محرم: دعاؤں کی قبولیت اور درود شریف۔ امام حسین اور صحابہؓ کا مقام
خطبہ جمعہ 2؍ جنوری 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
آج کل ہم محرم کے مہینہ سے گزر رہے ہیں اس کی شاید آج 4تاریخ ہے اور جنوری 2009ء کی آج 2 تاریخ ہے۔ اتفاق سے اسلامی یا قمری سال کی ابتداء کا بھی آج پہلا جمعہ ہے۔ اور ہجری شمسی سال کابھی آج پہلا جمعہ ہے۔ یہ دونوں نظاموں کے کیلنڈرز میں پہلے جمعہ کا جمع ہونا اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے لئے بے شمار برکتوں کا موجب بنائے۔ اس حوالہ سے مَیں جماعت کو دعاؤں کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں جیسا کہ جماعت کی کتب میں موجود ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب میں بھی اور کئی مرتبہ مَیں خطبوں میں بھی بتا چکا ہوں کہ جمعہ کے دن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے خاص نسبت ہے۔
ایک تو اس ز مانے میں جب دنیاداری آنے کی وجہ سے مسلمانوں میں جمعہ کی اہمیت کا احساس نہیں رہا یا نہیں رہنا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے اور خاص طور پر جمعہ کی نماز کے حوالے سے سورۃ جمعہ میں مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ اپنے دنیاوی مسائل میں نہ پڑے رہو بلکہ ہمیشہ یہ ذہن میں رہے کہ تمام فضلوں کا منبع خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ اس لئے جمعہ کی نماز کی طرف بھی توجہ رہے۔ پھر جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے دنیاوی کاموں میں بے شک مشغول ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو۔
اس سورۃ کے شروع میں آخرین میں سے آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق کے مبعوث ہونے کی بھی خوشخبری دی گئی ہے جس نے آنحضرتﷺ کی بعثت کے مقصد کو بھی پورا کرنے کی خاطر آپﷺ کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیم کو بھی پھیلانا تھا، تزکیہ نفس بھی کرنا تھا اور حکمت کی باتیں بھی سکھانی تھیں تاکہ دنیا اپنے خدا کو پہچان سکے اور مسلمان بھی ایک اُمّتِ واحدہ بن جائیں اور دوسری قوموں کے سعید لوگ بھی، جو سعید فطرت لو گ ہیں ایک ہاتھ پر جمع ہو کر خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہﷺ کی بعثت کی اغراض میں سے ایک تکمیل دین بھی تھا‘‘۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’اس تکمیل میں دو خوبیاں تھیں ایک تکمیل ہدایت اور دو سری تکمیل اشاعت ہدایت۔ تکمیل ہدایت کا زمانہ تو آنحضرتﷺ کا اپنا پہلا زمانہ تھا اور تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ آپ کا دوسرا زمانہ ہے۔ جبکہ آخَرِیْنَ مِنْہُم لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ: 4) کا وقت آنے والا ہے اور وہ وقت اب ہے یعنی میرا زمانہ یعنی مسیح موعود کا زمانہ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت کے زمانوں کو بھی اس طرح پر ملایا ہے اور یہ بھی عظیم الشان جمع ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 49-50 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
تکمیل ہدایت کا مطلب ہے کہ آنحضرتﷺ کی بعثت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں چاہے وہ دنیا وی ہیں یا روحانی ہیں اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ گئی ہیں اور اس کامل دین کے بعد کسی نئے دین اور کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں رہی۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ دنیاوی نعمتیں تو نقطہ عروج پر نہیں پہنچیں بلکہ ہر روز نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں تو واضح ہو کہ آنحضرتﷺ ہی ایک کامل نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایک تو تمام انسانیت کے لئے مبعوث فرمایا اور آپؐ ہی وہ کامل نبی ہیں جن کو قیامت تک کا زمانہ عطا فرمایا گیا ہے۔ اور آپؐ پر اترنے والی کتاب قرآن کریم ہی وہ کامل کتاب ہے جو اپنے اندر پرانی تاریخ بھی لئے ہوئے ہے، نئے احکامات بھی لئے ہوئے ہے اور دنیاوی لحاظ سے جو نئی ایجادات ہیں ان کی پیش خبری بھی پہلے سے قرآن کریم نے دے دی ہے اور جوں جوں کوئی نئی دریافت ہوتی جاتی ہے اس کی تائید قرآن کریم سے ملتی جاتی ہے۔ بلکہ مسلمان سائنسدان اگر غور کریں اور غور کرکے اپنی ریسرچ (Research) قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے حوالے سے کریں یا اُس علم کے حوالے سے کریں جو قرآن کریم میں ایک خزانے کی صورت میں موجود ہے تو نئی ریسرچ کی بہت سی راہنمائی قرآن کریم سے ملے گی۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے بھی قرآن کریم کے علم کی روشنی میں اپنی ریسرچ کی تھی اور جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ ان کے غور کے مطابق قرآن کریم میں سات سو کے قریب ایسی آیات ہیں جو سائنس سے متعلق ہیں، یا ایسی آیات ملتی ہیں جن سے سائنس کے بارے میں راہنمائی ملتی ہے۔ تو یہ ان کا غور ہے جو انہوں نے کیا۔ ہو سکتاکہ کوئی اور احمدی مسلمان سائنسدان اس وسیع سمندر میں غوطہ لگائے توقرآن کریم میں سے اس سے بھی زیادہ علم کے موتی تلاش کرکے لے آئے۔
بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تکمیل ہدایت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہو گئی۔ کوئی علمی، دینی، سائنسی، روحانی بات یا علم نہیں جو آنحضرتﷺ کے ذریعہ سے یا آپؐ کی لائی ہوئی تعلیم کے ذریعہ سے تکمیل نہ پا گیاہو۔ لیکن اس زمانے میں بعض چیزیں پردہ غیب میں تھیں اور سامنے نہیں آئی تھیں۔ اس لئے گزشتہ لوگوں سے چھپی رہیں۔ لیکن مسیح موعود کے زمانے میں یہ نئی ایجادات سامنے آ کر تکمیل اشاعت ہدایت کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج یہ نئی ایجادات جو انسان کے فائدے کے لئے ہیں آنحضرتﷺ کے لائے ہوئے دین کی اشاعت میں کام آ رہی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب میں پریس وغیرہ کی مثالیں دی ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں، سیٹلائٹ وغیرہ ہیں اور بہت ساری چیزیں ہیں۔ پس یہ جو آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق اور مسیح الزمان کا زمانہ ہے اس میں ایسی ایسی باتیں سامنے آ رہی ہیں یا ان کی مدد سے دین کی اشاعت ہو رہی ہے یا قرآن کریم اور آنحضرتﷺ کی تعلیم، مقام اور مرتبہ کی کاملیت کے ایسے ایسے اسلوب اور زاویے نظر آتے ہیں جو ایک مومن کے دل اور ایمان کو مزید تقویت دیتے ہیں اور یہ چیزیں پھر ہمیں آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ ہجری سال کا بھی یہ پہلا جمعہ ہے اور شمسی کیلنڈر کا بھی یہ پہلا جمعہ ہے یا قمری سال کا بھی پہلا جمعہ ہے اور شمسی کیلنڈر کا بھی پہلا جمعہ ہے۔ اور جمعہ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کی بھی خاص اہمیت ہے۔ اسلامی اور دنیاوی کیلنڈر کے نئے سال کے پہلے جمعہ کا جمع ہونا ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے۔ قمری اور شمسی دونوں نظام خداتعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں۔ مَیں نے جو یہ کہا کہ اسلامی اور دنیاوی تو یہ اس لئے کہ عموماً شمسی سال کی تاریخ جولیئس سیزرکے زمانے سے اور پھر عیسائیوں کے زمانے سے گریگورئین کیلنڈر (Graygorian Calander) کے نام سے جانی جاتی ہے اور قمری مہینہ ہمارے اسلامی سال کے لحاظ سے استعمال ہوتا ہے۔ ورنہ شمسی اور قمری دونوں اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ نظام ہیں۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیں اس سے دعاؤں کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ جبکہ یہ دونوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آپؑ کی خلافت کی دوسری صدی کے پہلے سال میں مل رہے ہیں اور اگر ہم اپنی توجہ دعاؤں پر رکھیں گے، اپنے اعمال اللہ اور رسولﷺ کے حکموں کے مطابق بجا لانے کی کوشش کریں گے تو دینی اور دنیاوی ترقیات جو اب آنحضرتﷺ کے ساتھ مقدر ہیں، آپ کے غلام صادق کی خلافت راشدہ کے ساتھ جڑی رہنے والی جماعت کے ذریعہ ہی دنیا کو نئی شان سے نظر آئیں گی، انشاء اللہ۔ پس سورج اور چاند کے مہینوں یا سالوں کا جمعہ کے ایک بابرکت دن میں جمع ہونا بھی مسیح محمدی کے جمع کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے اور ہو سکتا ہے کئی دفعہ دونوں دن جمع ہو چکے ہوں لیکن اس لحاظ سے، اس حوالے سے یہ اس طرح پہلی دفعہ جمع ہو رہا ہے اور انشاء اللہ جماعت احمدیہ کی ترقی کی نئی منازل کی طرف لے جانے والا یہ ایک سنگ میل ہے۔
آج جبکہ دنیا لہو و لعب میں ڈو بی ہوئی ہے۔ لہوو لعب کے بدبودار پانی میں غوطے کھا رہی ہے۔ ایک احمدی کو اور ہر ملک کی ہر جماعت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیم کو اپنے اندر بھی لاگو کرنے کی کوشش پہلے سے بڑھ کر کرنی چاہئے۔ اور اپنے ماحول میں بھی بھٹکی ہوئی انسانیت کو اس تعلیم سے روشناس کروانے کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے اور گند میں ڈوبنے والوں کو صاف پانی سے نہلا دھلا کر ہمیں خیراُمّت ہونے کا ثبوت دینا چاہئے۔ ایک احمدی کی یہ آج بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ آج اگر ہم نے اس ذمہ داری کو حقیقی رنگ میں ادا نہ کیا تو نہ ہی ہم خیر اُمّت کہلا سکتے ہیں، نہ ہی مسیح محمدی کے حقیقی حواری کہلا سکتے ہیں۔ جنہوں نے نَحْنُ اَنْصَارِاللّٰہِ کا نعرہ لگایا تھا اور یہ نعرہ لگا کر ہر طرح کی مددکا اعلان کیا تھا۔ خداتعالیٰ بعض باتیں دکھلا کر جنہیں دنیا والے تو اتفاقات کہیں گے لیکن اگر دیکھنے والی آنکھ ہو تو بعض اتفاقات اللہ تعالیٰ کی تائیدات کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان اشاروں کی طرف نشان دہی کرکے یہ اعلان فرما رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد یقینا قریب ہے اور فتوحات تمہارے قدم چومنے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ صرف آزماتا ہی نہیں بلکہ ہر ابتلاء اور ہر امتحان کے بعد اپنی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے پہلے سے بڑھ کر کھولتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہر سختی کو صبر سے برداشت کرنے کے بعد ہم اس کے حضور جھکتے چلے جانے والے بن جائیں۔ اس کے احکامات پر عمل کی پابندی پہلے سے بڑھ کر کریں تاکہ فتوحات کی منزلیں قریب تر ہو تی چلی جائیں۔ پس آج ایک تو میری محرم اور نئے سال کے پہلے جمعہ کے حوالے سے جماعت احمدیہ عالمگیر کے ہر فرد، بچے، بوڑھے، جوان، مرد، عورت سے یہ درخواست ہے، کہ اپنے اندر ایک نئے جوش اور ایک نئی روح کے ساتھ ایسی پاک تبدیلی پیدا کریں اور اپنے اعمال میں وہ خوبصورتی پیدا کریں کہ عرش کے خدا کو بے اختیار ہم پہ پیار آ جائے۔ اپنی دعاؤں میں وہ ارتعاش پیدا کریں جس سے زمین و آسمان کا خدا، قادر و توانا خدا، مجیب الدعوات خدا ہماری دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے، آنحضرتﷺ کا جھنڈا تمام دنیا میں گاڑنے اور ایک انقلاب عظیم پیدا کرنے کا نظارہ ہمیں اپنی زندگی میں دکھا دے۔
دعاؤں کی قبولیت اور محرم کے حوالے سے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ان دنوں میں، اس مہینے میں درود شریف پر بہت زیادہ زور دیں کہ قبولیت دعا کے لئے یہ نسخہ آنحضرتﷺ نے ہمیں بتایا ہے اور آنحضرتﷺ کے عاشق صادق نے اپنے عملی نمونہ سے درُود شریف کی برکات ہمارے سامنے پیش فرما کر ہمیں اس طرف خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ درُود پڑھنے کے لئے اپنے آپ کو اس معیار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی ہو گی جس سے درُود فائدہ دیتا ہے۔ اگر آنحضرتﷺ پر درود بھیج رہے ہیں تو آپؐ کے مقام کی پہچان بھی ہمیں ہونی چاہئے۔
احادیث میں درود شریف پڑھنے کی اہمیت کے بارے میں جو ذکر ملتا ہے، ان میں سے چند ایک یہاں پیش کرتا ہوں۔ حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز آنحضرتﷺ جب صبح کو تشریف لائے تو حضور کے چہرے پر خاص طور پر بشاشت تھی۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج حضورؐ کے چہرۂ انور پر خاص طور پر خوشی کے آثار ہیں۔ فرمایا ہاں۔ اللہ کی طرف سے ایک فرشتے نے آ کر مجھے کہا ہے کہ تمہاری اُمّت میں سے جو شخص تم پر ایک بارعمدگی سے درود بھیجے گا اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کی دس نیکیاں لکھے گا (اور یہاں آپ نے فرمایا کہ عمدگی سے درُود بھیجے گا) اور اس کی دس بدیاں معاف فرمائے گا۔ اور اُسے دس درجے بلند کرے گا۔ اور ویسی ہی رحمت اس پر نازل کرے گا جیسی اس نے تمہارے لئے مانگی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد5 مسند ابی طلحہ انصاری حدیث 16466 عالم الکتب بیروت لبنان 1998ء)
آنحضرتﷺ کی خوشی اُمّت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اظہار کی وجہ سے تھی۔ پس ہمارا کام ہے کہ اس رحمت کو لینے کے لئے آگے بڑھیں۔ خالص ہو کر آنحضرتﷺ پر درود بھیجیں۔ اپنے گناہوں کی معافیوں کے بھی سامان کریں اور آئندہ نیکیاں کرنے کی توفیق ملنے کی بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے سامان کریں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے جو شخص مجھ پر درود بھیجے گا قیامت کے روز مَیں اس کی شفاعت کروں گا۔ (جلاء الافہام۔ صفحہ70 ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ 1375ھ)
پس یہ مقام درود بھیجنے والے کو ملتا ہے۔ درجے بلند ہو رہے ہیں۔ گناہ معاف ہو رہے ہیں۔ پھر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مَیں اس کی شفاعت کروں گا۔ لیکن کیا آنحضرتﷺ پر درُود بھیجنے والے، جس کے لئے آنحضرتﷺ شفاعت کریں گے، اس کے دل میں دوسرے مسلمان کے لئے کوئی بغض اور کینہ ہو سکتا ہے؟ کیا ایسے لوگوں کی شفاعت ہو گی؟ اور پھر کیا جب ہم اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کہتے ہیں تو آنحضرتﷺ کی آل کے خلاف کوئی کینہ اور بغض دل میں ہو سکتا ہے؟ اور کیا آپؐ کے صحابہؓ کے خلاف کوئی کینہ اور بغض کسی کے دل میں ہو سکتا ہے؟
اگر اس بات کو ہر مسلمان سمجھ لے تو آپس کی لڑائیاں، رنجشیں اور فساد خود بخود ختم ہو جائیں کہ آنحضرتﷺ کی شفاعت کے لئے اور درجات بلند کروانے کے لئے درُودکا حق ادا کرنا ہو گا اور حق ادا کرنے کے لئے ہمیں آپس کے کینے اور بغض بھی ختم کرنے ہوں گے۔ کیونکہ ہم اُمّت کے فرد ہیں۔ کیا آنحضرتﷺ کی شفاعت ان لوگوں کے لئے ہو گی جو منہ سے تو درُود پڑھ رہے ہوں گے اور دل ان کے کٹے پھٹے ہوں گے۔ آنحضرتﷺ تو دلوں کو جوڑنے کے لئے آئے تھے۔ آپؐ کے ماننے والوں کے بارے میں تو خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ (فتح: 30) یعنی آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحم اور ملاطفت کے جذبات رکھتے ہیں۔ لیکن کیا آج مسلمانوں کی ایسی حالت ہے کہ رحم کے جذبات ایک دوسرے کے لئے رکھتے ہوں۔ یہ محرم کا مہینہ ہے۔ ہر سال ہم خبریں سنتے ہیں کہ فلاں جگہ شیعوں کے تعزیہ پر حملہ کیا گیا۔ فلاں جگہ امام باڑے پر حملہ کیا گیا۔ پاکستان میں بعض مولوی، وہ لوگ جو دینی علم رکھنے والے سمجھے جاتے ہیں جن سے توقع کی جاتی ہے کہ مسجد کے منبر سے ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ کی سنت کو پورا کرتے ہوئے اس جگہ کا خو ف دل میں رکھتے ہوئے محبت و پیار کا پیغام دیں لیکن یہ ہواوہوس میں ڈوبے ہوئے لوگ منبر رسولﷺ سے نفرتوں کا پیغام دیتے ہیں۔ محبتوں کے سفیر بننے کی بجائے نفرتوں کے پیغامبر بنتے ہیں۔ اور پھراسی وجہ سے حکومت یہ اعلان کرتی ہے اور یہ اعلان اخباروں میں چھپتے ہیں کہ فلاں مولوی پر فلاں فلاں جگہ جانے پر پابندی ہے۔ اتنے عرصے کے لئے پابندی لگائی گئی ہے تاکہ وہ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کے بیج نہ بو سکیں۔ پس یہ تو حال ہے آج ان لوگوں کا جو ایک طرف تو قرآن اور سنّت کی تعلیم دیتے اور دوسری طرف نفرتوں کے بیج بوتے ہیں اور نفرتوں کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں۔ ہر سال یہ پابندیوں کا مستقل عمل ہے جو حکومتوں کو دُہرانا پڑتا ہے۔ پھر کربلا میں بھی خود کش حملے ہوتے ہیں۔ شیعہ سنیوں پر حملے کرتے ہیں۔ سنی شیعوں پر حملے کرتے ہیں۔ اس کو روکنے کے لئے حکومتوں کو علماء کی کمیٹیاں بنانی پڑتی ہیں تاکہ ملک میں فسادنہ پھیلے۔ اور اگر محرم کے دن امن سے گزر بھی جائیں تو یہ نفرتوں کی جو باتیں ہیں، جو نفرتوں کے نعرے ہیں، جو نفرتوں کے لاوے دلوں میں پک رہے ہوتے ہیں، یہ بعد میں پک کے نکلتے ہیں اور سارا سال مختلف جگہوں پرکچھ نہ کچھ فساد ہوتا رہتا ہے اور دونوں بظاہر مسلمان بھی ہیں اور درُود پڑھنے والے بھی ہیں تو کیا ایسے لوگوں کے لئے آنحضرتﷺ نے سفارشی بننے کا اعلان فرمایا ہے؟ سوچنے کا مقام ہے۔
ہمیں اس لحاظ سے بھی دعا کرنی چاہئے اور درُود پڑھنا چاہئے کہ آنحضرتﷺ کی طرف منسوب ہونے والے، آنحضرتﷺ کے حقیقی پیغام کو سمجھنے والے بھی بنیں۔ درُود کی حقیقت کو سمجھیں اور آج جبکہ عالمِ اسلام خطرے میں ہے تو ایک اکائی کا ثبوت دیں تاکہ دشمن کی میلی آنکھ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ درُود شریف میں جب ہم آلِ رسول پر درُود بھیجتے ہیں تو ان روحانی اور جسمانی رشتوں کا بھی خیال آتا ہے جو آنحضرتﷺ سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ آنحضرتﷺ کے وہ خونی رشتے جنہوں نے روحانی رشتہ دار ہونے کا بھی حق ادا کیا ہے اور ایسا حق ادا کیا ہے کہ جس کے معیار بلندیوں کو چھُو رہے ہیں، ان کے بارے میں کسی حقیقی مسلمان کے دل میں خیال آ ہی نہیں سکتا کہ کوئی نازیبا کلمات ان کے بارے میں کہیں۔ بلکہ درودپڑھتے وقت بھی جب آل رسول پہ درود بھیجتے ہیں تو وہ لوگ فوراً سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح آنحضرتﷺ کے صحابہ ہیں۔ وہ صحابہ جنہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آنحضرتﷺ کے جسم مبارک کو نقصان سے بچانے کے لئے، ہر تکلیف سے بچانے کے لئے اپنے سینے آگے کر دئیے۔ ان صحابہ میں ایک آنحضرتﷺ کے غار کے وہ ساتھی بھی ہیں جن کو آنحضرتﷺ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبہ: 40)۔ غم نہ کریقینا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو قرآن کریم میں درج کرکے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ہمیشہ کے لئے آنحضرتﷺ کا بہترین ساتھی قرار دے دیا اور ان فضلوں کا بھی ساتھی بنا دیا جو اس ہجرت کے سفر میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پر فرمائے تھے۔ پس ایسے بزرگوں کی شان میں کسی قسم کے ایسے الفاظ کہنا جن سے ان کے مقام میں کسی بھی قسم کی کمی نظر آتی ہو ایک مسلمان کا، ایسے مسلمان کا کام نہیں ہے جو آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے والا ہے۔
آپؐ کی آل میں وہ خونی رشتے دار، جنہوں نے روحانی رشتے کو بھی نبھایا جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا ہے اور اس کے بلند معیار قائم کئے، ان کے علاوہ وہ رشتے بھی شامل ہیں جنہوں نے روحانیت کا تعلق جوڑا۔
پس آج ہمارا کام ہے کہ جب دنیا میں ایک دوسرے کے لئے نفرتوں کی دیواریں بلند ہو رہی ہیں۔ مسلمان کہلا کر پھر ایک دو سرے سے نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں تو یہ درُود پڑھیں، دعائیں کریں۔ ایک ہمدردی کے جذبے سے اُمّت محمدیہ کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی حقیقی رنگ میں درُود شریف کی پہچان کرنے والا بنائے تاکہ مسلمان رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ (فتح: 30) کا حقیقی نظارہ دیکھیں۔ ان کے لئے دعائیں کرنا ہمارا فرض بھی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے درُود کی برکات اور اہل بیت سے تعلق کا جو ادراک ہمیں عطا فرمایا ہے وہ مَیں آپؑ کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ آپؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ:
’’ایک مرتبہ الہام ہوا، جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ دین کو دوبارہ زندگی دینا چاہتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ جوش میں ہے ’’لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پرشخص مُحْیِیْ کے تعین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے‘‘۔ لیکن یہ نہیں پتہ لگ رہا کہ کس کے ذریعہ سے یہ زندگی دوبارہ پیدا کی جانی ہے تو ’’اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحْیِیْ کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیااور اشارے سے اس نے کہا ہٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہﷺ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے‘‘۔ یعنی اس عہدے کے لئے جو زندہ کرنے والا ہے سب سے بڑی شرط محبت کی ہے۔ جس نے مُحْیِیْ بننا ہے وہ رسول اللہﷺ سے محبت میں سب سے زیادہ ہونا چاہئے۔ ’’سو وہ اس شخص میں متحقق ہے‘‘۔ وہ اس شخص میں پائی جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف اشارہ کرکے فرشتوں نے کہا۔ فرماتے ہیں کہ’’اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جوآل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے‘‘۔ یہ جس الہام کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے جوپہلے ہوا تھا، یہاں نہیں پڑھا گیا کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ سَیّدِ وُلْدِ آدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْن۔ فرمایا کہ’’اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سر ہے کہ افاضہ انوار الٰہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہی طیبّین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غیبتِ حسّ سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے‘‘۔ یہ کشفی حالت طاری ہوئی اور چند لوگوں کے چلنے کی وہ آواز آئی جو جوتی پہننے سے آتی ہے۔ ’’پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آ گئے۔ یعنی جناب پیغمبر خداﷺ حضرت علی و حسنین و فاطمہ زہرا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادرِ مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے تالیف کیا ہے اور اب علیؓ وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے فالحمدللہ علی ذلک۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 599-598۔ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
اب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کشف تھا۔ اسے بھی بعض غیر تو ڑ مروڑ کرپیش کرتے ہوئے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نعوذ باللہ حضرت فاطمہ کی ہتک کی ہے تو یہ اصل میں ان اعتراض کرنے والوں کی بدفطرت ہے جو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ یہ فقرہ کہہ کے ہتک کی گئی ہے۔ فتنہ پیدا کرنے والے جو مولوی ہیں یہ عام لوگوں کو پورا فقرہ نہیں بتاتے، (اور عوام جہالت کی وجہ سے یا ان لوگوں نے پڑھا پڑھا کے اتنا اندھا کر دیا ہے کہ وہ سننا اور دیکھنا ہی نہیں چاہتے کہ اصل چیز کیا ہے۔) یہ صرف اتنا فقرہ بتاتے ہیں کہ مرزا صاحب نے یہ لکھ دیا کہ حضرت فاطمہ نے میرا سراپنی ران پر رکھ لیا۔ کیونکہ گند خوداُن کے ذہنوں میں بھرا ہو اہے اس لئے اس گند سے یہ باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو فرمایا ہے کہ نہایت محبت و شفقت سے مادر ِمہربان کی طرح عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ اب مادر مہربان کا کیا مطلب ہے؟ مہربان ماں، اس مہربان ماں کے لفظ کے ساتھ کوئی گندہ خیال ابھر سکتا ہے؟ یہ صرف اور صرف اگر ابھر سکتا ہے تو ان گندے اور بدفطرت مولویوں کے ذہنوں میں۔ یہ ضمناً ذکر آ گیا اس لئے مَیں نے وضاحت کر دی۔
تو یہ سارے کشف اور الہام ہیں ایک تو اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مسیح و مہدی ہونے کے مقام کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ یہ اسی درُود کی وجہ سے تھا جو آپ آنحضرتﷺ سے بے پناہ عشق کی وجہ سے آپﷺ پر بھیجتے تھے۔ دوسرا آپ فرماتے ہیں کہ یہ جو الہام ہے۔ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ اس میں ایک راز یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے انوارسے فیض حاصل کرنا ہے تو اہل بیت سے محبت کرنا بھی ضروری ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بننے کے لئے ان پاک اور مطہر لوگوں کی وراثت پانا بھی ضروری ہے۔ پس یہ لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مقرب بننے والا ان پاک اور مطہر وجودوں کے نقش قدم پہ چلے تو اللہ تعالیٰ اس محبت کی وجہ سے جو آنحضرتﷺ کے پیاروں سے کسی کو ہے ان محبت کرنے والوں کو اپنے قرب سے نوازتا ہے۔ پس یہ حقیقی محبت ہے کہ اپنے محبوب کے پیاروں سے بھی محبت ہو اور اگر اس نکتے کو مسلمان سمجھ لیں تو کبھی ایک دوسرے کے لئے نفرتوں کی دیواریں کھڑی نہ ہوں۔ یہ ٹھیک ہے کہ نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنے والے جو علماء یا نام نہاد مولوی ہیں، اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اور اپنی اناؤں کی خاطر یہ دیواریں کھڑی کرتے ہیں۔ لیکن ان دیواروں کو کھڑا کرنے میں نام ان بزرگوں کا استعمال کرتے ہیں جو اپنی ساری زندگی رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ کی بہترین مثال بنے رہے۔ پس یہ عوام الناس کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ آنکھیں بند کرکے کسی کے پیچھے چلنے کی بجائے اپنی عقل کا استعمال کریں۔ آنحضرتﷺ نے اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے ہمیں جو دعائیں سکھائی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ ان لوگوں کی محبت بھی مانگی ہے جو اللہ تعالیٰ سے محبت میں بڑھانے کا ذریعہ بنے جیسا کہ ایک دعا میں آپ نے یہ سکھایا کہ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یَنْفَعُنِیْ حُبَّہٗ عِنْدِکَ۔ (ترمذی۔ کتاب الدعوت باب 74/73 حدیث3491)
کہ اے اللہ! عطا کر مجھے اپنی محبت اور اس شخص کی محبت کہ میرے کام آئے اس کی محبت تیرے حضور۔ اور سب سے زیادہ کام آنے والی محبت آنحضرتﷺ سے محبت ہے۔ نفع دینے والی محبت آنحضرتﷺ سے محبت ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے۔ اور یقینا ان لوگوں سے بھی محبت اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے جن سے آنحضرتﷺ نے محبت کی۔ جہاں ہمارا کام یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے ہر حکم کی اور ہر کام کی پیروی کریں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ جن سے آپؐ نے محبت کی ان سے ہم بھی محبت کریں۔ اور بے شمار روایات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے جہاں اپنی جسمانی اور روحانی آل سے محبت کی یعنی جسمانی آل سے جن کا روحانی تعلق بھی تھا اور ہے ان سے محبت کی وہاں صرف جو روحانی اولاد تھی، آپ کے ماننے والے تھے، صحابہ تھے، ان سے بھی محبت کی۔ اس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ اُمّت کے جو لوگ درُود بھجیں گے اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے گا اور اس پر آپ بے انتہا خوش ہیں۔ وہی نہیں جو اس وقت کے صحابہ تھے بلکہ تا قیامت آنے والے تمام وہ لوگ جو آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کیونکہ ان سے رحمت کا سلوک فرمانا ہے تو اس بات سے آنحضرت کو بے انتہاء خوشی پہنچ رہی ہے اور خوشی تبھی پہنچتی ہے جب حقیقی محبت ہو۔ اگر اس اصل کو مسلمان سمجھ جائیں تو کبھی کسی قسم کا فسادنہ ہو۔ کبھی ایک دوسرے کی مسجدوں پہ خود کش حملے نہ ہوں۔ کبھی علماء پر ایک جگہ سے دوسری جگہ خاص طور پر محرم کے مہینہ میں جانے پر پابندیاں عائدنہ ہوں۔ بہرحال ہمارا کام یہ ہے کہ ان کی بھلائی کے لئے دعائیں کرتے رہیں۔ مسلمان بھی سوچیں کہ کیا وجہ ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ جب آپس میں رحم اور ملاطفت کے نظارے نظر آتے تھے اور آج مختلف گروپوں سے، مختلف گروہوں سے، مختلف طبقوں سے نفرتوں کے لاوے ابلتے ہیں۔ کس کی نظر کھا گئی اس اُمّت کو؟ کہاں نافرمانی ہو گئی جس کی یہ سزا مل رہی ہے۔ سوچیں اور سوچیں تاکہ اسلام کا اصل حسن دنیا کو دکھا سکیں۔ اپنی کمزوریوں پر نظر کریں۔ پس پھر مَیں کہوں گا کہ آج کل ہم احمدیوں کو چاہئے کہ اس مہینے میں درود شریف بھی بہت پڑھیں۔ امت مسلمہ کو آپس کے لڑائی جھگڑوں، فتنوں اور فسادوں سے محفوظ رہنے کے لئے دعائیں بھی بہت کریں اور آنحضرتﷺ کی آل اور اصحاب اور تمام ان لوگوں سے جن سے ہمارے محبوب آقا نے محبت کی، ایسی محبت کا اظہار کریں جو بے مثال ہو۔
آنحضرتﷺ کی وہ جسمانی اولاد جس نے آپ سے روحانی رشتہ بھی قائم رکھا ہماری محبت کی یقینا حقدارہے اور بہت زیادہ حقدار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خداتعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرّہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ … تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ 654 اشتہار تبلیغ الحق 8 اکتوبر 1905ء۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس یہ محبت ہے جو حضرت امام حسینؓ سے ہر احمدی کو کرنی چاہئے۔ جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے۔
اسی طرح صحابہؓ کا مقام بھی ہمارے دل میں قائم ہے۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عثمانؓ، اور حضرت عمرؓ کا مقام بھی ہمارے دلوں میں قائم ہے۔ یہ نہیں کہ ایک طرف محبت ہوئی اور دوسری طرف سے کم ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرنے والوں سے ہمیں محبت کرنی ہے۔
صحابہؓ کا مقام بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ:
’’صحابہ کرامؓ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی راہ میں وہ صدق دکھلایا کہ انہیں رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ (المائدہ: 120) کی آواز آ گئی۔ یہ اعلیٰ درجہ کا مقام ہے جو صحابہ کو حاصل ہوا۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے۔‘‘ (ملفوظات جلدچہارم صفحہ465۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’آپ اسلام کے آدم ثانی اور خیرالانام کے مظہر اوّل تھے اور گو آپ نبی تو نہ تھے مگر آپ میں نبیوں اور رسولوں کی قوتیں موجود تھیں‘‘۔ (سر الخلافۃ روحانی خزائن جلد8صفحہ336)
یعنی آپ آنحضرتﷺ کے مظہر تھے۔ ان کے خوبُو پر چلنے والے تھے۔
پھر حضرت عمرؓ کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’ان کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سائے سے بھاگتا ہے‘‘۔ (نور الحق حصہاول روحانی خزائن جلد8صفحہ143)
دوسری حدیث یہ ہے کہ: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتا‘‘۔ (ترمذی کتاب المناقب باب 52 حدیث 3686)
تیسری حدیث ہے کہ: ’’پہلی امتوں میں محدث ہوتے رہے ہیں اگر اس امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمرؓ ہے‘‘۔ (ترمذی کتاب المناقب باب57 حدیث نمبر 3693)
پس ہمارے لئے تو آنحضرتﷺ کے سب پیارے ہی بہت پیارے ہیں۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو بھی ہر قسم کے تفرقہ کو ختم کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ آج بیرونی طورپر بھی مخالفت زوروں پر ہے۔ آج ہمیں ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے کی ضرورت ہے۔ اب اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جو لڑائی ہو رہی ہے اس میں بھی صحیح راہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے مظلوم فلسطینی نقصان اٹھا رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کوخود ہی نقصان پہنچوا رہے ہیں اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ راہنمائی فرما دی کہ دین کے نام پر جنگیں نہ کرو۔ کوئی جنگ جو دین کے نام پہ ہو گی وہ کامیاب نہیں ہو گی اور اس جنگ میں تو ویسے بھی توازن نہیں ہے۔ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بات چیت سے مسئلہ ختم کیا جائے تاکہ معصوم جانوں کو ضائع ہونے سے بچایاجائے۔ اسرائیل کا حملہ تو معصوموں پر ہے۔ ٹھیک ہے کہ ان کے کچھ ٹارگٹ بھی مررہے ہیں۔ لیکن بہت سی معصوم جانیں بھی ضائع ہو رہی ہیں۔ یہاں کے اخباروں نے بھی شورمچانا شروع کر دیا ہے کہ ایک کے بدلے میں تم ڈیڑھ سو آدمیوں کو مار دیتے ہو۔ اُن لوگوں کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے سلوک کرنا ہے یا اُن کا جو انجام ہونا ہے وہ کسی جنگ سے نہیں ہونا بلکہ خداتعالیٰ کی تقدیر نے اپنا فیصلہ خود ظاہر کرنا ہے اور کس طرح ہونا ہے وہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور یہی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے۔ پس فلسطینیوں کواگر اپنا دفاع کرنا ہے اور مسلمانوں نے ان کی کوئی مدد کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے کریں۔ دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو پکڑتا ہے اور پکڑے گا۔ لیکن مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ زمانے کے امام کی آواز کو پہچانیں۔ مَیں نے تو یہاں غیروں کے سامنے بھی جب کہنے کا موقع ملا تو یہی کہا ہے کہ اگر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرو گے تو اپنے آپ کو جنگ کی ہولناکیوں میں ڈالتے رہو گے۔ صرف معصوموں اور مظلوموں پہ ظلم کرنے سے بچ نہیں جاؤ گے یا اپنی طاقت کا لوہا نہیں منوا لو گے۔ پس ان کو یہی ہمیشہ کہا گیا کہ اپنی نسلوں کو بھی ان تباہیوں سے بچانے کی کوشش کریں اور انصاف کے تقاضے قائم کریں۔ اللہ کرے کہ یہ بڑی طاقتیں انصاف کے تقاضے پورے کرنے والی بھی ہوں۔ ورنہ یہ ایک دو ملکوں کی جنگ کا سوال نہیں رہے گا۔ پھر ان جنگوں کی صورت میں جو ہونے والی ہیں اور جو بظاہر نظر آ رہی ہیں بڑی خوفناک عالمگیر تباہی آئے گی۔
اللہ تعالیٰ ہم احمدیوں کو بھی دعائیں کرنے کی توفیق دے۔ درُود پڑھنے کی توفیق دے تاکہ دنیا کو اس تباہی سے بچانے والے بن سکیں۔ اللہ کرے کہ دنیا بھی اس حقیقت کو پہچانے اور تباہی سے بچے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ نیا چڑھنے والا سال جماعت احمدیہ پر جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہاہزاروں رحمتوں اور برکتوں کا سال بن کر چڑھے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں نئی سے نئی کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کرنے والے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو یہ سال ہر لحاظ سے مبارک کرے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلدنمبر 16 شمارہ نمبر 4 مورخہ 23 جنوری تا 29 جنوری 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
قمری اور شمسی سال کا آج پہلا جمعہ ہے، دونوں نظاموں میں پہلے جمعہ کا جمع ہونا اللہ تعالیٰ جماعت کے لئے بے شمار برکتوں کا موجب بنائے۔ جمعہ کے دن کی حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ خاص مناسبت ہے۔ دعاؤں کی قبولیت اور محرم کے حوالے سے اس مہینہ میں دور شریف پڑھنے پر زور دیں۔ امام حسین اور صحابہؓ کے مقام کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادت۔
فرمودہ مورخہ 2؍جنوری 2009ء بمطابق2؍صلح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔