صفت الواسع۔ تقویٰ کی سند دینا خدا کا کام ہے
خطبہ جمعہ 22؍ مئی 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الۡمَغۡفِرَۃِ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی (النجم:33)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’کبھی یہ دعویٰ نہ کرو کہ مَیں پاک صاف ہوں جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَلَا تُزَکُّوْآ اَنْفُسَکُمْ کہ تم اپنے آپ کو مُزَکّٰی مت کہو۔ وہ خود جانتا ہے کہ تم میں سے متقی کون ہے۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 96۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس پاک ہونا، مُزَکّٰی ہونا، تقویٰ سے مشروط ہے۔ اور تقویٰ کیا ہے؟ ہر قسم کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بچنا۔ ہر اس عمل کو بجا لانا جس کے کرنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ہر اس بات سے بچنا جس کے نہ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا۔ اس لئے خداتعالیٰ نے بار بار قرآن کریم میں فرمایا ہے، مَیں تمہارے نفسوں کو پاک کرتا ہوں اور جانتا ہوں کہ کس کے دل میں حقیقی تقویٰ بھرا ہوا ہے اور کس حد تک کسی کا تزکیہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اسے وہ بھی پتہ ہے جو ہم ظاہر کرتے ہیں اور اس کے علم میں وہ بھی ہے جو ہم چھپاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو کبھی بھی اور کسی رنگ میں بھی دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
حدیث میں آتا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ خداتعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے وہ بندے کے عمل کرنے کی نیت کا علم رکھتا ہے۔ بظاہر نیکیاں کرنے والے، عبادتیں کرنے والے، روزے رکھنے والے، حتیٰ کہ کئی کئی حج کرنے والے بھی ہیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی نیتوں میں فتور ہے تو اس فتور کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ تمام عبادتیں اور نیکیاں نہ صرف رد ّکر دی جاتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں جس کا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایاہے۔ لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ جہاں انذار کے ذریعہ سے ہمیں ڈراتا ہے، توجہ دلاتا ہے کہ ہوشیار ہو جاؤ وہاں اپنی وسیع تر رحمت کا حوالہ دے کر بخشش کی امید بھی دلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ڈرانا ہماری بھلائی اور ہمیں سیدھے راستے پر چلانے کے لئے ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو جیسا کہ مَیں نے کہا دلوں کا حال جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہماری استعدادوں اور صلاحیتوں کی وسعت کا بھی علم ہے۔ اس لئے اُس نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ اگر تم تقویٰ دل میں رکھو، نیتیں صاف رکھو اور اپنے عمل خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بجا لانے کی کوشش کرو تو جو جو کوتاہیاں اور لغزشیں ہوتی ہیں انہیں وہ اپنی وسیع تر مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لیتا ہے۔ جیسا کہ وہ اس آیت میں جو مَیں نے تلاوت کی ہے فرماتا ہے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ یہ اچھے عمل والے وہ لوگ ہیں جو سوائے سرسری لغزش کے بڑے گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں۔ یقینا تیرا رب وسیع بخشش والا ہے وہ تمہیں سب سے زیادہ جانتا تھا جب اس نے زمین سے تمہاری نشوونما کی اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں محض جنین تھے۔ پس اپنے آپ کو یونہی پاک نہ ٹھہرایا کرو، وہی ہے جو سب سے زیادہ جانتا ہے کہ متقی کون ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے گناہوں اور فواحش سے بچنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور ساتھ ہی معمولی لغزشوں، غلطیوں اور کو تاہیوں سے صرف نظر فرماتے ہوئے اپنی وسیع تر مغفرت کی وجہ سے بخشش کی بھی نوید دی ہے۔ لیکن ساتھ ہی آگے یہ بھی فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اندرونے سے واقف ہے۔ اور کہاں تک واقف ہے؟ ہمیں سمجھانے کے لئے اس انتہا کا بھی ذکر کیا کہ جب اس زمین میں زندگی کے آثار پیدا کئے۔ انسان کی پیدائش سے اربوں سال پہلے وہ ضروری لوازمات پیدا کئے جو انسان کی بقا کے لئے ضروری تھے۔ اُس وقت سے وہ تمہیں جانتا ہے۔ پھر کس فطرت میں انسان کو پیدا کرنا ہے، کیا کیا صلاحیتیں اور استعدادیں عطا کرنی ہیں، یہ ایک گہرا مضمون ہے جس کی طرف بعض دوسری آیات راہنمائی فرماتی ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وہ تمہارا اتنا گہرا علم رکھتا ہے جتنا تم خود بھی نہیں رکھتے اور اس پیدائش اور نشوونماکے عمل کا تم میں سے جو اکثریت ہے وہ علم بھی نہیں رکھتی۔ اس کا احاطہ کرنا تو دُور کی بات ہے علم بھی نہیں ہے۔
اب اس زمانہ میں سائنسی تحقیق سے اس نظام کی تخلیق کے بارے میں بعض باتیں پتہ لگ رہی ہیں اور وہ بھی ایک خاص طبقے اور اس علم کا ادراک رکھنے والے لوگوں کو ہی اس کی سمجھ آتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے اُس وقت سے علم ہے کہ تمہاری صلاحیتیں کیا ہیں اور تمہارے عمل کیا ہونے ہیں اور تمہاری نیتیں کیا ہیں پھر اس سے ذرا نیچے آؤ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سنو جب تم ماؤں کے پیٹوں میں جنین کی صورت میں تھے، ابھی تمہارے اعضاء کی نشوونما ہو رہی تھی، اس وقت کا بھی مَیں علم رکھتا ہوں۔ آج کل ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بلکہ بعض ترقی پذیر ملکوں میں بھی طب کے میدان میں اتنی ترقی ہو گئی ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں حمل کے دوران بننے والی مختلف شکلیں الٹراساؤنڈ کے ذریعہ سے پتہ لگ جاتی ہیں اس لئے لوگ اکثر جانتے ہیں اور پتہ بھی کر لیتے ہیں کہ لڑکا پیدا ہونا ہے یا لڑکی پیدا ہونی ہے۔ عموماً ایک اندازے سے ڈاکٹر بتاتے ہیں سو فیصد تو وہ بھی نہیں بتا سکتے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اس حالت سے گزرنے کے دَور سے ہی یہ علم رکھتا ہے کہ تم کن صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ پیدا ہوگے اور کن دَوروں سے پیدا ہونے کے بعد گزرتے ہوئے اپنی زندگی کی منزلیں طے کرو گے۔ لیکن عالم الغیب ہونے کے باوجود اس نے بندوں کے سامنے نیک اور بداعمال کا ماحول میسر فرما دیا۔ جو نیک اعمال کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنے گا۔ جو بداعمال کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آ سکتا ہے۔ اور نیک اعمال کیا ہیں؟ یہ وہ اعمال ہیں جو خالص ہو کر خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بجا لانے کی کوشش کی جاتی ہے اس لئے فرمایا کہ جب تم نیک کام کرتے ہو تو اس وقت بھی بعض دفعہ دل میں خود پسندی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لئے کام کرنے کے باوجود بھی یہ فیصلہ کرنا تمہارا کام نہیں ہے کہ ہم نیک اعمال بجا لانے والے ہیں۔ بلکہ نیک اعمال بجا لانا کس نیت سے ہے۔ اگر نیک نیت سے ہے تو وہ نیک نیت اصل میں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کس نیت سے نیک اعمال بجا لائے جا رہے ہیں۔ اس لئے اللہ فرماتا ہے کہ کسی نیکی پر اِترانے کی بجائے ہر نیک عمل عاجزی اور تقویٰ میں اور بھی زیادہ بڑھانے والا ہونا چاہئے۔ اور فرمایا کہ تقویٰ پر قائم ہو جانے کی سندنہ تو انسان خود اپنے آپ کو دے سکتا ہے نہ کسی بندے کا کام ہے کہ کسی دوسرے کو تقویٰ کی سند عطا کرے بلکہ یہ خداتعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ ہی ہے جو سب سے زیادہ جانتا ہے کہ متقی کون ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کے شروع میں ہی جو یہ فرمایا کہ اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ کہ وہ لوگ جو بڑے گناہوں اور فواحش سے سوائے سرسری لغزش کے بچتے ہیں۔ لَمَم کا مطلب کیا ہے؟ اس کو بھی یہاں واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بعض لوگ مَیں نے دیکھے ہیں کہ اپنی غرض کا مطلب نکال لیتے ہیں۔ اس کا کوئی یہ مطلب نہ سمجھے کہ بڑے گناہ اور فواحش اگر تھوڑے بہت ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کیونکہ کمزور ہے بعض حالات میں لاشعوری طور پر بعض گناہ سرزد ہو جاتے ہیں۔ اگر ایسی صورت پیدا ہوجائے تو پھر حقیقی پچھتا وا ہونا چاہئے اور اس کے لئے بہت زیادہ استغفار کی ضرورت ہے۔
لَمَم کا مطلب ہے کہ برائی کی طرف جھکنے کا موقع ملا یا عارضی اور معمولی لغزش یعنی اگر غلطی ہو گئی ہے تو یہ معمولی نوعیت کی ہو اور اس پردوام نہ ہو بلکہ یہ عارضی ہو۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ شیطانی خیال اگر دماغ میں اچانک اُبھر بھی آئیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے انسان اس سے بچ جائے اور اُس کے ذہن پراِس شیطانی خیال کا کوئی اثر قائم نہ رہے۔ تو یہ حکم انسانی فطرت کے مطابق ہے کیونکہ اچھائی یا برائی کو قبول کرنے کی انسان کو آزادی دی گئی ہے اور معاشرے میں یہ برائیاں اپنی طرف مبذول کروانے کی کوشش بھی کر رہی ہیں۔ ہر طرف آزادی نظر آتی ہے۔ بے حیائی نظر آتی ہے۔ بداخلاقیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس وجہ سے اگر کبھی کسی برائی کی طرف توجہ ہو بھی جائے تو فوری طور پراستغفار سے انسان اپنے آپ کو ان گناہوں سے بچانے کی کوشش کرے۔ تو اللہ تعالیٰ کی جو وسیع بخشش ہے، اللہ تعالیٰ جو وسیع بخشش والا ہے، بخشنے والا ہے اور توبہ قبول کرنے والا ہے، وہ توبہ قبول کرتا ہے۔ پس یہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو حقیقی تقویٰ کی طرف لے جاتی ہے۔ ورنہ انسان تو ذرا سی نیکی پر ہی فخر کرکے اپنے آپ کو پاک صاف سمجھنے لگتا ہے۔
اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تم کبھی یہ دعویٰ نہ کرو کہ مَیں پاک صاف ہوں۔ پاک ہونا اور تقویٰ پر چلنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ پس اس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے۔ اس مضمون کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو یہ فرمایا ہے کہ فَلَا تُزَکُّوْآ اَنْفُسَکُمْ تو اس آیت کا صحیح مطلب جاننے کے لئے تمہیں تزکیۂ نفس اور اظہار نعمت کے درمیان واضح فرق معلوم ہونا چاہئے۔ اگرچہ یہ دونوں صورت کے لحاظ سے مشابہ ہیں۔ پس جب تم کمال کو اپنے نفس کی طرف منسوب کرو اور تم سمجھو کہ گویا تم بھی کوئی حیثیت رکھتے ہو اور تم اپنے اس خالق کو بھول جاؤ جس نے تم پر احسان کیا تو تمہارا یہ فعل تزکیہ ٔ نفس قرار پائے گا۔ لیکن اگر تم اپنے کمال کو اپنے ربّ کی طرف منسوب کرو اور تم یہ سمجھو کہ ہر نعمت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے اور اپنے کمال کو دیکھتے وقت تم اپنے نفس کو نہ دیکھو بلکہ تم ہر طرف اللہ تعالیٰ کی قوت، اس کی طاقت، اس کا احسان اور اس کا فضل دیکھو اور اپنے آپ کو غسّال کے ہاتھ میں محض ایک مُردہ کی طرح پاؤ اور اپنے نفس کی طرف کوئی کمال منسوب نہ کرو تو یہ اظہار نعمت ہے‘‘۔ (ترجمہ عربی عبارت ازحمامۃ البشریٰ۔ روحانی خزائن جلد 7صفحہ322-321)
یہ اقتباس حضرت مسیح موعودؑ کی عربی کی ایک کتاب ہے حمامۃ البشریٰ اس میں سے لیا گیاہے، اس کاترجمہ ہے۔ تو یہ ایک باریک فرق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ظاہر فرمایا۔ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ(فاطر: 19) یعنی جو بھی پاک ہوتا ہے وہ اپنے نفس کے لئے پاک ہوتا ہے۔
پھر ایک جگہ فرمایا سورۃ اعلیٰ میں جو ہم ہر جمعے کو نماز میں پڑھتے ہیں کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (الاعلیٰ: 15) یعنی جو پاک بنے گا وہ کامیاب ہو گیا۔
پھر ایک جگہ فرمایا قَدْ اَ فْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس: 10) کہ یقینا وہ کامیاب ہو گیا جس نے اسے پاک کیا یعنی اپنے نفس کو پاک کیا۔
اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہاری کامیابی تمہارے تزکیہ نفس میں ہے۔ ان آیات میں اور سورہ نجم کی جوآیت مَیں نے تلاوت کی ہے اور جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے۔ ان آیات میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ایک باریک فرق ہے جس کو ہمیشہ یاد رکھوکہ تزکیہ نفس کا حکم تو ہے اس کے لئے کوشش کرو لیکن یہ کوشش کرکے تم دعویٰ نہیں کر سکتے کہ مَیں پاک ہو گیا یا میرے عمل ایسے ہیں کہ جن کے کرنے کے بعد اب مَیں پاک ٹھہرایا جا سکتا ہوں۔ سورۃ فاطر کی آیت جس کے ایک حصے کا مَیں نے ذکر کیا ہے کہ وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہ کہ جو بھی پاکیزگی اختیار کرے تو وہ اپنے نفس کی خاطر پاکیزگی اختیار کرتا ہے۔ یہ پوری مکمل آیت یوں ہے کہ وَلَاتَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَاُخْرٰی۔ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِھَا لَایُحْمَلْ مِنْہُ شَیْئٌ وَّلَوْکَانَ ذَاقُرْبٰی۔ اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ وَ اَقَامُواالصَّلٰوۃَ۔ وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ۔ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ (فاطر: 19) اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی اپنے بوجھ کی طرف بلائے گی تواس کے بوجھ میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا۔ خواہ وہ قریبی ہی کیوں نہ ہو۔
یہ آخرت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ آگے جو مضمون اس آیت سے متعلقہ ہے وہ یہ ہے کہ تو صرف ان لوگوں کو ڈرا سکتا ہے جو اپنے ربّ سے اس کے غیب میں ہونے کے باوجود ترساں رہتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو بھی پاکیزگی اختیار کرے وہ اپنے نفس کی خاطر پاکیزگی اختیار کرتا ہے اور اللہ کی طرف ہی آخری ٹھکانہ ہے۔
یہاں یہ واضح ہو گیا کہ نفس کی پاکیزگی صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ(الانبیاء: 50) یعنی جو اپنے ربّ سے غیب میں ہونے کے باوجود ڈرتے ہیں۔ پس جب یہ حالت ہوتی ہے تو ان کی نمازیں بھی اور دوسری عبادتیں بھی اور دوسرے نیک اعمال بھی دل میں خداتعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اس کی رضا کے حصول کے لئے ہوتے ہیں اور جب یہ حالت ہو، جب اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں ہو تو وہ انسان خود اپنے نفس کو پھر کبھی پاک نہیں ٹھہرا سکتا بلکہ ہر نیکی کو جو وہ بجا لاتا ہے اور ہر اس موقع کو جو نیکی بجا لانے کا اس کو میسر آتا ہے خداتعالیٰ کے فضل پر محمول کرتا ہے۔ پس جو اس حالت میں اپنے نفس کا جائزہ لیتے ہوئے اُسے پاک کرنے کی کوشش کرے اور پاک کرنے کی کوشش کرتے ہوئے تقویٰ پرچلتا ہے وہی اللہ تعالیٰ کی نظر میں مُزَکّٰی ہے اور فلاح پایا ہوا ہے۔ اگر نیکیوں کو اپنی کسی خوبی کی طرف منسوب کرے گا تو وہ تزکیہ نفس نہیں ہے۔ پس ایک مومن ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف لئے ہوئے ان نیکیوں کی تلاش میں رہتا ہے تاکہ انہیں کرکے، انہیں بجا لا کر، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ان گناہوں سے بچنے کی کوشش کرو گے تو خداتعالیٰ خود تمہاری بدیاں دور کر دے گا اور تمہیں عزت والے مقام میں داخل کرے گا۔ جیسا کہ فرماتا ہے اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا(النساء 32: ) اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو ہم تمہارے سے تمہاری بدیاں دُور کر دیں گے اور نہ صرف بدیاں دُور کر دیں گے بلکہ تمہیں عزت کے مقام میں داخل کریں گے۔
مَیں پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم میں بڑے گناہ کے الفاظ تو آئے ہیں۔ لیکن بڑے اور چھوٹے گناہوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ ہر وہ گناہ جس کو چھوڑنا انسان پر بھاری ہو اس کے لئے بڑا گناہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ کی تو واضح طور پر نشاندہی کر دی کہ یہ گناہ ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی ہر گناہ جس کو انسان معمولی سمجھتا ہو اگر اس کو چھوڑنا انسان پر بھاری ہے تو وہ بڑے گناہ کے زمرے میں شمار ہو گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ غیب میں اللہ کا خوف رکھتے ہوئے اپنے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کرو۔ پس جب اللہ تعالیٰ کا خوف ہو گا تو پھر ہی گناہوں سے نفرت بھی پیدا ہو گی اور تب ہی خداتعالیٰ کی نظر میں انسان پاک ٹھہرتا ہے پھرجب ایسی حالت پیدا ہوتی ہے (اور یہ بھی خداتعالیٰ کے علم میں ہے) اور جب اللہ تعالیٰ کی نظر میں انسان پاک ٹھہرتا ہے تو اصل عزت کا مقام جو ہے، وہی ہے جس میں خداتعالیٰ انسان کو پاک ٹھہرا کر داخل کرتا ہے نہ کہ وہ عزت اصل عزت ہے جہاں انسان خود اپنی خود پسندی اور بڑائی کے اظہار کرکے اپنی نیکیاں جتاتے ہوئے اپنے آپ کو پاک ٹھہرائے۔
ایک جگہ خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ مومن کی یہ نشانی ہے کہ وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِذَا مَاغَضِبُوْا ھُمْ یَغْفِرُوْنَ(الشوریٰ: 38) اور جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں اور جب وہ غضبناک ہوں تو بخشش سے کام لیتے ہیں۔ اب یہاں پھر تمام گناہوں اور اخلاقی کمزوریوں کا ذکر کیا ہے اور ان سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ لیکن اِن گناہوں اور بے حیائیوں اور اخلاقی برائیوں کو غصّے کے ساتھ ملا کر بیان کیا گیاہے۔ پس غصّے کو جو لوگ معمولی خیال کرتے ہیں ان کے لئے بھی نصیحت ہے کہ یہ بڑھتے بڑھتے بڑے گناہوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ غصّہ کوئی معمولی گناہ نہیں ہے۔ اس کو اگر کنٹرول نہیں کیا جاتا اور اس کا اگر ناجائز استعمال ہو رہا ہے تو یہ بڑے گناہوں کے زُمرے میں ہے۔ بعض دفعہ غصّہ آتا ہے لیکن انسان پھر مغلوب الغضب ہو کے کام نہیں کرتا بلکہ اس کا استعمال جائز طریقے سے ہوتا ہے تاکہ ایک دوسرے کی اصلاح ہو سکے۔ اگر انسان مغلوب الغضب ہو جائے تو پھر نفس کی پاکیزگی بھی دُور ہو جاتی ہے۔ اس لئے یہ نہ سمجھو کہ مَیں کیونکہ دوسری نیکیاں بجا لا رہا ہوں اس لئے جوغصّہ کا گناہ ہے اس کو میری دوسری نیکیاں ختم کر دیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرما دیا کہ یہ زُعم اپنے دل سے نکال دو۔ اگر حقیقی تزکیہ چاہتے ہو تو اپنی اخلاقی حالتیں بھی درست کرو۔
آئے دن یہ شکایات بھی آتی رہتی ہیں کہ غصّہ کی حالت میں گھروں میں لڑائیاں ہو رہی ہیں، میاں بیوی کی لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ کبھی بیوی کو کنٹرول نہیں، کبھی میاں کو کنٹرول نہیں۔ معاشرے میں لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ کھیل کے میدانوں میں لڑائیاں ہو جاتی ہیں یا اگر لڑائیاں نہیں بھی ہوتیں تو ایک دوسرے کے خلاف بعض باتوں پہ غصہ دل میں پل رہا ہوتا ہے اور پھر اس سے کینے پیدا ہو رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے۔ تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ بھی ایک بہت بڑا گناہ ہے اور تمہارے نفس کو پاک کرنے کے راستے میں روک ہے اور جب یہ روک راستے میں کھڑی ہو جائے تو پھرکامیابی کی منزلیں بھی طے نہیں ہوتیں اور پھر ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت کا مقام بھی نہیں پاتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو واضح فرما دیا ہے کہ مَیں گناہوں اور فحشاء سے بچنے والوں کو عزت دوں گا۔ پس یہ وہ مقصد ہے جس کے لئے ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی وسیع تر بخشش سے حصہ لیتے ہوئے اس کی رضا کی جنتوں میں ہم داخل ہو سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رکھو کہ اصل صفائی وہی ہے جو فرمایا ہے قَدْ اَ فْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس: 10) ہر شخص اپنا فرض سمجھ لے کہ وہ اپنی حالت میں تبدیلی کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 182 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اور حالت میں تبدیلی کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کی ضرورت ہے اور اس کا فضل حاصل کرنے کے لئے مستقل اس کے آگے جھکے رہنے کی ضرورت ہے۔ اس سے مدد مانگنے کی ضرورت ہے۔ اس کا رحم مانگنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ میرا رحم ہر چیز پر حاوی ہے اور وسیع تر ہے اور پھر فرمایا میری بخشش بھی بہت وسیع ہے۔ پس نیک اعمال بجا لانے کی کوشش کے ساتھ جب ہم اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کرنے کی کوشش کریں گے، اس سے اس کی وسیع تر بخشش کے طالب ہوں گے، توتبھی ہم کامیاب ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تزکیہ نفس کے حصول کے طریقہ اور جن سے حقیقی تقویٰ حاصل ہوتا ہے ان راستوں کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ لمبا اقتباس ہے لیکن ہر ایک کے لئے سننا بہت ضروری ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’اب ایک اور مشکل ہے کہ انسان موٹی موٹی بدیوں کو تو آسانی سے چھوڑ بھی دیتا ہے لیکن بعض بد یا ں ایسی باریک اور مخفی ہوتی ہیں کہ اوّل تو انسان مشکل سے انہیں معلوم کرتا ہے اور پھر ان کا چھوڑنا اسے بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ محرقہ بھی گو سخت تپ ہے (یعنی ٹائیفائیڈ) مگر اس کا علاج کھلا کھلا ہو سکتا ہے۔ لیکن تپ دق (ٹی بی) جو اندر ہی کھا رہا ہے اس کا علاج بہت مشکل ہے۔ اسی طرح پر یہ باریک اور مخفی بدیاں ہوتی ہیں جو انسان کو فضائل کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔ یہ اخلاقی بدیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ اور معاملات میں پیش آتی ہیں اور ذرا ذرا سی بات اور اختلاف رائے پر دلوں میں بغض، کینہ، حسد، ریا، تکبر پیدا ہوجاتا ہے اور اپنے بھائی کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ چند روز اگر نماز سنوار کر پڑھی ہے اور لوگوں نے تعریف کی تو ریا اور نمود پیداہو گیا اور وہ اصل غرض جو اخلاص تھی جاتی رہی اور اگر خداتعالیٰ نے دولت دی ہے یا علم دیا ہے یا کوئی خاندانی وجاہت حاصل ہے تو اس کی وجہ سے اپنے دوسرے بھائی کو جس کو یہ باتیں نہیں ملی ہیں حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے۔ اور اپنے بھائی کی عیب چینی کے لئے حریص ہوتا ہے اور تکبر مختلف رنگوں میں ہوتا ہے، کسی میں کسی رنگ میں اور کسی میں کسی طرح سے۔ علماء علم کے رنگ میں اسے ظاہر کرتے ہیں اور علمی طور پر نکتہ چینی کرکے اپنے بھائی کو گرانا چاہتے ہیں۔ غرض کسی نہ کسی طرح عیب چینی کرکے اپنے بھائی کو ذلیل کرنا اور نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ رات دن اس کے عیبوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس قسم کی باریک بدیاں ہوتی ہیں جن کا دُور کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور شریعت ان باتوں کو جائز نہیں رکھتی ہے۔ ان بدیوں میں عوام ہی مبتلا نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ جو متعارف اور موٹی موٹی بدیاں نہیں کرتے ہیں اور خواص سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اکثر مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان سے خلاصی پانا اور مرنا ایک ہی بات ہے (یعنی ان برائیوں سے) اور جب تک ان بدیوں سے نجات حاصل نہ کرے تزکیہ نفس کامل طور پر نہیں ہوتا اور انسان ان کمالات اور انعامات کا وارث نہیں بنتا جو تزکیہ نفس کے بعد خداتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ بعض لو گ اپنی جگہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان اخلاقی بدیوں سے ہم نے خلاصی پا لی ہے۔ لیکن جب کبھی موقعہ آ پڑتا ہے اور کسی سفیہ سے مقابلہ ہو جاوے تو انہیں بڑا جوش آتا ہے اور پھر وہ گند اُن سے ظاہر ہوتا ہے جس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ اُس وقت پتہ لگتا ہے کہ ابھی کچھ بھی حاصل نہیں کیا اور وہ تزکیہ نفس جو کامل کرتا ہے میسر نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تزکیہ جس کو اخلاقی تزکیہ کہتے ہیں بہت ہی مشکل ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس فضل کے جذب کرنے کے لئے بھی وہی تین پہلو ہیں۔ اوّل مجاہدہ اور تدبیر۔ دوم دعا، سوم صحبت صادقین‘‘۔ (ملفوظات جلد چہا رم صفحہ 211-210 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو اس زمانہ کے امام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہماری اصلاح کے لئے، صحیح راستے پر چلانے کے لئے بھیجا۔ اس زمانہ میں آپ کی کتب ہیں جو اصلاح کے لئے ایک بہت وسیع لٹریچر ہے اور یہ پاک ہونے کا ذریعہ ہے۔ اس کو پڑھنا چاہئے کیونکہ یہ قرآن کریم کی تشریح ہے، وضاحتیں ہیں۔ اب چند دن ہوئے مجھے جرمنی سے ایک خاتون نے لکھا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں وہ ان کی تلاش میں تھیں اور انہوں نے بڑی محنت سے جمع کئے ہیں۔ لیکن جو بات انہوں نے لکھی ہے وہ یہ ہے کہ ان احکامات کو تلاش کرنے کے بعد جب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ مَیں قرآن کریم کی تفسیر پڑھ رہی ہوں اور جب کتب پڑھنے کے بعد قرآن کریم پڑھتی ہوں تو تب مجھے پتہ لگتا ہے کہ اصل احکامات کی اہمیت کیا ہے اور ان کی گہرائی کیاہے۔ کیونکہ اس کے بغیریہ سمجھ نہیں آتے۔ تو صحبت صادقین کے تعلق میں اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب جو ہمیں مہیا ہیں یہ بہت بڑی نعمت ہے، اس کو بھی جماعت کو بہت پڑھنا چاہئے۔
پھر آپؑ نے فرمایا کہ:
’’درحقیقت یہ گند جو نفس کے جذبات کا ہے اور بداخلاقی، کبر، ریا وغیرہ صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اس پر موت نہیں آتی جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور یہ موادِ ردّیہ جل نہیں سکتے جب تک معرفت کی آگ ان کو نہ جلائے۔ جس میں یہ معرفت کی آگ پیدا ہو جاتی ہے وہ ان اخلاقی کمزوریوں سے پا ک ہونے لگتا ہے اور بڑا ہوکر بھی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے اور اپنی ہستی کو کچھ حقیقت نہیں پاتا۔ وہ اس نور اور روشنی کو جو انوار معرفت سے اسے ملتی ہے اپنی کسی قابلیت اور خوبی کا نتیجہ نہیں مانتا اور نہ اسے اپنے نفس کی طرف منسوب کرتاہے بلکہ وہ اسے خداتعالیٰ ہی کا فضل اور رحم یقین کرتا ہے‘‘۔ ……(آگے تفصیل میں فرمایا کہ سب سے زیادہ انبیاء میں یہ بات ہوتی ہے اور اس کے بعد ہر ایک کی اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق)۔ …… فرمایا کہ’’… ایسے لوگ ہیں …جو دو دن نماز پڑھ کر تکبر کرنے لگتے ہیں اور ایسا ہی روز ہ اور حج سے بجائے تزکیہ کے ان میں تکبر اور نمود پیدا ہوتی ہے‘‘۔ فرمایا’’یاد رکھو تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے جب تک انسان اس سے دُور نہ ہو۔ یہ قبول حق اور فیضان الوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہئے۔ نہ علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے نہ وجاہت کے لحاظ سے نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے کیونکہ زیادہ تر انہی باتوں سے یہ تکبر پیدا ہوتا ہے اور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا اُس وقت تک وہ خداتعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہو سکتا اور وہ معرفت جو جذبات کے مواد ردّیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسندنہیں کرتا۔ شیطان نے بھی تکبر کیا تھا اور آدم سے اپنے آپ کو بہتر سمجھا اور کہہ دیا اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ۔ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍوَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ (الاعراف: 13) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خداتعالیٰ کے حضور سے مردُود ہو گیا اور آدم لغزش پر (چونکہ اسے معرفت دی گئی تھی) اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے لگا اور خداتعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا۔ وہ جانتے تھے کہ خداتعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے دعا کی رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف: 24)‘‘۔ (ملفوظات جلد چہا رم صفحہ 212-211 جدید ایڈیشن)
پس حقیقی تزکیہ نفس کے حصول کا یہ نکتہ ہے اور اس سے حقیقی مومن اور شیطان کے پیچھے چلنے والوں میں فرق ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان نے تکبر کرتے ہوئے اَنَاخَیْرٌ کا نعرہ لگایا، اپنی بڑائی کی بات کی لیکن آدم نے اس معرفت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمائی تھی اس نکتہ کو سمجھا اور نہایت عاجزی سے یہ دعا کی کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف: 24) اے ہمارے ربّ ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور رحم نہ فرمائے گا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
پس یہ دعا ہے جو آج بھی اللہ تعالیٰ کی وسیع مغفرت کو جذب کرنے والی ہے۔ برائیوں سے بچانے والی اور غلطیوں اور کوتاہیوں سے پردہ پوشی کرنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرتے رہیں۔ ہر نیک عمل کو خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرنے والے ہوں۔ تمام قسم کی برائیوں سے اپنے آپ کو پاک کرنے والے ہوں اور اس کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہنے والے ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی وسیع تر بخشش کے طالب رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 24، مورخہ 12 جون تا 18 جون 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
کبھی یہ دعویٰ نہ کرو کہ میں پاکباز ہوں۔ حدیث اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ کی تشریح۔ اللہ جہاں انذار کے ذریعہ ڈراتا ہے وہاں وسیع تر رحمت کا حوالہ دے کر اپنی بخشش کا بھی بتاتا ہے۔ خدا کی وسیع مغفرت کا ذکر۔ نیک کام کرنے کے باوجود یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کہ ہم نیک اعمال بجا لانے والے ہیں۔ اِترانے کی بجائے ہر نیک عمل تقویٰ میں بڑھانے والا ہو۔ تقویٰ کی سند دینا خدا کا کام ہے۔ ہر وہ گناہ جس کا چھوڑنا انسان پر بھاری ہو وہ بڑ اگناہ ہے۔ غصہ کا بے حیائیوں اور بڑے گناہوں کے ساتھ ذکر کرنے کا سبب۔ غصہ معمولی گناہ نہیں۔ مغلوب الغضب ہونے سے نفس کی پاکیزگی دور ہو جاتی ہے۔ تزکیہ چاہتے ہو تو اخلاقیات کی اصلاح کرو، اللہ کے فضل جذب کرنے کے تین طریقے۔ حضرت اقدسؑ کی کتب اصلاح کا ذریعہ۔ جرمن خاتون کا ذکر جو قرآنی احکامات کی تلاش میں تھی۔ مطالعہ کتب کی تلقین۔
فرمودہ مورخہ 22؍مئی 2009ء بمطابق22؍ہجرت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔