اللہ تعالیٰ کی صفت النافع
خطبہ جمعہ یکم مئی 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے اللہ تعالیٰ کی صفت اَلنَّافِع کے حوالے سے بتایا تھا اصل نفع پہنچانے والی ذات، خداتعالیٰ ہی ہے اسی لئے اسی کی عبادت کرو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میری عبادت کرو۔ اس دنیا میں بھی اس کے فضلوں کے وارث بنو گے اور مرنے کے بعد کی زندگی میں بھی اس کے فضلوں کے وارث بنو گے۔ اور پھر فرمایا کہ عبادت کے ساتھ ساتھ اُن تمام احکامات پر عمل کرو جن کے کرنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف یہی نہیں کہا کہ کیونکہ تمام قسم کا نفع میری ذات سے وابستہ ہے اس لئے میری عبادت کرو اور شکر گزار بنو بلکہ فرمایا کہ کائنات اور اس کے اندر کی ہر چیز میری پیدا کردہ ہے اور میرے اذن سے ہی یہ نفع رساں بھی ہے یا نقصان پہنچانے والی بن سکتی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ وہ تمام چیزیں جن پر تمہاری زندگی کا انحصار ہے ان کا پیدا کرنے والا مَیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں رَبُّ الْعَالَمِیْن ہوں اور جب رَبُّ الْعَالَمِیْن مَیں ہی ہوں تو پھر کہیں اور سے نفع ملنے کا یا نفع حاصل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’خداتعالیٰ کی ربوبیت یعنی پیدا کرنا اور کمال مخلوق تک پہنچانا تمام عالموں میں جاری و ساری ہے‘‘۔ (ایام الصلح روحانی خزائن جلدنمبر 14 صفحہ 248)
تو یہ ہے خداتعالیٰ کی ربوبیت کہ صرف پیدا نہیں کیا بلکہ مخلوق کے لئے جس انتہاء تک اسے پہنچانا ضروری ہو وہاں تک پہنچاتا ہے اور یہ کارخانہ قدرت اپنی پیدائش کے بعد ہر روز اپنی ایک شان ظاہر کر رہا ہے۔ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے تجسّس رکھا ہے، تحقیق رکھی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ انسان پر ان تمام پر عالموں پر تحقیق کے نتیجہ میں نئے سے نئے اظہار فرماتا ہے۔ ان عالموں میں آسمانی عالم بھی ہیں جن میں مختلف قسم کے ستارے اور سیّارے شامل ہیں۔ ان میں زمینی عالم بھی شامل ہے۔ جس میں زمین کے اندر کے مختلف خزانے ہیں۔ زمین کے اندر بھی ایک عالم بسا ہوا ہے، ایک دنیا ہے۔ زمین کی صرف ظاہری شکل نہیں ہے جس پر سائنسدان تحقیق کرکے قدرت کے عجیب جلووں سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں۔ پھر عالم نباتات ہے بوٹیوں، پودوں، پھولوں، پھلوں وغیرہ کی بھی ایک دنیا ہے۔ اتنی قسمیں ہیں جن کا شمار نہیں۔ پھر ہر قسم میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک شان نظر آتی ہے۔ خوراک کے علاوہ بے شمار بوٹیاں ایسی ہیں اور کئی پودے ایسے ہیں جو کئی بیماریوں کا علاج ہیں۔ بعض ان میں سے تحقیق کے بعد انسان کے علم میں آ گئی ہیں۔ بعض ہو سکتا ہے کہ بہت سی ایسی ہوں جن کی ابھی تحقیق کی ضرورت ہے۔ حشرات الارض ہیں، کیڑے مکوڑے ہیں، ان کا ایک اپنا عالم ہے۔ غرض کہ بہت سی چیز یں ہیں اس کائنات میں جنہیں خداتعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور ہر پیدائش کی ایک غرض اور ایک مقصد ہے جسے وہ پورا کرتا ہے اور جس کوحسب ضرورت کو قائم رکھنے کے بھی خداتعالیٰ نے سامان پیدا فرمائے ہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’پس ربوبیت الٰہی بوجہ اس کے کہ وہ تمام ارواح و اجسام و حیوانات و نباتات و جمادات وغیرہ پر مشتمل ہے۔ فیضان اعم سے موسوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت جوہے تمام روحوں کی ہے تمام جسموں کی ہے، تمام جانوروں میں ہے، تمام قسم کی نباتات جڑی بوٹیوں میں ہے اور بے جان چیزوں میں بھی ہے۔ یہ فیضان عام کہتے ہیں اس کو۔ یعنی ایسا فیض جو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے عام کیا ہوا ہے۔ ’’کیونکہ ہر ایک موجوداسی سے فیض پاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے ہر ایک چیز وجود پذیر ہے‘‘ (جو بھی دنیا میں چیز موجود ہے اس سے فیض پا رہی ہے اور اس کا وجود ہر چیز جو ہے وہ اس سے پیدا ہو رہی ہے فیض پاتی ہے)۔ فرمایا کہ’’ہاں البتہ ربوبیت الٰہی اگرچہ ہر ایک موجود کی موجد اور ہر ایک ظہور پذیر چیز کی مربی ہے لیکن بحیثیت احسان کے سب سے زیادہ فائدہ اس کا انسان کو پہنچتا ہے‘‘۔ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 248)
کیونکہ خداتعالیٰ کی تمام مخلوقات سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ تمہارا خدا ربّ العالمین ہے۔ تا انسان کی امید زیادہ ہو اور یہ یقین کرے کہ ہمارے فائدہ کے لئے خداتعالیٰ کی قدرتیں وسیع ہیں اور طرح طرح کے عالم اسباب ظہور میں لا سکتا ہے۔
پس خداتعالیٰ جو ربّ العالمین تو ہے ہی، ہر چیز جو دنیا میں موجود ہے چاہے اس کا علم ہمیں ہے یا نہیں وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور پھر انسان پر اس ربّ العالمین کا یہ احسان ہے کہ جو چیزیں بھی خداتعالیٰ نے پیدا کی ہیں اس کو اشرف المخلوقات کے لئے فائدہ مند بنایا تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھا سکے۔ اور جوں جوں دنیا تحقیق کے ذریعہ خداتعالیٰ کی مختلف قسم کی پیدائش کے بارہ میں علم حاصل کر رہی ہے اس میں انسانی فوائد واضح طور پر نظر آتے چلے جا رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کی ان تمام پیدا کی ہوئی چیزوں کا ذکر کرکے فرمایا کہ یہ چیزیں انسان کو اس بات کی طرف متوجہ کرنے والی ہونی چاہئیں کہ جس خدانے انسان پر اس قدر شفقت فرماتے ہوئے بے شمار چیزیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں اور پھر انہیں انسان کے زیر بھی کیا ہے تاکہ وہ ان سے فائدہ حاصل کر سکے تو پھر اُس خدا میں یہ طاقت بھی ہے کہ اپنے بندوں کے فائدہ کے لئے آئندہ بھی مزید ایسی چیزیں پیدا کر سکے جو اس کے لئے نفع رساں ہوں یا موجود چیزوں کے چھپے ہوئے خواص ظاہر کرکے انہیں انسانوں کے لئے فائدہ مند بنا دے۔ پس جب اس قدر مہربانی ہے انسانوں پر اس ربّ العالمین کی تو کس قدر انسان کو اس کا شکر گزار ہونا چاہئے اور اس کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے اور شرک سے اپنے آپ کو کلیۃً پاک کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔
قرآن کریم میں خداتعالیٰ نے مختلف جگہوں پر یہ ذکر فرمایا کہ تمہارے فائدے اور نفع کے لئے مَیں نے بے شمار چیزیں پیدا کی ہیں۔ جب بھی ان چیزوں سے فیض اٹھانے کی کوشش کرو تو ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ ان چیزوں کے پیدا کرنے والی صرف میری ذات ہے اور نہ صرف پیدا کرنے والی ہے بلکہ دنیا کی ہر چیز کا قائم رکھنا اور اس کا کنٹرول بھی خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اور جب یہ سب کچھ اس بالاہستی کے ہاتھ میں ہے جو ربّ العالمین ہے، جو رحمان ہے، اپنی رحمانیت سے لوگوں کو فیضیاب کرتا ہے اور پھر ربو بیت کے تحت جو محنت کرنے والے ہیں وہ اس سے بھی بڑھ کر اس کی پیدائش سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تو ایسے خدا کے علاوہ کسی اَور خدا کی طرف دیکھنا انتہائی بے وقوفی ہو گی۔ پس ایسا خدا ہی عبادت کے لائق خدا ہے جو ربّ بھی ہے، رحمان بھی ہے، رحیم بھی ہے اور بے شمار دوسری صفات کا مالک ہے۔ قرآن میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَابِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِبَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(البقرۃ: 165) کہ یقیناآسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے نے اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں اُس سامان کے ساتھ چلتی ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اور اس پانی میں جو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اتارا ہے پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کر دیا اور اس میں ہر قسم کے چلنے پھرنے والے جاندار پھیلائے اور اسی طرح ہواؤں کا رخ بدل بدل کر چلانے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں عقل کرنے والی قوم کے لئے نشانات ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنے چند احسانوں کا ذکرکرکے فرمایا ہے کہ اگر تمہیں عقل ہو تو کبھی ادھر ادھر نہ بھٹکتے پھرو بلکہ خداتعالیٰ کی ہر پیدائش جس سے تم فائدہ حاصل کر رہے ہو، خداتعالیٰ کی طرف جھکنے والا بنانے والی ہو۔
اس آیت سے پہلی آیت میں خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ(البقرۃ: 164) پس تمہارا معبود اپنی ذات میں ایک معبود ہے اور اس کے سواکوئی معبودنہیں۔ بے انتہاء رحم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ وہ بن مانگے رحم کرتے ہوئے اپنی نعمتیں عطا کرتا ہے اور جب انسان شکر گزارہوتے ہوئے اُن نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ تو پھر ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بنتا چلا جاتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کے بعض جلووں کا اظہارکیا ہے۔
جو پہلی آیت مَیں نے پڑھی تھی۔ فرمایا کہ آسمان اور زمین کی پیدائش میں جو آسمان اور زمین کی جو پیدائش ہے وہ بھی میرے انعاموں میں سے ایک انعام ہے۔ اور یہ یو نہی بے فائدہ ہی نہیں کہ خداتعالیٰ نے آسمان اور زمین بنا دیا بلکہ ہماری زمین اور اس سے متعلقہ سیارے چاند، سورج وغیرہ اور ان میں موجود گیسز جو ہیں فضا میں، ہوا ہے یہ سب کچھ جو ہیں انسان کے فائدہ کے لئے ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس میں مَیں نے بتایا تھا زمین پر بھی بے شمار عالم موجود ہیں۔ کئی قسم کی مخلوق ہے یعنی ان تمام چیزوں کی اپنی ہی ایک دنیا ہے۔ یہ سب چیزیں انسان کے فائدہ کے لئے ہیں۔ پھر رات اور دن کا ادلنا بدلنا ہے۔ چوبیس گھنٹے میں رات اور دن کے مختلف اوقات ہیں۔ انسانی زندگی کی یکسانیت کو دُورکرنے کے لئے بھی ضروری ہیں۔ اور آرام اور کام کے مواقع پیدا کرنے کے لئے بھی ضروری ہیں۔ پھر سمندر ہیں جن کا ایک فائدہ تویہ ہے کہ اس میں کشتیاں چلتی ہیں جو سواریوں کو بھی اور سامانوں کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ تک لے جاتی ہیں۔ آج بھی اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ زیادہ تر تجارتی سامان انہی کشتیوں اور جہازوں کے ذریعہ سے ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتا ہے۔ پھر ان سمندروں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے پانی کوخداتعالیٰ بادلوں کی شکل میں لا کر پھر انسان کی زندگی کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ تو انسانوں اور حیوانوں کی خوراک کا انحصار بھی اس پانی پر ہے۔ اگر یہ پانی نہ ہو تو زراعت کا سوال ہی نہیں۔ ذراسی بارشوں میں کمی ہو جائے تو شور پڑ جاتا ہے اور اگر لمبا عرصہ بارشیں نہ ہوں تو قحط سالی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اس صورت حال کو پانی کی اہمیت کو سورۃ الملک میں یوں بیان فرماتا ہے کہ قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَصۡبَحَ مَآؤُکُمۡ غَوۡرًا فَمَنۡ یَّاۡتِیۡکُمۡ بِمَآءٍ مَّعِیۡنٍ (الملک: 31) تو کہہ دے کہ مجھے بتاؤ کہ اگر تمہارا پانی زمین کی گہرائی میں غائب ہو جائے تو بہنے والا پانی تمہارے لئے خداکے سوا کون لائے گا۔ پس زمین کا پانی اس وقت زندگی بخشتا ہے۔ جب خداتعالیٰ کا پانی آسمان سے اترتا ہے۔ پھر ہواؤں کے اثرات بھی انسانی زندگی پر پڑتے ہیں۔ نباتات پر پڑتے ہیں۔ ہمارے زمیندار جو ہیں وہ جانتے ہیں اور اکثر ان میں باتیں مشہور ہوتی ہیں۔ یہاں پاکستان، ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں بھی جو اتنے ترقی یافتہ نہیں کہ ہوا کے رخ جو ہیں وہ فصلوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اس طرف سے ہوا چلے تو فصل کو یہ فائدہ ہو گا۔ ٹھنڈی ہوائیں اس وقت میں اگر فلاں فصل کو فائدہ پہنچا رہی ہوتی ہیں تو دوسرے وقت میں وہی نقصان پہنچا رہی ہوتی ہیں۔ تو یہ سب کچھ جو خداتعالیٰ نے بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ میری ہستی کا ثبوت ہیں۔ اس لئے کائنات پر اور زمین و آسمان کی بناوٹ پر اور رات دن کے ادلنے بدلنے پر اور موسموں کے تغیر پر غور کرکے انسان کو یقینا خداتعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب بیان کرکے اعلان فرمایا کہ نہ صرف مَیں نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں بلکہ ان کا نگران بھی ہوں اور جہاں رحمانیت کے جلوے دکھاتے ہوئے عمومی طور پر اپنی پیدائش سے دنیا کو فائدہ پہنچاتاہوں وہاں رحیمیت کے تحت غیر معمولی نشان بھی دکھلاتا ہوں۔ ایک دفعہ مکّہ میں سات سال تک قحط کا سماں رہا۔ بہت لمبا عرصہ قحط پڑا رہا اور یہاں تک حالت آ گئی کہ لوگ چمڑے اور ہڈیاں تک کھانے پر مجبور ہو گئے۔ تو اس وقت آنحضرتﷺ کی خدمت میں جب سردار مکّہ نے حاضر ہو کر مدد اور دعا کی درخواست کی تو آپؐ نے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے سب سے بڑے پرتَوتھے دعا کی تو تب جا کے یہ حجاز کی خشک سالی جو تھی دور ہوئی اور ان کو کھانے کو ملا۔ اور پھر ایک مرتبہ مدینہ کے لوگوں نے بارش کے لئے عا کی درخواست کی۔ آپؐ نے دعا کی تو اچانک بادل نمودار ہوئے اور بارش برسنی شروع ہو گئی اور برستی چلی گئی۔ یہاں تک کہ صحابہؓ نے پھر ایک ہفتہ کے بعد آ کر آپ کی خدمت میں بارش کے روکنے کی دعا کی درخواست کی۔ پھر آپؐ نے دعا کی کہ اے اللہ تعالیٰ ہمارے ارد گرد بارش برسا اور ہمارے اوپر نہ برسا کیونکہ مکان گرنے شروع ہو گئے ہیں۔ جہاں فائدہ مند ہے وہاں برسا۔ تو پھر اُس قادر خدا نے اس دعا کو اپنے فضل سے قبول فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ و السنۃ فیھا باب ما جاء فی الدعاء فی الاستسقاء حدیث 1269)
پھر آپﷺ کی اُمّت میں ایسے نفع رساں وجود بھی خداتعالیٰ نے پیدا کئے جن کی وجہ سے خداتعالیٰ نے اپنی خدائی کا ثبوت دیتے ہوئے لوگوں کے فائدے کے سامان پیدا فرمائے۔ اور اس زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جہاں آپؑ کی دعاؤں سے لوگوں فائدہ ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں مَیں نے تمہارے لئے مسخر کیا ہے یعنی تمہاری خدمت پر لگایا ہوا ہے۔ اس کو دیکھ کر تمہارے ایمانوں میں ترقی ہونی چاہئے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس ظاہر ی یا دنیاوی مثال اور مادی مثال کو روحانی نظام پر بھی منطبق فرمایا ہے۔ بلکہ روحانی نظام تو اس سے بھی زیادہ وسیع تر ہے۔ کیونکہ اس دنیا کے فائدے اور نفع یہیں رہ جانے ہیں۔ لیکن روحانیت کے کمائے ہوئے فائدے اخروی زندگی میں کام آنے والے ہیں۔ پس ایک مومن آسمان اور زمین کی پیدائش سے صرف اس دنیا کے فوائد کے حصول کا ذریعہ نہیں سمجھتا بلکہ ان پر غور کرکے خداتعالیٰ کی واحدانیت اور اس پر یقین اور آخرت پر ایمان اور بھی مضبوط تر ہوتا چلا جاتاہے۔ پھر جس طرح رات اور دن کے انسانی زندگی پر اور ضروریات پر ظاہری اثرات اور فوائد ہیں اسی طرح رات اور دن کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روحانی طور پر بھی اندھیرے کے بعد روشنی کے سامان مَیں پیدا کرتا ہوں جس سے روحانی ظلمتیں ختم ہو جاتی ہیں اور اپنے فرشتوں اور انبیاء اور مامورین کے ذریعے ان ظلمتوں کو دُور کرنے کے لئے سامان مہیا کرتا ہوں اور کسی زمانہ میں بھی اس نُور اور روشنی کو ظاہر کرنے سے خداتعالیٰ نے لا تعلقی کا اظہار نہیں کیا، لاتعلق نہیں رہا۔ بلکہ ہر زمانہ میں وہ اپنا نور اور روشنی دیتا رہا ہے۔ اس زمانہ میں بھی اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا، جنہوں نے پھر نئے سرے سے ہمیں اسلام کے نور سے روشناس کرایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جس طرح مادی دنیا میں انسان کی بہتری کے لئے کشتیوں کے ذریعہ سے محفوظ طریقے پر نقل و حمل کے ذرائع پیدا فرمائے ہیں۔ اسی طرح روحانی دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھیجتا ہے جو روحانی کشتیاں تیار کرتے ہیں۔ جو بلاؤں اور آفات کے سمندر میں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں اور ان کے ماننے والوں کو منزل مقصود تک پہنچاتی ہیں اور وہ منزل مقصود ہے اللہ تعالیٰ کی رضا اور دنیا و آخرت کی بھلائی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان کبھی بھی اور کسی زمانہ میں بھی اپنے بندوں پر ختم نہیں ہوا۔ جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے بیان کیا ہے۔ جب بھی خداتعالیٰ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم: 42) کی حالت دیکھتا ہے۔ اس دنیا میں فتنہ و فساد کے حالات دیکھتا ہے اور جب یہ حد سے بڑھنے لگتے ہیں تو اپنے بندوں کو، انسانوں کو، اپنی مخلوق کو اس سے بچانے کے لئے اپنے چنیدہ بندے بھیجتا ہے جو ایک کشتی تیار کرتے ہیں، جو ان کے ماننے والوں کو محفوظ طور پر طوفان سے نکال کے لے جاتی ہے۔ اور آج یہ کشتی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بنائی ہوئی کشتی ہے اور اس میں سوار وہی لوگ شمار ہوں گے جو اس کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ یا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔ اور اس کے حق کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے، کہ کس طرح حق ادا کرتا ہے ایک کتاب تحریر فرمائی تھی’’کشتی نوح‘‘ کے نام سے۔ جس میں آپؑ کے زمانہ میں جب طاعون کی وبا پھوٹی تو اس سے بچنے کا روحانی علاج بتایا۔ آپؑ اس کتاب میں تحریرفرماتے ہیں کہ:
’’اور اگر یہ سوال ہو کہ وہ تعلیم کیا ہے کہ جس کی پوری پابندی طاعون کے حملے سے بچا سکتی ہے تو مَیں بطور مختصر چند سطریں نیچے لکھ دیتا ہوں‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 10)
اور پھر آپؑ نے تعلیم کے نام سے ایک تفصیل بیان فرمائی اس کتاب میں۔ جس میں آپؑ نے ہمیں ہوشیار کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ’’زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں جب تک دل کی عزیمت سے اس پر پورا عمل نہ ہو‘‘۔ (یعنی پورے پکے دل کے ارادے سے اس پر عمل کرنے کی کوشش ہو)۔ اور یہ کہ’’یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا‘‘۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’تم خدا کی آخری جماعت ہو۔ سو وہ عمل نیک دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 18)
بہرحال یہ خلاصۃً مَیں نے چند باتیں بیان کی ہیں۔ اس کتاب میں آپؑ نے وہ معیار بتائے ہیں جن کو حاصل کرنے کی کوشش کرکے ایک انسان، ایک مومن، ایک احمدی، اس کشتی میں اپنے آپ کو محفوظ کر سکتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیاں اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے امام الزمان کی باتوں سے ان کی تعلیم سے فیض اٹھانے والے ہوں۔ آج بھی دنیا آفات میں گھری ہوئی ہے۔ نئی سے نئی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں میں آج کل ہی ایک نئی وبا اٹھی ہے جسے Swine Flue کہتے ہیں۔ تو یہ سب باتیں، دنیا میں آفات اور بلائیں۔ یہ ہمیں دعوت فکر دے رہی ہیں سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ ہم اپنی حالتوں کے جائزے لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے بھیجے ہوئے زمانہ کے امام کے حکموں اور تعلیم پر عمل کرنے والے بننے اور کوشش کرنے والے ہوں۔ اور جب ہم ایک توجہ سے یہ کوشش کریں گے تو پھر ہر اس روحانی پانی سے فیض پائیں گے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فَاَحْیَابِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا (البقرۃ: 165) کہ اس کے ذریعہ سے ہم نے زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کر دیا۔ جس طرح مادی دنیا میں بارشوں سے زمین میں اپنی روئیدگی ظاہر کرتی ہیں۔ اسی طرح روحانی بارشوں سے جو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور ماموروں کے ذریعہ بھیجتا ہے ایک نئی زندگی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اس پانی سے وہی لوگ فیض پاتے ہیں یا فیض پا سکتے ہیں جن میں اچھی زمین کی طرح اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تو روحانی روئیدگی اور زندگی کے لئے فیض عام کے تحت پانی اتارا ہے۔ لیکن اس کو جذب کرکے اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے دلوں کی زرخیزی ضروری ہے۔
آنحضرتﷺ نے اس کے لئے ایک حدیث میں ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ فرمایا کہ دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے جن کی مثال اچھی زمین کی طرح ہے جو نرم ہو اور اپنے اندر پانی جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اور پھر ایسی زمین سے جو پانی اپنے اندر جذب کرتی ہے یا اس سے فائدہ اٹھاتی ہے اچھی کھیتی بھی اس سے اگتی ہے۔ پانی کو جذب کرتی ہے پھر اچھی کھیتی اگانے کے لئے اس پانی کو استعمال کرتی ہے۔ تو ایسی زمین پر جب بارش پرتی ہے، اس کو جذب کرکے اپنی نموء بڑھائی ہے اور اس سے فصل بھی اچھی ہوتی ہے۔ جس سے دوسروں کو خوراک مہیا کرکے ان کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
دوسری قسم کی زمین آپؐ نے فرمایا وہ ہے جو سخت ہوتی ہے۔ پانی کو جذب تو نہیں کر سکتی لیکن پانی اپنے اندر جمع کر لیتی ہے۔ جیسے تالاب و غیرہ ہیں۔ اس پانی سے براہ راست تو اس زمین کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا کوئی چیز اس سے پیدا نہیں ہو رہی ہوتی۔ لیکن اس پانی سے جو وہاں جمع ہو جاتا ہے جانور پینے کے لئے فائدہ اٹھاتے ہیں، انسان بھی پینے کے لئے فائدہ اٹھاتے ہیں اور پینے کے علاوہ کھیتی باڑی کے لئے بھی یہ پانی استعمال ہو رہا ہوتا ہے۔
پھر فرمایا کہ تیسری قسم کی زمین وہ ہے جو سخت پتھریلی ہوتی ہے۔ مسطح ہوتی ہے۔ ہموار ہوتی ہے یا ایسی ڈھلوان ہوتی ہے کہ جس سے پانی بہہ جائے کوئی اس میں گڑھا نہیں ہوتا۔ وہ پانی کونہ اپنے اندر جذب کرتی ہے نہ اس میں پانی کھڑا ہوتا ہے۔ تو ایسی زمین جو ہے وہ پانی سے نہ خود فیض پاتی ہے نہ اپنے اندر روک کر دوسروں کو اس سے فیض پہنچ رہا ہوتا ہے۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ پہلی طرح کی جو زمین ہے اس کی مثال جو پانی جذب کرکے پھر اپنی فصلیں پیدا کرکے فائدہ پہنچاتی ہے اس عالم کی طرح، ا س شخص کی طرح ہے جو نہ صرف خود دین حاصل کرتا ہے علم حاصل کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اس علم اور دین سے جو اس نے حاصل کیا ہو۔ فائدہ اور فیض پہنچاتا ہے۔ اور فرمایا کہ تیسری قسم کا آدمی اس پتھریلی زمین کی طرح ہے۔ جس پر نہ پانی ٹھہرتا ہے اور نہ جس میں جذب ہوتا ہے۔ روحانی بارش نہ اس کو کچھ فیض پہنچاتی ہے نہ دوسرے اس سے کوئی فائدہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ (بخاری کتاب العلم باب فضل من علم و علّم حدیث 79)
اور دوسری قسم کی زمین کی مثال آپؐ نے بیان نہیں فرمائی لیکن اس کی پانی کی پہلی مثال دے کر اس سے ظاہر ہے کہ یہی مطلب ہے اس کاجو اس کی وضاحت میں پہلے بیان فرمایا کہ ایسے تالاب جوخود تو فائدہ نہیں اٹھارہے ہوتے ان علوم سے لیکن دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں کہ ایسا شخص جو دین اور علم تو سیکھتا ہے لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا لیکن دوسروں کو جو علم اور دین اس نے سیکھا ہے سکھاتا ہے اور اس کے سکھانے سے بعض نیک فطرت اس پر عمل کرنے لگ جاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ جب اپنے مامور بھیجتا ہے تو ان کے روحانی پانی سے یہی تین قسم کے گروہ ہیں جو سامنے آتے ہیں۔ پس ایک حقیقی مومن کو کوشش کرنی چاہئے کہ پہلی قسم میں شامل ہونے کی کوشش کرے۔ خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی طرف توجہ دے۔ اپنی نسلوں میں بھی، اپنے ماحول میں بھی، ایسی فصلیں لگائیں جو انسانیت کو فیض پہنچانے والی ہوں۔ تبھی النافع خدا کے فضلوں سے حقیقی رنگ میں ہم فائدہ اٹھانے والے ہوں گے، فیض حاصل کرنے والے بن سکیں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ اور ہر قسم کے چلنے پھرنے والے جانور پھیلائے یہ بھی تمہارے لئے نفع۔ پھر جانوروں کا پھیلانا بھی اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے ایک احسان ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف جگہوں میں ذکر فرمایا ہے۔ جیسے فرماتا ہے کہ وَ الۡاَنۡعَامَ خَلَقَہَا ۚ لَکُمۡ فِیۡہَا دِفۡءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ۔وَ لَکُمۡ فِیۡہَا جَمَالٌ حِیۡنَ تُرِیۡحُوۡنَ وَ حِیۡنَ تَسۡرَحُوۡنَ (النحل7-6)کہ مویشیوں کو بھی اس نے پیدا کیا تمہارے لئے ان میں گرمی حاصل کرنے کے سامان ہیں اور بہت سے فوائد ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو اور تمہارے لئے ان میں خوبصورتی ہے جب تم ان کو شام کو چرا کر لاتے ہو اور جب تم انہیں چرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیتے ہو۔
پھر ان کے ذریعہ سے، انسان ان جانوروں کے ذریعے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ ان کا گوشت استعمال کرکے، اُن کی اُون استعمال کرکے ان کی کھال استعمال کرکے بلکہ ان کی ہڈیاں تک استعمال ہو جاتی ہیں جانوروں کی بعض دفعہ۔ پھر یہ دولت کمانے کا ذریعہ بھی ہیں۔ جانور پالے جاتے ہیں۔ لوگ تجارت کرتے ہیں۔ پہلی آیت سورۃ البقرہ کی جو مَیں نے پہلے پڑھی تھی۔ اس کی وضاحت مَیں کر رہا ہوں۔ اس میں دَآبَّۃ کا لفظ ہے اور یہاں اَنعام کا لفظ ہے۔ انعام کہتے ہیں چار پایوں کو۔ لیکن قرآن کریم میں ہی دَآبَّۃ چارپایوں کے لئے ہر قسم کے جانوروں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ پس دَآبَّۃ سے مراد ہر قسم کے جانور ہیں۔ ایک جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہہ وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِظُلْمِھِمْ مَّا تَرَکَ عَلَیْھَا مِنْ دَآبَّۃٍ (النحل: 62) کہ اگر اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہوتی کہ لوگوں کو ان کے ارتکاب جرم پر فوراً پکڑ لیتا اور توبہ کے لئے مہلت نہ دیتا تو زمین میں کسی جاندار کو زندہ نہ چھوڑتا۔
پس اللہ تعالیٰ چونکہ فوری سزا نہیں دینا چاہتا یہ اس کا طریق نہیں کہ فوری سزا دے اس لئے اس نے اس کے نفع کے لئے یہ تمام قسم کے جانور جو ہیں زمین میں چھوڑے ہیں۔ جن میں چھوٹے چھوٹے حشرات بھی اور بڑے جانور بھی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ زمین کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرکے اس میں ہر قسم کے جانور پھیلانے کی مثال دے کر فرماتا ہے کہ اس زندگی میں جو زمین میں ہے جانوروں کا بہت بڑا کردار ہے۔ کیونکہ فرمایا کہ اگر زندگی ختم کرنی ہو تو صرف یہاں کے جو باقی حیوان ہیں ان کو ختم کر دوں تو زندگی ختم ہو جائے گی انسان کی۔ پس اسی طرح فرمایا کہ روحانی دنیا میں بھی دَآبَّۃ ہیں اور وہ ایسے مومن ہیں جو روحانی پانی سے فیض یاب ہو کر پھر زمین کی رونق قائم کرتے ہیں اور کثرت سے دنیا میں پھیل کر اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں۔ پس یہ ایک اہم ذمہ داری لگا دی گئی ہے مامورین کی جماعت کی کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پھیلا کر اس دنیا کی زندگی اور رونق کے سامان پیدا کریں۔ پھر ہواؤں کے بارے میں فرمایا کہ ہواؤں کو مومنوں کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ روحانی دنیا میں بھی اسی طرح ہوتا ہے تاکہ روحانی ہواؤں سے دنیا کو فیض پہنچ سکے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کی ہوائیں ساری دنیا میں چلاتا ہے اور اپنے مامورین کی اور ان کی جماعت کی مدد بھی ان سے فرماتا ہے۔ اگر مخالفت کی آندھیاں آتی ہیں تو ان کے نقصان سے اللہ تعالیٰ بچا لیتا ہے، مومنین کے حق میں مسخر کر دیتا ہے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ہی دیکھ لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی سے لے کر آج تک اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے مخالف ہواؤں کے رخ بدل رہا ہے۔ اور نہ صرف رخ بدلتا ہے بلکہ ایسی ہوائیں چلاتا ہے جو سعید دلوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کی طرف مائل کرتی ہیں۔ مَیں اکثر ذکر کرتا ہوں کہ روزانہ کہ ڈاک میں کئی دفعہ ایسے خط ہوتے ہیں جن میں ایسا ذکر ہوتا ہے جو ان لوگوں کو احمدیت کے پیغام ٹھنڈے جھونکے خود خداتعالیٰ کی طرف سے پہنچتی ہیں اور عربوں میں خاص طور پر۔ عربوں پر تو ویسے بھی عربی زبان کی فصاحت کی وجہ سے اور دوسرے اپنے مزاج کی وجہ سے جو شاید زبان کی وجہ سے ہی ہو۔ ان کا بیان ایسا ہوتا ہے اپنی باتوں کا جب ذکر کر رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی کی توٹھنڈی ہواؤں کی مثالیں دیتے ہیں۔ تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے کام کہ بارشیں اور ہوائیں مومنوں کی تائید میں بھیجتا ہے۔ پس یہ ہے ہمارا النافع خدا جو ہر آن ہمیں نفع پہنچاتا چلا جا رہا ہے اور آج اس خدا کی جو ربّ العالمین ہے جس نے اس زمانہ میں اپنے روحانی فیض جاری رکھنے کے لئے اپنا مامور بھیجا ہے اس کی جماعت میں ہم شامل ہیں۔ ہمارے مخالفین پہلے تو سختی سے ہمارے راستے روکنے اور دشمنیاں اپنی انتہاء تک پہنچانے کی کوشش کرتے تھے۔ جس کے جواب میں ہم فیض رساں بنتے ہوئے ان کو وہ روحانی پھل اور فصلیں بھیجنے کی کوشش کرتے تھے جن سے فائدہ اٹھا سکیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ اور ان کے حق میں آنحضرتﷺ کی یہ دعا پہلے بھی کرتے تھے آج بھی کرتے ہیں کہ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ (الشفاء لقاضی عیاض جلد اول صفحہ 73 الباب الثانی فی تکمیل اللہ تعالیٰ لہ المحاسن … فصل واما الحلم۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
تو اللہ تعالیٰ ان کی ہدایات کے سامان پیدا فرمائے۔ لیکن ان لوگوں نے اب ایک اور طریق بھی اختیار کیا ہے کہ پہلے کم تھا اب زیادہ ہو گیا ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ احمدیو! احمدی تو نہیں کہتے، قادیانیو! مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انکارکرکے ہمارے پاس آ جاؤ تو ہم تمہیں گلے لگائیں گے۔ گویا النافع خدا کے مامور کی جماعت کو چھوڑ کر ہم میں شامل ہو جاؤ جہاں سوائے فتنہ اور فساد کے اور کچھ نہیں۔ ایک طرف اُمّت میں ہونے کا دعویٰ ہے اور دوسری طرف اُمتیوں کی گردنیں کاٹی جا رہی ہیں۔ بہرحال ہمیں تو خداتعالیٰ نے نہ صرف ہدایت دی ہے بلکہ قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کو جواب دو کہ اصل ہدایت وہی ہے جو ہمارے پاس ہے نہ کہ تمہارے پاس۔ اس لئے تم بھی اگر فتنہ و فساد سے بچنا چاہتے ہو تو اس مہدی کی پیروی کرو جسے خداتعالیٰ نے بھیجا ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْن اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَلَایَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلٰی اَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَانَا اللّٰہُ کَالَّذِیْ اسْتَہْوَتْہُ الشَّیَاطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْْرَانَ لَہُ اَصْحَابٌ یَّدْعُوْنَہٗٓ اِلَی الْہُدَی ائْتِنَا۔ قُلْ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الْہُدٰی۔ وَاُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ(الانعام: 72) کہ تُو پوچھ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے سوا اس کو پکاریں جو نہ ہمیں فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور کیا بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دے دی ہے ہم ایک ایسے شخص کی طرف اپنی ایڑیوں کے بل پھرا دئیے جائیں جسے شیطان نے حواس باختہ کرکے زمین میں حیران و سرگرداں چھوڑ دیا ہوا ہے۔ اس کے ایسے دوست ہیں جو اسے ہدایت کی طرف بلاتے ہوئے پکاریں کہ ہمار ے پاس آ۔ تو کہہ دے کہ یقینا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ربّ العالمین کے فرمانبردار ہو جائیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس حصہ آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ قُلْ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الْہُدٰی’’ان کو کہہ دے کہ تمہارے خیالات کیا چیزیں ہیں۔ ہدایت وہی ہے جو خداتعالی براہ راست آپ دیتا ہے۔ ورنہ انسان اپنے غلط اجتہادات سے کتاب اللہ کے معنی بگاڑ دیتا ہے اور کچھ کا کچھ سمجھ لیتا ہے۔ وہ خدا ہی ہے جو غلطی نہیں کھاتا لہٰذا ہدایت اسی کی ہدایت ہے اپنے خیالی معنے بھروسے کے لائق نہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 87-88)
اور یہی حقیقی ہدایت اور اسلام کی تعلیم ہے۔ یہ ہے وہ چیز جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے۔ اب اس ہدایت کو چھوڑ کر ہم ان لوگوں کے پیچھے چلے جائیں۔ جو آج تک قرآن کریم کی آیات کے ناسخ اور منسوخ کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ یا پہلے تو چودھویں صدی کا انتظار کرتے رہے کہ مسیح اور مہدی آئے گا اور صدی لمبی ہو گی اور آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے انکار پر مصر ہیں۔ یا جو ایک دوسرے پر ایک ہی کتاب اور ایک ہی رسول کے ماننے والے ہونے کے باوجود کفر کے فتوے دے رہے ہیں۔ پس ہم نے تو اس اللہ تعالیٰ کا فہم اس مسیح و مہدی سے پایا ہے جس نے آنحضرتﷺ کو آخری شرعی نبی بنا کر بھیجا ہے۔ ہم اُس اللہ تعالیٰ کا فہم رکھتے ہیں جس نے آنحضرتﷺ کو آخری شرعی نبی بنا کر بھیجا ہے اور جس نے آپؐ پر قرآن کریم جیسی عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو تمام ہدایتوں کا سرچشمہ ہے اور یہ فہم ہمیں اللہ تعالیٰ کا اس زمانے کے امام مسیح اور مہدی نے عطاکیا ہے۔ پس اس زمانہ میں جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کی بعثت ثانی فرمائی ہے۔ ہماری ہدایت کے لئے ہمیں نفع پہنچانے کے لئے ہمارے فائدہ کے لئے تو پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس خدا کو چھوڑ کر ہم اس کے علاوہ کسی اور خدا کو ماننے والے بنیں۔ اگر آج ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے بارے میں شک میں پڑیں تو پھرہم ان تائیدات ارضی اور سماوی کو کیا کہیں گے جو خداتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے حق میں پوری فرمائیں اور آج تک اپنے وعدہ کے موافق پوری فرماتا چلا جا رہا ہے۔ اپنے وعدہ کے موافق نشانات دکھلاتا چلا جا رہا ہے۔ اگر یہ کسی بندے کا کام ہوتا تو گزشتہ ایک سو بیس سال سے جو ممکنہ انسانی کوششیں ہو سکتی تھیں دشمنان احمدیت نے کیں، احمدیت کو ختم کرنے کی۔ لیکن ہمارا خدا ہمیں ہمیشہ ترقیات کی نئی منزلیں دکھاتا چلاگیا اور اپنے مخالفین کو ہم نے ہمیشہ حواس باختہ ہی دیکھا ہے اور ان کی حالتیں دیکھ کر ہمارے ایمان اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مامور اور آنحضرتﷺ کے عاشق صادق پر اور بھی پختہ ہوا ہے۔ پس ہمیں دعوت دینے کی بجائے ہم تم لوگوں کی دعوت دیتے ہیں کہ آؤ اور اس مسیح و مہدی کی جماعت میں داخل ہو جاؤ اسی میں تمہاری بقا ہے اور اسی میں تمام دنیا کی بقا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں فیضی ساکن بھیں کا تذکرہ ہو رہا تھا جس نے اعجاز المسیح کا جواب لکھنا چاہاتھا اور اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اٹھا لیا۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مجلس میں فرمایا۔
’’یہ کس قدر زبردست نشان ہے خدا کی طرف سے ہماری تصدیق اور تائید میں۔ کیونکہ قرآن کریم میں آیا ہے وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ (الرعد: 18) کہ جو انسانوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتا ہے۔ فرمایا کہ’’ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جیسے کہ ہمارے مخالف مشہورکرتے ہیں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں تھا تو چاہئے تھا کہ فیضی نے جو لوگوں کی نفع رسائی کا کام شروع کر دیا تھا اس میں اس کی تائید کی جاتی۔ لیکن اس طرح پر اس کا جوانا مرگ ہو جانا صاف ثابت کرتا ہے‘‘۔ جوانی میں فوت ہو گیا۔ ’’صاف ثابت کرتاہے کہ اس سلسلے کی مخالفت کے لئے قلم اٹھانا لوگوں کی نفع رسانی کا کام نہ تھا کم از کم ہمارے مخالفوں کو بھی اتنا تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کی نیت نیک نہ تھی ورنہ کیا وجہ کہ خداتعالیٰ نے اس کی تائیدنہ کی اور اس کو مہلت نہ ملی کہ اس کو تمام کر لیتا یعنی کام کو پورا کر لیتا‘‘۔
فرمایا ’’میرے اپنے الہام میں بھی یہی ہے وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ (الرعد: 18)۔ تیس برس سے زیادہ عرصہ ہوا کہ جب مَیں تپ سے سخت بیمار ہوا اس قدر شدید مجھے تپ چڑھی ہوئی تھی‘‘ (بخار چڑھا ہوا تھا) ’’کہ گویا بہت سے انگارے سینے پر رکھے ہوئے معلوم ہوتے تھے اس اثناء میں یہ الہام ہوا۔ وَاِمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ یہ جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ بعض مخالف اسلام میں لمبی عصر حاصل کرتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے فرمایا کہ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ ان کا وجود بھی بعض رنگ میں مفید ہی ہوتا ہے۔ دیکھو ابو جہل بدر کی جنگ تک زندہ رہا اصل بات یہ ہے کہ اگر مخالف اعتراض نہ کرتے تو قرآن شریف کے تیس سپارے کہاں سے آتے‘‘۔ اعتراض ہوتے رہے اور اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اعتراضوں کی وجہ سے بھی بھیجتا رہا احکامات جس کے وجود کو اللہ تعالیٰ نے مفید فرمایا کہ ’’جس کے وجود کو اللہ تعالیٰ مفید سمجھتا ہے اسے مہلت دیتا ہے ہمارے مخالف بھی جو زندہ ہیں اور مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے وجود سے بھی یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف کے حقائق و معارف عطاکرتا ہے‘‘۔ (یعنی مخالفت بڑھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے حقائق اور معارف عطا کرتا ہے)اب فرمایا ’’اب اگر مہر علی شاہ اتنا شور نہ مچاتا تو نزول مسیح کیسے لکھا جاتا‘‘۔ (جو نزول مسیح کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھی ہے)۔ پھر فرمایا ’’اس طرح پر جو دوسرے مذاہب باقی ہیں ان کے بقا کا بھی یہی باعث ہے تاکہ اسلام کے اصولوں کی خوبی اور حسن ظاہر ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 233-232 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
دنیا میں دوسرے مذاہب باقی ہیں وہ باقی رہیں گے تو پھر اصل موازانہ ہو گا مذاہب کا اور پھر اسلام کی خوبیاں ظاہر ہونی شروع ہوں گی۔ نظر آئیں گی اگر غور سے دیکھا جائے اور پرکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی صفت النافع سے فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے اور نافع بننے کی توفیق عطا فرمائے اور جو روحانی انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ مقدر ہے اس میں ہم بھی حصہ دار بنے والے ہوں۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 21 موخہ 22 مئی تا 28 مئی 2009ء صفحہ 5تا صفحہ 8)
اصل نفع پہنچانے والی ذات خدا ہے لہٰذا اسی کی عبادت کریں اور اسکے تمام احکامات پر عمل کریں۔ نبی کریمؐ کے ذریعہ نفع کے واقعات کا بیان۔ حضرت اقدسؑ کی دعاؤں سے لوگوں کو فائدہ ہونا۔ بلاؤں اور ظلمتوں کے وقت خدا کا روحانی کشتیاں تیار کرنے والوں کو بھیجنا جو انہیں بلاؤں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ آج حضرت مسیح موعودؑ کی کشتی میں سوار وہی شمار ہو ں گے جو اس کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ ’’کشتی نوح‘‘ میں وہ معیار بیان ہیں جن پر عمل کر کے ہم اس کشتی میں سوار ہو سکتے ہیں۔ آج دنیا میں کئی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ swine flu کا ذکر۔ روحانی پانی سے وہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کے دل میں زرخیزی ہو۔ ۔ ڈاک میں احمدیوں کے پیغامات ملنا کہ انہیں خدا کی طرف سے ٹھنڈک کے جھونکے پہنچتے ہیں، خاص طور پر عربوں کا ذکر۔ مخالفین کے لئے ہدایت کی دعا۔
فرمودہ مورخہ یکم مئی 2009ء بمطابق یکم ہجرت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔