یوم میلاد النبیؐ اور سیرت النبی ﷺ کا ذکر
خطبہ جمعہ 13؍ مارچ 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
دو تین دن پہلے 12؍ربیع الاوّل تھی جو آنحضرتﷺ کی پیدائش کا دن ہے اور یہ دن مسلمانوں کاایک حصہ بڑے جوش وخروش سے مناتاہے۔ پاکستان میں بلکہ برصغیر میں بھی بعض بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ بعض لوگ جو ہمارے معترضین ہیں، مخالفین ہیں، ان کا ایک یہ اعتراض بھی ہوتاہے۔ مجھے بھی لکھتے ہیں، احمدیوں سے بھی پوچھتے ہیں کہ احمدی کیوں یہ دن اہتمام سے نہیں مناتے؟تو اس بارہ میں آج مَیں کچھ کہوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بارہ میں کیا ارشادت فرمائے؟ (وہ بیان کروں گا) جن سے واضح ہو گا کہ اصل میں احمدی ہی ہیں جو اس دن کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس سے پہلے مَیں یہ بھی بتا دوں کہ مولود النبیؐ جوہے، یہ کب سے منانا شروع کیا گیا۔ اس کی تاریخ کیا ہے؟مسلمانوں میں بھی بعض فرقے میلا دالنبیؐ کے قائل نہیں ہیں۔ اسلام کی پہلی تین صدیاں جو بہترین صدیاں کہلاتی ہیں ان صدیوں کے لوگوں میں نبی کریمﷺ سے جو محبت پائی جاتی تھی وہ انتہائی درجہ کی تھی اور وہ سب لوگ سنت کا بہترین علم رکھنے والے تھے اور سب سے زیادہ اس بات کے حریص تھے کہ آنحضرتﷺ کی شریعت اور سنت کی پیروی کی جائے۔ لیکن اس کے باوجود تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ کسی صحابیؓ یا تابعی جو صحابہؓ کے بعد آئے، جنہوں نے صحابہؓ کو دیکھا ہوا تھا، کے زمانے میں عیدمیلادالنبیؐ کا ذکر نہیں ملتا۔ وہ شخص جس نے اس کا آغاز کیا، اس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ عبداللہ بن محمد بن عبداللہ قداح تھا۔ جس کے پیرو کار فاطمی کہلاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور اس کا تعلق باطنی مذہب کے بانیوں میں سے تھا۔ باطنی مذہب یہ ہے کہ شریعت کے بعض پہلو ظاہر ہوتے ہیں، بعض چھپے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کی یہ اپنی تشریح کرتے ہیں۔ ان میں دھو کے سے مخالفین کو قتل کرنا، مارنا بھی جائز ہے اور بہت ساری چیزیں ہیں اور بے انتہا بدعات ہیں جو انہوں نے اسلام میں داخل کی ہیں اور ان ہی کے نام سے منسوب کی جاتی ہیں۔ پس سب سے پہلے جن لوگوں نے میلاد النبیﷺ کی تقریب شروع کی وہ باطنی مذہب کے تھے اور جس طرح انہوں نے شروع کی وہ یقینا ایک بدعت تھی۔ مصر میں ان کی حکومت کا زمانہ 362 ہجری بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اَوربھی بہت سارے دن منائے جاتے تھے۔ یوم عاشورہ ہے۔ میلاد النبیؐ تو خیر ہے ہی۔ میلاد حضرت علیؓ ہے۔ میلاد حضرت حسنؓ ہے۔ میلاد حضرت حسینؓ ہے۔ میلا د حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ ہے۔ رجب کے مہینے کی پہلی رات کو مناتے ہیں۔ درمیانی رات کو مناتے ہیں۔ شعبان کے مہینے کی پہلی رات مناتے ہیں۔ پھر ختم کی رات ہے۔ رمضان کے حوالے سے مختلف تقریبات ہیں اور بے تحاشا اور بھی دن ہیں جو مناتے ہیں اور انہوں نے اسلام میں بدعات پیدا کیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا مسلمانوں میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو بالکل اس کو نہیں مناتے اور عید میلا دالنبیؐ کوبدعت قرار دیتے ہیں۔ یہ دوسرا گروہ ہے جس نے اتنا غلو سے کام لیا کہ انتہا کر دی۔
بہرحال ہم دیکھیں گے کہ اس زمانے کے امام نے جن کو اللہ تعالیٰ نے حکم اور عدل کرکے بھیجا ہے انہوں نے اس بارے میں کیا ارشاد فرمایا۔
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مولو د خوانی پر سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ: ’’آنحضرتﷺ کا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اور اولیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے اور خود خد انے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی ہے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جاویں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں۔ خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان نبی کے ساتھ رکھو۔ آج کل کے مولویوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشاء کے خلاف ہیں۔ اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تووہ ایک وعظ ہے۔ آنحضرتﷺ کی بعثت، پیدائش اور وفات کا ذکر ہو تو موجب ثواب ہے۔ ہم مجاز نہیں کہ اپنی شریعت یا کتاب بنا لیویں‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ160-159۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
آنحضرتﷺ کی سیرت اگربیان کرنی ہے تو یہ بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن آج کل ہوتا کیا ہے؟ خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان میں ان جلسوں کو سیرت سے زیادہ سیاسی بنا لیا جاتا ہے، یا ایک د وسرے مذہب پہ یا ایک دوسرے فرقے پہ گند اچھالنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جو کوئی جلسہ یہ لوگ کرتے ہیں، اس میں یہ نہیں ہوا کہ سیرت کے پہلو بیان کرکے صرف وہیں تک بس کر دیا جائے بلکہ ہر جگہ پر جماعت احمدیہ کے خلاف اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پر بے انتہابیہودہ اور لغو قسم کی باتیں کی جاتی ہیں اور آپؑ کی ذات کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں ربوہ میں ہی مولویوں نے بڑا جلسہ کیا، جلوس نکالا۔ اور وہاں کی جورپورٹس ہیں اس میں صرف یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جلسہ سیاسی مقصد کے لئے اور ا حمدیوں کے خلاف اپنے بغض و عناد کے اظہار کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔ تو اس قسم کے جو جلسے ہیں ان کا تو کوئی فائدہ نہیں۔ آنحضرتﷺ کی ذات تو وہ بابرکت ذات ہے کہ جب آپؐ آئے تورحمۃ للعالمین بن کے آئے۔ آپؐ تو دشمنوں کے لئے بھی رو رو کر دعائیں کرتے رہے۔
ایک صحابیؓ سے روایت ہے کہ ایک رات مجھے آنحضرتﷺ کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھنے کا موقع ملا تو اس میں آپؐ یہی دعا مستقل کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو بخش دے اور عقل دے۔ (سنن النسائی کتاب الافتتاح باب تردید الآیۃ حدیث نمبر 1010)
لیکن آج کل کے مُلّاں اس اسوہ پہ عمل کرنے کی بجائے کیا کر رہے ہیں؟ قادیانیوں کے خلاف (جو ان کی زبان میں قادیانی کہلاتے ہیں ) یعنی ہم احمدیوں کے خلاف جو گندی زبان استعمال کی جا سکتی ہے کی جاتی ہے اور الزامات لگائے جاتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کا اسوہ تو یہ تھا کہ ایک صحابیؓ کے جنگ کے دوران دشمن پر غلبہ پا کے اُسے قتل کر دینے پر جبکہ اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا، آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم نے دل چیر کر دیکھا تھا؟ اور اتنا شدت سے اظہار کیا کہ انہوں نے خواہش کی کہ کاش مَیں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب علی ما یقاتل المشرکون حدیث نمبر 2643)
لیکن ان کے عمل کیاہیں؟ بالکل اس کے الٹ۔ بہرحال یہ تو ان کے عمل ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کے تسلسل میں کیا فرماتے ہیں، مَیں آگے پیش کرتاہوں۔ فرمایا کہ محض تذکرہ آنحضرتﷺ کا عمدہ چیز ہے۔ ’’اس سے محبت بڑھتی ہے اور آپؐ کی اتباع کے لئے تحریک ہوتی اور جوش پیدا ہوتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 159حاشیہ۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
’’قرآن شریف میں بھی اس لئے بعض تذکرے موجود ہیں جیسے فرمایا وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرَاھِیْمَ (مریم: 42)‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 159حاشیہ۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
’’لیکن ان تذکروں کے بیان میں بعض بدعات ملا دی جائیں تو وہ حرام ہو جاتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’یہ یاد رکھو کہ اصل مقصد اسلام کا توحید ہے۔ مولو د کی محفلیں کرنے والوں میں آج کل دیکھا جاتا ہے کہ بہت سی بدعات ملا لی گئی ہیں۔ جس میں ایک جائزاور موجب رحمت فعل کو خراب کر دیا ہے۔ آنحضرتﷺ کا تذکرہ موجب رحمت ہے مگر غیر مشروع امور و بدعات منشاء الٰہی کے خلاف ہیں۔ ہم خود اس امر کے مجاز نہیں ہیں کہ آپ کسی نئی شریعت کی بنیاد رکھیں اور آج کل یہی ہو رہا ہے کہ ہر شخص اپنے خیالات کے موافق شریعت کو بنانا چاہتا ہے گویا خود شریعت بناتا ہے۔
اس مسئلہ میں بھی افراط و تفریط سے کام لیا گیا ہے۔ بعض لوگ اپنی جہالت سے کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کا تذکرہ ہی حرام ہے۔ (نعوذ باللہ)۔ یہ ان کی حماقت ہے۔ ’’آنحضرتﷺ کے تذکرہ کو حرام کہنا بڑی بیباکی ہے۔ جبکہ آنحضرتﷺ کی سچی اتباع خداتعالیٰ کا محبوب بنانے کا ذریعہ اور اصل باعث ہے اور اتباع کا جوش تذکرہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی تحریک ہوتی ہے۔ جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے اس کا تذکرہ کرتا ہے۔‘‘
’’ہاں جو لوگ مولود کے وقت کھڑے ہوتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ ہی خود تشریف لے آئے ہیں‘‘۔ (یہ بھی ان کا ایک طریق کار ہے۔ جلسہ ہوتا ہے مولود کی محفل ہو رہی ہے، اس میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مجلس بیٹھی ہوئی ہے تقریر کرنے والا مقرر کچھ بول رہا ہے، کہتا ہے آنحضرتﷺ تشریف لے آئے اور سارے بیٹھے ہوئے لوگ کھڑے ہو گئے)فرمایا کہ یہ جو خیال کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ تشریف لے آئے ہیں۔ یہ اُن کی جرأت ہے۔ ایسی مجلسیں جو کی جاتی ہیں ان میں بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ کثرت سے ایسے لوگ شریک ہوتے ہیں جو تارک الصلوٰۃ ہیں‘‘۔ (لوگ تو ایسے بیٹھے ہوئے ہیں جو نماز بھی پانچ وقت نہیں پڑھ رہے ہوتے بلکہ بعض تو نمازیں بھی نہیں پڑھنے والے ہوتے، عید پڑھنے والے ہوتے ہیں صرف یا صرف محفلوں میں شامل ہو جاتے ہیں )۔ فرمایا کہ ’’کثرت سے ایسے لوگ شریک ہوتے ہیں جو تارک الصلوٰۃ، سودخور اور شرابی ہوتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کو ایسی مجلسوں سے کیا تعلق؟ اور یہ لوگ محض ایک تماشہ کے طور پر جمع ہو جاتے ہیں، پس اس قسم کے خیال بیہودہ ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ160-159 حاشیہ۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
جو شخص خشک وہابی بنتا ہے اور آنحضرتﷺ کی عظمت کو دل میں جگہ نہیں دیتا وہ بے دین آدمی ہے۔ ’’انبیاء علیہم السلام کا وجود بھی ایک بارش ہوتی ہے وہ اعلیٰ درجہ کا روشن وجود ہوتا ہے۔ خوبیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ دنیا کے لئے اس میں برکات ہوتے ہیں۔ اپنے جیسا سمجھ لینا ظلم ہے۔ اولیاء اور انبیاء سے محبت رکھنے سے ایمانی قوت بڑھتی ہے‘‘۔
حدیث میں آیا ہے آنحضرتﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ بہشت میں ایک ایسا مقام ہو گا جس میں صرف مَیں ہوں گا۔ ایک صحابیؓ جس کو آپؐ سے بہت ہی محبت تھی یہ سن کر رو پڑا اور کہا حضور مجھے آپؐ سے بہت محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا تو میرے ساتھ ہو گا۔ خیال ہوا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ مَیں ہوں گا تو شاید یہ صحابی وہاں نہ پہنچ سکیں فرمایا کہ اگر تجھے مجھ سے محبت ہے تو میرے ساتھ ہو گا۔ (الدر المنثور فی التفسیر فی الماثور جلد 2صفحہ 550 تفسیر سورۃ النساء زیر آیت 90 مطبوعہ بیروت 2001ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’دوسرا گروہ جنہوں نے مشرکانہ طریق اختیار کئے ہیں روحانیت ان میں بھی نہیں ہے۔ قبر پرستی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 161حاشیہ۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس اصل بات یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کا تذکرہ میرے نزدیک جیسا کہ وہابی کہتے ہیں حرام نہیں بلکہ یہ اتباع کی تحریک کے لئے مناسب ہے۔ جو لوگ مشرکانہ رنگ میں بعض بدعتیں پیدا کرتے ہیں وہ حرام ہے۔
اسی طرح ایک شخص نے سوال کیا تو اس کو آپؑ نے خط لکھوایا اور فرمایا کہ میرے نزدیک اگر بدعات نہ ہوں اور جلسہ ہو اس میں تقریر ہو، اس میں آنحضرتﷺ کی سیرت بیان کی جاتی ہو، آنحضرتﷺ کی مدح میں کچھ نظمیں خوش الحانی سے پڑھ کے سنائی جائیں وہاں تو ایسی مجلسیں بڑی اچھی ہیں اور ہونی چاہئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کس طرح اپنی اس عشق و محبت کی جو محفلیں ہیں ان کو سجانا چاہتے ہیں یا اس بارہ میں ذکر کرنا چاہتے ہیں، فرماتے ہیں: ’’خدافرماتاہے اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ(آل عمران: 32)‘‘ کہ اگر اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ یہ قرآن کریم کی آیت ہے۔ فرمایا کہ’’کیا آنحضرتﷺ نے کبھی روٹیوں پر قرآن پڑھا تھا؟‘‘ (آج کل کے یہ مولوی مجلسیں کرتے ہیں۔ محفلیں کرتے ہیں تو اس قسم کی بدعات کرتے ہیں کہ اس کے بعد روٹیاں تقسیم ہوتی ہیں۔ قرآن پڑھا گیا تو یہ مولود کی روٹی ہے۔ بڑی بابرکت روٹی ہو گئی۔ تو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اللہ سے محبت کرنی ہے تو آنحضرتﷺ کی پیروی کرو اور آنحضرتﷺ کی اگر پیروی کرنی ہے تو کیا کہیں یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ نے کبھی روٹیوں پر قرآن پڑھا؟)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’اگر آپؐ نے ایک روٹی پر پڑھا ہوتا تو ہم ہزار پر پڑھتے۔ ہاں آنحضرتﷺ نے خوش الحانی سے قرآن سنا تھا اور آپؐ اس پر روئے بھی تھے۔ جب یہ آیت وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰؤُلَآءِ شَہِیْدًا (النساء: 42)‘‘ (اور ہم تجھے ان لوگوں کے متعلق بطور گواہ لائیں گے۔ قرآن سنا ضرور کرتے تھے اور اس پر آپؐ جب یہ آیت آئی کہ آپؐ گواہ ہوں گے تو آپؐ اس پر رو پڑے۔ یہ رونا اصل میں آپؐ کی عاجزی کا انتہائی مقام اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح یہ مقام آپؐ کو عطا فرمایا۔ )
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں اس سے’’آپؐ روئے اور فرمایا بس کر مَیں اس سے آگے نہیں سن سکتا۔ آپؐ کو اپنے گواہ گزرنے پر خیال گزرا ہو گا‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 162 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’ہمیں خود خواہش رہتی ہے کہ کوئی خوش الحان حافظ ہو تو قرآن سنیں‘‘۔ یہ ہے اتباع آنحضرتﷺ کی۔ پھر لکھتے ہیں کہ ’’آنحضرتﷺ نے ہر ایک کام کا نمونہ دکھلا دیا ہے وہ ہمیں کرنا چاہئے۔ سچے مومن کے واسطے کافی ہے کہ دیکھ لیوے کہ یہ کام آنحضرتﷺ نے کیا ہے کہ نہیں؟ اگر نہیں کیا تو کرنے کا حکم دیا ہے یا نہیں؟ حضرت ابراہیمؑ آپؐ کے جدا مجد تھے اور قابل تعظیم تھے۔ کیا وجہ کہ آپؐ نے ان کا مولودنہ کروایا؟‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 162۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
آنحضرتﷺ نے ان کی پیدائش کا دن نہیں منایا۔
بہرحال خلاصہ یہ کہ مولود کے دن جلسہ کرنا، کوئی تقریب منعقد کرنا منع نہیں ہے بشرطیکہ اس میں کسی بھی قسم کی بدعات نہ ہوں۔ آنحضرتﷺ کی سیرت بیان کی جائے۔ اور اس قسم کا (پروگرام) صرف یہی نہیں کہ سال میں ایک دن ہو۔ محبوب کی سیرت جب بیان کرنی ہے تو پھر سارا سال ہی مختلف وقتوں میں جلسے ہو سکتے ہیں اور کرنے چاہئیں اور یہی جماعت احمدیہ کا تعامل رہا ہے، اور یہی جماعت کرتی ہے۔ اس لئے یہ کسی خاص دن کی مناسبت سے نہیں، لیکن اگر کوئی خاص دن مقرر کر بھی لیا جائے اور اس پہ جلسے کئے جائیں اور آنحضرتﷺ کی سیرت بیان کی جائے بلکہ ہمیشہ سیرت بیان کی جاتی ہے۔ اگر اس طرح پورے ملک میں اور پوری دنیا میں ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ ہے کہ بدعات شامل نہیں ہونی چاہئیں۔ کسی قسم کے ایسے خیالات نہیں آنے چاہئیں کہ اس مجلس سے ہم نے جوبرکتیں پالی ہیں ان کے بعد ہمیں کوئی اور نیکیاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیساکہ بعضوں کے خیال ہوتے ہیں۔ تو نہ افراط ہو نہ تفریط ہو۔
پس آج مَیں بقیہ وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کی روشنی میں آنحضرتﷺ کی سیرت کے بعض پہلو بیان کروں گا تاکہ ہم بھی ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں۔ تبھی ہم جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، آنحضرتﷺ کی پیروی کرکے خداتعالیٰ کی محبت کو پاسکتے ہیں اور تبھی ہمارے گناہ بخشے جائیں گے، تبھی ہماری دعائیں بھی قبولیت کا درجہ پائیں گی۔
بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا آنحضرتﷺ کو وسیلہ بنا کر دعا کی جا سکتی ہے؟ آپؐ کی سنت کی پیروی اور آپؐ سے محبت کا تعلق، اللہ تعالیٰ کی رضا آپ کو حاصل کرنے کا وسیلہ ہی ہے۔ اذان کے بعد کی دعامیں بھی یہی دعا سکھائی گئی ہے۔ جو آیت مَیں نے پڑھی ہے اس کا کچھ حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے درج فرمایا تھا۔ پوری آیت اس طرح ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ (آل عمران: 32) تو کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو وہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ پس ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ نے کیا سنت قائم فرمائی؟ جن کی ہم نے پیروی کرنی ہے۔ آپؐ کے کیا کچھ عمل تھے جو آپؐ نے اپنے صحابہ کے سامنے کئے اور آگے روایات میں ہم تک پہنچے۔
آپﷺ پر دنیا والے یہ الزام لگاتے ہیں کہ نعوذباللہ آپؐ نے دنیاوی جاہ و حشمت کے لئے حملے کئے اور ایک علاقے کو زیر کرکے اپنی حکومت میں لے آئے۔ پھر آپؐ کی ازواج مطہرات کے حوالے سے قسم قسم کی باتیں آج کل کی جاتی ہیں۔ ایسی کتابیں لکھی جاتی ہیں باتیں کہ جن کو کوئی شریف النفس پڑھ بھی نہیں سکتا۔ بلکہ امریکہ میں ہی جو نئی کتاب لکھی گئی ہے، اس پہ کسی عیسائی نے ہی یہ تبصرہ کیا تھاکہ ایسی بیہودہ کتاب ہے کہ اس کو تو پڑھا ہی نہیں جا سکتا۔ تو یہ سب الزامات جو آپﷺ کی ذات پر لگائے جاتے ہیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمیشہ سے آپؐ کی ذات بابرکات پر یہ الزام لگائے گئے۔ جب آپؐ نے دعویٰ کیا اس وقت بھی کفار کا یہ خیال تھا کہ شاید کسی دنیاوی لالچ کی وجہ سے آپؐ نے یہ دعویٰ کیا ہے اور آپؐ کے چچا کے ذریعہ سے آپ کو یہ پیغام بھیجا کہ آپؐ ہمارے مذہب کے بارہ میں، ہمارے بتوں کے بارے میں کچھ کہنا چھوڑ دیں اور اپنے دین کی تبلیغ بھی نہ کریں اور ہم اس کے بدلے میں آپؐ کی سرداری بھی تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ اپنی دنیا کی جاہ و حشمت جو ہمارے پاس ہے وہ بھی آپؐ کو دینے کو تیار ہیں۔ اپنی دولت بھی دینے کو تیار ہیں۔ عرب کی خوبصورت ترین عورت بھی دینے کو تیار ہیں تو آپؐ کا جواب یہ تھا کہ اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیں تو تب بھی مَیں اپنے فرض سے باز نہیں آؤں گا۔ مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ ان کی خرابیاں ان کو بتاؤں اور ان کو سیدھے راستے پر چلاؤں۔ اگراس کے لئے مجھے مرنا ہی ہے تو پھر مَیں بخوشی اس موت کو قبول کرتا ہوں۔ میری زندگی اس راہ میں وقف ہے اور موت کا ڈر مجھے اس کام سے روک نہیں سکتا اور نہ ہی کسی قسم کا لالچ مجھے اس سے روک سکتا ہے۔
پس دنیاداروں نے تو ہمیشہ سے آپؐ کے اس کام کو جوآپؐ خداتعالیٰ کی خاطر کر رہے تھے اور خداتعالیٰ کے حکم سے کر رہے تھے دنیاوی اور ظاہری چیز سمجھا اور کفّار نے آپؐ کو اس کے لئے پیشکش بھی کی اور آپؐ نے اس وجہ سے کفار کی ہر قسم کی پیشکش کو رد ّکرکے یہ واضح کر دیا کہ مَیں اس دنیا کی جاہ و حشمت اور دولت کا امید وار نہیں ہوں بلکہ مَیں تو زمین و آسمان کے خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ وہ آخری نبی ہوں جس نے تمام دنیا پر خدائے قادر و توانا اور واحد ویگانہ کا جھنڈا لہرانا ہے۔ اور آپؐ کی اس بات کا اعلان اللہ تعالیٰ نے بھی آپؐ پر یہ آیت نازل کرکے کر دیا کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(الانعام: 163) ان سے کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔
پس یہ تھا آپؐ کا مقام جو سرتاپا خدا کی محبت میں ڈوب کر آپ کو ملا تھا۔ آپ کو دنیاوی جاہ و حشمت نہیں چاہئے تھی۔ آپؐ کو تو خدائے واحدکی حکومت تمام دنیا پر چاہئے تھی اور اس کے لئے آپؐ نے ہر دکھ اٹھایا۔ آپؐ نے دنیا کو بتایا کہ اگر تم ہمیشہ کی زندگی چاہتے ہو تو میری پیروی کرو اور نمازوں کے وہ حق ادا کرنے کی اور وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرو جس کے نمونے مَیں نے قائم کئے ہیں۔ عبادتوں میں ڈوبنا ہی زندگی کی ضمانت ہے۔ اور قربانیوں کے ذریعہ حقیقی موت سے پہلے وہ موت اپنے اوپر وارد کرو جس کے اعلیٰ ترین معیارمَیں نے قائم کئے ہیں اور اس وجہ سے جو موت آئے گی تو پھر ایک ابدی زندگی شروع ہو گی۔ جو انسان کو خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بنائے گی۔ پس نمازوں اور قربانیوں کی وہ معراج آپؐ نے حاصل کی جس نے زندگی اور موت کے نئے زاویے آپؐ کی ذات میں قائم فرما دئیے اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے یہ اعلان کروا دیا کہ مجھے کسی لالچ کی کیا ترغیب دیتے ہو اور مجھے کسی ظلم کا نشانہ بنانے سے کیا ڈراتے ہو، میرا تو ہر فعل میرے خدا کے لئے ہے اور جس کا سب کچھ خدا کا ہو جائے اس کے لئے نہ دنیاوی زندگی کی کوئی حیثیت ہے، نہ موت کی کوئی حیثیت ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا، آنحضرتﷺ نے یہ اعلان کرکے ہمیں یہ بھی تعلیم دی کہ میرے نمونے تو یہ ہیں۔ تم بھی فَاتَّبِعُوْنِیْ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ان راستوں پر قدم مارنے کی کوشش کرو۔
آج آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کی جماعت کو بھی ان خوفوں سے ڈرانے کی دنیا کے کئی ممالک میں کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں تو ہر جگہ ہی، ہر روز کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی مسلم اکثریت کے علاقوں میں احمدیوں پر ظلم کئے جا رہے ہیں، خاص طور پر نومبائعین کو خوب ڈرایا جاتا ہے۔ اور حتیٰ کہ اب تویہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ یورپ کے ممالک میں بھی، بلغاریہ سے پچھلے دنوں جو رپورٹ آئی کہ وہاں کے مفتی کے کہنے پر احمدیوں کو ہراساں کیا گیا۔ اب بلغاریہ بھی نیا نیا یورپی یونین میں شامل ہوا ہے اس علاقہ میں بھی مسلمانوں کی تعداد کافی ہے تو وہاں کے مفتی کے کہنے پر پولیس نے 7، 8 احمدیوں کو پکڑ لیا اور ان سے کافی سختی کی، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ سب ایمان پر قائم ہیں تو ہمیشہ ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کیا کیا سختیاں ہیں یا تھیں جو آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہؓ پر نہیں کی گئیں۔ ہم پر تواس کا عشر عشیر بھی نہیں کیا جاتا۔ اگر اس اصل کو ہم سمجھ لیں کہ اپنی عبادتوں اور قربانیوں کو خالص اللہ کے لئے کر لیں اور اس بات پر قائم ہو جائیں کہ ہمارا جینا اور مرنا ہمارے خدا کے لئے ہے۔ تو جہاں انفرادی طور پر ہم اپنی ابدی زندگی کے وارث ہوں گے وہاں ہر احمدی اس دنیا میں بھی ہزاروں مردہ روحوں کو زندگی بخشنے کے سامان کرنے والا ہو گا۔
پس سب سے پہلے دعاؤں پر زور دیتے ہوئے اُسوہ رسولﷺ کے مطابق دنیا کی زندگی کے سامان کرنے والا ہر احمدی کو بننا چاہئے۔ اگر ہمارے عمل صحیح ہوں گے ہم اس اسوہ پر چلنے والے ہوں گے تبھی ہم اپنی زندگی کے سامان کے ساتھ ساتھ دنیا والوں کی زندگی کے بھی سامان کر رہے ہوں گے۔ اس اسوہ پر چلتے ہوئے جو آنحضرتﷺ نے ہمارے لئے چھوڑا ہمیں اپنی عبادتوں کے بھی معیار قائم کرنے ہوں گے۔
آپؐ نے عبادتوں کے کیا معیار قائم فرمائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے، حضرت عائشہؓ کے حوالے سے یہ بتا دوں کہ مَیں نے ایک کتاب کا جوذکر کیا اس میں بھی حضرت عائشہؓ کی ذات کے حوالے سے آنحضرتﷺ پر گند اچھالنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ بہرحال حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہتی ہیں کہ عورت ذات ہونے کی وجہ سے ٹھیک ہے کہ آپ کو ایک محبت اور پیار تھا لیکن آپؐ کا اصل محبوب کون تھا، حقیقی محبوب کون تھا۔ یہ بتاتے ہوئے حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میرے ہاں حضورﷺ کی باری تھی اور یہ باری نویں دن آیا کرتی تھی۔ بہرحال کہتی ہیں کہ میری آنکھ کھلی تو مَیں نے دیکھا کہ آپؐ بسترپر نہیں ہیں۔ مَیں گھبرا کر باہر صحن میں نکلی تو دیکھا کہ حضورؐ سجدے میں پڑے ہوئے ہیں اور کہہ رہے تھے کہ اے میرے پروردگار ! میری روح اور میرا دل تیرے حضور سجدہ ریز ہیں۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد کتاب الصلاۃ باب ما یقول فی رکوعہ و سجودہ جلد2 صفحہ259 دارالکتب العلمیۃ بیروت) تویہ ہے حقیقی محبوب کے سامنے اظہار اور یہ ہے جواب ان لوگوں کے لئے جو آپؐ کی ذات پر بیہودہ الزام لگاتے ہیں۔ پھر آپ اپنی سونے کی حالت میں بھی خداتعالیٰ کی یاد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میری دونوں آنکھیں تو بے شک سوتی ہیں لیکن دل بیدار ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب التہجد باب قیام النبیؐ باللیل فی رمضان حدیث نمبر 1147)
اور اس دل کی بیداری میں کیا ہوتا تھا؟ ذکر خدا ہوتا تھا۔ ہر کروٹ آپؐ کو خدا کی یاد دلاتی تھی۔ آپﷺ نے مختلف مواقع اور مختلف حالتوں کی جو دعائیں ہمیں اپنے عملی نمونے سے سکھائی ہیں وہ بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ آپؐ کا اوڑھنا بچھونا خداتعالیٰ کا ذکر اور عبادت تھی۔ پس یہ تصور ہے جو آپ نے ہمیں دیا کہ مومن کا ہر فعل اور حرکت و سکون عبادت بن سکتا ہے اگر خداتعالیٰ کی خاطر ہو اور خداتعالیٰ کی یاد دلانے والا ہو۔ اس نیت سے ہو کہ یہ فعل خدا کا قرب دلانے والا بنے گا۔
مثلاً ایک د فعہ آپؐ ایک صحابیؓ کے گھر گئے انہوں نے وہاں نیا گھر بنایا تھا۔ دیکھا کہ ایک کھڑکی رکھی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے آپ کو معلوم تو تھا کھڑکی کیوں رکھی جاتی ہے۔ آپؐ نے تربیت کے لئے اس سے پوچھا کہ بتاؤ یہ کھڑکی کس لئے رکھی ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ ہوا اور روشنی کے لئے۔ آپؐ نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے لیکن اس لئے رکھ دیتے، یہ بھی نیت ساتھ ملا لیتے کہ اذان کی آواز بھی اس سے آئے گی تاکہ مَیں نمازوں پہ جا سکوں تو تم نے پہلے جو یہ دونوں مقصد بیان کئے ہیں وہ تو حاصل ہو ہی جاتے اور ساتھ ہی اس کا ثو اب بھی مل جاتا۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد4صفحہ 167 کتاب الجنائز باب دفن المیت شرح حدیث نمبر 1710 بیروت 2001ء)
پھر ایک روایت میں آپؐ نے فرمایا، حدیث میں آتا ہے کہ خاوند کو چاہئے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بیوی کے منہ میں لقمہ اگر ڈالتا ہے تو اس کا بھی ثواب ہے۔ (بخاری کتاب النفقات باب النفقۃ علی الاھل حدیث 5354)
اب اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ صرف لقمہ ڈالنا بلکہ بیوی بچوں کی پرورش ہے، ان کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ ایک مرد کا فرض ہے کہ اپنے گھر کی ذمہ داری اٹھائے۔ لیکن اگر یہی فرض وہ اس نیت سے ادا کرتا ہے کہ خداتعالیٰ نے میرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے اور خدا کی خاطر میں نے اپنی بیوی، جو اپنا گھر چھوڑ کے میرے گھر آئی ہے، اس کا حق ادا کرنا ہے، اپنے بچوں کا حق ادا کرنا ہے تو و ہی فرض ثواب بھی بن جاتا ہے۔ یہ بھی عبادت ہے۔ اگر یہ خیالات ہوں ہر احمدی کے تو آج کل کے جو عائلی جھگڑے ہیں، توُتکار اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراضگیاں ہیں ان سے بھی انسان بچ جاتا ہے۔ بیوی اپنی ذمہ داریاں سمجھے گی کہ میرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ مَیں خاوند کی خدمت کروں، اس کا حق ادا کروں اور اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر مَیں یہ کر رہی ہوں گی تو اس کا ثواب ہے۔ تو آنحضرتﷺ نے دونوں فریقوں کو یہ بتا یا کہ اگر تم اس طرح کرو تو تمہارا یہ فعل بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی وجہ سے عبادت بن جائے گا۔ اس کا ثواب ملے گا۔ تو یہ چیزیں ہیں جو انسان کو سوچنی چاہئیں اور یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو بعض گھروں کو جنت نظیر بنا دیتی ہیں۔ آنحضرتؐ کی عبادت کے بارہ میں حضرت عائشہؓ سے ہی ایک روایت ہے، کہتی ہیں ایک رات مَیں نے دیکھا کہ آپؐ تہجد کی نماز میں سجدے میں پڑے ہیں اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اللہ تیرے لئے میرے جسم و جان سجدے میں ہیں۔ میرا دل تجھ پر ایمان لاتا ہے۔ اے میرے ربّ یہ دونوں ہاتھ تیرے سامنے پھیلے ہیں اور جو کچھ مَیں نے ان کے ساتھ اپنی جان پر ظلم کیا وہ بھی تیرے سامنے ہے۔ اے عظیم ! جس سے ہر عظیم بات کی امید کی جاتی ہے۔ میرے گناہوں، میرے عظیم گناہوں کو بخش دے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں۔ اس کے بعد جب نماز سے، دعا سے، فارغ ہوئے پھر آپؐ نے مجھے فرمایا کہ جبریل نے مجھے یہ الفاظ پڑھنے کے لئے کہا ہے اور تم بھی یہ پڑھا کرو۔ (مجمع الزوائد جلد 2کتاب الصلاۃ باب مایقول فی رکوعہ وسجودہ۔ حدیث نمبر 2775۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت طبع اول 2001ء)
اب دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے جس کامل بندے سے اللہ تعالیٰ نے ایک عرصہ پہلے یہ اعلان کروایا تھا کہ دنیا کو بتا دو کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی، میری موت سب خداتعالیٰ کے لئے ہے۔ کوئی کام نہیں جو مَیں اپنے لئے کروں یا اپنی مرضی سے کر رہا ہوں۔ یا اپنی کسی ذاتی خواہش کی وجہ سے کر رہا ہوں۔ بلکہ میرا ہر عمل اور ہر فعل خداتعالیٰ کی رضا کے لئے ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کامل بندہ کس طرح اپنی بندگی کے کامل ہونے کا اظہار کر رہا ہے۔ بڑی عاجزی اور خشیت سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ مَیں نے اپنی جان پہ ظلم کیا ہے، میرے گناہوں کو بخش دے۔ دراصل یہ نمونے ہمارے لئے قائم کئے گئے ہیں کہ کسی بھی قسم کی نیکی پر کسی بھی قسم کا تفاخر نہ کرو۔ فخر تم میں پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے بنتے ہوئے اس کے آگے جھکے رہو اور اس کی رحمت طلب کرتے رہو۔
پھر آپؐ کی سیرت کا ایک اور پہلو ہے وہ مَیں اس وقت لیتا ہوں۔ جو انصاف اور مساوات سے متعلق ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اس لئے ہلاک ہوئیں کہ جب بڑے آدمی سے جب کوئی قصور ہوتا تھا تو اسے چھوڑ دیا جاتا تھا اور جب کمزور کسی جرم کا مرتکب ہوتا تو اسے سزا دی جاتی تھی۔ تو یہ میری اُمّت میں نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن آج کل اگر ہم دیکھیں تو کثرت سے یہ نظر آتا ہے، بے انصافیاں، مسلمانوں میں پیدا ہو چکی ہیں۔ ایک قبیلہ کی مشہور عورت جو اچھے خاندان کی، اچھی پوزیشن کی عورت تھی اس نے چوری کی، اس کا نام فاطمہ تھا اور اس پہ آنحضرتﷺ نے چوری کی سزا لاگو کی۔ صحابہؓ نے اس کے لئے جان بچانے کے لئے کوشش کی۔ آخر کسی کو جرأت نہ ہوئی تو حضرت اسامہؓ کو سفارش کے لئے بھیجا۔ جب انہوں نے سفارش کی تو آپؐ کا چہرہ ایک دم متغیر ہو گیا اور فرمایا کہ تم اس کی بات کرتے ہو؟ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی یہ جرم کرتی تو مَیں اس پر بھی سزا لاگو کرتا۔ تو یہ انصاف کا معیار تھا جو آپؐ نے قائم فرمایا۔ (صحیح بخاری کتاب الحدود۔ باب اقامۃ الحدود علی الشریف… باب کراھیۃ فی الحد۔ حدیث نمبر 6787-6788)
ایک مرتبہ ابو ذر غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے دو لڑکوں کو لے جا کر یہ سفارش کی کہ ان کا بھی یہ خیال ہے اور مجھے بھی یہی خیال ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی پر ان کو لگایا جائے۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ابو ذر جسے عہدہ کی خواہش ہو ہم اسے عہدہ نہیں دیتے۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب النھی عن طلب الامارۃ حدیث: 4717) جب خدا دیتاہے تو پھر توفیق دیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کی مدد بھی کرتا ہے۔ اس خواہش کے بغیر کوئی شخص کسی بھی خدمت پر معمور کیا جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے کہ اس کی مدد بھی کرے اور اس میں برکت بھی ڈالے۔ فرمایا کہ جب مانگ کر لیا جائے تو پھر کام جو ہے وہ حاوی کر دیا جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ٹھیک ہے تم نے مانگ کے کام لیا، تم سمجھتے ہو مَیں اس کا اہل ہوں، تمہاری آگے آنے کی بڑی خواہش تھی تو پھر یہ ساری ذمہ داریاں نبھاؤ۔ مَیں دیکھوں تم کس حد تک نبھاتے ہو؟ پس عہدے کی خواہش جو ہے اس میں نفس پسندی کا دخل ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ بات بالکل پسندنہیں کہ انسان اپنے نفس کا زیادہ سے زیادہ اظہار کرے۔ آج بھی بعض دفعہ جماعت میں جن جگہوں پر جن جماعتوں میں تربیت کی کمی ہے، جن لوگوں میں تربیت کی کمی ہے وہ اب عہدے کی خواہش کرتے ہیں۔ اور بعض دفعہ علم نہ ہونے کی وجہ سے بعض جگہوں پہ جب جماعتی انتخابات ہوتے ہیں اپنے آپ کو ووٹ بھی دے لیتے ہیں۔ تو بہرحال اب تو اللہ کے فضل سے کافی حد تک جماعت کے افراد کو سوائے ایک آدھ کے جو نیا ہو ان باتوں کا، قواعد کا علم ہو چکاہے۔ اپنے آپ کو ووٹ دینے کی پابندی اس لئے جماعت میں ہے کہ جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ عہدے کی خواہش نہ کرو۔ اپنے آپ کو ووٹ دینے کا مطلب ہے کہ مَیں اس عہدے کا اہل ہوں اور میرے سے زیادہ کوئی اہل نہیں ہے اس لئے مجھے بنایا جائے۔
اسی طرح بعض لوگ انتخابات جب ہوتے ہیں تو اگر اپنے آپ کوووٹ نہیں بھی دیتے اس مجبوری کی وجہ سے کہ جماعت کے قواعد اجازت نہیں دیتے تو پھر وہ اپنا ووٹ استعمال بھی نہیں کرتے۔ اپنے ووٹ کو استعمال نہ کرنا بھی اس بات پر محمول کیاجاتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ مَیں اس بات کا اہل ہوں۔ گو کہ قواعد کی رو سے مَیں ووٹ تو نہیں دے سکتا لیکن کوئی دوسرا شخص میرے سے زیادہ اس بات کا اہل نہیں ہے اس لئے مَیں ووٹ استعمال نہیں کرتا۔ تو اس بات سے بھی بچنا چاہئے یہ بھی تربیت کے لئے بہت ضروری چیزیں ہیں۔ اگر کسی میں کسی بھی قسم کی صلاحیت ہے تو اس صلاحیت کا اظہار چاہے وہ پیشہ وارانہ ہو یا اور علمی نوعیت کی ہو یا کسی بھی قسم کی ہو تو اس صلاحیت کا اظہار عہدیداران کی یا دوسرے کی مدد کرکے کیا جا سکتا ہے۔ بغیر عہدے کے بھی خدمت کی جا سکتی ہے۔ اگر تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خدمت کرنی ہے تو پھر عہدے کی خواہش تو کوئی چیز نہیں ہے پس اس بات کو ہر احمدی کو نئے آنے والوں کو بھی نوجوانوں کو بھی اور پرانوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض پرانے احمدی بھی بعض دفعہ اس زعم میں کہ ہم زیادہ تجربہ کار ہیں زیادتی کر جاتے ہیں ایسے عہدیداروں کو بھی خیال رکھنا چاہئے، عہدیداروں میں خاص طور پر بے نفسی ہونی چاہئے۔ نام کی بے نفسی نہیں بلکہ حقیقی بے نفسی۔ عہدیداران کو آنحضرتﷺ کے یہ الفاظ ہمیشہ سامنے رکھنے چاہئیں کہ عہدیدار قوم کا خادم ہے۔
پھر ایک موقع پر حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو مخاطب کرکے آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ عہدہ ایک امانت ہے اور انسان بہرحال کمزور ہے۔ یہ امانت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی اور انسان کمزور ہے اگر امانت کا حق ادا نہیں کرو گے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پوچھے جاؤ گے۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب کرامۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ حدیث: 4719) پس اس امانت کا حق ادا کرنے کے لئے انتہائی عاجزی سے اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ اس خدمت کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پہلی بات تو یہ فرمائی کہ عہدیدار قوم کاخادم ہوتا ہے۔ خدمت کرے اور پھر اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ، ہر معاملے میں، ہر قدم پر، ہر لمحہ پر دعا مانگے کہ اللہ تعالیٰ میری راہنمائی فرماتا رہے۔ تبھی عہدیدار اپناخدمت کاحق، عہدے کا حق صحیح اداکر سکیں گے۔ بعض دفعہ میرے پاس بھی لوگ آتے ہیں۔ پوچھوں کہ کوئی کام ہے؟ تو جماعتی خدمات کا بتاتے ہیں۔ جب بھی پوچھو تو کہتے ہیں کہ میرے پاس آج کل یہ عہدہ ہے تو نوجوانوں کی تو مَیں یہ اصلاح کردیا کرتاہوں۔ اکثر مَیں ان کو یہ کہتا ہوں کہ یہ تمہارے پاس عہدہ نہیں یہ تمہارے پاس خدمت ہے۔ خدمت کا تصور پیدا کرو گے تو تبھی صحیح طور پر خدمت کر سکو گے۔
یہ نمونے تھے جو مَیں نے بیان کئے ہیں۔ آپؐ نے خدمت کے بارے میں، انصاف کے بارے میں، مساوات کے بارے میں، سادگی کے بارے میں جو احکام دئے آپؐ کی زندگی میں ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ اگر کہیں سفر پہ جا رہے ہیں، سواریاں کم ہیں تو آپ کا جو غلام ہے، بعض دفعہ غلام تو نہیں تھے لیکن بہرحال صحابہؓ میں سے جو بھی کم عمر تھے، سواریاں اگر دو دو کو بانٹی گئی ہیں تو آپؐ کے حصہ میں جو سواری آئی آپؐ نے جس طرح کچھ وقت کے لئے سواری کا اپنا حق استعمال کیا اسی طرح اپنے ساتھی کو بھی دیا اور خود پیدل چلے تو یہ انصاف اور مساوات آپ نے ہمیشہ قائم فرمائی۔ پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کا جویہ فرمان ہے کہ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدۃ: 9) یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کریں کہ تم انصاف نہ کرو۔ تم انصاف کروکہ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
آپؐ نے اس بارہ میں کیسا عظیم نمونہ دکھایا اس بارے میں ایک مثال مَیں دیتا ہوں۔ یہودیوں کا مشہور قلعہ خیبر جب فتح ہوا تو اس کی زمین مجاہدین جو جنگ میں شامل ہوئے تھے میں تقسیم کر دی گئی۔ جب وہ زمین تقسیم ہوئی، وہ زرخیز علاقہ تھا۔ وہاں کھجوروں کے باغ تھے۔ تو جب کھجوروں کی فصل ہوئی اور اس کی بٹائی کا وقت آیا، جب بانٹنے کا وقت آیاتو حضرت حضرت عبداللہ بن سہیلؓ اپنے چچا زاد بھائی محیصہ کے ساتھ کھجوروں کی بٹائی کے لئے وہاں زمین پرگئے تو تھوڑی دیر کے لئے دونوں وہاں سے الگ ہوئے۔ اس عرصہ میں جب وہ الگ ہوئے تو حضرت عبداللہؓ کو کسی نے اکیلا سمجھ کے وہاں قتل کر دیا اور ان کی لاش گڑھے میں پھینک دی۔ کیونکہ یہودیوں سے زمین لی گئی ہے وہاں موجود بھی ہیں اس لئے ہو سکتا ہے انہی میں سے کسی نے قتل کیا ہو۔ مسلمان نے تو قتل نہیں کرنا تھا، کوئی دشمنی نہیں تھی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا بڑے واضح ایسے امکانات تھے کہ یہودیوں پر الزام آتا تھا اور الزام لگایا گیا۔ بہرحال آنحضرتﷺ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو آنحضورﷺ نے محیصہ سے پوچھا کہ کیا تم قسم کھا سکتے ہو کہ ان کو یہودی نے قتل کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ مَیں نے اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا اور جب مَیں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تو میں قسم نہیں کھا سکتا۔ توآنحضرتﷺ نے فرمایا پھر یہودیوں سے حلف لیا جائے گا۔ کیا انہوں نے قتل کیا ہے؟ یہ اس بات کی صفائی دیں کہ انہوں نے قتل نہیں کیا۔ قتل کرنے کو تو کوئی نہیں تسلیم کرے گا۔ صفائی دینی تھی کہ قتل نہیں کیا۔ تو محیصہ نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ ان یہودیوں کا کیا اعتبار ہے۔ یہ سو دفعہ جھوٹی قسمیں کھا لیں گے لیکن چونکہ انصاف کا تقاضا تھا۔ آپؐ نے کہا ٹھیک ہے، قسم کھا لیں گے تو ان کی بچت ہو جائے گی۔ انہوں نے قسم کھا لی۔ آپؐ نے یہودیوں کو کچھ نہیں کہا اور بیت المال سے پھر عبداللہ کا خون بہا دلوا دیا۔ (اقضیۃ رسول اللہﷺ جلد اول صفحہ 134-143 کتاب الحدود باب حکم رسول اللہ بالقسامۃ فیمن لم یعرف قاتلہ۔ دار السلام الریاض 2003ء)
تو یہ انصاف ہے۔ یہ اُسوہ ہے جو آپؐ نے قائم فرمایا۔ زندگی کے کسی بھی پہلو کو آپؐ نے نہیں چھو ڑا۔ کسی بھی پہلو کو لے لیں اس میں آپؐ کا اُسوہ ہمیں نظر آتا ہے۔ مَیں نے انصاف کی جو یہ مثال دی ہے تو آج کل آپ دیکھیں، بڑے بڑے جبّہ پوش جو بڑی بڑی محفلیں مجلسیں، مجلس میلاد منعقد کرتے ہیں لیکن جیسا کہ مَیں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ان میں سوائے احمدیوں کو گالیاں دینے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ختم نبوت کے نام پر بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں اور اس کی تان پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف دریدہ دہنی پر آکے ٹوٹتی ہے۔
پھر دیکھیں کہ صحابہؓ کی تربیت کیا تھی؟ باوجود اس کے کہ واقعات اس بات کے گوا ہ تھے، یہ شہادت موجود تھی، حالات کی شہادت موجود تھی لیکن پھر بھی کیونکہ دیکھا نہیں تھا اس لئے جھوٹی قسم نہیں کھائی۔ لیکن آج کل یہ بڑے بڑے جو جبّہ پوش ہیں، جو اسلام کے علمبردار ہیں یا جوہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اسلام کے علمبردار تو نہیں، ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اپنے حلفیہ بیان دے کر احمدیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنواتے ہیں۔ پولیس سٹیشن میں جاتے ہیں اور اپنی طرف سے ایف آئی آر (F.I.R) درج کراتے ہیں۔ احمدیوں پر نہایت بیہودہ اور گھٹیا الزامات لگا کر ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اور اس پر گواہ بن رہے ہوتے ہیں۔ کوئی خوف خدا نہیں ان لوگوں کو۔ اگر تو یہ اُسوہ رسول پر چلنے والے ہوتے تو یقینا خدا کا خو ف ہوتا۔ محیصہ نے جو جھوٹے حلف کے بارے میں یہودیوں کے متعلق کہا تھا کہ ان کا کیا ہے وہ تو سو جھوٹی قسمیں کھا لیں گے۔ آج دیکھیں یہ بات کس پہ صادق آتی ہے؟ اللہ تعالیٰ ان معصوم مسلمانوں پر بھی رحم کرے جو ان نام نہاد علماء کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں اور ان کی باتوں میں آ کے غلط قسم کی باتوں میں ملوث ہیں اور اسی وجہ سے ان کو سمجھ نہیں آ رہی۔ کئی گھر اجڑ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو بڑی سختی سے اس بات سے منع کیا ہے کہ مسلمان کے ہاتھ سے مسلمان کا خون نہیں ہونا چاہئے۔ اس دنیا میں بھی سزا اگلے جہان میں بھی عذاب اور آج کل ایک د وسرے کا خون اس سے بھی زیادہ ارزاں اور سستا ہے جتنا ایک جانور کا خون ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو آخری نصیحت فرمائی تھی اس میں فرمایا تھاکہ تمہارے لئے اپنے خونوں اور اپنے اموال کی حفاظت کرنا اسی طرح واجب ہے جس طرح تم اس دن اور اس مہینے کی حرمت کرتے ہو۔ ایک دوسرے پر خون کی اور مالوں کی حفاظت کی ذمہ داری ڈالی تھی۔ (بخاری کتاب المغازی باب حجۃ الوداع حدیث4406)
آج دیکھ لیں پاکستان میں کیا ہو رہاہے؟ ایک دوسرے کو لوٹا جا رہا ہے۔ احمدیوں کو خدا کے نام پر لوٹا جا رہا ہے حالانکہ آنحضرتﷺ نے ہر کلمہ گو کو فرمایا کہ وہ مسلمان ہے۔
اللہ تعالیٰ رحم کرے مسلمانوں کی حالت پر بھی اور انہیں توفیق دے کہ اس رحمۃ للعالمین کے حقیقی اسوہ پر چلنے ولے بنیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے رحم کے وارث ٹھہر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آپﷺ کے اسوہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگیوں کوا س کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلدنمبر 16 شمارہ نمبر 14 مورخہ 3 اپریل تا 9 اپریل 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 9)
اس اعتراض کا جواب کہ ہم 12ربیع الاول کیوں جوش و خروش سے نہیں مناتے۔ مولود النبی کی تاریخ کا ذکر کہ کب سے منانا شروع کیا گیا۔ سیرت صرف سال میں ایک دن کی بجائے سارا سال مختلف وقتوں میں جلسے کر کے بیان کی جانی چاہیے لیکن اگر ایک معین دن بھی سارے ملک میں کر لئے جائیں تو کوئی حرج نہیں سوائے اس کے کہ بدعات شامل نہ ہوں۔ ازواج مطہرات کی نسبت امریکہ میں لکھی گئی کتاب کے متعلق ایک عیسائی کا کہنا کہ ایسی بیہودہ کتاب کو تو پڑھا ہی نہیں جا سکتا۔ نبی کریمؐ کی سیرت کا ذکر۔ پاکستان، ہندوستان اور بلغاریہ میں احمدیوں پر مظالم کا ذکر۔ سب سے پہلے دعاؤں پر زور دیتے ہوئے اسوہ رسولؐ کے مطابق ہر احمدی بن جائے۔ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کا ذکر۔ انصاف اور مساوات کے حوالے سے سیرت النبیؐ کا تذکرہ، عہدیداروں میں خاص طور پر بے نفسی ہونی چاہیے۔
فرمودہ مورخہ 13؍مارچ 2009ء بمطابق13؍امان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔