واقعات کی روشنی میں صفت الہادی کا ذکر

خطبہ جمعہ 27؍ فروری 2009ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:

یَھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلَامِ وَیُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَیَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (المائدہ: 17)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس کے ذریعہ اُنہیں جو اس کی رضا کی پیروی کریں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے اور اپنے اِذن سے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لاتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔

یہ اسلام کا خدا ہے جس نے 1500سال پہلے آنحضرتﷺ کو انتہائی تاریکی کے زمانہ میں بھیجا اور آپ کے ذریعہ سے یہ اعلان بھی فرما دیا کہ جب پھر تاریکی کا دور آئے گا تو آخرین میں سے بھی تیرا ایک غلام صادق کھڑا کروں گا جو قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور اس کے ذریعہ سے پھر دنیا اسلام کی حقیقی تعلیم کو جانے گی۔ اسلام کا خدا زندہ خدا ہے جو دنیا کی سلامتی اور ہدایت کے لئے ہر زمانہ میں اپنے خاص بندوں کو بھیجتا ہے تاکہ دنیا کو سیدھے راستے کی طرف چلائیں۔ لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ سعید فطرتوں کو ہدایت دیتا ہے۔ جو اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو ہدایت دیتا ہے۔ جو ہدایت کی تلاش میں ہوتے ہیں انہیں ہدایت دیتا ہے۔

اس وقت مَیں آنحضرتﷺ کے زمانے کے اور پھر آپؐ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے جو اس زمانہ کے بعض واقعات پیش کروں گا جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح کوشش کرنے والوں کی ان کی کسی نیکی کی وجہ سے ہدایت کی طرف راہنمائی فرماتا ہے۔

آنحضرتﷺ کے وقت میں طفیل بن عمرو ایک معزز انسان اور ایک عقلمند شاعر تھے جب وہ ایک دفعہ ایک مشاعرے کے سلسلہ میں مکّہ آئے (کاروبار کے لئے بھی آیا کرتے تھے تو بہرحال ایک سفر میں مکہ آئے) تو قریش کے بعض لوگوں نے انہیں کہا کہ اے طفیل! آپ ہمارے شہر میں آئے ہیں تویاد رکھیں کہ اس شخص (یعنی آنحضرتﷺ کا نام لے کے کہا) نے (نعوذ باللہ) ایک عجیب فتنہ برپا کر رکھا ہے اور اس نے ہماری جمیعت کو منتشر کر دیا ہے۔ بھائی کو بھائی سے لڑا دیا، باپ کو بیٹے سے لڑا دیا، ماں بچوں کو علیحدہ کر دیا۔ بہرحال انہوں نے کہا کہ وہ بڑے جادو بیان ہیں اور اس وجہ سے لوگ ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ آپ قوم کے سردار بھی ہیں اس لئے ان سے بچ کے رہیں اور ان کی کوئی بات نہ سنیں۔ جس طرح آج کل کے مولویوں کا بھی یہ حال ہے کہتے ہیں کہ احمدیوں کی کوئی بات نہ سنو۔ ان سے بچ کے رہو۔ کسی بھی قسم کی مذہبی گفتگو ان سے نہ کرو۔ نہیں تو یہ تمہیں اپنے جادو میں پھنسا لیں گے۔ اور اسی وجہ سے اب تک 1974ء کی اسمبلی میں جو کارروائی ہوئی تھی اس کو انہوں نے چھپا کے رکھا ہوا ہے کہ اس کارروائی سے پاکستان کے لوگوں پہ، قوم پہ واضح ہو جائے گا کہ حق کیا ہے اور صداقت کیا ہے؟

بہرحال طفیلؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے اتنی تاکید کی کہ مَیں نے پکا ارادہ کر لیا کہ مَیں آنحضرتﷺ کے قریب بھی نہیں پھٹکوں گا اور اس وجہ سے کہ کہیں غیر ارادی طور پر ان کی آواز میرے کان میں نہ پڑ جائے، مَیں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی۔ کہتے ہیں کہ جب مَیں خانہ کعبہ میں پہنچا تو مَیں نے دیکھا کہ آنحضرتﷺ کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ غیر ارادی طور پر یا ارادۃ ً بہرحال کہتے ہیں کہ مَیں قریب جا کے کھڑا ہو گیا اور آپؐ کی تلاوت کے چند الفاظ باوجوداس روئی ٹھونسنے کے میرے کان میں پڑ گئے اور مجھے یہ کلام بڑا اچھا لگا۔ تومَیں نے اپنے دل میں کہا کہ میرا برا ہو کہ مَیں ایک عقلمند شاعر ہوں اور برے بھلے کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ آخر اس شخص کی بات سننے میں کیا حرج ہے؟ اگر اچھی بات ہو گی تو مَیں اسے قبول کر لوں گا اور بری ہو گی تو چھوڑ دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے آخر مجھے عقل دی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو نیک فطرتوں کی اس طرح راہنمائی فرماتا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں کچھ دیر مَیں نے انتظار کیا؟ آنحضرتﷺ عبادت سے فارغ ہوئے اور اپنے گھر کی طرف تشریف لے گئے تو مَیں بھی آپؐ کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ آنحضرتﷺ جب اپنے گھر میں داخل ہونے لگے تومَیں نے کہا اے محمد!ﷺ۔ آپؐ کی قوم نے مجھے آپ کے بارے میں یہ یہ کہا ہے کہ بڑے جادو بیان ہیں۔ گھروں میں آپس میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ قوم میں لڑائی اور فتنہ و فساد برپا کر دیا ہے اور اتنا ڈرایا ہے کہ مَیں نے اس وجہ سے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی ہے کہ کہیں آپؐ کی کوئی آواز میرے کان میں نہ پڑ جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر بھی مجھے آپؐ کا کلام سنوا دیا اور جو میں نے سنا ہے وہ بڑا عمدہ کلام ہے۔ مجھے اور کچھ بتائیں۔ طفیلؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے مجھے اسلام کے بارے میں مزید کچھ بتایا اور قرآن شریف پڑھ کے سنایا۔ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم! مَیں نے اس سے خوبصورت کلام اور اس سے زیادہ صاف اور سیدھی بات کوئی نہیں دیکھی۔ تویہ سننے کے بعد پھر مَیں نے اسلام قبول کر لیا اور کلمہ پڑھ لیا۔ پھرمَیں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ مَیں قوم کا سردار ہوں اور امید ہے میری قوم میری بات مانے گی۔ مَیں واپس جا کے اپنی قوم کو اسلام کی تبلیغ کروں گا۔ آپؐ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کامیابی عطا فرمائے اور اس کے مقابلے میں مجھے کوئی تائیدی نشان بھی بتائیں۔ تو آنحضرتﷺ نے ایک دعا کی اور مَیں اپنی قوم کی طرف واپس لوٹا۔ روایت میں ہے کہ جب مَیں جا رہا تھا تو ایک گھاٹی پہ پہنچاجہاں آبادی کا آغازہوتا ہے۔ مَیں نے جیسے روشنی سی محسوس کی، دیکھا کہ میرے ماتھے پر آنکھ کے درمیان کوئی چیز چمک رہی ہے۔ تو مَیں نے دعا کی کہ اے اللہ! یہ نشان میرے چہرے کے علاوہ کہیں دکھا دے کیونکہ اس سے تو میری قوم والے کہیں گے کہ تمہارا چہرہ بگڑ گیا ہے۔ تو کہتے ہیں وہی روشنی کا نشان میری جو سوٹی تھی یا چابک تھی اس کے سرے پر ظاہر ہو ااور جب مَیں سواری سے اتر رہا تھا تو لوگوں نے اس نشان کو دیکھا۔ بہرحال اپنے قبیلے میں پہنچے۔ انہوں نے کہا اگلے دن میرے والد مجھے ملنے آئے تو مَیں نے کہا کہ میرا اور آپ کا تعلق آج سے ختم ہے، انہوں نے کہا وجہ؟ مَیں نے کہا مَیں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور آنحضرتﷺ کی بیعت میں آ گیا ہوں۔ تو والدنے کہا کہ مجھے بھی بتاؤ کیا ہے؟ مَیں نے انہیں کہا کہ جائیں پہلے غسل کریں۔ وہ غسل کرکے، نہاد ھوکے آئے۔ مَیں نے انہیں اسلام کی تعلیم کے بارہ میں بتایا۔ انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ پھر میری بیوی میرے پاس آئی۔ اس کو بھی میں نے یہی کہا کہ تمہارا میرے سے تعلق ختم ہو گیا ہے اور مَیں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ اس نے بھی یہی بات کی۔ اس کو بھی مَیں نے کہا کہ تم پہلے صاف ستھری ہو کے آؤ تاکہ تمہیں اسلام کی تعلیم دوں۔ خیر وہ بھی اسی طرح آئی اور اسلام قبول کر لیا۔

کچھ عرصے بعدپھر انہوں نے اپنی قوم کو بھی تبلیغ شروع کر دی۔ یہ دوس قبیلہ کے تھے۔ لیکن بڑی سخت مخالفت ہوئی۔ یہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اورعرض کی کہ قبیلہ تومیری بڑی مخالفت کر رہا ہے۔ آپؐ میرے قبیلے کے لوگوں کے خلاف بددعا کریں۔ تو آنحضرتﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی کہ اے اللہ! دوس کے قبیلے کو ہدایت عطا فرما۔ پھر آپؓ کو فرمایا کہ واپس جائیں اور بڑی نرمی سے اور پیار سے اپنے قبیلے کو تبلیغ کریں۔ بہرحال کہتے ہیں مَیں تبلیغ کرتا رہا۔ (السیرۃ النبویہ لابن ھشام قصۃ اسلام الطفیل بن عمر الدوسی صفحہ 278-277 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

اس عرصہ میں آنحضرتﷺ مکّہ سے ہجرت کر گئے اور وہاں جاکے بھی کفار مکّہ نے اسلام کے خلاف بڑی شدت سے حملے شروع کر دئیے تو کہتے ہیں کہ جب جنگ احزاب ہوئی تو اس کے بعد میرے قبیلے کے کافی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور بڑی تعداد اسلام میں داخل ہو گئی۔ طفیل بن عمرو، جو طفیل بن عمرو دوسی کہلاتے ہیں اس کے بعدپھر یہ 70 خاندانوں کے ساتھ مدینے میں ہجرت کر گئے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد الطبقۃ الثانیۃ من المہاجرین جزء 4 صفحہ 439-440 دار احیاء التراث العربی بیروت 1996)

پس ہدایت کی جو دعا آنحضرتﷺ نے کی اس کا ایک وقت اللہ تعالیٰ نے رکھا ہوا تھا۔ کئی سالوں کے بعد جا کر اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرمایا اور قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ اس طرح آنحضرتﷺ نے کبھی جلد بازی سے کام نہیں لیا۔

طائف کے سفر پہ گئے تھے وہاں بھی جب فرشتوں نے پہاڑ گرانے کے لئے کہا تو آنحضرتﷺ نے ہدایت کی دعا ہی مانگی تھی کہ اس قوم میں سے لوگ ہدایت پائیں گے۔ تو یہ تھا آپؐ کا طریقہ۔ اسی لئے آپ نے یہ دعا بھی ہمیں سکھائی ہے۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْن۔ (الشفاء لقاضی عیاض جلد اول صفحہ 73۔ الباب الثانی فی تکمیل … المحاسن۔ الفصل: و اما الحلم۔ دار لکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

یہ دعا اس زمانے کے لئے بھی ہے۔ پڑھتے رہنی چاہئے۔ جب آپؑ نے دعویٰ کیاتواس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت بڑھی ہوئی تھی اور جیسا کہ پیشگوئیوں میں تھا اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی تائید میں طاعون کا نشان بھی دکھایا۔ لیکن جب یہ نشان ظاہر ہوا تو اس وقت باوجود اس کے کہ یہ نشان آپؑ کی تائید میں ظاہر ہوا تھا آپؑ کی طبیعت میں ایک بے چینی اور اضطراب تھا اور لوگوں کی ہمدردی کے جذبہ سے بعض دفعہ آپؑ کی حالت غیر ہو جاتی تھی۔

آپؑ کی دعاؤں کا نقشہ، جس طرح آپؑ قوم کے لئے تڑپ کردعا کرتے تھے، حضرت شیخ یعقوب علیؓ صاحب عرفانی نے مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ان دنوں مَیں بیت الدعا کے اوپر حجرے میں تھا اور اس جگہ کو مَیں خاص طور پر بیت الدعا کے لئے استعمال کیا کرتا تھا اور وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حالت دعا میں گریہ وزاری کو سنا کرتا تھا۔ آپؑ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پِتّہ پانی ہوتا تھا اور آپؑ اس طرح آستانہ الٰہی پر گریہ وزاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردزہ سے بے قرار ہو۔ وہ فرماتے تھے کہ مَیں نے غور سے سنا تو آپؑ مخلوق الٰہی کے لئے طاعون کے عذاب سے نجات کے لئے دعا کرتے تھے۔ کہ الٰہی! گر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو جائیں گے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا؟ (سیرت حضرت مسیح موعودؑ کے شمائل و عادات اور اخلاق کا تذکرہ حصہ سوم صفحہ428)

یہ خلاصہ اور مفہوم ہے اس روایت کا جو مولوی عبدالکریم صاحب نے بیان کی کہ باوجودیکہ طاعون کا عذاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب اور انکار کے باعث ہی آیا تھا مگر آپؑ مخلوق کی ہدایت اور ہمدردی کے لئے اس قدر بے چین اور حریص تھے کہ اس عذاب کے اٹھائے جانے کے لئے گہری سنسان رات میں تاریکی میں، رو رو کر دعائیں کر رہے ہیں جبکہ باقی دنیا آرام سے سو رہی تھی۔ تو یہ تھا آپ کا شفقت علی خلق اللہ کارنگ اور بے نظیر نمونہ۔ بہرحال طا عون کا جویہ نشان تھا، یہ بھی بہت سوں کے لئے ہدایت کا باعث بنا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے بیان میں کس طرح بے چینی کا اظہار کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ:

’’اکثر دلوں پر حُبِّ دنیا کا گرد بیٹھا ہوا ہے۔ خدا اس گرد کو اٹھا وے۔ خدا اس ظلمت کو دور کرے۔ دنیا بہت ہی بے وفا اور انسان بہت ہی بے بنیاد ہے۔ مگر غفلت کی سخت تاریکیوں نے اکثر لوگوں کو اصلیت کے سمجھنے سے محروم رکھا ہے۔ ……خداوند کریم سے یہی تمنا ہے کہ اپنے عاجز بندوں کی کامل طورپر دستگیری کرے اور جیسے انہوں نے اپنے گزشتہ زمانہ میں طرح طرح کے زخم اٹھائے ہیں، ویسا ہی ان کو مرہم عطا فرماوے اور ان کو ذلیل اور رسوا کرے جنہوں نے نور کو تاریکی اور تاریکی کو نور سمجھ لیا ہے اور جن کی شوخی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور نیز ان لوگوں کو بھی نادم اور منفعل کرے جنہوں نے حضرت احدیت کی تو جہ کو جو عین اپنے وقت پر ہوئی غنیمت نہیں سمجھا اور اس کا شکر ادا نہیں کیا۔ بلکہ جاہلوں کی طرح شک میں پڑے۔ سو اگر اس عاجز کی فریادیں ربّ العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں جو نور محمدی اس زمانے کے اندھیروں پر ظاہر ہو اور الٰہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلائیں‘‘۔ (مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 512-513 مکتوب نمبر 5 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) (سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 551)

بہرحال آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فریادوں کو قبول فرمایا اور آپؑ کی تائید میں جو نشانات دکھائے اس کے نتیجے بھی ظاہر ہورہے ہیں اور کس طرح قبولیت احمدیت کے نظارے دکھا رہا ہے۔ لوگوں کے دلوں کو کس طرح مائل کرتا ہے اس کے بھی بعض واقعات ہیں۔ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے، مولوی رحیم اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ مولوی رحیم اللہ صاحبؓ اعلیٰ درجہ کے موحّد تھے۔ آپؓ کو اکثر فقراء اور سجادہ نشینوں کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا مگر سب کو شرک کے کسی نہ کسی رنگ میں ملوث پایا اور آپؓ کا دل کسی کی بیعت کے لئے آمادہ نہ ہوا۔ حتیٰ کہ اخوند صاحب سوات کا بھی شہرہ سن کر اتنا لمبا سفر طے کرکے وہاں پہنچے اور بیعت کے لئے عرض کی۔ اخوند صاحب نے مولوی صاحب کو اپنی صورت کا تصور دل میں رکھنے کی تلقین کی۔ اس پر آپؓ چشم پُرآب ہو گئے اور کہا افسوس میرا اتنا دوردراز کا سفر اختیار کرنا رائیگاں گیا۔ اخوند صاحب بھی شرک کی ہی تلقین کرتے ہیں اور پھر بغیر بیعت کئے واپس لوٹے۔

مولوی صاحبؓ صوفی منش اور سادہ طبیعت کے تھے۔ طبیعت میں بڑا انکسار تھا۔ خلوت پسند تھے۔ عاشق قرآن اور حدیث تھے۔ باخدا بزرگ تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خاص مناسبت اور عشق تھا۔ بہرحال بعد میں جب حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آئے تو ان کا یہ حال تھا (جو روایت کرنے والے ہیں، کہتے ہیں ) کہ’’کئی بار نماز پڑھا تے ہوئے عالم بیداری میں آپؓ کو کشفی حالت طاری ہوئی اور نیز آپؓ کو حضرت رسول کریمﷺ اور کئی اور انبیاء کی زیارت بارہا رؤیا و کشوف میں ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت آپؓ پر نہایت عجیب اور بیّن الہام رویاء اور کشف سے واضح ہوئی تھی۔ چنانچہ فرماتے تھے کہ مَیں نے حضرت کے دعا وی کے متعلق استخارہ کیا تو جواب میں ایک ڈولا (یعنی پالکی سی تھی) کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا اور میرے دل میں القاء ہوا کہ حضرت مسیح ؑ آسمان سے اتر آئے ہیں۔ جب پالکی کا پردہ اٹھا کر دیکھا تو اس کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پایا۔ تب مَیں نے بیعت کر لی۔ (ماخوذ ازاصحاب احمد جلد اول صفحہ 66-65 مطبوعہ ربوہ)

پھر خلافت ثانیہ میں فجی کا ایک واقعہ ہے۔

’’جزائر فجی میں احمدیت کے چرچے اور احمدیہ مشن کے قیام سے پہلے وہاں عیسائیت کا بڑا زورتھا اور حضرت عیسیٰؑ کی آسمان سے آمد کے عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح منتظر تھے۔ بشیر خان صاحب لکھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے میرے دل میں خیال گھر کرنے لگا کہ عیسائیت سچی ہے اور عیسائی ہو جانے میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ مَیں ابھی عیسائی نہیں ہوا تھا بلکہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے خواب میں ایک نہایت بزرگ انسان ملے۔ انہوں نے بڑے جلال سے مجھے فرمایا ’’محمد بشیر ہوش کرو جس شخص کی تمہیں تلاش ہے وہ عیسیٰ یا مسیح ناصری نہیں ہے بلکہ وہ کوئی اور ہے اور دنیا میں ظاہر ہو چکا ہے‘‘۔ اس وقت جزائرفجی کے پہلے مبلغ جناب شیخ عبدالواحد صاحب فجی میں آ چکے تھے اور یہ لکھتے ہیں کہ میرے والد محترم مولوی محمد قاسم صاحب بھی بیعت کرکے جماعت میں داخل ہو چکے تھے لیکن میرا اس طرف رجحان نہیں ہوتا تھا۔ تاہم اس خواب کے بعد میرا رجحان اس طرف (جماعت کی طرف) ہوا اور مَیں نے اپنے والد صاحب کی طرح شرح صدر سے بیعت کر لی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لینے کے بعد مجھے اسلام سے ایسی محبت اور لگاؤ پیدا ہو گیا اور ایسا فہم و فراست اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایاکہ مَیں عیسائیوں کے سامنے نہایت جرأت اور یقین سے اسلام کی حقانیت اور عیسائیت کے بطلان ثابت کرنے کے لئے کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔ (روح پرور یادیں۔ صفحہ 142)

پھر خلافت ثانیہ کے زمانے کا ہی ایک اور واقعہ ہے۔ سیرالیون کے ابتدائی احمدی دوست پاسانفاتُولا (Sanfatula) پر عجیب رنگ میں اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ سے احمدیت کی صداقت کا انکشاف فرمایا۔ کہتے ہیں کہ’’1939ء کے دوران ایک موقع پر جبکہ میں لُو نیاں باؤ ماہون ریاست کے ایک گاؤں میں رہائش رکھتا تھا، مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مالکیہ مسجد کے ارد گرد سے گھاس صاف کر رہا ہوں‘‘ (افریقہ میں عموماً مالکی فرقہ کے لوگ زیادہ ہیں جو ہاتھ چھوڑ کر نمازیں پڑھتے ہیں۔ ) کہتے ہیں ’’جب مَیں نے کچھ دیر کام کرکے تھکان محسوس کی تو مسجد کے قریب ہی ایک پام کے درخت کے نیچے ذرا سستانے کے لئے کھڑا ہو گیا۔ اسی اثناء میں کیا دیکھتا ہوں‘‘(یہ سارا خواب کا ذکر چل رہا ہے)’’کہ میرے سامنے کی جانب سے سفید رنگ کے ایک اجنبی دوست ہاتھ میں قرآن کریم اور بائبل پکڑے میری طرف آ رہے ہیں۔ میرے قریب پہنچ کے انہوں نے السلام علیکم کہا اور پھر مجھ سے دریافت کیا کہ اس مسجد کے امام کون ہیں۔ مَیں انہیں ملنا چاہتا ہوں۔ اس پر مَیں ان سے رخصت لے کر امام مسجد کو بلانے چلا گیا جن کا نام الفا (Alpha)تھا۔ ہم واپس آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مسجد میں ایک سایہ دار کھڑکی سی تیار ہو چکی ہے اور وہ اجنبی شخص ہماری مسجد میں خود امام کی جگہ پر محراب میں کھڑے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ہم دونوں کو حکم دیا کہ اس سایہ دار جگہ میں بیٹھ کر ہم انہیں قرآن سنائیں۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ وہ اجنبی شخص مسجد سے نکل کر ہمارے پاس آئے اور ہمارے امام سے مخاطب ہو کر کہا کہ مَیں تمہیں نماز کا صحیح طریق سکھانے کے لئے آیا ہوں۔ اس پر میری آنکھ کھل گئی۔ بیدار ہو گیا اور صبح ہوتے ہی اس کا ذکر مَیں نے اپنے مسلمان دوستوں سے کر دیا‘‘۔

پھر بیان کرتے ہیں کہ’’اس خواب کے قریباً ایک ہفتہ بعد صبح کے وقت مَیں نے اپنی کدال لی اور اپنی اسی مالکیہ مسجد کے صحن میں گھاس صاف کرنے لگا۔ قریباً نصف گھنٹے کے کام کے بعد مَیں نے کچھ تھکان سی محسوس کی اور قریب ہی ایک پام کے درخت کے سائے کے نیچے آرام سے کھڑا ہو گیا۔ ابھی چند منٹ گزرے تھے کہ کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سے الحاج مولانا نذیر احمد علی صاحب تشریف لا رہے ہیں۔ آپ نے قریب آکے مجھے السلام علیکم کہا اور رہائش کے لئے جگہ وغیرہ دریافت کی۔ کہتے ہیں کہ یہ بات اس لئے تعجب انگیز تھی کہ جو خواب مَیں نے ابھی چند یوم پہلے دیکھا تھا بعینہ وہ آج اسی طرح پوری ہو رہی تھی۔ (یعنی مولوی الحاج نذیر احمد علی صاحب ہی وہ بزرگ تھے جو خواب میں مجھے دکھائے گئے تھے۔ اور لباس بھی تقریباً وہی تھا جو انہوں نے خواب میں پہنا ہوا تھا)۔ سو میرے لئے ایسے مہمان کی خدمت ایک خوش قسمتی تھی لہٰذا مَیں آپ کو کسی اور جگہ ٹھہرانے کی بجائے اپنے گھر لے گیا اور خالی کرکے گھر پیش کر دیا۔ اس کے بعد اپنے مسلمان دوستوں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ جو مَیں نے خواب دیکھا تھا اور تمہیں سنایا تھا وہ پورا ہو گیا ہے وہ بزرگ تشریف لے آئے ہیں اور میرے گھر میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور کچھ دنوں کے بعد مَیں تو احمدی ہو گیا۔ اس کے بعد ان کی تبلیغ سے اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور گاؤ ں کے اکثر مسلمان جو تھے وہ احمدی ہو گئے۔ (ماخوذ از روح پرور یادیں۔ صفحہ 215-214)

یہ تو مَیں نے 60 ,50, 40 سال پہلے کی باتیں بتائی ہیں۔ اس زمانہ میں بھی دلوں کو اللہ تعالیٰ صاف کرتا ہے، پاک کرتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔ اب مَیں گزشتہ تین چار سال کے بعض واقعات بتاتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کا سامان فرمایا، کس طرح تائیدات عطا فرمائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں نشانوں کی ابھی بھی کمی نہیں ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ انسان پاک دل ہو اور نیک نیتی کے ساتھ ہدایت تلاش کرنے والا ہو۔

مکرم حَدَّاد عبدالقادر صاحب (یہ الجزائر کے ہیں ) کہتے ہیں کہ 2004ء میں رمضان المبارک میں خواب میں دیکھا کہ ایک شخص نے مجھے کہا: آؤ مَیں تمہیں رسول اللہﷺ کی زیارت کے لئے لے چلتا ہوں۔ مَیں نے دیکھا کہ تقریباً ایک میٹر اونچی دیوار کے پیچھے حضرت محمدمصطفیﷺ کھڑے ہیں۔ آپؐ مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ پھر دیکھا حضورﷺ اور دیوار کے مابین ایک گندمی رنگ کا شخص کھڑا ہے جس کی سیاہ گھنی داڑھی ہے۔ آنحضورﷺ نے اس آدمی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا۔ ھٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ، یہ اللہ کا رسول ہے۔ پھر آپ مشرقی جانب ایک نور کی طرف چلے جاتے ہیں جبکہ یہ شخص اسی جگہ کھڑا رہتا ہے۔

کہتے ہیں چار سال بعد 2008ء میں اتفاقاً آپ کا چینل دیکھا تو اس پر مجھے اس شخص کی تصویر نظر آئی جس کو مَیں نے خواب میں آنحضرتﷺ کے ساتھ دیکھاتھا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر تھی۔ چنانچہ انہوں نے اسی وقت بیعت کر لی۔

اسی طرح مصر کی ایک خاتون ہیں ہالہ محمدالجوہری صا حبہ۔ یہ کہتی ہیں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت امام مہدی اور آپؑ کی جماعت پانی کے اوپر چل رہے ہیں۔ تو مَیں نے درخواست کی کہ مجھے بھی شرف مصاحبت بخشیں۔ انہوں نے کہا کہ واپسی پر ہم آپ کو ساتھ لے چلیں گے۔ (یعنی مجھے بھی ساتھ شامل کرلیں تو انہوں نے کہا واپسی پہ لے چلیں گے)۔ اس رویاء کے بعد مَیں نے صوفی ازم میں حق کی تلاش شروع کی لیکن اطمینان نہ ہوا۔ تو مَیں نے کہا میرے خواب سے مراد صوفی فرقہ نہیں ہو سکتا۔ باوجود اس کے کہ ان لوگوں کا اصرار تھا کہ مَیں نے انہی کو خواب میں دیکھا ہے۔ کہتی ہیں گھر آ کے مَیں ٹی وی چینل دیکھنے لگی۔ یہاں تک کہ ایم ٹی اے العربیہ نظر آ گیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مَیں نے اس چینل پہ وہی شخص دیکھا جس کو خواب میں دیکھا تھا کہ وہ امام مہدی ہے اور پانی پہ چل رہا ہے۔

پھر عراق کے عبدالرحیم صاحب فنجان کہتے ہیں کہ مَیں نے کچھ عرصہ قبل خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھے کہتے ہیں کہ تم ہمارے آدمی ہو۔ لہٰذا تمہیں بیعت کر لینی چاہئے۔ سو مَیں اب بیعت کر رہا ہوں۔ یہ واقعات چند سال کے، دو تین سال کے اور مختلف علاقوں کے بتا رہا ہوں۔ اسی طرح ماریشس ایک دور دراز جزیرہ ہے وہاں سے ہمارے مبلغ نے لکھا کہ ماریشس کے ساتھ ایک چھوٹا ساجزیرہ روڈ رگ ہے۔ اس جزیرے کی 36 ہزار کی آبادی ہے اور سارا جزیرہ ہی کیتھولک ہے۔ کہتے ہیں کہ روڈ رگ کے دورہ کے دوران ایک دن صبح جب میں تبلیغ کے لئے نکلا تو ایک زیر تبلیغ عیسائی لڑکے کو بھی لے لیا اور جزیرے کی دوسری جانب اس لڑکے کی والدہ اور نانی کے پاس بغیر کسی اطلاع کے پہنچے۔ گھر میں داخل ہونے پر ہم نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور تبلیغ شروع کر دی۔ لڑکے کی نانی کہنے لگیں کہ آپ جو پیغام لائے ہیں وہ بالکل سچ ہے اور مَیں اسے قبول کرتی ہوں کیونکہ گھر میں سب موجود لوگ میرے گواہ ہیں اور مَیں نے یہ خواب انہیں آپ کے آنے سے قبل سنا دی تھی کہ اجنبی لوگ آئے ہیں اور مَیں ان کا ہاتھ پکڑ کر کہہ رہی ہوں کہ یہ رشتہ مجھے منظور ہے۔ کہنے لگیں کہ جب آپ میرے گھر کی طرف آ رہے تھے تو مَیں اپنے کمرے سے آپ کو دیکھ کر کہہ رہی تھی کہ یہ تو بالکل وہی لوگ ہیں جو میں نے خواب میں دیکھے تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ دو دنوں بعد ہم دوسری مرتبہ گئے اور قرآن کریم اور رسائل اور تصاویر کا تحفہ پیش کیا۔ پھر تیسری مرتبہ گئے اور بیعت فارم لے کر گھر گئے اور شرائط بیعت پڑھ کر سنائیں تو اس عورت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کہنے لگیں کہ مجھے اس فارم کے پُر کرنے میں ذرا بھی تردّدنہیں۔ کیونکہ کل رات مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرے سامنے دو کاغذ لائے گئے ہیں اور بعینہ اسی طرح جیسے آج اس وقت آپ کے ہاتھ میں لمبائی کے رخ پر فولڈ ہیں مَیں نے خواب میں انہیں دیکھا۔ اور یہ لوگ جوآپ کے سامنے بیٹھے ہیں میری خواب کے گوا ہ ہیں جو کل مَیں سنا چکی ہوں۔ اپنے گھر والوں کو انہوں نے سنا دی تھی۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کی۔

یہ چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ مَیں بھی یہاں گیا ہوا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب یہاں جماعت کی دو مسجدیں ہیں اور لوگ آہستہ آہستہ عیسائیت سے احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں۔ امریکہ سے ایک واقعہ ہے۔ ہمارے مبلغ نے لکھا ہے کہ میکسیکن نژاد (Mexican) پانچ افراد پر مشتمل فیملی نے احمدیت قبول کی۔ اس فیملی میں جو خاتون ہیں ان کا نام Jauredui Marielov ہے۔ ان کومُری نام سے بلاتے ہیں۔ انہوں نے اپنا خواب اس طرح سنایا کہ اگرچہ ان کا تمام خاندان کیتھولک ہے لیکن اس نے عیسائیت پرکبھی عمل نہیں کیا۔ جب ان کی عمر 27سال کی ہوئی تو انہیں ایک تکلیف ہوئی اور یہ ہسپتال گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے دعائیں مانگنی شروع کیں اور مَیں ہمیشہ ایک خدا سے ہی دعائیں مانگتی تھی۔ ایک دن خواب میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر ایک شیشے پر دیکھی اور اپنے ہاتھ اس پر لگائے کہ مجھے صحت یابی نصیب ہو تو اس دن سے آج تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحت یاب ہوں۔ وہ تصویر ایک شیشے کی مانند تھی اور مَیں آج تک اسے بھلا نہیں سکی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد میری ملاقات میکسیکن نژاد احمدی خاتون سے ہوئی۔ انہوں مجھے کتب پڑھنے کے لئے دیں اور احمدیت کا تعارف کرایا۔ ان کتابوں میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھی اور تصویر دیکھ کر مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ میرے آنسو بَہ پڑے اور مَیں تصویر دیکھ کر روتی رہی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حق شناخت کرنے کی توفیق دی ہے اور پھر انہوں نے اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ احمدیت قبول کی۔ یہ پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ پھر اسی طرح ہمارے بلغاریہ کے مبلغ لکھتے ہیں۔ (آپ دیکھیں کہ دنیا میں ہر جگہ پر کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہدایت کے سامان پیدا فرما رہاہے) کہ ایک دوست اولیک (Olek) صاحب کافی عرصہ پہلے زیر تبلیغ تھے۔ عیسائی تھے۔ ان کی بیوی پہلے احمدی ہو چکی ہیں لیکن یہ احمدی نہیں ہوتے تھے۔ اس کی وجہ ان کا خاندان بھی تھا جو عیسائی ہے اور چرچ کی دیکھ بھال کا کام ان کے سپرد ہے۔ 2005ء کے جلسہ سالانہ جرمنی میں ان کو شمولیت کی دعوت دی اس پر یہ مع اہلیہ کے شریک ہوئے (اس وقت انہوں نے مجھ سے ملاقات بھی کی تھی)۔ واپسی پہ بہت متاثر تھے لیکن بیعت نہیں کر رہے تھے۔ ایک دن ہمارے سنٹر آئے اور کہنے لگے کہ میں نے بیعت کرنی ہے اور مَیں احمدی ہونا چاہتا ہوں۔ مَیں نے پوچھا کہ اب کیا وجہ ہے اتنی جلدی کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آج دوسری رات ہے کہ لگاتار خلیفۃ المسیح (میرا بتایا) خواب میں آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اولیک! اگر تم میرے پاس نہیں آتے تو مَیں خود تمہارے پاس آ جاتا ہوں۔ اس طرح میرے گھر تشریف لاتے ہیں۔ مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ مَیں نے ارادہ کیا ہے اور آج مَیں احمدیت میں داخل ہو گیا ہوں۔ اس طرح بھی اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے۔

کویت کے عبدالعزیز صلاح صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عید کی رات خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا۔ منظر یوں تھا کہ گویا خاکسار امتحان دے رہا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آ کر مجھ سے امتحان کا پرچہ پکڑ لیا جبکہ وہاں امتحان دینے والے اور بہت سارے لوگ تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے پرچے پر ٹک کا نشان لگا دیا۔ اس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ ایک مسجد میں (میرے متعلق کہاکہ) خلیفۃ المسیح الخامس کے ساتھ ہوں۔ میری طرف دیکھ رہے ہیں اور مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ فرش پر بیٹھا ہوں اور لوگ بیعت کر رہے ہیں۔ تو مَیں نے بھی قریب جا کے کمر پر ہاتھ رکھ کے بیعت کرلی۔

ماسکو سے ہمارے مبلغ نے لکھا کہ عزت اللہ صاحب 27مئی کو مشن ہاؤس آئے اور بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، کہا کہ آج میری بیعت ضرورلے لیں۔ کیونکہ رات میری خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے ہیں اور اس کے بعد مزید دیر نہیں کرنا چاہتا۔ انہوں نے کافی جذباتی رنگ میں اپنا خواب بیان کرتے ہوئے کہاکہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک غیر ہموار راستے پر ایک بس میں سوار سفر کر رہا ہوں اور مَیں بس کے پچھلے حصے میں کھڑا ہوں۔ یکدم بس کی رفتار تیز ہو گئی اور وہ راستے سے لڑھک گئی اور پچھلا حصہ نیچے کھائی کی طرف ہو گیا تو مَیں اوپر جانے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن اوپر پہنچ نہیں سکتا۔ اچانک مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شبیہ کو دیکھا کہ وہ آئے اور اپنا دایاں ہاتھ میری طرف بڑھایا اور فرمایا کہ میرے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لو تم ہلاک نہیں ہو گے۔ کہتے ہیں کہ مَیں کیسے پکڑوں؟ مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ نے خود ہی اپنا ہاتھ پکڑ کر مجھے اوپر کھینچ لیا۔ کہتے ہیں کہ پھر مَیں ہموار رستے پر چلنا شروع کر دیتا ہوں۔ اسی طرح بورکینا فاسوکے سانواسحاق صاحب ہیں جو بیان کرتے ہیں کہ ہمارے محلے کی مسجدمیں غیر از جماعت امام نے احمدیت کے خلاف خطبہ دیا اور ریڈیو احمدیہ سننے سے بڑی سختی سے منع کیا۔ (مولویوں کے پاس اور کوئی دلیل کاہتھیار نہیں ہے۔ ) صرف یہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کی باتیں نہ سنو جس طرح کہ مَیں نے پہلے بتایا مکّہ کے لوگوں کا حال تھا۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے امام سے کہا کہ اگر ہم یہ ریڈیو سنیں گے نہیں تو ہمیں حقیقت کا کیا علم ہو گا۔ امام صاحب کہنے لگا کہ نہیں بالکل نہیں سننا۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا اچھا ایک طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس پر تمہیں اتفاق ہونا چاہئے کہ وہاں بورکینا فاسو میں بوبو جلاسو شہر جو ہے اس میں جتنے بھی مسلمانوں کے فرقے ہیں ان کے نام پر چیوں پہ لکھ کے کسی بچے سے قرعہ اٹھواتے ہیں اور جس کا بھی قرعہ بچے نے اٹھایا اور پرچی پر نکل آیا توہم سمجھیں گے کہ وہ جماعت سچی ہے۔ کہتے ہیں، خیر ہم نے جتنے بھی فرقے تھے ساروں کے نام لکھے۔ بچے کو بلایا اس سے پرچی اٹھوائی تو اس پر لکھا ہوا تھا جماعت احمدیہ۔ پھر امام صاحب کو تسلی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا: نہیں ایک دفعہ اور کرو۔ دوسری دفعہ اٹھایا پھر نام نکلا جماعت احمدیہ۔ پھر تسلی نہیں ہوئی۔ پھر تیسری دفعہ اٹھایا۔ آخر امام صاحب بڑے پریشان ہوئے مگر ان کے لئے ہدایت کا سامان ہو گیا۔

اسی طرح ناروے کا ایک واقعہ ہے۔ کہتے ہیں ایک صاحب نے امیر صاحب کو کہا کہ 7مئی 2004ء کا میرا خطبہ جو ٹی وی پر آ رہا تھا تو ایک غیر از جماعت دوست نے فون کیا اور ملنے کی خواہش کی اور ملاقات پر انہوں نے بتایا کہ خطبہ جمعہ سن کر ان میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ اس لئے وہ بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ تو اس طرح بھی اللہ تعالیٰ ہدایت کے سامان فرما دیتا ہے۔

اسی طرح بوسنیا سے ایک زیر تبلیغ نوجوان نے خواب کے ذریعے بیعت کی ہے اس نوجوان نے خود اپنی خواب بیان کی۔ کہتے ہیں مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک بڑے شہر میں چل رہا ہوں جہاں افراتفری مچی ہوئی ہے۔ وہاں مَیں نے بہت سے یہودی عیسائی اور مسلمان دیکھے جو حیران اور گند سے بھری ہوئی گلیوں میں ادھر ادھر پھر رہے ہیں جیسے گم گئے ہیں۔ اچانک میری نظر اپنے دائیں طرف پڑتی ہے تو میں ایک خوبصورت درخت دیکھتا ہوں جس کے نیچے لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروہ بیٹھا ہوتا ہے۔ انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور پگڑیاں باندھی ہوئی ہیں۔ اس افراتفری کے دوران وہ مکمل سکون سے اور ایک حلقے کی صورت میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہے۔ مَیں خواب میں یہ خیال کرتا ہوں کہ یہ ضرور احمدی ہیں۔ مَیں ان کے پاس پہنچ جاتا ہوں اور ان میں شمولیت اختیار کر لیتا ہوں۔ اس کے بعد پھر انہوں نے بیعت کر لی۔

پھر ہمارے مبلغ فجی لکھتے ہیں کہ 16سال کا ایک ہندو تھااس کی مسلمان لڑکی سے شادی ہوئی تھی اور خود ہندو ہی تھا۔ ایک روز ہم اس کے گھر ملنے کے لئے گئے تو اس نے روتے ہوئے کہا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ دوآدمی میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ اور ان کا لباس اور ٹوپی بالکل یہی تھی جو آپ نے پہن رکھی ہے اس پر اس نے بیعت کر لی۔

پھر ایک کرد مسلمان، قاسم دال صاحب جرمنی میں ہیں وہ اپنی جرمن بیوی اور تین بیٹیوں کے ساتھ جماعت کے تبلیغی سٹال پہ تشریف لائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر سے بات شروع ہوئی اور خوب غصّہ سے بولے کہ حضرت رسول کریمﷺ کے بعد کون آ سکتا ہے۔ پندرہ منٹ کی بحث کے بعد آخر ہمارے سیکرٹری تبلیغ نے ان کا فون نمبر لے لیا، چلے گئے۔ اگلے دن انہوں نے کھانے پر بلایا۔ تبلیغی نشست ہوئی۔ انہوں نے کتابیں بھی دیں۔ دو دن کے بعد ان کا فون آیا کہ مَیں نے کتابیں نہیں پڑھیں اور مَیں نے وہ کتابیں جلا دی ہیں کیونکہ مجھے مولویوں نے یہی کہا ہے کہ ان کی کسی قسم کی چیز پڑھنی بھی نہیں ہے۔ خیر انہوں نے ان کو کہا کہ ٹھیک ہے، نہ مانیں۔ آپ جمعرات کو دوبارہ تشریف لائیں۔ دوستی تو ختم نہیں ہو سکتی۔ تو خیر اس دن وہ آئے اور اس دن روزہ رکھ کے آئے ہوئے تھے کہ احمدی کے گھر سے کھانا بھی نہیں کھانا۔ خیر باتیں کرتے رہے۔ باتیں لمبی ہوتی چلی گئیں اور روزہ کی افطاری کا وقت ہو گیا اور مجبوراً ان کووہاں روزہ افطار کرنا پڑا۔ کھانا تو کھانا پڑ گیا۔ ہمارے سیکرٹری تبلیغ نے ان کو کہا کہ آپ مولوی کی باتیں چھوڑیں اور چالیس روز صاف دل ہو کے اللہ تعالیٰ کے حضور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کے بارے میں درد دل سے دعا کریں اور اس عرصہ میں کوئی تعصب نہ ہو۔ تو کہتے ہیں کہ تیسرے دن ان کا ٹیلیفون آیا اور اپنی کام کی جگہ سے آیا کہ تمہارے پاس حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کی فوٹو ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہے تو جواب دیا کہ مَیں ابھی کام چھوڑ کے آرہا ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ مجھے غائبانہ آواز آئی ہے کہ ثبوت کیا مانگتے ہو ثبوت تو ہم تمہیں دکھا چکے ہیں اور ساتھ ہی ان کو وہ خواب یاد دلائی گئی جس میں انہوں نے مجھے اس حالت میں دیکھا تھا کہ کسی فوج کی کمان کر رہا ہوں اور فرشتے ساتھ ہیں۔ بہرحال اس کے بعد انہوں نے پھر بیعت کر لی۔

تو یہ چند واقعات ہیں جو مَیں نے بیان کئے ہیں، مختلف ملکوں کے بے شمار ایسے واقعات ہیں۔ کچھ تو جلسوں پربیان کئے جاتے ہیں لیکن اتنا وقت نہیں ہوتا کہ سارے بیان کئے جاسکیں۔ میرا خیال تھا کہ قادیان کے جلسے پہ بیان کروں گا لیکن وہاں بھی نہیں ہو سکا۔ بہرحال چند ایک واقعات اتفاق سے اس مضمون کے ضمن میں آ گئے تو مَیں نے بیان کر دئیے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح ہدایت کے سامان فرماتا ہے اور اس طرح آج تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید فرما رہاہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ دنیا کو ہدایت کا راستہ دکھاتا چلا جائے اور ہمیں بھی ہدایت پہ ہمیشہ قائم رکھے۔

آنحضرتﷺ نے ہدایت پہ قائم رہنے کے لئے بھی بہت ساری دعائیں سکھائی ہیں۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسولﷺ نے فرمایا کہ تو کہہ کہ اے اللہ! مجھے ہدایت دے اور مجھے سیدھے راستے پر رکھ اور ہدایت کے ساتھ اپنے سیدھے راستے کو بھی یاد رکھ اور سیدھا رکھنے سے مراد تیر کی طرح سیدھا ہونا ہے۔ (مسلم کتاب الذکروالدعاء باب التعوذ من شر ماعمل … حدیث نمبر 6805)

سیدھے راستے کی ہدایت کے بارے میں پہلے مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس میں بتا چکا ہوں کہ تین باتیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں کہ حقوق اللہ کی ادائیگی، حقوق العباد کی ادائیگی اور اپنے نفس کے حق کی ادائیگی لیکن ان سب کا بنیادی مقصد جوہے وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور خداتعالیٰ کی طرف لے کے جانا ہے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا چاہئے۔

اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے۔ ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے ابُو اَحْوَص کو عبداللہ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی کریمﷺ دعا کیا کرتے تھے کہ اے میرے اللہ مَیں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، عفت، پاکبازی اور غنٰی مانگتا ہوں۔ (ترمذی کتاب الدعوات باب 72/72 حدیث نمبر 3489)

پھر ایک دعا سکھائی۔ ابو مالک سے روایت ہے جوا نہوں نے اپنے والد سے کی ہے کہ جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا تو رسو ل اللہﷺ ان الفاظ میں دعا سکھایا کرتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاھْدِنِیْ وَ ارْزُقْنِیْ کہ اے اللہ مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت عطا کر اور مجھے رزق عطا کر۔ (مسلم کتاب الذکر والدعاء باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاء حدیث نمبر 6743)

جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا جس کو اللہ ہدایت دیتا ہے پھر ہمیشہ اس میں اُسے بڑھاتا بھی ہے۔ یہ کہیں رکنے والی چیز نہیں ہے۔ ہدایت تو ہمیشہ آگے لے جاتی ہے۔ جوں جوں انسان ہدایت یافتہ ہوتا ہے اس کا مقام بڑھتا چلا جاتا ہے۔

اور یہ دعا اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں سکھائی ہے۔ اور اس کی پہلے بھی مَیں کئی دفعہ جماعت کو تحریک کر چکا ہوں۔ جوبلی کی دعاؤں میں بھی شامل تھی۔ اب بعض لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ جوبلی کی جو دعائیں تھیں، اب سال ختم ہو گیا ہے تو کیا اب وہ دعائیں بند کر دیں؟ دعائیں تو پہلے سے بڑھ کر انسان کوکرنی چاہئیں۔ یہ دعائیں تو صرف ایک عادت ڈالنے کے لئے تھیں تاکہ آئندہ صدی میں مزید بڑھ کر دعاؤں کی توفیق ملے۔ اس لئے بند کرنے کا سوال نہیں۔ اب تو ہر احمدی کاکام اس سے بھی بڑھ کر دعائیں کرنے کا ہے۔ قرآن کریم کی جو دعا ہے وہ یہ ہے کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ (آل عمران: 9) کہ اے ہمارے خدا ! ہمارے دلوں کو لغزش سے بچا اور بعد اس کے کہ جو تو نے ہدایت دی ہمیں پھسلنے سے محفوظ رکھ اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا کر کیونکہ ہر ایک رحمت توُ ہی بخشتا ہے۔ تو یہ دعابھی کرنی چاہئے۔ اَور دعائیں بھی کرنی چاہئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’اے خدا وند کریم تمام قوموں کے مستعد دلوں کو ہدایت بخش کہ تا تیرے رسول مقبول افضل الرسل محمد مصطفیﷺ اور تیرے کامل و مقدس کلام قرآن شریف پر ایمان لاویں اور اس کے حکموں پر چلیں تاکہ ان تمام برکتوں اور سعادتوں اور حقیقی خوشحالیوں سے متمتع ہو جاویں کہ جو سچے مسلمان کو دونوں جہانوں میں ملتی ہیں اور اس جاودانی نجات اور حیات سے بہرہ ور ہوں کہ جو نہ صرف عقبیٰ میں حاصل ہو سکتی ہے بلکہ سچے راست باز اسی دنیا میں اس کو پاتے ہیں۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ28۔ اشتہار نمبر 14 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

آنحضرتﷺ کی دعاؤں میں سے ایک دعا خاص طور پر مَیں کہنا چاہتا ہوں جس طرح شروع میں مَیں نے ذکر بھی کیا تھا کہ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْن۔ جب غزوہ احد کے وقت آنحضرتﷺ کا دانت مبارک شہید ہوا، بلکہ دندان شہید ہوئے اور آپؐ کا چہر ہ مبارک زخمی ہو گیا تویہ صحابہ کرام کے لئے بڑی تکلیف دہ بات تھی۔ انہوں نے کہا کہ آپؐ ان لوگوں کے خلاف بددعا کریں۔ آپؐ نے فرمایا ’’مجھے لعنت ملامت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیاگیا بلکہ مَیں خدا کی طرف دعوت دینے والا باعث رحمت بنا کر مبعوث کیاگیا ہوں‘‘۔ پھر آپؐ نے یوں دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْن کہ اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ مجھے نہیں جانتے۔ (الشفاء لقاضی عیاض۔ جلد اول صفحہ 72-73۔ الباب الثانی فی تکمیل اللہ تعالیٰ لہ المحاسن۔ الفضل: و اما الحلم… دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002)

یہی دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی سکھائی گئی ہے اور آپؑ کی جماعت کو بھی کرنی چاہئے۔

آج کل پاکستان کے جو حالات ہیں ان میں پاکستانیوں کو خاص طور پر یہ دعا کرنی چاہئے۔ یہ مخالفت میں تو بڑھے ہوئے ہیں لیکن اس وجہ سے یہ اسلام کی حقیقی تعلیم کوبھی بھول چکے ہیں اور یقینا بھولنا تھا۔ اسی وجہ سے مشکل میں بھی گرفتار ہوئے ہوئے ہیں۔ نہیں سمجھتے کہ کیا حالات ہو رہے ہیں؟کیا ان کے ساتھ ہو رہا ہے اور کیا ان کے ساتھ آئندہ ہونے والا ہے اور جب تک یہ ہدایت کی طرف قدم نہیں بڑھائیں گے یہ حالات چلتے چلے جائیں گے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اس ملک پر بھی اور اس قوم پر بھی رحم کرے۔ ان کے لئے روزانہ بڑے درد دل سے دعا کریں کہ احمدیوں کی مخالفت میں آج کل وہاں بڑھ چڑھ کر کوئی نہ کوئی کارروائی ہو رہی ہوتی ہے۔ گو زندگی کی اس ملک میں کوئی قیمت نہیں ہے۔ مگر احمدی کو صرف اس لئے قتل کیا جاتا ہے، مارا جاتا ہے، شہید کیا جاتا ہے کہ وہ اس زمانہ کے امام کو ماننے والا ہے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی شہادت کی خبر آ رہی ہوتی ہے یا تکلیفوں سے گزرنے کی خبریں آرہی ہوتی ہیں۔ دو دن پہلے ہی ہمارے ایک مربی صاحب یوم مصلح موعودؓ کے جلسہ سے واپس آ رہے تھے اور بس کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ایک دم دو موٹر سائیکل سوار آئے اور انہوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ بھگڈر مچ گئی۔ لوگ تو دوڑ گئے۔ ان لوگوں میں کچھ خوف تھا۔ فائر کرنے والے خود بھی چلے گئے لیکن دوبارہ انہوں نے نشانہ لے کر مربی صاحب پہ فائرنگ کی۔ بہرحال اللہ نے فضل کیا ٹانگوں میں گولیاں لگی ہیں۔ ہسپتال میں داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحت دے اور اس قوم کو بھی عقل دے کہ جس طرف یہ لیڈر اب لے جا رہے ہیں اُن لیڈروں کو بھی سمجھ نہیں آ رہی۔ ایک تو خود ان کے اندر بددیانتی ہے دوسرے مولوی کے ہاتھ میں چڑھ کے مزید بددیانتی پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے اور ملک کو انہوں نے داؤ پر لگایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔

اس وقت مَیں چند جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ ان کے بارہ میں مختصر بتا دیتا ہوں۔ ایک تو مبشر احمد صاحب ابن مکرم محمو د احمد صاحب کراچی کا ہے۔ ان کی عمر 42 سال تھی اور 22فروری کو ان کو بھی بعض نامعلوم افرادنے فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کچھ عرصہ سے آپ کو قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں اور اس علاقہ کا جوSHO ہے، پولیس انسپکٹر۔ اس نے کہا ہے کہ وہاں ایک مدرسہ تھا جہاں سے دو آدمی نکلے ہیں اور ان پہ فائرنگ کر دی۔ بہرحال جہاں یہ کام کرتے تھے جب رات دیر تک گھر نہیں آئے تو گھر والوں نے وہاں سے پتہ کیا تو اطلاع ملی کہ ان کو نامعلوم افرادنے شہید کر دیا ہے۔ بڑے مخلص اور نمازوں کے پابند اور دعوت الی اللہ کا جوش رکھنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ اہلیہ نے خود بیعت کی اور احمدیت میں شامل ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی بھی حفاظت فرمائے اور خود ان کا کفیل ہو۔

دوسرا جنازہ ہمارے بہت بزرگ دوست احمدی بھائی منیر حامد صاحب کا ہے جو ایفرو امریکن تھے وہ 21فروری کو 70سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1957ء میں انہوں نے 15سال کی عمر میں خود بیعت کرکے جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی اور نہایت مخلص وفاشعار فدائی احمدی تھے۔ ہمیشہ جماعتی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ ان کو امریکہ کے پہلے نیشنل قائد خدام الاحمدیہ ہونے کا بھی اعزاز ملا ہے۔ 30سال سے زیادہ عرصہ صدر جماعت فلا ڈلفیا (Philadelphia) رہے۔ 1997ء سے و فات تک یہ جماعت امریکہ کے نائب امیر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ آپ کے والدین مسلمان نہیں تھے اور والد کو تو مذہب سے بھی دلچسپی نہیں تھی لیکن والدہ جو تھیں وہ نہ صرف چرچ جاتی تھیں بلکہ وہ ان کو چرچ کے مشنری کے طور پر کام کی ترغیب دلایا کرتی تھیں۔ 10بہن بھائیوں میں سے صرف آپ کو مذہب سے لگاؤ تھا اور آپ کو اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی۔ دیگر بہن بھائیوں نے اس وجہ سے پھرآپ کی مخالفت بھی کی۔ ایک دفعہ آپ کی والدہ بیمار ہو گئیں تو اس بیماری کے دوران بہن بھائیوں نے ان کا (منیر حامد صاحب کا) نام اس لئے بہن بھائیوں کی فہرست سے نکال دیا کہ یہ مسلمان ہیں اور مسلمان والا نام اگر فہرست میں آ گیاتو ان کو خفت اٹھانی پڑے گی۔ بہرحال چھوٹی عمر میں احمدیت قبول کی بلکہ جب یہ احمدیت قبول کرنا چاہتے تھے اس وقت جماعت نے یہ اصول رکھا ہوا تھا کہ والدین کے یا والد یا والدہ کے یاکسی بڑے کے بھی دستخط ہوں کہ اپنی مرضی سے، د وسرے مذہب، عقیدہ میں جا رہا ہوں۔ تو جب انہوں نے بیعت کا فارم فل (Fill) کیا اور تصدیق کے لئے والدہ کے پاس لے گئے تو انہوں نے انکار کر دیا اور پھر ان کو سمجھایا کہ تم کس طرف جا رہے ہو۔ لیکن ان کی والدہ کا ہمیشہ خیال رہا کہ تم سب بچوں میں سے روحانی طور پر آگے ہو۔ یہ کہتے ہیں کہ مَیں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ پڑھ کر احمدی ہوا تھا۔ صداقت واضح ہوئی اور پھر انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں ایک خط لکھا۔ کہتے ہیں کہ اس کا جواب جب آیا تو اس خط نے میری کایا ہی پلٹ دی۔ میرے ایمان میں بہت ترقی ہوئی۔ بڑے بے تکلف تھے۔ سادہ طبیعت تھی۔ انکسار تھا طبیعت میں۔ بڑے نیک انسان تھے۔ مجھے بھی کئی دفعہ ملے ہیں۔ عموماًخوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ جماعتی جلسوں میں بڑے مؤثر انداز میں تقریر کیا کرتے تھے۔ رسول کریمﷺ سے عشق تھا۔ آنحضرتﷺ کے نام کے ساتھ ہی آپؑ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جایا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑے محبت اور پیار کا تعلق تھا۔ خلفاء سے اور خلافت سے بڑا گہرا محبت و عقیدت کا تعلق تھا۔ یہ دو تین سال پہلے بنگلہ دیش کے جلسہ پہ جاتے ہوئے پہلی دفعہ یہاں لندن میں مجھے ملے ہیں اور جب جلسہ سے واپس آئے ہیں پھر دوبارہ ملاقات کی۔ اور کہتے تھے کہ بنگلہ دیش کا جلسہ اور آپ سے ملاقات کے بعد مَیں نئے سرے سے چارج ہو گیا ہوں۔ جب بھی مجھے ملتے بڑے جذباتی ہو جایاکرتے تھے۔ گزشتہ سال جب جلسہ پرامریکہ گیا ہوں تو یہ اپنی بیماری کی وجہ سے جلسہ میں شامل نہیں ہوئے۔ مَیں سمجھا تھا کہ معمولی بیماری ہے لیکن بہرحال پتہ نہیں تھا اور میرا خیال ہے کہ گھر والوں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ بیماری میں کتنی شدت ہے۔ اگر مجھے پتہ لگ جاتا تو کسی نہ کسی طرح وقت نکال کے جاکے ان کے گھرملاقات کر آتا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے پسماندگان میں ایک بیوہ ہیں اور ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق دے کہ منیر حامد صاحب کی نیکیوں کو ہمیشہ جاری رکھیں۔ یہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ جن کو اللہ تعالیٰ ہدایت کی طرف خاص راہنمائی فرماتا ہے کہ 10بچوں میں سے صرف ایک کو ہی ہدایت کی توفیق ملی۔

تیسرا جنازہ ہے مکرم محمود احمد صاحب درویش قادیان کا۔ 25؍فروری کو 84 سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ بھی نہایت نیک، متقی، نمازوں کے پابند، صابر شاکر انسان تھے درویشان تقریباً سارے ہی صابر شاکر ہیں۔ نوجوانی میں شیخوپورہ سے قادیان ہجرت کر گئے اور مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور زندگی وقف کرنے کی توفیق پائی۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد پر فوج میں بھرتی ہوئے اور پھر آپ کے حکم سے ہی فوج چھوڑی اور جماعت کی خدمت پر آ گئے۔ آپ نے ناظر بیت المال آمد و خرچ اور بعد میں نائب ناظم وقف جدید بیرون کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ان کی تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے نصیر احمد عارف صاحب کو نظارت امور عامہ قادیان میں اس وقت خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔

پھر اگلا جنازہ سیدہ منیرہ یوسف صاحبہ کاہے۔ یہ مکرم کمال یوسف صاحب کی اہلیہ ہیں۔ ان کو کینسر کی تکلیف تھی۔ ایک لمبی علالت کے بعد 25؍فروری کو ان کی وفات ہوئی ہے۔ آپ حضرت سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی تھیں۔ کمال یوسف صاحب سیکنڈے نیوین ممالک میں مبلغ کے طور پر بڑا کام کرتے رہے ہیں، یہ ان کے ساتھ رہی ہیں۔ مہمان نواز تھیں۔ مشن ہاؤس وغیرہ کا خیال رکھتی رہیں اور جماعت سے بڑا تعلق، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفاء کے ساتھ بڑا تعلق تھااور ان کے لئے غیرت رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ ان کے خاوند کمال یوسف صاحب اللہ کے فضل سے حیات ہیں۔ پھر امۃ الحئی صاحبہ ہیں جو بشیر احمد صاحب سیالکوٹی ربوہ کی اہلیہ اور اسی طرح بشیر احمد صاحب سیالکوٹی ہیں۔ ان کی بھی اہلیہ کے چند دنوں کے بعد وفات ہوگئی۔ یہ دونوں ہمارے مربی اور اس وقت PS لندن میں کام کرنے والے ہمارے کارکن ظہور احمد صاحب کے والد اور والدہ ہیں۔ ان کی والدہ 27 ؍جنوری کو فوت ہوئی تھیں اور والد 25 فروری کو فوت ہوئے۔ دونوں بڑے نیک اور دعا گو بزرگ تھے اور اللہ کے فضل سے ان ابتدائی لوگوں میں شامل تھے جوربوہ میں آ کے آباد ہوئے اور جنہوں نے یہاں اپنا کاروبار وغیرہ کیا۔ ان کے پیچھے ان کی ایک بیٹی اور پانچ بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کے درجات بلند فرمائے اور ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ نمازوں کے بعد اب ان کی نماز جنازہ بھی ہو گی۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 نمبر 12 مورخہ 20 مارچ تا 26مارچ 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 9)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 27؍ فروری 2009ء شہ سرخیاں

    صفت الہادی۔ 1974ء کی پاکستانی اسمبلی کی کارروائی کو  چھپانے کی وجہ کا بیان۔ آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے رفقاء کے واقعات کی روشنی میں صفت الہادی کا ذکر۔ پاکستان کے برے حالات کا ذکر اور ان کے لئے بڑے دردِ دل سے دعا کرنے کی تحریک، پاکستانی لیڈر خود بددیانت اور دوسرا مولویوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔

    فرمودہ مورخہ 27؍فروری 2009ء بمطابق27؍تبلیغ 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور