اللہ تعالیٰ کی صفت شافی، جسمانی اور روحانی شفا

خطبہ جمعہ 26؍ دسمبر 2008ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

گزشتہ خطبہ میں مَیں نے اللہ تعالیٰ کی صفت شَافِی کا ذکر کرتے ہوئے جسمانی عوارض سے شفاء کے بارے میں کچھ باتیں کی تھیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کے علاج کے لئے بعض چیزیں پیدا کرکے ان میں شفاء رکھی ہے۔ لیکن شفاء کا اصل ذریعہ خداتعالیٰ کی ذات ہی ہے اگر اس کا اذن ہو تو دعاؤں کو شفاء کی طاقت ملتی ہے اور آخر پرمَیں نے ذکرکیا تھا کہ بعض دفعہ تمام قسم کے علاج ناکام ہو جاتے ہیں اور پھراللہ تعالیٰ مستحق بندوں کی دعاؤں کو سن کر شفاء عطا فرماتا ہے اور جب اس طرح واضح رنگ میں دعا سے شفاء کا معجزہ ظاہر ہوتا ہے تو ایک مومن بندے کا اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے تمام قدرتوں کا مالک ہونے پر ایمان پختہ ہوتا ہے۔ یہ معجزات دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی صفات کا فہم و ادراک حقیقی رنگ میں حاصل ہوتا ہے اور جب یہ سب کچھ ایک مومن کو نظر آتا ہے تو نتیجتاً اس کی روحانی حالت میں بھی ترقی ہوتی ہے۔ تو گویا یہ چیز یعنی اپنے یا اپنے کسی پیارے مریض کا کسی خوفناک مرض سے شفاء پانا اس کا موت کے منہ سے واپس آنا جو کہ ایک جسمانی شفاء ہے مومن بندے کو روحانیت میں ترقی کی طرف لے جاتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ بعض اوقات جسمانی شفاء سے روحانی شفاء کی بنیاد بھی پڑ جاتی ہے اور اصل میں انسانی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان روحانی طور پر ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہونے کی کوشش میں ہمیشہ لگا رہے اور ایک صحت مند اور خالص عبد بننے کے لئے اس کے قدم ہمیشہ اٹھتے رہیں۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کہا ہے کہ میری عبادت کی طرف توجہ دو اور میرے احکامات پر عمل کرو تو جسمانی شفاؤں کے ساتھ ساتھ روحانی شفاء کے نظارے بھی ہر آن دیکھتے چلے جاؤ گے۔

اور پھر یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اپنے نبی ٔ کاملﷺ کے ذریعہ ایک کامل تعلیم ہماری روحانی شفاء کے لئے قرآن کریم کی صورت میں ہمارے لئے نازل فرمائی۔ قرآن کریم میں کئی جگہ خداتعالیٰ نے اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ قرآن کریم کس کس طرح تمہارے لئے شفاء ہے۔

گزشتہ خطبہ میں مَیں نے شہد کی مکھی کے حوالے سے شفاء کا ذکر کیا تھا اور وہ جسمانی بیماریوں سے شفاء ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو اس شہد کی مکھی کے ذریعہ روحانی شفاؤں کے راستوں کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب شہد کی مکھی کا ذکر فرمایا تو وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ(النحل: 69) اور تیرے ربّ نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔ جس کے نتیجہ میں پھر آگے ذکر ہے کہ اس نے اونچی جگہ چھتے بنائے اور پھولوں کا رس چوس کر مختلف دوروں سے گزر کر شہد بنایا۔ جس کے بارہ میں پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا فِیْہِ شِفَآئٌ لِّلنَّاسِ (النحل: 70) کہ اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے اور اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰ یَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (النحل: 70) یقینا اس میں غور فکر کرنے والے لوگوں کے لئے بہت بڑا نشان ہے۔ کس غور کی طرف یہاں اشارہ ہے؟ یہ اس بات کے غور کی طرف اشارہ ہے کہ ایک معمولی مکھی کو اللہ تعالیٰ نے وحی کرکے وہ راستہ دکھا دیا جس سے ایسی چیز پیدا ہوئی جو لوگوں کے لئے شفاء بن گئی۔ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم، سب اس چیز کو تسلیم کرتے ہیں کہ شہد میں شفاء ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر کام کے لئے وحی الٰہی کی ضرورت ہے۔ اس لئے اے لوگو ! تم میں سے بعض جو خداتعالیٰ کی وحی کے انکاری بن جاتے ہیں اس بات پر غور کرو کہ شہد بنانے کا سارا عمل، پھولوں کا رس چوسنے سے لے کر شہد بننے تک، اللہ تعالیٰ کی وحی کی وجہ سے مکمل ہوا ہے۔ بلکہ معمولی جانور بھی اپنے کاموں کے لئے وحی کے محتاج ہیں، جن کو اپنے کاموں سے متعلق راہنمائی ملتی ہے۔ اور جانوروں، کیڑوں مکوڑوں میں اس کی اعلیٰ ترین مثال شہد کی مکھی کی وحی ہے۔ تو انسان کس طرح کہہ سکتا ہے؟ کہ وہ خود ہی ہدایت پا جائے گا یا اس کو کسی ہدایت کی ضرورت نہیں، سب کام خود بخود ہو رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ٰۃ والسلام نے اس بارے میں فرمایا کہ: ایک دنیا دار انسان سمجھتا ہے کہ اس کی کوشش سے وہ اپنے مقصد حاصل کر لیتا ہے، اپنی کوشش سے اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے۔ جبکہ اس کی کوشش بھی دعا ہی کی ایک قسم ہے اور اس کے نتیجہ میں جو تدبیر اس کے ذہن میں آتی ہے وہ بھی وحی کی ایک قسم ہے۔ پس انسان کو شہد کی مکھی کے عمل سے یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کسی چیز کا اعلیٰ حصول ممکن ہی نہیں۔ اس لئے انسان جو اشرف المخلوقات ہے، جس کے لئے دو زندگیاں مقرر ہیں، ایک اس جہان کی اور ایک اگلے جہان کی دائمی زندگی۔ اور اگلے جہان کی زندگی کا انحصار اس جہان کے اعمال پر ہے۔ وہ اعمال کون سے ہیں، وہ جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں۔ تو جب اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اعمال پر انحصار ہے تو وہ بغیر وحی کے کس طرح اس دنیا میں کامیاب زندگی گزار کر اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے۔

پس انسان کی کامیاب زندگی کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے گزاری جائے وحی الٰہی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے قانون بنایا ہو اہے کہ اپنے انبیاء کے ذریعہ اپنے نیک لوگوں کے ذریعہ روحانیت کے حصول کے راستوں کی راہنمائی کرواتا ہے۔ اور آنحضرتؐ کے ذریعہ جوکہ انسان کامل تھے، وحی بھی کامل کی اور قرآن کریم جیسی کامل کتاب وحی الٰہی کے ذریعہ نازل ہوئی۔ جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بھی شفاء ہے۔ روحانی شفاء تو ہے ہی جسمانی شفاء بھی ہے۔

ایک دفعہ کچھ صحابہؓ کسی جگہ گئے وہاں کے قبیلے کا سردار بیمار ہوگیا یا اس کو سانپ نے ڈس لیا تو ایک صحابی کو پتہ لگا اس پر دم کیا تو وہ ٹھیک ہو گیا۔ آنحضرتﷺ کو آ کے بتایا تو آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ تم نے کس طرح دم کیا؟ انہوں نے عرض کیا کی یا رسول اللہ! سورۃ فاتحہ کا دم کیا۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک دم کیا۔ تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ اس میں شفاء ہے؟۔ (بخاری کتاب الاجارۃ۔ باب ما یوتی فی الرقیۃعلی احیاء العرب بفاتحۃ الکتاب حدیث 2276)

بلکہ وہاں یہ بھی واقعہ ہوا کہ اس سردار نے جب صحت پائی تو اس صحابی کی خدمت میں بکریوں کا ایک ریوڑ پیش کیاجو انہوں نے لینے سے انکار کر دیا کہ مَیں معاوضہ نہیں لیتا۔ آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کیا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو تمہیں خود دیتا ہے اسے لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس صحابی نے کیوں انکار کیا اس لئے کہ ہمیں یہ حکم ہے کہ قرآن کریم کو کمائی کا ذریعہ نہ بناؤ۔ آج کل کے پیروں فقیروں کی طرح جوتعویذ گنڈے کرتے اور پیسے کماتے ہیں۔ ان کے لئے یہ سبق ہے۔ بہرحال اللہ کا بڑا احسان ہے کہ احمدی اس سے محفوظ ہیں۔ پس کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کریم میں روحانیت کے ساتھ ساتھ جسمانی عوارض سے شفا کا بھی ذکرہے، اور اس روحانی بیماریوں سے شفاء کے بارے میں قرآن کریم میں مختلف آیات میں ذکر آیا ہے۔ اب مَیں کچھ آیات پیش کروں گا۔ لیکن آیات پیش کرنے سے پہلے اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صورت میں آنحضرتﷺ پر کامل کتاب نازل فرمائی۔ لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ خداتعالیٰ نے اس کامل کتاب کے اتارنے کے ساتھ اب وحی کے دروازے بھی بند کر دئیے ہیں۔ گوشریعت کامل ہو گئی اور دین مکمل ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے جس طرح پہلے انبیاء بھیجے اور ان پر وحی ہوتی تھی، باوجود اس کے کہ وہ کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آتے تھے، اسی طرح اب بھی ہو سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کاکلام اب بھی جاری ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال دی ہے کہ توریت نازل ہوئی لیکن اس کے بعد بہت سے انبیاء بھیجے تاکہ اس کی تائید اور تصدیق کریں اور زمانے کے گزرنے سے جو لوگ عمل چھوڑدیتے ہیں ان کی طرف ان کو توجہ دلاتے رہیں اور اس دین کی پیروی کرتے ہوئے جو اُن سے پہلے کے انبیاء پر ہوا، یا کسی شرعی نبی پر اترا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان انبیاء سے بھی ہم کلام ہوتا رہا جو بعد میں آنے والے تھے۔ اور اس سے لوگوں کے دلوں میں ایمان کی مضبوطی پیدا ہوتی رہی۔ تو فرمایا کہ اسی طرح قرآن کریم کے نزول کے بعد بھی وحی کا دروازہ بندنہیں ہوا۔ بلکہ اس زمانے میں حضرت مسیح مو عود علیہ السلام نے اپنی مثال بھی دی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوتا رہا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن کریم کی تعلیم کی تائید میں بھیجا۔ اس کو پھیلانے کے لئے بھیجا تاکہ اللہ تعالیٰ کے براہ راست مکالمہ و مکاشفہ کے حوالے سے قرآنی تعلیم کو مومنوں کے دلوں میں بھی صحیح رنگ میں راسخ کریں اور غیروں کو اس حوالے سے تبلیغ کریں اور دعوت دیں تاکہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرنا اور وحی صرف پرانے قصے نہ رہیں بلکہ جاری عمل ہوتے ہوئے قرآن کریم کے تمام نقائص سے پاک تعلیم پر ایمان، آنحضرتﷺ پر ایمان، اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور ایمان میں ہمیشہ ترقی ہوتی رہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے، مجدد اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں‘‘۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’وہ دین کو منسوخ کرنے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں‘‘۔

پس ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلو ٰۃ والسلام کو قرآن کریم کی خوبصو رت تعلیم کو نکھار کردنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے مبعوث فرمایا تھا۔ وحی و الہام کا راستہ کبھی اللہ تعالیٰ نے بندنہیں فرمایا اور حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلو ٰۃ والسلام کے بعد آپؑ کے مشن کو اللہ تعالیٰ کی خاص راہنمائی میں جاری رکھنا خلافت کا کام ہے۔ اور قرآن کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا ہمارا سب سے بڑا مشن ہے تاکہ دنیا کامل اور مکمل علاج سے فیض پاتے ہوئے اپنی روحانی شفاء کا بھی انتظام کر سکے۔ آج جو حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلو ٰۃ والسلام اور آپؑ کی قائم کردہ جماعت پر لوگ اعتراض کرتے ہیں، وہ اپنی حالت دیکھ کر خود ہی فیصلہ کر لیں کہ کیا علماء اور مفسرین کے ہونے کے باوجود قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ وہ تمہارے سینوں کی کدورتیں دُور کرکے انہیں شفاء دیتا ہے۔ مسلمانوں کو کوئی فیض پہنچا رہا ہے؟ مجموعی طور پر مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ اس بات کی نفی کر رہی ہے۔ باوجود اس کے قرآن کریم موجود ہے اُن کے زُعم میں ان کے علماء اور مفسرین موجود ہیں، لیکن وہ فیض انہیں حاصل نہیں ہو رہا۔ تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نعوذباللہ قرآن کریم کی تعلیم میں کوئی کمی ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ اگر جھوٹ ہے تو اس نام نہاد دعویٰ کرنے والوں کے عملوں میں ہے جو کہتے ہیں کہ ہمیں کسی مسیح اور مہدی کی ضرورت نہیں ہے۔ جو اپنے عمل سے آنحضرتﷺ کے حکم کا انکار کر رہے ہیں۔ قرآن کریم تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی مومنین کے لئے شفاء ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم احمدیوں کو ہمیشہ اس انعام کی قدر کرنے والا بنائے رکھے اب جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ اس بارہ میں قرآ ن کریم کی کچھ آیات پیش کروں گا۔

سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآئٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُالظّٰلِمِیْنَ اِلَّاخَسَارًا(بنی اسرائیل: 83) اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفاء ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا اور کسی چیز میں نہیں بڑھاتا۔

اس آیت میں ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اس میں شفاء اور رحمت ہے لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ جو مومن نہیں ان کے لئے اس میں گھاٹے کے سوا کچھ نہیں، خسارے کے سوا کچھ نہیں۔ قرآن کریم نے تو ابتداء میں ہی، سورہ بقرہ کے شروع میں ہی فرما دیا کہ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ: 2)کہ یہ کتاب ہے جس کے خداتعالیٰ کے کلام ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔ پس یہ روحانی شفاء اور مومنوں کے لئے ہدایت ہے۔ جن کے دل گند سے بھرے ہوئے ہیں جو ہر وقت اس میں نقائص کی تلاش میں ہیں۔ یہ لوگ بغضوں اور کینوں کی وجہ سے قرآن کریم سے فیض پا ہی نہیں سکتے ان کو تو قرآن کریم صرف اور صرف گھاٹے میں بڑھائے گا۔ یہ لوگ ایسے ہیں جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ انجام یا بدانجام مقدر کیا ہوا ہے۔ لیکن مومنوں کے لئے اس میں شفاء اور رحمت ہے اور وہ لوگ اس سے فیض پانے والے ہیں جو ایمان لانے کے بعد اس کی تعلیم پر عمل کرکے پھر اپنی روحانی حالتوں کے معیار بلند کرتے چلے جائیں اور اس زمانہ میں جیسا کہ مَیں نے کہا قرآن کریم کے اسرار و معارف ہمیں حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلو ٰۃ والسلام نے اس طرح بتائے جو ہمارے دلوں کی کدورتوں اور بیماریوں کو ایسے حیرت انگیز طور پر دُور کر دیتے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے۔ اور تب احساس ہوتا ہے کہ دوائی تو موجود تھی لیکن استعمال کا طریقہ نہیں آتا تھا۔ علاج تو کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اب بھی کرتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلو ٰۃ والسلام کو نہیں مانا لیکن اس علاج کے ساتھ کیا کیا پرہیز ضروری ہیں یہ پتہ نہیں۔ کیونکہ ہر دوائی کے ساتھ ڈاکٹر کچھ پرہیز بھی بتاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے مسیحا کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی اور اس کے پاس پہنچا دیا۔ حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلو ٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’یہ خدا کا قول ہے کہ تیرے ذریعہ سے مریضوں پر برکت نازل ہو گی، روحانی اور جسمانی دونوں قسم کے مریضوں پر مشتمل ہے۔ روحانی طور پر اس لئے کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ پر ہزار ہا لوگ بیعت کرنے والے ایسے ہیں کہ پہلے ان کی عملی حالتیں خراب تھیں اور پھر بیعت کرنے کے بعد ان کے عملی حالات درست ہو گئے۔ اور طرح طرح کے معاصی سے انہوں نے توبہ کی اور نماز کی پابندی اختیار کی اور مَیں صد ہا ایسے لوگ اپنی جماعت میں پاتا ہوں کہ جن کے دلوں میں یہ سوزش اور تپش پیدا ہو گئی ہے کہ کس طرح وہ جذبات نفسانیہ سے پاک ہوں۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن۔ جلد 22صفحہ86۔ حاشیہ)

پس جس کو خداتعالیٰ نے مریضوں کو برکت دے کر شفایاب کرنے کی ضمانت دی ہے یہی اب آنحضرتﷺ کا غلام صادق اور عاشق قرآن ہے۔ جس کے ماننے سے روحوں کو شفاء نصیب ہو گی۔ بشرطیکہ تمام پرہیزوں کے ساتھ اس سے فیض اٹھانے کی کوشش کریں۔ اس کے ساتھ ہی اس آیت میں ایک اور مضمون بھی واضح ہوتا ہے کہ اب مومنوں کو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وہی وارث ہیں۔ قرآن کریم میں درج تمام پیشگوئیاں مومنوں کے حق میں ماضی میں بھی پوری ہوئیں اور آخرین کے دور میں بھی پو ری ہوں گی اور مومنین کی جماعت اور شیطان کے خلاف جو جنگ جاری ہے اس کا انجام آخر کار مومنوں کے حق میں ہی نکلنا ہے اور مخالفین نے خائب و خاسر ہونا ہے۔ یہ ایک پیشگوئی ہے جو مسیح موعودؑ کے زمانے کے لئے بھی اسی طرح قائم ہے۔

پس مَیں یہاں پھر ہمدردی کے جذبے سے تمام سعید فطرت مسلمانوں سے بھی کہتاہوں کہ جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ آیا ہوں اور کہتا رہا ہوں کہ قرآن کریم کی تعلیم کا حقیقی فیض اور شفاء اور رحمت اب حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلو ٰۃ والسلام کی جماعت سے جڑنے سے ہی وابستہ ہے۔ کیونکہ آنحضرتﷺ نے بڑی تاکید سے اپنے ماننے والوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ آخرین میں آنے والے سے جڑو گے تو وہ فیض پا لو گے جو پہلوں نے پایا۔ پس حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلو ٰۃ والسلام کی جماعت سے جڑ کر قرآن کریم کی حکومت دنیا میں قائم کرکے اپنی اور دنیا کی روحانی شفاء کا انتظام کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ اس کا حق ادا کرنے والے بنتے چلے جائیں اور کبھی اس فیض سے محروم نہ ہوں۔ پھر سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ(یونس: 58)کہ اے انسانو! یقینا تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت کی بات آ چکی ہے۔ اسی طرح جو بیماری سینوں میں ہے اس کی شفاء بھی اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت بھی۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ یہ خداتعالیٰ کا کلام ہے۔ وہ خدا جو تمام کائنات کا ربّ ہے۔ زمین آسمان میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی ربوبیت سے باہر ہے۔ پس اس کلام کو معمولی نہ سمجھو اور نہ ہی اس رسولﷺ کو معمولی سمجھو جس پر یہ کلام اترا ہے۔ وہ رسول جس کو ہم نے رحمۃٌ للعالمین بنا کر بھیجا ہے وہ اس صفت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس کلام کے ذریعہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عذاب سے بچ سکو۔ وہ تمہارے سینوں کو بیماریوں سے پاک کرتا ہے تاکہ تم روحانیت میں ترقی کر سکو۔ وہ تمہاری ہدایت اور رحمت کا سامان کرتا ہے جس سے ہدایت پاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والے بنو اور جب یہ سب کچھ ہو گا تبھی تم مومن کہلانے کے حقدار بنو گے۔ پس آنحضرتﷺ پر یہ کتاب اتار کر اللہ تعالیٰ نے کُل انسانیت پر احسان کیا ہے۔

یہ ایسا کامل کلام ہے جس میں وہ تمام نصائح موجود ہیں۔ ان تمام اوامرو نواہی کا ذکر ہے جو انسان کو بااخلاق انسان بنا کر پھر با خدا انسان بناتے ہیں۔ پس ایسی کامل کتاب سے اے لوگو! فیض پانے کی کوشش کرو تاکہ تمہاری دنیا بھی سنور جائے اور تمہاری آخرت بھی سنور جائے۔ اس دنیا اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے لگو۔ پس یہ ایک انتہائی پیارا انداز ہے قرآن کریم کا اور اگر ایک عقلمند آدمی، ایک عقلمند انسان اس پر غور کرے تو یہ بات اس الزام کارَد ّہے جو اسلام پر لگایا جاتا ہے کہ اسلام سختی سے اپنے دین کے پرچار اور اپنے احکامات کو ٹھونسنے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو تمہارے رب کی طرف سے نصیحت ہے اور یہ تمہارے فائدے کے لئے ہے۔ حضرت محمد رسول اللہﷺ کو جتھا بنا کر طاقتور بنانے کے لئے نہیں ہے یا انسانوں کو زیر کرکے ان پر اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ خالصتاً تمہارے فائدے کے لئے ہے۔

ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ تبلیغ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِالْحَسَنَۃِ (النحل: 126)کہ توُحکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ لوگو ں کو اپنے رب ّکی طرف بلا۔ پس یہ مَوْعِظَۃِالْحَسَنَۃِ قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم ہے جس میں صرف اور صرف انسانوں کی بھلائی اور بہتری کا ذکر ہے۔ اور ایسی خوبصورت تعلیم ہے جو روحانی طور پر شفاء کے سامان پیدا کرتی ہے۔ پس ہمیں اگر تبلیغ کا حکم ہے اسلام کا پیغام پہنچانے کا حکم ہے تو اس لئے نہیں کہ اپنی طاقت یا جتھہ بنائیں بلکہ اس لئے کہ اپنے دل میں دوسروں کے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا کرتے ہوئے اور ان جذبات سے پُر ہو کر انہیں خداتعالیٰ کے قریب لائیں۔ ان کی روحانی بیماریوں کو دُور کریں۔ انہیں بتائیں کہ یہ کتاب جو آنحضرتﷺ پر اتری، اب تمہاری روحانی شفاء کا واحدذریعہ ہے۔ خدا کے لئے اسے قبول کرو اور اپنی دنیا و آخرت سنوارو۔

مَیں نے اسلام پر سختی اور شدت پسندی کے الزام کا ذکر کیا تھا۔ اگر تاریخ دیکھیں تو اسلام نے دلوں کو اس قرآنی تعلیم کے ذریعہ سے ہمیشہ جیتا ہے، ماضی میں جتنی فتوحات ہوئی ہیں اسی خوبصورتی کی وجہ سے ہوئی ہیں اور آج بھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی طرح دل جیت رہے ہیں۔ پس دنیا کو مَیں بتاتا ہوں کہ چند شدت پسندوں کے ناجائز عمل کی وجہ سے اسلام مخالف اور مغربی ممالک جو اسلام اور قرآنی تعلیم پر غلط الزام لگاتے ہیں انہیں بغیر سوچے سمجھے یہ الزام لگانے کی بجائے اس کی خوبصورت تعلیم کو دیکھنا چاہئے اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ پہلے سے بڑھ کر اس تعلیم سے لوگوں کو آگاہ کریں تاکہ انسانیت کی شفاء کا موجب بن سکیں اور جس ہدایت اور رحمت سے ہم فیض پا رہے ہیں اس میں دوسروں کو بھی حصہ دار بنانے والے بنیں۔ یہی حقیقی ہمدردی ہے جو آج ایک احمدی کو دنیا والوں سے ہونی چاہئے۔

یہاں ایک اور بات کی وضاحت کی بھی ضرورت ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ(یونس: 58) کی اس میں شفاء ہے ہر اس بیماری کے لئے جو ان کے سینوں میں پائی جاتی ہے۔ اس پر اب تک یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ خیالات تو دماغ میں پیدا ہوتے ہیں اچھے یا برے، ان کا دل سے کیا تعلق ہے لیکن اہل دل اس بات کے ہمیشہ قائل رہے ہیں کہ دل کا روحانیت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اور جب قرآن کریم نے کہہ دیا تو سب سے بڑی سند تو یہی ہمارے لئے ہے لیکن مَیں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس پر بھی اب ریسرچ ہو رہی ہے کہ دل اور دماغ کا کیا تعلق ہے اور آیا جذبات اور خیالات کا اثر دل پر بھی پڑتا ہے یا نہیں پڑتا۔ کچھ سائنسدان اب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جذبات کا اثر پہلے دل پرہی ہوتا ہے۔ خیالات کا اثر پہلے دل پرہی ہوتا ہے اور ایک ریسرچ یہ ہے کہ دل، ماغ کو زیادہ معلومات دیتا ہے اس کی نسبت جو دماغ دل کو بھیجتا ہے۔ ابھی تو یہ جذباتی کیفیت اور بعض جسمانی عوارض تک ریسرچ ہے۔ روحانیت کے تعلق کی تو دنیا دار براہ راست تحقیق نہیں کر سکتے لیکن اگر دیکھا جائے (جو ان کی ریسرچ سے بھی ثابت ہوتا ہے) کہ بعض جذبات کی کیفیت بعض برائیوں کی طرف لے جاتی ہے اور اگر اسی تناظر میں دیکھیں تو یہ دل کی روحانی بیماریاں ہی ہیں جو انسان کو ہدایت سے دور کرتی ہیں۔ بہرحال ایسے تحقیق کرنے والے بھی ہیں اور اس سے اختلاف رکھنے والے بھی ہیں جو اپنی تحقیق کر رہے ہیں۔ لیکن بہرحال دنیا کی توجہ اس طرف پیدا ہو رہی ہے۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ شاید دل میں یہ بعض خیالات پہلے پیدا ہوتے ہیں اور پھر دماغ کو اطلاع کرتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک جو دل ہے وہ دراصل پہلے دماغ کو اطلاع کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن بعض یہ کہہ رہے ہیں کہ نہیں اصل میں پہلے دماغ ہے، دل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا بہرحال اس طرف توجہ ہو رہی ہے۔

ہمارے ڈاکٹر نوری صاحب جو طاہر ہاٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ کے انچارج ہیں۔ جب یہ سرکاری ملازم تھے تب بھی انہوں نے اپنے کلینک میں لکھ کر لگایا ہوا تھا کہ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (سورۃ الرعد: آیت 29) کہ سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں۔ تو احمدی ڈاکٹر ہی یہ سوچ رکھ سکتا ہے۔ یقینا ذکر الٰہی دلوں کی تسلی کا باعث بنتا ہے۔ دل کی بہت سی بیماریاں بعض جذباتی کیفیات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ پس روحانی شفاء بھی اور جسمانی شفاء بھی اللہ کے ذکر میں ہے۔ اور اس کے طریقے قرآن کریم نے بڑے احسن رنگ میں کھول کر ہمیں بتائے ہیں اور اب بے شک جیسا کہ مَیں نے کہا بعض اختلاف رکھنے والے بھی موجود ہیں لیکن سائنسدانوں کی ریسرچ اس طرف چل رہی ہے۔

ضمناً مَیں یہاں ساتھ ہی یہ بھی ذکر کردوں کہ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ڈاکٹر نوری صاحب اس کے انچارج ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ اور ان کا سٹاف بڑی محنت سے اس ادارے کو چلا رہے ہیں اور اب تک تو بیماریوں کی شفاء کے ایسے ایسے معجزے دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ بلکہ بعض ڈاکٹرز جو وہاں باہر امریکہ وغیرہ سے گئے انہوں نے خود مجھے بتایا کہ ایسے ایسے کیس ہم نے ٹھیک ہوتے دیکھے کہ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ٹھیک ہو گئے۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے ڈاکٹر بھی دعا کرکے کام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر یقین ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں میں شفاء رکھے اور پہلے سے بڑھ کر ان کے مریض شفاء پانے والے ہوں۔ پھر ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا اَعۡجَمِیًّا لَّقَالُوۡا لَوۡ لَا فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ ؕ ءَؔاَعۡجَمِیٌّ وَّ عَرَبِیٌّ ؕ قُلۡ ہُوَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہُدًی وَّ شِفَآءٌ ؕ وَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرٌ وَّ ہُوَ عَلَیۡہِمۡ عَمًی ؕ اُولٰٓئِکَ یُنَادَوۡنَ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ  (حم سجدہ: 45) اور اگر ہم نے اسے عجمی یعنی غیر فصیح قرآن بنایا ہوتا تو وہ ضرور کہتے کہ کیوں نہ آیات کھلی کھلی یعنی قابل فہم بنائی گئیں۔ کیا عجمی اور عربی برابر ہو سکتے ہیں۔ تو کہہ دے کہ وہ تو ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں ہدایت اور شفاء ہے۔ اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بہرا پن ہے جس کے نتیجہ میں وہ ان پر مخفی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ایک دُور کے مکان سے بلایا جاتاہے۔ اس سے پہلے کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بعض ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں ایسی باتیں تلاش کرتے رہتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سے دوسروں کو الجھاتے رہیں، دُور ہٹاتے رہیں اور اس تعلیم سے دُور رکھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو تو ہم دیکھ لیں گے کہ ان کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ اس دنیامیں جو چاہو کر لو لیکن یاد رکھو کہ یہ قرآن بڑی عزت والی کتاب ہے اور اس کے ساتھ استہزاء کرکے تم اپنی تباہی کے سامان کر رہے ہو۔ تمہارے استہزاء اور تمہاری باتوں سے تو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ اس کے اندر ایک سچی تعلیم ہے۔ جھوٹ نہ اس کے قریب پھٹک سکتا ہے نہ اسے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور جو بھی سعید فطرت ہو گا وہ بہرحال اس سے فیض پائے گا۔ اور جہاں تک بدفطرتوں کا تعلق ہے انہوں نے تو اعتراض کرتے رہنا ہے۔ یہ اعتراض کہ یہ عربی پہ کیوں اترا اور عجمی پہ کیوں اترا۔ اگر دوسری زبان میں اتارتے تو کہتے کہ عربی میں کیوں نہیں اتارا۔ جو کھلی کھلی آیات ہوتیں سمجھ آتیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہاں پھر فرمایا کہ یہ توان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لانے والے ہیں جنہوں نے اعتراض کرنے ہیں وہ تو بہرے ہیں اور اس وجہ سے اس تعلیم کی خوبصورتی کو سن ہی نہیں سکتے، ان کو اس سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا۔ ایک تو ان میں بہرہ پن ہے، دوسرے انہوں نے دُور کھڑے ہو کراس بہرے پن میں اور بھی اضافہ کر لیا اور وہ اس کے قریب بھی نہیں ہوناچاہتے تاکہ ان کو سمجھ آ جائے۔ دُور کھڑے ہو کر بس اعتراض کئے جاتے ہیں اور اس بات پر غور کرنا نہیں چاہتے۔ یہی حال آج کل کے قرآن کریم پر ان اعتراض کرنے والوں کا ہے جو مغرب میں ہیں کہ بغیر سمجھے جیسا کہ پہلے بھی مَیں کہہ آیا ہوں اس پر اعتراض کئے چلے جا رہے ہیں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ کئی ایسے ہیں، بلکہ ہندوستان کے سفر میں مجھے ایک عیسائی ملے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ مَیں قرآن کریم میں سے بعض باتیں تلاش کرتا ہوں اور مَیں اس کی اسی طرح عزت کرتا ہوں جس طرح بائیبل کی۔ بہرحال ان کے کچھ سیاسی بیان بھی ہوتے ہیں لیکن کئی باتیں انہوں نے مجھے بتائیں جو انہوں نے قرآن کریم سے سیکھیں۔ جو سیکھنا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ ان کو پھر ہدایت بھی دے دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کی اکثریت کو عقل دے کہ وہ اس خوبصورت تعلیم کو سمجھنے والے ہوں اور اپنی دنیا و عاقبت سنوار سکیں۔ ہمیں مسلمانوں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے ان کے سینے بھی کھولے۔ وہ بھی قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو سمجھتے ہوئے اپنی روحانی شفاء کا انتظام زمانے کے امام کو مان کر کرنے والے بنیں۔ آج کل جو دنیا میں مسلمانوں کا حال ہے۔ پہلے بھی مَیں ذکر کر آیا ہوں۔ وہ ہر سچے اور درد مند مسلمان کو خون کے آنسو رلاتا ہے کہ وہ لوگ جو دنیا کی شفاء کا دعویٰ کرنے والے ہیں، جسمانی روحانی اور دنیاوی ہر لحاظ سے مریض بنے ہوئے ہیں، محتاج بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے تاکہ وہ زمانے کے امام کو مان کر اپنی دنیاوی اور دینی ہر مرض سے شفاء پانے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے کہ زمانے کے امام کو مان کر اپنی دنیاوی اور دینی ہر مرض سے شفاء پانے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے کہ زمانے کے امام کو مان کر وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ بحال کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اس روحانی چشمے سے ہمیشہ فیض پاتے چلے جائیں اور خداتعالیٰ ہمیں ہر قسم کی جسمانی اور روحانی بیماریوں سے بچا کر رکھے۔ آمین

(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 3 مورخہ 16 جنوری تا 22 جنوری 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 26؍ دسمبر 2008ء شہ سرخیاں

    شہد کی مکھی اور وحی، انسان کی کامیابی اور ہدایت کے لئے وحی کانظام بھی ضروری ہے، وحی والہام کا دروازہ بندنہیں، مسیح موعودؑ کو ماننے سے روحوں کو شفاء نصیب ہوگی، اسلام کی تبلیغ کا مقصد یہ ہے کہ اپنے دلوں میں ہمدردی کے جذبات سے پُرہوکر انہیں خداکے قریب لائیں، اسلام پرسختی اور شدت پسندی کا الزام اور جواب، ڈاکٹرنوری صاحب طاہرہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے انچارج اور ان کا سٹاف جو بڑی محنت سے اس ادارے کو چلارہے ہیں، معجزانہ شفاء، مسلمانوں کے لئے دعا کی تحریک۔

    فرمودہ مورخہ 26؍دسمبر 2008ء بمطابق26؍فتح 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور