کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کیلئے کافی نہیں؟
خطبہ جمعہ 23؍ جنوری 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ان آیات کی تلاوت فرمائی:
فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ کَذَبَ عَلَی اللّٰہِ وَ کَذَّبَ بِالصِّدۡقِ اِذۡ جَآءَہٗ ؕ اَلَیۡسَ فِیۡ جَہَنَّمَ مَثۡوًی لِّلۡکٰفِرِیۡنَ۔ وَ الَّذِیۡ جَآءَ بِالصِّدۡقِ وَ صَدَّقَ بِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ۔ لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ذٰلِکَ جَزٰٓوٴُا الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔ لِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ اَسۡوَاَ الَّذِیۡ عَمِلُوۡا وَ یَجۡزِیَہُمۡ اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ الَّذِیۡ کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ۔ اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ ؕ وَ یُخَوِّفُوۡنَکَ بِالَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ۔ وَ مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ مُّضِلٍّ ؕ اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِعَزِیۡزٍ ذِی انۡتِقَامٍ (الزمر آیات 33-38)
یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں یہ سورۃالزمر کی 33سے38 نمبر کی آیات ہیں۔ ترجمہ ان کا پڑھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پس اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور سچائی کو جھٹلا دے جب وہ اس کے پاس آئے، کیا جہنم میں کافروں کے لئے ٹھکانہ نہیں ہے اور وہ شخص جو سچائی لے کر آئے اور وہ جو سچائی کی تصدیق کرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو متقی ہیں۔ ان کے لئے ان کے ربّ کے حضور وہ کچھ ہو گا۔ جو وہ چاہیں گے۔ یہ ہو گی حسن عمل کرنے والوں کی جزا تاکہ جو بدترین اعمال انہوں نے کئے ان کے اثرات اللہ ان سے دور کر دے اور جو بہترین اعمال وہ کیا کرتے تھے ان کے مطابق انہیں اُن کا اجر عطا کرے۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں اور وہ تجھے ڈراتے ہیں، ان سے جو اُس کے سوا ہیں اور جسے اللہ گمراہ قرار دے دے تو اس کے لئے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے اللہ ہدایت دے دے تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں۔ کیا اللہ کامل غلبے والا اور انتقام لینے والا نہیں ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بات شروع فرمائی کہ دو قسم کے لوگ ظالم ہوتے ہیں اور اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں، اپنی ہلاکت کے سامان کرتے ہیں۔ ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا غلط طریق پر دعویٰ کرتے ہیں۔ اور دو سرے وہ لوگ ہیں جو سچائی کو جھٹلاتے ہیں۔ ایک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو سچے انبیاء کو، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والوں کو جھٹلاتے ہیں جب وہ ان کے پاس آتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنا پیغام دے کر انبیاء کو بھیجتا ہے۔ جب نبی مبعوث ہوتے ہیں تو ایک گروہ ایسا ہے جو ان کو جھٹلاتا ہے اور انہیں یہ کہتا ہے کہ تم جھوٹے ہو اور خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو۔
اس مضمون کو قرآن کریم نے اور جگہ بھی بیان فرمایاہے۔ سورۃ العنکبوت کی آیت 69 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہٗ (العنکبوت: 69) اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ کر افتراء کرتا ہے اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو سکتا ہے۔ یا اُس سے (زیادہ ظالم کون ہو سکتاہے) جو حق کو اُس وقت جھٹلاتا ہے جب وہ اُس کے پاس آتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’افتراء کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور مفتری ہمیشہ خائب و خاسر رہتا ہے۔ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰی (طٰہٰ: 62)‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 545 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اور آنحضرتﷺ کو فرمایا کہ اگر توُ افتراء کرے تو تیری رگ جان ہم کاٹ ڈالیں گے اور ایسا ہی فرمایا وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا (العنکبوت: 69) کہ ایک شخص ان باتوں پر ایمان رکھ کر افتراء کی جرأت کیونکر کر سکتا ہے؟ یعنی اللہ تعالیٰ آنحضرتﷺ کو بڑا واضح طور پر فرماتا ہے کہ جو جھوٹ بولنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنے والے ہیں ہم ان کی جو رگ جان ہے وہ کاٹ دیں گے اور ان کو خائب وخاسر کریں گے۔ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے گا ذلیل و رسواء ہو جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ایک شخص ان باتوں پر ایمان رکھ کر افتراء کی جرأت کیونکر کر سکتا ہے۔ پھر فرمایا کہ ظاہری گورنمنٹ میں اگر ایک شخص فرضی چپڑاسی بن جائے تو اس کو سزا دی جاتی ہے اور وہ جیل میں بھیجا جاتا ہے تو کیا خداتعالیٰ کی ہی مقتدر حکومت میں یہ اندھیر ہے کہ کوئی محض جھوٹا دعویٰ مامور من اللہ ہونے کا کرے اور پکڑا نہ جائے بلکہ اس کی تائید کی جائے۔ اس طرح تو دہریت پھیلتی ہے۔ خداتعالیٰ کی ساری کتابوں میں لکھا ہے کہ مفتری ہلاک کیا جاتا ہے‘‘۔ (الحکم جلد8نمبر12مورخہ 10؍اپریل 1904ء صفحہ 7۔ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد 3صفحہ624)
تو جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر الزام دیتے ہیں ان کا بھی اس بات میں ردّ کیا گیا ہے کہ ایک ظاہری حکومت کی طرف منسوب کرکے اگر کوئی آدمی بات کرتا ہے، چاہے کسی افسر کا چپڑاسی بن کے کسی کے پاس حکم لے کے چلا جائے اور جھوٹ بولے اور پکڑا جائے تو اس کو بھی سزا ملتی ہے۔ تو کیا خداتعالیٰ کی طرف جو باتیں منسوب کی جاتی ہیں یا کوئی شخص جو یہ کہتا ہے کہ مَیں اللہ تعالی ٰکی طرف سے ہوں اور وہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اتنی بھی طاقت نہیں کہ اس کو پکڑ لے اور سزادے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھے۔ یعنی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جب انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے بات کرتے ہیں تو وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہوں یا اللہ تعالیٰ کی طرف جو باتیں وہ منسوب کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ نہ کرے۔
پس اللہ تعالیٰ کا مختلف جگہوں پر قرآن کریم میں اس حوالے سے فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بنیادی اور اصولی بات ہے کہ جو بھی خداتعالیٰ پر افتراء کرے گا، جھوٹ بولے گاوہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ ئے گا۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ حق اور سچائی کو جھٹلانے والا جو دوسرا گروہ ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی کی نافرمانی کرنے والا ہوگا تو وہ بھی خداتعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا۔
تو دو قسم کے گروہوں کا یہاں ذ کر ہے۔ ایک وہ جو اللہ تعالیٰ پر غلط افتراء کرے اللہ تعالیٰ اسے بھی پکڑتا ہے۔ دوسرا وہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کو جھٹلائے اللہ تعالیٰ اسے بھی پکڑتا ہے اور دونوں ہی گروہ اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں۔ پس انبیاء کا انکارکرنے والے جب یہ کہتے ہیں کہ اس نے اپنی طرف سے باتیں بنا لیں اور خداتعالیٰ نے اس کو قطعاً نبوت کا درجہ دے کر نہیں بھیجا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا افتراء کرے گا ہم اسے پکڑیں گے۔ جو نشانیاں اور ثبوت نبی کے لئے ظاہر ہوئیں انہیں دیکھ کر انہیں قبول کرنے کی کوشش کرو۔ نبوت اپنے روشن نشانوں کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور ہر نیا دن یہ روشن نشان دکھاتا چلا جاتا ہے۔ پس منکرین نبوت کو یہ ایسی دلیل دی گئی ہے کہ ان میں عقل ہو تو یقینا ہوش کریں اور ہوش کرنی چاہئے۔ یہ الزامات آنحضرتﷺ سے پہلے انبیاء پر بھی لگے تھے اور پھر آنحضرتﷺ کی ذات مقدس پر بھی لگے تھے اور یہی الزامات آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پر بھی لگ رہے ہیں۔ سورۃ زمر کی اس آیت سے پہلے کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تعلیم کو جامع بتا کر یہ اعلان کیا تھا کہ اس جامع تعلیم کے بعد اب کوئی اعتراض کرنے کا جواز نہیں رہتا۔ قرآن کریم اپنی ذات میں خود بھی بہت بڑا نشان ہے۔ بلکہ اس کی ہر ہر آیت اور ہر ہر لفظ ایک اعجاز ہے اور اللہ تعالیٰ نے کفّار کو اس کو قبول کرنے کی نصیحت فرمائی لیکن اس کے باوجود کفار نے انکار کیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سختی اور سزا سے کام لیا اور پھر ان لوگوں نے آنحضرتﷺ کو قبول کیا۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم میرے بھیجے ہوؤں کا انکار کرتے ہو تو اس دنیا میں یا اگلے جہان میں میری پکڑ کے نیچے آتے ہو۔ پس عقل کا تقاضا یہی ہے کہ اس ہٹ دھرمی کو چھو ڑو۔ اگلی آیت میں بتایا کہ تقویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوف کا دل میں ہونے کا اظہاریہی ہے کہ جو سچائی کے پیغام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوا ہے اس کو قبول کرو۔ کیونکہ یہی چیز تمہیں کامیابیاں بھی عطا کرے گی اور تقویٰ میں مزید بڑھائے گی۔ اور یہ بھی ایک نبی کے سچا ہونے کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کامیابیاں نصیب کرتا چلا جاتا ہے۔
سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْکَذَّبَ بِاٰیٰتِہ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ (یونس: 18) پس جو اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھے یا اس کے نشانات کو جھٹلائے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا۔ یقینا مجرم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ دونوں طر ح کے مجرم کامیاب نہیں ہوں گے۔ نہ وہ کامیاب ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر بہتان لگاتے ہوئے یہ کہے کہ مَیں خداتعالیٰ کی طرف سے ہوں۔ نہ وہ کامیاب ہو سکتے ہیں جو ایک سچے نبی کا انکار کرنے والے ہوں۔ پس اس سے بھی ظاہر ہے کہ دو قسم کے لوگ ہیں جو سزا سے نہیں بچ سکتے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ایک وہ جو غلط دعویٰ کرکے اسے خداتعالیٰ کی طرف منسوب کریں اور دوسرے وہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے پیغام لانے والے کا مقابلہ کریں اور یہ ایسی بات ہے جو ہر عقل رکھنے والا سمجھ سکتا ہے۔ تبھی تو فرعون کی قوم کے ایک آدمی نے کہا تھا کہ وَاِنْ یَّکُ کَاذِباً فَعَلَیْہِ کَذِبُہٗ وَاِنْ یَّکُ صَادِقاً یُّصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ (المومن: 29) کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا۔ اگر وہ سچا ہے تو اس کی کی ہوئی بعض انذاری پیشگوئیاں تمہارے متعلق پوری ہو جائیں گی۔
پس ان مسلمانوں کے لئے بھی جو آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے مسیح مو عود کو نہیں مانتے غور کرنے کا مقام ہے۔ مسلمانوں کے پاس تو ایک ایسی جامع اور محفوظ کتاب ہے جس کی حفاظت کا خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایاہے اور غیر بھی باوجود کوشش کے اس میں کسی قسم کی تحریف تلاش نہیں کر سکے۔ چودہ سو سال سے وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جمع کرکے مسلمانوں کو ہوشیار کیا ہے کہ یہ قصے کہانیاں نہیں، تمہاری حالت بھی پہلی قوموں جیسی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ (یونس: 18) کہ مجرم لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے، تسلی دلا دی ہے کہ بے شک جھوٹے دعویدار ہو سکتے ہیں لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اور کامیابی کا معیار کیا ہے؟ یہ ہے کہ اپنی تعلیم اور بعثت کے مقصد کو وہ دنیا میں پھیلا نہیں سکتے جس طرح خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والے پھیلاتے ہیں۔ بے شک ان کی چھوٹی سی جماعت بھی بن سکتی ہے۔ ان کے پاس دولت بھی جمع ہو سکتی ہے۔ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن جو خداتعالیٰ کی طرف سے دعویدار ہو کر آتا ہے وہ ایک روحانی مقصد کو لے کر آتا ہے۔
انبیاء آئے تو وہ یا نئی شریعت لے کر آئے تاکہ دنیا میں ایک روحانی انقلاب پیدا کریں اور انسان کو خداتعالیٰ کے قریب کریں یا پرانی تعلیم کی تجدید کے لئے آئے تاکہ بھٹکے ہووں کو پھر سے اس تعلیم کے مطابق جو شرعی نبی لائے تھے خداتعالیٰ کے قریب کریں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والوں کابنیادی معیار ہے۔ اگر کوئی د عویٰ کرتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے لیکن یہ دو مقصد حاصل نہیں کرتا تو خداتعالیٰ پر افتراء باندھ رہا ہے۔ اگر وہ لوگوں میں روحانی انقلاب پیدا نہیں کر رہا اگر وہ لوگوں کو خداتعالیٰ کے قرب کی طرف راہنمائی نہیں کر رہا، ان میں ایک انقلاب پیدا نہیں کر رہا تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غلط ہے۔
اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر مفتری ہونے کا نعوذ باللہ الزام لگایا جاتا ہے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا آپؑ نے شریعت میں بدعات پیدا کیں یا اس میں کوئی کمی بیشی کی یا اس کے برخلاف قرآن کریم کی حکومت کو اپنے اوپر لاگو کرنے کا حکم دیا۔ آپؑ کی تحریریں پڑھ لیں۔ ہر جگہ یہ ملے گا کہ قرآن کی حکومت قائم کرو۔ کیا نمازوں میں کوئی کمی کی یا کسی اور رکن اسلام میں کوئی کمی کی؟یا سنت رسول اللہﷺ کی جو باتیں ہم تک تصدیق کے ساتھ پہنچیں، ان میں کوئی کمی یا بیشی کی؟ یا اس کے برخلاف ان تمام چیزوں کو خوبصورت رنگ میں نکھار کر ہمارے سامنے پیش کیا اور اگر جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ ہمارے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو مزیدنکھار کر، چمکا کر پیش کیا۔ آپؑ تو قرآن کریم کی شریعت جس کو دنیا بھول چکی تھی نئے سرے سے قائم کرنے کے لئے آئے تھے اور آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آئے تھے۔
پھر یہ دیکھنے والی بات ہے کہ کیا آپؑ کی جماعت پھیل رہی ہے یا وہیں کھڑی ہے یا کم ہو رہی ہے یا ایک دفعہ پھیلی اور پھر سکڑ گئی۔ خاندانوں کے افرادنہیں بلکہ خاندانوں کے خاندان اور ملکوں میں گروہ در گروہ لوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ اس کے مقابلہ پر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے جو الزام لگانے والے ہیں، ان میں کتنے ایسے ہیں جو قرآن کریم کی تعلیم میں ہی ناسخ اور منسوخ کے چکر میں پڑے ہیں۔ فرقہ بندیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل میں پڑ کر بعض احکامات سے دُور ہٹ گئے ہیں اور بعض ایسی بدعات پیدا کر لی ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اب اگر پاکستان، ہندوستان اور ایسے ملکوں میں چلے جائیں تو وہاں قبروں پر چڑھاوے ہیں، پیروں کے دَروں پر جا رہے ہیں، وہ پیر جو کبھی نمازیں بھی نہیں پڑھتے تھے۔ ان سے فریادیں کی جاتی ہیں، ان سے مانگا جاتا ہے۔ قبروں سے مانگا جاتا ہے۔ کیا یہ تمام چیزیں کبھی آنحضرتﷺ کے زمانے میں تھیں؟ یا آپؐ نے ان کا حکم دیا؟ تو ان لوگوں نے تو خود اسلام میں بدعات پیدا کر لی ہیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دعویدار، بہاء اللہ اٹھا۔ اگراس کا دعویٰ نبوت ماناجائے تو اس کی سچائی اس لئے ثابت نہیں ہو سکتی کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس کے ساتھ نہیں تھیں۔ کسی بھی موقع پر ہمیں نظر نہیں آئیں۔ اگر غور سے دیکھاجائے تو کوئی روشن نشان پیش نہیں کیا۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ شریعت اسلامی کو جو آخری شریعت ہے جس نے قیامت تک رہنا ہے، اس کو ناقص ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس وجہ سے بے شک ایک وقت میں کافی تعداد میں اس کے ماننے والے بھی اس کے ساتھ ہو گئے۔ لیکن اس کی مقبولیت، قرآن کریم کی مقبولیت اور شریعت کی مقبولیت کے مقابلے میں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ بلکہ اب تو بہاء اللہ کی شریعت ماننے والے اِکّا دُکّا اِدھر اُدھر نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ اور قرآن کریم آج بھی دنیا کے ایک طبقہ کی طرف سے بڑی سوچی سمجھی سکیم کے باوجودکہ اسے بدنام کیا جائے، استہزاء کا نشانہ بنایا جائے، دنیا میں پھیل رہا ہے۔ جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہی لاکھوں لوگ اس کی تعلیم کے نیچے آ کر اپنی ابدی نجات کے سامان پیدا کر رہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ جو جھوٹے ہیں فلاح نہیں پا سکتے۔ تو یہ ہے ان کا فلاح پانا۔ دنیاوی دولت اکٹھی ہو جانا یا ایک گروہ پیدا کر لینا کامیابی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم کا اس کے مقابلہ پر لاکھوں گنا پھیلنا اور اس میں ترقی ہوتے چلے جانا، یہ اصل فلاح اور کامیابی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے انبیاء جب اس مقصد کے لئے آتے ہیں تو پھربڑے روشن نشانات کے ساتھ آتے ہیں۔ زمین و آسمان کی تائیدات ان کے ساتھ ہوتی ہیں اور یہ لوگ ہوتے ہیں جوپھر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے فلاح کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں۔ اوریہی دلیل ہے جو آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے کی سچائی کی بھی تصدیق کرتی ہے۔ پس وہ لوگ جو احمدیوں کو بہائیوں کے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں، کئی جگہ ذکر چلتا رہتا ہے۔ ان کو بھی ذرا عقل کے ناخن لینے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ معیار کے مطابق فیصلہ کریں۔ پھر دیکھیں کہ کیا دونوں ایک چیز ہیں۔ پھر یہ بتانے کے بعد کہ سچائی لے کے آنے والا جو روشن نشانوں اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ساتھ سچائی لے کر آتا ہے، غلط اور جھوٹ اس کی طرف منسوب نہیں کرتا۔ اور حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہوتا ہے۔ ایک ہی مضمون کی یہ تین مختلف آیات جو مَیں نے پیش کیں تھیں ان میں یہی ہے کہ اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو غلط باتیں منسوب کرے۔ اور پھر فرمایا کہ اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو قبول نہیں کرتے۔ ان میں بتایا کہ جو قبول نہیں کرتے وہ صدق کو جھٹلاتے ہیں۔ دوسری آیت میں فرمایا کہ وہ حق کو جھٹلاتے ہیں۔ تیسری آیت میں فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا اپنے پیغام اور قول میں سچا ہوتا ہے کہ یقینا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ وہ جس پیغام کو لے کر آتا ہے وہ حق ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا حقیقی پیغام ہوتا ہے اور خود ظاہر کر رہا ہوتا ہے کہ یہ خداتعالیٰ کا پیغام ہے اور وہ پیغام اللہ تعالیٰ کی آیات نشانات اور تائیدات لئے ہوئے ہوتا ہے۔
جو آیات مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں سے تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس تائید یافتہ اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو ماننے والے جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں اپنے ربّ سے ہر وہ چیزیں پائیں گے جو وہ چاہیں گے۔ انہیں اطمینان قلب بھی نصیب ہو گا، اُن کے اندر قناعت بھی پیدا ہو گی، ان کے اندر نیکیاں کرنے کی خواہشات بھی پیدا ہوں گی۔ یہاں جو یہ فرمایا کہ وہ جو چاہیں گے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر وقت دنیا کی فانی چیزوں کی خواہش کرتے ہیں اور وہ انہیں ملتی رہیں گی بلکہ پہلے تقویٰ کا ذکر کرکے یہ بتا دیا کہ وہ یہی چاہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں انعامات سے نوازے گا۔ ان کی خواہشات اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو جائیں گی اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ(حٰم السجدہ: 31) کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے دوست رہیں گے اور آخرت میں بھی تمہارے دوست رہیں گے اور یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ محسنین کو جزاء دیتا ہے۔ حسن عمل کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ نیک اعمال بجا لانے والوں کو جزا دیتا ہے۔ ان لوگوں کو دنیا و آخرت کی جنت دیتا ہے جو مستقل مزاجی سے نیک اعمال کئے جاتے ہیں اور تقویٰ پر قائم ہوتے ہیں۔ ایک وفاکا تعلق خداتعالیٰ سے ہوتا ہے۔ اس کو اگلی آیت میں پھر مزید کھولا کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو ماننے کی وجہ سے، تقویٰ پر چلنے کی کوشش کی وجہ سے، اچھے اعمال بجا لانے کی کوشش کی وجہ سے، ایسے اعمال جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ نہیں لیکن انسان سے بشری کمزوریوں کی وجہ سے سرزد ہو جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ پھران کے بداثرات دُور فرمائے گا کیونکہ اس سے پہلے کوشش ہو رہی ہو گی، نیت نیک ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے کس قدر رحمت اور شفقت کو وسعت دیتا ہے اس کا اندازہ اسی بات سے ہو جاتا ہے۔
پھر فرمایا کہ غلطی اور گناہ کی سزا تو اس کے برابر ہے لیکن نیکی کا اجر دس گنا ہے۔ پس سوائے اس کے کہ انسان ڈھٹائی سے گناہوں پر جرأت پیدا کرتا چلا جائے۔ نیکیوں کا ثواب اور اجر گناہوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے تمام بداثرات دور فرما دیتا ہے اور حسن عمل کا پھر انہیں اجر عطا فرماتا ہے۔ وہ اس دنیا میں بھی نیکیوں کی طرف متوجہ رہ کر اپنی دنیا کو جنت بنانے والے بن جاتے ہیں اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی جنت کو حاصل کرنے والے ہوں گے۔
پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کو مان کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطمینان قلب پانا اور نیکیوں میں بڑھنا بھی ایک معیار ہے، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی سچائی کا۔ اور اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی کثرت سے اس بات کے گواہ ہیں بلکہ جو نئے شامل ہونے والے ہیں ان کے اطمینان قلب میں بھی مزید اضافہ ہوتاہے۔ اس مضمون کے کئی خطوط میں روزانہ وصول کرتا ہوں۔ پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَیْْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ (الزمر: 37) کہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے۔ مزید تسلی دلائی۔ پھر الزام لگانے والے الزام لگاتے ہیں کہ یہ جھوٹاہے۔ جس ظلم کا وہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پر الزام لگا رہے ہیں اس ظلم کے وہ اُس کو نہ مان کر خود مرتکب ہو رہے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ ایسے الزام لگانے والوں اور ظلم کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اور جو اس کو قبول کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو اُن کی برائیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے نیکیوں کا اجر دے گا اور مزیدنیکیوں کی توفیق دے گا تاکہ تقویٰ میں بھی بڑھتے چلے جائیں۔ پس یہاں یہ بات بتا کر کہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے، جھٹلانے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے کیونکہ خداتعالیٰ اس کا مدد گار ہے اور اسی طرح اس کے ماننے والوں کا مددگار ہے۔ آنحضرتﷺ کی زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر آپ کی اور آپ کے ماننے والوں کی مدد اور نصرت فرمائی۔ آنحضرتﷺ کی زندگی بھی اور صحابہ کی زندگی بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر لمحہ آپ کی مدد فرمائی، آپ کے صحابہ کی مدد فرمائی۔ بے شک جنگوں میں مسلمان شہید بھی ہوئے لیکن دشمنوں کے مقابلے پر ہمیشہ کم نقصان ہوا۔ یا دشمن وہ مقصد حاصل نہیں کر سکے جو وہ کرنا چاہتے تھے کہ اسلام کو ختم کر دیں۔ اور آج تک ہم دیکھ رہے ہیں کہ آنحضرتﷺ اور قرآن کریم پر مخالفین اسلام نہایت گھٹیا اور رقیق حملے کرتے اور الزام لگاتے ہیں لیکن اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکے۔ اور آج بھی مسلمانوں میں ایک گروہ ہے اور بڑی تعداد میں ہے جو آپ کی لائی ہوئی شریعت کو اصل حالت میں اپنی زندگیوں پر لاگو کر رہا ہے یا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیامت تک کے لئے بھیجے گئے ہیں اور آپؐ کی لائی ہوئی شریعت زندہ ہے اور زندہ رہے گی انشاء اللہ۔ اور دشمنان اسلام کی کوششیں اور دھمکیاں نہ پہلے اسلام کا کچھ بگاڑ سکی تھیں نہ اب بگاڑ سکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مَیں ان کے لئے کافی ہوں۔ اپنے بندوں کو ان کے شر کے بد انجام سے ہمیشہ بچاؤں گا۔ اور اس لئے اس زمانہ میں آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کو اللہ تعالیٰ نے بھیجاکہ نئے جوش اور ولولے سے دشمنان اسلام کے حملوں کو ردّ کریں۔ کاش کہ مسلمان بھی اس حقیقت کو سمجھیں اور اس جری اللہ کی فوج میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے اس زمرے میں شامل ہو جائیں جن سے اللہ تعالیٰ کی مدد کا ہمیشہ وعدہ ہے۔ یہاں یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ تو عبد سے کیا مراد ہے۔ ہم کہہ دیتے ہیں کہ اللہ کا بندہ۔ ہر انسان جو دنیا میں آیا ہے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اس ناطے بندہ ہے۔ طاقت اس کی کوئی نہیں لیکن حقیقی عبد سے مراد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی کامل غلامی کا جو ااپنی گردن پر ڈالتا ہے۔ جو اس کے دین کا مددگار ہے۔ جو نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہِ کا نعرہ لگانے والوں میں شامل ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ بڑائی بیان کرنے والا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ سے گہرا پیار کا تعلق رکھنے والا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے لئے بہت غیرت رکھنے والا ہے۔ یہ لوگ ہیں جو حقیقی عَبْد ہیں۔ اس کے یہ معنی نکلتے ہیں اور اس کا اعلیٰ ترین معیار جس سے اوپر کوئی انسان جا نہیں سکتا وہ آنحضرتﷺ کی ذات ہے اور جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے کافی ہونے کے وہ نظارے دکھائے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہر دشمن سے آپؐ کو اس طرح بچایا کہ کوئی انسان اس کا سوچ بھی نہیں سکتا اور کوئی انسانی طاقت اس کو اس طرح بچا نہیں سکتی۔
ہجرت کے وقت اللہ تعالیٰ آپ کے لئے غار میں کافی ہوا۔ کس طرح بچایا۔ انعام کے لالچ میں آپ کو پکڑنے کے لئے پیچھا کرنے والے کے مقابلہ میں خداتعالیٰ کافی ہوا۔ جنگوں میں خداتعالیٰ کافی ہوا۔ جب آپؐ نہتے تھے اور دشمن کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ اس نے آپ کو سوئے ہوئے جگایا اور پوچھاکہ اب تجھے کون مجھ سے بچائے گا تب اللہ تعالیٰ کافی ہوا۔ پھر صحابہ نے اپنی زندگیوں میں یہ نظارے دیکھے۔ تو یہ آنحضرتﷺ کی سچائی کا ثبوت ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نہ صرف آپ کے لئے بلکہ آپؐ کے صحابہؓ کے لئے، ان بندوں کے لئے بھی کافی ہواجو حقیقی عبد بننے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کے دل سے بندوں کا خوف بالکل ختم ہو گیا اور وہ لوگ خالص اللہ تعالیٰ کے ہو گئے۔ ان کو بھی رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ کی خوشخبری ملی۔ اور جو بدبخت کفار تھے جن کے مقدر میں گمراہی تھی وہ اپنے انجام کو پہنچے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہدایت وہی پاتا ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اور جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔ پس ہدایت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا چاہئے۔ ایمان میں ترقی کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا چاہئے اور ہدایت پا کر پھر اس پر قائم رہنے کے لئے بھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا چاہئے۔ جو ہدایت پاتے ہیں وہ پھر اس معنی میں حقیقی عَبْدبن کر دکھاتے ہیں جو معنی میں نے عَبْدکے بیان کئے اور جانتے ہیں کہ اس میں ہی ان کی ہر قسم کی بقا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ حقیقی غلبہ اللہ تعالیٰ کو ہی حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور ان کی جماعتوں کو نقصان پہنچانے والے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والے اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچ نہیں سکتے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں اور ان کے ماننے والوں کی دشمنی کرنے والوں سے انتقام بھی لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا انتقام ان پر دنیا یا آخرت میں سزا کی صورت میں ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے کہ اس کے پیاروں سے کوئی دشمنی کی جائے اور اس کے لئے پھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے وہ جلوے دکھاتا ہے کہ بعض دفعہ عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کے لئے دنیا میں کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آخرت میں ان سے اچھا سلوک نہ کیا جائے گا۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بھیجے ہوؤں اور ان کے ماننے والوں کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے نشان ہے کہ وہ صرف ان کی سچائی ثابت نہیں کرتا بلکہ ان کو دشمن کے ہر حملے سے بچاتا ہے۔ ان کو تحفظ دیتاہے اور ان کے لئے ہمیشہ نشانات ظاہر فرماتا رہتا ہے۔ اور ان کے مخالفین سے ایسے انتقام بھی لیتا ہے جو اگر اس دنیا میں ہوں تو جیساکہ مَیں نے کہا دنیا کے لئے عبرت کا نشان بن جاتے ہیں اور آخرت میں اس سے بھی زیادہ سزا ہو گی۔
اللہ تعالیٰ کے پیارے اور اس کو ماننے والے اس کے احکامات پر عمل کرنے والے فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ (الفجر: 30)کی خوشخبری پانے والے بنتے ہیں۔ تقویٰ پر چلنے اور احسن عمل کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنتے ہیں اور اس مقام کو سب سے زیادہ حاصل کرنے والی آنحضرتﷺ کی ذات تھی جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا۔ پس اللہ تعالیٰ آپ کی وجہ سے آپ کے غلاموں کے لئے بھی کافی ہو گیا اور ان کے لئے بھی اپنی قدرت کے نظارے دکھائے اور دکھا رہا ہے۔ آپ کے غلاموں میں سے اکمل ترین غلام آپؐ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا یہ حصہ کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کئی مرتبہ الہام کیا۔ پہلی مرتبہ تو آپؑ کے والد صاحب کی وفات پر جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی وفات کی اطلاع دی اور آپ کو فکر پیدا ہوئی تو اس وقت فرمایا کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم میرا بندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہو اور تم جانتے ہو کہ تم میرے بندے ہو اور مجھے تم سے پیار ہے اور مَیں اس کا اظہار بھی پیار کی شکل میں کرتا رہتا ہوں اور یہ الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ بھی اسی پیار کا اظہار ہے جو اللہ تعالیٰ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ والد کے وفات پانے کے بعد تجھے کسی قسم کے فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تیرے ساتھ ہوں۔ ہر ضرورت پوری کروں گا اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ ہر قسم کی فکر معاش سے آزاد کر دیا اور نہ صرف آزاد رکھا بلکہ آپؑ کے ہاتھوں سے ایک دنیا کو کھلایا اور آج تک کھلاتا چلا جا رہا ہے۔ پھر اس کے بعد متعدد مرتبہ یہ الہام ہوا۔ ایک دفعہ نہیں ہوا بلکہ کئی دفعہ ہوا۔ وہاں صرف معاش تک بات محدودنہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کے ہر حملے، ہر کوشش اور ہر تدبیر سے آپ کو بچایا اور آپ کے لئے کافی ہوا بلکہ بعض اوقات فوری انتقام لیتے ہوئے دشمن کو اس سزاکا بھی مورد بنا دیا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر کی تھی۔ اس لئے عبرت کا نشان بن گیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی ایسے کئی واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ جس طرح خداتعالیٰ آپؑ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیﷺ کے لئے کافی ہوتے ہوئے آپؐ کوہمیشہ دشمنوں سے بچاتا رہا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس سچی غلامی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی دشمنوں نے مقدموں کی صورت میں یا اور مختلف حربے استعمال کرکے جو حملے کئے ان سے ہمیشہ آپؑ کو بچایا۔ حکومت کے پاس مخالفین نے شکایات کیں۔ یہاں تک کہ افسران اور پولیس والے آپ کے گھر کی تلاشی تک لینے آ گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے کافی ہونے کا ثبوت دیا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو فرمایا کہ تم اپنے کام کئے جاؤ کفار کو اپنی کوششیں اور استہزا کرنے دو۔ ظلم کر رہے ہیں کرنے دو اور فرمایا کہ اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِ یْنَ (الحجر: 96) یقینا ہم استہزاء کرنے والوں کے لئے تجھے بہت کافی ہیں۔ اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح دشمنان اسلام سے اللہ تعالیٰ نے بدلہ لیا اور ان کے مقابلہ میں کافی ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے جو آنحضرتﷺ کو یہ فرمایا ہے کہ آپ اعلان کریں کہ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران: 32) کہ میری پیروی کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا تو آپ کی پیروی کا سب سے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی وہ مقام عطا فرمایا جو تمام دنیا کو اس زمانہ میں دین واحد پر جمع کرنے کے لئے آپ کو ملا اور یہ سب آنحضرتﷺ کی کامل پیروی اور محبت تھی جس سے خداتعالیٰ نے بھی آپ سے محبت کی اور اس وجہ سے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے بعض آیات یا ان کے کچھ حصے الہاماً فرمائے۔ پہلے بھی مَیں ذکر کر چکا ہوں۔ اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِ یْنَ(الحجر: 96) بھی آپ کے الہامات میں سے ایک الہام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بے شمار موقعوں پر آپ کی تائید میں سامان فرما کر دشمن کو ہمیشہ شرمندہ کیا اور دشمنوں کو کئی موقعوں پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب عزت کے معیار بدل جائیں یا ڈھٹائی کی انتہا ہو جائے تو پھر احساس مر جاتے ہیں۔ پھر آدمی مانتا نہیں کہ مجھے شرمندگی ہوئی۔ ایسے مواقع بھی آئے کہ ایسے بڑے بڑے جبہ پوش جواپنے آپ کو بڑا عالم سمجھتے تھے۔ بڑا معززسمجھتے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے میں آئے تو عدالتوں میں انکو بڑی سبکی اٹھانی پڑی۔
مولوی محمد حسین بٹالوی کا ایک واقعہ ہے کہ جب اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو (عدالت میں ) کرسی پر بیٹھے دیکھ کر کرسی کا مطالبہ کیا تو جج نے ڈانٹ دیا۔ اور پھر وہاں سے نکل کر جب باہر عدالت کے دروازے پر کرسی پر بیٹھنے لگا تو وہاں بھی چپڑاسی نے یا چوکیدار نے کرسی پر بیٹھنے نہیں دیا۔ اگر انسان کو صرف احساس ہو تو اس طرح کی سبکیوں کے واقعات ہوتے ہیں۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں اس طرح کے کئی واقعات ہوئے۔ اس وقت تو بیان کرنے کا وقت نہیں ہے۔
آج بھی مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہ مان کر جو اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ تو حاصل کر سکتے ہیں اور نہ کر سکے اور نہ کر سکیں گے انشاء اللہ لیکن ہم آپ کے سچے ہونے اور آنحضرتﷺ کے غلام صادق ہونے کے ثبوت کے نظارے ہر روز دیکھتے ہیں۔ پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کے ہر موقع پر کافی ہونے کا اظہار، جس کے نظارے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دکھاتا ہے اور اس سے ایمان بڑھتا ہے اور یہ نظارے جو ہم دیکھتے ہیں تو مَیں یہ کہوں گا کہ ہر احمدی کو اس پر غور کرتے ہوئے اپنے ایمان میں ترقی کرنی چاہئے صرف سرسری طور پر نہیں دیکھنا چاہئے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنتے ہوئے اس کے اُن بندوں میں شمار ہونے کی دعا کرنی چاہئے جن کے لئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ کافی ہو جاتا ہے اور یہ صرف اس صورت میں ہو گا جب ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے آنحضرتﷺ کی حقیقی پیروی کرنے والے اور آپ کے عاشق صادق کے ساتھ تعلق میں بڑھنے والے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ہم ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو ہر روز ایک نئی شان سے پورا ہوتا دیکھتے ہیں۔ آج ہم ہی ہیں جو آنحضرتﷺ سے سچا، حقیقی اور عاشقانہ تعلق رکھنے والے ہیں۔ پس ہمارے مخالف اور ہمارے دشمن ہم پر جھوٹے الزام لگانے اور استہزاء کرنے اور بدنام کرنے کے لئے جتنا بھی زور لگا لیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے جس طرح پہلے کافی تھا وہ آج بھی ہمارے لئے کافی اور آئندہ بھی انشاء اللہ کافی ہو گا۔
یہ علماءِ سُوء اور ان کے پیچھے چلنے والے بلکہ پاکستان میں نام نہاد پڑھے لکھے لوگ جو آج کل انصاف کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کو اپنے زعم میں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں یا تضحیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا ایک حالیہ واقعہ سن لیں۔ ہمارے احمدیوں پر کچھ عرصہ ہوا ایک کیس ننکانہ میں بنا تھا اور کیس یہ تھا کہ مولویوں نے کوئی اشتہار لگایا تھاجس کے بارہ میں کہا گیا کہ کسی احمدی نے اس کو دیوار سے پھاڑ دیا یا کچھ احمدیوں نے پھاڑ دیا۔ حالانکہ قطعاً بے بنیاد الزام تھا اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جن کو سامنے بھی گالیاں دی جائیں تب بھی صبر کرتے ہیں۔ اتنی زیادہ صبر کی تلقین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے ہمیں کی گئی ہے اور صبر کرنے کے لئے کہاگیا ہے کہ ہم نے انتقام لینے کی نہ کوشش کی اور نہ بدلہ لینے کی۔ اگر ان کو عقل ہو تو نظر آئے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو مختلف موقعوں پر اپنے مسیح کی جماعت کو تنگ کرنے والوں سے انتقام لیتا ہے۔ بہرحال اس الزام پہ پولیس نے مقدمہ درج کیا۔ چھوٹی عدالت میں پیش ہوا۔ وہاں ضمانت نہیں ہوئی۔ ردّ ہو گیا۔ پھر ہائیکورٹ میں پیش ہوا۔ ہائیکورٹ کے جج صاحب رانا زاہد محمود صاحب ہیں۔ انہوں نے اپنے خداؤں کو خوش کرنے کے لئے جو فیصلہ دیا وہ عجیب ظالمانہ فیصلہ ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایسے ملزم عدالتوں سے دادرسی کا استحاق نہیں رکھتے جو پاک ہستیوں کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک جو سب سے مقدس ہستی ہے وہ تو آنحضرتﷺ کی ذات ہے۔ اور ایک احمدی کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آنحضرتﷺ کی شان میں گستاخی کر ے۔ ہم تو آپ کے حقیقی غلام کے غلام ہیں۔ اور نہ ہی ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جو صحابہ رضوان اللہ علیہم کی شان میں کبھی گستاخی کریں۔ ان جج صاحب کے نزدیک آج کل کے بکاؤ مولوی اگر مقدس ہستیاں ہیں تو ان کے لئے گوہم کہتے کچھ نہیں لیکن ان کی شان میں تعریف بھی نہیں کر سکتے، یہ ان ججوں کا جو ابن الوقت لوگ ہیں مقام ہے کہ ان کی شان میں تعریفیں کریں۔ ہم تو ہمیشہ آنحضرتﷺ اور تمام مقدس لوگوں کی شان کو بڑھانے والے، تعریف کرنے والے اور ان کا مقام پہچاننے والے ہیں۔ تو یہ ہے آج کل کی عدلیہ بلکہ آج کل کیا ایک عرصہ سے پاکستان کی عدلیہ کا یہ حال ہے۔ ان سے تو ہمیں کوئی توقع نہیں ہے۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک رکھنے والے لوگ ہیں۔ اسی سے مانگتے ہیں اور اسی کے آگے جھکتے ہیں اور یہی ہمارے لئے کافی ہے۔ لیکن یہ لوگ ضرور اس پکڑ کے نیچے آئیں گے اور آ بھی رہے ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کو جھوٹا کہے گا۔
پاکستان کے ارباب حل و عقد سے مَیں کہتا ہوں کہ اب بھی عقل کریں اور خداتعالیٰ کے عذاب کو دعوت نہ دیں جس کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے اس کو یہیں روک لیں اور اس کا واحد طریقہ صرف یہی ہے کہ خداتعالیٰ سے معافی مانگ لیں۔ ہم پر جو الزام دیتے ہیں تو اگر کوئی پیمانہ ہو جو یقینا نہیں ہے، آنحضرتﷺ نے نفی فرما دی ہے کہ کوئی ایسا پیمانہ نہیں جو دلوں کے حال جانتا ہو تو۔ بہرحال تم دیکھو کہ ہمارے دلوں میں رسول اللہﷺ کی محبت کا وہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جس کے تم نزدیک بھی نہیں پہنچ سکتے۔
پاکستان کی عوام سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ ان نام نہاد، خود غرض اور بکاؤ مولویوں کے پیچھے چل کر اپنی دنیا و عاقبت خراب نہ کریں۔ خدا کے عذاب کو آواز دینے کی بجائے خدا کی پناہ میں آنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں، ہر احمدی کو ہمیشہ اپنی پناہ اور حفاظت میں رکھے اور ان لوگوں کے شر سے ہمیشہ بچائے۔
پاکستان میں ہر تھوڑے عرصے کے بعد جیسا کہ مولوی مختلف اوقات میں بھڑکاتے رہتے ہیں، کسی نہ کسی احمدی کی شہادت ہوتی رہتی ہے اور یہ بھی اس ظالمانہ قانون کی وجہ سے ہے جو پاکستان کی حکومت نے بنایا ہوا ہے اور اسی قانون نے حقیقت میں ملک میں لاقانونیت کو رواج دے دیا ہے اور آج کل کوئی قانون ملک میں نظر نہیں آتا۔
آج پھر مَیں ایک افسوسناک خبر سنا رہا ہوں کہ ہمارے ایک احمدی بھائی مکرم سعید احمد صاحب جو مکرم چوہدری غلام قادر صاحب اٹھوال کے بیٹے تھے، کوٹری شہر میں رہتے تھے ان کو وہاں شہید کر دیا گیا۔ رات کو تقریباً 9بجے جہاں وہ کام کرتے تھے وہاں سے واپس جا رہے تھے کہ گھر کے دروازہ میں داخل ہوتے وقت کسی نے کنپٹی پر گن یا پسٹل رکھ کر فائر کیا جس سے آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بڑے خدمت خلق کرنے والے تھے۔ ان میں خدمت خلق کا نمایاں جذبہ تھا۔ کسی کی بیماری کا پتہ چلتا تو اس کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیتے۔ نہایت سادہ طبیعت رکھنے والے مخلص انسان تھے اور محنتی بھی بڑے تھے۔ ہر قسم کا کام کرلیتے تھے۔ کوئی عار کبھی نہیں سمجھا۔ مہمان نوازی کی صفت بھی بہت نمایاں تھی۔ صبر اور حلم بھی بہت تھا۔ کسی کو غصے میں بھی جواب نہیں دیا بلکہ خاموش رہتے تھے۔ کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ گوندل فارم سندھ میں ہی آپ کی تدفین ہوئی ہے۔ 2بیٹیاں اور 2بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور بیوی بچوں کو صبر اور حوصلہ دے۔ ابھی نمازوں کے بعد مَیں ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا۔
اسی طرح ایک اور جنازہ ہے۔ جماعت کے ایک دیرینہ خادم مکرم رانا محمد خان صاحب ایڈووکیٹ جو ایک بڑے لمبا عرصہ تک بہاولنگر ضلع کے امیر رہے ہیں۔ آپ کی21جنوری 2009ء کو وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 40سال سے زائد عرصہ تک انہوں نے جماعت کی خدمت کی ہے۔ امیر ضلع بہاولنگر رہے۔ فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ مرکز میں جو مختلف کمیٹیاں قائم ہوتی تھیں ان میں ممبر کی حیثیت سے کام کیا۔ نیک، مخلص، باوفا اور اطاعت شعار تھے۔ خلافت سے بڑا گہرا اور محبت کا تعلق تھا۔ اپنوں اور غیروں سبھی پر ان کا نیک اثر قائم تھا۔ خلافت کی ہجرت کے بعد، پاکستان سے یہاں آنے کے بعد ہمیشہ ہر سال جلسے پر آیا کرتے تھے۔ گزشتہ دو سال سے نہیں آ رہے تھے تو بڑے جذباتی اندازمیں اپنی بے چینی کا اظہار خطوں میں کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ا ن کی اہلیہ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور ان کے ایک بیٹے رانا ندیم احمد خالد صاحب نصرت جہاں سیکنڈری سکول کمپالہ میں بطور پرنسپل خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(الفضل انٹرنیشنل مورخہ 23تا29جنوری 2009 صفحہ5تا8جلد16شمارہ 4)
صفت الکافی۔ انبیاء کی آمد کا مقصد، بنیادی معیار اور کامیابی کا معیار۔ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ بہاء اللہ کے ساتھ اللہ کی تائیدات نہ تھیں، اللہ کے پیغام کو ماننے والوں کی صفات اور اُنہیں ملنے والے انعامات کاذکر۔ قرآن اور اسلام پر غیروں کا حملہ مگر وہ اسلام کو ختم نہ کر سکے۔ دشمنانِ اسلام کی دھمکیاں نہ پہلے کچھ کر سکیں اور نہ اب کچھ کر سکیں گی۔ نبی کریمؐ اور حضرت مسیح موعود ؑ کے لئیخدا کے کافی ہونے کے نمونے۔ ننکانہ کے احمدیوں کا ذکر کہ ان پر الزام کہ انہوں نے مولویوں کے اشتہار پھاڑے اور ہائی کورٹ کے ایک جج رانا زاہد محمود کا انوکھا فیصلہ۔ ایک احمدی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ نبی کریمؐ کی گستاخی کرے۔ پاکستانی عدلیہ کا حال اور ملک میں لاقانونیت کا ذکر اور پاکستان کو وارننگ۔
فرمودہ مورخہ 23؍جنوری 2009ء بمطابق23؍صلح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔