کا دورہ تبلیغ کرنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ تبلیغی حکمت عملی اور تبلیغ کو وسعت دینے کے لئے نئے اقدامات پر غور کرنے کے لئے ہوتاہے،
فرمودہ مورخہ 12؍دسمبر 2008ء بمطابق12؍فتح 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔