اللہ تعالیٰ کی صفت الواسع کی لطیف تشریح
خطبہ جمعہ 8؍ مئی 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک نام اَلْوَاسِع بھی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ذات جس کا رزق اس کی ساری مخلوق پر حاوی ہے اور جس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ اور وہ ذات جس کا غنی ہونا ہر احتیاج پر حاوی ہے۔ ایک معنی اس کے یہ بھی کئے جاتے ہیں کہ وہ ذات جو بہت زیادہ عطا کرنے والی ہے۔ وہ ذات جس سے جب سوال کیا جاتا ہے تووسیع سے وسیع تر ہو تی جاتی ہے اور بعض کے نزدیک اس کا مطلب ہے کہ وہ ذات جو ہر ایک چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے، ہر ایک چیز کا علم رکھتی ہے۔ یہ تمام معنی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے حوالے سے مل جاتے ہیں۔ اس وقت مَیں قرآن کریم کی بعض آیات پیش کروں گا جن میں خداتعالیٰ نے بعض باتوں کی طرف مومنین کو توجہ دلاتے ہوئے انہیں اپنی صفت وَاسِع کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
سورۃالبقرہ میں شیطان کے بندوں کو ورغلانے کے ضمن میں اللہ تعالیٰ آیت 269 میں فرماتا ہے کہ اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآءِ۔ وَاللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا۔ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (البقرۃ: 269) شیطان تمہیں غربت سے ڈراتا ہے، تمہیں فحشاء کا حکم دیتا ہے۔ جبکہ اللہ تمہارے ساتھ اپنی جناب سے بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ وسعتیں حاصل کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔
اس آیت میں خداتعالیٰ نے دو چیزیں بیان فرمائی ہیں جو شیطان اللہ تعالیٰ سے بندوں کو دُور کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ ایک فَقْر یعنی غربت کا خوف پیدا کرنا اور دوسرے فَحْشَآء کا حکم دینا۔ یہ جو فَقْر سے ڈرانا ہے اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ شیطان نے خداتعالیٰ سے یہ کہا تھا کہ مَیں ہر راستے پر بیٹھ کر انسانوں کو سیدھے راستے سے ہٹانے کی کوشش کروں گا تو اس نے اس بات کو پورا کرنے کے لئے کبھی بھی کوئی راستہ نہیں چھوڑا جہاں وہ نہ بیٹھا ہو۔ ہر راستے پر اس کایہ بیٹھنا اس کی اپنی طاقت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ خداتعالیٰ نے اس کو اجازت دی تھی کہ ٹھیک ہے تم یہ کرنا چاہتے ہو تو کرو لیکن مَیں تمہارے پیچھے چلنے والوں کو جہنم سے بھردوں گا اور یہ بات خداتعالیٰ نے کھول کر ہمیں قرآن کریم میں بھی بتا دی کہ ہوشیار ہو جاؤ۔ اگر تم میرے بندے بننا چاہتے ہو تو شیطان سے بچ کے رہنا۔ شیطان کے ورغلانے کے طریقے بظاہرتمہیں بہت اچھے نظر آئیں گے لیکن اس کا نتیجہ تمہارے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔
اس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار جگہ مختلف حوالوں سے شیطان سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اس کے نقصانات بیان فرمائے ہیں۔ ایک جگہ فرمایا کہ وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلَالًا بَعِیْدًا(النساء: 61) یعنی اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ تمہیں خطرناک گمراہی میں ڈال دے۔
پھر فرمایا شیطان تمہیں بہت بڑے خسارے میں ڈالے گا اور تمہارا دوست بن کر تمہیں خسارے میں ڈالے گا۔
پھر ایک جگہ فرمایا اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّمُّبِیْنٌ (الاعراف: 23) یعنی یقینا شیطان جو ہے وہ تم دونوں کا کھلا کھلا دشمن ہے۔ آدم اور حوّا کے حوالے سے یہ بات بیان کی گئی ہے لیکن یہ بات آدم اور حواّ پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ مرد اور عورتوں دونوں کو ہوشیار کیا گیاہے کہ شیطان تم دونوں کا کھلا کھلا دشمن ہے۔ اس لئے اس کے بہکاوے میں آنے سے ہوشیار رہنا۔ نیک اعمال بجا لاؤ۔ عبادات کی طرف توجہ کرو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم نے جو واقعات اور قصے بیان فرمائے ہیں یہ پرانی باتیں صرف ہمارے علم کے لئے ہی نہیں دوہرائی گئیں بلکہ آئندہ کے لئے پیشگوئیاں ہیں کہ آئندہ اِس اِس طرح ہو گا۔ (ماخوذ از چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 156) اس لئے اگر مومن ہواور حقیقی مومن ہو تو ان باتوں سے ہوشیار رہو کہ یہ اب بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ شیطان کے حملے کے طریقے بھی بدلتے رہے ہیں۔ ہر نئی ایجاد اور ترقی کی طرف اٹھنے والاانسان کا جو قدم ہے جہاں اپنی خوبی سے ہمیں فائدہ پہنچا رہا ہے وہاں شیطان بھی اس کو استعمال کر رہا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان تمہیں نقصان پہنچائے گا اور اس کے پیچھے چلو گے تو گمراہی کے گڑھے میں گرتے چلے جاؤ گے۔ سورۃ بقرہ کی جو آیت مَیں نے پڑھی ہے اس میں فرمایا کہ شیطان تمہیں فَقْرسے ڈراتا ہے۔ فَقْر کا معنی غربت کے بھی ہیں اور فَقْر کے معنی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کے بھی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ شیطان تمہیں فَقْر سے ڈراتا ہے کہ اگر یہ کام کرو گے توتم کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں رہوگے۔ یہ کام کرنے سے یا فلاں کام کرنے سے تم پر غربت حاوی ہو جائے گی اور اس دنیا میں جو دنیاوی ترقی کی دنیا ہے تم بہت پیچھے رہ جاؤ گے اور اگر قربانیاں کرو گے توکبھی اپنا مقام پیدا نہیں کر سکو گے۔ پس شیطان کا قربانیوں کے حوالے سے اس طریقے پر ڈرانا بھی مختلف طور پر ہے۔ کبھی وہ اس بات سے ڈرائے گا کہ یہ کام کا وقت ہے اور یہ وقت تمہیں اپنی عبادت کے لئے قربان نہیں کرنا چاہئے۔ کبھی مالی قربانی سے روکنے کے لئے فَقْر سے ڈرائے گا کہ تمہارا کام اور پیسہ اگر اس وقت نکلا تو تمہارے کاروبار میں نقصان ہو گا۔ کبھی اس بات سے ڈرائے گا کہ اگر یہ رقم آج یہاں خرچ کر لی تو تمہارے بچے بھوکے رہ جائیں گے۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں وہ اس کے ڈراوے میں نہیں آتے۔
گزشتہ دنوں مَیں الفضل میں ایک مضمون دیکھ رہا تھا۔ مالی قربانی پہ کسی لکھنے والے نے لکھا۔ ربوہ میں کسی احمدی کا واقعہ تھا کہ وہ صاحب گوشت کی دکان پر کھڑے گوشت خرید رہے تھے۔ وہاں سے سیکرٹری مال کا سائیکل پرگزر ہوا تو اس شخص کو دیکھ کر جو سودا خرید رہا تھا، سیکرٹری مال صاحب وہاں رک گئے اور صرف یاد دہانی کے لئے بتایا کہ آپ کا فلاں چندہ بقایا ہے۔ تو اس شخص نے پوچھا کہ کتنا بقایا ہے؟ جب سیکرٹری مال نے بتایا تو وہ کافی رقم تھی۔ تو انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے وہ سیکرٹری مال کو ادا کر دی اور رسید لے لی۔ اور قصائی سے جو گوشت خریدا تھا وہ اس کو واپس کر دیا کہ آج ہم گوشت نہیں کھا سکتے۔ سادہ کھانا کھائیں گے۔ تو یہ ایسے بندے ہیں جو شیطان کے بہکاوے میں نہیں آتے جب وہ کہتا ہے کہ یہ کیا کر رہے ہو، تمہارے بچے ہیں ان کا آج گوشت کھانے کو دل چاہ رہا ہے اور تم اس سے اُن کو محروم رکھ رہے ہو؟ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ایسے لوگوں کی یہ ایک نہیں سینکڑوں مثالیں ہیں جو صرف گوشت ہی نہیں چھوڑتے بلکہ بعض دفعہ مالی قربانی کی خاطر فاقے بھی کر لیتے ہیں لیکن مالی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹتے۔
پھر جان کی قربانی ہے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ ان قربانیوں سے بھی بھری پڑی ہے۔ پاکستان میں تو آج کل عام آدمی کی بھی سینکڑوں موتیں ہوتی ہیں اور کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کون اچانک گولی کا نشانہ بن جائے۔ لیکن احمدی جو قربانیاں دیتے ہیں انہیں علم ہوتا ہے کہ اس فعل سے، یہ کام کرنے سے، اس علاقہ میں رہنے سے یا ان رستوں پر گزرنے سے قوی امکانات ہیں کہ کسی وقت بھی موت واقعہ ہو جائے اور احمدی ہونے کی وجہ سے ہو جائے لیکن خدا کی خاطر یہ قربانیاں دیتے چلے جاتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں سید الشّہداء حضرت سید عبداللطیف شہیدؓ کی قربانی ہے، مولوی عبدالرحمنؓ کی قربانی ہے جو کابل میں ہوئی اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں تھی۔ ان قربانیوں نے دنیا کو دکھایا کہ یہ عبدالرحمن ہوتے ہیں جو ایک مقصد کی خاطر خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور اس قسم کی قربانیوں کے بھی احمدیوں کی زندگیوں میں درجنوں واقعات ہیں کہ اچانک حملوں کے نتیجہ میں انہوں نے قربانیاں نہیں کیں اور شہادتیں حاصل نہیں کیں بلکہ سینہ تان کر اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے ان قربانیوں کے نظارے پیش کئے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔
بہرحال شیطان کے بارہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تمہیں قربانی کرنے سے ڈراتا ہے۔ کبھی یہ کہہ کر کہ غربت کاکا شکار ہو جاؤ گے۔ کبھی یہ کہہ کر کہ تمہاری اس قربانی سے تمہاری اولادیں بھی کسی قابل نہیں رہیں گی۔ جب جان کی قربانی سے ڈراتا ہے تو پیچھے اولادوں کا خوف دلاتا ہے کہ ان کا کیا حال ہو گا؟ آج اس زمانہ میں معیشت کو بھی ریڑھ کی ہڈی کا نام دیا جاتا ہے۔ تو قربانی کرنے والوں کو جو جان، مال اور وقت کی قربانی کرتے ہیں، اپنے اور اپنے بچوں کے معاش کے ختم ہونے سے ڈرایا جاتا ہے، لیکن وہ قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ کبھی اس بہکاوے میں نہیں آتے۔ اسی طرح اور کئی قسم کی قربانیاں ہیں جو انسان کی زندگی میں آتی ہیں جن سے شیطان ڈراتا ہے۔
پھر وقت کی قربانی کی مثال ہے۔ یہ تو ہر احمدی جانتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو احمدی بھی نظام جماعت سے منسلک ہیں وہ کچھ نہ کچھ وقت جماعت کے لئے دیتے ہیں اَور کچھ نہیں تو اجلاسوں پہ، اجتماعوں پہ اور جلسوں پر ہی کچھ وقت دے رہے ہوتے ہیں اور ہر ہفتے بہت بڑی اکثریت ہے جو اپنے وقت کی قربانی کرکے جمعہ پڑھنے آتی ہے اور شیطان جو روکتا ہے اس کے وسوسوں کی پرواہ نہیں کرتی۔ لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو جمعوں میں اور بعض اوقات عیدوں پر بھی نہیں آ رہے ہوتے اور اپنے کاروبار پر یہ عبادتیں قربان کر رہے ہوتے ہیں اور جو نمازوں کی حالت ہے وہ تو قابل فکر حالت ہے، احمدیوں میں بھی بہت بڑی تعداد ہے جو وقت کی اس قربانی کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ عبادت کی سستی کی وجوہات ہیں اور اس میں سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اپنے کاموں میں، اپنے کاروبار وں میں مشغول ہیں اور اس دوران میں نمازیں پڑھنے کے لئے وقت قربان نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم قربانیاں کر رہے ہوتے ہو تو شیطان تمہیں مختلف طریقوں سے ڈراتا ہے۔ کبھی غربت سے ڈرا کر نماز کے لئے وقت کو قربان کرنے سے روکتا ہے۔ کبھی کسی طریقے سے قربانی سے روکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک حقیقی مومن ہونے کی حیثیت سے اس سے ہوشیار رہو۔ بہرحال اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے کے لئے شیطان کے مختلف طریقے ہیں جو وہ بندوں پر استعمال کرتا رہتاہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک طرف تو غربت کا خوف دلا کر تمہیں ان قربانیوں سے شیطان روکتا ہے لیکن دوسری طرف فَحْشَآء کی ترغیب دے کر وقت اور مال وغیرہ کو خرچ بھی کروا لیتا ہے۔ جو دنیا دار ہیں اس کے بہکاوے میں آکر ان چیزوں پر مال خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک غیر مومن جو ہے، ایک دنیا دارجو ہے اس کو شیطان دنیاوی لہو و لعب میں خرچ کرنے کے لئے ابھارتا رہتا ہے۔ جُوئے پر، شراب پر، اور دوسری اس قسم کی بیہودگیوں پر شیطان کے پیچھے چلنے والے جو ہیں بے تحاشا خرچ کرتے ہیں اور انہیں احساس نہیں ہوتا کیونکہ شیطان اس بات کی طرف جو عارضی مزے اور لذت ہے ایسے ایسے طریقے سے توجہ دلا رہا ہوتا ہے کہ انسان بھول جاتا ہے کہ وہ غلط کام کر رہا ہے اور شیطان کے پیچھے چل رہا ہوتا ہے۔ پس مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰن کہ شیطان کے قدموں پر مت چلو۔ کیونکہ وہ پوری کوشش میں ہے کہ تمہیں خداتعالیٰ سے دور کر دے۔ اس سے کبھی خیر کی امیدنہ رکھو۔ بلکہ یہ سوچنا بھی انتہائی جہالت ہے کہ شیطان سے کوئی خیر مل سکتی ہے۔ کیونکہ اس کا کام تو ہے ہی یہ کہ فَحْشَاء اور ناپسندیدہ باتوں کی طرف بندے کو لے کر جائے۔ اگر ہم ایک دنیا دار آدمی سے یہ پوچھیں کہ تمہارے ذہن میں شیطان کا کیا تصور ہے؟ تو وہ یہی کہے گا کہ اللہ اس سے بچا کر رکھے۔ لیکن اس کے باوجود جو قربانیوں سے دور جا کر اور فَحْشَاء سے قریب ہو کر اس کے پیچھے دنیا دار چل رہا ہوتا ہے اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ شیطان ایسے بندوں کو اپنے پیچھے چلا کر اپنی اس بات کو پورا کر رہا ہے کہ مَیں انسانوں کی اکثریت کو خداتعالیٰ سے دور کر دوں گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان کے اس مکارانہ فعل سے ہوشیار رہو۔ وہ بڑی مکاری سے تمہیں ورغلاتا ہے۔ اور خداتعالیٰ کی طرف آؤ کہ یہی تمہاری زندگی کا مقصود ہے اور اس کا طریق یہ ہے کہ توبہ کرتے ہوئے اس کی طرف جھکو تو اللہ تعالیٰ تم سے بخشش کا وعدہ کرتا ہے۔ تمہارے پچھلے گناہوں اور غلطیوں کو معاف کرے گا اور آئندہ تمہیں نیکیوں اور قربانیوں کی توفیق دیتے ہوئے تمہارے لئے بخشش اور فضل کے سامان فرمائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں یَعِدُکُمْ کے الفاظ استعمال کرکے یہ تسلی دلائی ہے کہ اگر حقیقی توبہ ہو گی تو بخشش یقینی ہے۔ اور صرف بخشش ہی نہیں بلکہ اس کے فضل کے بھی ایسے دروازے کھلیں گے کہ انسان کی سوچ سے بھی باہر ہوں گے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کے جس پہلے عمل کی طرف توجہ دلائی ہے وہ جیساکہ مَیں بیان کر آیاہوں فَقْر سے ڈرانا ہے۔ یعنی قربانیوں کے نتیجے میں، غربت اور نہ صرف غربت بلکہ اس حد تک تباہ حالت کہ جس طرح ریڑھ کی ہڈی کے بغیر انسان کھڑا نہیں ہو سکتا تو شیطان دل میں ڈالتا ہے کہ ان قربانیوں کی وجہ سے تم کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں رہو گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان جھوٹ بولتا ہے۔ قیامت کے دن اس نے تو اپنی ان باتوں سے مُکر جانا ہے لیکن اللہ تعالیٰ تمہارے سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ تمہاری بخشش کے سامان کرے گا۔ اس کے نتیجہ میں جہاں اس دنیا میں اپنے انعامات سے نوازے گا وہاں اُخروی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ اس کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے گا۔
پھر شیطان جو ہے وہ فَحْشَآء کا حکم دیتا ہے جس کے کرنے سے اس دنیا میں بھی انسان کئی قسم کی مشکلات میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ بعض قسم کے گند اور بیہودگیاں جن سے انسان بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کئی قسم کے نقصانات اس کو اٹھانے پڑتے ہیں جو دنیاوی نقصانات بھی ہیں اور آخری زندگی میں عذاب کی صورت میں اس کو ملتے ہیں۔ لیکن ایک مومن سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس پراپنے فضلوں کو بڑھائے گا اور بڑھاتا چلاجائے گا اور برکتوں کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ جو دنیا اور آخرت میں انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتے ہوئے اس کے درجات میں ترقی کا باعث بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ وعدہ اس خدا کا وعدہ ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے وہ وَاسِعْ ہے۔ اس کے پاس فضلوں کے نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں۔ آج ایک احمدی جو کسی بھی قسم کی قربانی کرنے والا ہے یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قربانی کے نتیجہ میں ایسے فضل فرماتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ کس کس طریقے سے اس کی اللہ تعالیٰ مدد فرما رہا ہے۔ مالی قربانی کرنے والوں کے مالوں میں اتنی وسعت دیتا ہے کہ بعض اوقات ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ کئی لوگ خط لکھ کر اس کا اظہارکر رہے ہوتے ہیں کہ ان کے رزق میں اتنی برکت پڑی کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ جان قربان کرنے والو ں کو اموال و نفوس میں اتنی برکت دیتا ہے کہ ان کی اولادوں کی سوچ سے بھی باہر ہے۔
کئی احمدی خاندان ہیں جن کے افرا دنے احمدیت کی خاطر شہادت کا رتبہ حاصل کیا اور ان کی اولادیں اور ان کے عزیز اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ شہادتیں اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ان پر بے انتہا برکات اور فضل نازل کرنے کی وجہ بنیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بے انتہا نظارے دیکھے۔ اس خداکے جو وَاسِعْ ہے اور عَلِیْم بھی ہے۔ عَلِیْم کہہ کر تو یہاں اس طرف بھی توجہ دلائی کہ تمہاری قربانیاں، تمہارے اعمال اس کے علم میں ہیں۔ آئندہ بھی جو عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو گا تو وَاسِعْ خدا اپنے وسیع تر فضلوں سے تمہاری توقعات سے بڑھ کر تمہیں حصہ دیتا رہے گا۔
پس یہ بنیادی نکتہ ہے جو ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مزید احسان کس طرح کرتا ہے یہ دیکھیں کہ اپنی توبہ اور استغفار اور نیک اعمال اور قربانیاں جو ہیں وہی اس کی بخشش کے سامان نہیں کر رہی ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وسیع تر رحمت سے فرشتوں کو بھی اس کام پر لگایا ہوا ہے کہ جو بندے ایمان لانے والے ہیں اور توبہ کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ کی راہ پر چلنے کی کوشش کرنے والے ہیں اس کی خاطر قربانیاں دینے والے ہیں ان کے لئے بخشش طلب کرو۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ سورۃ مومن میں فرماتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔ رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْ ءٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ۔ (المومن: 8) کہ وہ جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو اس کے گرد ہیں وہ اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے بخشش طلب کرتے ہیں جو ایمان لائے۔ اے ہمارے رب تو ہر چیز پر رحمت اور علم کے ساتھ محیط ہے۔ پس وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور تیری راہ کی پیروی کی ان کو بخش دے اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا۔
یہاں عرش کو اٹھائے ہوئے سے مراد فرشتے ہیں۔ سورۃ اَلْحَاقَّہ میں واضح طور پر فرشتوں کا ذکر کرکے فرمایا کہ قیامت کے دن وہاں آٹھ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ بہرحال یہاں عرش اٹھانے والوں سے مراد اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں یا وہ صفات ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرشتے مامور کئے گئے ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں یعنی ربّ ہے رحمن ہے رحیم ہے اور مالک یوم الدین ہے۔ جو اس دنیا میں انسان کے کام آتی ہیں۔ بنیادی صفات پر جو ایمان لانے والے ہیں اور ایمان لانے کے بعد توبہ کی طرف توجہ کرنے والے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور نیک اعمال بجا لانے والے ہیں ان کے لئے فرشتے بھی دعا کرتے ہیں خاص طورپر وہ فرشتے جن کے ذمّہ خداتعالیٰ نے ان صفات کو انسانوں پر جاری کرنے کے لئے لگایا ہے۔ ہر فرشتہ جس کے ذمّہ متعلقہ صفت ہے خداتعالیٰ سے اس صفت کے حوالے سے دعا کرتا ہے۔ ان لوگوں کے لئے بخشش طلب کرتا ہے جو ایمان لانے کے بعد پھر اس کوشش میں ہیں کہ خداتعالیٰ کا قرب حاصل کریں اور ہمیشہ توبہ کرتے ہوئے اور نیک اعمال بجا لاتے ہوئے اس قرب کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں اور شیطان کے حملوں سے بچے رہیں۔ اسی طرح جو ان فرشتوں کے ماتحت فرشتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کا جو نظام ہے اس میں ماتحت فرشتے بھی ہیں ان صفات کو جو فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں ان کے نیچے جو کام کر رہے ہیں وہ بھی ان بندوں کے لئے بخشش طلب کررہے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں گویا کہ خداتعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے اعمال کو زیادہ سے زیادہ اجر دینے کے لئے اپنے فرشتوں کے نظام کو بھی متحرک کیا ہوا ہے کہ میرے ان بندوں کے لئے بخشش طلب کرتے رہو جس سے جہاں ان کے اجربڑھتے رہیں گے وہاں ان کو ان فرشتوں کی بخشش مانگنے کی وجہ سے ہمیشہ نیک اعمال اور توبہ کی توفیق بھی ملتی رہے گی۔ بندہ جو ہے لغزشوں اور غلطیوں سے پُر ہے۔ اگر لغزشیں ہوتی رہیں اور کہیں غلطی سے عارضی ٹھوکر لگ جائے، جان بوجھ کر انسان غلطیاں نہ کرتا چلا جائے تو یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کو اس کی رحمت کا واسطہ دے کر کہتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے علم کا واسطہ دے کر کہتے ہیں جو بے کنار ہے، جس کی کوئی حدیں نہیں ہیں کہ انہیں بخش دے اور آئندہ بھی یہ لوگ تیری پیروی کرتے ہوئے تیری بخشش سے حصہ لیتے رہیں۔ یہاں رحمت کا ذکر پہلے کرکے بخشش کی دعا کی ہے کہ بخشش تو تیری رحمت سے ہونی ہے۔ پس اپنی وسیع رحمت کو جاری کرتے ہوئے بخشش کے سامان کرتا رہ۔ بے شک تیرا علم وسیع ہے جو انسان کے، ان لوگوں کے دلوں میں ہے، وہ بھی تجھے علم ہے۔ اور آج اس نیک کام کے بعد آئندہ جو عمل ہونے ہیں ان کے بارے میں بھی فرشتے کہتے ہیں اے خدا ان کاتجھے بھی علم ہے۔ تو ان کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہو سکتا ہے کہ تیرے علم میں ہو کہ یہ بگڑ جانے والے ہیں اور جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں لیکن اپنی رحمت کو پھیلاتے ہوئے ان کے نیک اعمال کو دائمی کر دے تاکہ یہ ہمیشہ نیکیوں کی طرف ہی مائل رہیں اور جہنم کی آگ سے بچے رہیں اور اگر تیری رحمت ہو گی تو ان کو یہ توفیق بھی ملتی رہے گی۔
پس یہ ہے ہمارا رحمن خدا اور غفورو رحیم خدا جو انسان کی بخشش کے سامان کرنے اور اسے نیکیوں پر قائم رکھنے کے لئے ہر ذریعہ استعمال کرتا ہے۔ ایک گناہ ہو تو اس گناہ کی اس کو اتنی سزا ملتی ہے لیکن ایک انسان اگر نیکی کرتا ہے تو دس گنا اجر ملتا ہے۔ قربانیوں کا معاملہ آیا تو فرمایا کہ اس قربانی کا سات سو گنا اجر ہے۔ پھر فرمایا کہ اس سے بھی بڑھ کر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ واسع خدا ہے اس کے اجر کی کوئی انتہا نہیں۔ لیکن پھر بھی انسان کتنا ناشکرا ہے کہ اس رحمن اور رحیم خدا کو چھوڑ کر جس کے اجر کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں شیطان کے بہکاوے میں آ کرجو عارضی لذت ہے اس کی طرف لپکتا ہے۔
پھر حضرت موسیٰ ؑ کی ایک دعاکے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کا سورۃ اعراف میں ذکر ہے کہ وَاکْتُبْ لَنَا فِی ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَا اِلَیْکَ۔ قَالَ عَذَابِیْ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآءُ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ءٍ۔ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ (الاعراف: 157) اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی حسنہ لکھ دے اور آخرت میں بھی۔ (یہ پچھلی آیت میں بھی دعا چل رہی ہے، کچھ حصہ اس آیت میں ہے)۔ یقینا پھر ہم تیری طرف توبہ کرتے ہوئے آگئے ہیں۔ اس نے کہا، اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرا عذاب وہ ہے جس پرمَیں چاہوں اس کووارد کر دیتا ہوں اور میری رحمت وہ ہے کہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ پس میں اس رحمت کو ان لوگوں کے لئے واجب کر دوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے بیان کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قرآن میں جو انبیاء کے قصے بیان کئے گئے ہیں وہ آئندہ کے لئے پیشگوئیوں کی صورت بھی رکھتے ہیں۔ پھر جب ان دعاؤں کی قبولیت کا ذکر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا ذکر کرتا ہے تو یہ رحمت آج بھی اسی طرح پھیلی ہوئی ہے جس طرح پہلے تھی۔ بشرطیکہ انسان جو ہے ان شرائط کو پورا کرنے کی کوشش کرے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے انتہا اور بے کنار رحمت کے ذکر میں فرماتا ہے کہ یہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ لیکن ساتھ ہی انسانوں کو ان کے مقصد پیدائش کی طرف بھی توجہ دلا دی کہ ٹھیک ہے میری رحمت تو ہر چیز پر حاوی ہے لیکن تمہارے ذمہ بھی بعض ذمہ داریاں لگائی گئی ہیں ان کو بھی ادا کرو اور شیطان کے پیچھے نہ چلو اور ذمہ داری یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرو، میری عبادت کرو، میرے سے سب رشتوں سے بڑھ کر محبت کرو، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے مالی قربانیاں بھی کرو اور میری آیات پر ایمان لاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے برگزیدوں اور ماموروں کا دنیا میں آنا بھی خداتعالیٰ کی آیات اور نشانوں میں سے ایک ہوتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے نشانات کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو آنحضرتﷺ کے عاشق صادق ہیں ان کی آمد کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے نشانات کا ایک سلسلہ شروع کیا جو چاند، سورج گرہن کی صورت میں بھی ہمیں نظر آتا ہے۔ کبھی زلزلوں کی صورت میں یہ ظاہر ہوا۔ کبھی طاعون کی صورت میں یہ ظاہر ہوا۔ پھر اس زمانہ کی ایجادات ہیں ان کے بارہ میں پیشگوئیاں تھیں یہ بھی نشانیاں تھیں جو پوری ہو رہی ہیں اور یہ نشانات اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد دکھا رہا ہے۔ خود یہ لوگ تسلیم کرتے ہیں زلزلے آئے ہیں بیماریاں بڑھ گئی ہیں۔ پہلے بھی تھیں لیکن یہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ اتنی شدت پہلے نہیں تھی اور پھر جب دعویٰ کرنے والے نے یہ اعلان کر دیا کہ یہ ہو گااور میری تائید میں ہو گا تو پھر یہ خاص نشان بن جاتا ہے۔
پس خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے نشانوں کو دیکھو، ان پر ایمان لاؤ اور میرے بھیجے ہوئے کی تضحیک نہ کرو تو تم پرمیری رحمت کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں ہو گی۔ رحمت پھیلتی چلی جائے گی اور ان پر یہ ضرور واضح ہو جائے گی جو نیک اعمال بجا لا رہے ہوں گے۔ باقی اللہ تعالیٰ مالک ہے۔ اس نے خود فرمایا جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس کو چاہے گا بخش د ے گا لیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کی صفت کو ہر چیز پر حاوی کیا ہوا ہے اس لئے بندے کو یہی امید رکھنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے بخشش کی امید رکھتے ہوئے اس کے احکامات پر چلنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔ ایک مومن کا تو خاص طورپر یہ کام ہے۔ اس کا یہ کام نہیں کہ جو بات اللہ تعالیٰ نے اپنے پر واجب کی ہے اسے چھوڑ کر اس بات کو پکڑے کہ خدا کی رحمت وسیع ہے اس لئے، جو مرضی کرتے رہوبخشا جاؤں گا۔ یہ بیوقوفوں کا کام ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو نہ سمجھنا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں کہ: ’’اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت عام اور وسیع ہے اور غضب یعنی (صفت) عدل بعد کسی خصوصیت کے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی یہ صفت قانون الٰہی سے تجاوز کرنے کے بعد اپنا حق پیدا کرتی ہے‘‘۔ (جنگ مقدس۔ روحانی خزائن جلد 6صفحہ 207) کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تو بے شک وسیع ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی صفت عدل کے تحت غضب بھی رکھتا ہے۔ جب وہ فیصلہ کرنے لگتا ہے تو انصاف کرتا ہے۔ جب انسان قانون الٰہی جو ہے اس کو توڑتا ہے، اپنی حدوں سے بڑھتا ہے تو اس وقت یہ جوعدل کی صفت ہے اپنا حق پیدا کر دیتی ہے اور اس وقت اس کی خصوصیت پیدا ہو جاتی ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے جو قانون قدرت رکھا ہے اس کے تحت حد سے زیادہ بڑھنے والوں کو سزا بھی اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ اس لئے اس نے گناہگاروں کے بارہ میں رحمت حاوی کرنے کا نہیں فرمایا بلکہ تقویٰ پر چلنے والوں، زکوٰۃ دینے والوں اور جو خداتعالیٰ کے نشانوں پر ایمان لانے والے ہیں ان کے بارہ میں فرمایا کہ ان پر میری رحمت واجب ہے۔ پس ایک مومن کا کام ہے کہ اس رحمت کے حصول کی کوشش کرتا رہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی وسیع تر رحمتوں کی امید رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 22 مورخہ 29 مئی تا 4 جون 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 7)
شیطان کے فقر اور بے حیائی سے ڈرانے کا ذکر قرآنی واقعات آئندہ کی پیشگوئیاں ہیں۔ احمدیوں کی قربانیوں کا ذکر کہ وہ خدا کی خاطر دیتے جاتے ہیں۔ شیطان کا مومنوں کو قربانیوں سے ڈرانا۔ مال، جان اور وقت کی قربانیوں کا ذکر۔ اللہ کی وسیع رحمت کے حوالے سے اس کے بندوں کو بخشنے کے مختلف طریقوں کا ذکر۔ اللہ کی وسیع رحمت کے بالمقابل انسان پر جو مختلف ذمہ داریاں اور تقاضے بنتے ہیں ان کا ذکر۔
فرمودہ مورخہ 08؍مئی 2009ء بمطابق08؍ہجرت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔