شیعہ سنی اختلافات، فلسطین پر مظالم، وقف جدید کے نئے سال کا اعلان
خطبہ جمعہ 9؍ جنوری 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
آج کا مضمون شروع کرنے سے پہلے میں گزشتہ خطبہ جمعہ کے تسلسل میں ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ گو کہ کافی تعدادنے بلکہ اکثریت نے میرے گزشتہ خطبہ سے اس بات کو سمجھ لیا ہو گا۔ جماعتی لڑیچرمیں بھی اس کا ذکر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ درود شریف کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام اور تعلق۔ بعض لوگوں نے سوال اٹھایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو بدرجہ اولیٰ آنحضرتﷺ کی آل میں شمار ہوتے ہیں۔ کیونکہ احادیث میں آنحضرتﷺ کی طرف سے مسیح و مہدی کے بڑے مقام اور آنحضرتﷺ کے ساتھ پیار کے انداز کا ذکر بھی ملتا ہے۔ سوال کرنے والے کی یہ سوچ بالکل ٹھیک ہے بیشک آنحضرتﷺ کے اس روحانی فرزند کے بارہ میں آپﷺ کے اپنے الفاظ سے اس کی وضاحت ملتی ہے لیکن کیونکہ مَیں محرم کے حوالے سے باتیں کر رہا تھا اس لئے شیعہ حضرات اور سنی حضرات کے نظریات تک محدود رہا اور اس لحاظ سے ان کو توجہ دلائی کہ محرم میں اگر یہ دونوں اس بات کو سمجھ لیں کہ ہم اُمّت مسلمہ ہیں اور آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد پیش نظر رہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے تو ایک دوسرے کے خلاف کینے اور بغض اور مار دھاڑ اور قتل و غارت کی بجائے آپس میں پیار و محبت کی فضا جنم لے۔ ایک دوسرے کے خو ن کی حفاظت اور مسلمان ہونے کی نشانی کے بارہ میں آنحضرتﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ مَنْ قَالَ لَا اِلٰہ َ اِلَّا اللّٰہُ وَکَفَرَ بِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَرَّمَ مَالُہٗ وَدَمُہٗ وَحِسَابُہٗ عَلَی اللّٰہِ۔
فرمایا کہ جس نے اقرار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودنہیں اور انکار کیا ان کا جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے تو اس کے جان اور مال قابل احترام ہو جاتے ہیں۔ وَحِسَابُہٗ عَلَی اللّٰہِ کہہ کر فرمایا کہ باقی اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ اس سے کیا سلوک کرنا ہے۔ یہ اسلام میں ایک دوسرے کے لئے خون کی حفاظت ہے اور جس نے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہہ دیا چاہے اس نے جان کے خوف سے ہی کہا، اس کے بارہ میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اگر اس کے بعد تم نے اس کا خون کیاتو تم اس کی جگہ پر ہو گے اور وہ تمہاری جگہ پر ہو گا۔ (صحیح مسلم کتب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا الٰہ … حدیث 176)
پس ایک مسلمان کے خون کی یہ حفاظت ہے جو آنحضرتﷺ نے فرمائی اور اگر کلمہ کی اہمیت اور درود شریف کی اہمیت کا تمام مسلمانوں کو احساس ہو جائے تو محرم کے دنوں میں آج کل جو یہ حرکتیں ہوتی ہیں یہ کبھی نہ ہوں۔ لیکن مسلمانوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس بات کو نہیں سمجھتے اور گزشتہ دنوں کی اخباروں میں جو خبریں آتی رہی ہیں وہ اس بات کی شاہد ہیں کہ جو باتیں مَیں نے مسلمانوں کے حوالے سے اس محرم کے مہینے کے بارے میں کہی تھیں کہ شیعہ سنی ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں، ان دنوں یعنی محرم میں خاص طور پر صحیح ثابت ہوئی ہیں۔ بہرحال یہ تو ان لوگوں کے فعل ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو نہیں مانا، آنحضرتﷺ کے اس روحانی فرزند کو نہیں مانا جس کے بارہ میں آپﷺ نے فرمایا تھا کہ جب وہ ظاہر ہو تو خواہ گھٹنوں کے بل برف کی سلوں پر چل کر جانا پڑے تو تب بھی جانا اور اسے میرا سلام کہنا۔ پس یہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا مقام ہے اور اسی طرح اور بہت سی احادیث ہیں جن سے آنے والے مسیح سے آنحضرتﷺ کے خاص پیار کا اظہار ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آنحضرتﷺ سے قربت کا وہ رشتہ ہے جو سب سے بلند ہے۔
گزشتہ خطبہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جس رویاء کا مَیں نے ذکر کیا تھا کہ حضرت فاطمۃ الزہرہؓ نے آپؑ کا سر اپنی گود میں ایک ماں کی طرح رکھ لیا تھا جبکہ آنحضرتﷺ اور آپؐ کی پیاری بیٹی کا خاندان بھی سارا وہاں موجود تھا تو یہ اس طرف اشارہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپؐ کی آل میں شامل ہو چکے ہیں اور پھر آپ کو یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب ایک دفعہ آپ شدید بیمار ہوئے (دعویٰ سے پہلے کا ذکر ہے)۔ تو جو دعا سکھائی گئی اور الہاماً بتائی گئی اس میں درود شامل تھا اور شفاء کے لئے کہا گیا کہ اس کو کرو اور وہ یہ تھا کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 208-209)
اس الہام میں بھی عَلٰی کے صلہ کے بغیر آل محمدؐ کا ذکر ہے۔ یہ ذکر فرما کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام کو آنحضرتﷺ کے قریب کر دیا۔ ہمارے نزدیک تو آپؑ آنحضرتﷺ کی آل میں سب سے قریب ترین ہیں۔ کیونکہ حضورؐ نے آپؑ کو براہ راست شامل فرما دیا۔ پس چاہے غیر اس کو مانیں یا نہ مانیں لیکن ہمارے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام براہ راست اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی آنحضرتﷺ کی آل میں شامل ہیں، خود آنحضرتﷺ نے شامل فرمایا ہے، جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ مقام اس عشق و محبت کی وجہ سے آپ کو ملا جو آپ کو آنحضرتﷺ سے تھا۔ یہ مقام آپؑ کو اس محبت کے نتیجہ میں ملا جو آنحضرتﷺ پر درود بھیج کر آپؑ نے حاصل کیا اور جو آپ کو اس سے محبت تھی۔
پس اس حوالے سے آج جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہے کہ جب مسلمانوں میں بھی آپس میں رنجشیں اور دوریاں نظر آرہی ہیں تو درود بھیجیں اور بہت درود بھیجیں۔ کیونکہ ہم زمانے کے اس امام کو ماننے والے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست آنحضرتﷺ کی آل میں شامل فرمایا ہے۔ مسلمانوں کے جو اپنے ذاتی مفاد ہیں ان کا حال تو ہم آج کل دیکھ ہی رہے ہیں۔ جبکہ فلسطین پر اسرائیل کی ظالمانہ بمباری کے باجود مسلمان ممالک نے احتجاجاً بھی پُر اثر آواز نہیں اٹھائی۔ اِکّا دُکاّ آوازیں اٹھتی ہیں اور وہ بھی نرم زبان میں، بلکہ ہلکی آواز میں۔ ان کے مقابلہ میں یہاں مغرب میں بعض عیسائی تنظیموں نے بھی اور اشخاص نے بھی زیادہ زور سے اسرائیل کے ردّعمل پہ اظہار کیا ہے۔ اسرائیل نے جو بمبارمنٹ کی ہے اور جو مستقل کر رہے ہیں اور جو جنگ جاری ہے، اس پہ ان کا ردّ عمل مسلمان ملکوں کی نسبت زیادہ پُر زور ہے۔ پس جب عمومی طور پر یہ مسلمان ممالک بے حس ہو گئے ہیں ہمارا فرض بنتا ہے کہ درود اور دعاؤں سے مسلمانوں کی مدد کریں۔ پس مَیں دوبارہ یہی کہتا ہوں کہ دعاؤں پر بہت زیادہ زور دیں کیونکہ ہم جو مسیح محمدیؑ کے ماننے والے ہیں، ہمارا ہتھیار اور سب سے بڑا ہتھیار دعا ہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بارہ میں فرمایا ہے کہ اسی سے انشاء اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کی فتح ہونی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا، آج کا جو دوسرا مضمون ہے اب اس طرف آتا ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ جنوری کے پہلے یا دوسرے جمعہ پہ وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے اور گزشتہ سال کی قربانیوں کا مختصر ذکر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں رپورٹ پیش کرنے سے پہلے اس بارہ میں کچھ عرض کروں گا ایک مومن کا کیا کام ہے، کس طرح اس کو قربانیاں کرنی چاہئیں، انفاق فی سبیل اللہ کیا ہے، ہمارے عمل کیا ہونے چاہئیں؟
قرآن کریم میں سورۃ حدید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَاَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَہُمْ وَلَہُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ(الحدید: 19) یقینا صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے لئے اپنے مال میں اللہ کو قرضہ حسنہ دیا ان کا مال ان کے لئے بڑھایا جائے گا اور انہیں عزت والا بدلہ دیا جائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی ایک جگہ وضاحت کی ہے کہ خداتعالیٰ کو تو تمہارے روپے پیسے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس نے خود ہی اپنے پر فرض کر لیا ہے کہ اگر تم خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ اس کو قرضہ حسنہ سمجھ کر لوٹائے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے پیار کا اظہار ہے کہ باوجود غنی ہونے کے جس کو کسی انسان کے پیسے کی کوئی احتیاج یا حاجت نہیں ہے لیکن جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ مجھ پر قرض ہے اور مَیں اسے لوٹاؤں گا۔ ایسے قرض لینے والوں کی طرح نہیں جو قرض تو لے لیتے ہیں اور واپس کرنا بھول جاتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے کہ مَیں وہ لوٹاؤں گا۔ پس مالی قربانی چاہے وہ کسی بھی رنگ میں ہو، خداتعالیٰ اس کی قدرکرتا ہے۔ جب دین کی اشاعت کے لئے مالی قربانی کی جا رہی ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر پذیرائی حاصل کرنے والی ہوتی ہے کہ اس کے بارہ میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا، اس کا احاطہ نہیں کر سکتا بشرطیکہ وہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور اس زمانے میں جب دنیا، دنیاوی اور مادی خواہشات کے پیچھے لگی ہوئی ہے، قربانی کرنے والے یقینا اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرکے اللہ تعالیٰ سے بہترین شکل میں اس قرض کے بدلے وصول کرنے والے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو صرف پرانے قصے ہیں، یا کہانیاں ہیں یا پرانے قصوں میں واقعات ہوا کرتے تھے یا ہم نے قرآن شریف میں پڑھ لیا ہے، اس کا تجربہ نہیں ہے بلکہ اس زمانے میں بھی ہم میں سے کئی ہیں جو اس بات کو مشاہدہ کرتے آئے ہیں اور مشاہدہ کر رہے ہیں۔ پس یہ بھی اُن انعاموں میں سے ایک انعام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد ایک احمدی کو ملا۔ اور اس بات پر احمدی اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے اور یہ ایک احمدی کی شکر گزاری ہی ہے کہ باوجودنامساعد حالات کے ہر سال احمدی کی قربانی کی مثالیں روشن تر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ اس سال ساری دنیا میں جو اکنامک کرائسز (Economic Crises) ہوا اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیوں میں احمدی پیچھے نہیں ہٹے۔ ایک احمدی یہ پرواہ نہیں کرتاکہ میرا گزارا کس طرح ہو گا۔ فکر ہے تو یہ کہ ہمارے چندے کا وعدہ پورا ہو جائے۔ جبکہ دوسروں کا کیا حال ہے اس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ حدید میں ہی ایک اور اگلی آیت میں کھینچا ہے اور ساتھ ہی اس میں مومنوں کو یہ بھی وارننگ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں کبھی سستی نہ دکھانا۔ چاہے وہ عبادات ہیں یا مالی قربانیاں ہیں یا دوسرے فرائض ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر فرض کئے گئے ہیں۔ کیونکہ حقیقی زندگی وہی ہے جو آخرت کی زندگی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِعْلَمُوٓا اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَّ زِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَھِیْجُ فَتَرٰہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا۔ وَفِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌ۔ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(الحدید: 21) کہ جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کاایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کر دے اور سج دھج اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا یہ زندگی اُس بارش کی مثال کی طرح ہے جس کی روئیدگی کفار کے دلوں کو لبھاتی ہے۔ پس وہ تیزی سے بڑھتی ہے اور پھر تو اُس فصل کو سبز ہوتا ہوا دیکھتا ہے۔ پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب مقدر ہے۔ نیز اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضوان بھی ہے جبکہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکہ کا ایک عارضی سامان ہے۔
پس آج ہم دنیا پر نظر پھیریں تو اسلام کی تعلیم کے مطابق حقیقی رنگ میں اگر کوئی جماعت من الحیث الجماعت خرچ کر رہی ہے تو جماعت احمدیہ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتی ہے یا قربانیاں دیتی ہے۔ باقی دنیا اگر کچھ کر بھی رہی ہے تو بہت معمولی۔ اور ہر ایک کھیل کود اور نفس کی خواہشات کی تکمیل میں لگا ہوا ہے۔ بہت ساری بدعات اور رسومات نے مسلمانوں میں راہ پا لی ہے۔ جو دنیاوی رسومات ہیں شادی بیاہ ہیں، ان پر دکھاوے کے لئے بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے۔
اس بارہ میں مَیں جماعت کو توجہ دلانی چاہتا ہوں۔ بعض اوقات احمدیوں کی طرف سے احمدیوں کے بارے میں بھی شکایات آ جاتی ہیں۔ اس زمانہ کے امام کو مان کر اگر ہم بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنے ماحول کے پیچھے چلتے رہے اور اس مقصد کو بھو ل گئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا مقصد ہے تو پھر ہم میں سے وہ لوگ جو یہ مقصد بھول رہے ہیں انہیں لوگوں میں شمار ہوں گے جن کے بارے میں خداتعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات پورا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور یہ ایسا ذریعہ ہے جو انسان کی پیدائش کے اعلیٰ مقصد کو بھلا دے۔ اور اگر زمانے کے امام کوماننے کے بعد بھی ہم میں مال اور اولاد اور دنیاداری کا فخر رہے اور عبادتوں اور قربانیوں کو ہم بھول جائیں تو اللہ تعالیٰ نے جو اَجْرٌ کَرِیْمٌ فرمایا ہے، اس کے حقدار بھی نہیں ٹھہریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مال تو تمہیں مَیں نے دے دیا اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مال اور دولت جمع کرکے صرف اپنی بڑائی کا اظہار کرتے ہو یا واقعتا اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو گے تو اجرِ عظیم پاؤ گے، اجرِ کریم پاؤ گے، ایک معزز اجر پاؤ گے۔ اگر نہیں تو یہ دنیاوی مال ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں ہے۔ یہ تو اس فصل کی طرح ہے جو سرسبز ہو، لہلہاتی ہوئی ہو تو بہت اچھی لگتی ہے اور اس فصل کو دیکھ کر اس کا مالک اس پر بہت سی امیدیں رکھتا ہے۔ مستقبل کی خواہشات پوری کرنے کے منصوبے بنا رہا ہوتا ہے لیکن جب وہ پکتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے طوفان آئے، بارش آئے، آندھی آئے اسے بکھیر دیتا ہے اور مالک کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ پس اس مثال سے ایک مومن کو بھی سمجھایا کہ تم دنیاوی چیزوں کے پیچھے نہ پڑو جن کا انجام مایوسی کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے اور جو خداکو یادنہیں رکھتے، بالکل بھول گئے، ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے ذکر کیا ہے۔ پس مومن کو کہا کہ تمہارا کام خداتعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رضا کے حصول کی کوشش ہونا چاہئے اور یہی ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے۔ ورنہ یہ دنیا جتنی بھی خوبصورت لگے اس کے سازو سامان، اس کا مال جتنا بھی دل کو لبھائیں انجام اس کا دھوکہ ہی ہے، ناکامی ہی ہے۔ پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سَابِقُوٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنَ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ۔ وَاللّٰہِ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (الحدید: 22) کہ اپنے ربّ کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور اس جنت کی طرف بھی جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کی طرح ہے۔ جو ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اسے دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔ پس مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ربّ کی مغفرت کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں اس جنت کو حاصل کرنے والے اور اس کے وارث ٹھہرتے ہیں جو اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی صورت میں نظر آتی ہے اور اگلے جہان میں تو اللہ تعالیٰ نے یہ ایک مومن کے لئے مقدر کی ہے جو خالص ہو کر خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر کام اور فعل کرتا ہے۔ مومن ایک ایسی جنت کا وارث بنتا ہے جو زمینی بھی ہے اور آسمانی بھی۔ اس دنیا میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرکے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوتے دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور اگلے جہان میں بھی خوش ہو گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔
مجھے بیسیوں خطوط آتے ہیں جو اپنی مالی قربانی کے ذکر کے بعد یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اس قربانی کے بعد سکینت پیدا کی۔ کس طرح ان کے مال میں اللہ تعالیٰ نے برکت عطا فرمائی۔ کس طرح ان کی اولاد کی طرف سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی کیں۔ تو یہ اس دنیا کی جنت ہی ہے جو ایک مومن کو ملتی ہے۔ جس کے نظارے ایک مومن دیکھتا ہے اور پھر جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے مومن اس دنیا میں دیکھتا ہے تو آخرت کی جنت پر یقین مزید مضبوط ہوتا ہے۔ تبھی تو گزشتہ دنوں مجھے کسی جگہ کے سیکرٹری مال نے لکھا کہ ایک صاحب 2؍جنوری کومیرے پاس آئے کہ آج وقف جدید کے اوپر خطبہ آئے گا تو یہ میرا وعدہ ہے گزشتہ سال سے اتنا بڑھا کر پیش کر رہا ہوں اور پہلی رسید تم میری کاٹنا۔ تو یہ شوق بھی اسی لئے ہے کہ ان کو یقین ہے کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کی رضا ملتی ہے۔ تو یہ جو ایمان ہے، یقین ہے یہ اس سے مضبوط ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگلے جہان میں جو دے گا اس کا توہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہاں یہ بات کہہ کر کہ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ یہ نکتہ بھی بیان فرما دیا کہ مومن کے لئے جنت کی وسعت زمین و آسمان کی وسعت جتنی ہے۔ یعنی اس کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے اور جنت کیا ہے۔ پہلی آیت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔
ایک دفعہ ایک صحابی نے آنحضرتﷺ سے پوچھا کہ جنت اگر زمین و آسمان تک پھیلی ہوئی ہے۔ پوری کائنات کو ہی اس نے گھیرا ہوا ہے تو پھر دوزخ کہاں ہے؟ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جب دن ہوتا ہے تو رات کہاں ہوتی ہے۔ (مسنداحمد بن حنبل جلد 5 حدیث التنوخی عن النبیﷺ۔ صفحہ 381 حدیث 15740 عالم الکتب بیروت 1998ء)
یعنی جنت اور دوزخ کوئی دو جگہیں نہیں ہیں بلکہ دو حالتیں ہیں۔ خدا کو بھولنے والوں کو جہاں دوزخ نظر آئے گی وہیں نیک اعمال والے جنت کے نظارے کر رہے ہوں گے۔ رُخ اور زاویہ بدل جانے سے اس کی حالت مختلف ہو جائے گی۔ جس طرح آج کل بعض تصویریں ہوتی ہیں ذرا سا اینگل بدلتے ہیں تو ڈائمینشن چینج ہو جاتی ہے۔
پس ایک مومن خداتعالیٰ کی رضا کے حصول پر نظر رکھتے ہوئے جہاں جنت کا وارث بنتا ہے وہاں غیر مومن اور صرف دنیا پہ نظر رکھنے والا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے کر اپنی عاقبت خراب کر رہاہوتا ہے۔ پس جنت اصل میں جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو گئی تو وہی ایک مومن کے لئے جنت ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ کے لئے اس کے حصول کی کوشش کی طرف متوجہ رکھے ہماری عبادتیں اور ہماری قربانیاں اللہ تعالیٰ کے فضل کو سمیٹنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ (الجمعہ: 5) کہہ کر ہماری توجہ اس طرف پھیری کہ بے شک جنت ان لوگوں کے لئے ہے جن پر اللہ تعالیٰ اپنا خاص فضل فرماتا ہے اور وہ اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہیں اور جنہوں نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ کو مانا جن کا اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے مطابق ظہور ہوا۔ تو وہیں یہ بھی سمجھایاکہ اس فضل کو مستقل رکھنے کے لئے اپنے اعمال پر بھی نظر رکھنا۔ اسی لئے دوسری جگہ یہ دعا بھی سکھائی کہ ایمان کی مضبوطی کے لئے اور اعمال پہ قائم رہنے کے لئے یہ دعا بھی کرتے رہو کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ (آل عمران: 9)۔ اب ایمان اور ہدایت کے بعد اے اللہ تو ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا۔ کبھی ہمیں یہ خیال نہ آئے کہ ہم بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں۔ کبھی دنیا کی چمک دمک ہمیں راستے سے ہٹانے والی نہ بن جائے۔ کبھی یہ خیال نہ آئے کہ جماعت کے متفرق چندے ہیں، ہمارے پہ ایک بوجھ ہے۔ ہمیشہ یہ سوچ رہے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس زمانے میں ہمیں اللہ تعالیٰ پہلوں سے ملاتے ہوئے اپنے دین کی خاطر قربانیوں کی توفیق دے رہا ہے۔ یہ فضل عظیم جو ہم پر ہوا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ نسلاً بعدنسلٍ قائم رکھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور اخلاص کا کام ہے۔ پس ضرور ہے کہ ہزار در ہزار آدمی جو بیعت کرتے ہیں ان کو کہا جاوے کہ اپنے نفس پر کچھ مقرر کریں اور اس میں پھر غفلت نہ ہو‘‘۔ (البدرجلد2نمبر26۔ مورخہ 17؍جولائی 1903ء صفحہ 202)
آج گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمومی طور پر وہ احمدی جو اچھی طرح نظام جماعت میں پروئے گئے ہیں قربانیوں کی عظیم الشان مثالیں قائم کرتے ہیں، بعضوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ لیکن دنیا میں اکثرجگہ نئے شامل ہونے والوں میں سے، نومبائعین کی مالی قربانی کی طرف توجہ نہیں اور ان کو شامل نہیں کیا گیا، کوشش نہیں کی گئی جس طرح کوشش کی جانی چاہئے تھی۔ اور یہ بھی میرے نزدیک جماعتی نظام کی کمزوری ہے۔ اگر نظام جماعت شروع دن سے کوشش کرتا تو کچھ نہ کچھ چاہے ٹوکن کے طور پر ہی لیں، قربانی کی عادت ڈالنی چاہئے تھی۔ جہاں کوشش ہوئی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھے نتیجے نکلے ہیں۔ پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نئے آنے والوں پر ان کی کسی نیکی کی وجہ سے یہ فضل فرمایا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان لیا۔ اب اس فضل کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بناتے ہوئے اور عبادات کے ساتھ اپنے ایمان میں ترقی کی بھی انتہائی ضرورت ہے۔
اس طرح بچوں کو بھی زیادہ سے زیادہ کوشش کرکے کسی نہ کسی چندے کی تحریک میں ضرور شامل کرنا چاہئے اور اس کے لئے مَیں نے گزشتہ سال کہا تھا کہ وقف جدید میں بچوں کو زیادہ شامل کریں۔ اللہ تعالیٰ جماعتوں کو بھی اور والدین کو بھی اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ کوشش اور تعاون کی توفیق عطا فرمائے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود مشکل حالات کے جماعت کا قدم ترقی کی طرف ہی ہے۔ اگر ایک جماعت نے کچھ سستی دکھائی ہے تو دوسری جماعت نے اس کی کمی کو پورا کر دیا۔ لیکن اگر جماعتیں مزید توجہ کریں تو جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اس میں خاص طور پر شاملین کی تعداد کے لحاظ سے مزید گنجائش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کیا جائے۔ چاہے وہ معمولی رقم دیں کیونکہ اس سے ہم ایمان میں ترقی کے مقصد کو حاصل کرتے ہیں۔ اب مَیں وقف جدید کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار پیش کروں گا۔ گزشتہ سال جو گزر گیا وہ 51واں سال تھا اور اب 52 واں سال شروع ہو گیا۔ اس میں تمام دنیا کی جماعتوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی طور پر 31لاکھ 75ہزار پاؤنڈ کی قربانی پیش کی ہے جو کہ گزشتہ سال کی وصولی سے ساڑھے سات لاکھ پاؤنڈ زیادہ ہے۔ الحمدللہ اور ہمیشہ کی طرح دنیا بھر کی جماعتوں میں پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلی پوزیشن پہ ہے۔ وقف جدید کے چندہ دہندگان میں پاکستان نے اس سال 10ہزار نئے چندہ دینے والوں کا اضافہ کیا ہے۔ پاکستان کی اکثریت غریب ہے۔ اور ان پہ بھی وہی مثال صادق آتی ہے جس کا ایک حدیث میں ذکر آتا ہے۔ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ گیا۔ پوچھا کس طرح؟ فرمایا کہ ایک شخص کے پاس دو درہم تھے اس نے ایک درہم چندہ دے دیا جب تحریک کی گئی اور دوسرے کے پاس لاکھوں درہم تھے اس نے اس میں سے ایک لاکھ درہم دیا گو کہ اس نے زیادہ رقم دی لیکن قربانی کے لحاظ سے وہ ایک درہم بڑھ گیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3 مسند ابو ہریرۃ صفحہ 396حدیث نمبر 8916 عالم الکتب بیروت 1998ء)
اسی طرح پاکستان میں اکثریت غریب لوگوں کی ہے۔ اسی طرح افریقہ کے بعض ممالک ہیں تو بہت سارے ایسے ہیں جن کے پاس معمولی رقم ہوتی ہے اس میں سے چندہ دے کر قربانی کر رہے ہوتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس طرح چندہ دیتے ہیں اور کس طرح پھر گزارا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بہترین اجر عطا فرمائے۔
امریکہ دوسرے نمبر پر ہے۔ انہوں نے گو تعداد میں 256 کا اضافہ کیا ہے لیکن ان کی وصولی گزشتہ سال سے بھی تقریباً 80ہزار کم ہے۔ شایدڈالر کی قدر میں کمی کی وجہ سے کم ہوگئے ہوں گے۔ تو اب ان کے شامل ہونے والوں کی کل تعداد 8ہزار 276 ہے۔
یورپ اور امریکہ وغیرہ امیر ممالک کے وقف جدید کے یہ چندے انڈیا اور افریقہ کے ممالک میں مساجد مشن ہاؤس اور لٹریچر اور دوسری جماعتی اخراجات پر خرچ ہوتے ہیں۔ اس لئے ان ملکوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ رقم کے لحاظ سے بھی اضافہ ہو اور تعداد کا جو اضافہ ہے یہ تو بہرحال ضروری ہے ہی۔ مَیں نے ناصرات اور اطفال کو توجہ دلائی تھی، میرے خیال میں یہ 256کا جو اضافہ ہوا ہے یہ ناصرات اور اطفال کی کوشش ہے، جماعت کی کوشش نہیں ہے۔ بہرحال یہ خوش آئند چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آئندہ آنے والی نسلوں میں یا چھوٹے بچوں میں مالی قربانی کی روح پیدا ہو رہی ہے۔
تیسرے نمبر پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے برطانیہ ہے۔ انہوں نے بھی (یعنی آپ نے جو سامنے بیٹھ ہوئے ہیں) اس سال 86ہزار پاؤنڈ زیادہ ادائیگی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے شامل ہونے والوں کی تعداد میں بھی 1382 کا اضافہ ہوا ہے اور کل چندہ دہندگان کی تعداد 14ہزار 519 ہو گئی ہے۔ ماشاء اللہ برطانیہ کی جماعت بھی اب آگے بڑھنے والوں میں شامل ہے اور تیزی سے آگے بڑھنے والوں میں شامل ہے۔ یہ تعداد ایک تو جرمنی سے آنے والوں کی وجہ سے بڑھی ہے اور کچھ ناصرات اور اطفال کی وجہ سے بڑھی ہوگی۔
کینیڈا جو ہمیشہ سے پانچویں نمبر پر رہا ہے اب چوتھے نمبر پر آ گیا ہے انہوں نے بھی ایک لاکھ 80ہزار کی زائد وصولی کی ہے اور 378 نئے شامل کئے ہیں اور 13ہزار 325ان کی کل تعداد ہے۔ ان کا جو دفتر اطفال ہے یعنی بچیاں اور بچے وہ اللہ کے فضل سے زیادہ فعال ہے۔
جرمنی چوتھے سے پانچویں پوزیشن پر چلا گیا ہے۔ گو 32ہزار یورو کا اضافہ ہوا ہے لیکن چندہ دھندگان میں 1387کی کمی ہے۔ جو ان کے اور شعبہ مال کے خیال میں اس لئے ہے کہ ان میں سے بہت سارے لوگ جرمنی سے یہاں آ گئے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں کچھ کوشش میں بھی کمی ہے۔
چھٹے نمبر پر ہندوستان کی جماعتیں ہیں۔ ان کی وصولی بھی اپنے لحاظ سے 17لاکھ روپے پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہے اور شاملین ایک لاکھ 16ہزار 120ہیں۔ ہندوستان کو بھی اب مَیں کہتا ہوں کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ دنیا کے جو حالات ہو رہے ہیں۔ اس کے پیش نظر اب ہر جماعت کو خود اپنے آپ کو سنبھالنا چاہئے۔ ابھی تک تو یورپ اور امریکہ سے مدد کی جاتی تھی ہو سکتا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے کہ مددنہ ہو سکے۔ اسی طرح افریقن ممالک کو بھی خود اپنے آپ کو سنبھالنا چاہئے۔
انڈونیشیا کا ساتواں نمبر ہے ان کا بھی 32ہزار پاؤنڈ کا اضافہ ہے اور 829 افرادکا اضافہ ہے اسی طرح بیلجیئم، فرانس، سوئٹزر لینڈ آٹھویں، نویں اور دسویں پوزیشن پہ ہیں۔ چندہ دینے کے لحاظ سے امریکہ دنیا میں نمبر 1پہ ہے۔ ان کا چندہ 78.92پاؤنڈہے۔ پھر فرانس ہے۔ پھر سوئٹزر لینڈ ہے۔ پھربرطانیہ ہے۔ پھر بیلجیئم ہے۔
افریقہ کی جماعتوں میں نائیجیریا اس سال تحریک جدید میں بھی اوّل تھا اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید میں بھی اس کی پہلی پوزیشن ہے اور سب سے اچھی بات ان کی یہ ہے کہ گزشتہ سال ان کے چندہ دہندگان 13ہزار 729تھے اس سال انہوں نے 10ہزار اور 69کا اضافہ کیا ہے اور یہ بڑا اضافہ ہے، ماشاء اللہ، ان کی 23ہزار 700تعداد ہے لیکن یہاں بھی مزید گنجائش ہے۔
پھر غانا ہے یہاں بھی 3 ہزار 776 نئے شامل ہوئے ہیں۔ پھر بورکینا فاسو ہے۔ بینن ہے، سیرالیون ہے۔
وقف جدید کے مالی نظام میں چندہ دینے والوں کی کل تعداد اللہ کے فضل سے 5لاکھ 37ہزار سے اوپر چلی گئی ہے اور اس سال 27ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ بعض ممالک کی رپورٹس مکمل نہیں ہیں۔ اس لئے تعداد میں یہ اضافہ آخری نہیں کہا جا سکتا۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی ایک دفعہ کہہ چکا ہوں کہ بچوں کو توجہ دلائیں، بچوں میں جتنا اضافہ ہوتا ہے اگر اس کا نصف بھی ہر جماعت اپنے میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے تو تعداد کہیں زیادہ بڑھ سکتی ہے بچوں کی طرف سے بے شک پچاس پینس ہی ادا کریں لیکن ان کو ایک عادت ہونی چاہئے۔ اسی طرح نومبائعین ہیں ان کو بھی ٹوکن کے طور پر دینے کی بھی عادت ڈالیں اور وقف جدید میں ان کو شامل کریں۔ بعض اور ممالک بھی ہیں جن میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ مڈل ایسٹ کی جماعتیں بھی خداتعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیوں کے میدان میں بہت زیادہ آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو پہلی دس پوزیشنوں پہ ہے۔
انگلستان کی وصولی کے لحاظ سے جو پہلی دس جماعتیں ہیں، ان میں ووسٹر پارک، لندن مسجد، سٹن، ٹوٹنگ، نیو مالڈن، انر پارک، ویسٹ ہل، بیت الفتوح آٹھویں نمبر پر، ہنسلو نارتھ، نویں نمبر پر، میچم دسویں نمبر پر ہے۔ امریکہ کی جو پہلی پانچ جماعتیں ہیں ان میں نمبر1 سیلیکان ویلی، لاس اینجلس ایسٹ، شکاگو ویسٹ، ڈیٹرائٹ اور پانچویں نمبر پر لاس اینجلس ویسٹ۔
پاکستان کے بالغان کا جوچندہ ہے اس میں پہلی تین جماعتیں ہیں لاہور نمبر1، کراچی نمبر 2 اور ربوہ نمبر3 اور پھر اضلاع میں پہلی دس جماعتیں ہیں۔ سیالکوٹ، راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، نمبر7 میرپور خاص آٹھویں نمبر پر ملتان 9 سرگودھا اور دس گجرات۔
وہاں کیونکہ دفتر اطفال کا علیحدہ انتظام رکھا جاتا ہے اس کے لحاظ سے بچوں میں پہلی پوزیشن لاہور کی ہے، دوسری کراچی کی (وہی بالغان والی ترتیب) اور تیسری ربوہ کی۔ اور اطفال میں اضلاع کے لحاظ سے نمبر ایک اسلام آباد ہے، نمبر 2سیالکوٹ نمبر3 گوجرانوالہ، نمبر4شیخوپورہ، راولپنڈی، فیصل آباد، میرپور خاص، سرگودھا، نارووال، اور گجرات، پاکستان میں بعض اور جماعتیں بھی ہیں جنہوں نے غیر معمولی قربانی کی ہے لیکن بہرحال ان کی پوزیشن نہیں ہے۔
جرمنی کی پہلی پانچ جماعتیں ہیں نمبر1پہ ہمبرگ، پھر گروس گراؤ، پھر ویز بادن، فرید برگ اور فرینکفرٹ۔
کینیڈا کی جماعتوں میں مجموعی لحاظ سے کیلگری نارتھ ایسٹ نمبر1، کیلگری نارتھ ویسٹ، رچمنڈہل، ٹورنٹو سینٹرل، درھم، مارکھم، پیس ویلج ساؤتھ، ایڈمنٹن، پیس ویلج ایسٹ، سسکاٹون۔ انہوں نے کیونکہ اطفال کا بھی علیحدہ کیا ہوا ہے اس لئے اطفال کی پوزیشن یہ ہے۔ کیلگری نارتھ ایسٹ، درہم، پیس ویلج ساؤتھ، ابورڈ آف پیس، کیلگری نارتھ ویسٹ، ٹورنٹو سنٹرل، ایڈمنٹن، پیس ویلج ایسٹ، پیس ویلج سنٹرل، وڈ بریج۔ تو یہ ان کی گزشتہ سال کی مالی قربانیوں کی تمام فہرست ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور جماعت کی ترقی کی صورت میں بھی اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو بے انتہا پھل عطا فرمائے اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہر احمدی کا مقصد اور مطمح نظر رہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو دعاؤں کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16شمارہ 5 مورخہ 30 جنوری تا 5 فروری 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
محرم الحرام میں شیعہ سنی اختلافات کو ختم کرنیکی کوشش کرنی چاہئے۔ فلسطین پر مظالم کا ذکر اور اس حوالے سے امتِ مسلمہ کی بے حسی کا ذکر۔ وقفِ جدید کے نئے سال کااعلان۔ چندہ دینے پر کسی قسم کا فخر نہیں ہونا چاہیے۔ نو مبائعین کی طرف چندوں کے نظام میں شامل کرنے کے لئے کوشش نہیں کی گئی یہ نظام جماعت کی کمزوری ہے۔ اس میں بچوں کو بھی زیادہ سے زیادہ شامل کریں۔
فرمودہ مورخہ 9؍جنوری 2009ء بمطابق9؍صلح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔