صفت الواسع۔ یتیموں کی خیرخواہی اور عائلی معاملات
خطبہ جمعہ 15؍ مئی 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
گزشتہ خطبہ میں، مَیں نے خداتعالیٰ کے وَاسِعْ ہونے کے حوالہ سے قرآن کریم میں بعض امور اور جو احکامات بیان ہوئے ہیں، ان کا ذکر کیا تھا۔ آج بھی یہی سلسلہ آگے چلے گا اور اس تسلسل میں بعض آیات کی روشنی میں جن میں متنوع اور مختلف قسم کے مضامین بیان کئے گئے ہیں، جن کا تعلق ہماری روزمرہ کی زندگی سے بھی ہے اور ہماری اخلاقی اور روحانی حالتوں سے بھی ہے ان کا ذکر کروں گا۔
اللہ تعالیٰ جو اپنے وسیع تر علم کی وجہ سے ہمارے ہر عمل کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس نے یہ امور اور احکامات بیان فرما کر ہماری ان راستوں کی طرف راہنمائی فرمائی ہے جن پر چل کر ہم اللہ تعالیٰ کے وسیع تر فضلوں کے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق حصہ دار بن سکتے ہیں، ان کو سمیٹنے والے بن سکتے ہیں، ان سے فیض پانے والے بن سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس حوالہ سے ہمارے عائلی معاملات کے بارہ میں بھی رہنمائی فرمائی ہے۔ ہمارے معاشرتی معاملات کے بارہ میں بھی رہنمائی فرمائی ہے۔ ہماری دینی حالتوں کو صحیح نہج پر چلانے کے لئے بھی راہنمائی فرمائی ہے۔ ہماری روحانی اور اخلاقی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی طرف بھی راہنمائی فرمائی ہے۔ غرض ہر پہلو جو بھی انسانی زندگی کا ہے اس بارہ میں خداتعالیٰ مکمل احاطہ کئے ہوئے ہے، اس بارہ میں ہماری راہنمائی فرماتا ہے۔ کیونکہ انسان کو بھی خداتعالیٰ نے اپنی صفات کو اپنانے کا حکم فرمایا ہے اس لئے اس صفت کے حوالہ سے اسے بھی اپنے روحانی اور اخلاقی مرتبوں کے حصول کے لئے اپنی کوششوں اور عملوں میں وسعت پیدا کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا بن سکے۔ لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی بتا دیا کہ مجھے کیونکہ تمہاری استعدادوں کا علم ہے اس لئے جو کام مَیں نے تمہارے سپرد کئے ہیں وہ تمہاری استعدادوں سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ تو پھر ان استعدادوں کی وسعت بھی ہر انسان کی برابر نہیں ہوتی۔ اور جب استعدادیں برابر نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ جب حکم دیتا ہے تو اتنا ہی دیتا ہے جتنا کسی کی طاقت ہے۔ لیکن اپنی استعدادوں کی حدود مقرر کرنا انسان کا کام نہیں ہے۔ یہ خداتعالیٰ ہی ہے جو ہر ایک کی صلاحیتوں اور استعدادوں کو جانتا ہے اس لئے جو بھی اللہ تعالیٰ نے احکامات نازل فرمائے اس بارہ میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ہماری استعدادوں سے باہر ہیں۔ چھپی ہوئی صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ودیعت فرمائی ہیں۔ ان کو نکالنا، ابھارنا، صیقل کرنا یہ ہر انسان کا کام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے آنحضرتﷺ کا ذکر فرما کر جب یہ فرمایا کہ یہ تمہارے لئے اُسوہ حسنہ ہیں تو اس انسان کامل کے اُسوہ حسنہ پر ہمیں چلنے کے لئے بھی تلقین فرمائی۔ انسان کامل تو ایک ہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا جس کی صلاحیتوں اور استعدادوں کی وسعتوں کی بھی کوئی انتہا نہیں۔ آپؐ کی زندگی کے کسی بھی پہلو پر ہم غور کریں تو ایک عظیم معیار ہمیں نظر آتا ہے۔ لیکن ہمیں حکم یہ ہے کہ تمہارے لئے اُسوہ حسنہ آنحضرتﷺ کی ذات ہے اور اس پر چلنا تمہارا فرض ہے۔ کوشش کرو، حتی المقدور کوشش کرو کہ اس پر چل سکو۔
مَیں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جن باتوں میں راہنمائی فرمائی ان میں عائلی معاملات بھی ہیں۔ قرآن کریم کی بعض آیات ہیں جو مَیں اس ضمن میں پیش کروں گا۔ لیکن ان کو پیش کرنے سے پہلے آنحضرتﷺ کے اُسوہ حسنہ کا ذکر کروں گا جو اس ضمن میں ہمارے سامنے ہے کہ آپؐ کا اپنے اہل کے ساتھ کیا سلوک تھا؟ اور اس سلوک میں آپؐ نے کیسا اعلیٰ معیار قائم فرمایا۔
آپؐ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہتر ہے اور مَیں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔ (ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبیﷺ ؛حدیث نمبر 3895)
پھر آپؐ نے ہمیں نصیحت فرمائی اور فرمایا کہ تمہیں اگر ایک دوسرے میں کوئی عیب نظر آتا ہے یا دوسرے کی عادت یا حرکت ناپسند ہے تو کئی باتیں ایسی بھی ہوں گی جو اچھی بھی لگتی ہوں گی۔ (مسلم کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء – حدیث نمبر 3645)
تو ان اچھی باتوں کو سامنے رکھ کر ایثار کا پہلو اختیار کرنا چاہئے اور موافقت کی فضا پیدا کرنی چاہئے۔ یہ دونوں کے لئے حکم ہے۔ مرد کے لئے بھی اور عورت کے بھی اور آپؐ کی تمام بیویاں اس بات کی گواہ ہیں کہ آپؐ نے ہمیشہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا۔ سفر پر جاتے تو بیویوں کے نام قرعہ ڈالتے تھے جس کا نام آتا اسے ساتھ لے کر جاتے۔ (بخاری کتاب المغازی باب حدیث افک حدیث نمبر4141)
بیویوں کی بیماری کی حالت میں تیمارداری فرماتے۔ (بخاری کتاب المغازی باب حدیث افک حدیث نمبر4141)
ان کے جذبات کا خیال رکھتے۔ لیکن اس کے باوجود یہ دعا آپؐ فرماتے ہیں کہ اے اللہ ! تو جانتا اور دیکھتا ہے کہ انسانی کوشش کی حد تک جو برابری اور منصفانہ تقسیم ہوتی ہے وہ مَیں کرتاہوں۔ میرے مولا! دل پر تو میرا اختیار نہیں ہے اگر دل کا میلان کسی خوبی اور کسی کی صلاحیتوں اور قابلیت کی وجہ سے کسی کی طرف ہے تو مجھے معاف فرمانا۔ (ابو داؤد کتاب النکاح باب فی القسم بین النساء حدیث نمبر 2134)
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ جو تعلق تھا اس کے بارہ میں حضرت عائشہؓ کو یہ جواب دیا کہ خدیجہؓ اس وقت میری ساتھی بنی جب مَیں تنہا تھا۔ وہ اس وقت میری مدد گار بنی جب مَیں بے یارومددگار تھا۔ اس نے اپنا مال بے دریغ مجھ پر فدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے اولاد بھی دی۔ انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب دنیا نے مجھے جھٹلایا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 204مسند عائشۃ حدیث نمبر 25376 عالم الکتب بیروت 2008ء)
اور آپ کی یہ قدر شناسی آپؐ کے وسیع تر قدر شناس دل میں ہمیشہ رہی۔ باوجوداس کے کہ آپؐ کی زندہ اور جوان بیویاں موجود تھیں اور آپؐ کی محبوب بیوی موجود تھی جو اس وجہ سے محبوب تھی کہ خداتعالیٰ کی سب سے زیادہ وحی اس کے حجرے میں ہوئی۔ (ترمذی کتاب المناقب باب فضل عائشۃ حدیث نمبر 3879)
اس نے جب عرض کیا کہ آپ کے پاس زندہ بیویاں موجود ہیں کیونکہ ہر وقت اس بڑھیا کا ذکر کرتے رہتے ہیں تو بڑے پیار سے اسے سمجھا یاکہ تنگ نظری کا مظاہرہ نہ کرو۔ وسعت حوصلہ پیدا کرو۔ یہ یہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مَیں اپنی پہلی بیوی کا ذکر کرتا ہوں اور یاد کرتا ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ204 مسند عائشۃ حدیث نمبر 25376 ایڈیشن 1998 مطبوعہ بیروت)
آج جو مستشرقین اور آنحضرتﷺ پر الزام لگانے والے بیہودہ گوئیوں کی انتہا کئے ہوئے ہیں کیا انہیں میرے آقا کا یہ اُسوہ حسنہ نظر نہیں آتاکہ کس طرح انہوں نے اپنے عائلی حقوق ادا کئے کہ زندہ بیویوں کے ساتھ بھی برابری کا سلوک ہے باوجود اس کے کہ دل پرکسی کا اختیار نہیں۔ پھر بھی جو ظاہری سلوک ہے وہ ایک جیسا رکھا اور جس بیوی نے ابتدا میں ہی سب کچھ قربان کر دیا قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے، زندہ بیویوں کو بھی بتا دیا۔ کہ مَیں تو قدر شناس ہوں، اگر مَیں یہ قدر شناسی نہ کروں تو اس خدا کاشکر گزار نہیں کہلا سکوں گا جس نے مجھے کبھی تہی دامن نہیں چھوڑا اور اپنی وسیع تر نعمتوں سے مجھے حصہ دیتا چلا گیا۔
آنحضرتﷺ کا اپنی بیویوں سے حسن سلوک اس وجہ سے تھا کہ خداتعالیٰ کا حکم ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرو اور جب آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس پر عمل کرو تو خود اس کے اعلیٰ ترین نمونے قائم فرمائے۔
قرآن کریم میں اگر اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ شادی کا حکم دیا ہے تو بعض شرائط بھی عائد فرمائیں۔ یہ بھی اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے اور آنحضرتﷺ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دے کر عورت پر ظلم کیا گیا ہے۔ یا صرف مرد کے جذبات کا خیال رکھا گیا ہے صرف۔
اس بارے میں خداتعالیٰ فرماتا ہے، کھلا حکم نہیں ہے۔ فرمایا وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا (النساء: 4) اور اگر تم ڈرو کہ تم یتامیٰ کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو۔ دو دو اور تین تین، چار چار لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک کافی ہے یا وہ جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یہ طریق قریب تر ہے کہ تم ناانصافی سے بچو۔
اس آیت میں ایک تو یتیم لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیا گیاہے کہ یتیموں سے بھی شادی جب کرو تو ظلم کی وجہ سے نہ ہو بلکہ ان کے پورے حقوق ادا کرکے شادی کرو اور پھر شادی کے بعد ان کے جذبات کا خیال رکھو اور یہ خیال نہ کرو، یہ کبھی ذہن میں نہ آئے کہ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ تو جس طرح چاہے ان سے سلوک کر لیا جائے۔ اور اگر اپنی طبیعت کے بارہ میں یہ خوف ہے، یہ شک ہے کہ انصاف نہیں کر سکو گے تو آزاد عورتوں سے نکاح کرو، دو، تین یا چار کی اجازت ہے لیکن انصاف کے تقاضوں کے ساتھ۔ اگر یہ انصاف نہیں کر سکتے تو ایک سے زیادہ نہ کرو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ:
’’یتیم لڑکیاں جن کی تم پرورش کرو ان سے نکاح کرنا مضائقہ نہیں۔ لیکن اگر تم دیکھو کہ چونکہ وہ لاوارث ہیں، شاید تمہارا نفس ان پر زیادتی کرے تو ماں باپ اور اقارب والی عورتیں کرو جو تمہاری مؤدّب رہیں اور ان کا تمہیں خوف رہے۔ ایک دو تین چار تک کر سکتے ہو بشرطیکہ اعتدال کرو۔ اگر اعتدال نہ ہو تو پھر ایک ہی پر کفایت کرو۔ گو ضرورت پیش آوے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 337)
’’گو ضرورت پیش آوے‘‘۔ یہ بڑا بامعنی فقرہ ہے۔ اب دیکھیں اس زمانہ کے حَکَم اور عدَل نے یہ کہہ کر فیصلہ کر دیا کہ تمہاری ضرورت جس کے بہانے بنا کر تم شادی کرنا چاہتے ہو، تمہاری ضرورت جو ہے وہ اصل اہمیت نہیں رکھتی بلکہ معاشرے کا امن اور سکون اور انصاف اصل چیز ہے۔
آج کل کہیں نہ کہیں سے یہ شکایات آتی رہتی ہیں کہ بچے ہیں، اولاد ہے لیکن خاوند مختلف بہانے بنا کر شادی کرنا چاہتا ہے۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ فرمایا اگر انصاف نہیں کر سکتے تو شادی نہ کرو اور انصاف میں ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ اگر آمد ہی اتنی نہیں کہ گھر چلا سکو تو پھر ایک اور شادی کا بوجھ اٹھا کر پہلی بیوی بچوں کے حقوق چھیننے والی بات ہو گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو ایک جگہ فرمایا ہے کہ اگر مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کرنی ہی پڑے تو پھر اس صورت میں پہلی بیوی کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 430 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
لیکن عملاً جو آج کل ہمیں معاشرے میں نظر آتا ہے پہلی بیوی اور بچوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف سے آہستہ آہستہ بالکل آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ پس یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ مالی کشائش اور دوسرے حقوق کی ادائیگی میں بے انصافی تو نہیں ہو گی؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلاء میں نہ ڈالے‘‘۔ (الحکم جلد 2 نمبر 2مؤرخہ 6 مارچ 1898ء صفحہ 2)
دوسری شادی کرکے۔
پس بیوی کے حقوق کی ادائیگی اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ انہیں ادا نہ کرکے انسان ابتلاء میں پڑ جاتا ہے یا پڑ سکتا ہے اور خداتعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بن جاتا ہے۔ مَیں نے آنحضرتﷺ کی ایک د عا کا ذکر کیا تھا کہ آپؐ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا عرض کرتے تھے کہ میں ظاہری طور پر تو ہر ایک کے حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کسی بیوی کی کسی خوبی کی وجہ سے بعض باتوں کا اظہارہو جائے جو میرے اختیار میں نہیں تو ایسی صورت میں مجھے معاف فرما۔ اور یہ ایک ایسی بات ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور خداتعالیٰ جس نے انسان کو پیدا کیا اور پھرایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت بھی دی، جو بندے کے دل کا حال بھی جانتا ہے جس کی پاتال تک سے وہ واقف ہے، غیب کا علم رکھتا ہے۔ اس نے اس بارہ میں قرآن کریم میں واضح فرما دیا ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے کہ بعض حالات کی وجہ سے تم کسی طرف زیادہ جھکاؤ کر جاؤ۔ تو ایسی صورت میں یہ بہرحال ضروری ہے کہ جو اس کے ظاہری حقوق ہیں، وہ مکمل طور پر ادا کرو۔ جیسا کہ سورۃ نساء میں فرماتا ہے کہ وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْآ اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْھَا کَالْمُعَلَّقَۃِ وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (النساء: 130) اور اب تم یہ توفیق نہیں پا سکو گے کہ عورتوں کے درمیان کامل عدل کا معاملہ کرو خواہ تم کتنا ہی چاہو۔ اس لئے یہ تو کرو کہ کسی ایک کی طرف کلیۃً نہ جھک جاؤ کہ اس دوسری کو گویا لٹکتا ہوا چھوڑ دو۔ اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقینا اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
تو ایسے معاملات جن میں انسان کو اختیار نہ ہو اس میں کامل عدل تو ممکن نہیں لیکن جو انسان کے اختیار میں ہے اس میں انصاف بہرحال ضروری ہے۔ اور ظاہری انصاف جیسا کہ مَیں بتا آیا ہوں کہ کھانا، پینا، کپڑے، رہائش اور وقت وغیرہ سب شامل ہیں۔ اگر صرف خرچ دیا اور وقت نہ دیا تو یہ بھی درست نہیں اور صرف رہائش کا انتظام کر دیا اور گھریلو اخراجات کے لئے چھوڑ دیا کہ عورت لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتی پھرے تو یہ بھی درست نہیں ہے۔ پس ظاہری لحاظ سے مکمل ذمہ داری مرد کا فرض ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور اس کا جھکاؤ صرف ایک طرف ہو اور دوسری کو نظر انداز کرتا ہو تو قیامت کے دن اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کا ایک حصہ جسم کا کٹا ہوا یا علیحدہ ہو گا۔ (سنن نسائی کتاب عشرۃ النساء باب میل الرجل حدیث نمبر 3942)
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ ظاہری حقوق دونوں کے ادا کرو اور کسی بیوی کو بھی اس طرح نہ چھوڑ وکہ وہ بیوی ہونے کے باوجود ہر حق سے محروم ہو۔ نہ اسے علیحدہ کر رہے ہو اور نہ اس کا حق صحیح طرح ادا کیا جا رہا ہو۔ ایک مومن کا وطیرہ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ پس مومن کا فرض ہے کہ ان کاموں سے بچے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور اپنی اصلاح کرے۔ بعض ایسی شکایات آتی ہیں کہ ایک بیوی کی طرف زیادہ توجہ دی جا رہی ہے اور دوسری بیوی کو چھوڑا گیا ہے اور پھر بعض دفعہ کسی بیوی کی بعض باتوں کا بہانہ بنا کر یہ کہا جاتا ہے بلکہ دو نہ بھی ہوں تو ایک شادی کی صورت میں بعض عائلی جھگڑے ایسے بھی آتے ہیں، یہ کہا جاتا ہے کہ نہ مَیں تمہیں چھوڑوں گا یا طلاق دوں گا اور نہ ہی تمہیں بساؤں گا۔ اگر قضاء میں یا عدالت میں مقدمات ہیں تو بلاوجہ مقدمہ کو لمبا لٹکایا جاتا ہے۔ ایسے حیلے اور بہانے تلاش کئے جاتے ہیں کہ معاملہ لٹکتا چلا جائے۔ بعض کو اس لئے طلاق نہیں دی جاتی، پہلے میں کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں، کہ یہ خود خلع لے تاکہ حق مہر سے بچت ہو جائے، حق مہر ادا نہ کرنا پڑے۔ تو یہ سب باتیں ایسی ہیں جو تقویٰ سے دُور لے جانے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اصلاح کرو، اگر تم اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے رحم اور بخشش کے طلبگار ہو تو خود بھی رحم کا مظاہرہ کرو اور بیوی کو اس کا حق دے کرگھر میں بساؤ۔ اگر اللہ تعالیٰ کے وسیع رحم سے حصہ لینا چاہتے ہو تو اپنے رحم کو بھی وسیع کرو۔
جومَیں نے آیت پڑھی تھی اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنْ یَّتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلًّا مِّنْ سَعَتِہٖ۔ وَکَانَ اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیْمًا (النساء: 131) اور اگر وہ دونوں الگ ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کو اس کی توفیق کے مطابق غنی کر دے گا اور اللہ بہت وسعتیں دینے والا اور حکمت والا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اصلاح کی اگر کوئی بھی صورت نہیں تو کَالْمُعَلَّقۃ یعنی لٹکتا ہوا نہ چھوڑ دو۔ پھر اس کا حق دے کر احسن طریق پر اسے رخصت کرو۔ اگر یہکَالْمُعَلَّقۃ چھوڑا ہے کسی مردنے تو اس صورت میں بیوی کو بھی اختیار ہے کہ قاضی کے ذریعہ سے خلع لے لے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مومن مرد اور ایک مومن عورت تبھی تقویٰ پر چلنے والے ہوں گے جو محبت پیار سے رہنے کی کوششیں کریں گے اور اگر یہ تمام کوششیں ناکام ہو جائیں تو ایک دوسرے سے شرافت سے علیحدہ ہو جائیں۔ اور مردبھی احسن طور پر عورت کے حقوق ادا کرکے اسے علیحدہ کر دے تو یہی مرد پر فرض ہے اور عورت کاحق ہے۔ اور کیونکہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اکٹھے رہنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اس لئے علیحدگی ہو رہی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنی وسیع تر رحمتوں اور فضلوں سے دونوں مرد اور عورت کے لئے بہترین سامان پیدا فرما دے گا اور انہیں اپنی جناب سے غنی اور بے احتیاج کر دے گا۔ گو ایک حدیث کے مطابق مرد اور عورت کا علیحدہ ہونا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے۔ (ابو داؤد کتاب الطلاق باب کراھیۃ الطلاق ؛حدیث نمبر 2178)
لیکن کیونکہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اس رشتے کو قائم رکھنے کی تمام تر کوششیں جو تھیں وہ ناکام ہو چکی ہیں اس لئے خدا تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے جب اس کی طرف جھکتے ہوئے یہ فیصلے کرنے پڑیں کہ بحالت مجبوری علیحدگی لینی پڑے، تو وہ اپنے واسع ہونے کی وجہ سے دونوں کے لئے پھر وسیع انتظام فرماتا ہے۔ کیونکہ وہ حکیم بھی ہے اس لئے جو فیصلے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے کئے جائیں وہ پُر حکمت بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس آیت میں ایک اصولی بات یہ بھی بیان ہو گئی ہے کہ رشتوں کے فیصلے جذبات میں آکر نہیں کرنے چاہئیں۔ نہ ماں باپ کی طرف سے نہ لڑکے لڑکی کی طرف سے، کسی جذباتی پن کا اظہار ہو جائے یا جذباتی پن کا اظہار کرتے ہوئے رشتے طے کر دئیے جائیں بلکہ خداتعالیٰ جو ہر بات کا جاننے والا اور احاطہ کئے ہوئے ہے اس سے مدد لیتے ہوئے دعا کرکے سوچ سمجھ کر رشتے جوڑنے چاہئیں اور جب ایسے رشتے جڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان میں اللہ پھر اپنے فضل سے وسعتیں بھی پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غنی کر دیتا ہے، ان کے مال میں بھی اللہ تعالیٰ کشائش پیدا کر دیتا ہے۔ ان کے تعلقات میں بھی کشادگی پیدا کر دیتا ہے۔
مَیں نے طلاق کا ذکر کیا تھا کہ بعض مرد طلاق کے معاملات کو لٹکاتے ہیں اور لمبا کرتے چلے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو ایک تو جب شادی ہو جائے کچھ عرصہ مرد اور عورت اکٹھے بھی رہتے ہیں اور اولاد بھی بسا اوقات ہوجاتی ہے۔ پھرطلاق کی نوبت آتی ہے۔ اس کے حقوق تو واضح ہیں جو دینے ہیں مرد کے فرائض ہیں، بچوں کے خرچ بھی ہیں، حق مہر وغیرہ بھی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض اوقات ایسے حالات پیش آ جاتے ہیں جب ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہوتی یا حق مہر مقرر نہیں ہوا ہوتا تب بھی عورت کے حقوق ادا کرو۔
سورۃ بقرہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ۚۖ وَّ مَتِّعُوۡہُنَّ ۚ عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ (البقرۃ: 237) تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورت کو طلاق دے دو جبکہ تم نے ابھی انہیں چھوا نہ ہو یا ابھی تم نے ان کے لئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو اور انہیں کچھ فائدہ بھی پہنچاؤ۔ صاحب حیثیت پر اس کی حیثیت کے مطابق فرض ہے اور غریب پر اس کی حیثیت کے مناسب حال یہ معروف کے مطابق اس متاع کو احسان کرنے والوں پر تو یہ فرض ہے۔
اس آیت میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مرد کی طرف سے رشتہ نہ نبھانے کا سوال اٹھے، اس کی جو بھی وجوہات ہوں، مرد کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں کو ختم کرتے وقت عورت سے احسان کا سلوک کرے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کو ادائیگی کرے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہے تو مرد کو حکم ہے کہ اس وسعت کا اظہار کرو۔ جس خدا نے وسعت دی ہے اگر اس کا اظہار نہیں کرو گے تو وہ اسے روکنے کی طاقت بھی رکھتا ہے کشائش دی ہے اگر حق ادا نہیں کرو گے، احسان نہیں کرو گے تو وہ کشائش کو تنگی میں بدلنے پر بھی قادر ہے۔ اس لئے اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ لینا ہے تو اپنے پر اُس وسعت کا اظہار عورت سے احسان کا سلوک کرتے ہوئے کرو اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت اور وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اس لئے فرمایا کہ اگر غریب زیادہ دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی طاقت کے مطابق جو حق بھی ادا کر سکتا ہے کرے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نیکی کرنے والے اور تقویٰ سے کام لینے والے ہو تو پھر تم پر فرض ہے کہ یہ احسان کرو۔
آنحضرتﷺ نے اس کی کس حد تک پابندی فرمائی، اس کا اظہار ایک حدیث سے ہوتا ہے۔ ایک دفعہ ایک انصاری نے شادی کی اور پھر اس عورت کو چھونے سے پہلے طلاق دے دی اور اس کا مہر بھی مقرر نہیں کیا گیا تھا۔ یہ معاملہ جب آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپؐ نے اس سے پوچھا کہ تو کیا تم نے احسان کے طور پر اُسے کچھ دیا ہے؟ تو اس صحابی نے عرض کیا یا حضور! یا رسولؐ اللہ! میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں کہ مَیں اسے کچھ دے سکوں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر کچھ نہیں ہے تو تمہارے سر پر جو ٹوپی پڑی ہوئی ہے وہی دے دو۔ (روح المعانی جلدنمبر 1صفحہ 745,746 تفسیر سورۃ البقرۃ زیر آیت: 237)
تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس قدر عورت کے حقوق کا آنحضورﷺ نے اظہار فرمایا اور خیال رکھا۔ یہ جو صورتحال بیان ہوئی ہے کہ اگر حق مہر مقرر نہیں بھی ہوا تو کچھ نہ کچھ دو تو اسی صورتحال میں اگر حق مہر پہلے مقرر ہو چکا ہے اس صورت میں کیا کرنا ہے؟ اس کا بھی اگلی آیات میں بڑا واضح حکم ہے کہ ایسی صورت میں پھر جب حق مہر مقرر ہو چکا ہو تو اس کا نصف ادا کرو۔
اس طرح سے قرآن کریم نے عورتوں کے مردوں پر اور ان کے خاندانوں پر حقوق قائم فرمائے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ مردوں کے کیا فرائض ہیں۔ ان کے رشتوں کے بارہ میں یا بچوں کی رضاعت کے بارہ میں بڑے واضح احکامات بیان فرمائے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کی بھی ذمہ داریاں ہیں جو بڑے واضح طور پر بیان فرمائی گئی ہیں۔ جو اولاد اور خاوندوں کے بارہ میں ہیں ان کو ادا کرنا عورتوں پر فرض ہے۔ اور یہ تمام حقوق اور ذمہ داریاں جو مرد اور عورت کے ایک دوسرے پر ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ تمام ذمہ داریاں ہم نے تمہاری طاقتوں اور استعدادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے مطابق تم پر ڈالی ہیں اس لئے انہیں ادا کرو۔ ان کی ایک تفصیل ہے جو مَیں اس وقت بیان نہیں کروں گا۔ اس وقت دو باتیں جو مَیں نے بیان کی ہیں وہ کافی ہیں۔ اس تعلق میں بیان کرنا چاہتا تھاکہ ایک تو یہ کہ بیویوں کے حقوق کے بارے میں آنحضرتﷺ کا اسوہ حسنہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر ان حقوق کی ادائیگی کے اعلیٰ ترین معیار کس طرح آپؐ نے قائم فرمائے اور دوسری کہ اس اُسوہ پرچلنے کی کوشش کرتے ہوئے ہر احمدی مسلمان کو ان حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دینا کس قدر ضروری ہے۔ خاص طور پر وہ فرائض جو اللہ تعالیٰ نے مردوں کے ذمہ ڈالے ہیں۔ اب مَیں ایک اور امر کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں جوجماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عام تو نہیں ہے لیکن اس کی آواز بھی کہیں کہیں احمدی معاشرے میں سنی جانے لگی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورۃ الانعام میں فرماتا ہے کہ وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ۚ وَ اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَ الۡمِیۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ ۚ لَا نُکَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ۚ وَ اِذَا قُلۡتُمۡ فَاعۡدِلُوۡا وَ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی ۚ وَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ اَوۡفُوۡا ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ (الانعام: 153) اور سوائے ایسے طریق کے جو بہت اچھا ہو یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ۔ یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے اور ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو۔ ہم کسی جان پر اس کی وسعت سے بڑھ کہ ذمہ داری نہیں ڈالتے اور جب بھی تم کوئی بات کرو تو عدل سے کام لو۔ خواہ کوئی قریبی ہی کیوں نہ ہو اور اللہ کے ساتھ کئے گئے عہد کوپورا کرو۔ یہ وہ امر ہے جس کی وہ تمہیں سخت تاکید کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔
تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تقریباً پانچ باتیں ہیں جو کرنے کے لئے ہمیں کہا ہے۔ پہلی بات تو اس کے علاوہ یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے کہ ہم کسی پر کوئی ذمہ داری اس کی وسعت سے بڑھ کر نہیں ڈالتے اور جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وسیع تر علم کی وجہ سے جانتا ہے کہ بندے کی استعدادیں کیا ہیں اور کس حد تک یہ استعدادیں ہیں۔ پس جو احکامات بھی خداتعالیٰ نے دئیے ہیں وہ ہماری طاقت کے اندر ہیں جنہیں ہم بجا لا سکتے ہیں۔ اس آیت میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے سب سے پہلے تو یہ حکم ہے کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ سوائے احسن طریق کے۔ اور یتیموں کا مال جن کے پاس آتا ہے۔ وہ اس کے امین ہیں۔ اس لئے انہیں ان یتیموں کی بہتری کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک د وسری جگہ فرمایا ہے۔ اس سے پہلے فرمایا کہ کوشش تو یہ ہو تمہاری اس آیت سے پہلی ایک دو آیتوں میں کہ یتیموں کا مال محفوظ رہے اور ان کی تعلیم اور تربیت اپنے طور پر کرو لیکن اگر کوئی صاحب حیثیت نہیں اور خرچ برداشت نہیں کر سکتا تو وہ احتیاط سے ان کے مال میں سے ان پر خرچ کرے نہ کہ ان کے بڑے ہونے تک تمام مال ہی لٹا دے۔ (النساء: 7) پس صحیح ایماندار وہی ہے جو یتیموں کے بڑے ہونے تک ان کی دولت اور جائیداد کے امین ہونے کا صحیح حق ادا کرتا ہے اور صحیح حق اس وقت ادا ہوتا ہے کہ جس طرح اپنے سرمائے کا درد ہو کسی کو اور سوچ سمجھ کر اسے وہ کاروبار میں لگاتا ہے۔ تجارت پر لگاتا ہے، منافع پر لگاتا ہے۔ یا منافع بخش کاروبار پر لگاتا ہے۔ صرف منافع پر تو کوئی کاروبار نہیں ہوتا۔ کیونکہ صرف منافع پر ہی لگایا جائے تو وہ سود کی صورت بن جاتی ہے۔ تو بہرحال جس طرح اپنے مال کا درد ہے اس طرح یتیموں کے مال کا بھی درد ہونا چاہئے۔ حکم ہے کہ یتیموں کے مال کو بھی اسی طرح انویسٹ (Invest) کرو تاکہ اس کاروبار میں برکت پڑنے کی وجہ سے ان کو منافع حاصل ہو جب یا ان کی جائیداد بڑھے۔ اس کاروبار میں برکت کی وجہ سے اور جب وہ بڑے ہوں تو ان کو اپنے کاروبار کی وسعت نظرآتی ہو۔ تو اس سے وہ باوجود یتیم ہونے کے معاشرے کا ایک باوقار اور باعزت حصہ بن جائیں گے۔ لیکن بعض دفعہ بعض شکایات آتی ہیں جن میں رشتہ داروں، یتیموں کے مالوں کی حفاظت میں دیانتداری سے کام نہیں لیا گیا ہوتا۔ کسی رشتہ دار کے پاس اس کے یتیم بھتیجے بھانجے ہیں تو ان کے مال سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ تو ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایسا مال کھانے سے ان کے مال میں ان کی جائیدادوں میں کبھی وسعت پیدا نہیں ہو سکتی اور اگر وہ اس دنیا میں کوئی مالی منفعت حاصل کر بھی لیں تووہ اس طریقے سے پھر اللہ تعالیٰ کے اس انذار کے نیچے آنے والے ہوں گے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یتیموں کا مال کھانے والے جو ہیں ان کے بارہ میں فرمایا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا (النساء: 11) کہ وہ صرف اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور جو ان ظلم کرنے والوں کے مددگار بنتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے باہر نہیں نکل رہے ہوتے۔ جس کا آگے ذکر آیا ہے اسی آیت میں کہ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی (الانعام: 153) کہ عدل سے کام لو خواہ کوئی قریبی ہو۔
پس یہ بہت خوف کا مقام ہے کہ یتیموں کے مال کی حفاظت بھی کی جائے اور غلط طریقے سے اگر کوئی اس کو استعمال کر رہا ہے تو ان کے کبھی مددگار نہ بنا جائے۔ پھر یتیموں کے مالوں کی حفاظت اور ان کے بالغ ہونے پر ان کے سپرد ان کا مال کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو یعنی کاروبار میں دھوکہ نہ کرو۔ کیونکہ قوموں پر آنے والی تباہیوں میں یہ کاروباری دھوکے جو ہیں ایک وجہ بن جاتے ہیں۔ تو صحابہ کا طریق جو تھا کہ بعض دفعہ ایسے موقعے پیدا ہوتے تھے اگر بظاہر گاہک کو نقص نہ بھی نظر آ رہاہو مال میں تب بھی اپنے مال کے بارہ میں وہ خود بتاتے تھے کہ اس میں یہ یہ نقص ہے تاکہ کسی بھی قسم کا دھوکہ نہ ہو۔ تو آخر پر پھر اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا عدل کا مَیں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ آخر پہ یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے کئے گئے اپنے عہد کو پورا کرو۔ پہلی باتیں تو ہیں معاشرے کی بہتری کے لئے اور ان کے حقوق قائم کرنے کے لئے لیکن ان پر عمل بھی تبھی ہو سکتا ہے جب یہ سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس کا علم وسیع تر ہے وہ جانتا ہے کہ کون کس حد تک عہدنبھا رہا ہے۔ جب اپنے عہدوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات کو سامنے رکھتے ہوئے پورا کرو گے تبھی حقوق اللہ اور حقوق العباد کا صحیح حق ادا کرسکو گے اور جب یہ باتیں تمہیں سمجھ آ جائیں گی تو تبھی سمجھا جائے گا کہ تم نے نصیحت پکڑی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر سختی سے عمل کرنے پر کار بند ہونے کی کوشش کی ہے اور یہ دل میں خیال نہیں لائے کہ یہ کام میری استعدادوں اور صلاحیتوں سے بالا تر ہے بلکہ ہمیشہ یہ کوشش کرو کہ جو بھی احکامات اللہ تعالیٰ کے ہیں ہماری صلاحیتوں کے اندر ہیں اور ہم نے ان کو بجا لانا ہے۔ جب ہماری یہ سوچ ہو گی اور اس پر عمل کرنے کی کوشش ہو گی تو ہم اللہ تعالیٰ کے اس وعدے اور اس خوشخبری سے محض اور محض اس کے فضل سے حصہ پانے والے ہوں گے۔ جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَآ۔ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ (الاعراف: 43) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہم ان میں سے کسی جان پر وسعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتے اور یہی وہ لوگ ہیں جو جنت والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ اُس خدا کے آگے جھکنے والے اور اُس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں جس نے ہماری استعدادوں اور صلاحیتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے ہمیں اعمال بجا لانے کا حکم دیا ہے۔ جس نے ہم پرہماری محدود وسعت کے مطابق اعمال کا بوجھ ڈالا ہے لیکن ساتھ ہی اپنی بے کنار اور بے انتہا اور وسیع تر نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بخشش کی چادر میں لپیٹنے کی خوشخبری بھی دی ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ اس کی وسیع تر رحمت اور شفقت کی وجہ سے ایمان میں بڑھنے اور نیک اعمال بجا لانے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 23 مورخہ 5 جون تا 11 جون 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
صفت الواسع۔ جو کام اللہ نے سپرد کئے ہیں وہ انسانی استعدادوں سے زیادہ نہیں۔ اپنی استعدادوں کی حدود قائم کرنا کسی کا کام نہیں۔ عائلی معاملات کے متعلق قرآنی تعلیم اور احادیث کی روشنی میں نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ کا ذکر۔ ایک سے زیادہ شادی کے حکم پر غیروں کے اعتراض کا جواب کہ عورت پر ظلم کیا گیا۔ اگر انصاف قائم نہیں کرسکتے تو پھر ایک اور شادی کر کے پہلی بیوی بچوں کے حقوق چھیننے کی بات ہے۔ تقویٰ یہ کہتا ہے کہ ظاہری حقوق دونوں بیویوں کے ادا کرنے ضروری ہیں۔ رشتوں کے معاملات جذبات میں آ کر طے نہیں کرنے چاہئیں بلکہ خدا سے مدد لیتے ہوئے دعا کر کے سوچ سمجھ کر جوڑے جائیں۔ رخصتی سے قبل یا حق مہر کے تقرر سے قبل طلاق ہو جائے تو پھر بھی عورتوں کے حقوق ادا کرو، اس حوالے سے اسلامی تعلیم کا بیان۔
فرمودہ مورخہ 15؍مئی 2009ء بمطابق15؍ہجرت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔