صفت الواسع۔ آیت الکرسی کی تفسیر
خطبہ جمعہ 5؍ جون 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدآیت الکرسی کی تلاوت فرمائی:
اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ وَ لَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ (البقرۃ: 256)
اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اللہ، اس کے سوا اور کوئی معبودنہیں۔ ہمیشہ زندہ رہنے والا اور قائم بالذات ہے۔ اسے نہ تو اونگھ پکڑتی ہے اور نہ نیند۔ اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے حضور شفاعت کرے مگر اس کے اِذن کے ساتھ۔ وہ جانتاہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔ اور وہ اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اسی کی بادشاہت آسمانوں اور زمین پر ممتد ہے۔ اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں۔ اوروہ بہت بلند شان اور بڑی عظمت والا ہے۔
یہ آیت جس کی مَیں نے تلاوت کی جیساکہ ہم جانتے ہیں اس کا نام آیت الکرسی ہے، یہ آیت الکرسی کہلاتی ہے۔ ایک حدیث میں آتاہے جو حضرت ابوہریر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کا ایک چوٹی کا حصہ ہوتاہے اور قرآن کریم کی چوٹی کا حصہ سورۃ البقرہ ہے اور اس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآ ن کریم کی سب آیات کی سردار ہے۔ اور وہ آیت الکرسی ہے۔ (سنن الترمذی کتاب فضائل القرآن باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ وآیۃ الکرسی حدیث نمبر 2878)
اسی طرح یہ بھی روایت میں آتاہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سورۃ البقرۃ کی دس آیات پڑھ کر سوئے صبح تک اس کے گھر میں شیطان نہیں آتا۔ ان آیات میں سے ایک آیت، آیت الکرسی ہے۔ (سنن الدارمی کتاب فضائل القرآن باب فضل اول سورۃ البقرۃ وآیۃ الکرسی حدیث نمبر 3383)
آنحضرتﷺ کا یہ فرمانا صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ پڑھ لی اور سو گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت کو اور ان آیات کو غور سے پڑھا جائے۔ ان پر غور کیا جائے۔ ان کے معانی پر غور کیا جائے۔ پھر انسان اپنا جائزہ لے اور دیکھے کہ کس حد تک ان پر عمل کرتاہے، کس حد تک اس میں پاک تبدیلیاں ہیں اور جائزہ لینے کے بعد جو بھی صورت حال سامنے آئے، یہ عہد کرے کہ آئندہ سے یہ پاک تبدیلیاں مَیں اپنے اندر پیدا کروں گا۔ پھر یہ چیز ہے جو شیطان سے دُور کرتی ہے۔
جن دس آیتوں کا ذکر کیاگیاہے ان میں سے چار آیات جو ہیں وہ سورۃ البقرہ کی پہلی چار آیات ہیں۔ جن میں ایک مومن کی پاکیزہ عملی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا ایک آیت، آیت الکرسی ہے اور اس کے ساتھ کی دو آیات ہیں جن میں صفات باری کا نقشہ کھینچا گیاہے۔ پھر سورۃ البقرہ کی آخری تین آیات ہیں جن میں سے آخری آیت کی وضاحت مَیں نے گزشتہ جمعہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر کی روشنی میں کی تھی۔ گوا س وقت مضمون تو آیت الکرسی کا ہی بیان ہوگا لیکن اس سے پہلے سور ۃ بقرہ کی پہلی چار آیات میں سےالٓـمّٓ۔ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے جو تفسیر بیان فرمائی ہے اس کا ایک اقتباس مَیں پڑھوں گا۔ جو اللہ تعالیٰ کے پاک کلام قرآن کریم کی وسعتوں کی طرف، اس کو سمجھنے کی طرف ہماری رہنمائی کرتاہے۔ اور اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے قرآن کریم کو سمجھنا آسان بھی ہے اور انسان صحیح طرح سمجھ سکتاہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں کہ: ’’جب تک کسی کتاب کے علل اربعہ کا مل نہ ہوں۔ وہ کامل کتاب نہیں کہلاسکتی‘‘۔ علل اربعہ کا مطلب ہے کہ چا ر بنیادی خصوصیات۔ اگر یہ چار بنیادی صفات کامل ہوں تب ہی وہ کتاب کامل کہلا سکتی ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں: ’’اس لئے خدا تعالیٰ نے ان آیات میں قرآن شریف کے علل اربعہ کا ذکر فرمادیاہے اور وہ چار ہیں۔ (1) علت فاعلی، (2) علت مادی، (3) علت صوری اور (4) علت غائی‘‘۔ فرمایا کہ ’’ہر چہار کامل د رجہ پر ہیں۔ پس الٓم علّت فاعلی کے کمال کی طرف اشارہ کرتاہے جس کے معنی ہیں کہ اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ۔ یعنی کہ مَیں جو خدائے عالم الغیب ہوں مَیں نے اس کتاب کو اتارا ہے۔ پس چونکہ خدا اس کتاب کی علّت فاعلی ہے اس لئے اس کتاب کا فاعل ہر ایک فاعل سے زبردست اور کامل ہے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 136۔ حاشیہ)
پس قرآن کریم کے کامل کتاب ہونے کی سند اور غیروں کو چیلنج ابتدا میں ہی ان تین حروف میں خداتعالیٰ نے دے دیا۔ اس پر ایمان لانے والوں کو کسی بھی قسم کا خوف اور احساس کمتری نہیں ہونا چاہئے۔ کسی قسم کے خوف اور احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ اس خد اکا کلام ہے جس کے کاموں کی کنہ تک بھی انسان نہیں پہنچ سکتا اور کھلا چیلنج ہے کہ قرآن کریم کی ایک سورۃ جیسی سورۃ لے کے آؤ اور اپنے ساتھ تمام مددگاروں کو ملا لو تو بھی تمام مددگاروں سمیت نہیں لا سکتے۔ بہرحال اس بات کی تفصیل میں تو مَیں نہیں جا رہا۔ مختصر یہ کہ قرآن کریم کامل کتاب اس لئے ہے کہ اس کو اتارنے والا کامل اور سب قدرتوں اور طاقتوں کا مالک اور عالم الغیب خدا ہے۔
دوسری بات یہ فرمائی کہ: ’’علت مادی کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ فقرہ کہ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ یعنی یہ وہ کتاب ہے جس نے خدا کے علم سے خلعت وجود پہنا ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ خداتعالیٰ کا علم تمام علوم سے کامل تر ہے‘‘۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ میرے علم کی وسعتوں کی انتہا نہیں ہے۔ انسان اس کا احاطہ کر ہی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل اور وسیع علم سے کچھ حصہ اپنے پیارے نبیﷺ کے ذریعہ اس کتاب میں ہمیں بتایا۔
اور پھر تیسری چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی، فرمایا: ’’اور علّت صُوری کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ فقرہ لَارَیْبَ فِیْہ۔ یعنی یہ کتاب ہر ایک غلطی اور شک و شبہ سے پاک ہے۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ جو کتاب خداتعالیٰ کے علم سے نکلی ہے وہ اپنی صحت اور ہر ایک عیب سے مبرّا ہونے میں بے مثل و مانند ہے اور لَارَیْب ہونے میں اکمل اور اتم ہے‘‘۔
پھر آپؑ نے فرمایا اور علّت غائی یعنی اس کی جو بنیادی وجہ ہے’’علت غائی کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ فقرہ کہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ یعنی یہ کتاب ہدایت کامل متقین کے لئے ہے اور جہاں تک انسانی سرشت کے لئے زیادہ سے زیادہ ہدایت ہو سکے وہ اس کتاب کے ذریعہ سے ہوتی ہے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 137-136۔ حاشیہ)
ہدایت اور عرفان الٰہی کے بھی مدارج ہیں۔ پس قرآن کریم کی تعلیم پر غور اور عمل، ہدایت اور عرفان الٰہی کی نئی سے نئی راہیں کھولتا ہے۔ یہ چار باتیں قرآن پڑھتے وقت اگر ہمارے سامنے ہوں اور ان پر ایمان اور یقین ہو تو قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کا صحیح ادراک حاصل کرنے کی طرف راہنمائی ملتی ہے۔
اب مَیں آیت الکرسی کی کچھ وضاحت کروں گا۔ اس آیت میں بھی خداتعالیٰ کے جامع الصفات اور وسیع تر ہونے کا مضمون ہے۔ اس آیت کی ابتدا ہی اللہ تعالیٰ کے نام سے ہوتی ہے۔ اللہ کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ جو خدائے تعالیٰ کا ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کا مستجمع ہے‘‘۔ فرمایا ’’کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں۔ لیکن جس کو وہ اللہ یاد ہی نہ ہو وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 63 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس جب ایک انسان مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کو سب طاقتوں کا سرچشمہ یقین کرنا چاہئے اور اسے تمام صفات کا اس حد تک احاطہ کئے ہوئے سمجھنے پر ایمان ہونا چاہئے، جہاں تک انسان کے فہم و ادراک کی رسائی نہیں ہو سکتی۔ جو بے کنار ہے اور جب یہ ایمان ہو گا تو تبھی ہر موقع پر خداتعالیٰ یاد رہے گا۔ بہت سی برائیوں میں انسان اس لئے مبتلا ہو جاتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے احکامات کے بجا لانے میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں سستی اس لئے ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت انسان کو یادنہیں رہتا۔ انسان بھول جاتا ہے کہ خداتعالیٰ کی ہر لمحہ اور ہر آن مجھ پر نظر ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں، ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے‘‘۔ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309)
تو یہ کم از کم کوشش ہے جو ہمیں اپنے اللہ پر ایمان لانے اور پھر ترقی کی طرف قدم بڑھانے کے لئے کرنی چاہئے جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔
اس آیت میں جو اللہ تعالیٰ نے اس طرح شروع کیا کہ اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ۔ یعنی صرف اللہ کو دیکھو کہ وہی تمہارا معبود ہے اس کے علاوہ کوئی اور معبودنہیں ہے۔ یہ واضح فرما دیا کہ اللہ ہی تمام صفات کا جامع اور تمام قدرتوں کا مالک ہے اور اس ناطے وہی اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور تمام جھوٹے خداؤں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے، بچتے ہوئے، صرف اسی واحد خدا کے سامنے جھکا جائے۔
فرمایا کہ اس واحد خدا کے سامنے جھکو گے تو پھر ہی دنیا و آخرت کے انعامات سے فیض پا سکتے ہو۔ دنیا میں ہر چیز کا بدل مل سکتا ہے لیکن خداتعالیٰ کا کوئی بدل نہیں ہے۔ جب اس کا بدل نہیں ہے تو پھر بیوقوفی ہے کہ اسے چھوڑ کر کہیں اور جایا جائے۔ یا عارضی طور پر ہی اپنی ترجیحات کو بدل دیا جائے۔ ایک دہریہ تو یہ کہہ سکتا ہے کہ مَیں کیونکہ خدا کو نہیں مانتا اس لئے مَیں کیوں اس کے در پر حاضر ہو جاؤں۔ لیکن ایک مسلمان جب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اور پھر دنیاوی ذریعوں کو خدا سے زیادہ اہمیت دیتا ہے تو یہ یقینا اس کی بدقسمتی ہے۔
اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’وہ خدا جو لاشریک ہے جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں۔ یہ اس لئے فرمایا کہ اگر وہ لاشریک نہ ہو تو شاید اس کی طاقت پر دشمن کی طاقت غالب آ جائے۔ اس صورت میں خدائی معرض خطرہ میں رہے گی‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کا مقام اور اس کی قدرتیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ )’’اور یہ جو فرمایا کہ اس کے سواکوئی پرستش کے لائق نہیں اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ ایسا کامل خدا ہے جس کی صفات اور خوبیاں اور کمالات ایسے اعلیٰ اور بلند ہیں کہ اگر موجودات میں سے بوجہ صفاتِ کاملہ کے ایک خد اانتخاب کرنا چاہیں یا دل میں عمدہ سے عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ خدا کی صفات فرض کریں تو وہ سب سے اعلیٰ جس سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ نہیں ہو سکتا، وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنیٰ کو شریک کرنا ظلم ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 372)
پس ایک مومن کے دل میں خوف خدا پیدا ہوتا ہے جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فقرے کو سامنے رکھتے ہوئے کہ’’وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنیٰ کو شریک کرنا ظلم ہے‘‘، اپنے نفس کا جائزہ لیتا ہے۔ کئی باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں، ہمارے سے روزانہ ہو جاتی ہیں جس میں ہم لاشعوری طور پر بہت سی چیزوں کو خداتعالیٰ کا شریک بنا کر اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا ربّ ہے اور اس کی ربوبیت زمین و آسمان پر پھیلی ہوئی ہے۔ اللہ ہماری ایسی حالتوں کو اپنی مغفرت اور رحم کی صفات سے ڈھانپ لے۔ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ (الأنبیاء: 88) کہ تیرے سوا کوئی معبودنہیں تو پاک ہے، میں یقینا ظالموں میں سے ہوں۔ پس اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ إِلاَّ ہُو کی طرف جانے کے لئے یا صحیح راہنمائی حاصل کرنے کے لئے لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ کی دعا بھی بڑی اہم دعا ہے جو پڑھتے رہنا چاہئے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمانے کے بعد کہ اللہ ہی تمہارا معبود ہے اور حقیقی معبود ہے۔ فرمایا اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم یعنی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اپنی ذات میں قائم ہے۔ اور اَلْحَیّ ہونے کی وجہ سے صرف خود ہی ہمیشہ زندہ نہیں رہتا بلکہ تمام جانداروں کو زندگی بخشنے والا ہے۔ اور اَلْقَیُّوْم ہے، صرف خود ہی قائم نہیں ہے بلکہ کائنات کی ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ زندہ خدا وہی خدا ہے اور قائم بالذات وہی خدا ہے۔ پس جبکہ وہی ایک زندہ ہے اور وہی ایک قائم بالذات ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک شخص جو اس کے سوا زندہ نظر آتا ہے وہ اُسی کی زندگی سے زندہ ہے اور ہر ایک جو زمین یا آسمان میں قائم ہے وہ اسی کی ذات سے قائم ہے‘‘۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 120)
پس اپنے زندہ اور قائم ہونے اور زندہ اور قائم رکھنے کا حوالہ دے کر مومنوں کو یہ تسلی دلا دی کہ تم دنیاوی دباؤ اور دنیاوی لالچوں کے زیر اثر کبھی نہ آنا اور جو وعدے مَیں نے مومنوں سے کئے ہیں ان پر پوری طرح یقین رکھنا۔ تمہاری نسلوں کی زندگی اور بقا بھی میرے ساتھ جڑے رہنے سے وابستہ ہے اور جماعتی زندگی اور بقا بھی میرے ساتھ جڑے رہنے سے وابستہ ہے۔ حالات کی وجہ سے دنیاوی ذرائع پر انحصارکرنے کا نہ سوچنے لگ جانا۔ میری عبادت کرتے رہو۔ میری طرف جھکے رہو تو اسی میں تمہاری زندگی ہے اور اسی میں تمہاری بقا ہے۔
ایک دوسری جگہ خداتعالیٰ فرماتا ہے وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَایَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِہٖ (الفرقان: 59) اور تو اس پر توکل رکھ جو زندہ ہے اور سب کو زندہ رکھتا ہے کبھی نہیں مرتا اور اس کی تعریف کے ساتھ اس کی تسبیح کر۔ پس ایک مومن حالات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی صفت کے بارہ میں شک میں نہیں پڑتا بلکہ مشکلات اسے حیّ و قیوم اور قادر اور مجیب خدا کے سامنے اور زیادہ جھکنے والا بناتی ہیں۔ پھر خداتعالیٰ نے لَاتَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْم کہہ کر یہ بھی واضح فرما دیا کہ کبھی کسی مومن کے دل میں یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیندیا اونگھ کی حالت میں زندہ رکھنے اور قائم رکھنے سے غافل ہو سکتا ہے۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی صفات نہ محدود ہیں، نہ ہی اسے کسی قسم کی کمزوری ان صفات سے عدم توجہگی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کو کسی آرام کی ضرورت نہیں۔ اس کی استعدادیں انسانی استعدادوں کی طرح نہیں ہیں جنہیں ایک وقت میں آرام اور نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلکہ وہ تو تمام قدرتوں کا مالک خدا ہے۔ اس لئے نہ ہی اسے نیند کی ضرورت ہے نہ ہی تھکاوٹ کی وجہ سے اسے اونگھ آتی ہے۔ اس لئے سوال ہی نہیں کہ وہ اپنے بندوں کی زندگی او ر بقا سے کبھی غافل ہو۔ ہاں قانون قدرت کے تحت اور اس کی دوسری صفات کے تحت وہ اپنے بندوں کو امتحانوں اور آزمائشوں میں ڈالتا ہے۔ لیکن یہ بھی اس کا اعلان ہے کہ حقیقی زندگی اس کے بندوں کی ہی ہے۔ اُس کے راستے میں مرنے والے بھی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور جب اس نے یہ اعلان فرمایا کہ میرے نبی کی جماعت ہی زندہ اور غالب رہنے والی ہے تو اس بات کو بھی پورا کرکے دکھایا کہ وہ زندہ رہتی ہے اور غالب رہتی ہے۔
پھر فرمایا لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ اسی کا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ اس بات پر بھی کسی کو شبہ اور شک نہیں ہونا چاہئے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے کہا تو یہی ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ لیکن یہ کس طرح ہو گا، کیونکہ اگر دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے اور وسائل کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ غلبہ مشکل نظر آتا ہے یا بڑی دُور کی بات نظر آتی ہے۔ لیکن جب آنحضرتﷺ کو خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلۃ: 22) تو باوجودنامساعد حالات کے اسے سچ کردکھایا۔
اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے تو اب بھی سچ کر دکھائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دکھا بھی رہاہے۔ گو انسان سوچتا ہے کہ کس طرح اور کیونکر بظاہر اسباب اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے غلبہ ہو گا۔ یا ہو گا بھی تو بہت دور کی بات ہے۔ اور مکمل کامیابی بہت دور کی چیز نظر آتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ خداتعالیٰ کے تصرف اور قبضے میں ہے۔ یہ زمین اور آسمان بغیرمالک کے نہیں ہیں دنیا میں رہنے والی ساری مخلوق اُسی کے قبضہ قدرت میں ہے اور وہ لامحدود اور وسیع تر طاقتوں کا مالک ہے اور وہ ہمیشہ دنیا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ زندگی اور موت، فنا اور بقا، اسی کے ہاتھ میں ہے۔ زمین کے تمام خزانے، ظاہری اور مخفی خزانے اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ پس جب اس طاقت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ میرے رسول کی جماعت غالب آئے گی تو دنیا کی کوئی طاقت اس فیصلہ پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ چاہے وہ بڑی طاقتیں ہوں یا دنیاوی حکومتیں ہوں یا نام نہاد دین کے علمبردار ہوں۔ خداتعالیٰ کے فیصلہ نے یقینا اور لازماً لاگو ہونا ہے۔ لیکن مومنوں کو شروع میں ہی یہ واضح کر دیا کہ یہ غلبہ اور یہ دائمی زندگی اور بقا یقینا ان لوگوں کو ملے گی جو تمام صفات کے جامع خد اپر یقین رکھتے ہوں اور اس کی عبادت کرنے والے ہوں۔ پس آج ہر ایک احمدی کی یہ ذمہ داری ہے جسے سمجھنا ہر ایک احمدی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
پھر فرمایا کہ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہُ اِلَّا بِِاِذْنِہٖ۔ کون ہے جو اس کے حضور سفارش کرے مگر اس کے اذن کے ساتھ۔ پس اللہ تعالیٰ کے حضور کسی کی سفارش کام نہیں آئے گی مگر صرف اسے جسے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا یا اذن دے گا۔ اور احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ کا اذن ہو گا تو آپؐ سفارش کریں گے۔
آپﷺ کے شفیع ہونے سے کیا مرادہے۔ اس بارہ میں مختلف حوالوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’ہاں سچا شفیع اور کامل شفیع آنحضرتﷺ ہیں جنہوں نے قوم کو بت پرستی اور ہر قسم کے فسق و فجور کی گندگیوں اور ناپاکیوں سے نکال کر اعلیٰ درجہ کی قوم بنا دیا۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 160 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس جب حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے آپﷺ شفاعت فرمائیں گے تو اس وقت ان لوگوں کی شفاعت ہو گی جو شرک سے پاک ہوں گے۔ ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہوں گے۔ فسق و فجور سے بچنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔ اور اگر چھوٹی چھوٹی کمزوریوں سے جو سرزد ہو بھی جاتی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ بھی آپؐ کی شفاعت سے صرف نظرفرمائے گا۔ (المعجم الاوسط جلد 6 صفحہ 90باب من اسمہ موسیٰ۔ دار الفکر عمان اردن 1999ء)
اس بات کو مزید کھول کر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے کہ:
’’یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہئے کہ شفاعت کوئی چیز نہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ شفاعت حق ہے اور اس پر یہ نص صریح ہے۔ وَصَلِّ عَلَیْہِمْ۔ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (التوبۃ: 103) یہ شفاعت کا فلسفہ ہے یعنی جو گناہوں میں نفسانیت کا جوش ہے وہ ٹھنڈا پڑ جاوے۔ شفاعت کا نتیجہ یہ بتایا ہے کہ گناہ کی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور نفسانی جوشوں اور جذبات میں ایک برودت آ جاتی ہے جس سے گناہوں کاصدور بند ہو کر ان کے بالمقابل نیکیاں شروع ہو جاتی ہیں‘‘۔ (یعنی نفسانی جوشوں میں اور جذبات میں کمی آ جاتی ہے، ان میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے جس سے گناہوں کا صادر ہونا یا عمل ہونا کم ہو جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں نیکیاں شروع ہو جاتی ہیں) ’’پس شفاعت کے مسئلے نے اعمال کو بیکار نہیں کیا بلکہ اعمال حسنہ کی تحریک کی ہے‘‘۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’پس شفاعت کے مسئلے نے اعمال کو بیکار نہیں کیا بلکہ اعمال حسنہ کی تحریک کی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 702-701 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس آنحضرتﷺ کی شفاعت اس دنیا میں ہی شروع ہو گئی تھی اور یہ نیک اعمال کے ساتھ مشروط ہے، نہ کسی کفّارہ سے اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ کفّارہ کے فلسفے میں گناہوں میں دلیری پیدا ہوتی ہے اور شفاعت کے فلسفے میں نیک اعمال کی طرف اور خدا کو ماننے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور اس زمانہ میں دعا کے ذریعہ سے شفاعت کا اذن اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کو عطا فرمایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’میری جماعت کے اکثر معزز خوب جانتے ہیں کہ میری شفاعت سے بعض مصائب اور امراض میں مبتلا اپنے دکھوں سے رہائی پا گئے ہیں۔‘‘ (لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 236)
لیکن اس شفاعت کے بیان کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ خداتعالیٰ جانتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔ پس ہمارا خدا عالم الغیب ہے۔ اس لئے ایسے لوگ جو کھلے گناہوں میں پڑے ہوئے ہیں ان کے بارہ میں نہ تو یہاں شفاعت کا اذن ہوتا ہے اور نہ اگلے جہان میں ہو گا۔ یہی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ اپنے علم کی وسعتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ۔ اس میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے علم کا احاطہ کوئی نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ آنحضرتﷺ بھی جو خداتعالیٰ کے محبوب ترین ہیں اور آپؐ کے بارہ میں مومنوں کو حکم ہے کہ اگر تم خداتعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو میرے محبوبﷺ کی پیروی کرو جن کو تمام علموں سے اللہ تعالیٰ نے بھر دیا تھا۔ آئندہ زمانوں کی جوبھی خبریں قرآن کریم نے دیں وہ آپ کے ذریعہ سے آئیں اور ان کا ادراک بھی آنحضرتﷺ کو اس وقت عطا فرمایا۔ بعض باتیں ایسی ہیں جو اس زمانے میں صحابہؓ سمجھ نہیں سکتے تھے لیکن آنحضرتﷺ ان کا بھی ادراک رکھتے تھے۔ لیکن فرمایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ مکمل علم نہیں ہے۔ بلکہ میرے علم کی وسعتوں کو کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ تلاش کرنے والوں کو چاہے روحانی مدارج اور علوم کی تلاش میں کوئی ہو یادنیاوی علوم کی تلاش میں کوئی ہو، نئے راستے دکھاتاہے، نئی منزلیں دکھاتا ہے۔ اور جب انسان وہاں پہنچتا ہے تو پھر مزید راستے نظر آتے ہیں۔ سائنس کی ترقی بھی اس بات کی دلیل ہے کہ خداتعالیٰ نئے سے نئے راستے ان جستجو کرنے والوں کو دکھاتا ہے اور کائنات کی وسعتوں کا تو شمار ہی نہیں ہے۔ اسی طرح روحانی مدارج ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا علم لامحدود ہے جس کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا۔ نہ صرف خداتعالیٰ کی ہستی کا احاطہ نہیں ہو سکتا بلکہ اس کائنات کی پیدائش کا بھی احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ خدا ہی ہے جب چاہتا ہے کچھ راز انسانوں پر ظاہر فرما دیتا ہے یا کچھ علم دے دیتا ہے اور یہ بات پھر انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف پھیرنے والا بنانے والی ہونی چاہئے جو تمام صفات کا جامع اور لامحدود ہے۔
پھر فرمایا وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْض کیونکہ اس کی بادشاہت زمین پر پھیلی ہوئی ہے اور آسمان پر پھیلی ہوئی ہے۔ وہ تمام کائنات کی اور جتنی بھی کائناتیں ہیں ان میں موجود ہر چیز کو زندگی دینے والا اور قائم رکھنے والا ہے۔ تمہارا علم محدودہے۔ وہی تمہیں علم دیتا ہے۔ جس حد تک استعدادوں نے ترقی کی ہے یا کوشش کی ہے اس حد تک علم دیتا ہے۔ لیکن یہ علم بھی صرف اس حد تک ہے جس حد تک خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔ اس لئے وہی اس بات کا حقدار ہے کہ اس کے آگے جھکو اور تمام باطل معبودوں کو چھوڑ دو۔ اسی کی حکومت زمین و آسمان تک پھیلی ہوئی ہے بلکہ اس نے اس کی حفاظت بھی اپنے ذمہ لی ہوئی ہے اور اس سے وہ تھکتا بھی نہیں۔ ہر چیز پر اس کی نظرہے اور یہ ایسا وسیع اور جامع نظام ہے کہ اس کا احاطہ انسان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نظر دوڑاؤ کہ شاید اللہ تعالیٰ کی پیدائش میں کوئی نقص تلاش کر سکولیکن ناکام ہوگے۔ تمہاری نظر واپس آجائے گی۔ پھر نظر دوڑاؤ پھر وہ تھکی ہوئی واپس آجائے گی۔ لیکن خداتعالیٰ وہ ذات ہے جو اس نظام کو چلا رہا ہے اور ازل سے چلا رہا ہے اور بغیر کسی اونگھ اور نیند کے اور بغیر کسی تھکاوٹ کے اسے چلا رہا ہے۔ پس کیا یہ باتیں تمہیں اس طرف توجہ نہیں دلاتیں کہ اس وسعتوں والے خدا کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دواور سرکشی میں نہ بڑھو۔
اور آخر میں فرمایا وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ کہ وہ بلند شان والا اور عظمت والاہے۔ اس سارے نظام کو چلانے کے لئے اسے کسی مدد گار کی ضرورت نہیں ہے۔
پس یہ خدا ہے جو اسلام کا خد اہے۔ تمام صفات کا مالک اور جامع ہے اور یقینا وہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ فہم و ادراک عطا فرمائے جس سے ہم اپنے اللہ کی پہچان کرتے ہوئے ہمیشہ اس کے سامنے جھکے رہنے والے، اس کی عبادت کرنے والے بنے رہیں اور اسے تمام صفات کا جامع سمجھتے ہوئے اس کی صفات کے کمال سے فیض اٹھانے والے بنے رہیں۔ مَیں جمعہ کے بعد جنازے بھی پڑھاؤں گا، کچھ افسوسناک خبریں ہیں۔ پہلا جنازہ جو ہو گا وہ تو مکرم میاں لئیق احمد طارقؔ صاحب ابن مکرم یعقوب احمد صاحب فیصل آباد کا ہے جن کو 28مئی کو شرپسندوں نے اپنی دکان سے گھر آتے ہوئے شہید کر دیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے ماتھے اور پیٹ پر گولیاں لگیں۔ رات کو ہسپتال میں لے کر گئے لیکن بہرحال جانبر نہیں ہو سکے اور شہادت کا رتبہ پایا۔ ان کی عمر 54 سال تھی۔ یہ اپنے گھر کے سامنے ہی آ رہے تھے۔ ان کا بیٹاپہلے ہی موٹر سائیکل پر گھر میں آ گیا تھا۔ اس نے دیکھا کہ دو تین آدمی گھر کے سامنے کھڑے ہیں۔ ان کو دیکھ کے بیٹے نے فون کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پیچھے کار میں آ رہے تھے۔ جلدی پہنچ گئے اور ایک جگہ سپیڈ بریکر پر جب کار ہلکی کی تو وہیں ان بدبختوں نے فائر کیا۔ ان کے ماتھے پہ گولی لگی اور پھر قریب جاکے اور فائر کئے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر جمیل عطا فرمائے۔ آپ موصی تھے اور آپ کے والد کے پڑدادا بھی حضرت فضل الٰہی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے۔ جماعت کی خدمات کرتے ہوئے مختلف عہدوں پر خدمات کا موقع ملا۔ بڑے محبت کرنے والے تھے۔ آپ کے پسماندگان میں آپ کی والدہ ہیں، 78سال کی بوڑھی ہیں اور اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ آپ کے ایک بھائی یہاں رہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی وفات کا سن کے جب انہوں نے والدہ کو فون کیا تو یہ تو اپنے جذبات پہ کنٹرول نہیں رکھ رہے تھے لیکن والدہ نے ان کو تسلی دلائی کہ تم کو جذباتی ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ مجھے تو بڑا فخر ہے کہ مَیں شہید کی ماں بن گئی ہوں۔ تویہ مائیں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر جن کے وہ نمونے ہمیں نظر آتے ہیں جو قرون اولیٰ میں نظر آتے تھے۔
دوسرا جنازہ غلام مصطفی صاحب اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس (A.S.I.) کا ہے جن کی عمر 49سال تھی۔ پچھلے دنوں لاہور میں جس بلڈنگ میں بم دھماکہ ہوا ہے اس میں وہاں ان کی بھی شہادت ہوئی۔
پھر ایک جنازہ ہے ممتاز بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم نثار احمدصاحب آف چنائی انڈیا کا۔ یہ بیمارہوئیں اور 30مئی کو وفات پا گئی تھیں۔ ان کی ایک 8سالہ چھوٹی بچی ہے۔ یہاں جماعت کی مخالفت بڑے زوروں پر ہے۔ ہندوستان میں اس جگہ سینٹ تھا مس ماؤنٹ میں مسلمانوں کا ایک قبرستان ہے۔ گزشتہ 30سال سے احمدی وہاں جنازوں کی تدفین کر رہے تھے۔ جب مرحومہ کی تدفین کے لئے وہاں گئے تو اچانک ارد گرد سے مسلمان مولوی اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ مسلمانوں کا قبرستان ہے۔ یہاں ہم اس کی تدفین نہیں کرنے دیں گے۔ خیر ان کی تدفین تو ہو گئی۔ احمدی واپس آ گئے تو کچھ دیر کے بعد مزید لوگ اکٹھے ہو کے وہاں گئے اور انہوں نے قبر کھود کر نعش کو باہر نکال کر رکھ دیا۔ پولیس وہاں موجود رہی لیکن کہا کہ ہم تو مولویوں کے آگے کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ ان مولویوں نے، جو دین کے علمبردار بنے پھرتے ہیں ہرجگہ اسلام کے نام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ صف اوّل کے ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے بارہ میں علماء سُوء کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ بہرحال پھر پولیس نے دوبارہ ان کو دوسرے قبرستان میں دفنا دیا۔ ان کا بھی جنازہ پڑھاؤں گا۔
پھر ایک جنازہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب مرحوم کھاریاں کاہے۔ یہ ہمارے مبلغ چوہدری منیر احمد صاحب جو امریکہ میں ہیں، ایم ٹی اے کاارتھ سٹیشن چلاتے ہیں ان کی والدہ ہیں۔ ان کی گزشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ ان کے خاوند مرچنٹ نیوی میں تھے اور نیوی کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ نیوی میں جہاز میں جہاں بھی جاتے تھے احمدیت کی تبلیغ بہت شوق سے کیا کرتے تھے بلکہ بے تحاشا جماعت کا لٹریچررکھا ہوتا تھا اور انہوں نے کئی جگہ جماعتیں بھی قائم کیں۔ یہ ان کی اہلیہ تھیں۔ چوتھا جنازہ جعفر احمد خان کا ہے جو نواب عباس احمد خان صاحب مرحوم کے بیٹے تھے۔ یہ جسمانی لحاظ سے تو معذور تھے لیکن دماغی لحاظ سے بڑے ایکٹو (Active) تھے۔ موصی بھی تھے اور میرے پھوپھی زاد تھے۔ حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے پوتے اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے نواسے تھے۔
اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان سب مرحومین سے بھی۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔ ابھی نمازجمعہ کے بعدنماز جنازہ غائب ادا کی جائے گی۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 26 مورخہ 26 جون تا 2 جولائی 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
رات کو سورۃ البقرۃ کی دس آیات پڑھ کر سونے والے کے گھر میں شیطان کے نہ آنے سے مراد۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ کی دعا کا ذکر۔ حضرت مسیح موعودؑ کے غلبہ کا ذکر۔ یہ غلبہ صرف انہیں ملے گا جو تمام صفات کے جامع خدا پر یقین رکھتے ہوں۔ شفاعت اور آنحضرتﷺ کے شفیع ہونے کی حقیقت ارشادات حضرت مسیح موعودؑ کی روشنی میں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی شفاعت سے بیماروں کا شفا پانا۔ سائنس کی ترقی اور کائنات کی وسعت سے خدا کے لامحدود علم رکھنے کا ثبوت۔
فرمودہ مورخہ 05؍جون 2009ء بمطابق05؍احسان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔