اللہ تعالیٰ کی صفت ستّار کے حوالے سے پردہ پوشی
خطبہ جمعہ 27؍ مارچ 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اللہ تعالیٰ کا ایک نام ستّار ہے۔ مفردات میں لکھا ہے کہ ستّار کے معنے ہیں وہ ذات جو پردے میں ہے یا چھپی ہوئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ وَاللّٰہُ سَتَّارُالْعُیُوْبِ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو غلطیوں اور کمزوریوں کو چھپانے والی ہے اور نہ صرف اللہ تعالیٰ انسانوں کی غلطیوں اور کمزوریوں کو چھپاتا ہے بلکہ احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سَتَر پسند ہے، پردہ پوشی پسند ہے۔
مسند احمد کی ایک حدیث ہے آنحضرتﷺ نے فرمایا اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یُحِبُّ الْحَیَاءَ وَالسِّتْرَ۔ (مسند احمد جلد 6صفحہ 163۔ مسند یعلی بن امیۃ۔ حدیث 18131 مطبوعہ بیروت۔ 1998ء)
یہ حضرت یَعْلٰی بِنْ اُمَیّہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ یقینا اللہ تعالیٰ حیا اور سَتَر کو پسند فرماتا ہے۔
اور پھر کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی سَتَر اور پردہ پوشی فرماتا ہے۔ اس بارہ میں بھی ایک روایت ہے۔ صَفْوَان بن مُحْرِز بیان کرتے ہیں ایک شخص نے حضرت ابن عمرؓ سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہﷺ سے رازونیاز کے متعلق کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے ربّ کے قریب ہوگا یہاں تک کہ وہ اپنا سایہ رحمت اس پر ڈالے گا۔ پھر فرمائے گا تم نے فلاں فلاں کام کیا تھا۔ وہ کہے گا ہاں میرے ربّ۔ پھر کہے گا فلاں فلاں کام بھی کیا تھا۔ وہ کہے گا ہاں۔ اللہ پھر اس سے اقرار کروا کر کہے گا۔ مَیں نے اُس دنیا میں تیری پردہ پوشی کی تھی، (یہ مادی دنیا مرادہے)۔ آج (قیامت کے دن) بھی پردہ پوشی کرتا ہوں اور وہ(غلط) کام جو توُ نے کئے تھے مَیں تمہیں معاف کرتا ہوں۔ (بخاری کتاب الادب۔ باب ستر المومن علی نفسہ۔ حدیث نمبر 6070)
تو یہ وہ پیارا خدا ہے جو اپنے بندوں سے اس طرح پردہ پوشی اور مغفرت کا سلوک فرماتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ دوسرے مذاہب اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی کا یہ تصور پیش ہی نہیں کرسکتے۔ اگر پردہ پوشی کا یہ تصور ہوتا تو مثلاً عیسائیوں میں کفارے کا مسئلہ نہ ہوتا۔ اور اسی طرح آریوں میں جونوں کا تصور نہ ہوتا کہ سزا جزا کے لئے اس دنیا میں اَور اَور شکلوں میں آنا ضروری ہے۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 126-127 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس اسلام ہی اللہ تعالیٰ کی ستاری کا یہ تصورپیش کرتا ہے جس کا اظہار اس دنیا میں بھی ہوتا ہے اور اگلے جہان میں بھی۔ لیکن اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں لے لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے چونکہ پردہ پوشی کو پسند فرمایا ہے اور بندے کو یہ کہہ کر بخش دیا کہ تمہاری میں نے اس دنیا میں بھی پردہ پوشی فرمائی تھی یہاں بھی پردہ پوشی کرتے ہوئے بخش دیتا ہوں تو اس بات سے ہم بے لگام ہو جائیں کہ بُرے اور بھلے کی تمیز نہ رہے کیونکہ بخشے تو جانا ہی ہے، کیا فرق پڑتا ہے۔ برائیاں بھی کر لیں اور گناہ بھی کرلیں۔ جو چاہے کرتے پھریں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ مومنوں پر اللہ تعالیٰ کے پردے اس قدر ہیں کہ وہ شمار سے باہر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو، مومن کو اس کی پردہ پوشی فرمانے کے لئے پردوں میں لپیٹا ہوا ہے۔ ایک مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے پردے ایک ایک کرکے پھٹتے جاتے ہیں یہاں تک کہ اگر وہ مستقل گناہ کرتا چلا جاتا ہے تو لکھا ہے کہ کوئی پردہ بھی باقی نہیں رہتا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے بندے کو چھپاؤ تووہ اپنے پروں سے اسے گھیر لیتے ہیں۔ یہ دیکھیں اللہ تعالیٰ کس طرح ستاری فرما رہا ہے۔ لیکن اگر انسان اللہ تعالیٰ کے سلوک پر اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش نہ کرے تو پھر اللہ تعالیٰ کیا سلوک فرماتا ہے۔ یہ ایک لمبی حدیث ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ فرشتوں کے اس بندے کو چھپانے کے بعد اگر وہ شخص توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس کے پردوں کوجو اُٹھ گئے تھے واپس لوٹا دیتا ہے بلکہ ہر پردے کے عوض مزیدنو(9) پردے عطا فرما دیتا ہے تاکہ اس کی بخشش کے سامان ہوتے رہیں۔ اس کی پردہ پوشی ہوتی رہے۔ لیکن اگر بندہ توبہ نہ کرے اور گناہوں میں ہی پڑا رہے تو فرشتے کہتے ہیں کہ ہم کس طرح اسے ڈھانپیں یہ تو اتنا بڑھ گیا ہے کہ یہ تو ہمیں بھی گندہ کررہا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو کہے گا کہ اسے الگ چھوڑ دو اور پھر اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ پھر اس کے ہر عیب اور گناہ کو جو اس نے اندھیروں میں بھی کیا ہو ظاہر کر دیتا ہے۔ (کنز العمال کتاب الاخلاق قسم الاقوال تتبع العورات من الاکمال جلد 3 صفحہ 184 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
یعنی خداتعالیٰ کی پردہ پوشی نہیں رہتی۔ پس ہر مومن کو ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کرنے والا بنائے تاکہ ہمیشہ اس کی ستّاری سے حصہ پاتے رہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خداتعالیٰ کی ستّاری کا بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’مالک یوم الدین کا تقاضا یہ ہے کہ بامراد کردے۔ جیسے ایک شخص امتحان کے لئے بہت محنت اور تیاری کرتا ہے مگر امتحان میں دو چار نمبروں کی کمی رہ جاتی ہے تو دنیاوی نظام اور سلسلہ میں تو اس کا لحاظ نہیں کرتے اور اس کو گرا دیتے ہیں، مگر خداتعالیٰ کی رحیمیت اس کی پردہ پوشی فرماتی ہے اور اس کو پاس کرا دیتی ہے۔ رحیمیت میں ایک قسم کی پردہ پوشی بھی ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 126 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا کہ: ’’اسلام نے وہ خدا پیش کیا ہے جو جمیع محامد کا سزاوار ہے اس لئے مُعطی حقیقی ہے۔ وہ رحمٰن ہے بدُوں عملِ عامل کے اپنا فضل کرتا ہے‘‘(یعنی اسلام نے خدا کا وہ تصور پیش کیا ہے جو ہر قسم کی تعریف کے لائق ہے تمام تعریفیں اس میں جمع ہیں۔ وہی ایک ذات ہے جس میں یہ ساری صفات جمع ہوسکتی ہیں اور وہ ایسا عطا کرنے والا ہے جو حقیقی رنگ میں عطا کرنے والا ہے اور رحمانیت کے جلوے دکھاتے ہوئے عطا فرماتاہے کہ اگر کسی نے کوئی عمل نہیں بھی کیا یا تھوڑا بہت عمل کیا ہے تب بھی وہ بیشمار نواز دیتا ہے یہ اس کی مالکیت ہے۔ وہ معطی ہے، رحمان ہے، مالکیت اس کی بعض دفعہ وہ نظارے دکھاتی ہے کہ اس کی رحمانیت کے جلوے ہمیں نظر آتے ہیں اور بلا کسی عمل کے بھی نوازتا چلا جاتا ہے اور غلطیوں اور کوتاہیوں پر پردہ پوشی بھی فرماتا چلا جاتا ہے)۔
اور فرمایا: ’’پھر مالکیت یوم الدین جیساکہ مَیں نے ابھی کہا ہے بامراد کرتی ہے۔ دنیا کی گورنمنٹ کبھی اس امر کا ٹھیکہ نہیں لے سکتی کہ ہر ایک بی اے پاس کرنے والے کوضرور نوکری دے گی۔ مگرخداتعالیٰ کی گورنمنٹ، کامل گورنمنٹ اور لاانتہا خزائن کی مالک ہے۔ اس کے حضور کوئی کمی نہیں۔ کوئی عمل کرنے والا ہو وہ سب کو فائز المرام کرتا ہے‘‘۔ (کامیابی عطا فرماتا ہے)’’اور نیکیوں اور حسنات کے مقابلے میں بعض ضعفوں اور سُقموں کی پردہ پوشی بھی فرماتا ہے‘‘۔ (جوکمزوریاں رہ جاتی ہیں ان کی پردہ پوشی فرماتا ہے)۔ ’’وہ توّاب بھی ہے۔ مُسْتَحْیِی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ہزار ہا عیب اپنے بندوں کے معلوم ہوتے ہیں، مگر ظاہر نہیں کرتا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 126 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
یا اپنے بندے کی ایسی حیا رکھتا ہے کہ ایک حدیث میں آیا کہ اللہ تعالیٰ حیا کو پسند کرتا ہے (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 163 مسند یعلی بن امیہ حدیث 18131 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
اور یہ حیا اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بات کو کہنے میں شرماتا ہے۔ بلکہ اس لئے کہ بندے کو شرمندگی سے بچائے۔
فرمایا: ’’ہاں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ بیباک ہو کر انسان اپنے عیبوں میں ترقی پر ترقی کرتا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی حیا اور پردہ پوشی سے نفع نہیں اٹھاتا۔ بلکہ دہریت کی رگ اس میں زور پکڑتی جاتی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ اس بیباک کو چھوڑا جائے۔ اس لئے وہ ذلیل کیا جاتا ہے‘‘۔
فرماتے ہیں کہ: ’’غرض میرا مطلب توصرف یہ تھا‘‘ (ایک بیان چل رہا تھا پیچھے) ’’کہ رحیمیت میں ایک خاصہ پردہ پوشی کا بھی ہے مگر اس پردہ پوشی سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی عمل ہو اور اس عمل کے متعلق اگر کوئی کمی یا نقص رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحیمیت سے اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 127-126۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اور بعض دفعہ رحمانیت کے جلوے دکھا رہا ہوتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رحیمیت سے بھی پردہ پوشی فرما دیتا ہے اور انسان کچھ نہ کچھ جوعمل کررہا ہے اس پر جزا بھی دے رہا ہوتا ہے اور اگر انسان میں برائی پر شرمندگی کا احساس ہو، توبہ کی طرف توجہ ہو تو اللہ تعالیٰ پردہ پوشی فرماتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ کے حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرنے سے یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان اپنی برائیوں میں بڑھتا چلا جائے اور اپنی کوتاہیوں میں بڑھتا چلا جائے۔ اس طرح پھر برائیوں میں بڑھنے کا جواز پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ ایسا انسان جو اس بات پر قائم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش ہی دینا ہے اس لئے عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ معاشرے کو مزید خراب کرنے والا ہوگا۔ اس لئے حدیث میں بھی اس کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ ایسے جو ڈھیٹ لوگ ہوں، ضد کرنے والے ہوں ان کی پھر اللہ تعالیٰ حیا نہیں رکھتا۔ بلکہ ان کے اندھیروں میں کئے گئے گناہوں کو بھی ظاہر فرما دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی صفت ستّار کے حوالے سے اس سے مستقل یہ دعا مانگتے رہنا چاہئے کہ ہمیں اپنی ستّاری کی چادر میں ڈھانپ لے۔
آنحضرتﷺ نے جو دعائیں سکھائیں ان کے بارہ میں ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت جُبَیْر بِن مُطْعَمؓ روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت ابن عمرؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہﷺ ان دعاؤں کو کبھی ترک نہیں کرتے تھے۔ جو یہ ہیں کہ اے اللہ میرے ننگ کو ڈھانپ دے اور میرے اندیشوں کو امن میں بدل دے۔ اے اللہ میری حفاظت فرما (ان خطرات سے) جو میرے آگے ہیں اور جو میرے پیچھے ہیں۔ جو میرے دائیں ہیں اور جو میرے بائیں ہیں اور جو میرے اوپر ہیں اور مَیں تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں (ان خطرات سے) جو مجھے نیچے سے اچک لیں۔ (ابوداؤد۔ کتاب الادب باب ماذا یقول اذا اصبح۔ حدیث نمبر 5074)
یہ اللہ تعالیٰ کی مکمل ستاری اور مغفرت کی دعائیں ہیں۔ آنحضرتﷺ سے تو آپؐ کی ہر قسم کی حفاظت کے، ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کے اللہ تعالیٰ کے وعدے تھے۔ بلکہ آپؐ نے فرمایا کہ میرا تو شیطان بھی مسلمان ہو گیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین واحکامھم باب تحریش الشیطان…حدیث: 7110)
یہ دعائیں تو اصل میں ہمیں سکھائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس روح کو سمجھتے ہوئے ان دعاؤں کو پڑھنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
پھر اس زمانے میں آنحضرتﷺ کے عاشق صادق نے جو ہمیں دعائیں سکھائی ہیں۔ اس بارے میں ان کے بھی ایک دو نمونے پیش کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اے میرے محسن اور اے خدا !مَیں تیرا ناکارہ بندہ پُر معصیت اور پُر غفلت ہوں۔ توُنے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔ تُو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بیشمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پُر گناہ پر رحم کر اور میری بیباکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اور کوئی چارہ گر نہیں۔ آمین۔ ثم آمین‘‘۔ (مکتوبات احمد جلدنمبر 2 صفحہ 10 مکتوب نمبر 2 بنام حضرت مولانا حکیم ناور الدین صاحبؓ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک اور جگہ ایک اور دعا اس طرح آپ نے بتائی کہ: ’’اے ربّ العالمین تیرے احسانوں کا مَیں شکر نہیں کرسکتا۔ تو نہایت ہی رحیم وکریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا مَیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے توُ راضی ہو جائے۔ مَیں تیرے وجہِ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیر اغضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین ثم آمین‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 153 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس یہ دعائیں ہیں جو ہمارا خاصّہ ہونا چاہئیں۔ تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں بھی رہیں اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں اور گناہوں پر نظربھی رکھتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش بھی کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ستّار سے فیض پانے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے آنحضرتﷺ نے ایک مومن پر کیا ذمہ داری ڈالی ہے؟ اس بارہ میں مَیں چند ایک احادیث پیش کرتا ہوں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ’’جس نے کسی مومن عورت کی حرمت کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ آگ سے اسے محفوظ رکھے گا‘‘۔ (مجمع الزوائد جلد 6صفحہ 268۔ کتاب الحدود والدیات باب الستر علی المسلمین۔ حدیث نمبر 10477 دار الکتب العلمیۃ بیروت2001ء)
یہ حدیث خاص طور پر ان لوگوں کے لئے مَیں نے چنی ہے کہ جب میاں بیوی کے تعلقات باہم ایک دوسرے کے ساتھ خراب ہوں تو ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں اور پھر یہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے گھر والے بھی اور خاص طور پر جب لڑکے کے گھروالے لڑکی پہ یا لڑکی کے گھر والے لڑکے پہ الزام لگا رہے ہوتے ہیں تو بعض دفعہ بلاوجہ الزام لگ رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ پردہ پوشی کرو۔ بعض جائز باتیں بتائی جارہی ہوتی ہیں۔ بعض سراسر تہمتیں لگائی جارہی ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ لڑکا یا اس کے گھر والے قضاء میں یا عدالت میں لڑکی پر ایسے ایسے الزام لگا رہے ہوتے ہیں کہ اُن کو سُن کر شرم آتی ہے۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مومن عورت کی حرمت کی پردہ پوشی کرو تو اللہ تعالیٰ آگ سے محفوظ رکھے گا۔ بعض دفعہ علیحدگیاں بھی ہو جاتی ہیں، جو بھی وجوہات ہوں علیحدہ ہونا ہے تو بیشک ہوں لیکن ایسے الزامات جو پیش کئے جاتے ہیں ان کے بغیر بھی وہ مدعا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
پس ایک احمدی کو ان باتوں سے بچنا چاہئے۔ چاہے کوئی بھی فریق ہو۔ یہاں عورت کی حرمت کی مثال دی گئی ہے۔ لیکن اگلی حدیث میں اس کو عمومی کیا گیا ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ’’جو مومن اپنے بھائی کے عیب کو دیکھ کر اس کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کر دے گا‘‘۔ (مجمع الزوائد جلد 6صفحہ 268۔ کتاب الحدود والدیات باب الستر علی المسلمین۔ حدیث نمبر 10476 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
یعنی عیب تلاش کرنے کی بجائے چھپائے جائیں۔ اس سے دونوں طرف کے رشتہ داروں کو تنبیہ کر دی گئی ہے اور ساتھ ہی خوشخبری بھی دے دی گئی ہے کہ توُ نے اپنے مسائل حل کرنے ہیں تو جائز طریقے سے کرو۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے نہیں۔ اور اگر تم لوگ جائز طریقے سے کرو گے، ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرو گے (بہت سے اب جو نئے رشتے قائم ہوتے ہیں تو راز کی باتیں بھی پتہ لگتی ہیں ) تو اگر تعلقات خراب ہونے کی صورت میں پردہ پوشی کرو گے تو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کر دے گا۔
پہلی حدیث میں تو سزا سے بچنے کی طرف اشارہ تھا کہ اللہ تعالیٰ پردہ پوشی کرنے کی وجہ سے آگ سے محفوظ رکھے گا۔ یہاں فرمایا کہ جنت میں داخل کر دے گا۔ نہ صرف سزا سے بچائے گا بلکہ انعامات سے بھی نوازے گا۔ تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے دینے کے طریقے۔ پھر ایک روایت میں اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی مدد کے وقت اسے اکیلا چھوڑتا ہے۔ اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے۔ اور جس نے کسی مسلمان سے اس کی تکلیف دُور کی تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی تکالیف میں سے تکالیف دور کر دے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے روزپردہ پوشی فرمائے گا۔ (صحیح بخاری کتاب المظالم باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ۔ حدیث نمبر 2442)
تو یہ ہیں وہ معیار جو حقیقی مسلمان کے ہونے چاہئیں، ایک احمدی کے ہونے چاہئیں۔ بلکہ ہم نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر جمع ہو کر بیعت کرکے ان سب برائیوں سے بچنے کا عہد بھی کیا ہے۔ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کیا فرماتے ہیں۔ آپؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ: ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں باہم نزاعیں بھی ہو جاتی ہیں‘‘۔ (آپس میں جھگڑے ہو جاتے ہیں جماعت میں ) ’’اور معمولی نزاع سے ایک دوسرے کی عزت پر حملہ کرنے لگتاہے‘‘ چھوٹے چھوٹے جھگڑے ہوتے ہیں لیکن ان چھوٹے جھگڑوں کی وجہ سے ایک دوسرے کی عزت پر بھی حملہ کرنے لگ جاتے ہیں ’’اور اپنے بھائی سے لڑتا ہے۔ یہ بہت ہی نامناسب حرکت ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ ایک اگر اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو کیا حرج ہے۔ بعض آدمی ذرا ذرا سی بات پر دوسرے کی ذلت کا اقرار کئے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ان باتوں سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ خداتعالیٰ کا نام ستّار ہے۔ پھر یہ کیوں اپنے بھائی پر رحم نہیں کرتا اور عفو اور پردہ پوشی سے کام نہیں لیتا۔ چاہئے کہ اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے اور اس کی عزت و آبرو پر حملہ نہ کرے‘‘۔
فرماتے ہیں کہ’’ایک چھوٹی سی کتاب میں لکھا دیکھا ہے کہ ایک بادشاہ قرآن لکھا کرتا تھا‘‘۔ (پرانی روایتیں، حکایتیں ہوتی ہیں ) ’’ایک مُلّاں نے کہا کہ یہ آیت غلط لکھی ہے۔ بادشاہ نے اُس وقت اس آیت پر دائرہ کھینچ دیا کہ(ٹھیک ہے بعدمیں اس کو دیکھ لوں گا) ’’اس کو کاٹ دیا جائے گا۔ جب وہ چلا گیا تو اس دائرہ کو کاٹ دیا۔ جب بادشاہ سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا‘‘ (بجائے لفظ کاٹنے کے آپ نے دائرہ کاٹ دیا) ’’تو اس نے کہا کہ دراصل وہ (مُلّاں ) غلطی پر تھا مگر مَیں نے اس وقت دائرہ کھینچ دیا کہ اس کی دلجوئی ہو جاوے‘‘۔ (باوجود اختیارات ہونے کے اس نے یہ عاجزی دکھائی۔ برداشت کا حوصلہ دکھایا کہ تم باوجود میری رعیت ہونے کے میرے سامنے کس طرح بول سکتے ہو۔ پھربھی اس کی ستاری کرلی، اسے اپنے سامنے شرمندہ ہونے سے بچالیا کہ ٹھیک ہے تم کہتے ہو تو مَیں اس پر دائرہ لگا دیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں یہ معیار ہونا چاہئے۔)
فرمایا ’’یہ بڑی رعونت کی جڑ اور بیماری ہے کہ دوسرے کی خطا پکڑ کر اشتہار دے دیا جاوے۔ ایسے امور سے نفس خراب ہو جاتا ہے اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ غرض یہ سب امور تقویٰ میں داخل ہیں اور اندرونی بیرونی امور میں تقویٰ سے کام لینے والا فرشتوں میں داخل کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں کوئی سرکشی باقی نہیں رہ جاتی‘‘۔ فرشتوں کا کام تو اطاعت ہے۔ تقویٰ کا یہ معیار ہو گا تو فرشتوں میں داخل ہو جائے گا۔ اس میں کوئی کسی قسم کی سرکشی باقی نہیں رہتی۔ ’’تقویٰ حاصل کرو کیونکہ تقویٰ کے بعد ہی خدا تعالیٰ کی برکتیں آتی ہیں۔ متقی دنیا کی بلاؤں سے بچایا جاتا ہے‘‘۔ (آج کل ہر کسی پر بیشمار بلائیں، مصیبتیں، ابتلائیں آتی رہتی ہیں۔ فرمایا تقویٰ اختیار کرو تو بلاؤں سے بچائے جاؤ گے) ’’خدا ان کا پردہ پوش ہو جاتا ہے۔ جب تک یہ طریق اختیار نہ کیا جاوے کچھ فائدہ نہیں۔ ایسے لوگ میری بیعت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ فائدہ ہو بھی تو کس طرح جبکہ ایک ظلم تو اندر ہی رہا‘‘۔ (اگر پردہ پوشی نہیں۔ فرمایا: یہ بھی ایک ظلم ہے باقی جو نیکیاں کر بھی لیں۔ بیعت بھی کرلی تو یہ ظلم اگر اندر دل میں رہا تو فائدہ نہیں ہوسکتا)۔ فرمایا کہ’’اگر وہی جوش، رعونت، تکبر، عُجب، ریاکاری، سریع الغضب ہونا باقی ہے جو دوسروں میں بھی ہے تو پھر فرق ہی کیا ہے؟‘‘۔ (تکبر بھی پیدا ہورہا ہے۔ بناوٹ اور تصنع بھی ہے فوری طور پر غصے میں آجانا بھی ہے تو فرق کیا ہوا) فرمایا ’’سعید (نیک فطرت) اگر ایک ہی ہو اور وہ سارے گاؤں میں ایک ہی ہو تو لوگ کرامت کی طرح اس سے متأثر ہوں گے۔ نیک انسان جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر نیکی اختیار کرتا ہے اس میں ایک ربّانی رعب ہوتا ہے اور دلوں میں پڑ جاتا ہے کہ یہ باخدا ہے۔ یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے خداتعالیٰ اپنی عظمت سے اس کو حصہ دیتا ہے اور یہی طریق نیک بختی کا ہے۔
پس یاد رکھو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھائیوں کو دکھ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ آنحضرتﷺ جمیع اخلاق کے مُتَمِّمْ ہیں‘‘۔ (آپ میں سب اخلاق جمع ہوئے ہوئے ہیں ) ’’اور اس وقت خدا تعالیٰ نے آخری نمونہ آپؐ کے اخلاق کا قائم کیا ہے۔ اس وقت بھی اگر وہی درندگی رہی تو پھر سخت افسوس اور کم نصیبی ہے‘‘۔ (اب آخرین کے ساتھ مل کے جو پیشگوئیاں پوری ہورہی ہیں اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ ) فرمایا کہ’’پس دوسروں پر عیب نہ لگاؤ کیونکہ بعض اوقات انسان دوسروں پر عیب لگا کر خود اس میں گرفتار ہو جاتا ہے اگر وہ عیب اس میں نہیں۔ لیکن اگر وہ عیب سچ مچ اس میں ہے تو اس کا معاملہ پھر خداتعالیٰ سے ہے۔ بہت سے آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے بھائیوں پر معاً ناپاک الزام لگادیتے ہیں‘‘۔ (ذرا سی بات ہوئی فوری طور پر الزام لگا دیااور بڑا گندہ قسم کا الزام لگا دیا)۔ ’’ان باتوں سے پرہیز کرو۔ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاؤ اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی، ہمسایوں سے نیک سلوک کرو اور اپنے بھائیوں سے نیک معاشرت کرو اور سب سے پہلے شرک سے بچو کہ یہ تقویٰ کی ابتدائی اینٹ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 571 تا 573 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
یہ ساری برائیاں جو پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مخفی شرک ہوتا ہے۔ اگر خداتعالیٰ کا خوف ہو اور علم ہو کہ وہ دیکھ رہا ہے اور میری ہر بات کا اس کو علم ہے تو کبھی اس قسم کی حرکت انسان کر ہی نہیں سکتا جو اس کو برائیوں کی طرف لے جارہی ہو۔
اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنے اور پردہ دری نہ کرنے کے بارے میں کتنا کچھ ارشاد فرمایا ہے۔ ایک آیت میں آتا ہے۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ (الحجرات: 13) کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقینا بعض ظن گناہ ہوتے ہیں اور تجسس نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو یقینا اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اس آیت میں جس ظن کا ذکر کیا گیا ہے وہ بدظنی پر بنیاد رکھتا ہے۔ دنیا میں برائیاں پھیلانے میں بدظنی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ بدظنی کی وجہ سے ایک دوسرے کے عیب تلاش کئے جاتے ہیں تاکہ اس طرح اسے نیچا دکھایا جائے، اسے بدنام کیا جائے۔ اس لئے فرمایا کہ آپس کے تعلقات کے جو معاملات ہیں لوگوں کے ذاتی معاملات ہیں، ان کے معاملہ میں تجسس نہ کرو۔ یہ تجسس خداتعالیٰ کو ناپسند ہے۔ اس تجسس کے بعد پھر اگلا سٹیپ (Step) کیا ہوگا، اگلا قدم کیا ہوگا کہ اپنی مجالس میں بیٹھ کر پھر ہجو کرو گے، دوسرے کی چغلیاں کرو گے۔ وہ باتیں جو دوسرے کے بارہ میں معلوم ہوتی ہیں اور جو دوسرے شخص کو بدنام کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ یہ غیبت ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ تو پردہ پوشی کرنے والا ہے۔ اور جن باتوں کی اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی کی ہوئی ہے تم نے تجسس کرکے ان کو باہر نکالا اور پھر اس کا ذکر شروع کر دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کو انتہائی سخت ناپسند ہے۔ جس چیز کی اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمائی ہو اس کے بارہ میں کسی انسان کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کی پردہ دری کرے۔ اس لئے جو حدیث مَیں نے پڑھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو دوسرے کی پردہ پوشی نہیں کرتا اسے مَیں سزا دوں گا۔ کیونکہ یہ پردہ پوشی نہ کرنا جہاں دوسرے کو بدنام کرنے اور اسے دنیا کے سامنے ننگا کرنے کا باعث بنے گی وہاں معاشرے میں فساد پھیلے گا۔ جب کسی کے بارہ میں راز کی باتیں بتائی جائیں گی۔ اس کی راز کی باتیں تلاش کرکے لوگوں کو بتائی جائیں گی۔ اس کا ردّعمل سختی کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے جس سے پھر دشمنیاں بڑھتی چلی جائیں گی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ آپس میں پیار اور محبت کے نمونے قائم کرو۔ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کے نظارے تم میں نظر آنے چاہئیں۔ دوسرے، ان رازوں کے فاش ہونے سے جن لوگوں کے بارہ میں باتیں کی گئیں، جن کے راز فاش کئے گئے ان کی باتوں کی بناء پر آپس میں تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ پہلی بات، جب ایک فریق کی پردہ دری کرو گے تو دوسرا فریق بھی غصہ میں آئے گا فساد اور لڑائیاں پیدا ہوں گی۔ دوسری بات، جو باتیں کی گئیں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ کسی میں پھوٹ ڈالنے والی ہوتی ہیں ان کے تعلقات خراب ہوں گے۔ دو دلوں میں پھوٹ ڈالنے والے بنو گے۔ مثلاً یہ کہہ دیا کہ تمہارا فلاں رشتہ دار فلاں دوست یا فلاں شخص فلاں موقع پر اس نے تمہارے متعلق یہ بات کی تھی مجھے اب پتہ لگی ہے۔ تو اگر اس شخص نے حقیقت میں یہ چغلی فلاں وقت میں کسی کے خلاف کی بھی تھی تو سننے والے نے اسی وقت اس کو کیوں نصیحت نہیں کردی اور اس معاملے کوکو دبا دیا، سمجھا دیا۔ اور اگر سمجھانے کی طاقت نہیں تھی تو کیوں نہ اس کے بارہ میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کرے۔ لیکن اب وہ بات کرکے وہی شخص (یہ بات پھیلانے والا جو ہے) وہ چغلی کررہا ہے۔ یہ چغلی کرنے والا شخص ایک تو چغلی کے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ پردہ پوشی نہ کرنے کے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے اور دوسرے فساد کا پیدا کرنے والا بن رہا ہے اور فساد کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فتنہ جو ہے یہ تو قتل سے بھی زیادہ شدید ہے۔ اور پھر ایک بات یہ کہ اس طرح چغلی کرنے والا معاشرے میں فحشاء کو پھیلانے کا باعث بن رہا ہے، برائیوں کے پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔ کیونکہ وہ بات جس کا ذکر کیا جارہا ہے اگر بری ہے، گناہ ہے تو کمزوروں کے لئے، کمزور ایمانوں کے لئے بعض دفعہ، نوجوانوں کے لئے ترغیب بن جاتی ہے کہ چلو اس نے بھی اس طرح کیا تھا تو ہم بھی کر دیکھیں۔ ایک برائی ظاہر ہورہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ(النور: 20) یقینا جو لوگ چاہتے ہیں کہ مومنوں میں بدی پھیل جائے ان کے لئے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بڑا دردناک عذاب ہے۔ اب دیکھیں کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ حیا پسند کرتا ہے پردہ پوشی پسند کرتا ہے اپنے بندوں کو بخشنا پسند کرتا ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کے لئے جو پردہ دری کرنا چاہتے ہیں جو اس وجہ سے دنیا میں بے حیائی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ جو مومنوں میں ایک بدی کے اظہار سے بدی پھیلانا چاہتے ہیں۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو باتیں کرکے پھیلاتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو سرعام کرنے والے ہیں۔ تو ان کے متعلق فرمایا کہ ان کو دنیا اور آخرت میں عذاب کی خبر ہے۔ کیونکہ جب معاشرے میں سرعام برائیاں پھیلیں گی۔ ان کے چرچے ہونے لگ جائیں گے اور ایک دوسرے کے ننگ ظاہر کرنے شروع کر دیئے جائیں گے تو پھر حیا کے معیار ختم ہو جاتے ہیں۔ اس معاشرہ میں جو یہ مغربی معاشرہ ہے اس میں جو سرعام بعض حرکتیں ہوتی ہیں وہ اس لئے ہیں کہ حیا نہیں رہی اور اب تو ٹیلی ویژن اور دوسرے میڈیا نے ساری دنیا کو اسی طرح بے حیا کر دیا ہے اور اسے آزادی کا نام دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ننگ اور بے حیائی جو ہے وہ اگلی نسلوں میں بھی منتقل ہوتی چلی جارہی ہے۔ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض دفعہ بعض جگہ بعض احمدی بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اسی لئے اسلام نے پردہ اور حیا پر بہت زور دیا ہے اور ساتھ ہی دوسروں کو بھی کہہ دیا ہے کہ تم ان کے عیب تلاش کرنے کی جستجو نہ کرو اور پھر اس کو پھیلاؤ نہ۔ اگرکسی کا کوئی عیب علم میں آجاتا ہے اور یہ اتنا بے حیا ہے کہ سامنے بھی کررہا اور بار بار اس کو پھیلاتا بھی چلا جارہا ہے۔ تو جماعتی نظام ہے، متعلقہ عہدیدار ہے، یا نظام کو اس کی اطلاع کردو اور خاموش رہو۔ تم نے اپنا فرض پورا کردیا اور اس کے لئے دعا کرو۔ اگر تم باتیں کرکے، باتوں کے مزے لے کے اس جرم کو پھیلانے کا موجب بن رہے ہو تو پھر تقویٰ سے دور جارہے ہو اور اگر بالفرض کسی کے بارے میں کوئی برائی اتفاق سے علم میں آجائے اور اس کے بعد اس شخص نے اس برائی سے توبہ بھی کرلی ہو لیکن پھر بھی کسی مخالفت کی وجہ سے، کسی موقع کے ہاتھ آجانے پر، اس برائی کا علم کسی شخص کو ہو جاتا ہے اور وہ اس کی تشہیر کرتا ہے تو وہ نہ صرف پردہ دری کا مرتکب ہورہا ہے بلکہ فرمایا کہ چغلی کرکے تم وہ حرکت کر رہے ہو جیسے کوئی شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہو۔
پس معاشرے کو ہر قسم کے فساد سے بچانے کے لئے اور اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے پردہ پوشی انتہائی ضروری ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اگر اصلاح کی غرض ہے تو دعا کے ساتھ متعلقہ عہدیدار کو اطلاع دینا ضروری ہے کہ برائی دیکھو جو ختم نہیں ہورہی اور پھر اس عہدیدار کا فرض بن جاتا ہے کہ بصیغہ راز تمام معاملہ رکھ کے اس کی اصلاح کی کوشش کرے اور اگر پھر کسی نے برائی پر ضدنہیں پکڑی تو حتی الوسع کوشش کرے(یہ عہدیداران کا بھی کام ہے) کہ بات باہر نہ نکلے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں۔ لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کرکے دُورسلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں۔ کونسا ایسا عیب ہے جو کہ دُور نہیں ہوسکتا اس لئے ہمیشہ دُعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہئے۔‘‘
فرمایا کہ’’آنحضرتﷺ سے غیبت کا حال پوچھا تو فرمایا کہ کسی کی سچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے بُرا لگے یہ غیبت ہے۔ اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے اور تُو بیان کرتا ہے تو اس کا نام بہتان ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا۔ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا (الحجرات: 13) اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے‘‘۔
پھر آپؑ نے فرمایاکہ ’’بات یہ ہے کہ ابھی جماعت کی ابتدائی حالت ہے‘‘۔ (یہ اس وقت کا ذکر ہے لیکن اب 120 سال گزرنے کے بعد بھی، بعض دفعہ جب زمانہ نبی سے دُور چلا جاتا ہے تو پھر وہ برائیاں دوبارہ عود کرتی ہیں، پیدا ہوجاتی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جوں جوں جماعت کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، مختلف قسم کے لوگ آتے جارہے ہیں۔ بعض اپنی برائیوں کو بعض دفعہ صحیح طرح صاف نہیں کرسکتے۔ بعض پرانے احمدی صحیح طرح دین پر قائم نہیں، تقویٰ کی روح کو نہیں سمجھنے والے، وہ برائیاں پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ اس لئے پھر وہ دَور جو ہے بڑا خطرناک دور ہے۔ اس میں پھر ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس بات کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی بڑی توجہ سے یاد کرکے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
فرمایا کہ’’بعض کمزورہیں (جماعت میں ) جیسے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے۔ بعض میں کچھ طاقت آگئی ہے۔ پس چاہئے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے۔‘‘ اگر انسان کو حقیقی ہمدردی ہے جماعت سے اور اصلاح کرنا چاہتا ہے تو جس اپنے بھائی کو کمزور دیکھو بجائے اس کے کہ اس کی پردہ دری کرو، اس کے رازوں کو فاش کرو، اس کی برائیوں کو اچھالو، اسے نصیحت کرو۔ خاموشی سے، خفیہ طور پر سمجھاؤ۔ ہمدردی اور دوستی کے رنگ میں۔ ’’اگر نہ مانے تو اس کے لئے دعا کرو اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضا و قدر کا معاملہ سمجھے۔ جب خداتعالیٰ نے اس کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہئے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سردست جوش نہ دکھلایا جاوے۔ ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے‘‘۔ (جیسا کہ پہلے مَیں نے بتایا کہ اب جماعتی نظام بھی فعال ہو چکا ہے۔ یہاں زیادہ سے زیادہ بتایا جاسکتا ہے اور پھر جماعتی نظام کا کام ہے کہ وہ بھی انتہائی راز ہی رکھتے ہوئے ایسے معاملات کو ڈیل (Deal) کریں نہ کہ دنیا کو پتہ لگتا رہے)۔ فرمایا کہ’’بہت سے چور اور زانی آخر کار قطب اور ابدال بن گئے۔ جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے۔ کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لئے وہ پوری کوشش کرتا ہے۔ ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو۔ بلکہ وہ فرماتا ہے کہ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ (البلد: 18) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں۔ مَرْحَمَہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے۔ دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا۔ عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم ازکم 40 دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو‘‘۔ فرمایا ’’تمہیں چاہئے کہ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ بنو۔ ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو کیونکہ کتاب اللہ میں جیسا آگیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے۔
شیخ سعدیؒ کے دو شاگرد تھے ایک ان میں سے حقائق و معارف بیان کرتا تھا دوسراجلابھنا کرتا تھا۔ آخر پہلے نے سعدی سے بیان کیا کہ جب مَیں کچھ بیان کرتاہوں تو دوسرا جلتاہے اور حسد کرتاہے۔ شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے تو راہ دوزخ کی اختیار کی کہ (تمہارے سے) حسد کیا اور تو نے (اس کی) غیبت کی‘‘۔ اس کا راز مجھے بتایاکہ یہ غیبت تھی، یہ برائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ ’’غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا جب تک رحم، دعا، ستاری اور مرحمہ آپس میں نہ ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 61-60۔ جدید ایڈیشن۔ مطبوعہ ربوہ)
یہ چیزیں ہمیں جماعت میں پیدا کرنی چاہئیں اور جوں جوں جماعت بڑھ رہی ہے اس کے لئے خاص کوشش بھی کرنی چاہئے، نہ یہ کہ جھگڑوں کو زیادہ بڑھایا جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف جگہ پر بار بار جماعت کو دعا اور ستاری کے بارہ میں نصیحت فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ان تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے خداتعالیٰ کی صفت ستّاری سے ہمیشہ حصہ لیتے رہنے والے بنے رہیں۔ اللہ تعالیٰ فضل فرماتے ہوئے ہمارے دلوں میں تمام برائیوں سے نفرت پیدا کردے اور ہمیشہ ہم نیکیوں کی طرف قدم مارنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا جو مقصد ہے اس کو پورا کرنے والے بنیں۔ آمین
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 16 مورخہ 17، اپریل تا 23، اپریل 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
صفت الستار۔ اس غلط تصور کا ردّ کہ اگر خدا نے پردہ پوشی ہی کرنی ہے تو جو مرضی گناہ کر لیں۔ اللہ تعالیٰ کا حیا اس لئے ہے کہ بندے کو شرمندگی سے بچائے۔ نبی کریمؐ کی دعائیں دراصل ہمیں سکھائی گئی ہیں۔ رشتوں کے قیام کے لئے پردہ پوشی کی نصیحت۔ تقویٰ اختیار کرو بلاؤں سے بچائے جاؤ گے۔ ساری برائیوں کی جڑ مخفی شرک ہے۔ دنیا میں برائیاں پھیلانے میں بدظنی کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔ ٹیلی ویژن اور دوسری الیکٹرانک اشیاء کی وجہ سے حیا میں کمی ہونا۔ اگر برائی دیکھو اور اصلاح مدنظر ہو تو متعلقہ عہدیدار کو اطلاع دیں اور بات باہر نہ نکلے۔
فرمودہ مورخہ 27؍مارچ 2009ء بمطابق27؍امان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔