اللہ تعالیٰ کی صفت الکافی کی پُر معارف تشریح

خطبہ جمعہ 16؍ جنوری 2009ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

ایک مومن جس کو خداتعالیٰ کی صفات کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم ہے اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کَافِی ہے۔ بعض لوگوں کو پوری طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک نہیں ہوتا تب بھی ماحول کے زیر اثر بعض الفاظ اور فقرات سن سن کر وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے حوالے سے بات کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفتِ کَافِی بھی ایسی ہی ایک صفت ہے جس کا ذکر ایک مسلمان کسی نہ کسی حوالے سے کرتا رہتا ہے۔ بہت سے موقعوں پر جب چاہے ظاہری طور پر ہی سہی اپنی قناعت اور شکر گزاری کا اظہار کرنا ہو تو یہ الفاظ اکثر ہمیں سننے میں ملتے ہیں کہ اللہ کَافِی ہے یا ہمیں اللہ کَافِی ہے۔ لیکن ایک حقیقی مومن جس کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک ہے وہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی صفت کا اظہار کرتا ہے تو بہرحال اس صفت کی گہرائی کو جانتے ہوئے کرتا ہے۔ مَیں اللہ تعالیٰ کی اس صفت کَافِی کا ذکر کر رہا تھا۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سی آیات میں، مختلف سورتوں میں، مختلف مضامین اور حوالوں کے تحت فرمایا ہے۔

لغات میں بھی اس لفظ کے مختلف معانی لکھے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے طریق رکھا ہوا ہے، بیان کر دیتا ہوں تاکہ اس کے وسیع معانی بھی ہر ایک کے علم میں آ جائیں۔ تو یہ چند ایک مختصر معانی بیان کرتا ہوں۔ کَفٰی۔ اس کے معانی ہیں کسی چیز کا کافی ہونا، کسی شے یا کسی ذات پر قناعت کرنا یا تسلی پانا۔ اور اگر دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے زیادہ کون سی ایسی ہستی ہے جو انسان کے لئے کافی ہے، یا تسلی دینے والی ہے یا جس کے انعاموں پر انسان ہر وقت انحصار کر سکتا ہے۔ لین (Lane) جو ایک انگریزی۔ عربی ڈکشنری کی کتاب ہے، لغت ہے اور اس میں بہت ساری لغات کو اکٹھاکیا ہوا ہے یہ معنی مَیں نے وہاں سے لئے ہیں۔ پھر آگے ایک جگہ لکھا ہے۔ ’’کَفَانِیْ فُلَانٌ اَلْاَمْرَ‘‘۔ مطلب ہے کہ کسی خاص معاملے میں فلاں شخص پر میں نے اکتفا کیا یا قناعت کی۔ یعنی اگر اچھی بات ہے تو اس کے ذریعہ سے حاصل کی اور اگر کوئی بری چیز ہے تو اس کے ذریعہ سے اس برائی سے بچا۔

یہاں بھی گو محدود پیمانے پر بعض لوگ بعض اشخاص کے کام آ جاتے ہیں لیکن اصل خداتعالیٰ کی ذات ہے جس کی طرف جانے سے اچھائیوں کا اور برائیوں کا پتہ لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی نشاندہی فرما دی کہ کون کون سی نیکیاں ہیں اور کون کون سی برائیاں ہیں۔ پھر ایک معنی لکھے ہیں کہ کَفٰی مِنْ کا مطلب ہے کسی چیز کو کسی سے دور کرکے اسے بچانا اور محفوظ رکھنا جب یہ کہیں کہ کَفٰی وَ شَرّ اس کا مطلب ہے اس نے برائی کو اس سے دور کیا جس سے پھر یہ مطلب نکلا کہ اس کا دفاع کیا اور اسے آزاد کروایا۔ اس لغت کے مطابق یہ خدا اور انسان دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔

لسان العرب میں ایک حدیث کے حوالے سے اس کے معنی بیان کئے گئے ہیں۔ حدیث بیان کی ہے کہ مَنْ قَرَأَ الْاٰیٰتَیْنِ مِنْ آخِرِ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ فِیْ لَیْلَۃٍ کَفَتَاہُ اَیْ اَغْنَتَاہٗ عَنْ قِیَامِ الَّلِیْل۔ (لسان العرب زیر مادہ کفی)

جس نے رات کے وقت سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات پڑھیں تو وہ اس کے لئے کافی ہوں گی یعنی وہ دونوں آیات رات کے قیام سے اسے مستغنی کر دیں گی۔

بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ یہ دو آیات سب سے کم تعداد ہے جو رات کو قیام کے وقت قراءت کے لئے کافی ہیں۔ اسی طرح بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ یہ دونوں آیات شر کے مقابلے پر کافی ہیں اور مکروہات سے بچاتی ہیں۔ اگر ان پر غور کیا جائے اور ان آیات کے معانی ہر ایک پر واضح ہوں تو ان آیات میں بہت ساری باتیں آ جاتی ہیں۔ اس میں دعائیں بھی ہیں اور شر سے بچنے کے راستے بھی بتائے گئے ہیں اور ایمان میں پختگی کے راستے بھی بتائے گئے ہیں۔ اس حدیث کے حوالے سے بعض سوال اٹھ سکتے ہیں کیونکہ اس سے بعض دفعہ یہی معنی ظاہر ہوتے ہیں کہ پڑھ لیا تو کافی ہو گیا اس لئے اس وقت مَیں ان آیات کے حوالے سے کچھ وضاحت کروں گا۔ سورۃ بقرہ کی آخری دو آیات میں سے پہلی آ یت یہ ہے اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۔ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۔ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ۔ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ (البقرہ: 286)۔

اور آخری آیت یہ ہے کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ (البقرہ: 287)

ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی اس رسول پر اس کے ربّ کی طرف سے نازل کیا گیا۔ اس پر وہ خود بھی ایمان رکھتا ہے اور مومن بھی ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے رسولوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا حکم سن لیا اور ہم دل سے اس کی اطاعت کرتے ہیں اور ان کی یہ دعا ہے کہ اے ہمارے ربّ! ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اور تیری طرف ہی ہمیں لوٹنا ہے۔ اور دوسری آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص پر اس کی طاقت سے بڑھ کر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ جو اس نے اچھا کام کیا وہ اس کے لئے نفع مند ہو گا اور جو اس نے برا کام کیا ہو گا وہ اس پر وبال بن کرپڑے گا۔ اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! اگر ہم بھول جائیں یا کوئی غلطی کر بیٹھیں تو ہمیں سزا نہ دینا اور اے ہمارے ربّ! ہم پر اس طرح ذمہ داری نہ ڈال جس طرح تو نے ان لوگوں پر ڈالی تھی جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اسی طرح اے ہمارے ربّ ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں۔ ہم سے درگزر کر ہمیں بخش دے ہم پر رحم کر۔ توُ ہمارا مولا ہے پس کافروں کے گروہ کے خلاف ہماری مدد کر۔

تو جیسا کہ اس ترجمہ سے واضح ہو گیا کہ کیوں آنحضرتﷺ نے یہ آیات رات کو پڑھنے کو کافی قرار دیا۔ پہلی آیت میں تزکیہ نفس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ۔ اس کے فرشتوں پر ایمان لاؤ۔ اس کی کتابوں پر ایمان رکھو اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو۔ کیونکہ یہ ایمان میں کامل ہونے کا ذریعہ ہیں اور یہ ایمان صرف زبانی اقرار نہیں ہے بلکہ عقیدے کے لحاظ سے بھی اور عمل کے لحاظ سے بھی ضروری ہے اور یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان اس وقت مضبوط ہوتا ہے جب تقویٰ میں ترقی کی طرف قدم بڑھ رہے ہوں۔ اس کے فرشتوں پر ایمان اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی ذمہ داریاں متروک نہیں ہو گئیں۔ بلکہ آج بھی وہ اپنے مفوضہ فرائض ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح پہلے انبیاء پر جو کتابیں اتریں وہ بھی یقینا خداتعالیٰ کی طرف سے تھیں۔ لیکن یہ اور بات ہے کہ زمانے نے ان میں بگاڑ پیدا کر دیا۔ لیکن بہرحال وہ کتابیں ان رسولوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتری ہوئی کتابیں تھیں۔ خداتعالیٰ نے ان کتابوں کی بھی ہر اچھی تعلیم قرآن کریم میں محفوظ کرکے پہلی کتب کی تصدیق بھی کر دی اور قرآن کریم کی حفاظت کی ضمانت دے کر آئندہ کے لئے اس شرعی کتاب کے تاقیامت ہر قسم کی تحریف سے پاک رہنے کا اعلان بھی فرما دیا اور پھر تمام رسولوں پر ایمان کی طرف اس میں توجہ دلائی ہے۔ یہ اسلام کی خوبی ہے کہ تمام رسولوں کو ماننے کا حکم ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ تمام سابقہ رسولوں کو مانو بلکہ رسولوں پر ایمان ہے اور قرآن کریم اور آنحضرتﷺ نے مسیح موعودؑ کے آنے کا بتایا اور جوراستہ کھول دیا تو یہ راستہ کھول کر آئندہ آنے والے رسولوں کو ماننے اور ایمان لانے کا بھی اس میں حکم فرما دیا۔ اب یہ ان نام نہاد مسلمان علماء کی بدقسمتی ہے جنہوں نے نہیں مانا کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق مبعوث ہونے والے انبیاء کی بعثت کے طریق کو چھوڑ کر اس طریق پر مسیح موعود کے نازل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق نہیں ہے۔ قرآن پر ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود قرآن کی اس بات کا ردّ کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ فوت ہو گئے اور کوئی شخص جو اس دنیا میں آئے کبھی زندہ آسمان پر نہیں جاتا، بلکہ اس کی روح جاتی ہے۔ اس دنیا میں آنے والی ہر چیز فانی ہے۔ اس آیت میں تو تمام رسولوں پر ایمان کی بات ہے۔ پھر یہ لوگ مسیح موعودؑ کا انکار کرکے تمام رسولوں پر ایمان کی بھی نفی کر رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی عام مسلمانوں کو جن کا علم محدود ہے ان کو اپنے پیچھے لگا کر ان کے ایمان میں بھی رخنہ پیدا کر رہے ہیں۔ پس اس حقیقت کو ان لوگوں کو سمجھناچاہئے۔ حدیثیں بھی پڑھتے ہیں۔ قرآن بھی پڑھتے ہیں۔ جہاں واضح طور پر ان باتوں کی طرف اشارہ ہے اور پھر بھی نہیں سمجھتے۔ تو ان کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ جس طرح ہمیشہ انبیاء آئے ہیں اسی طرح مسیح موعودنے بھی آنا تھا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خداتعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو اس کی دلیلیں بھی پیش کی ہیں۔ خداتعالیٰ کی فعلی تائید بھی ان کے سچا ہونے کی شہادت دے رہی ہے۔ اب ان لوگوں کو چاہئے کہ عقل کریں اور اس مسیح موعود کو مان کر مومنین کے گروہ میں شامل ہوں۔ اس گروہ میں شامل ہوں جو سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاکہنے والے ہیں اور جنہوں نے سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا پہ عمل کیا وہی پھرغُفْرَانَکَ رَبَّنَا یعنی اے ہمارے ربّ ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں، کی اس دعا کے بھی صحیح حقدار بنیں گے اور بنتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے پر اللہ تعالیٰ کی جنت کو حاصل کرنے والے بھی بنیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مسلمان بھائیوں کو بھی اس حقیقت کو سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے۔

اگلی آیت جو سورۃ البقرہ کی آخری آیت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے شروع ہی اس بات سے کیا ہے کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات انسانی وسعت کے اندر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے احکام دیتا ہی نہیں جو انسانی طاقت سے باہر ہوں۔ لوگ کہتے ہیں جی فلاں حکم بڑا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا کوئی حکم ایسا نہیں جو طاقت سے باہر ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ہمیں حکم ہے کہ تمام احکام میں، اخلاق میں، عبادات میں، آنحضرتﷺ کی پیروی کریں۔ پس اگر ہماری فطرت کو وہ قوتیں نہ دی جاتیں جو آنحضرتﷺ کے تمام کمالات کو ظلی طور پر حاصل کر سکتیں تو یہ حکم ہمیں ہرگز نہ ہوتا کہ اس بزرگ نبی کی پیروی کرو۔ کیونکہ خداتعالیٰ فوق الطاقت کوئی تکلیف نہیں دیتا‘‘۔ طاقت سے بڑھ کر کوئی تکلیف نہیں دیتا۔ ’’جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا‘‘۔ (حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 156)

پس یہ جو فرمایا ہے کہ یہ آخری دو آیات کافی ہیں۔ یہ صرف پڑھ لینے سے نہیں بلکہ پہلی آیت میں ایمان پر مضبوط ہونے کا حکم ہے اور جب ایمان مضبوط ہو جائے تووہ اس قسم کی حرکت کر ہی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی کچھ باتوں کو تو مانے اور کچھ کو نہ مانے اور ردّ کردے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُسوہ تمہارے لئے رسول اللہﷺ کا قائم ہو گیا۔ اس لئے ایمان کی انتہائیں حاصل کرنے کے لئے اس اُسوہ پر چلنے کے راستے تلاش کرو اور یہ کبھی خیال نہ آئے کہ بعض احکامات ہماری طاقت سے باہر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف حالتوں میں بعض ایسی سہولتیں بھی دے دی ہیں۔ اسلام میں دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سہولتیں ہیں۔ یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ بعض احکامات ہماری پہنچ سے باہر ہیں جن پہ عمل نہیں ہو سکتا۔ اگر انسان دین کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ سہل پسندنہ ہو تو کوئی حکم ایسا نہیں جو بوجھ لگ رہا ہو۔ اگر دنیاوی کاموں کے لئے انسان محنت اور کوشش کرتا ہے تو دین کے معاملے میں کیوں محنت اور کوشش نہیں کر سکتا؟

پس یہ واضح ہو کہ آخری دو آیات پڑھ لینے سے انسان تمام دوسرے احکامات سے آزادنہیں ہو جاتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو غور کرکے پڑھے گا پھر وہ اس پر عمل بھی کرے گا۔ قیام اللیل سے انسان کس طرح مستغنی ہو سکتا ہے؟ جبکہ آنحضرتﷺ نے اس کا نمونہ ہمارے سامنے پیش فرما دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آپ کا اُسوہ ہمارے لئے قابل تقلید اور پیروی کرنے کے لئے ہے۔ اگر اس کا کوئی مطلب ہو سکتا ہے تو اتنا کہ ان آیات پر غور کرنے سے اللہ تعالیٰ کی مدد سے ایمان میں اتنی ترقی ہو گی کہ عبادتوں کے لئے جاگنااور توجہ دینا کوئی بوجھ نہیں لگے گا۔

بخاری میں اس حدیث کے الفاظ صرف اس قدر ہیں کہ مَنْ قَرَأَ بِالْاٰیٰتَیْنِ مِنْ آخِرِسُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ فِیْ لَیْلَۃٍ کَفَتَاہُ یعنی جس نے رات کے وقت سورۃ بقرہ کی دو آیات پڑھیں تو وہ دونوں آیات اس کے لئے کافی ہو گئیں۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل سورۃ البقرۃ حدیث 5009)

اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے اور اس کا رحم اور بخشش مانگنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا تو پھر ایمان میں یہ ترقی ہوتی ہے جو کافی ہوتی ہے اور عبادات اور نیک اعمال کی طرف پھر توجہ پیدا ہو گی۔ ورنہ اگر یہ خیال ہو کہ صرف آیات پڑھ لینا کافی ہے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمانے کے بعد کہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالا جاتا پھر یہ کیوں کہا کہ لَھَا مَاکَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَااکْتَسَبَتْ۔ یعنی انسان اگر اچھا کام کرے گا تو اس کا فائدہ اٹھائے گا اور اگر برا کام کرے گا تو نقصان اٹھائے گا۔

صرف آیت کے یا ان آیات کے الفاظ دوہرا لینے سے تو مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ یہاں توجہ اس طرف کروائی کہ اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال پر ہر وقت نظر رکھنی پڑے گی اور جب یہ توجہ ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی اپنے بندے پر پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ کے بندے کی ایمان میں ترقی اسے اللہ تعالیٰ کے قریب کر رہی ہو گی اور اس کی بخشش کا سامان کرے گی نہ کہ پھر جس طرح عیسائی کہتے ہیں اس کو کسی کفارے کی ضرورت ہوگی۔ پس روزانہ پھرجس طرح یہ آیت پڑھنے سے نیکیوں کے کمانے کی طرف توجہ رہے گی۔ ایک مومن رات کو جائزہ لے گا کہ کون کون سی نیکیاں مَیں نے کی ہیں اور کون کون سی برائیاں کی ہیں۔ پھراگر نیکیوں کی زیادہ توفیق ملی ہو گی، اگر شام نے یہ گواہی دی ہو گی کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا تو شکر گزاری کے جذبے کے تحت ایک مومن پھر اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکے گا اور ایک مومن کو کیونکہ نفس کے دھوکے کا بھی خیال رہتا ہے اس لئے وہ پھر خداتعالیٰ سے یہ عرض کرتا ہے کہ اگر میرا جائزہ جو مَیں نے شام کو لیا ہے نفس کا دھوکہ ہے تو پھر بھی مجھ پر رحم کر اور بخش دے اور مجھے نیکیوں کی توفیق دے اور اگر کھلی برائیاں سارے دن کے اعمال میں نظر آ رہی ہیں تو پھر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور بخشش اور رحم کے لئے ایک مومن جھکتا ہے۔

آیت کے اگلے الفاظ اسی طرف توجہ دلاتے ہیں اور دعا کی طرف مائل کرتے ہیں۔ یہ الفاظ بھی تزکیہ نفس کے لئے جامع دعا ہیں۔ کیونکہ تزکیہ نفس ہی ہے جو خداتعالیٰ کے قریب کرتا ہے اور بندہ دعا کے ذریعہ سے پھر اللہ تعالیٰ کا قرب پاتا ہے اور یہ دعائیں کیونکہ خداتعالیٰ نے سکھائی ہیں اس لئے اگر نیک نیتی سے کی ہو ں اور دل سے نکلی ہوں تو اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پاتی ہیں۔ پہلے دعا یہ سکھائی کہ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا۔ یعنی اے اللہ ! اگر ہم سے بھول چوک ہو جائے یا کوئی خطا ہو جائے تو ہمیں سزا نہ دینا۔ ایک مومن یہ عرض کرتا ہے کہ ہم اپنے ایمان میں ترقی کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیں گے۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیں گے۔ تیرے تمام احکامات پر عمل کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیں گے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں گے۔ لیکن پھر بھی ایک بشر ہونے کے ناطے اگر ہم کبھی غیرارادی طور پر یا اپنی سستی کی وجہ سے ان تمام باتوں پر عمل کرنا بھول جائیں یا اگر ہم سے ان کاموں کی ادائیگی کے دوران کوئی غلطی ہو جائے، نیکی کا کام کرنے کے دوران بھی شیطان پھسلا دے اور وہ نیکی دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بن جائے جبکہ خود اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ہوا ہے کہ صدقہ و خیرات کرو لیکن ایسا صدقہ یا نیکی جس کے پیچھے تکلیف پہنچانا یا احسان جتانا ہو اس کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا ہے۔ اس دعا کے ساتھ یہ مدد مانگی کہ کبھی ایسی صورت ہو جائے تو ہمارا مواخذہ نہ کرنابلکہ ہمیں اپنے رحم اور فضل سے سیدھے راستے پر ڈال دینا تاکہ ہمارا کوئی عمل تیری رضا کے حاصل کئے بغیر نہ ہو۔

پھر فرمایا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا یعنی اے خدا !ہم پر وہ ذمہ داری نہ ڈالنا جو تو نے ان لوگوں پر ڈالی جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ یعنی ہم سے کوئی ایسا فعل سرزدنہ ہو جو تیری رضا کے خلاف ہو۔ ہم ہمیشہ تیرے احکامات پر عمل کے پابند رہیں اور ان لوگو ں کی طرح نہ بن جائیں جو ہم سے پہلے گزرے اور جنہوں نے تیرے احکامات کو پس پشت ڈال دیا اور تیری ناراضگی کے مورد بن گئے۔ پس ہمیں تو ہر کام کے کرنے کے لئے تیری مدد کی ضرورت ہے۔ کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ ہماری شامت اعمال ہمیں تجھ سے دُور لے جائے۔ کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ ہم تیرے احکامات پر عمل کرنے والے نہ ہوں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا بوجھ انسان پر نہیں ڈالتا جو اس کی طاقت اور وسعت سے باہر ہو۔ پس انسان کی کمزوریاں ہی اسے ان نیکیوں سے دور لے جاتی ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ ہم نے جو تیرے سے عہد کئے ہیں وہ ہم کبھی نہ توڑیں۔ جس طرح پہلے لوگوں نے توڑے اور پھر ان کو سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ اِصْرکے معنی کئی ہیں جن میں سے ایک عہد اور معاہدہ بھی ہے اس لئے اس حوالے سے مَیں نے یہ بات کی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی معنی ہیں مثلاً بہت مشکل قسم کا معاہدہ، بہت بڑی ذمہ داری جس کے نہ کرنے سے پھر سزا ملے، کوئی گناہ یا جرم۔ اس لحاظ سے ایک مومن دعا مانگتا ہے کہ پہلے لوگ اپنے وعدے پورے نہ کر سکے اور وہ وعدے پورے نہ کر کے، معاہدوں پر عمل نہ کرکے، احکامات پر عمل نہ کرکے تیری سزا کے مور د بنے۔ اے اللہ تعالیٰ! تو ہمیں ایسے اعمال سے بچانا۔

پھر فرمایا کہ رَبَّنَا وَلَا تَُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَۃَ لَنَا بِہ کہ اے اللہ ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالنا جس کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ دنیاوی امتحانوں کے ذریعہ سے بھی بندوں کو آزماتا ہے تو یہاں اس حوالے سے بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی قسم کے دنیاوی امتحان اور ابتلاء سے ہمیں بچائے ایسا نہ ہو کہ کوئی بھی امتحان ہماری طاقت سے باہر ہو۔ اصل میں تو مومن کو ہمیشہ روحانی ابتلاؤں کے ساتھ دنیاوی امتحانوں سے بھی بچنے کی دُعا مانگتے رہنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ جب حالات اچھے ہوں تو یاد خدا نہ رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ بعض اوقات دنیاوی لحاظ سے بھی مومنوں کو آزماتا ہے تو ایک مومن اس دعا کو ہمیشہ سامنے رکھتا ہے کہ میرا امتحان کسی بھی طرح میری طاقت سے بڑھ کر نہ ہو۔ کیونکہ بعض دفعہ دنیاوی امتحانوں کی وجہ سے روحانی ابتلاء بھی آ جاتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی قسم کا دنیاوی امتحان لینا بھی ہے تو اتنی طاقت بھی عطا فرمائے کہ مَیں اسے برداشت کر سکوں۔ کئی طریق سے اللہ تعالیٰ آزماتا ہے۔ اولاد کے ذریعہ سے، مال کے ذریعہ سے، اَور بہت سارے ذرائع ہیں۔ تو ہر صورت میں ایک مومن کو خداتعالیٰ کی پناہ کی تلاش کرتے رہنا چاہئے اور ہر دوقسم کے ابتلاؤں سے بچنے کے لئے یہ دعا سکھلائی کہ یہ دعا مانگو کہ وَاعْفُ عَنَّا کہ اگر ارادۃً یا غیر ارادی طور پر بھی ہم نے وہ کام نہیں کئے جو ہمیں کرنے چاہئے تھے اور اس کے نتیجہ میں ابتلاء آیا ہے تو ہم التجا کرتے ہیں کہ ہماری پردہ پوشی فرماتے ہوئے ہمیں معاف فرما اور ہمیں اس کے بد اثرات سے بچا لے۔

پھر فرمایا کہ یہ دعا کرو کہ وَاغْفِرْ لَنَا ہمیں بخش دے۔ غَفَر کے معنی ڈھانکنے کے بھی ہیں اور اس طرح معاملے کو درست کرنے اور اصلاح کرنے کے بھی ہیں اور مٹا دینے کے بھی ہیں۔ گویا یہ دعا ہے کہ اے اللہ! ہمارے تمام ایسے کام جو تیرے نزدیک غلط ہیں ہماری خطامعاف کرتے ہوئے ان کے بداثرات کو مٹا دے اور انہیں ختم کر دے اور آئندہ ہمیں اپنے معاملے درست رکھنے اور ہمیشہ اصلاح کی طرف مائل رہنے کی توفیق بھی عطا فرما تاکہ ہماری خطا ئیں کبھی تیری ناراضگی مول لینے والی نہ بنیں۔ پھر فرمایا یہ دعا کرو وَارْحَمْنَا ہم پر رحم کر۔ یعنی ہمارے سے نرمی اور مہربانی کا سلوک رکھ۔ محض اور محض اپنے رحم کی وجہ سے ہماری غلطیوں کو معاف فرما اور نہ صرف معاف فرما بلکہ تیرے رحم کا تقاضا ہے کہ اس معافی کے ساتھ ہمیں آئندہ غلطیوں سے بچنے اور اپنی رضا کے حصول کی توفیق بھی عطا فرما، ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرما جو تیری رضا حاصل کرنے والے ہوں تاکہ ہم ہمیشہ ان لوگوں میں شمارہوں جن پر تیرے پیار کی نظر پڑتی رہتی ہے اور ان غلطیوں کی وجہ سے ہماری ترقی کی رفتار کبھی کم نہ ہو اور نہ کبھی ہماری غلطیوں کی وجہ سے ہماری ترقی رکے۔

اَنْتَ مَوْلٰنَا تو ہمارا آقا اور مولا ہے اور تیرے علاوہ کوئی نہیں جو ہمارے سے عفو کا سلوک کرے۔ مغفرت کا سلوک کرے۔ رحم کا سلوک کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو اپنے بندوں سے ایک انتہا تک عفو اور مغفرت اور رحم کو لے جاتی ہے۔ ہماری ذاتی کمزوریوں سے بھی جماعت پر اثر نہ آئے کیونکہ بعض دفعہ ذاتی کمزوریوں کی وجہ سے بھی لوگ جماعت پر انگلی اٹھا رہے ہوتے ہیں اور جماعتی کمزوریاں بھی بعض دفعہ ہو جاتی ہیں۔ عہدیداروں کی طرف سے بھی ہو جاتی ہیں تو لوگوں کو جماعت پر انگلی اٹھانے کا کبھی موقع نہ دیں اور جب ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم الٰہی جماعت ہیں اور ہماری کمزوریوں کی وجہ سے دنیا کو انگلی اٹھانے کا موقع ملے تو پھر دنیا یہ کہے گی کہ ان لوگوں کے یہ عمل ہیں اور ان کی وجہ سے خداتعالیٰ ان کو پکڑ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم نہ کیا۔ ہم سے مغفرت کا سلوک نہ کیا اور سزا دی تو دنیا تو پھر یقینا یہی کہے گی کہ ان کے عمل کی وجہ سے خداتعالیٰ ان کو پکڑ رہا ہے اور اس دنیا میں ہمیں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگنی چاہئے کہ اگر یہ ہو گا تو پھر اس سے دنیا میں تیرا پیغام پہنچانے میں روک پیدا ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو جماعت ہے اس کے سپرد یہ تیرا یہ پیغام دنیا میں پہنچانے کاجو بھی کام کیاگیاہے اس میں پھر روک پیدا ہو گی۔ پس تجھ سے بھیک مانگتے ہیں کہ اے ہمارے مولیٰ! ہم سے سختی کا سلوک نہ کر۔ ہماری غلطیوں پر ہماری اصلاح کرتا رہ اور ہمیں سیدھے راستے پر چلاتا رہ اور فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْن کافروں کے خلاف بھی ہمیشہ ہماری مدد کرتا رہ اور ان پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔ ہم تو کمزور ہیں یہ غلبہ تیرے فضل اور ہم پر تیری خاص نظر سے ہونا ہے اس لئے ہمیں انفرادی طور پر بھی اور من حیث الجماعت بھی اُن لوگوں میں شامل رکھ جو تیرے خاص انعام اور پیار کے ہمیشہ مورد بنے رہتے ہیں۔ اپنے فضل سے ایک امتیاز ہم میں اور ہمارے غیر میں پیدا کر دے تاکہ ہمارے مادی معاملات بھی اور ہمارے روحانی معاملات بھی تیرا تقویٰ اور تیرا خوف دل میں لئے ہوئے انجام پانے والے ہوں تاکہ جس مقصد کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعو دؑ کو قبول کیا ہے وہ مقصد حاصل کرنے والے بن سکیں۔ جب یہ سوچ لے کر ہم آخری دو آیات کو پڑھیں گے تو ہمارا قبلہ بھی پھر صحیح رُخ پر رہے گا اور ہم ان آیات کی برکات سے فیض پانے والے ہوں گے۔ ورنہ صرف الفاظ کو پڑھ لینا تو کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ نہ ہی یہ کافی ہو سکتا ہے۔ بے شک قرآنی الفاظ میں برکت ہے لیکن یہ برکت نیک دل کو ملتی ہے۔ اگر دل میں نیکی نہیں تو جس طرح نمازیں بعض نمازیوں کے منہ پر ماری جاتی ہیں اسی طرح اس قرآن پڑھنے والے کو جھوٹا کرکے اس کے اوپر الٹا دیا جائے گا۔

یہ آیات اس لئے کافی ہیں کہ انسان کا ایک مکمل جائزہ اپنے سامنے آجاتاہے جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھاکہ اس میں ایمان بھی ہے، دعائیں بھی ہیں، نیک اعمال بجا لانے کی طرف توجہ بھی ہے۔ تو اصل میں حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک بندہ اس طرح پر اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے تو عملاً یہ اظہار کر رہا ہوتا ہے کہ میرے لئے سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور پھر ایسے شخص کے لئے آنحضرتﷺ نے ضمانت دی ہے کہ ان آیات کا نازل کرنے والا اس بندے کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔ اُس کو برائیوں سے بچاتا ہے۔ نیکیوں کی توفیق دیتا ہے۔ اس میں قناعت پیدا کرتا ہے۔ اس کے ہم و غم میں اسے تسلی دیتا ہے۔ اسے شیطان سے محفوظ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں ان آیات کو سمجھتے ہوئے ان کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

میرا خیال تھا کہ قرآن کریم کی بعض اور آیات بھی اس صفت کے حوالے سے بیان کروں گا۔ یہ مضمون کافی لمبا ہے باقی آئندہ انشاء اللہ۔

اس وقت میں ایک دعا کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ دو خطبوں میں بھی اس طرف توجہ دلائی تھی کہ فلسطینیوں کے لئے دعاؤں کی بہت ضرورت ہے۔ ان کے حالات تو اب خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور وہ ظلم کی بڑی خطرناک چکی میں پس رہے ہیں اور اسرائیلیوں کا ظلم بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے جو ہمدرد تھے اب تو ان میں سے بھی کئی چیخ اٹھے ہیں۔ یہ چیخ و پکار اوپری ہے یا واقعی حقیقت میں ان کو احساس ہوا ہے لیکن شور اب بہرحال مچ رہا ہے۔ پہلے خاموش بیٹھنے والے بھی یہی لوگ تھے۔ اگر ابتداء سے ہی انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ کرتے تویہ حالات نہ ہوتے۔ ان ملکوں کی جو یہ خاموشی رہی ہے، یہ بھی ظلم کا ساتھ دینے والی بات ہے اور ظلم کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ بہرحال معصوم بچے، عورتیں اور بوڑھے جس بے دردی سے شہید کئے جا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے بھی رحم اور فضل کی دعا مانگیں، اس وقت ہم ان مظلوموں کی صرف یہی مدد کر سکتے ہیں۔ اور دوسرے UN کی بعض منظور شدہ تنظیمیں ہیں اور خود UN کا ادارہ بھی ہے جو ان مریضوں اور بھوکوں کے لئے وہاں دوائیاں اور خوراک پہنچا رہے ہیں۔ گو کہ یہ انتظام اتنا معیار ی تو نہیں۔ بعض جگہوں پہ صحیح طرح پہنچ بھی نہیں رہا لیکن پھر بھی اگر ایک قسم کی مادی مدد کی جاسکتی ہے توصرف ان ذرائع سے ہی ان کی مدد ہو سکتی ہے۔ اسی طرح Save The Children ایک تنظیم ہے اور دوسری تنظیمیں ہیں، یہ تنظیمیں وہاں مدد کر رہی ہیں تو ان تنظیموں کی بھی جوڈونیشن مانگتی ہیں ہمیں مدد کرنی چاہئے اور ہیومینیٹی فرسٹ بھی کچھ کرکے ان کے ذریعہ سے بھیجے گی اور جماعتی طور پر بھی انشاء اللہ مدد ہو گی۔ یہ مدد احمدیوں کو ضرورکرنی چاہئے جن جن کو توفیق ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ ان معصوموں پر رحم فرمائے اور ظالم کو پکڑے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلدنمبر 16 شمارہ نمبر 6 مورخہ 6فروری تا 12 فروری 2006ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 16؍ جنوری 2009ء شہ سرخیاں

    حدیث کے مطا بق سورۃ البقرۃ کی آخری  دو آیتوں کے رات کو پڑھنے پراُن کے کافی ہونے کے حوالے سے لطیف تشریح۔ مومن کو ہمیشہ ابتلاؤں سے بچنے کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔ ہماری ذاتی اور جماعتی کمزوریوں کی وجہ سے لوگوں کو انگلیاں اٹھانے کا موقعہ نہ ملے۔ اہلِ فلسطین کے لئے دعا اور مدد کی تحریک کہ وہ ظلم کی بڑی خطرناک چکی میں پس رہے ہیں۔ 

    فرمودہ مورخہ 16؍جنوری 2009ء بمطابق16؍صلح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور