صفت الواسع۔ اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا

خطبہ جمعہ 29؍ مئی 2009ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ (البقرہ: 287)

جو آیت مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے کہ اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ اُس کے لئے ہے جو اُس نے کمایا اور اس کا وبال بھی اُسی پر ہے جو اُس نے بدی کا اکتساب کیا۔ اے ہمارے ربّ! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگرہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے اور اے ہمارے رب ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر ان کے گناہوں کے نتیجہ میں ان پر ڈالا اور اے ہمارے ربّ ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر۔ تُو ہی ہمارا والی ہے۔ پس ہمیں کافر قوم کے مقابلے پر نصرت عطا فرما۔

اس آیت کے شروع میں ہی خداتعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا کہ اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی صلاحیتوں اور اس کی استعدادوں سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ پس وسعت کا لفظ جب انسان کے لئے بولاجاتا ہے تو اس کی محدود صلاحیتوں اور استعدادوں کو سامنے رکھتے ہوئے بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا سے ظاہر ہے۔ لیکن خداتعالیٰ کے لئے جیسا کہ مَیں گزشتہ خطبوں میں بتا چکا ہوں وَاسِع کا لفظ استعمال ہوتا ہے یہ خدا کی صفت اور نام ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ صلاحیتوں کی اور استعدادوں کی کوئی قیدنہیں ہو سکتی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ جہاں جامع الصفات ہے اور تمام طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے وہاں اس کی طاقتوں اور قدرتوں اور علم کی اتنی وسعت ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ اس لئے اُن کے احاطہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

تو بہرحال اس آیت کے حوالے سے مَیں چند باتیں کہوں گا۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی تحریرات کی روشنی میں ہیں کہ انسان کو مختلف حالات میں اس کی وسعت کے لحاظ سے، اس کی طاقتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے مکلف بنا یا گیا ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جس کو انسان بجا لانہ سکے یا اُس کی طاقت اور قدرت سے بالا ہو۔ پس یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرے اور جب یہ کوشش ہو گی تبھی ایک مومن اللہ تعالیٰ کے اُن انعامات کو پانے والا ٹھہر سکتا ہے جس کا خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔

پس یہ اسلام کی خوبی ہے کہ وہ احکامات جو انسان کی طاقت کے اور استعدادوں کے مطابق ہیں دے کر ہر ایک کو اپنے اعمال کے مطابق جزا سزا کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ اور خلاف عقل یہ نظریہ پیش نہیں کرتا کہ ایک معصوم نبی کو لعنتی موت مار کر قیامت تک آنے والوں کے لئے جو لوگ غلطیاں کرتے رہیں، گناہ کرتے رہیں، خداتعالیٰ کی عبادت سے غافل رہیں، تب بھی کوئی فکر کی بات نہیں ہے کیونکہ ایک معصوم نبی اور اللہ تعالیٰ کا فرستادہ اُن کے اِن گناہوں کے لئے لعنتی موت قبول کر چکا ہے۔ لیکن قرآن کریم میں خداتعالیٰ کا کیا فطرت کے مطابق اور حکیمانہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام ہر ایک کی کمزوریوں اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق ہیں اور پھر یہ کہ انسان کا نیک اعمال بجا لانا اور ان کو بجا لانے کے لئے کوشش کرنا اسے تمام گناہوں سے کلیۃً پاک نہیں کر دیتا کیونکہ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ انسان کی رگوں میں شیطان خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ (بخاری کتاب الاعتکاف باب زیارۃ المرأۃ زوجھا فی اعتکافہ حدیث: 2038)

اس لئے کئی ایسے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں کہ انسان بعض غلطیاں اور گناہ غیر ارادی طورپر کر لے تو اُس کا کام ہے کہ استغفار کرتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش کرے اور نیکیوں کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے۔ اُن اعمال کو بجا لانے کی کوشش کرے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے ایک جدوجہد کرے تو خداتعالیٰ جو وسیع تر رحمت والا ہے اور وسیع تر بخشش والا ہے اپنے بندے کی طرف بخشش اور رحم کی نظر سے متوجہ ہوتا ہے۔ پس یہ خوبصورت تعلیم ہے جو قرآن کریم نے ہمیں دی ہے۔ جس کے لئے کسی کفّارہ کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے اس کا کیا مطلب ہے لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا کا اور یہ کس طرح اور کن کن باتوں پر حاوی ہوتا ہے۔ وہ کون کون سی حالتیں ہیں جہاں انسان اپنے اعمال کا مکلف نہیں اور کہاں وہ قابل مؤاخذہ ہو گا۔

ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت علمی سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ گو یہاں یہ تو پتہ چلتا ہے کہ خداتعالیٰ کسی کی وسعت علمی سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالتا۔ لیکن ساتھ ہی خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (طہ: 115) اب یہ دعا جو آنحضرتﷺ کو سکھائی گئی جن کوایسا علم دیا گیاتھا جوقیامت تک کے علوم پر حاوی ہے اور جو قرآن کریم ناز ل ہو رہا تھا خداتعالیٰ کے علم میں تھا کہ کیا کیا علم و عرفان کے خزانے آپؐ پر نازل ہونے ہیں۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا قرآ ن کریم کے ناز ل ہونے کے بارہ میں جلد ی سے کام نہ کرو، کا م نہ لو بلکہ یہ دعا کئے جا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ علم میں ترقی دیتا رہے تا کہ علم و عرفان کا جو سمندراللہ تعالیٰ نے آپ کے سینے میں پیدا فرمایا تھا، جو موجزن تھا اس میں وسعت پید اہوتی چلی جائے۔ اور جب قرآن کریم ناز ل ہوگیا تب بھی آپﷺ کی یہ دعا تھی کہ آپ کے ماننے والوں کو اس دعا کی کس قدر ضرورت ہے اور اپنے علم کو وسعت دینے کی کس قدر ضرورت ہے۔ ا س کے لئے آپؐ نے اپنی اُمّت کو نصیحت بھی کی ہے کہ’’علم حاصل کروخواہ اس کے لئے تمہیں چین تک جانا پڑے۔‘‘ (کنز العمال کتاب العلم من قسم الاقوال باب اول فی الترغیب فیہ جلد 5 جزء خامس صفحہ60 حدیث نمبر 28693 ایڈیشن 2004ء بیروت)

یعنی علم کے حصول کے لئے محنت کرو۔ اور اپنے علم میں اضافہ کی طرف تازندگی توجہ دیتے رہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ فرماتاہے اور یہ فرمایاہے کہ کسی نفس کوتکلیف میں نہیں ڈالتا وہ۔ یعنی کسی شخص کو اُس وقت اس کا مکلّف نہیں کرتا اس کی جواب دہی نہیں کرتا جب تک کسی معاملہ میں اس کی وسعت اور صلاحیت اور استعدادنہ پیدا ہوجائے اس کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ حقیقی مومن کو علم کے حصول کی بھی کوشش کرنی چاہئے اور یہ صلاحیتیں پیدا کرنی چاہئیں اور حتی الوسع اپنے علم کو بڑھانے کے لئے دعا بھی کرنی چاہئے۔ پس ایک تو وہ علم ہے جو کہ انبیاء کو خداتعالیٰ دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ کو عطا فرمایالیکن ساتھ ہی یہ دعا بھی سکھائی کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ اور دوسرے وہ علم ہے جو روحانی اور دنیاوی دونوں طرح پر ہے۔ جس کے لئے محنت کرنی چاہئے اور ساتھ ہی دعا بھی کرنی چاہئے ایک مومن کو بھی۔ اگر علم کے حصول کے لئے محنت کی ضرورت نہیں تھی تو پھر آنحضرتﷺ کا یہ فرمانا بے معنی ہے کہ علم حاصل کرو خواہ صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ اور اس کے لئے سفر کرنے پڑیں۔ لیکن علم کے حصول کے لئے بھی صلاحیتیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے دعا بھی سکھائی کہ صرف اپنے پر بھروسہ نہ کرو بلکہ علم کے حصول کے لئے دعاؤں سے بھی خداتعالیٰ کی مدد حاصل کرو اور پھر جب یہ کوشش ہو گی، ہر ایک اپنی اپنی استعدادوں اور وسائل کے لحاظ سے علم حاصل کرے گا تمہاری صلاحیتوں کو خداتعالیٰ نے ہر ایک کی مختلف رکھی ہیں۔ بچپن کی تربیت، اٹھان اور معاشرے کا بھی انسان پر اثر ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے بھی درجے مقرر فرمائے ہیں کہ ہر ایک اپنی اپنی استعداد کے لحاظ سے علم حاصل کرے اور اس کے لئے کوشش کرے تو تب ہی تمہارے اندر وسعت پیدا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے درجے مقرر فرما دئیے ہیں۔ یہ نہیں کہ کم ذہنی صلاحیتوں جو علم کی کمی کی وجہ سے یا قدرتی طور پر کسی میں ہیں یا ماحول کے اثر کی وجہ سے علم میں کمی ہے اُسے بھی اسی طرح مکلف کرے جتنا اعلیٰ ذہنی اور علمی صلاحیتوں والے کو اور جسے دینی اور دنیاوی علم حاصل کرکے حاصل کرنے کے تمام تر مواقع میسر آئے ہوں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی وسعت علمی کی وجہ سے تمام حالات کو جانتا ہے۔ اس لئے جب وہ مکلف کرتا ہے کسی کو تو وہ ان سب باتوں کو مدنظر رکھ کر کرتا ہے جو کسی بھی انسان کے بارہ میں اس کے علم میں ہیں۔ اگر انسان اپنی صلاحیتوں کو جو خداداد ہیں اُس علم کے حصول کے لئے استعمال میں نہیں لاتا جس کے حاصل کرنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا تھا تو ایسا شخص پھرجوابدہ ہے یہاں لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا کامطلب یہی ہے کہ اپنے نفس کو تم نے اس طرح استعمال نہیں کیا جو اس کا حق بنتا تھا اور ایک مسلمان کہلانے والے کے لئے سب سے بڑھ کر دینی علم میں ترقی ہے جو اس کو کوشش کرنی چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’طالب حق کو ایک مقام پر پہنچ کر ہرگز نہیں ٹھہرنا چاہئے۔ ورنہ شیطان لعین اور طرف لگا دے گا اور جیسے بند پانی میں عفونیت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح اگر مومن اپنی ترقیات کے لئے سعی نہ کرے تو وہ گر جاتا ہے۔ پس سعادت مند کا فرض ہے وہ طلبِ دین میں لگا رہے۔ ہمارے نبی کریمﷺ سے بڑھ کر کوئی انسان کامل دنیا میں نہیں گزرا۔ لیکن آپؐ کو بھی رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا کی دعا کی تعلیم ہوئی تھی۔ پھر اور کون ہے جو اپنی معرفت اور علم پر کامل بھروسہ کرکے ٹھہر جاوے اور آئندہ ترقی کی ضرورت نہ سمجھے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 142-141 مطبوعہ ربوہ)

پس یہاں لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاسے مطلب ہے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ علم کے حصول کی کوشش کرو۔ اگر تم یہ کوشش کرتے رہو گے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے رہو گے کیونکہ وسعت علمی کی وجہ سے یعنی اُس علم کی وجہ سے جو خداتعالیٰ کی پہچان کی طرف مائل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا ادراک بڑھتا ہے۔ اور اس ادراک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والا بنتا ہے ایک انسان جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا(فاطر: 29)کہ یقینا حقیقت یہی ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اس سے ڈرتے ہیں۔ پس علم میں اضافہ دل میں خشیت پیدا کرتا ہے۔ یہاں اُن علماء کا ذکر نہیں ہو رہا جو نام نہاد اور سطحی علماء ہیں۔ سطحی علم حاصل کرکے اپنے علم سے دوسروں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ لوگ جو جوں جوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے علم میں اضافہ ہوتا دیکھتے ہیں تو ں توں وسعت علمی اور خدا کی ذات کا ادراک انہیں ہوتا جاتا ہے اور ’’جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے تیرے دیدار کا‘‘ کا حقیقی مفہوم انہیں سمجھ آتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ناکہ ع

’’جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے تیرے دیدار کا‘‘

(سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 52)

یہ حقیقی مفہوم ہے جو ایک عالم کو سمجھ آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے اور تب پتہ چلتا ہے کہ علمی لحاظ سے لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا کا حقیقی مطلب کیا ہے۔

دوسری بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس اقتباس سے مَیں نے اخذ کی، جو بیان فرمائی آپ نے کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر واضح فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہی عقیدے پیش کرتا ہے جن کا سمجھنا انسان کی حد استعداد میں داخل ہے۔ تاکہ اس کے حکم تکلیف مالا یطاق میں داخل نہ ہوں۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 432)

یعنی طاقت سے بڑھ کر نہ ہوں۔ اس آیت سے پہلی آیت میں خداتعالیٰ نے مومنوں کے بارے میں یہ بھی فرمایا، ایمان کی حالت کے بارے میں، عقیدہ کے بارہ میں کہ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ (البقرۃ: 286) یعنی اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اس کے فرشتوں پر ایمان رکھتے ہیں، اس کی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ایک دوسری جگہ فرمایا کہ یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس بارہ میں ایک حدیث بھی ہے جو حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ ہم آنحضرتﷺ کے حضور بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؐ کے پاس ایک آدمی آیا جس کے کپڑے بہت سفید تھے اس نے آکے مختلف سوال کئے اور آنحضرتﷺ کے ساتھ آیا اور گھٹنے ملا کر بیٹھ گیا اور پھرسوال کئے اور عرض کیا کہ اے محمدﷺ ایمان کسے کہتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور یوم آخرت کو مانے اور خیر اور شر کی تقدیر پر یقین رکھے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان والاسلام والاحسان… حدیث نمبر 8)

اب یہ باتیں ایسی ہیں کہ جن کے ماننے میں کوئی تکلیف مالا یطاق نہیں۔ اگر فطرت نیک ہو، اللہ تعالیٰ کی تلاش ہو، تو کائنات کیا زمین پر ہی اللہ تعالیٰ کی پیدائش کے مختلف نظارے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین پیدا کرتے ہیں۔ اور پھر اس کارخانہ قدرت کو دیکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہوئے ملائکۃ اللہ پر انسان غور کرتا ہے۔ تمام نظام کائنات کو دیکھتا ہے اور غور کرتا ہے تو فرشتوں کی حقیقت بھی اپنی اپنی استعدادذہنی اور علمی کے مطابق ہرانسان پر کھلتی چلی جاتی ہے۔ پھر خدا کے انبیاء پر جو کتابیں اتریں ان پرمُہر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں قرآن کریم نے ثبت کی۔ اُن کی غلطیوں اور خامیوں اور تحریفوں کی نشاندہی کی۔ ان کی بعض تعلیمات کی تصدیق کی، بعض کی تردید کی۔ اور قرآن کریم کی تصدیق اور اس کی حفاظت کا اعلان کرکے اور آج تک یہ ثابت کرکے کہ اس میں کوئی تحریف اور تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے اس پر ایمان میں پختگی پیدا کرنے کا اعلان فرمایا۔ اور جو تعلیم اس میں دی، قرآن کریم میں، اس کے متعلق یہ اعلان فرما دیا کہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر عمل انسانی استعداد سے بالا ہو۔ کیونکہ آنحضرتﷺ کے زمانہ سے لے کر آج تک کروڑہا مسلمانوں نے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق اس پر عمل کرکے دکھایا۔

پھر رسولوں پر ایمان ہے۔ اگر یہ انکار کیا گیا رسولوں کا، تو ان قوموں کی بدقسمتی تھی لیکن اُن کی تعلیم اور اُن کے دعوے کبھی ایسے نہیں ہوئے جو کسی انسان کو تکلیف میں ڈالیں۔ ہر نبی نے یہی کہا کہ مَیں تمہیں خدا سے ملانے اور تمہارے فائدے کی تعلیم دینے کے لئے آیا ہوں۔ اس طرح پر، اور اس کے لئے مَیں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ میرا اجر خدا کے پاس ہے۔ میرا مقصد تمہیں تکلیف پہنچانا نہیں بلکہ تمہاری بھلائی ہے اور اس لئے کہ تم یوم آخرت پر یقین کرو اور جزا سزا کی تقدیر پر ایمان لاتے ہوئے خداتعالیٰ کی جناب سے نیک اعمال کرکے جزا حاصل کرو۔ اس کی رضا کی جنتوں میں جاؤ اور نیک جزا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کس حد تک ہے؟ فرمایا کہ کسی بھی گناہ کا بدلہ اسی قدر ہے جتنا گناہ ہے اور نیکی کابدلہ دس گنا اور اس سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ فرماتا چلا جاتا ہے۔ پس خداتعالیٰ جو تعلیم بھی انبیاء کے ذریعہ سے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے ان کی استعدادوں کے مطابق ہے۔ اگر پہلی قوموں کی ذہنی صلاحیتیں کم تھیں تو ان کے سامنے ان کی تعلیم بھی اس کے مطابق رکھی۔ اسی حوالے سے جو مَیں نے بتایا۔ ایمان کا جہاں ذکر ہوا، اسی مجلس میں فرشتہ نے، جبریل آئے تھے، ارکان اسلام کا بھی ذکر کیا کہ پوچھا کہ کیا ہے اسلام کیا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کلمہ طیبہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔ پھر نماز کے بارہ میں پوچھا آپؐ نے فرمایا نماز ہے۔ پھر روزہ ہے، پھر زکوٰۃ ہے، پھرحج ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان والاسلام والاحسان… حدیث نمبر 8)

یہ نماز جو عبادت ہے، روزہ جو عبادت ہے، اس کے لئے بھی کسی کو مکلف نہیں کیا۔ بلکہ اگر کوئی بیمار ہے تو اس کو بیٹھ کر یا لیٹ کر بھی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ اگر سفر میں ہے تو جمع کرنے اور قصر کرنے کی اجازت ہے۔ اور روزہ ہے اس طرح ہی۔ سفر میں نہ رکھنے کی اجازت ہے، نہ رکھو، فرض روزے نہیں ہیں۔ بیماری میں نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ زکوٰۃ ہے وہ صرف اُسی پر فرض ہے جو صاحب نصاب ہے۔ حج ہے تو اُسی پر فرض ہے جو رستے کے وسائل بھی رکھتا ہو اور امن بھی ہو صحت بھی ہو۔ تو ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے جو فرمائیں وہ انسان کی طاقت کے اندر رہتے ہوئے اس کا حکم ہے اس کے لئے اور جیسا کہ مَیں نے کہا ہر طبقہ نے ان باتوں پر عمل بھی کرکے دکھایا۔ قطع نظر اُن کے جو مسلمان عمل نہیں کرتے کروڑ ہا مسلمان ایسے گزرے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں، عمل کرکے دکھا رہے ہیں۔ تیسری بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی اس حوالے سے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرتﷺ کا عمل اور نمونہ تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب: 22) یقینا تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول میں اُسوہ حسنہ ہے۔ فرمایا کہ ’’ہمیں حکم ہے کہ تمام احکام میں، اخلاق میں، عبادات میں آنحضرتﷺ کی پیروی کریں۔ پس اگر ہماری فطرت کو وہ قوتیں نہ دی جاتیں جو آنحضرتﷺ کے تمام کمالات کو ظلّی طور پر حاصل کر سکتیں تو یہ حکم ہمیں ہرگز نہ ہوتا کہ اس بزرگ نبی کی پیروی کرو کیونکہ خداتعالیٰ فوق الطاقت کوئی تکلیف نہیں دیتا۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا‘‘ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 156)

پس یہاں یہ فرمایا کہ تم اس نبی کی پیروی کرو۔ جس کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس لفظ سے کی کہ ظلّی طور پر۔ یعنی وہ معیار جو تم حاصل نہیں کر سکتے لیکن اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ان پر عمل کرنے اور ان کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اس کے لئے کوشش کرو اور یہ ہر مومن پر فرض ہے۔ کیونکہ یہ صلاحیت ایک مومن میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے کہ ان نیکیوں کو بجا لائے، جن کا اُسوہ آنحضرتﷺ نے قائم فرمایا ہے۔ صرف یہ کہنا کہ کیونکہ وہ معیار مَیں حاصل نہیں کر سکتا، اس لئے کوشش کی بھی ضرورت نہیں ہے یہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرائض سے آزادنہیں کر دیتی یہ بات ایک مومن کو اور اُمّت میں مَیں نے جیسا کہ کہا ہے کہ کروڑوں لوگوں نے یہ نمونے قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور کرکے دکھایا ہے۔ ایک عام مومن بھی اس اسوہ حسنہ کو رسول کریمﷺ نے جو قائم فرمایااپنی استعدادوں کے مطابق قائم کر سکتا ہے بجا لا سکتا ہے۔ اس پر عمل کر سکتا ہے۔

پھر چوتھی بات اس حوالہ سے یہ ہے کہ گو اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو تمام انسانیت کے لئے مبعوث فرمایا ہے اور وہ جو تعلیم لائے اسے قبول کرنے کا ہر ایک کو حکم ہے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس رسولﷺ پر ایمان لانا ہی نجات کابھی باعث ہے۔ لیکن اگر کسی پر اتمام حجت نہیں ہوا اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی بات کا مکلف نہیں بناتا اس لئے وہ شخص قابل مؤاخذہ نہیں ہو گا جس پر اتمام حجت نہیں ہوا۔

لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ ’’جس پر خداتعالیٰ کے نزدیک … اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مؤاخذہ کے لائق ہو گا اور جس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا وہ مکذب اور منکر ہے۔ تو گو شریعت نے (جس کی بناء ظاہر پر ہے) اس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اس کو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگر پھر بھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا قابل مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ہاں ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ ہم اس کی نسبت نجات کا حکم دیں۔ اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں اس میں دخل نہیں۔‘‘ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ان الفاظ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’یہ علم محض خدا تعالیٰ کو ہے کہ اس کے نزدیک باوجود دلائل عقلیہ اور نقلیہ اور عمدہ تعلیم اور آسمانی نشانوں کے کس پر ابھی تک اتمام حجت نہیں ہوا۔ ہمیں کسی کے باطن کا علم نہیں ہے اور چونکہ ہر ایک پہلو کے دلائل پیش کرنے اور نشانوں کے دکھلانے سے خداتعالیٰ کے ہر ایک رسول کا یہی ارادہ رہا ہے کہ وہ اپنی حجت لوگوں پر پوری کرے اور اس بارے میں خدا بھی اس کا مؤیّد رہا ہے۔ اس لئے جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مجھ پر حجت پوری نہیں ہوئی وہ اپنے انکار کا ذمہ وار آپ ہے اور اس بات کا بار ثبوت اسی کی گردن پر ہے اور وہی اس بات کا جوابدہ ہو گا کہ باوجود دلائل عقلیہ اور نقلیہ اور عمدہ تعلیم اور آسمانی نشانوں اور ہر ایک قسم کی رہنمائی کے کیوں اس پر حجت پوری نہیں ہوئی۔‘‘ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 186)

پس گو بغیر اتمام حجت کے خداتعالیٰ نے کسی کو مکلف نہیں بنایا لیکن مخالفین اسلام اور احمدیت کو یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ان کے نفس کے دھوکے انہیں یہ بات کہنے پر مجبور تو نہیں کر رہے؟ کہ ہمیں اتمام حجت نہیں ہوئی۔ دنیا میں ہر طرف فساد اور آفات وہ نشانات تو نہیں ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے اتمام حجت کے طور پر ہیں جبکہ زمانہ کے امام کا دعویٰ بھی موجود ہے۔

پھر پانچویں بات اس ضمن میں یہ ہے اس کی وضاحت کہ اللہ تعالیٰ خلاف عقل باتوں کو ماننے پر کسی کو مجبور نہیں کرتا اور اس وجہ سے اسے مکلف نہیں ٹھہراتا کہ کیوں یہ باتیں نہیں مانیں۔ قرآن کریم میں بے شمار جگہ حکیم کا لفظ آیا ہے۔ ہر بات جو ہے حکمت سے پُر ہے اس کی حکمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس کا حکم دیتا ہے بجا لانے کا۔ جو بھی حکم اتارا ہے تمام تر حکمتوں کے بیان سے اتارا ہے۔ بلکہ آنحضرتﷺ کو جب مبعوث فرمایا اور جن کاموں کو آپ کے لئے خاص کیا۔ ان میں حکمت پھیلانا بھی ایک کام تھا۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو آئندہ آنے والے کے مقام کے بارہ میں دعا سکھائی گئی۔ اُس میں بھی حکمت کو خاص طورپر پیش نظر رکھا گیا۔ حکمت کیا ہے۔ عدل و انصاف کو جاری کرنا ہے۔ اس کا مطلب علم کو کامل کرنا ہے۔ اس کا مطلب ہر بات کی دلیل پیش کرنا ہے یعنی جب کوئی حکم دیا تو اس کے کرنے یا نہ کرنے کی وجوہات بتائیں اور یہی عقل کا تقاضا ہے۔

مثلاً شراب اور جوئے سے اگر روکا ہے تو روکنے کے حکم کے ساتھ فرمایا کہ یَسْئَلُوْ نَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ۔ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَا فِعُ لِلنَّاسِ۔ وَاِ ثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا (البقرۃ: 220) کہ وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ ان کاموں میں بڑا گناہ ہے اور نقصان ہے اور اس میں لوگوں کے لئے بعض منفعتیں بھی ہیں اور ان کا گناہ اور نقصان ان کے نفع سے بہت بڑا ہے۔

اب شراب پینے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ جہاں وہ انسان کو نشہ کی حالت میں لا کر عبادتوں سے روکتا ہے وہاں معاشرے کے امن کو بھی خراب کرتا ہے۔ اور پھر یہ بھی اب ثابت شدہ حقیقت ہے کہ شراب پینے والے کے جب وہ شراب کا ایک جام چڑھاتا ہے تو دماغ کے ہزاروں خلیے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لئے شراب پینے سے اس دلیل کے ساتھ منع کیا گیا ہے اور یہی حال جُوا کھیلنے والوں کا ہے جُوا کھیلنے والا اتنا زیادہ ایڈکٹ (adict) ہو جاتا ہے کہ عبادت سے محروم ہو جاتا ہے اور کسی چیز کی ہوش ہی نہیں رہتی۔ ناجائز ذرائع سے پیسہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وقت کا ضیاع کرتا ہے۔ گھریلو ذمہ د اریوں سے پہلو تہی کرتا ہے۔ عقل کے استعمال کی بجائے شراب اور جوئے کی برائیوں میں پڑے ہوئے لوگ جو ہیں جوش اور غصّہ دکھانے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن الکوحل جو ہے اگر بالکل معمولی مقدار میں انسانی فائدے کے لئے دوائیوں میں استعمال کیا جائے۔ انسانی جان بچانے کے لئے دوائیوں میں استعمال کیا جائے تو وہاں یہ کی بھی جاتی ہے۔ ہومیو پیتھی دوائیوں میں بھی استعمال ہوتی ہے اور دوسری دوائیوں میں بھی۔ اتنی معمولی مقدار ہے کہ اس میں نشہ نہیں ہوتا۔ لیکن خالص شراب جو ہے وہ پینے والے چاہیں تھوڑی پئیں وہ اپنا نقصان کر رہے ہوتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ یہ عادت بڑھتی چلی جاتی ہے اور تھوڑی پینے کی عادت جو ہے وہ زیادتی میں بدلتی چلی جاتی ہے۔ اس لئے تھوڑی پینے کی ممانعت ہے۔

اسی طرح اگر اسلام میں روزہ کا حکم ہے تو اس کی حکمت بھی بیان کی گئی ہے اگر انسان سوچے تو نماز یا روزہ کا جو حکم ہے خداتعالیٰ کے احکامات جو ہیں جو انسانی فائدے کے لئے ہیں اس کی صحت اور اس میں ڈسپلن پیدا کرنے کے لئے ہیں علاوہ عبادت کے۔ جن کے نہ کرنے کا حکم ہے وہ بھی فائدے کی چیزیں ہیں جن کے کرنے کا حکم ہے وہ بھی بڑی حکمت لئے ہوئے ہیں اور انسان کی بقا کے لئے ضروری ہیں۔ تو غرض اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمت ہے اور بغیر حکمت بیان کئے اللہ تعالیٰ کسی کو یہ نہیں کہتا کہ تم اس کام کو کرو یانہ کرو۔

چھٹی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قویٰ کی برداشت اور حوصلہ سے بڑھ کر کسی قسم کی شرعی تکلیف نہیں اٹھوائی کسی کو۔ مثلاً فرمایا کہ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ۔ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (البقر ۃ: 174) کہ اُس نے تم پر صرف مردار، خون، سؤر کے گوشت کو اور ان چیزوں کو جن کو اللہ کے سوا کسی اور سے نامز د کر دیا گیا ہو، حرام کیا ہے، مگر جوشخص ان اشیاء کے استعمال پر مجبور ہو جائے اور نہ تو وہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حدود سے آگے نکلنے والاہو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اللہ یقینا بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اب یہ حکم ہے جو عقل کے مطابق ہے، حکمت لئے ہوئے ہے اور انسانی قویٰ کی برداشت کے لحاظ سے بھی انتہائی اعلیٰ درجہ کا ہے کہ اگر جان کا خطرہ ہے تو ان حرام چیزوں کا استعمال کر تو سکتے ہو مگر صرف جسم کی بقا کے لئے، صرف سانس کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے۔ لیکن کوشش کرو کہ حتی الوسع ان سے بچو اور جہاں تک ہو سکے حرام اور حلال کے فرق کو قائم رکھو۔

پھر ساتویں بات یہ یاد رکھنے والی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام انسانی طاقت کے اندر ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’اس آیت سے صاف طور پر پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام ایسے نہیں جن کی بجا آوری کوئی کر ہی نہ سکے اور نہ شرائع و احکام خداتعالیٰ نے دنیا میں اس لئے نازل کیے کہ اپنی بڑی فصاحت و بلاغت اور ایجادی قانونی طاقت اور چیستان طرازی کا فخر انسان پر ظاہر کرے‘‘ یعنی بتائے کہ میرے میں سب طاقتیں ہیں اور کوئی اس قسم کا معمہ پیش کرے جس کو کوئی حل نہ کر سکتاہو اور پھر بڑے فخر سے کہے کہ دیکھو میری بات تم سمجھ نہیں سکے۔ یہ نہیں ہے۔ فرمایاکہ ’’نہ شرائع و احکام خداتعالیٰ نے دنیا میں اس لئے ناز ل کیے کہ اپنی بڑی فصاحت و بلاغت اور ایجادی قانونی طاقت اور چیستان طرازی کا فخر انسان پر ظاہر کرے اور یوں پہلے ہی سے اپنی جگہ ٹھان رکھا تھا کہ کہاں بیہودہ ضعیف انسان اور کہاں کا ان حکموں پر عملدرآمد؟‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے کسی مشکل میں ڈالنے کے لئے حکم نہیں دئیے تھے۔ دیکھے کہ کس طرح مَیں آزماؤں اپنے بندوں کو کہ یہ بیہودہ انسان اور کمزور انسان کس طرح میرے حکم پر عمل کر سکتا ہے۔ فرمایا کہ ’’خداتعالیٰ اس سے برتر و پاک ہے کہ ایسا لغو فعل کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 39 مطبوعہ ربوہ)

پھر آٹھویں بات جو ہے اس تعلق میں یہ ہے کہ جو شرائط احکام کی بجا آوری کے لئے خداتعالیٰ نے لگائی ہیں وہ ہر ایک کی ذہنی، جسمانی، علمی، معاشی، روحانی وسعت کے لحاظ سے ہیں اور ہر ایک اپنے اپنے مرتبہ علمی اور عقلی اور جسمانی اور معاشی اور روحانی کے لحاظ سے احکام بجا لانے کا پابند اور قابل مؤاخذہ ہے۔ لیکن جو فرائض اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں انہیں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بجا لانا بہرحال ہر مومن پر فرض ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک دیہاتی شخص آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام کے بارہ میں پوچھا آپؐ نے فرمایا دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنا۔ اس پر اس نے پوچھا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی نمازفرض ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں، ہاں اگر نفل پڑھنا چاہو تو پڑھ سکتے ہو۔ پھر آنحضورﷺ نے فرمایا ایک ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔ اس نے پوچھا اس کے علاوہ بھی روزے فرض ہیں آپ نے فرمایا نہیں۔ ہاں نفلی روزے رکھنا چاہو تو رکھ سکتے ہو۔

اسی طرح آنحضرتﷺ نے زکوٰۃ کا بھی ذکر فرمایا اس نے اس پر پوچھا عرض کیا کہ اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی زکوٰۃ ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ ہاں ثواب کی خاطر تم نفلی صدقہ دینا چاہو تو دے سکتے ہو۔ اس پر وہ شخص یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ خدا کی قسم نہ اس سے زیادہ کروں گا نہ کم۔ توآپﷺ نے فرمایا وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو کہ اگر یہ سچ کہتا ہے تو اسے کامیاب و کامران سمجھو۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان الصلوات التی ھی احد ارکان الاسلام حدیث نمبر 9)

تو جو جو استعدادیں ہیں ہر ایک کی اس کے مطابق وہ عمل کرتا ہے۔ کچھ تو آپ نوافل کی تلقین بھی فرمایا کرتے تھے۔

پھر نویں بات یہ کہ قرآن کریم کے تمام احکامات قابل عمل ہیں۔ اس کا مختصر ذکر پہلے بھی آچکا ہے اور رنگ میں۔ کوئی بھی ایسا حکم نہیں جو انسان پر بوجھ ہو۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ کے اُسوہ پر عمل کرنے کے ضمن میں مَیں نے بتایا کہ ذکر ہوا ہے کہ حقیقی مومن اُن پر چلتاہے اور چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور حضرت عائشہ نے جیسا کہ فرمایا کہ ’’آنحضرتﷺ کے اخلاق اور زندگی قرآن کریم کے احکامات کی عملی تصویرہیں۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل مسند عائشہؓ جلدنمبر 8 صفحہ 305 حدیث نمبر 25816 عالم الکتب بیروت ایڈیشن 1998ء)

پس اپنی اپنی حیثیت اور استعدادوں کے مطابق ہر ایک کو ان پر عمل کرنے کا حکم ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا دعویٰ ہے کہ کیونکہ وہ کسی مومن کو بھی بلاوجہ تکلیف میں نہیں ڈالتا۔ اس لئے جو بھی احکامات ہیں ہر انسان کی عمل کرنے کی طاقت کے اندر ہیں۔ پھر دسویں بات یہ کہ اللہ تعالیٰ سچی خوابیں بھی ہر انسان کو اس لئے دکھاتا ہے تاکہ اُسے انبیاء کی وحی و الہام کا کچھ حد تک ادراک ہو سکے۔ اگر کبھی سچی خواب ہی نہ آئی ہو تو وہ انبیاء کے دعوے کو بھی محض جھوٹ سمجھے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’جو نبی آتا ہے اس کی نبوت اور وحی و الہام کے سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی فطرت میں ایک ودیعت رکھی ہوئی ہے اور وہ ودیعت خواب ہے۔ اگر کسی کو کوئی خواب سچی کبھی نہ آئی ہو تو وہ کیونکر مان سکتا ہے کہ الہام اور وحی بھی کوئی چیز ہے اور چونکہ خداتعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا اس لئے یہ مادہ اُس نے سب میں رکھ دیا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 281-280 مطبوعہ ربوہ)

چوروں، ڈاکوؤں، زانیوں کوبھی سچی خوابیں آتی ہیں۔ گیارہویں بات یہ کہ بچپن کا زمانہ اور جوانی میں قدم رکھنے سے پہلے کا زمانہ بے خبری کا زمانہ ہے۔ اسی طرح جو کم عقل ہیں یا ذہنی معذور ہیں وہ بھی۔ ان کا احکامات پر عمل نہ کرنا یا اُس طرح پابندی نہ کرنا قابل مؤاخذہ نہیں ہو گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ابتدائی زمانہ تو بے خبری اور غفلت کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا مؤاخذہ نہ کرے گا جیسا کہ خود اس نے فرمایا لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 199 مطبوعہ ربوہ)

بارہویں بات یہ کہ اگر جوانی اور پوری ہوشیاری اور عقل اور تمام قویٰ کی صحت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ ہو۔ تو پھر یہ بات قابل مؤاخذہ ٹھہرے گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ ’’ایک ہی زمانہ ہے … یعنی شباب کا‘‘ زمانہ، جوانی کا زمانہ ’’جب انسان کوئی کام کر سکتا ہے کیونکہ اس وقت قویٰ میں نشوونما ہوتا ہے اور طاقتیں آتی ہیں لیکن یہی زمانہ ہے جبکہ نفس امارہ ساتھ ہوتا ہے اور وہ اس پر مختلف رنگوں میں حملے کرتا ہے اور اپنے زیر اثررکھنا چاہتا ہے۔ یہی زمانہ ہے جو مؤاخذہ کا زمانہ ہے اور خاتمہ بالخیر کے لئے کچھ کرنے کے دن بھی یہی ہیں۔ لیکن ایسی آفتوں میں گھرا ہوا ہے کہ اگر بڑی سعی نہ کی جاوے تو یہی زمانہ ہے جو جہنم میں لے جائے گا اور شقی بنا دے گا۔ ہاں اگر عمدگی اور ہوشیاری اور پوری احتیاط کے ساتھ اس زمانہ کو بسر کیاجاوے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 199 مطبوعہ ربوہ)

پس باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ جو احکام دئے ہیں اور جن کے نہ کرنے کا حکم دیا ہے اگر ایک انسان ان کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتا باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وسیع تر رحمت اور بخش کی خوشخبری دی ہے اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور خود انسان اپنی وسعتوں اور طاقتوں کا فیصلہ کرتے ہوئے خداتعالیٰ کے حکم سے روگردانی کرتا ہے۔ تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے جہنم میں لے جانے کا باعث بنتی ہے یہ بات۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا کہنے کے بعد آگے فرمایا ہے کہ لَھَا مَاکَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَااکْتَسَبَتْ کہ اس نے جو اچھا کام کیا وہ بھی اس کے لئے نفع مند ہے اور جو اس نے بُرا کام کیا وہ بھی اس پر وبال ہو کر پڑے گا۔ نیکی کے لئے کسب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جو آسانی سے ہو سکتا ہے اگر ارادہ ہو۔ کیونکہ نیکی فطرت کے مطابق ہے لیکن بعض اوقات انسان اپنی بدقسمتی سے فطرت کے مطابق عمل کرنے کی بجائے اکتساب کا راستہ اختیار کرتا ہے جو غیر فطری بات ہے۔ اخلاقی قوتوں کے صحیح مواقع پر استعمال نہ کرنے کی وجہ سے اس راستے پر انسان چلتا ہے اور سمجھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسندنہیں اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ آسان راستہ ہے۔ لیکن جب گناہوں اور برائیوں میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ پھر احساس ہوتا ہے کہ ایک تکلیف دہ راستے کی طرف چل پڑا ہوں مَیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اکتساب کا ایک یہ نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ ’’بدیوں میں سے صرف اُس بدی کی سزا ملے گی جس میں اکتساب کا رنگ پایا جائے گا یعنی قصداً اور ارادۃً اس کا ارتکاب کیا جائے گا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 657 مطبوعہ ربوہ)

اس کو چھوڑے نہ بلکہ جان بوجھ کر اس کو کرتا چلا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ تو نہ کسی جان کو تکلیف میں اس کی طاقت سے بڑھ کر ڈالتا ہے اور نہ کوئی ایسے احکامات دیتا ہے جو اس کو تکلیف میں ڈالنے والے ہوں بلکہ عفو اور درگزر اور بخشش سے کام لیتا ہے۔ لیکن اگر کسی بدی کے ارتکاب پر انسان کو جرأت پیدا ہو اور وہ کرتا ہی چلا جائے تو اس کی سزا ہے پھر اس لئے ہمارے پیارے اور مہربان خدا نے اس آیت کے اگلے حصے میں ہمیں یہ دعا بھی سکھا دی کہ نیک کاموں کی طرف توجہ رہے جو ہر حال میں فطرت کے مطابق ہیں اور ان پر عمل کرنا انسان کی پہنچ کے اندر بھی ہے۔ جیسا کہ فرمایا رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا۔ رَبَّنَا وَلَاتَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا۔ رَبَّنَا وَلَا تَُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَۃَ لَنَابِہٖ۔ وَاعْفُ عَنَّا۔ وَاغْفِرْلَنَا۔ وَارْحَمْنَا۔ اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ کہ اے ہمارے ربّ اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر بیٹھیں تو ہمیں سزا نہ دینا۔ اے ہمارے ربّ! اور تو ہم پر اس طرح ذمہ داری نہ ڈالنا جس طرح تو نے ان لوگوں جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں ڈالی اور اے ہمارے ربّ ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کے اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں۔ ہم سے درگزر کر ہمیں بخش دے اور ہم پر توہمارا آقا ہے اور کافروں کے خلاف ہماری مدد کر۔

پس تزکیہ نفس کے لئے یہ دعائیں انتہائی ضروری ہیں۔ کیونکہ جب تزکیہ نفس ہو گا تولَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا کا صحیح ادراک بھی ہو گا۔ انتہائی عاجزی سے انسان یہ دعا کرتا ہے کہ اے ہمارے خدا ان نیک باتوں کے نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں نہ پکڑ جن کو ہم بھول گئے۔ ان لوگوں کا ہمیں انجام نہ دینا جن پر تیری گرفت ہوئی تھی۔ اب یہ ان کا انجام نہ دینا اس لئے نہیں تھا کہ ہم بغاوت کرنے والے یا حد سے بڑھنے والے تھے یا تیرے حکموں کی پرواہ نہ کرنے والے تھے۔ بلکہ بوجہ نسیان یا بھول چوک جو انسانی فطرت کا حصہ ہے ہم اسے نہ کر سکے۔ اس لئے ہمارے سے اگر کوئی بھول چوک ہوئی ہے توہمیں کہیں ان لوگوں میں شمار نہ کر لینا جوعادتاً یہ کرنے والے لوگ تھے۔ اور پھر انتہائی عاجزی سے ایک مومن یہ دعا بھی کرتا ہے کہ اے خدا ہم سے اُن باتوں کا مؤاخذہ نہ کر جو ہم نے عمداً اور جان بوجھ کر نہیں کئے۔ بلکہ سمجھ کی غلطی سے ہم سے وہ عمل سرزد ہو گئے اور ہم سے جو عہد لئے ہیں جو بوجھ ہم پر ڈالے ہیں ان کا حال بھی پہلی قوموں جیسا نہ ہو بلکہ ہمیں ہمارے عہدوں کو پوراکرنے کی توفیق عطا فرما۔ ورنہ ہم بھی ان لوگوں کے زمروں میں شامل ہو سکتے ہیں جو قابل مؤاخذہ ٹھہرے تھے۔ اور پھر باوجود اس کے کہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مَیں کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا لیکن ایک حقیقی مومن اور اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے کا یہ کام ہے کہ اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے خداتعالیٰ کو اس کے اس قول کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعا کرے کہ کہیں میری شامت اعمال مجھے طاقت سے بڑ ھ کر کسی ابتلا اور بوجھ میں نہ ڈال دے۔ اس لئے مجھ سے ہمیشہ درگزر کا سلوک فرما۔ مجھے ہمیشہ اپنی بخشش کی چادر میں لپیٹ لے اور مَیں ہمیشہ تیرے رحم سے حصہ لیتا رہوں اور جس امام کو قبول کرنے کی مجھے توفیق عطا فرمائی ہے اس پر ہمیشہ قائم رہوں اور بڑھتا چلا جاؤں۔ اور میری کمزوریاں میرے دشمن کو کبھی یہ موقع نہ دیں کہ وہ میرے ایمان کو ضائع کر سکے، یا میری وجہ سے میرے دین یا جماعت کو نقصان پہنچ سکے۔ بعض دفعہ ایک فرد کی غلطی جماعت کو ابتلا میں ڈال سکتی ہے اس لئے ’’ہم‘‘ کہہ کر تمام مومنوں کو من حیث الجماعت ایک دوسرے کے لئے دعا کی طرف توجہ دلائی ہے تاکہ دعاؤں کا مجموعی اثر ہو اور ہر فرد کو بھی اپنے آپ کوپاک کرنے اور ذمہ داری کوسمجھنے کی طرف توجہ پیدا ہو اور جماعت بھی مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتے ہوئے دشمن کے ہر شر سے محفوظ رہنے والی ہو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں تمام احکامات پر ہماری تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کو بجا لانے کا حکم یقینا اللہ تعالیٰ نے ہماری صلاحیتوں اور استعدادوں کو دیکھتے ہوئے دیا ہے اور نہ صرف ہم ایک جگہ کھڑے رہنے والے ہوں بلکہ ہر قسم کی وسعتوں میں خداتعالیٰ اضافہ فرماتا چلا جائے اور من حیث الجماعت بھی ہم ترقی کی شاہراہوں پر تیزی سے منزلیں بھی طے کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعا قبول فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 16شمارہ 25 مورخہ 19جون تا 25 جون 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 9)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 29؍ مئی 2009ء شہ سرخیاں

    صفت الواسع۔ احکامات کے حوالے سے دوسرے مذاہب کے مقابل پر اسلام کی خوبی۔ کفارہ کے عقیدہ کا ردّ۔ اللہ کسی کو اس کی وسعت علمی سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، ساتھ ہی آنحضرتؐ کو قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا کی دعا سکھائی گئی تاکہ وسعت پیدا ہوتی چلی جائے۔ آیت لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ کی پُرمعارف تشریح، تزکیہ نفس کے لئے دعائیں نہایت ضروری ہیں۔ جمع کے صیغے میں دعا کرنے میں حکمت۔

    فرمودہ مورخہ 29؍مئی 2009ء بمطابق29؍ہجرت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور